Tumgik
#پراسرار دروازہ
onlyurdunovels · 2 years
Text
پراسرار دروازہ ۔۔۔ ایک واقعہ جس نے برطانیہ کی تاریخ کو بدل دیا !! ( ستونت کور )
پراسرار دروازہ ۔۔۔ ایک واقعہ جس نے برطانیہ کی تاریخ کو بدل دیا !! ( ستونت کور )
1953,برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے ایک پسماندہ علاقے ” ٹین رلنگٹن پلیس” میں واقعہ ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کی پہلی منزل پر موجود ایک اپارٹمنٹ کے خالی ہو جانے کے بعد ، مالک مکان نے بالائی منزل پر مقیم ایک کرایہ دار ‘بریس فورڈ براؤن ‘ کی درخواست پر اسے تازہ خالی شدہ زیریں اپارٹمنٹ میں منتقل ہونے کی اجازت دے دی ۔۔۔۔ چنانچہ براؤن نے اس نئے اپارٹمنٹ میں منتقلی کے کام کا آغاز کردیا ، اس سے پہلے کہ وہ اپنا…
Tumblr media
View On WordPress
8 notes · View notes
warraichh · 2 years
Text
*دنیا کے چند انجانے پراسرار مقامات*
برمودہ ٹرائینگل سے تو ہر کوئی واقف ہے جس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ پراسرار مقامات میں کیا جاتا ہے اور کتابوں میں سب سے زیادہ ذکر بھی اسی کے بارے میں ملتا ہے، جس کے بارے ایک تفصیلی مضمون میں جلد لا رھا ھوں۔
لیکن عجیب بات یہ ہے دنیا کے دیگر پراسرار مقامات کے بارے میں کم ہی بات کی جاتی ہے۔ جی ہاں دنیا میں کئی اور پراسرار مقامات بھی ایسے موجود ہیں جو سائنسدانوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آج ہم اپنے دوستوں کو دنیا کے دیگر کچھ پراسرار مقامات کے بارے میں بتائیں گے
جھیل انجیکونی
کینیڈا کی اس جھیل کو بھی ایک پراسرار مقام قرار دیا جاتا ہے جس کی وجہ 1930 میں رونما ہونے والا ایک عجیب و غریب واقعہ ہے اس جھیل کے کنارے ایک گاؤں آباد ہوا کرتا تھا جس کے تمام باشندے 1930 میں اچانک راتوں رات کہیں غائب ہوگئے اور آج تک ان کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان باشندوں کے گھر اور سامان اپنی جگہ پر ایسے ہی موجود تھا جیسے کہ یہ لوگ ابھی واپس آئیں گے۔ اور اپنے سامان کو کام میں لائیں گے۔ لیکن ایسا کبھی نہ ہوسکا۔ اور ان افراد کا کوئی پتہ نہ چل سکا کہ یہ لوگ آخر کہاں غائب ہوگئے۔
بیگلا رانچ
یہ علاقہ Bigelow Ranch امریکہ میں واقع ہے اور گزشتہ چند سالوں سے یہاں عجیب اور پراسرار واقعات رونما ہورہے ہیں کبھی لوگوں کو یہاں جانوروں کے کٹے اعضاء دکھائی دیتے ہیں تو کبھی آسمان پر پراسرار چیزیں نظر آتی ہیں۔ اب اس مقام کو نیشنل انسٹیٹیوٹ فور ڈسکوری سائنس کے Robert Bigelow نے خرید لیا ہے اس علاقے کے سابقہ مالک نے یہ مقام انہی واقعات سے خوفزدہ ہو کر فروخت کیا تھا۔
خوشگوار مقام
Point Pleasant
مغربی ورجینیا کے اس مقام پر رہنے والی آبادی ماضی میں اکثر شکایت کرتی نظر آتی تھی کہ انہیں یہاں ایک پراسرار مخلوق دکھائی دیتی ہے ان رہائشیوں کے مطابق اس مخلوق کی لمبائی تقریباً 7 فٹ ہوتی ہے جبکہ آنکھیں اتنی لال ہوتی ہیں جیسے کہ کوئی دہکتا ہوا انگارہ اور اس کے بڑے بڑے بڑے پرَ بھی ہوتے ہیں تاہم جب 1967 میں یہاں موجود ایک پُل کو منہدم کیا گیا اس کے بعد سے اس مخلوق کے دکھائی دینے کے بارے میں کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی
وادی سین لوئس
San Luis Valley
امریکہ کی ریاست کولاراڈو کے اس علاقے میں گزشتہ چند سالوں سے آسمان پر پرواز کرتی ایسی پراسرار اشیاء (UFO) دکھائی دے رہی ہیں جن کے بارے میں کسی کے پاس کوئی وضاحت موجود نہیں اس کے علاوہ یہاں کے مقامی کسانوں کی جانب سے ان پراسرار اشیاء کے دکھائی دینے کے بعد اگلے روز بےدردی سے ہلاک ہونے والے ان کے جانوروں کے بارے میں خبریں بھی موصول ہوتی ہیں۔ مسلسل رونما ہونے والے ان واقعات کے بعد ان پراسرار اشیاء پر نظر رکھنے کے لیے یہاں ایک واچ ٹاور بھی قائم کر دیا گیا ہے۔
غیر متوازی خوفناک پہاڑ
Superstition Mountains
یہ پراسرار پہاڑ ایریزونا کے علاقے فونیکس میں واقع ہیں اور امریکہ کے ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والا افراد کا ماننا ہے کہ اس پہاڑی میں جہنم کا دروازہ موجود ہے- اس کے علاوہ ان لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ یہاں ‘Tuar-Tums’ لوگ آباد ہیں- تاہم اس میں سے کسی بھی دعویٰ کو آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا- لیکن ایک بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس جگہ کی ویرانی کو دیکھتے ہوئے شاید کوئی انسان ایسا ہوگا جو یہاں رات بسر کرنے کا حوصلہ رکھتا ہوگا
اسلام آباد کا بدھ قبرستان
Buddhist Graveyard
یہ بدھ مت مذہب کے پیروکاروں کا قبرستان ہے جو کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف 6 میں واقع ہے۔ اس قبرستان کو دیکھنے کے لیے آنے والے متعدد سیاحوں اور دیگر افراد کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہاں رونے اور کسی کے چلنے کی آوازیں سنی ہیں۔ اس لئے رات کے وقت اس قبرستان میں داخل ہونے سے لوگ ڈرتے ہیں۔
0 notes
htvpakistan · 3 years
Text
وہ پراسرار ترین کیس جس میں لاش جل کر راکھ ہوگئی مگر گھر کو کچھ نہیں ہوا
وہ پراسرار ترین کیس جس میں لاش جل کر راکھ ہوگئی مگر گھر کو کچھ نہیں ہوا
یہ جولائی 1951 کی ایک صبح کی بات ہے جب فلوریڈا کے علاقے ٹمپا بے کے ایک اپارٹمنٹ کی مالکہ پنسی کارپینٹر کو ایک ٹیلیگرام موصول ہوا جو ان کی ایک کرائے دار کے لیے تھا۔ وہ ٹیلیگرام لے کر اپارٹمنٹ میں گیئں اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کوئی جواب نہیں ملا، جس پر انہوں نے دروازہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ جب انہوں نے دروازے کی ناب کو چھوا تو گرم ہورہی تھی لگ بھگ ناقابل برداشت حد تک گرم۔ پنسی کارپنٹر کو معاملہ مشکوک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے  
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے  
آزادیٔ کشمیر کی توانا آواز خاموش ہوگئی، اگرچہ اس کی گونج وادی میں آج بھی سنی جاسکتی ہے۔ ہرگز نہ نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق! سید علی گیلانی آزاد ہوگئے! (دنیا مومن کا قید خانہ ہے۔‘: صحیح مسلم) سالہا سال غاصب دشمن کی جیلوں یا گھر میں نظربند رہنے والا۔ نظریہ پر جینے والا شیر جو پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی تھا۔ یہاں فلمیں، ڈرامے، گانے، ٹیبلو، بینر، کشمیری جھنڈے، جلوس، ہاتھوں کی زنجیر بناکر، گلا پھاڑ نعرے لگاکر بیانات دے کر کشمیر خاص خاص دنوں میں آزاد کروانے کا زبانی جمع خرچ ہوتا۔ وہاں علی گیلانی کی پوری زندگی بھارت کو للکارنے صعوبتیں اٹھانے کی عملی مشقت تھی۔ آئین جوانمرداں حق گوئی وبے باکی، اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی! جبر کے شکنجے میں 8 لاکھ فوج کے بوٹوں تلے کشمیریوں کے حقوق روندنے والا بھارت، بوڑھے شیر کے جسد خاکی (میں پنہاں شرر) سے لرزاں وترساں تھا۔ کرفیو لگایا۔ نیٹ سروسز بند کیں۔ نہ صرف گھر میں گھس کر میت پر ناجائز قبضہ کیا بلکہ مزاحمت کرنے پر گھر والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ فوجی محاصرے میں تدفین ہوئی۔ رعب ودبدبے، ہیبت کی لہریں بھارتیوں کے سینے شق کر رہی تھیں، سید علی گیلانی کئی ماہ سے دل اور گردوں کے مرض میں مبتلا تھے۔ 92 سال کی عمر تک جس دل گردے سے جنگ آزادی لڑی شاید یہ اسی بنا پر تھا! استقامت اور عزیمت کی زندۂ جاوید علامت، شارح اقبال، تحریر وعمل دونوں سے۔ سید علی گیلانی! مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ، عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام۔ وہ اپنا فرض نبھاکر رخصت ہوئے۔ آزادیٔ افغانستان میں سبھی حریت پسندوں کے لیے بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے۔ چوبیس پارٹیاں نہیں، یک جان یک زبان سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند، جس میں دشمن کو رخنہ تلاش کرنا ناممکن ہو۔ اللہ سے وابستگی، قرآن سے وابستگی پر اتحاد واتفاق بمطابق سورۃ آل عمران وسورۃ الحج۔ پھر فتح آسمان سے اترتی ہے۔ راستے کھلتے ہیں چٹانیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں، شرط یہ ہے کہ: ’اگر تم مومن ہو!‘ (آل عمران۔ 139) افغانستان میں صرف امریکا اور اس کے مغربی حواریوں کا پیسہ نہیں ڈوبا۔ ذلت ونکبت صرف انہی کے حصے میں نہیں آئی۔ بھارت کی سرمایہ کاری بھی رائیگاں گئی۔ غم وغصے سے ہاتھ چبا رہا ہے۔ فارمولا واضح ہے۔ افغانستان میں ایک طرف ایمان اور استقامت کے کوہ گراں تھے، دوسری طرف نفاق، بدعنوانی، چور بازاری، دنیا پرستی، کی انتہا! یہی حق وباطل کی مثال ہے۔ ’جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔‘ (الرعد۔ 17) امت مسلمہ کا المیہ آج یہی تو ہے کہ قول ثابت (کلمہ طیبہ) سے منہ موڑے دنیا میں ڈراموں فلموں میں آزادی کے پھریرے لہراتے پھرنا۔ آزادی اسکرینوں پر، آن لائن نہیں ملتی، ایک ایک خلیے، رگ، ہڈی سے خراج مانگتی ہے! طالبان نے حجت اس امت پر تمام کردی ہے۔ طالبان کا کلمہ صرف جھنڈوں پر نہیں لہرا رہا، ہر بن مو پر ثبت ہے اور خون کے ہر قطرے میں اس کی خوشبو بستی ہے! ہمارے ہاں سازشوں کی تھیوریاں پیش کرکے اپنی ناکامیوں کے جواز گھڑے جاتے رہے۔ ادھر امریکا، بھارت، اسرائیل، فرانس، برطانیہ کی ساری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے گرو بیٹھے عرق آلود پیشانیاں پونچھ رہے ہیں! حق کے مقابل کوئی چال کامیاب نہیں ہوتی۔ ومکر اولئک ھو یبور۔ اور ان کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے۔ (فاطر۔ 10) خود ہمیں آئینہ ایام کے گزشتہ بیس سالوں میں اپنا احتساب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان، جو اس جنگ میں اپنی لاکھ جانوں کی قربانی کی بات کرتا ہے تو وہ ہم نے افغانستان کی حریت، افغانوں کی مدد یا اللہ کی خوشنودی اور مسلم اخوت، نفاذ شریعت کیے لیے نہیں دی۔ امریکا اور بین الاقوامی طاقتوں، عالمی جنگ پرستوں کی جنگی ضروریات، انہی کے اہداف میں تعاون اور اپنی معیشت کی اغراض کے لیے دیں۔ طالبان سے نہ اس کا صلہ مانگا جاسکتا ہے، نہ انہیں اب مشورے اور ہدایات دی جاسکتی ہیں۔ صرف اپنا سا منہ لے کر رہا جاسکتا ہے!
ان بیس سالوں میں جس رکن دین کو خود مسلمانوں نے چھپا دیا، بھلا دیا، عین وہی سببِ نجات بنا افغانستان کے لیے۔ کفر بجا طور پر جس سے دہشت زدہ رہا، اسی کا سامنا اسے کرنا پڑا اور اس کے بدترین خدشات پورے ہوئے۔ یعنی جہاد فی سبیل اللہ! ابوالکلام آزاد نے اسے بیان کیا ہے، ’قرآن کا قانون عروج وزوال‘ میں، یوں گویا وہ ہمارے حالات دیکھ کر امت پر رواں تبصرہ کررہے ہوں۔ اتنے کھرے دوٹوک لہجے پر آج وہ ہوتے تو گوانتامو پہنچے ہوتے! لکھتے ہیں: آج جب ایک دنیا جہاد کی دہشت سے کانپ رہی ہے، جبکہ عالم ِمسیحی کی نظروں میں یہ لفظ عفریت مہیب یا ایک حربہ بے امان ہے، جبکہ اسلام کے مدعیان خود نصف صدی سے کوشش کررہے ہیں کہ کفر کی رضا کے لیے اہل اسلام کو مجبور کریں کہ وہ اس لفظ کو لغت سے نکال دیں۔ جبکہ بظاہر انہوںنے کفر واسلام کے درمیان ایک راضی نامہ لکھ دیا ہے کہ اسلام، لفظ جہاد کو بھلا چکا ہے لہٰذا کفر اپنے توحش کو بھول جائے۔ تاہم آج کل ملحد مسلمین اور مفسدین کا ایک حزب الشیطان بے چین ہے کہ بس چلے تو یورپ سے درجہ تقرب وعبودیت حاصل کرنے کے لیے ’تحریف الکلم عن مواضعہ‘ کے بعد سرے سے اس لفظ کو قرآن سے نکال دے۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے۔ دونوں لازم وملزوم ہیں…… اسلام کی تمام عبادتیں اسی کے لیے ہیں۔ اس کے تمام جسم اعمالی کی روح یہی شے ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی یاد کو اس نے ہمیشہ زندہ رکھنا چاہا اور عیدالاضحیٰ کو یوم جشن ومسرت بنایا۔‘ (اللہ کے حکم پر ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کا سرتسلیم خم کردینا! جان قربان کرنے والی فدائیت!)
جب مذکورہ عقیدہ، زبان سے ادا ہونے کے بعد روبہ عمل آتا ہے تو نتائج ہمیشہ ہی محیرالعقول ہوئے۔ عدد، معدود، اسلحے، ساز وسامان جنگ کی ریل پیل، عالی شان مسندوں اور مجالس والی شہنشاہیاں سب عقیدہ کے مقابل صفر ہوگئیں۔ مسلمان بے سروسامان 313 تھے، تو بدر میں کفر کے لدے پھندے لشکر کے 70 جنرل میکنزی کی سطح کے سردار مرے پڑے تھے اور ایسے ہی 70 قیدی ہوئے۔ یہی کہانی احد، خندق، خیبر، تبوک سے ہوتی ہر خطے میں سلطنتیں الٹاتی الٹاتی افغانستان آن پہنچی اور 3 مرتبہ دہرائی گئی۔ دروغ گوئی حافظہ ندارد کے مصداق باطل ہر دفعہ منہ کی کھاکر بھول گیا اور پھر نئی چالوں، نئے دم خم سے اپنا نیا قبرستان آباد کرنے آن اترا۔ جو کہانی کل تھی وہی آج ہے۔ فاقوں سے پٹخے پیٹوں والے، کھجور کی چپلوں، پیوند زدہ لباسوں، چیتھڑوں میں لپٹی تلواروں والوں نے اس وقت کا ’نیو ورلڈ آرڈر‘ تین براعظموں پر قائم کردیا تھا جو سفید جھنڈے پر لکھے کلمے والا آرڈر ہے! مقابل جب سپین کا راڈرک تھا تو طارق بن زیاد کل 12 ہزار فوج ننگی تلواریں اور کچھ نیزے لیے فتح یورپ کا دروازہ کھولنے جا اترا۔ علاقے کے گورنر، تھیوڈومرنے راڈرک کو اطلاع دی کہ ’ہماری زمین پر ایک بلااتری ہے ہم نہیں جانتے کہ آسمان سے نازل ہوئی ہے یا زمین سے!‘ یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے! (عین وہی جو اچانک افغانستان کے طول وعرض پر چھا گئے!) مقابل ایک لاکھ فوج تھی راڈرک کی، قیمتی اسلحے، گھوڑوں سے مزین! بس یہ دیکھ لیجیے کہ اسپین میں 800 سالہ حکمرانی کا آغاز اس تناسب کی فوج سے ہوا۔ طارق کی تلوار فیصلہ کن تھی۔ فتح ونصرت نے قدم چومے۔ ہسپانوی مقتولین کی لاشوں سے میدان پٹ گیا۔ راڈرک کا سفید گھوڑا دلدل میں (فرار کے بعد) پھنسا ملا جس پر یاقوت وزبرجد سے مرصع ساز کسا ہوا تھا۔ قریب ہی راڈرک کا موزہ جس پر یاقوت اور موتی ٹکے تھے پڑا تھا۔ زرتا رحلہ جو بیش قیمت جواہرات سے مرصع تھا گرا پڑا تھا۔ شان وشوکت والا بادشاہ دریا میں کود کر نسیاً منسیاً ہوگیا۔ خستہ حال فوج نے دور مظلمہ میں ڈوبے یورپ کو اسپین کی عظیم علوم وفنون بھری حکمرانی سے آراستہ کیا! ملاعمرؒ امیرالمؤمنین امارت اسلامی، قندھار سے ایک جوڑا اور کچھ رقم، صدقۂ فطر اور ذاتی مصارف کے لیے خاموشی سے لیے نکل گئے۔ لمبے سادہ کپڑے اور بڑی پگڑی ان کا لباس تھا۔ 2005ء میں جگہ تبدیل کی تو 5 گھنٹے پیدل سفر کیا رات کے گھپ اندھیرے میں کھائیوں جھاڑیوں امریکی اڈے اور حکومتی حفاظتی چوکیوں سے بچتے بچاتے۔ مقابل فوج کی شان وشوکت، چمکتی سواریاں، شاندار وردیوں پر آراستہ ستارے میڈل، ہیبت انگیز قوت دیکھ لیجیے!
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشک فرو مایہ کوشاہیں سے لڑا دو!
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
pakistantime · 3 years
Text
شاہراہ ریشم، ایک عجوبہ جسے مغربی انجینئرز نہ بنا سکے
پاکستان اور چین کے درمیان لازوال دوستی ہے اور اس دوستی کی ایک مثال شاہراہ قراقرم ہے، اسے دوستی کی شاہراہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ ہے! کہیں دلکش تو کہیں پراسرار، کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی، کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !! شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966ء میں ہوا اور تکمیل 1979ء میں ہوئی۔ اس کی کُل لمبائی 1300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، داسو، چلاس، جگلوٹ، گلگت، ہنزہ نگر، سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چین میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت، شدید برف باری اور لینڈ سلائیڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔ اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 3 کروڑ میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔ شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں تھاکوٹ تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔ تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مڑ جاتا ہے۔
تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جو کہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ��اپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے کورونا سے قبل فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی تھیں۔ رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت، دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہو جاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور، دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ 
جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔ جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی، سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر، اشکومن، غذر اور شندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیو ہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نہ دباتا ہو۔ ''پاسو کونز‘‘ اس بات کی بہترین مثال ہے۔
ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں، گلیشیئرز، آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی، التر، بتورہ، کنیانگ کش، دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔ عطا آباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔ سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔ سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد، دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کی بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکو پولو بھیڑیں، برفانی چیتے، مارموٹ، ریچھ، یاک، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔ اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔ اس سڑک پر آپ کو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سل��لے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں، دریاؤں کی بہتات، آبشاریں، چراگاہیں اور گلیشیئرز سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے بلکہ یہ پاک چین دوستی کی اعلیٰ مثال ہے ۔
طیب رضا عابدی
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
informationtv · 3 years
Text
افریقہ میں ’جہنم کا دروازہ‘ جس کے متعلق کئی پراسرار کہانیاں مشہور ہیں - BBC News اردو
افریقہ میں ’جہنم کا دروازہ‘ جس کے متعلق کئی پراسرار کہانیاں مشہور ہیں – BBC News اردو
بیلا فالک بی بی سی ٹریول کے لیے ایک گھنٹہ قبل ،تصویر کا ذریعہBella Falk وسطی افریقہ میں چھُپی یہ سلگتی ہوئی ایک جھیل جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ منظر فلم ’لارڈ آف دی رنگز‘ سے مستعار لیا گیا ہے۔ یہ جھیل کرہِ ارض کے وسط تک جانے کا راستہ ہے جہاں مائع چٹانوں کا درجہ حرارت 1000 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ’شیطان کی ہانڈی میں سوپ اُبل رہا ہوں۔‘ ماہر آتش فشاں بینوئٹ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
کورونا آئسولیشن وارڈ: پمز کے آئی سی یو میں سانس لینی مشکل لیکن ٹوٹنی آسان ہے فرحت جاویدبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد21 جولائی 2020دروازے کی دوسری طرف سب سے مشکل کام سانس لینا اور سب سے آسان اس کا ٹوٹنا ہے۔ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہاں آنے والوں کی تکلیف اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ منتیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں زہر کی گولی دی جائے کہ یہ اذیت ختم ہو۔یہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے بنا انتہائی نگہداشت کا یونٹ یعنی آئی سی یو ہے۔ یہاں آنے والوں کی حالت اس قدر تشویشناک ہے کہ ان کی سانس کی ڈوری مشینوں سے جڑی ہے۔اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں آئسولیشن سینٹر کی عمارت الگ تھلگ ہے۔ ’شروع میں تو لوگ اس عمارت کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے۔‘ اب بھی اس کے گرد ربن لگے ہیں اور ہر وقت سکیورٹی کا عملہ ڈیوٹی پر تعینات رہتا ہے تاکہ کوئی اندر نہ جا سکے۔اس عمارت میں کورونا وائرس کے مریضوں کو ہر وقت نگہداشت کی ضرورت ہے۔ ان میں سے بیشتر کی پھیپھڑے ختم ہو چکے ہیں، انھیں دیگر کئی بیماریاں ہیں جو کورونا وائرس نے مزید بگاڑ دی ہیں۔ ان سب کی زندگی کی ڈور زندگی بچانے والی مشینوں سے جڑی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں سے بیشتر میں ایک اور بات بھی مشترک ہے۔۔۔ وہ یہ کہ انھیں گمان تھا کہ ’کورونا وائرس سازش ہے‘، ’محض فلو ہے‘ یا بس ’ہمیں نہیں ہو گا۔‘آئسولیشن سینٹر میں داخل ہوتے ہی آئی سی یو کا دروازہ نہیں آتا۔ بلکہ استقبالیہ ہے۔ اسے دیکھ کر دل میں خیال آتا ہے کہ یہ سنہ 2020 میں دنیا کے خطرناک ترین استقبالیوں میں سے ایک ہے۔ آپ پر سپرے کیے جاتے ہیں، نام پتہ درج کیا جاتا ہے ا��ر آمد کا مقصد بھی کیونکہ یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہاں آنا کسی کو پسند بھی نہیں ہے۔ آئی سی یو اور استقبالیے کے درمیان دو دفاتر ہیں۔ ان میں سے ایک 'ڈوننگ ایریا' ہے یعنی وہ دفتر جہاں لباس تبدیل کیا جاتا ہے۔ آئی سی یو کے اندر جانے والا ہر ڈاکٹر، نرس یا امدادی عملہ ایک ذاتی تحفظ کی کِٹ پہنتا ہے، جو اس وقت دروازے کے دوسری جانب موجود ان دیکھے دشمن کے مدمقابل واحد ہتھیار ہے۔یہ لباس، جسے پی پی ای کٹ یا پرسنل پروٹیکشن اِکوپمنٹ کِٹ کہا جاتا ہے، میں دو گاؤن، ایک اوور آل، ایک این 95 اور دو، یا اپنے اپنے ڈر کے مطابق، سرجیکل ماسک، ہوا میں موجود ذرات سے آنکھوں کے بچاؤ کے لیے عینک، اور پھر اس سب کے اوپر ایک وائزر، یعنی ایک موٹی شیلڈ جو پورے چہرے کو کور کرے اور دستانے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ طبی عملہ آپ کے دستانوں اور لباس، سر پر موجود دو ٹوپیوں اور اوور آل کے کور کے ساتھ موجود کسی بھی ممکنہ ایکسپوژر کو ختم کرنے کے لیے ان تمام جگہوں پر ٹیپ چسپاں کرتا ہے جہاں سے وائرس کے انسانی جلد کے ساتھ رابطے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔لیکن جیسا کہ گیم آف تھرونز کے تخلیق کار جارج آر آر مارٹن نے اپنے مشہور ناول 'اے کلیش آف کنگز' میں کہا تھا کہ سب سے زیادہ خوفناک وہ دشمن ہے جو نظر نہیں آتا۔ کورونا وائرس کا خوف بھی ایسا ہی ہے، یہ ڈاکٹروں کو بھی ہے، نیم طبی عملے کو بھی اورآئی سی یو تک پہنچنے والے مریضوں کو بھی۔بی بی سی کی ٹیم کو اسلام آباد میں سرکاری ہسپتال پمز میں قائم آئسولیشن سینٹر کے آئی سی یو تک خصوصی رسائی دی گئی جہاں متعدد مریض زیرِ علاج ہیں۔ ہمیں پی پی ای کٹ پہنائی گئی جس میں سانس لینا بھی دشوار ہے تاہم اس کے بغیر کوئی بھی اس یونٹ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس حفاظتی لباس میں ڈاکٹر کم از کم چھ گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں۔ اسے پہننے کے بعد کچھ کھایا پیا جا سکتا ہے نہ ہی آئی سی یو سے باہر آ سکتے ہیں۔ آئی سی یو کے اندر کسی سطح کو ہاتھ لگانے، کسی شے کو فرش پر رکھنے یا مخصوص جگہوں کے علاوہ کہیں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔یہاں ایک پراسرار خاموشی ہے، خوف ہے، مشینوں کی بِیپ پر کانپتے جسم اور مکمل تنہائی ہے۔ کبھی کسی کمرے میں کوئی مریض کھانستا ہے تو پتا چلتا ہے کہ کہیں کوئی اور بھی ہے، ورنہ یہاں صرف تنہائی ہے۔ مریض جب تک یہاں ہے وہ کسی انسان کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اپنے کمرے میں بند صحت مند ہونے کا انتظار کرتا ہے یا پھر موت کا۔ اس دوران کیا ہوتا ہے، اکثریت کو یاد نہیں رہتا، ان کا حال صرف وہاں موجود طبی عملہ بتا سکتا ہے۔ یہاں موجود زیادہ تر مریض یا تو بے ہوش ہیں یا دوائیوں کے زیرِ اثر گہری نیند میں اور اس نیند میں بھی سانس لینے کی مشقت جاری ہے۔ ’خدا کے لیے کھانا کھلا دو‘آئی سی یو میں داخل ہوئے تو میں نے یہ ہرگز نہیں سوچا تھا کہ مجھے اقبال (فرضی نام) جیسے مریض ملیں گے۔ میرے ساتھی موسیٰ یاوری طبی عملے کے ہمراہ ایک کمرے میں عکسبندی کے لیے گئے جبکہ میں دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ وہاں کورونا کے مریض اقبال سو رہے تھے مگر وہ اچانک جاگ گئے۔ انھیں لگا میں ڈاکٹر ہوں۔ ان کے چہرے پر خوف سے زیادہ تھکن اور مایوسی تھی۔’ڈاکٹر مجھے کھانا لا دیں۔ میں نے کئی دن سے کچھ نہیں کھایا، مجھے طاقت کی دوا دیں، میں کمزور ہو گیا ہوں۔ خدا کے لیے کوئی مجھے کھانا لا دیں۔ میں نے کچھ نہیں کھایا۔‘میں نے انھیں بتایا کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں مگر وہ کھانا مانگتے رہے۔ اس دوران نرس اور پھر ڈاکٹر بھی وہاں آ گئے۔ اقبال کے لیے کھانا منگوایا گیا۔ ڈاکٹرز کے مطابق کورونا وائرس کے بعد ان کی ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ان کی ڈاکٹر نے بتایا کہ ’اقبال دو ماہ سے آئی سی یو میں ہیں۔ وہ اس وقت کورونا وائرس کا شکارہوئے جب وہ اسی ہسپتال میں ڈائیلاسز کے لیے آئے۔ ان کے گردے ناکارہ ہوچکے ہیں۔ وہ اس حد تک ڈپریشن میں ہیں کہ اب ہم انھیں اینٹی ڈیپریسنٹس دے رہے ہیں۔‘اقبال نے دو لقمے کھانا کھایا اورایک بار پھر نیم بے ہوشی کی حالت میں چلے گئے۔’سنا تھا چین سے بیماری آئی ہے‘یہاں موجود زیادہ تر مریض بے ہوش تھے اور جن کی آنکھیں کھلی تھیں وہ پریشان تھے۔ کئی مریض ہم سے بات کرتے ہوئے رو پڑے، کئی ایسے ہیں جنھیں یہ یقین ن��یں کہ وہ دوبارہ اپنے پیاروں سے مل پائیں گے۔تاہم ان میں الگ تھلگ چہرہ امان خان کا ہے۔ وہ ایسے تیار ہوئے بیٹھے ہیں جیسے آج عید ہے۔ اور شاید ان کے لیے آج کا دن سب سے بڑا دن ہے۔ انھیں ایک نئی زندگی ملی ہے۔ وہ یہ تو نہیں بتا سکے کہ وہ کورونا وائرس کا شکار کیسے ہوئے مگر کہتے ہیں کہ ’میں تو پورا پاکستان گھومتا ہوں۔ آخری بار پاڑا چنار گیا تھا، شاید وہیں سے وائرس لگا ہو۔ اس کے بارے میں سن رکھا تھا کہ چین سے کوئی بیماری آئی ہے۔‘ ’بس خدا پر یقین ہے اور آج دیکھیں میں بالکل ٹھیک ہو گیا ہوں، یہاں ڈاکٹروں نے میرا بہت خیال رکھا۔‘امان خان نے بتایا کہ انھیں تو کورونا بیماری کا پتا ہی نہیں چلا، نہ ہی انھیں کوئی تکلیف ہوئی۔ ’میں کہتا ہوں میرے جیسا خوش قسمت تو دنیا میں کوئی نہ ہو گا۔ میرے ساتھ تو دعائیں ہیں۔‘لیکن ان کی ڈاکٹر نے کہا کہ امان خان کو بچانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ ’ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ یہ تقریباً ختم ہو چکے تھے۔ یہ موت کے منہ سے واپس آئے ہیں۔ میرے خیال میں انھیں اندازہ نہیں کہ ان کی حالت کس قدر تشویشناک تھی۔ یہ اپنی نماز باقاعدگی سے مسجد میں ادا کرتے تھے، انھیں اب بھی اس سب پر یقین نہیں۔‘اس آئی سی یو میں ڈیوٹی پر معمور ڈاکٹروں سے بھی ہماری بات چیت ہوئی۔پاکستان میں ڈاکٹرز صرف کورونا وائرس کے خلاف ہی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ ان کے لیے دوہرے محاذ کھلے ہیں۔ انھیں اُن افواہوں، غلط معلومات، جھوٹی خبروں اور توہم پرست لوگوں کا بھی سامنا ہے جو اس وائرس کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں۔ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک شخص سمجهتا ہے کہ کورونا وائرس بین الاقوامی طاقتوں نے پھیلایا ہے۔سروے میں شامل نصف افراد کا خیال ہے کہ اس وائرس کے خطرے کو بڑها چڑها کر پیش کیا جاتا ہے۔’کیا یہ وہی زہر کا ٹیکہ ہے؟‘پمز ہسپتال کے آئی سی یو کی انچارج ڈاکٹر انیزہ جلیل نے بتایا کہ جب یہ وائرس پاکستان آیا تو ہسپتال آنے والے زیادہ تر مریض یہی سمجھتے تھے کہ یہ وائرس ’بین الاقوامی قوتوں کی سازش ہے۔ یہ یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازش ہے تاکہ وہ مسلمانوں کی آبادی کم کر سکیں۔ ڈاکٹر ان ممالک کے ایجنٹس ہیں اور ان سے پیسے لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں آنے والوں کو یہ بھی یقین تھا کہ ڈاکٹر کورونا کے مریضوں کو زہر کا ٹیکہ لگاتے ہیں۔ ’لوگ کہتے کہ یہ مسلمانوں کی آبادی کنٹرول کرنے کا طریقہ ہے۔ ڈاکٹروں نے ایجنسیوں سے پیسے لیے ہیں۔ یہ لوگوں کو جھوٹا کورونا کا مریض قرار دیتے ہیں، اسے قرنطینہ کرتے ہیں اور زہر کا ٹیکہ لگا کر مار دیتے ہیں۔ ان کی میت بھی اسی لیے بند کر دی جاتی ہے اور ورثا کے حوالے نہیں کی جاتی کیونکہ تابوت کھولیں گے تو پتا چل جائے گا کہ انھوں نے ہمارے بندے کے ساتھ کچھ تو کیا ہے۔‘ڈاکٹر انیزہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم مریض کے رشتہ دار کو کوئی دوا لکھ کر دیتے کہ یہ منگوائیں تو ان کا یہ سوال انتہائی تکلیف دہ ہوتا کہ کیا یہ وہی زہر کا ٹیکہ یا گولی ہے جس سے آپ نے ہمارے مریض کو مارنا ہے؟ کیا یہ اسی کمپنی کا ہے جس سے آپ نے کمیشن لیا ہوا ہے اور وہ یہ دوا تین تین لاکھ کی بیچ رہی ہے؟ یہ سب بہت بُرا لگتا تھا کہ ہمارا اس قدر نیک اور قابلِ احترام شعبہ ہے مگر ہم چپ ہو جاتے اور انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے۔‘کورونا کے اس آئی سی یو میں بطور ہیڈ نرس اپنی ذمہ داری سرانجام دینے والے خلیل احمد کہتے ہیں کہ ’جب مریض آتا تو اس کی حالت بہت خراب ہو چکی ہوتی تھی۔ چند گھنٹوں بعد اگر اس کی موت واقع ہو جاتی تو ان کے لواحقین کو یقین ہو جاتا کہ ان کے مریض کو مار دیا گیا ہے اور وہ جو افواہیں سنتے تھے، وہ سچ تھیں۔‘اسی وارڈ میں ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹر اظہر کہتے ہیں کہ لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک طرف یہ وبا چیلنج تھی تو دوسری جانب لوگوں کا رویہ۔ کبھی کبھی بہت مایوسی ہوتی تھی۔ ہمارے ساتھی دن رات کام کر رہے تھے، ہم اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے مگر لوگ اس وائرس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔‘ ’میں کئی ایسے ڈاکٹروں کو جانتا ہوں جن کے کلینک پر لوگوں نے آنا چھوڑ دیا کیونکہ وہ ان غلط معلومات پر یقین کرتے تھے کہ یہ ڈاکٹر زہر کا ٹیکہ لگا رہے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں ’لوگ کہتے کہ ایک بندہ مارنے کے سات ہزار ڈالر ملتے ہیں اور فلاں ڈاکٹر نے 35 انجیکشن لے کر رکھے ہیں۔ لوگوں نے اس بیماری کے باوجود ڈاکٹروں کے پاس جانا چھوڑ دیا تھا۔‘’کورونا قرض معاف کرانے کی سکیم کا حصہ ہے‘ایسے مریض بھی ان ڈاکٹروں کے پاس آتے رہے ہیں جو اس بیماری کی خطرناک حد تک پہنچ چکے تھے مگر انھیں پھر بھی اس وائرس کی حقیقت پر یقین نہیں تھا۔ ڈاکٹر انیزہ کے مطابق بعض اوقات مریض کی حالت درست ہونے کے قابل نہیں ہوتی تھی۔ ’مریض کے رشتہ داروں کو سمجھانا اس قدر مشکل مرحلہ تھا، وہ کہتے،اچھا اب تو اس کا کوئی علاج نہیں، مرنے والا ہے، تو کیوں نا ہم اپنے مریض کو گھر لے جائیں، یہ آخری وقت اپنے پیاروں کے ساتھ گزار لے؟ انھیں قائل کرنا مشکل تھا کہ یہ بیماری دوسروں کو لگ سکتی ہے۔ کسی کو بھی لگ سکتی ہے۔‘پھر کئی افراد ایسے بھی تھے جنھیں یہ وائرس موجودہ حکومت کی سازش لگتا۔ ڈاکٹر اظہر جو کئی ماہ سے کورونا وارڈ میں ڈیوٹی دے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ لوگ سمجھتے تھے کہ حکومت اس وائرس کے ذریعے اپنے قرضے معاف کرانا چاہتی ہے۔ ’وہ کہتے کہ حکومت نے بین الاقوامی امدادی اداروں اور امیر ممالک سے پیسہ لینا ہے، کچھ سے اپنا قرضہ معاف کروانا ہے۔ اور آپ لوگ حکومت کے ایجنٹ ہو۔ اس لیے ہمیں جھوٹ موٹ کا کورونا وائرس لکھ رہے ہو تاکہ پاکستان میں کورونا مریضوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بتائی جا سکے۔ اصل میں تو ہمارے مریض کو کورونا نہیں ہے، یہ تو موسمی کھانسی بخار ہے۔‘ڈاکٹروں کے مطابق بعض مریض کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے باوجود نہیں بتاتے تھے کہ ان کا ٹیسٹ مثبت ہے۔ جبکہ لوگ یہ بھی کہتے کہ اگر انھوں نے ٹیسٹ کروایا تو ان کا نام حکومت کے پاس چلا جائے گا، ایک گاڑی آئے گی ان کے سارے خاندان کو مختلف جگہوں پر قرنطینہ کیا جائے گا اور یوں ان کی بدنامی ہو گی۔ اس لیے لوگ ٹیسٹ ہی نہیں کراتے۔ ’باہر نکل کر ٹانگیں توڑ دیں گے‘طبی عملے کو صرف افواہوں کا ہی سامنا نہیں ہے بلکہ ان چند ماہ میں انھیں بدترین دھمکیاں بھی سننے کو ملیں۔ ڈاکٹر انیزہ بتاتی ہیں کہ ایک دن وارڈ میں کلینیکل راؤنڈ کے دوران ایک مریض نے ان سمیت سب ڈاکٹروں پر چلانا شروع کر دیا۔ ’یہ مریض اب صحتیاب ہو رہے تھے، ان کا ایک ٹیسٹ منفی آ گیا تھا مگر ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ وارڈ سے باہر نارمل آکسیجن پر سانس لے سکیں۔ وہ ایک ماہ سے اپنے بچوں سے نہیں ملے تھے اور بار بار مطالبہ کرتے کہ ہم ان کے اہلخانہ کو ان سے ملنے دیں جو ممکن نہیں تھا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ میں یہاں سے جس دن نکلا اسی دن تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔‘ ’مگر مجھے ان کی گالیوں پر غصہ نہیں آیا۔ میں نے سوچا کہ کورونا وائرس کی یہ بیماری انسان کو کس قدر کمزور کر دیتی ہے۔‘ڈاکٹروں ��و ایسے مریض بھی ملے جو ان کا حوصلہ بڑھانے کا سبب بنے۔ ڈاکٹر اظہر کہتے ہیں کہ ایک مریض نے ہسپتال سے ڈسچارج ہوتے وقت ایک خط لکھا جس میں انھوں نے ہم سب کے نام لکھے اور سب کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر انیزہ کے لیے گذشتہ چند ماہ انتہائی جذباتی رہے اور اس دوران انھوں نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ ’کسی مریض کی حالت اس قدر بگڑ چکی ہوتی کہ ہمیں لگتا یہ نہیں بچے گا مگر اگلے دن جب وہ ہمیں بیٹھا ہوا، باتیں کرتا نظر آتا تو ہماری ہمت بندھ جاتی۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ مریض کی حالت بد سے بدتر ہوجاتی اور ان کے بے بس رشتہ دار ہاتھ جوڑتے نظٌر آتے۔‘’ایک بار ایک نوجوان میرے سامنے سر جھکائے ہاتھ جوڑے رو رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ خدا کے لیے میرے والد کو بچا لیں۔ میری ماں کورونا سے مر گئی ہیں، میرے باپ کو کچھ ہو گیا تو میرا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ اس وقت تو میں نے انھیں حوصلہ دیا مگر گھر جا کر میں روتی رہی۔‘’میں بھی وائرس کو مذاق سمجھتی تھی‘آئی سی یو میں ہماری ملاقات ایک اور مریضہ سے ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں اور انتہائی تکلیف میں تھیں۔ انھیں سانس لینے میں دشواری تھی مگر وہ ہم سے بات کرنا چاہتی تھیں۔ عمر لگ بھگ پچاس برس ہو گی۔ ان کے سر کے بال ایسے اجڑے تھے جیسے نجانے کب سے اسی بستر پر ہیں۔ نرس نے بتایا کہ یہ ایک مہینے سے زیرِ علاج ہیں۔ وہ کہنے لگیں: ’ہم نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ میں اپنی نواسی کے لیے شاپنگ کرنے بازار گئی تھی۔ میری بیٹی فوت ہوئی اور پھر عید تھی۔ میں نے سوچا بچیوں کے لیے کچھ خرید لوں مگر وائرس لگ گیا۔‘ ’ایک ہفتے بعد سانس آنا بند ہو گئی۔ ایسا لگتا تھا سب کچھ ختم ہو گیا ہے اور پھر یہاں آئی سی یو آ گئی۔ تب سے یہیں ہوں۔‘وہ کہتی ہیں کہ لوگ اس بیماری کو سمجھ نہیں رہے کہ یہ کس قدر خوفناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔’خدارا باہر مت نکلیں۔ ضرورت نہیں تو بازار نہ جائیں۔‘ڈاکٹر کہتے ہیں یہ مریضہ بتدریج بہتر ہو رہی ہیں مگر ابھی انھیں سنبھلنے میں وقت لگے گا۔’میت دو ورنہ گولی مار دیں گے‘کورونا وائرس کی اس وبا کے دوران طبی عملے کو ایک بڑا دھچکہ اس وقت پیش آتا ہے جب اس وائرس سے کسی کی ہلاکت ہو جائے۔دھمکیاں، گالم گلوچ اور مارپیٹ، اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے مریضوں کے لواحقین میتوں کی فوری حوالگی چاہتے ہیں مگر کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی میتوں کے حوالے سے چند قواعد و ضوابط وضع کیے گئے ہیں جن کے تحت فوری حوالگی ممکن نہیں ہوتی۔خلیل احمد کہتے ہیں کہ لوگ پہلے ہی اس وائرس اور ڈاکٹروں پر شک کرتے مگر جب انھیں یہ پتا چلتا کہ انھیں میت فوراً نہیں ملے گی، یا تابوت میں بند ملے گی جسے وہ کھول نہیں سکتے یا اگر ان کے ہلاک ہونے والے مریض کے ٹیسٹ کی رپورٹ آنے تک میت نہیں دی جائے گی تو پھر ان کا غصہ بہت بڑھ جاتا تھا اور صورتحال بگڑ جاتی۔‘پمز میں ہماری ملاقات سپورٹنگ سٹاف کے ہیڈ نذیر قریشی سے بات ہوئی۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ انھیں کن مشکلات کا سامنا رہا۔ ’صرف ایک یا دو فیصد لوگ یہ مانتے تھے کہ ہاں یہ ایک خطرناک وائرس ہے، باقی سب تو صرف لڑائی کرتے۔ کسی کی موت ہو جاتی تو ہمارے ہاں ایک دو لوگ تو آتے نہیں۔ گاڑیاں بھر کر آمد ہوتی تھی۔ ایک بار ایک کورونا کا مریض جانبر نہ ہو سکا تو اس کے رشتہ دار آ گئے۔‘’یہ سو یا شاید ڈیڑھ سو بندے تھے جو بیس پچیس گاڑیوں پر آئے تھے اپنے عزیز کی میت لینے مگر یہاں آ کر انھیں پتا چلا کہ ہسپتال تو ایس او پی کی پیروی کرے گا۔ ان میں سے ایک شخص نے پستول نکالا اور مجھے کہا کہ میت ہمارے حوالے کرو ورنہ میں تمہارے پانچ سات بندوں کو یہیں گولی مار دوں گا۔‘’تم نے میری ماں کو قتل کیا ہے‘ناقدین کہتے ہیں کہ حکومت واضح مؤقف کے ذریعے کورونا وائرس سے جڑی افواہوں کو ختم کرسکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ خود وزیراعظم عمران خان نے اسے ’محض فلو‘ قرار دیا اور کہا کہ 98 فیصد لوگوں کو اس سے کچھ نہیں ہوتا لیکن بعد میں ایک موقع پر عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ’عوام نے شروع میں اس وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔‘ مگر اس تمام صورتحال میں طبی عملے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اظہر کہتے ہیں کہ انھیں اس وقت بہت دکھ ہوا جب ایک مریضہ کی بیٹی نے ہمیں کہا کہ ہم نے ان کی ماں کو مار دیا ہے۔ ’ان کی والدہ کورونا وائرس سے ہلاک ہوئیں۔ وہ اگلے دن ہسپتال آئیں اور ہم سب کو گالیاں دیں۔ ہمیں بددعائیں دیں کہ یہی وائرس ہمارے اہلخانہ کو بھی لگ جائے۔‘ ’انھوں نے یہاں تک کہا کہ ہم نے ان کی والدہ کو زہر کا ٹیکہ لگا کر مار دیا ہے۔ میں بہت مایوس ہوا۔ اس لمحے میں نے سوچا کہ میں کیوں نہ یہ ڈاکٹری چھوڑ ہی دوں؟ کیا فائدہ اگر میں کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ ایسا نہیں کہ ہم سب کوشش نہیں کرتے۔ بہت کوشش کرتے ہیں مگر یہ وائرس بہت خطرناک ہے۔ علاج کرتے ہوئے ہمارے اپنے کئی ساتھی اس کا شکار ہوئے ہیں۔‘ڈاکٹر انیزہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر بعض اوقات منفی رویے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے مگر پھر میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ ہم ان مریضوں کے ساتھ اس وقت کھڑے ہیں جب سب ان کو چھوڑ گئے ہیں۔ ’ہمارا شعبہ تو پیسے اور ہر بے معنی شے سے بہت بلند ہے۔‘تصاویر: موسیٰ یاوری خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
shoukatali · 5 years
Text
نمرتا کیس: ساتھی طالبہ نے کمرے کا آنکھوں دیکھا حال پولیس کو بتادیا
نمرتا کیس: ساتھی طالبہ نے کمرے کا آنکھوں دیکھا حال پولیس کو بتادیا
Tumblr media
لاڑکانہ کے ڈینٹل کالج کے ہاسٹل میں فائنل ائیر کی طالبہ نمرتا کی پراسرار موت کے کیس میں ایک اور ساتھی طالبہ کا بیان ریکارڈ کرلیا گیا جب کہ متوفی کی کیمیائی تجزیاتی رپورٹ بھی سامنے آگئی۔
پولیس نے نمرتا کی موت پر تحقیقات جاری رکھتے ہوئے ان کی ساتھی طالبہ (روم میٹ) کا بیان ریکارڈ کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ دروازہ توڑ کراندر داخل ہوئے تو نمرتا کی دوپٹے سے پھندہ لگی لاش دیکھی۔
ساتھی طالبہ نے اپنے…
View On WordPress
0 notes
onlyurdunovels · 5 years
Text
وہ لڑکی از : عمیر راجپوت قسط 1
وہ لڑکی از : عمیر راجپوت قسط 1
"کیٹ" جب بھی بوریت کا شکار ہوتی تو وہ اس عالیشان بنگلے کے پیچھے بنے باغیچے میں چہل قدمی کے لیے نکل آتی کیونکہ اتنے بڑے بنگلے میں وہ واحد گوشہ ہی اسے پر سکون جگہ محسوس ہوتی تھی....
ویسے تو اس بنگلے میں رہنے والے سبھی افراد اس کے آپنے تھے اور وہ سب اسے جی جان سے چاہتے تھے مگر اس دنیا میں والدین سے بڑھ کے قریبی اور مخلص رشتہ کوئ اور نہیں ہوتا اس لیے اسے جب بھی آپنے مرحوم والدین کی یاد ستاتی تو وہ اس باغیچے میں نکل آتی اور اس باغیچے میں موجود تمام درخت اور پودے اسے آپنے غمگسار اور ہمدرد نظر آتے....
اتنے عرصے بعد آج پھر اسے آپنے والدین کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی تھی انسان بھی کتنی عجیب چیز ہے پوری زندگی خوشیوں کی خواہش میں گزار دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کے خوشیاں آپنوں کے ہی وجہ سے ہوتی ہیں جب آپنے قریبی ہی آپنے پاس نا ہوں تو بڑی خوشی بھی بے معنی ہوجاتی ہے اور یہ بات اس سے بہتر کوئ بھی نی جانتاتھا....
دو دن بعد اس کی زندگی کا نیا خوشیوں بھرا باب شروع ہونے جا رہا تھا ..........مائکل جسے وہ آٹھ برس سے شدت سے چاہتی آرہی تھی وہ اس کے ساتھ ایک نئ زندگی شروع کرنے جا رہی تھی اور یہ احساس کسی بھی محبت کرنے والے انسان کے لیے بے پناہ خوشی کا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اسے یہ خوشی ادھوری محسوس ہورہی تھی.....
رات کے بارہ بجے تو دور سے گھنٹہ گھر میں گھنٹہ بجنے کی آواز سنائ دی.....
سردیوں کے دن تھے اس لیے کیٹ نے شدت سے لونگ بوٹ اور لیدر کی جیکٹ پہن رکھی تھی پورا بنگلہ پراسرار سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا صرف چند لائٹس ہی جل رہی تھیں وہ چند لائٹس اتنے بڑے بنگلے کی تاریکی دور کرنے سے قاصر تھیں اور بنگلے کے پیچھے جانب باغ کے کونے میں ایک بلب جل رہا تھا جو دس کنال کے باغیچے کے باغیچے کے حساب سے نا ہونے کے برابر تھا چاند کی شروع کی تاریخیں تھیں اس لیے اندھیرا معمول سے کچھ زیادہ ہی تھا اور پھر اوپر سے ہونے والی داھند نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی تھی.....
کیٹ کو جب نیند آنے لگی تو وہ باغیچے کے درمیان میں موجود بنچ پر سے اٹھ کھڑی ہوئ اس نے واپس جانے کے بارے میں جیسے ہی سوچا....
اچانک باغیچے کے کونے میں لگے بلب کی روشنی کم ہونے لگی اور ساتھ ہی اسے آواز آنے لگی جیسے بلب اسپارکنگ کر رہا ہو....
کیٹ حیرت سے اچانک خراب ہونے والے بلب کو دیکھنے لگی جس کی روشنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو رہی تھی کیٹ آہستہ آہستہ چلتی ہوئ بلب کے پاس آکے اسے حیرت سے دیکھنے لگی لیکین اس سے پہلے کہ وہ اس کی خرابی کی وجہ جان پاتی بلب کی روشنی یکدم اتنی تیز ہو گئ کہ کیٹ کو آپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی بلب دھماکے سے پھٹ گیا اور باغیچے میں یکدم گھپ اندھیرا چھا گیا.....
اففف""""" کیا مصیبت ہے اسے بھی ابھی خراب ہونا تھا""""" کیٹ بڑ بڑائ اور جیکٹ کی جیب سے آپنا سیل فون نکالا اس کی ٹارچ آن کی اور واپسی کے لیے مُڑی....
وہ ابھی بمشکل چند ہی قدم چلی تھی کہ اسے آپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئ تو وہ یکدم مڑی...
کون ہے........؟
اس نے بے آپنی بے ترتیب دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے کہا... مگر اسے بکھرے ہوئے خشک پتوں کے علاوہ کچھ نظر نا آیا اس نے آپنا وہم جانا اور پھر چل پڑی مگر اس بار وہ دو قدم ہی چلی کے اسے پھر آہٹ محسوس ہوئ اور اس بار تو اس نے باقاعدہ پتوں کی آواز سنی جیسے کوئ اسکے پیچھے دیمی چال چل کر آرہا ہو وہ مُڑی اور موبائل کی ٹارچ کی مدد سے ارد گرد دیکھنے لگی.....
ک.....کک..........کون ہے.... ؟
اس بار اس کے لہجے میں لرزش تھی مگر اسکی بات کا کسی نے جواب نہ دیا وہاں تھا تو صرف پرہول سناٹا وہ مُڑی اور اس بار اس قدر تیز قدموں سے چلنے لگی کیونکہ اب خوف کا احساس اسے اب ہونے لگا تھا تیز چلنے کی وجہ سے اسکا پاؤں کسی چیز سے الجھا اور وہ بُری طرح سے گِری.... موبائل اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا گِرا مگر اس کی روشنی کا رُخ اس کی طرف تھا اسے محسوس ہوا کہ کسی نے اس کا پاؤ پکڑ لیا..... برگد کے درخت کی ایک جڑ اسکے پاؤں سے لپٹی ہوئ تھی..... اس کے غور کرنے پر معلوم ہوا کے برگد کے درخت کی ایک جڑ اسکے پاؤ کے گِرد سانپ کی طرح بل کھا کر اس کا پاؤں جکڑنے لگی تو "کیٹ" کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر خوف سے پھیل گئ اس نے فوراً لونگ بوٹ کا تسمہ کھولا اور آپنا پیر بوٹ سے باہر نکال لیا....
اسکا پاؤں آذاد ہو گیا اور بنگلے کی جانب بھاگ کھڑی ہوئ اسے آپنے پیچھے بے پناہ پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ اور ٹہنیوں کے چیخنے کی آواز سنائ دی تو اس نے بھاگتے بھاگتے مُڑ کر دیکھا تو خوف کے مارے اس کی جان نکل گئ کیونکہ اب تو برگد کا درخت تیزی سے اسکے پیچھے آرہا تھا یہ دیکھ کر وہ تیزی سے بھاگنے لگی اور دوڑتے دوڑتے گیلری میں گھسی تو گیلری کی دیوار پر لگی پینٹنگ کی تصویریں درخت کی شاخیں لگنے کی وجہ سے گر گئیں.....
کیٹ دوڑتی ہوئ آپنے کمرے میں داخل ہوئ اور اندر داخل ہوتے ہی اس نے تیزی سے دروازہ لاک کر دیا اور جلدی سے بیڈ پر چڑھ کے کمبل اوڑھ لیا دروازہ مضبوط لکڑی سے بنا تھا اس لیے اسے توڑنا آسان نا تھا تھوڑی دیر بعد یکدم دروازہ ہلنا بند ہو گیا.....
کیٹ کمبل ہٹا کے دروازے کو غور سے سے دیکھنے لگی اس کا انگ انگ پسینے میں ڈوبا ہوا کانپ رہا تھا شاید وہ چلا گیا................ کیٹ نے تھوک نگلتے ہوئے سوچا مگر اس سے پہلے وہ کچھ اور سوچتی اس کی پشت پر موجود کھڑکی جو باغیچے کی جانب کھلتی تھی ایک دھماکے سے ٹوٹ کے اندر گری تو کیٹ نے پلٹ کے دیکھا اور اس کے ساتھ ہی پورا بنگلہ اس کی دل دوز چیخ سے گونج اٹھا........
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
ریلوے سٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رُکی تو ٹرین کا خودکات دروازہ کھلا اور ایک نو جوان سوٹ کیس لیے اترا اس کے اترتے ہی ٹرین کا دروازہ بند ہوا اور ٹرین ایک بار پھر چل پڑی.......
اس سٹیشن کا وہ اکلوتا مسافر تھا اسٹیشن سن سنسان تھا اور وہاں کا عملہ بھی غائب تھا شاید انہیں بھی یہاں پر کسی کے آنے کی توقع نہیں تھی اس لیے وہ کہیں دبک کر سو رہے تھے ویسے بھی بھی شدید سردیوں کا موسم تھا اوپر سے رات کے 12 بج رہے تھے------ رہی سہی کسر طوفانی بارش نے پوری کردی تھی......
نو جوان سیاہ رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا---- بال بکھرے ہوئے تھے----- شیو ہلکی بڑھی ہوئ تھی ----- سوٹ میں زرہ بھی شکن نہیں تھی لیکین اس نے اسے بے ترتیبی سے پہن رکھا تھا شرٹ کے اگلے دو بٹن کھلے تھے ٹائ ڈھیلی ہو کر گلے میں جھول رہی تھی چہرے کا رنگ سفید تھا مگر اس میں پیلاہٹ شبہ ہوتا تھا آنکھوں کے گِرد سیاہ ہلکے تھے اور آنکھیں ایسے سُرخ تھی جیسے وہ کافی دنو سے نا سویا ہو مجموعی طور پر وہ کافی ہینڈسم نوجوان تھا اس نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکال کے اس میں سے سگریٹ نکالی اور لائٹر کی مدد سے سگرٹ سلگائ اور سوٹ کیس اٹھا کے بارش کی پرواہ کیے بغیر چل پڑا.....
سڑک پر ہوکا عالم طاری تھا اور سڑک کے کنارے سرچ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے رستہ دیکھنا کسی عام آدمی کے لیے کافی مشکل تھا لیکین وہ اس طرح کے حالات کا عادی معلوم ہوتا تھا اس لیے بے فکری سے سگریٹ پھونکتے چلا جارہا تھا......
بادلو کی چمک سے کبھی کبھی ماحول روشن ہوجاتا پھر گھپ اندھیرا چھا جاتا تھا وہ تیز بارش اور سردی کی شدت کو یوں ہی نظر انداز کیے چلا آرہا تھا جیسے یہ سب معنی نا رکھتی ہوں......
تین کلو میٹر یونہی پیدل چلنے کے بعد وہ ایک بڑے بیت بڑے بنگلے کے گیٹ پر پہنچا """براؤن ولا""" اس نے گیٹ پر لگی تختی کو زیرلب پڑھا اور سگرٹ کا آخری کش لگا کے پھینک دیا اور گیٹ پر لگی بیل بجائ تو چند لمحوں بعد ایک گارڈ نے باہر جھانکا.....
کون ہو تم......؟ گارڈ نے سختی سے پوچھا مگر نوجوان نے کوئ جواب نا دیا کیونکہ وہ نئ سگریٹ سلگانے میں مصروف تھا...
میں نے پوچھا کون ہوتم......؟ گارڈ نے اور سختی سے پوچھا....
"""""جان ویک"""""" نوجوان نے بے فکری سے دھواں اڑاتے ہوا کہا... جو بھی ہو جاؤ یہاں سے ناجانے کہاں کہاں سے آجاتے ہیں---------- گارڈ نے کہا اور گیٹ بند کرنا چاہا مگر گیٹ بند نا ہوا تو گارڈ نے حیرت سے نوجوان کو دیکھا جس نے گیٹ کے درمیان پاؤں رکھ دیا تھا.....
اتنی بھی کیا جلدی ہے میرے دوست"""""" نواجوان نے مسکرا کے کہا اس سے پہلے کے گارڈ اسے کوئ جواب دیتا اندر سے ایک خوش شکل نوجوان باہر نکلا ------- کہیں آپ جان ویک تو نہیں ہیں .......؟ نوجوان نے سوالیہ انداز میں پوچھا.... تو کیا مجھ سے پہلے بھی اس نام کا کوئ آدمی یہاں آیا تھا----- جان نے سگرٹ کا گہرا کش لگاتے ہوئے کہا....
اوہ سوری میں آپکو پہچان نی پایا آپ پلیز اندر آجائیں----- باہر آنے والے والے نوجوان نے شرمندگی سے کہا اور جان کو لیے ہوئے اندر داخل ہوا..... آپ نے آپنے آنے کی آگر اطلاع کر دی ہوتی تو میں خود آپ کو لینے اسٹیشن پہنچ جاتا آپکا کوئ فون نمبر بھی نہیں تھا ساتھ والے گرجا گھر کے فادر کے کہنے پر ہم نے شہر کے چرچ کو آپ کے نام خط لکھا ویسے حیرت ہے آپ ٹیکنالوجی کے اس دور میں میں بھی موبائل فون نہیں رکھتے-------- نوجوان نے حیرانگی سے کہا....
ہاں مجھے نفرت ہے اس چیز سے جو انسان کا سکون برباد کرے....
جاری ہے
2 notes · View notes
warraichh · 2 years
Text
*سپین پر مسلمانوں کا قبضہ ایک طلسماتی پیشن گوئی پر مبنی اچھوتی تحریر !!*
قدیم یورپ میں جادو اور طلسمات کا راج افریقہ سے بھی بڑھ کر تھا اور یہ نہایت منظم ادارہ تھا جسے سرکاری حمایت حاصل تھی‘ بالخصوص رومی سلطنت کے دور میں خود حکمران طلسم کی مدد لیا کرتے تھے۔
مسلمانوں نے شمالی افریقہ سے یلغار کر کے سپین کا بیشتر علاقہ فتح کر لیا اور طویل عرصے تک یہ علاقہ ’اندلس‘ کی شکل میں اسلامی دنیا کے نقشہ کا اہم حصہ رہا۔ اندلس نام کا صوبہ آج بھی سپین میں موجود ہے۔ اندلس اصل میں وندولیزیا کی عربی شکل تھا۔ سپین کی فتح کا جب بھی ذکر آتا ہے ٹولیڈو (عربوں کے زمانے میں اس شہر کا نام طلیطلہ رکھ دیا گیا تھا) کے طلسم کا ذکر ضرور آئے گا۔
یہ طلسم یورپ میں بہت مشہور رہا ہے اور ہر انگریزی اور اسلامی تاریخ میں اس کا ذکر تواتر کے ساتھ آیا ہے۔ سائنسی ذہن اس کہانی کو درست نہیں مانتا مگر اس سوال کا بھی کوئی جواب ممکن نہیں ہے کہ مسلمان اور عیسائی دونوں طرف کے مورخین نے اس کہانی کو اتنے تواتر کے ساتھ کیوں بیان کیا ہے۔ بہرحال کہانی کچھ یوں ہے:::
رومیوں کے عہد میں یہاں ایک بڑی عمارت پہاڑوں پر قائم تھی جس کے جلے ہوئے آثار آج بھی موجود ہیں۔ بادشاہ راڈرک نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو ا سے پتہ چلا کہ رومیوں نے اس عمارت میں ایک طلسم قائم کر رکھا تھا جسے دنیا کی نظروں سے اوجھل کرنے کا زبردست اہتمام تھا۔ ایک دن ا یسا ہوا کہ بادشاہ راڈرک کے دربار میں دو نہایت عمررسیدہ بوڑھے نمودار ہوئے۔ انھوں نے زمانہ قدیم کا لباس پہن رکھا تھا اور سفید قباﺅں کے ساتھ اپنی کمر پر پراسرار قسم کے پٹکے باندھ رکھے تھے اور ان پٹکوں پر بارہ برجوں کو نقش کیا گیا تھا۔ چابیوں کے کئی گچھے بھی ان پٹکوں سے لٹک رہے تھے۔
ان بوڑھوں نے بادشاہ کو بتایا کہ ہرقل اعظم نے قدیم شہر کے قریب جو مضبوط برج بنا رکھا ہے اس میں ایک طلسم بند ہے۔ برج کا راستہ بڑے وزنی پھاٹکوں سے روکا گیا ہے جن میں بڑے بڑے تالے لگے ہیں ہر نئے تخت نشین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان میں اپنے تالے کا اضافہ کرے اور یہ بھی بتایا کہ جو بادشاہ اس طلسم کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا‘ وہ تباہ ہو جائے گا۔ ا نھوں نے کہا کہ ہم نسل درنسل اس طلسم کے محافظ ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ جس نے بھی اس طلسم کو افشا کرنے کی جستجو کی برباد ہو گیا۔
اے بادشاہ! آپ سے عرض ہے کہ آپ بھی اپنے پیشروﺅں کی طرح اس طلسم پر اپنا قفل ڈال دیں۔ بوڑھے اپنی مفروضات بیان کر کے چلے گئے لیکن راڈرک کو بے پناہ اشتیاق میں مبتلا کر گئے۔ ا س نے طے کر لیا کہ وہ یہ طلسمی راز دریافت کرے گا۔ اہل دربار نے اسے بہت ڈرایا لیکن اس کی ضد قائم رہی۔
ایک روز راڈرک اپنے مصاحبین کے ہمراہ برج کی پہاڑی کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک بہت اونچی پہاڑی ہے جسے چاروں طرف سے اونچی نیچی چٹانوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے گویا اس کی حفاظت کر رہی ہیں۔ اس پہاڑی کے اوپر زمرد اور سنگ مر مر سے بنا ہوا ایک پرانا لیکن خوبصورت برج قائم ہے جس پر بڑی کاریگری سے طرح طرح کے نقوش کندہ کیے گئے ہیں۔ یہ نقش سورج کی کرنوں میں چمک رہے تھے۔
انھوں نے دیکھا کہ پتھر کاٹ کر ایک راستہ بنایا گیا ہے جس پر ایک بڑا پھاٹک لگا ہوا ہے اور اس پھاٹک پر وہ سارے تالے لٹک رہے ہیں جو اپنے اپنے دورِ حکومت میں سارے بادشاہ اس پر لگاتے رہے ہیں۔ ان میں راڈرک سے پہلے کے آخری رومی فرمانروا کا تالا بھی تھا۔ راڈرک نے حیرت سے دیکھا کہ پھاٹک کے دونوں طرف عمر رسیدہ بوڑھے بھی موجود تھے جو اس دن دربار میں آئے تھے۔ راڈرک نے انھیں تالے کھولنے کا حکم دیا۔
شاہی حکم سے مجبور دونوں بوڑھوں نے تالے کھولنے شروع کیے۔ سورج غروب ہو رہا تھا جب سارے تالے کھل گئے تو پھاٹک سے اندر جا کر راڈرک نے دیکھا کہ ایک بڑا کمرہ ہے۔ وہ اس کمرے میں داخل ہوا جس کی دوسری طرف ایک دروازہ تھا اور اس دروازے کے پاس ایک مجسمہ اس طرح کھڑا تھا گویا پہرہ دے رہا ہے۔ اس مجسمے کے ہاتھ میں ایک بڑا فولادی گرز تھا اور بت کے سینے پر لکھا تھا: ”میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔“راڈرک نے نہایت خوف کے عالم میں دیکھا کہ مجسمہ گرز کو بار بار زمین پر مار رہا تھا۔
راڈرک ہمت کرکے مجسمے سے مخاطب ہوا۔” میں اندر کسی قسم کی بے ادبی کی نیت سے نہیں جا رہا‘ مجھے جانے دو‘ میں صرف راز دریافت کرنا چاہتا ہوں۔“ اس کی یہ التجا سن کر گرز رُک گیا بادشاہ مصاحبین سمیت اندر داخل ہو گیا۔ اندر ہر طرف ہیرے اور جواہرات بکھرے پڑے تھے اور درمیان میں ہر قل اعظم کی نصب کردہ میز رکھی ہوئی تھی۔ میز پر ایک صندوقچہ رکھا تھا جس پر لکھا تھا: ”اس میں برج کا راز ہے۔ بادشاہ کے سوا کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے لیکن اسے خبردار رہنا چاہیے کہ جو کچھ اس پر ظاہر ہو گا وہ اس کی موت سے پہلے پہلے ضرور ہو کر رہے گا۔“
اب پیشگوئیوں کا ایک سلسلہ اس کا منتظر تھا جن کی شکل تحریری نہیں بلکہ عملی تھی۔ یعنی ایک فلم اس کے سامنے چلنے والی تھی۔ راڈرک نے صندوقچہ کھول دیا۔ اندر سے صرف ایک چمڑا نکلا جس پر گھڑسواروں کی تصویریں نقش تھیں۔ اوپر لکھا تھا۔
” اوبے لحاظ! دیکھ یہ وہ لوگ ہیں جو تجھے تیرے تخت سے نیچے پٹخ دیں گے اور تیرے ملک پر قابض ہو جائیں گے۔“ یہ فقرہ پڑھ کر بادشاہ نے جو دوبارہ ان تصویروں کو دیکھا تو یکایک یوں لگا جیسے وہ جنگ کے میدان میں ہے۔ روشنی دھندلا گئی اور اس دھندلکے میں ایک مدھم سا منظر اسے نظر آنے لگا۔ تصویروں والے آدمی حرکت میں آگئے تھے۔
چمڑے کا مختصر ٹکڑا ایک وسیع میدانِ جنگ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ایک طرف سپین کے عیسائی تھے تو دوسری طرف شمالی افریقہ کے مسلمان۔ گھوڑوں کے دوڑنے اور ہتھیاروں کے چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں‘ میدانِ حشر برپا ہو گیا تھا۔ تلواریں اور گرز چمک رہے تھے۔ یہ فلم کب تک چلتی رہی‘ بادشاہ اور اس کے مصاحبین کو ا س کا کچھ ہوش نہ تھا۔ انھیں آخری منظر یہ نظر آیا کہ مسلمانوں کی فوج نے عیسائیوں کو شکست دے دی تھی۔ فتح کے نعرے گونج رہے تھے اور شکست خوردہ فوج کا ایک سوار تاجِ شاہی پہنے بھاگ رہا تھا۔ اس سوار کا چہرہ دوسری طرف تھا‘ بھاگتے بھاگتے وہ گھوڑے کی پیٹھ سے گرا‘ پھر سارا منظر غائب ہو گیا۔
بادشاہ راڈرک اور اس کے مصاحبین پر یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اتنا خوف طاری ہوا کہ وہ وہاں سے اندھا دُھند بھاگ نکلے۔ لیکن وہ جونہی کمرے سے باہر نکلے ایک حیرت ان کا انتظار کر رہی تھی۔ نگران مجسمہ اپنے گرز سمیت وہاں سے غائب تھا اور ایک طرف دونوں بوڑھوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں جو اس پراسرار برج کے رکھوالے تھے اور جن کے پاس اس برج کے دروازے پر لگے ہوئے مختلف حکمرانوں کی طرف سے لگائے گئے تالوں کی چابیاں تھیں۔ وہ بھاگتے چلے گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پہاڑ کو آگ لگی ہوئی تھی‘ پتھر جل جل کر چٹخ رہے تھے اور اچھل اچھل کر ادھر اُدھر گر رہے تھے۔ راڈرک اوراس کے ہمرا ہی دوڑتے ہی چلے گئے یہاں تک کہ واپس اپنے محل تک آپہنچے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بعد میں جو کچھ ہوا، وہ اس ’فلم‘ کے مطابق ہی ہوا جو راڈرک کو دکھائی گئی تھی۔ فلم میں جس گھڑ سوار کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا وہ خود راڈرک تھا۔ شکست کھانے والی فوج اسی کی تھی مسلمانوں نے جنگ جیت لی اور اس علاقے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ وہ یہ ’فلم‘ نہ دیکھتا تو بھی وہی کچھ ہوتا جو ہوا۔ تو بوڑھے دربانوں کی اس بات کاکیا مطلب تھا کہ جو اس طلسم کو کھولے گا وہ تباہ ہو جائے گا کیونکہ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ جو طلسم نہیں کھولے گا وہ بچ جائے گا۔ کیا اس کی تشریح کی جا سکتی ہے کہ راڈرک کے لیے جس طرح شکست مقدر تھی اسی طرح طلسم کھولنے کی اس کی کوشش بھی اس کا مقدر تھی؟
(نوٹ…. اندلس کو ۱۱۷ء میں طارق بن زیاد نے فتح کیا۔ طارق بن زیاد نے اپنے لشکر کو سمندر پار کرتے ہی تمام کشتیاں جلا دینے کا حکم دیا تاکہ اس کے سپاہی واپسی کی راہ بند دیکھ کر ہر قیمت پر فتح حاصل کریں۔ جس جگہ پر اس کا لشکر اُترا اسے بعد میں جبل الطارق کا نام دے دیا گیا۔ طارق کی جنگ اندلس کے حکمران راڈرک سے ہوئی۔ راڈرک کا تعلق گاتھ قوم سے تھا۔
راڈرک اور طارق بن زیاد کے درمیان یہ فیصلہ کن جنگ جھیل لاجنڈا کے قریب وادی برباط یا وادی بکر کے کنارے ہوئی تھی۔ اس جنگ میں راڈرک کو شکست ہوئی اور طارق کی فوج نے قرطبہ اور ٹولیڈو (طلیطلہ) پر قبضہ کر لیا۔ اندلس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس ملک کے جنوبی حصے پر ایک یورپی قوم ونڈال کی حکومت رہی تھی۔ انھوں نے اس علاقے کا نام وندا لیزیا رکھ دیا تھا۔ عربوں نے اسے اندلس پڑھا۔ ۲۹۴۱ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد عیسائی اندلس کا نام سپین رکھا گیا‘ لیکن جنوبی حصے کا نام اب بھی اندلس یا اندلیب ہے۔)
0 notes
diyazee · 4 years
Text
خدیجہ ۔۔میری جان
ماضی کے بہت سے لوگ افسانے بن کر انگلیوں سے لپٹے جاتے ہیں ۔مگر تمام کو کاغذ پہ منتقل کرنے کیلئے وقت کی اعلی ظرفی کے ساتھ ساتھ وہ وصف چاہئے ہوتا ہے جو مجھ میں کیا میری پوری جنس میں نایاب ہے اور جسے اہل زبان مستقل مزاجی کہتے ہیں ۔۔ اور مادری انداز میں ہم اسے ” پکا ڈھیٹ ” کہہ کر طفل تسلی میں ملبوس رہتے ہیں کہ یہ یقینا کوئی منفی وصف ہے ۔۔جس کا ہم میں موجود نا ہونا شکر کا باعث ہے ۔۔انگور اس طریقے سے کھٹے کرتے ہیں کہ مجال ہے جو کبھی چکھنے کی بھی طلب جاگے ۔۔ لیکن کچھ لوگ کبھی کبھار اس پیار سے سامنے بیٹھ کے مسکرا دیتے ہیں کہ نا چاہتے ہوئے بھی لکھنا پڑتا ہے ۔۔۔ کچھ عرصہ قبل کسی سلسلے میں لاہور جانا ہوا تو ایک دور کے رشتہ دار کے گھر مختصر قیام کیا ۔۔ جن سے صرف نام کی حد تک واقف تھی اور چند ایک بار رسمی گفتگو ہوئی تھی ۔ گھر میں داخل ہوتے وقت ذہن میں یہ نقشہ تھا کہ ایک ادھیڑ عمر سے باوقار چچا، جو ناک پر عینک رکھ کر ہوں، ہمممم۔۔۔ہاں جیسے جوابات دیں گے ۔۔ اور ایک مغرور ادھیڑ عمر عورت ہوگی جو کہ رسمی سلام کے بعد شاید مجھے نظر ہی نا آئے ۔ اس تصور کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے گھروں میں انکا جب ذکر ہوا ، منفی انداز میں ہوا ۔۔ صرف ایک ماموں تھے ، جو ان سے رابطے میں تھے اور وہی مجھے بتاتے تھے کہ تمہارے بچپن میں لاہور والے انکل سلیم تمہیں سب بچوں سے الگ رکھتے اور شفقت کے بجائے محبت سے پیش آتے تھے ۔اور میری یادداشت تعلقات کے معاملے میں بالکل قابل بھروسہ نہیں ہے ۔اسلئے میں ہمممم۔۔۔جی جی کہہ کر سنتی رہتی ۔انکا ذکر کرتے ہوئے ماموں کے لہجے میں حلاوت گھل آتی ، اور باقی سب اکتا کر ایسے تاثرات دیتے کہ” لو ہو گیا جے شروع ” ۔۔ کہا جاتا تھا کہ یہ میاں بیوی بہت مغرور اور بدتمیز مشہور ہیں ۔۔ شادی کے کچھ عرصے بعد جو جوائنٹ فیملی سے نکلے، پھر خوشی غمی کے علاوہ کبھی مڑ کر نہیں دیکھا ۔۔ خاندان بھر میں کسی سے رابطہ نہیں؛ کوئی فون کرتا یا ملاقات کو جاتا اور اسے اپنی مصروفیت اس طرح جتاتے کہ وہ خود پیچھے ہٹ جاتا ۔ ۔ ۔ ماموں سے جب لاہور کا تذکرہ کیا تو فورا موبائل نکال کر کہنے لگے ” لکھ نمبر ۔۔۔ تیرے ماموں سلیم ہیں نا وہاں !! اٹھارہ سیکنڈ تک تو مجھے یاد ہی نہیں آیا کہ کون سلیم؟ اور جب یاد آیا تو انکار کا وقت نہیں تھا ۔۔کیونکہ وہ کال ملا چکے تھے ۔۔حد ہو گئی! نا جان نا پہچان ۔۔۔لیکن میرے انکار میں اصرار اسلئے نہیں تھا کہ کہیں نا کہیں میں بھی ان لوگوں سے ملنا چاہتی تھی اور اب تو اتفاقا موقع بھی تھا دستور بھی ۔۔ دروازہ ایک ادھیڑ عمر عورت نے کھولا جو سلام لینے کے بعد اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرکے مڑ گئی ۔۔۔ مجھے کمرے میں پہنچانے کے بعد اس نے مجھے سر سے لیکر پیروں تک دیکھا ۔ کمرے میں ایک طرف سنگل بیڈ پر خوبصورت کڑھائی والی چادر بچھی ہوئی تھی اور اسکے دائیں طرف دیوار میں نصب بڑی سی الماری تھی جس کے خانوں میں ترتیب سے پڑی کتابوں نے میری توجہ فورا کھینچ لی ۔۔ اسکے سامنے چند کرسیاں ترتیب سے لگیں تھی ۔کمرے کے دو کونوں میں خوبصورت گملے پڑے ہوئے تھے اور درمیان میں قالین کا ایک خوبصورت ٹکڑا تھا ۔ یہ عورت جو بھی تھی ، مجھے الماری کی طرف بڑھتا ہوا شوق سے دیکھ رہی تھی ۔اور میں ذہن میں وقت کا حساب لگا رہی تھی کہ مجھے کتنی دیر کا کام ہے اور کتنی دیر میں اس کمرے میں گزار سکتی ہوں ۔ مجھے یہ تو علم تھا کہ مسز سلیم اب سے تین گھنٹے تک موجود نہیں ہوگی کیوں کہ وہ کالج میں لیکچرار تھیں ۔۔ انکی واپسی تک میں فریش ہوکر کچھ وقت اس الماری کے ساتھ گزار سکتی تھی ۔۔ لٹل وومین، وار اینڈ پیس، تنہائی کے سو سال ۔۔۔ پہلے خانے میں ادبی تخلیقات ترتیب سے پڑی ہوئی تھیں۔ دوسری شیلف میں فارسی شعراء کی کتب ۔۔ جبکہ آخری خانے میں کاغذات کے کچھ پلندے بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے ۔ میں کرسی پر پرس رکھتے ہوئے الماری کی طرف بڑھی ۔ میں باجی کو بلا کر لاتی ہوں ۔ آپ بیٹھیں وہ کہہ کر باہر جانے کو مڑی ۔۔ باجی؟ انٹی کالج نہیں گئی کیا؟ میں نے پوچھا کولج ؟ وہ حیران ہوئی ۔۔ شاید کسی وجہ سے نا گئی ہو؛ صرف میری وجہ سے تو وہ چھٹی کرنے سے رہیں ۔ میں نے خود ہی سوچ لیا ۔نہیں انہیں مت بھیجنا آپ ۔۔ میں باہر آ رہی ہوں کچھ دیر میں ۔کہہ کر میں واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔ باجی کھانا۔۔۔؟ کھاوں گی ۔۔ساتھ چائے۔۔ وہ سر ہلا کر چلی گئی اور میں نے فریش ہوکر دوپٹہ گلے میں پھیلایا اور ہونٹوں پہ ہلکی سی لپ سٹک کی تہہ جمائی ۔ کمرے سے نکلی تو ایک فٹ بال سامنے آ کر گرا ۔۔اور سیڑھیوں سے ایک سات آٹھ سالہ بچہ بھاگ کر اسے لینے آیا ۔۔ اسے آتا دیکھ میں نے بچوں کو پچکارنے والی مسکراہٹ منہ پر سجا لی ۔۔اور وہ ہیرو تیوریاں چڑھائے فٹ بال اٹھا کر واپس اوپر دوڑ گیا ۔جاتے جاتے اس نے مجھے دیکھ کر سر جھٹکا جیسے کہہ رہا ہو، ” آئی وڈی میڈم ” ۔۔ اور مسکراہٹ جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں دفن ہو گئی ۔۔شکر ہے کسی نے دیکھا نہیں ۔۔ سیڑھیوں کے نیچے ایک دروازہ تھا جہاں سے برتنوں کی آواز آ رہی تھی ۔۔ میں نے اسے کھٹکھٹایا اور اندر داخل ہو گئی ۔۔۔ ارے خدیجہ ، میری جان ۔۔ آپ ؟ آئیے ۔۔ وہیل چیئر پر بیٹھی ایک باوقار عورت نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جیسے مجھے رقص کی پیشکش کر رہی ہو۔ ایک لمحے کیلئے میں گڑبڑا گئی ، وہیل چیئر؟ مغرور آنٹی؟ چلو یہ سب ٹھیک لیکن ہمارے گھروں میں ایسی صورت حال میں گرم جوشی سے سلام لیا جاتا ہے یا گلے ملنا۔۔ یا کندھے پر ہاتھ رکھ کر رخسار کے قریب ایک ہوائی بوسہ ۔۔۔ میں نے ہاتھ انکے ہاتھ میں دیا اور انہوں نے بہت عقیدت سے میرے ہاتھ کی پشت چوم لی ۔۔۔ اور میں کچھ لمحوں کیلئے ساکت ہوگئی ۔ انکے چہرے پر مکمل مسکراہٹ تھی ، جو ہونٹوں کے کناروں کے ساتھ ساتھ آنکھوں کے کناروں پر بھی موجود تھی ۔۔میں ان کے قدموں کے پاس ہی بیٹھ گئی ۔۔۔ کیونکہ کھڑے رہنا تھوڑا آکورڈ محسوس ہورہا تھا۔۔ میرا ہاتھ ابھی بھی انکے ہاتھ میں تھا، اس سے پہلے کسی ملاقات میں ایسا لمحہ کبھی نہیں آیا تھا کہ مجھے علم نا ہو کہ مجھے اب اگلا جملہ کیا بولنا چاہئے۔۔ لیکن ۔۔ کیسی ہیں آپ؟ یہی کہہ سکی میں ۔۔۔ انہوں نے توقع کے برعکس نیچے بیٹھنے سے مجھے نہیں روکا ۔۔اور مسکرا کر دیکھتی رہی۔۔ آپ آئی ہیں مجھ سے ملنے ؟ ٹھہرئے! بلا کر لاتی ہوں۔۔ ماشاء اللہ ۔۔ اس لمحے سے پہلے تک مجھے لگتا تھا کہ یہ ذوق صرف سوشل میڈیا تک محدود رہ گیا ہے ۔۔میں بولی اس لمحےسے پہلے تک مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ کوئی ملاقات مجھے مسکرانے پر مجبور نہیں کر سکتی ۔۔۔ انہوں نے جواب دیا یہ وہیل چیئر ؟ کالج؟ میں اتنی خاص کیوں ہوں؟ سب آپکو مغرور کیوں سمجھتے ہیں؟ بہت سے سوالات پر ضبط کرکے میں نے کھڑے ہوتے ہوئے میز کی طرف اشارہ کیا ۔۔ بہت بھوک لگی ہے ۔۔آئیں! میں مکمل طور پر اس عورت کے حسن اور حسن بیاں کی قائل ہو چکی تھی ۔ ہلکے فیروزئ رنگ کا سوٹ پہنے کندھوں پر شال اور انگلیوں میں چند انگوٹھیوں کے علاوہ کوئی زیور یا میک اپ نہیں تھا ۔۔ لیکن ادھیڑ عمری اتنی مکمل ، اتنی جاذب نظر ۔۔ کھانے کے دوران انہوں نے مجھے اچھے سے کھانے کی تلقین کی اور چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی رہیں ۔۔ جبکہ میں شعوری طور پر انکا موازنہ خاندان کی باقی عورتوں سے کیا ۔۔ خدیجہ میری جان ۔۔ یہ لفظ میری ماں، بہن، خالہ، ساس یا نند۔۔ کوئی بھی سن لیتی تو پہلے ایک زوردار قہقہہ بلند ہوتا پھر مجھے غور سے دیکھا جاتا اور بات مزاح کی طرف مڑ جاتی ۔ایک جملہ یہ دے رہی ۔۔ دوسرا وہ۔۔ صرف میرے لئے ہی نہیں ۔۔کسی کیلئے بھی ایسے الفاظ ہم نے خوامخواہ معیوب بنا دیئے ہیں ۔۔۔ کھانے کے بعد انہوں نے مجھ سے اجازت لی اور کمرے سے نکل کر جانے کسطرف چلی گئیں جبکہ میں چائے کا کپ پکڑ کے اپنے کمرے میں آ گئیں۔ گھر والوں کو پہنچنے کی اطلاع دیکر میں نے ایک کتاب پڑھنے کے لئے نکالی اور اسے پڑھتے پڑھتے سو گئی ۔۔۔ ایک بجے فون سے آنکھ کھلی ۔۔۔ انکل کا فون تھا ؛ ان سے علیک سلیک کرکے انہیں اپنے نکلنے اور شام چھ بجے واپسی کی اطلاع دی ۔۔۔ نکلنے سے پہلے انٹی کو بتانا چاہا لیکن وہ سو رہی تھیں ۔ دروازے سے ہی واپس آ گئی ۔۔شام چھ بجے انکل کی کال آ گئی کہ کہو تو پک کرلوں ۔۔ لیکن اس وقت میری اوبر آ چکی تھی ۔انہیں پریشان نا ہونے کا کہہ کر میں گھر کی طرف چل دی۔ راستے میں سوچتی رہی کہ انٹی کیلئے کوئی تحفہ لوں لیکن کیا؟؟ اس معاملے میں خاصی بدزوق رہی میں ہمیشہ ۔۔ گھر پہنچے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ انٹی کی طبیعت کافی خراب ہوگئی اور انکل آتے ہی انٹی کو لیکر ہسپتال چلے گئے ۔ میں نے بہتیری کوشش کی کہ مجھے ساتھ لے چلیں لیکن مجھے محسوس ہوا کہ ” آپ پریشان نا ہو پلیز ” کہتے ہوئے انکل کا لہجہ ایسا سفاک ہوگیا تھا کہ میں اصرار نا کر پائی ۔۔انکل صبح 6 بجے واپس لوٹے، میں نے فورا چائے چڑھا دی اور انٹی کی خیریت پوچھی ۔ تھکے ہوئے لہجے میں ” ٹھیک ہے ” کہتے ہوئے مجھے لگا جیسے وہ ابھی رو دیں گے ۔میں ان سے بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھی ۔میں وہاں کم از کم ایک دن مزید رہنا چاہتی تھی لیکن ۔۔کوئی وجہ نا ملی اور انہوں نے بھی کوئی وجہ فراہم نا کی ۔۔۔ ویسے بھی میری زندگی اس گھر کے پراسرار ماحول سے بہت الگ تھی ۔۔۔۔میرا کام ہو چکا تھا اور اب مجھے واپس جانا تھا۔ صبح ہوتے ہی میں نے واپسی کی راہ لی اور یہ مختصر ملاقات میرے ذہن پر طویل عرصے کیلئے نقش ہوگئی ۔۔۔۔۔ کچھ دن بعد ماموں سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ سلیم کی شادی کے تیسرے سال ان کے یہاں مردہ بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی اور کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے بھابھی دوبارہ ماں نہیں بن سکتی تھی ۔ بقول انکے ۔۔وہ میاں بیوی اپنی بیٹی کا نام خدیجہ رکھنا چاہتے تھے لیکن وہ کبھی اسے اس نام سے پکار نہیں سکے ۔ اسکے بعد وہ دھیرے دھیرے لوگوں سے دور اور کتابوں سے قریب ہوتے گئے ۔۔یہی وجہ ہے کہ لوگ انہیں مغرور سمجھتے ہیں ۔ یہ سب سنتے ہوئے میری سماعتوں میں انکا لہجہ ٹکرایا ۔۔ خدیجہ میری جان 
#دیازی
Philosophy
0 notes
thetruthnewspk-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
’مجھے خالی کمروں سے چیخوں کی آوازیں آتی تھیں اور۔۔۔‘ سوہا علی خان نے ایسا انکشاف کردیا کہ ان کے پرستار کانپنے لگیں ممبئی(نیوز ڈیسک) فلم انڈسٹری میں یہ باتیں گاہے بگاہے سننے میں آتی رہتی ہیں کہ کسی ڈراؤنی فلم کی شوٹنگ کے دوران کوئی حقیقی خوفناک واقعہ پیش آ گیا۔ یہ باتیں کس حد تک درست ہیں،اس سوال کا جواب بالی وڈ فلموں کے وہ نامور فنکار دے سکتے ہیں جو خود ایسے لرزہ خیز تجربات سے گزر چکے ہیں۔ ممبئی(نیوز ڈیسک) فلم انڈسٹری میں یہ باتیں گاہے بگاہے سننے میں آتی رہتی ہیں کہ کسی ڈراؤنی فلم کی شوٹنگ کے دوران کوئی حقیقی خوفناک واقعہ پیش آ گیا۔ یہ باتیں کس حد تک درست ہیں،اس سوال کا جواب بالی وڈ فلموں کے وہ نامور فنکار دے سکتے ہیں جو خود ایسے لرزہ خیز تجربات سے گزر چکے ہیں۔ اداکارہ سوہا علی خان نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے متعلق بتایا کہ جب وہ ’گینگز آف گوسٹس‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے تو انہیں اور ساتھی اداکارہ ماہی گل کو ایک پرانی عمارت کے خالی کمروں سے پراسرار آوازیں سنائی دینے لگیں۔وہ جگہ ویران تھیں مگر خالی کمروں سے چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں جس کے باعث ہر کسی پر خوف طاری ہو گیا۔ سوہا کہتی ہیں کہ بغیر وقت ضائع کئے سارے عملے نے پیک اپ کیا اور ہم وہاں سے نکل گئے۔ کچھ اسی طرح کا واقعہ مشہور اداکار گووندا نے بیان کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ایک دور دراز پہاڑی علاقے کے ہوٹل میں رُکے ہوئے تھے۔ جب اچانک بیدار ہوئے تو دیکھا کہ ایک عورت اُن کے سینے پر بیٹھی تھی۔ گووندا کہتے ہیں کہ اُن کی کمرے کی حالت بھی عجیب و غریب تھی اور یہ اُن کی زندگی کے خوفناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ اداکار ورن دھون کے ساتھ ایک عجیب و غریب واقعہ بیرون ملک شوٹنگ کے دوران پیش آیا۔ وہ ایک ایسے ہوٹل میں قیام پزیر تھے جہاں کسی دور میں آنجہانی امریکی اداکار فرینک سناترا بھی ٹھہر چکے تھے۔ ورن دھون کا کہنا ہے کہ وہ طویل دن کے بعد رات گئے واپس آئے اور جب وہ اپنے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے تو اچانک اس کا دروازہ کھل گیا، جیسے کوئی اندر آیا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس کمرے میں رات گئے فرینک کے گنگنانے کی آوازیں بھی سنائی دیتی رہیں۔ ادکار نواز الدین صدیقی اور بپاشا باسو کو اپنی مشہو رفلم ’’آتما‘‘ کی شوٹنگ کے دورن اسی طرح کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ بپاشا کہتی ہیں کہ ایک سین کی عکس بندی کے دوران انہیں ایک خاتون کے گانے کی آواز سنائی دینے لگی۔ جب ریکارڈنگ دوبارہ چلا کر دیکھی گئی تو اس میں کوئی آواز نہیں تھی۔ اور نواز الدین کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی کچھ کم پراسرار نہیں۔وہ ایک سین کی شوٹنگ میں مصروف تھے کہ جب اُن کے پیچھے دیوار پر لگا فوٹو فریم فرش پر گرکر چکنا چور ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں نہ ہوا چل رہی تھی اور نا کوئی اور ایسی وجہ نظر آئی کہ فوٹو فریم نیچے گرتا، حتٰی کہ وہ کیل بھی اپنی جگہ قائم تھی جس کے ساتھ فوٹو فریم لٹکا ہوا تھا۔
0 notes
ecoamerica · 2 months
Text
youtube
Watch the American Climate Leadership Awards 2024 now: https://youtu.be/bWiW4Rp8vF0?feature=shared
The American Climate Leadership Awards 2024 broadcast recording is now available on ecoAmerica's YouTube channel for viewers to be inspired by active climate leaders. Watch to find out which finalist received the $50,000 grand prize! Hosted by Vanessa Hauc and featuring Bill McKibben and Katharine Hayhoe!
17K notes · View notes
rebranddaniel · 6 years
Text
پی پی رہنما نے اہلیہ کو گولی مار کر خودکشی کی، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ
کراچی: پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی کی پراسرار موت کا معمہ پوسٹ مارٹم کے بعد حل ہوگیا انہوں نے اہلیہ کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کی۔
تفصیلات کے مطابق میر ہزار خان اور اُن کی اہلیہ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اپنی رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائے گئے،  پولیس اور ریسکیو ٹیمیوں نے  دونوں کی لاشیں کمرے کا دروازہ توڑ کر برآمد کیں۔
بعد ازاں دونوں مقتولین کے جسد خاکی کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹر سیمی جمالی کی سربراہی میں میڈیکل ٹیم نے دونوں لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔
ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق پی پی رہنما نے اہلیہ کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کی، فریحہ رزاق کو تین گولیاں لگیں جن میں سے 2 پیٹ پر اور ایک سر پر ماری گئی، سر پر لگنے والی گولی ہلاکت کا سبب بنی جبکہ میر ہزار خان نے کنپٹی پر پستول رکھ کر گولی ماری جو اُن کی موت کا سبب بنی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’دونوں کو انتہائی قریب سے گولی ماری گئی‘، اسپتال انتظامیہ نے پوسٹ مارٹم کے بعد لاشیں لواحقین کے حوالے کردیں جبکہ رپورٹ پولیس کو فراہم کردی۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق دونوں مقتولین کی حتمی رپورٹ پیر کو جاری کی جائے گی تاہم ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آئی کہ صوبائی وزیر نے خودکشی کی اور اہلیہ کو بھی قتل کیا۔
دوسری جانب پی پی کے سینئر رہنما کی موت پر اُن کے آبائی علاقے میں ہنگامے پھوٹ پڑے، مشتعل مظاہرین نے موت کوقتل کرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’واقعے میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کیا جائے‘۔
پولیس نے تفتیش کے لیے ملازمین کو حراست میں لیا اور پوچھ گچھ کے بعد رہا کردیا۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما منظور وسان نے خودکشی کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ میرہزارخان بجارانی شفیق انسان تھے، وہ خودکشی نہیں کرسکتے، تحقیقات کے بعد ہی حتمی بات کی جاسکتی ہے۔
مقتول کے گھر تعزیت کے لیے پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور وزیراعلیٰ سندھ بھی پہنچے۔
The post پی پی رہنما نے اہلیہ کو گولی مار کر خودکشی کی، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2BZu4Tm via Urdu News Paper
0 notes
informationtv · 3 years
Text
کچن سے پراسرار آوازوں کے بعد آدمی نے کچن کی تصویر کھینچ کر انٹرنیٹ پر لگائی تو دیکھ کر انٹرنیٹ صارفین بھی ڈرنے لگے
کچن سے پراسرار آوازوں کے بعد آدمی نے کچن کی تصویر کھینچ کر انٹرنیٹ پر لگائی تو دیکھ کر انٹرنیٹ صارفین بھی ڈرنے لگے
کچن سے پراسرار آوازوں کے بعد آدمی نے کچن کی تصویر کھینچ کر انٹرنیٹ پر لگائی …
Tumblr media
کیپشن:    سورس:   Reddit
Tumblr media Tumblr media
   نیویارک (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ میں ایک آدمی کو اپنے گھر کے کچن سے پراسرار آوازیں سنائی دیں۔ جب اس نے اندر جا کر دیکھا تو ایسا منظر سامنے تھا کہ آدمی سن کر ہی خوفزدہ رہ جائے۔ دی مرر کے مطابق اس آدمی نے جب دروازہ کھولا تو اندر اندھیرے میں ایک عجیب و غریب ہیولا سا نظر آیا جیسے کو…
View On WordPress
0 notes
dani-qrt · 6 years
Text
پی پی رہنما نے اہلیہ کو گولی مار کر خودکشی کی، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ
کراچی: پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی کی پراسرار موت کا معمہ پوسٹ مارٹم کے بعد حل ہوگیا انہوں نے اہلیہ کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کی۔
تفصیلات کے مطابق میر ہزار خان اور اُن کی اہلیہ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اپنی رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائے گئے،  پولیس اور ریسکیو ٹیمیوں نے  دونوں کی لاشیں کمرے کا دروازہ توڑ کر برآمد کیں۔
بعد ازاں دونوں مقتولین کے جسد خاکی کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹر سیمی جمالی کی سربراہی میں میڈیکل ٹیم نے دونوں لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔
ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق پی پی رہنما نے اہلیہ کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کی، فریحہ رزاق کو تین گولیاں لگیں جن میں سے 2 پیٹ پر اور ایک سر پر ماری گئی، سر پر لگنے والی گولی ہلاکت کا سبب بنی جبکہ میر ہزار خان نے کنپٹی پر پستول رکھ کر گولی ماری جو اُن کی موت کا سبب بنی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’دونوں کو انتہائی قریب سے گولی ماری گئی‘، اسپتال انتظامیہ نے پوسٹ مارٹم کے بعد لاشیں لواحقین کے حوالے کردیں جبکہ رپورٹ پولیس کو فراہم کردی۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق دونوں مقتولین کی حتمی رپورٹ پیر کو جاری کی جائے گی تاہم ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آئی کہ صوبائی وزیر نے خودکشی کی اور اہلیہ کو بھی قتل کیا۔
دوسری جانب پی پی کے سینئر رہنما کی موت پر اُن کے آبائی علاقے میں ہنگامے پھوٹ پڑے، مشتعل مظاہرین نے موت کوقتل کرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’واقعے میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کیا جائے‘۔
پولیس نے تفتیش کے لیے ملازمین کو حراست میں لیا اور پوچھ گچھ کے بعد رہا کردیا۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما منظور وسان نے خودکشی کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ میرہزارخان بجارانی شفیق انسان تھے، وہ خودکشی نہیں کرسکتے، تحقیقات کے بعد ہی حتمی بات کی جاسکتی ہے۔
مقتول کے گھر تعزیت کے لیے پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور وزیراعلیٰ سندھ بھی پہنچے۔
The post پی پی رہنما نے اہلیہ کو گولی مار کر خودکشی کی، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2BZu4Tm via Urdu News
0 notes
party-hard-or-die · 6 years
Text
پی پی رہنما نے اہلیہ کو گولی مار کر خودکشی کی، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ
کراچی: پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی کی پراسرار موت کا معمہ پوسٹ مارٹم کے بعد حل ہوگیا انہوں نے اہلیہ کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کی۔
تفصیلات کے مطابق میر ہزار خان اور اُن کی اہلیہ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اپنی رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائے گئے،  پولیس اور ریسکیو ٹیمیوں نے  دونوں کی لاشیں کمرے کا دروازہ توڑ کر برآمد کیں۔
بعد ازاں دونوں مقتولین کے جسد خاکی کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹر سیمی جمالی کی سربراہی میں میڈیکل ٹیم نے دونوں لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔
ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق پی پی رہنما نے اہلیہ کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کی، فریحہ رزاق کو تین گولیاں لگیں جن میں سے 2 پیٹ پر اور ایک سر پر ماری گئی، سر پر لگنے والی گولی ہلاکت کا سبب بنی جبکہ میر ہزار خان نے کنپٹی پر پستول رکھ کر گولی ماری جو اُن کی موت کا سبب بنی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’دونوں کو انتہائی قریب سے گولی ماری گئی‘، اسپتال انتظامیہ نے پوسٹ مارٹم کے بعد لاشیں لواحقین کے حوالے کردیں جبکہ رپورٹ پولیس کو فراہم کردی۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق دونوں مقتولین کی حتمی رپورٹ پیر کو جاری کی جائے گی تاہم ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آئی کہ صوبائی وزیر نے خودکشی کی اور اہلیہ کو بھی قتل کیا۔
دوسری جانب پی پی کے سینئر رہنما کی موت پر اُن کے آبائی علاقے میں ہنگامے پھوٹ پڑے، مشتعل مظاہرین نے موت کوقتل کرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’واقعے میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کیا جائے‘۔
پولیس نے تفتیش کے لیے ملازمین کو حراست میں لیا اور پوچھ گچھ کے بعد رہا کردیا۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما منظور وسان نے خودکشی کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ میرہزارخان بجارانی شفیق انسان تھے، وہ خودکشی نہیں کرسکتے، تحقیقات کے بعد ہی حتمی بات کی جاسکتی ہے۔
مقتول کے گھر تعزیت کے لیے پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور وزیراعلیٰ سندھ بھی پہنچے۔
The post پی پی رہنما نے اہلیہ کو گولی مار کر خودکشی کی، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2BZu4Tm via Daily Khabrain
0 notes
ecoamerica · 2 months
Text
youtube
Watch the 2024 American Climate Leadership Awards for High School Students now: https://youtu.be/5C-bb9PoRLc
The recording is now available on ecoAmerica's YouTube channel for viewers to be inspired by student climate leaders! Join Aishah-Nyeta Brown & Jerome Foster II and be inspired by student climate leaders as we recognize the High School Student finalists. Watch now to find out which student received the $25,000 grand prize and top recognition!
17K notes · View notes