Tumgik
#برطانیہ
urduchronicle · 4 months
Text
امریکا اور برطانیہ کے یمن کی بندرگاہ پر فضائی حملے
حوثیوں کے المسیرہ ٹیلی ویژن نے ہفتے کے روز کہا کہ امریکہ اور برطانیہ نے یمن کے تیل برآمد کرنے والے اہم ٹرمینل راس عیسیٰ کی بندرگاہ کو نشانہ بنانے والے دو فضائی حملے کیے ہیں۔ مزید تفصیلات فوری طور پر دستیاب نہیں تھیں۔ یہ فضائی حملے ایسے وقت میں کیے گئے جب یمن کے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر حملے تیز کر دیے ہیں، جس میں جمعہ کے روز ایک آئل ٹینکر کو آگ لگنے کا واقعہ بھی شامل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 1 year
Text
برطانیہ کے وزیر اعظم سنک نے اشارہ دیا کہ وہ نرسوں کی تنخواہوں میں اضافے پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ صحت کی خبریں۔
برطانیہ کے وزیر اعظم سنک نے اشارہ دیا کہ وہ نرسوں کی تنخواہوں میں اضافے پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ صحت کی خبریں۔
اجرتوں پر عوامی شعبے کی ہڑتالوں کی لہر کے درمیان رشی سنک صحت کی دیکھ بھال کے عملے کو اجرت کی پیشکش کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ میں ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے کہا ہے کہ وہ دہائیوں میں صنعتی تنازعات کی سب سے بڑی لہر کو ختم کرنے کی کوشش میں پبلک سیکٹر ٹریڈ یونین کے رہنماؤں سے ملاقات سے قبل نرسوں کی تنخواہوں میں اضافے پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم کی نیشنل ہیلتھ سروس (NHS)، جو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے برطانیہ کے وزیر لارڈ طارق احمد کی ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال
وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے برطانیہ کے وزیر لارڈ طارق احمد کی ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال
نیویارک(نمائندہ عکس ) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے برطانیہ کے وزیر مملکت برائے خارجہ لارڈ طارق احمد نے ملاقات کی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے برطانیہ کے وزیر مملکت برائے خارجہ، دولت مشترکہ اور ڈویلپمنٹ آفس لارڈ طارق احمد آف ومبلڈن نے نیویارک میں ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ لارڈ طارق احمد برطانوی وزیر اعظم کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
برطانیہ، سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کی موجودگی، حکام کی دوڑیں لگ گئیں
برطانیہ، سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کی موجودگی، حکام کی دوڑیں لگ گئیں
لندن میں سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔جس کے بعد برطانوی حکومت نے قومی سطح پر ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی دارالحکومت لندن میں سیوریج کے پانی میں پولیو کے زندہ وائرس پائے گئے ہیں تاہم، عوام میں وائرس پھیلنے کا خطرہ کم ہے،اس کے باوجود محکمہ صحت نے عوام سے ویکسینیشن کرانے کی اپیل کی۔ اس حوالے سے یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 2 years
Text
مہنگائی کو روکنے کے لیے برطانیہ میں مسلسل 5 ویں بار شرح سود میں اضافہ
مہنگائی کو روکنے کے لیے برطانیہ میں مسلسل 5 ویں بار شرح سود میں اضافہ
لندن: (ویب ڈیسک) برطانیہ میں مہنگائی کی روک تھام کے لیے شرح سود میں مسلسل 5 ویں بار اضافہ کردیا گیا ہے۔ بینک آف انگلینڈ کی جانب سے شرح سود کو ایک فیصد سے بڑھا کر 1.25 فیصد کردیا گیا ہے جو 13 سال میں سب سے بلند سطح ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے سے مہنگائی نے عوام کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی کی شرح 9 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو 40 سال…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nuktaguidance · 2 months
Link
0 notes
forgottengenius · 3 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
amiasfitaccw · 2 months
Text
متعہ کے بعد چدائی
ہیلو دوستو کیسے ہیں سب امید کرتا ہوں سب خیریت سے ہوں گے اور میری کہانیاں بھائیوں کے لن اور بہنوں کی چوت میں گرمی پیدا کرتی ہوں گی.
میرا نام یاسر ہے اور میں راولپنڈی کا رہنے والا ہوں. دوستوں کچھ ماہ پہلے میری فیس بک پر ایک عورت سے بات شروع ہوئی جسکا نام زہرہ حیدر علی تھا اور وہ لندن میں مقیم تھی. زہرہ حیدر علی بنیادی طور پر شعیہ خاندان سے سے تھی اور ایک عالمہ تھی مجالس وغیرہ بھی پڑھا کرتی تھی. میں بھی چونکہ شعیہ فیملی سے ہوں تو میری زہرہ سے اچھی گپ شپ ہوگی. زہرہ کی عمر 45 سال تھی اور اسکے دو بیٹے تھے دونوں شادی شدہ تھے اور الگ رہتے تھے.
Tumblr media
زہرہ کا شوہر 15 سال پہلے انتقال کر چکا تھا. زہرہ بنیادی طور پر تنزانیہ کی رہنے والی تھی. کچھ وقت تک میں اور زہرہ ایسے ہی مذہبی بات چیت کرتے رہے پھر ہماری اچھی دوستی ہوگئی اور ہم آپس میں بہت قریب ہوگے تھے. میں نے زہرہ کو ایک دن کہا مجھے تم پسند ہو کاش میں تم سے شادی کر سکتا تو وہ مجھ پر ہنس پڑی اور بولی میں بوڑھی عورت ہوں اب تم کوئی جوان دیکھو اور اس سے شادی کرو لیکن میں نے کہا نہیں مجھے تو بڑی عمر کی عورتیں زیادہ پسند ہیں.
Tumblr media
میں نے زیرہ سے کہا مجھے تم سے متعہ کرنا ہے. پہلے تو زہرہ بے منع کیا پھر مان گی اور ہم نے فون چھ ماہ کا متعہ کر لیا اور اب زہرہ چھ ماہ کے لیے میری بیوی تھی. میں نے اور زہرہ نے فون سیکس شروع کر دیا اور زہرہ ویڈیو پر ننگی ہو کر آتی تھی کیونکہ اب وہ میری بیوی تھی. پھر زہرہ نے مجھے کہا اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا تم لندن آجاؤ میں سپانسر بھیج رہی ہوں وزٹ ویزہ اپلائ کرو اور یہاں آجاؤ میری پھدی کو سکون دو. کچھ دن بعد زہرہ نے سپانسر بھیجا اور میں نے ویزا اپلائ کیا اور دس دن بعد میرا برطانیہ کا چھ ماہ کا ویزہ لگا گیا. میں نے ٹکٹ کی اور فلائیٹ لے کر لندن روانہ ہو گیا. لندن ائرپورٹ پر مجھے ایک کالی چادر میں لپٹی عورت نے استقبال کیا جو میری بیوی زہرہ تھی جسکو حقیقت میں دیکھ کر میں مچل گیا. زہرہ عمر کی زیادہ ضرور تھی مگر اس نے اپنے آپ کو اپنے جسم کو بہت سنبھالا ہوا تھا. وہ بہت سیکسی لگ رہی تھی. ہم دونوں گھر آگے اور اس وقت شام کے 4 بج رہے تھے مجھے کافی بھوک لگی ہوئی تھی زہرہ کے کھانا لگایا اور میں کھانا کھا کر سو گیا. شام کو اٹھا کافی پی کھانا کھایا اور میں اور زہرہ باتیں کرنے لگے. زہرہ کا گھر بڑا نہیں تھا مگر اچھا تھا وہ اکیکی رہتی تھی اور اسکے لیے گھر کافی تھا. پھر میں اور زہرہ بستر پر آگے زہرہ نے کپڑے تبدیل کیے اور میرے پاس اگئ میں نے زہرہ کو اپنے ہونٹوں کے قریب کیا اور ہونٹ چومنے لگا، زہرہ کا رنگ سانولا تھا اور زہرہ کے ممے 38 سائز کے تھے گانڈ بھی کافی بڑی تھی. زہرہ اب مجھے ہونٹوں کو چوستے ہوئے کاٹ رہی تھی. میں نے زہرہ کے مموں کو دبانا شروع کیا اور زہرہ مزے میں سسکیاں لے کر میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی.
Tumblr media
پھر زہرہ نے میرے لن پر ہاتھ رکھ دیا اور میرے لن کو مسلنے لگی میں نے زہرہ کی قمیض اتار دی اور اس نے کالا رنگ کا برا پہنا ہوا تھا میں نے زہرہ کا برا اتار دیا اور اسکے بڑے ممے میرے سامنے آزاد تھے. اب میں نے زہرہ کی شلوار کو ہاتھ ڈالا اور زہرہ کی شلوار اتار دی اب زہرہ کی پھدی جو بالوں سے بلکل صاف تھی میرے سامنے تھی. زہرہ نے فوراً میری قمیض اتاری اور میرا پاجامہ بھی اتار دیا اور میرے لن کو پکڑ کر چوسنے لگی. زہرہ زور زور سے میرے لن کو چوسے جا رہی تھی اور میں مزے کی بلندیوں کو چھو رہا تھا. زہرہ گزشتہ 15 منٹ سے میرا لن چوس رہی تھی مگر اس نے میرے لن کو چوسنا نہیں چھوڑا آف کیا مست لوڑا چوس رہی تھی. میں نے زہرہ کو کہا آہستہ چوسو میری منی نکل جائے گی تو زہرہ بولی نکال دو پرواہ نہیں ہے تم میرے شوہر ہو اور تمہاری منی مجھ پر حلال ہے. زہرہ کی باتیں سن کر مجھے جوش آگیا اور زہرہ زور زور سے لن چوس رہی تھی اچانک میرے لن سے منی کی پچکاری زہرہ کے منہ کے اندر نکلنے لگی مگر زہرہ نے لن چوسنا نہیں چھوڑا اور میری ساری منی زہرہ چاٹ کر نگل گئ اور میرے لن کو زہرہ نے چاٹ چاٹ کر صاف کیا.
Tumblr media
اب زہرہ نے مجھے کہا یاسر میری پھدی کو چاٹو تسلی کے ساتھ چاٹنا کوئی جلدی نہیں ہے. میں نے زہرہ کے ٹانگوں کے درمیان اپنا منہ رکھا اور ہونٹ زہرہ کی پھدی کے سوراخ پر رکھ دیے. زہرہ نے ٹانگیں مزید پھیلا دی اور میں نے زہرہ کی پھدی کو زبان سے چاٹنا شروع کیا اور پھ�� زبان زہرہ کی پھدی میں داخل کر دی. زہرہ کی پھدی میں 20 منٹ سے مسلسل چاٹ رہا تھا اور زہرہ کی چوت نے 2 بار پانی میرے منہ میں چھوڑ دیا تھا جسے میں نے نگل لیا. زہرہ کا ہاتھ میرے سر پر تھا اور میرے سر کو اپنی پھدی میں دبا رہی تھی اور میں زہرہ کی پھدی کو چوس رہا تھا. زہرہ کی پھدی بہت گرم اور بہت جوسی تھی.
Tumblr media
اب زہرہ نے مجھے کہا اب میری پھدی کو چودو یاسر اور ساتھ ہی زہرہ نے اپنی ٹانگیں میری کندھے پر رکھ دی اور میرے لن کو اپنی نرم گداز چوت کے سوراخ پر رکھ کر نیچے سے چوت اٹھا کر دھکا مارا تو میرے لن کا ٹوپا زہرہ کی چوت میں گھس گیا اب میں نے ایک جھٹکا مارا تو لن پورا زہرہ کی پھدی میں گھس گیا تھا.اب میں نے زہرہ کی چوت کو چودنا شروع کر دیا اور زور زور سے زہرہ کی پھدی مارنے لگا. زہرہ ہر جھٹکے کا جواب اپنی چوت اٹھا کر دے رہی تھی پھر زہرہ نے مجھے نیچے لیٹنے کا کہا اور بولی مجھے یاسر تیرے لن پر چوت مارنی ہے. میں نے زہرہ کو کہا آجاو اور میں لیٹ گیا زہرہ نے میرے ہونٹوں پر پھدی رکھی اور بولی چاٹو میں نے چاٹنا شروع کیا اور 3 منٹ کے بعد زہرہ نے پھدی میرے لن پر رکھ دی اور میرے لن پر بیٹھ کر چوت میرے لن پر مارنے لگی زہرہ کی گانڈ پر میرے ہاتھ تھے اور میں زہرہ کے ممے دبا رہا تھا ساتھ زہرہ کے ممے جوس رہا تھا. اب زہرہ کو میں نے کہا چل گھوڑی بن جا تو زہرہ گھوڑی بن گئ میں زہرہ کی پھدی پر چڑھ گیا اور چودنے لگا اب میں پورے جوش میں تھا زہرہ کی چوت چود رہا تھا اچانک میرے لن نے منی چھوڑ دی زہرہ کی پھدی میں اور زہرہ کی پھدی نے بھی پانی چھوڑ دیا ہم دونوں ایک ساتھ فارغ ہو گئے. زہرہ بہت خوش تھی. اس رات میں نے زہرہ کو 6 بار چودا مختلف پوز کے ساتھ زہرہ کی پھدی ماری.
Tumblr media
کچھ دن کے بعد زہرہ کے بیٹے نے مجھے اپنے گھر دیکھا تو اسکو پتہ چلا کہ اسکی ماں زہرہ میرے ساتھ نکاح متعہ کر کہ چدوا رہی ہے. میں نے زہرہ کو کہا اپنے بیٹے کو بھیج میں نے تجھے چودنا ہے بیوی ہے تو میری تو زہرہ کے بیٹے نے یہ سن لیا اورجب تک میں لندن رہا گھر نہیں آیا. زہرہ دن کو مجلس پڑھنے جاتی تھی اور رات کو مجھ سے جی بھر کر چوت چدواتی تھی. یہ اسکا پہلا متعہ نہیں تھا وہ ایران عراق میں بہت سے مردوں سے متعہ کر کہ چدوا چکی تھی جن میں زیادہ عالم تھے. اب زہرہ کی میں گانڈ اور پھدی دونوں چودتا تھا. میں نے سوچا نہ تھا ایک عالمہ زاکرہ اتنی شوقین ہو گئی چدائی کروانے کی. چھ ماہ مسلسل زہرہ کی پھدی مارنے کے بعد میں پاکستان واپس آگیا لیکن زہرہ کی پھدی اب بھی مس کرتا ہوں.
///the end///
Tumblr media
3 notes · View notes
risingpakistan · 6 months
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
Tumblr media
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں ​​نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔  وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
Tumblr media
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔  اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔ 
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔ 
بارعہ علم الدین  
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
urduchronicle · 4 months
Text
یمن کے حوثی گروپ کا امریکی حملوں کے مؤثر جواب کا اعلان، خطے میں کشیدگی پھیلنے کے خطرات
 امریکہ نے یمن میں اور حملہ کیا ہے، حوثی ملیشیا نے “مضبوط اور موثر جواب” کی دھمکی دی ہے،جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں نے حماس اور اسرائیل جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ میں پھیلنے والے تنازع میں اضافے کے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے، ایران کے اتحادی لبنان، شام اور عراق بھی میدان میں اترے ہیں۔ صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ نے حوثیوں کے حملوں کے بارے میں ایران کو نجی پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
برطانیہ کی حکومت نے سیلاب زدگان کے لیے مزید 15 ملین پاؤنڈ کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔
برطانیہ کی حکومت نے سیلاب زدگان کے لیے مزید 15 ملین پاؤنڈ کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔
برطانیہ کی حکومت نے سیلاب زدگان کے لیے مزید 15 ملین پاؤنڈ کی جان بچانے والی امداد کا اعلان کیا ہے، جس کی کل رقم 16.5 ملین پاؤنڈ تک ہے۔ ٹویٹر اسلام آباد: پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر کے مطابق، تباہ کن سیلاب کے بعد جس میں 1,186 افراد ہلاک ہوئے اور ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا، برطانیہ نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے جان بچانے والی امداد کے لیے اضافی 15 ملین پاؤنڈ کا اعلان کیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
وزیر اعظم شہباز شریف برطانیہ سے وطن واپس پہنچ گئے
وزیر اعظم شہباز شریف برطانیہ سے وطن واپس پہنچ گئے
اسلام آباد(نمائندہ عکس ) وزیر اعظم شہباز شریف لندن سے وطن واپس پہنچ گئے۔ وزیراعظم شہباز شریف کوپ کانفرنس میں شرکت کے لیے مصر کے شہر شرم الشیخ گئے تھے جہاں سے وہ لندن روانہ ہو گئے تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے لندن میں مسلم لیگ(ن)کے قائد نواز شریف سے اہم ملاقات کی جس میں ملک کے سیاسی اور دیگر معاملات پر مشاورت کی گئی۔ یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف گزشتہ روز وطن واپسی کے لیے ائیرپورٹ پہنچے تھے تاہم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
onlyurdunovels · 2 years
Text
پراسرار دروازہ ۔۔۔ ایک واقعہ جس نے برطانیہ کی تاریخ کو بدل دیا !! ( ستونت کور )
پراسرار دروازہ ۔۔۔ ایک واقعہ جس نے برطانیہ کی تاریخ کو بدل دیا !! ( ستونت کور )
1953,برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے ایک پسماندہ علاقے ” ٹین رلنگٹن پلیس” میں واقعہ ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کی پہلی منزل پر موجود ایک اپارٹمنٹ کے خالی ہو جانے کے بعد ، مالک مکان نے بالائی منزل پر مقیم ایک کرایہ دار ‘بریس فورڈ براؤن ‘ کی درخواست پر اسے تازہ خالی شدہ زیریں اپارٹمنٹ میں منتقل ہونے کی اجازت دے دی ۔۔۔۔ چنانچہ براؤن نے اس نئے اپارٹمنٹ میں منتقلی کے کام کا آغاز کردیا ، اس سے پہلے کہ وہ اپنا…
Tumblr media
View On WordPress
8 notes · View notes
globalknock · 2 years
Text
برطانیہ؛ پاکستانی نژاد تفہین شریف پہلی مسلم خاتون ڈپٹی میئر بن گئیں
برطانیہ؛ پاکستانی نژاد تفہین شریف پہلی مسلم خاتون ڈپٹی میئر بن گئیں
لندن: پاکستانی نژاد تفہین شریف برطانیہ کے علاقے ٹیمسائیڈ کی پہلی ایشیائی مسلم خاتون ڈپٹی میئر منتخب ہوگئیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی تفہین شریف برطانیہ کے شہر ٹیمسائیڈ کی ڈپٹی میئر منتخب ہوگئی ہیں۔ تفہین شریف کو 2012 میں سب سے کم عمر نوجوان کونسلر کا اعزاز بھی ملا تھا۔ زمانہ طالب علمی سے سیاست میں حصہ لینے والی تفہین شریف ٹیمسائیڈ سے منتخب ہونے والی پہلی مسلم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 6 hours
Text
سانحہ 9 مئی کے ذمہ داران کیساتھ کوئی کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے، پی پی رہنما
0 notes
emergingpakistan · 18 days
Text
نسل کشی میں اسرائیل کے شراکت دار ممالک
Tumblr media
امریکا کے سینئر ترین جنرل اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل چارلس براؤن کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسرائیل کی بھرپور فوجی امداد جاری رہے گی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسرائیل کی ہر عسکری فرمائش پوری ہو سکے۔ ایسی صورت میں خود ہماری فوجی تیاری اور صلاحیتوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جنرل صاحب کے اس بیان کا کیا مطلب ہے ؟ مگر پوری دنیا کو معلوم ہے کہ جہاں امریکی کانگریس اسرائیل کی ہر فرمائش کی حمائیت میں فولادی دیوار بن کے کھڑی ہے۔ وہاں سینیٹ کی اکثریتی ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی لیڈر چک شومر جیسے روائیتی اسرائیل نواز سیاست دان کی جانب سے اسرائیل کی نسل کش غزہ پالیسی کی مخالفت اور اسرائیل کی فوجی امداد پر شرائط عائد کرنے کا مطالبہ سوائے ذرا دیر کے لیے ایک خوشگوار حیرت پیدا کرنے کے سوا کوئی تیر نہیں مار سکتا۔ اگرچہ امریکی قوانین کے تحت کسی بھی ملک کو غیر مشروط طور پر اسلحہ فروخت نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ تحریری طور پر ضمانت نہ دے کہ یہ اسلحہ کن حالات میں اور کن ممکنہ دشمنوں کے خلاف استعمال ہو گا اور کسی ایسے مشن میں استعمال نہیں ہوگا جس سے مروجہ بین الاقوامی جنگی قوانین کے انسانی پہلوؤں کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت نہتے شہریوں اور سویلین املاک کے خلاف اس اسلحے کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ استعمال سے پہلے عام شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا لازمی ہے۔
مگر امریکی محکمہ دفاع اور خارجہ کے سینئیر اہلکار نجی طور پر اعتراف کرتے ہیں کہ سات اکتوبر کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ نے ایسا کوئی ریویو نہیں کیا جس سے معلوم ہو سکے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امریکی اسلحے کا استعمال بین الاقوامی اور امریکی قوانین کی حدود میں ہے یا ان حدود سے تجاوز کیا جا چکا ہے۔ ایسی صورت میں اسرائیل کو امریکی اسلحے کی فراہمی فوری طور پر روکنا یا محدود کرنا پڑے گی۔ چنانچہ نہ تو کانگریس کی جانب سے ایسے کسی ریویو کا اب تک مطالبہ کیا گیا ہے اور نہ ہی بائیڈن انتظامیہ اس ’’ مشکل ‘‘ وقت میں اسرائیل کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہتی ہے۔ الٹا اسرائیل کے لیے چودہ ارب ڈالر کی ہنگامی فوجی امداد کا پیکیج کانگریس کے زیرِ غور ہے۔ جب کہ بائیڈن انتظامیہ ایمرجنسی اختیارات کے تحت سو سو ملین ڈالر کے ٹکڑوں میں مسلسل اسرائیل کو انسان کش اسلحہ پہنچا رہی ہے۔ اتنی مالیت کا اسلحہ کسی امریکی اتحادی کو بیچنے کے لیے کانگریس کی پیشگی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اور بائیڈن انتظامیہ اس قانونی چور دروازے کو بھرپور طریقے سے اسرائیلی اسلحہ خانے کو تازہ دم رکھنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
Tumblr media
اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( سپری ) کے مطابق امریکا اسرائیل کی اڑسٹھ فیصد فوجی ضروریات پوری کرتا ہے۔ سالانہ چار ارب ڈالر دفاعی گرانٹ کی مد میں دیے جاتے ہیں اور جو اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے اس کی قیمت اسی امریکی گرانٹ سے منہا ہو جاتی ہے۔ گویا اسرائیل کو بیشتر امریکی اسلحہ مفت میں پڑتا ہے۔ اس میں ایم سولہ ساخت کی اسالٹ رائفل سے لے کر ایف تھرٹی فائیوا سٹیلتھ طیاروں اور نام نہاد اسمارٹ بموں سمیت سب ہی کچھ شامل ہے جو اس وقت غزہ پر مسلسل آزمایا جا رہا ہے۔ امریکا نے اسرائیل م��ں اپنی ضروریات کے لیے بھی اسلحہ خانہ بنا رکھا ہے۔ اس اسلحہ خانے سے اسرائیل بھی اپنی ہنگامی ضروریات کے لیے ہتھیار نکلوا سکتا ہے۔ یہیں سے یوکرین کو بھی امریکی ہتھیار بھیجے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکا اسرائیل کو میزائیل حملوں سے محفوظ رکھنے والی آئرن ڈوم چھتری کے لیے بھی ٹیکنالوجی اور اینٹی میزائیل سسٹم فراہم کرتا ہے۔ اسرائیل کو ایف پینتیس طیاروں کی جو کھیپ فراہم کی گئی ہے۔ اس کے لیے فاضل پرزے اور اضافی آلات نیدر لینڈز اور برطانیہ میں قائم امریکی عسکری گوداموں سے سپلائی کیے جاتے ہیں۔ فی الحال ایک ڈچ عدالت نے حکومتِ ہالینڈ پر اضافی سامان فراہم کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
عدالت کو ’’ شبہہ ‘‘ ہے کہ ایف پینتیس طیارے فوجی اہداف کے ساتھ ساتھ شہری اہداف کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ مگر ڈچ حکومت نے اس عدالتی حکم سے بچنے کا یہ راستہ نکالا ہے کہ ایف پینتیس کے آلات کسی تیسرے یورپی ملک کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ وہاں سے یہ آلات باآسانی اسرائیل کو تھما دیے جاتے ہیں تاکہ نسل کشی کے کام میں اسرائیل کا ہاتھ رکنے نہ پائے۔ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک جرمنی ہے۔ جو چوبیس فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ دو ہزار بائیس میں اسرائیل کو جتنا جرمن اسلحہ فروخت ہوا۔ دو ہزار تئیس میں اس سے دس گنا زائد اسلحہ دیا گیا۔ جرمنی دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں سے بہیمانہ سلوک کے جس احساسِ جرم میں مسلسل مبتلا ہے، وہ اس کے ازالے کے لیے اسرائیل کی ہر فرمائش پوری کرنے کا اپنے تئیں پابند ہے تاکہ فلسطینی خون سے اسرائیل کی پیاس بجھ سکے اور اسرائیل وقتاً فوقتاً جرمنی کو اس کا ماضی نہ یاد دلائے۔ برطانیہ اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ وہ اسرائیلی کی پندرہ فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ 
برطانیہ نے ہی اسرائیل کو تاریخی طور پر جنم دینے کی راہ ہموار کی تھی۔ لہٰذا دونوں ممالک کے تعلقات کوئی عام سا سفارتی بندھن نہیں بلکہ باپ بیٹے والا تعلق ہے۔ اٹلی نے پچھلے پانچ ماہ میں اسرائیل کو تئیس لاکھ ڈالر کے دفاعی آلات فراہم کیے۔ مگر کچھ ممالک نے اسرائیل کی فوجی امداد روک دی ہے۔ مثلاً کینیڈا اسرائیل کو سالانہ چار بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ فی الحال اس نے نئے سودے روک دیے ہیں۔ جاپان کی اٹوچو کارپوریشن نے اسرائیل کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی ایل بیت کے ساتھ شراکت داری منجمد کر دی ہے۔ فروری میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے اسرائیل کے خلاف جزوی فیصلے کی روشنی میں اسپین نے اسرائیل کے لیے اسلحے کی برآمد کے لائسنس معطل کر دیے ہیں۔ بلجئیم نے بارود کی برآمد معطل کر دی ہے۔ اگرچہ یہ پابندیاں بے نظیر اور خوش آیند ہیں۔ مگر تمام سرکردہ تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ امریکی تادیبی پابندیوں کے بغیر اسرائیل کو من مانی سے روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکا چاہے تو آج رات جنگ رک سکتی ہے۔ مگر امریکا اس نسل کشی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ راز فی الحال یا بائیڈن جانتا ہے یا پھر خدا۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes