Tumgik
#انحصار
lkiran · 2 years
Photo
Tumblr media
جلال رشیدی کوچی؛ در گفتگو با خبرنگار «ال کا ایران» عنوان کرد: آن طور که رهبر معظم انقلاب فرمودند، تولیدکنندگان لوازم خانگی نتوانستند پاسخ مناسبی به حمایت رهبر بدهند و در واقع افزایش قیمت لوازم خانگی خیانت به حمایت مقام معظم رهبری است. حمایت از تولید لوازم خانگی نباید انحصار تلقی شود و باید در مسیری گام برداریم که این انحصار شکسته شود تا شاهد رشد و پیشرفت تولید داخل در تمامی زمینه ها باشیم. @lk_iran @lk_iran @lk_iran وی گفت: تولیدکنندگان لوازم خانگی به بلوغ نخواهند رسید و در واقع این صنعت در مسیر صنعت خودرو قرار دارد #انحصار #تولید #حمایت #مجلس #نماینده_مجلس #مرودشت #جلال_رشیدی_کوچی #رهبر #رهبری_معظم_انقلاب_امام_خامنه_ای #رهبرانقلاب #رهبري #مجلس_شورای_اسلامی #نماینده #نماینده_مردم #تولیدکننده #تولیدکنندگان #تولیدکننده_ایرانی #افزایش_قیمت #قیمت_لوازم_خانگی #بلوغ #صنعت #صنعت_لوازم_خانگی #صنعت_خودرو (at Tehran, Iran) https://www.instagram.com/p/Cd2odw8tTwl/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
forgottengenius · 3 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
sheeree · 6 months
Text
من التصريحات المهمة بالنسبة لي وسط الحرب اللي قاله نيتانياهو (يجب تغيير السلطة في غزة مع تغيير مناهج التعليم) إصرار إسرائيل على تغيير مناهج التعليم على ما تهواه شئ مُتبع من كل القوى الإمبريالية (آمريكا اول حاجة عملتها بعد احتلال العراق تغيي�� المناهج الدراسية) حصل ده في مصر بالتدريج خصوصا الاصرار على تغيير مناهج الازهر بعد اغتيال السادات وخصوصا في قيادة (محمد سيد طنطاوي) شيخ الازهر، بالمناسبة ده كمان حصل في ليبيا بعد القذافي واميركا بتحاول محاولات مستميتة حاليا لفعل نفس الشيء في اليمن، إغراق الدول بالمدارس الدولية، وخصخصة التعليم، مع انحصار دول الدولة يكون فقط اداري ليس الا، عمره ما هيخلق تعليم كويس، ناهيكم عن تغيير المناهج بالشكل غير المناسب للثقافة العربية ومن ثم للشخصية العربية، عشان يكون التغريب من الداخل، سواء فضلت في بلدك او طفشت!
27 notes · View notes
suhaireideh · 13 days
Text
°°
ما هو هذا السر في الجمال المعشوق، إلا أن عاشقه يدركه كأنه عقل للعقل وما هو هذا الإدراك إلا انحصار الشعور في جمال متسلط كأنه قلب للقلب؟ وما هو الجمال المتسلط بإنسان على إنسان، إلا ظهور المحبوب كأنه روح للروح؟ ولكن ما هو السر في حب المحبوب دون سواه؟
هنا تقف المسألة وينقطع الجواب.
#وحي_القلم🍒
9 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 2 months
Text
کب ہوسکی ہے ان کی سمندر سے دوستی
مٹی کے ان گھروندوں پہ کم انحصار کر
فرصت ملے تو دیکھ مرے دل کے آئینے
آنکھوں سے اپنے کاغذی پردے اتار کر
نوشی گیلانی
8 notes · View notes
autumn041118 · 8 days
Text
لا شيء أصعب من أن تتخلى عنك كل الأشياء التي دفعت عمرك كله ثمناً لتعيش فيها، آه يا أستاذي لو تدري كيف غدت الأمور  غامضة في أفكار لا حد لعمقها، تمنحني فرصة للتأمل إلى البعيد، لكني لن أعيش طويلا، فالأوراق ستنفذ في خسارة الكلمات، تبلغ عمراً كاملاً في الفراغ، أنتهي بينما شخص آخر يفكر في البداية، تعيشني شهوة الضياع في التاريخ، وتلك الحُرقة الهائلة التي تثيرني بالاستسلام للتغريب، أكون عظيمة في انحرافي، لأني غادة الجسور، شديدة كما ينبغي، ضعيفة كما أليق، ثم فجأة صمت، ذلك الصمت الذي تتدفق الكلمات في تفكيري حد السقوط،  يذهب بي زمناً بعيداً حين تقبّل النجومُ أفق المحيط بهدوء الليل، أعاني من الأرق الأبدي، أعاني منك أنت أيها السافل،  أنت تجعلني أرغب في البكاء بصمت، قل متى، قل لي متى نلتقي لأهاجم عليك وأجتاحك بغزوة،  فأنا بيني وبين الأوراق أكرهك، بيني وبيني أرغبك حد الانطلاق إلى مصير مجهول وراء الزمن.
 كل عشق مباغت يقف على حافة المنحدر الشعوري، يا لثورتي المتعاظمة واحتوائي المؤقت، يا لغواياتك يا رجل،  يصعب عليّ فقدان ال��اكرة في انتهاك المشاعر لصفحاتها، أعجز عن تأويل الألغام التي تنفجر بمجرد تماس شيء غامض بي، كنت ضائعة بما لا أدركه، ضياعي بما لن أدركه، عبثاً درست النظرات صمتاً من خلال اللغة، وضغطت  إدركي في حواسي اختلاجاً، ما انتزعت مني الانتظار ولا ارتحت، بي اهتياج  لمبالغة  الحب، وتجاوز  انتقام السلاطين من النسيان العشوائي، تحت تأثير التعلق بالأمكنة في أزمنة التخلي، وأنا في هذا المبتغى امبراطورة متوجة  بوجوم الغرام، بتوق تجاوز  التجلد،  كل لغوبي وارهاقي يأتي حين التفت إلي في غفلة من النجوم، ولا أستطيع الصمت حتى في موتي،  أخر إشارة لإنقلابي وارتدادي عن القتال.
  أعيش في جدلية تدمير الروح بكتمان يكتظ في انخفاضي بين جدران صلبة تضيق على وعي، اصطدم بالفراغ الذي خلفته الأيام الماضية وأنسى دون أن أعرف ما بي، أو ربما  عرفت أعمق مما نسيت، ولكن هل أعود إليك الآن وأنا لم أشفى منك بعد ؟ هل هذا يجعلني أتعلق بك أعمق من هذا الألم؟ بي مس من الاغفال، اضطرب ارتياباً من الترصدات، واحترافاً في المغامرات، تعطيني الحياة طوق الابداع في كل ولادة نبضة، أفيضك  أمواجاً قي الجحيم، أحبك ببطء وأكتبك نصاً محترقاً ، ولا أدري أي غاية تريد أن تبلغها الأشياء، لن أحزن، فأنت خلقت لكي لا يأت، وأنا أبغضك لأنك لست لي. أجمد اللحظات في عيني. أجدني فيها أبداً وأحمي ذلك الانبلاج، لم يعنيني أن أبقى بقدر ما كان يعنيني أن أتنفس بهدوء، ماذا أفعل وكل الأشياء تعيدني إليك؟ وكل الصباحات تبقيك في ذاكرتي؟ كل الهمسات تحاكيك أعمق مما تكون أنت في انحصار الحد الأدنى على الامتداد،  وكل الأشياء التي لا يمكن قولها، تُعرب بزوغاً على صدرك بدون تلفظ، أجدنا علي إيقاع  التانغو منذ العثرة الأولى وندخل في الكلمات صمتاً في نص لم يكن يوماً، أريد اعتراف منك بشي ما انتظره،  كأن أكون أنا أول امرأة اقتحمك حياة وقبلة،  أو أكون أعمق شخص توغلت فيه بألم لن ينسيك إياي، كنت تملك التكتم المباغت عن اعتراف برغبة أكون فيها معك إلى الأبد، أو كان الأمر هكذا بالنسبة لي على الأقل،  أتأمل الأريكة التي كنا جالسين عليها في تلك الليل حتى أغطشنا الظلام والعشق،  كأنني أستعيد شيء منها غاب عني، كذكرى ضائعة بين ألم الفراق، كأننا لم نتغير وتغير زمننا.
ولكن ألم تبقى قبسة من احتدامات لقاءنا الأخير  ما يكفي لأتقاد شمعة لتبقيني على قيد ذاكرتك؟.. ولأني من بعد ذلك المساء ونظرتك الحزينة تلك،  انتهى نبضي  وغمرتني كذبة بين كلمتين، ولأنك كاتب بهذا الحقيقة من الكذب الروائي، أخاف أن يسبقك الموت إليّ ولا تراني في موعد أخر  يسقط فيه تمنعنا ويضيف علينا عمراً يسرقه من عمر المجرة بغتة، أقتلك في داخلي لأموت معك في مواجهة لم يإن ميقاتها، أتأجج بغياب الحب وغيرة الانشغال عني، أين؟ في ظلمتي الداخلية،  أهرب منها على عجل، على غرق، في نهايتها المميتة، في نهايتي أنا،  أنا القاتلة عمداً، الغانية العاشقة بدون قصد، المغوية، المستعصية، يكون التراجع في اصراري مستحيلاً،  يهزمني المطر إليك، أقصدك بدون إدراك، تركض السنين بي ببطء منذ غيابك، أراك تطير كطائر الليل يحط باكياً على ضريحي.  اجتاحك بعدائية صامتة تتهتك فيها مشاعرنا بحقارتك وحياءي  إذا  تحررنا، يكفيني أنك تدري إني أحببتك أنت الذي نطقني أنا في بداية نوفمبر، أقيم فيك كمهاجرة لا أوراق لي، وأن للذكريات  أكاذيب  احداها الكتابة، وكنت أعني أن للكتابة ذاكرة واحد، يعتقلني السرد  في سراديب الرواية، أضيع بينك وبين حقيقتك التي تيقاطع فيها الظل مع الضوء فتوقف فيضان الوقت  حين تنأى عن حضني، كانت مشاعري دوماً تتمرد  على أفكار ترويك بختم ملكي.
2 notes · View notes
moizkhan1967 · 4 months
Text
تم انتظار کے لمحے شمار مت کرنا
دیئے جلائے نہ رکھنا سنگار مت کرنا
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
تمہارے ساتھ مرے مختلف مراسم ہیں
مری وفا پہ کبھی انحصار مت کرنا
تمہیں بتاؤں یہ دنیا غرض کی دنیا ہے
خلوص دل میں اگر ہے تو پیار مت کرنا
ملیں گے راہ میں عاصمؔ کو ہم سفر کئی اور
وہ آ رہا ہے مگر انتظار مت کرنا
3 notes · View notes
dr-hass · 1 year
Text
Tumblr media
{ الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ }
[ سورة طه : 5 ]
مدح- الله سبحانه وتعالى ذاته بقوله:
الرَّحْمنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوى أى: الرحمن- عز وجل- استوى على عرش ملكه استواء يليق بذاته بلا كيف أو تشبيه، أو تمثيل. قال الإمام مالك: الاستواء غير مجهول، والكيف غير معقول، والكيف غير معقول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة. وقد ذكر لفظ العرش في إحدى وعشرين آية من آيات القرآن الكريم. قال بعض العلماء: «أما الاستواء على العرش فذهب سلف الأمة- ومنهم الأئمة الأربعة- إلى أنه صفة لله- تعالى- بلا كيف ولا انحصار ولا تشبيه ولا تمثيل لاستحالة اتصافه- تعالى- بصفات المحدثين، ولوجوب تنزيهه- تعالى- عما لا يليق به: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ وأنه يجب الإيمان بها كما وردت، وتفويض العلم بحقيقتها إليه تعالى.
..
8 notes · View notes
colored-entropy · 1 year
Text
دقة قديمة
يعجبني من التعبيرات الريفية التي نشأت على سماعها طوال الوقت تعبيرُ "أحب على راسك" ولا أعرف ان كان التعبير مستعملا في المدن أم لا. لكني أرجح أنه حتى لو كان مستعملا، فعلى الأغلب سيكون كذلك بي�� الأجيال الأكبر سنا ممن لم تفسد ألسنتُهم من أبناء اليومين دول، أؤلئك الذين أنتمي إليهم بحكم تواريخ الميلاد ولكن أفترق عنهم بحكم مساقط الرؤوس. لو كنت أعرف أن دروس التاريخ والجغرافيا ستعود لي بكامل هندامها في ليلة كهذه لربما انتبهت لها أكثر أيام المدرسة.
المهم أن تعبير "أحب على راسك" يروق لي منذ تأملته أول مرة، وقد بدا لي محصورا في عدة استعمالات ليس من بينها الحب الذي نعرفه نحن أبناء اليومين دول، المؤمنون بالحريات الفردية والعياذ بالله، والمطلعون على السينما الأجنبية بما فيها من أشياء كلها أستخفالالعاظيم. وهذه الاستعمالات التي لاحظت انحصار التعبير فيها كلها تدور في فلك الاستسماح وما في مستواه وعلى شاكلته من حالات. أن تحب على رأس أحد ما، هو أمر يأتي غالبا بعد ارتكابك خطأ في حقه لكنك لا تعرف كيف تقول آسف، أو ربما تعرف لكن أن تحب على رأسه هو أجمل وأرق من مجرد كلمة تُلقى.
وهنا أجمل ما في التعبير وهو أنه ليس مجرد قول يُلقى ولكن فعلا يُفعل، الحب على الرأس هو حرفيا البوس، أي والله البوس، صحيح شغلني السؤال: كيف لثقافة جرّمت على الناس استعمال أجسادهم أن تربط بين الحب والبوس ربطا شرطيا كهذا، حتى لا يبدو واحدهما منفصلا عن الآخر؟ لكن بصراحة أعجبني التويست فلم ألحّ في التساؤل
الغريب أن التعبير نفسه له درجات ومنازل، هكذا تجد الحب على الرأس والحب على اليد والحب على الرِجل. وكل درجة بالترتيب تساوي امعانا في درجة الحالة العاطفية الملازمة للتعبير. فإذا كان الحب على الرأس يعني الاستسماح، فإن الحب على اليد يخرج عن حدود الاستسماح -بما فيه من سلطة نسبية معترف بها للطرفين- إلى حدود الاسترضاء، وقد انحنى المستسمِح أمام المستسمَح، مما ينبىء عن درجة الجُرم المرتكب، أو منزلة الطرفين من الناس والعالم. أما الحب على الرِجل، فيصور مشهد سجود كامل لواحد أمام الآخر، أي والله، لا استسماح ولا استرضاء، بل ذنب ومعصية أمام غفران وعفو.
ما يلفتني من الليلة دي كلها هو احتمال أن تكون المخيلة الشعبية جعلت من الحب طقسا دينيا للغفران، قربانا يُقدم إلى صاحب حضرة بهية حتى لو لم يكن إلها. أن تحب يعني أن ترفع حبيبك ليكون بين مصاف المقدسات عندك حتى لو كان رجلا يأكل الطعام ويمشي في الأسواق. لكن كل هذا كوم وأن تحب فتبوس هو كوم آخر.
يبدو فعلا أن البوس هو شيء مهم جدا، وكنت قد قرأت في زمن غابر معلومة لست متأكدا من صحتها لكنها مناسبة للسياق، تقول أن المصريين الأوائل كانو يبوسون - متخيل يا أستاذ، متخيلة يا أستاذة- عبر حك الأنوف. أي والله، الواحد من أؤلئك يحك أنفه في أنف الواحدة من أؤلاء وهكذا يكون باسها، واحتاج المصريون وقتها لليونان ليعلموهم استعمال الشفايف. وقد نثروا مستعمراتهم في الدلتا من قبل زمن الغزو الفارسي حتى صارت لهم البلد كلها أيام الولد المقدوني الأرعن.
المفارقة - عزيزاي القارئ والقارئة- أننا احتجنا بعد كل هذه القرون لليونان مرة أخرى، ولكن هذه المرة مع أبناء عمومتهم الايطاليين ورجال بيض آخرين، ليبنوا لنا المدينتين الكبيرتين في زمن الحداثة الكولونيالي، عمارة بطرز معمارية مميزة تبدو الآن وكأنها نشاز في جسد المدينة المنهك، لكنها على كل حال وفرت لنا مُكْنات عديدة استطعنا فيها خطف بوسة أو اثنتين، بعيدا عن عيون حراس الفضيلة المزعومة، أؤلئك الذين ورثوا لغة الحب والبوس، لكنهم أجبروا الناس على الانحناء وبوس الأيادي والرجول.
ألوك التعبير "أحب على راسك" بلساني ويبدو لذيذا، وأفكر أن لليونان علينا أياد بيضاء كثيرة، لكن أفكر أيضا أن المدن التي ابتنوها لنا، هي نفسها، ستشهد تراجع الناس في استعمال اللغة اياها، والتعابير القديمة، وسخرية أصحابي مني كلما استعملت معهم تعبير عتيقا، وقد أبدو أمامهم ساعتها، مثل الأستاذ هشام سليم في فيلم الناظر، خارجا من مخزن كتب مترب، حاملا للواء الأصالة والهوية، مع أني والله لا في بالي أصالة ولا يحزنون، وكل ما أريده -أحب على راسكم- هو أن أحب على راحتي، وأبوس على راحتي، بلا خطف ولا استتار.
8 notes · View notes
Text
مقایسه هاست ایران و هاست خارج: مزایا، معایب و انتخاب بهترین گزینه برای وب‌سایت شما
انتخاب یک سرویس هاست برای وب‌سایت خود یکی از تصمیمات مهمی است که باید با دقت و با در نظر گرفتن نیازها و معیارهای مختلف انجام شود. در بازار جهانی، دو گزینه متداول برای هاستینگ شامل هاستینگ ایران و هاستینگ خارجی وجود دارد. در این مقاله، به مقایسه مزایا، معایب و عوامل مهمی که باید در نظر گرفته شوند تا انتخاب بهترین گزینه برای وب‌سایت شما انجام شود، می‌پردازیم.
Tumblr media
۱. مزایا و معایب هاست ایران:
مزایا:
سرعت بالا برای کاربران داخلی: سرورهای هاست ایران به کاربران محلی این امکان را می‌دهند که از سرعت بارگذاری بهتری برخوردار شوند.
پشتیبانی بهتر: به دلیل استفاده از زبان و فرهنگ مشترک، پشتیبانی ممکن است بهتر و موثرتر باشد.
معایب:
کندی سرعت برای کاربران خارجی: سرورهای هاست ایران ممکن است برای کاربران خارجی کندی در بارگذاری داشته باشند.
محدودیت‌های قانونی: محتوای وب‌سایت ممکن است تحت محدودیت‌های قانونی باشد که می‌تواند به انحصار محتوا و یا دسترسی به آن تأثیر بگذارد.
۲. مزایا و معایب هاست خارج:
مزایا:
کیفیت بالا: سرویس‌های هاست خارجی دارای زیرساخت فنی پیشرفته‌تری هستند که می‌تواند امکانات و سرویس‌های با کیفیت‌تری را ارائه دهد.
دسترسی به بازارهای جهانی: انتخاب هاست خارجی به شما این امکان را می‌دهد که به طور مستقیم با بازارهای جهانی در ارتباط باشید و به کاربران بین‌المللی خدمات ارائه دهید.
معایب:
کندی سرعت برای کاربران محلی: فاصله فیزیکی بین سرور و کاربران محلی ممکن است منجر به کندی در بارگذاری وب‌سایت شود.
محدودیت‌های فنی: برخی از سرویس‌های هاست خارجی ممکن است با محدودیت‌های فنی روبه‌رو شوند که ممکن است بر برخی از نیازهای وب‌سایت شما تأثیر بگذارد.
نتیجه‌گیری
تصمیم بین هاست ایران و هاست خارج باید بر اساس نیازها، اولویت‌ها و اهداف وب‌سایت شما گرفته شود. اگر هدف اصلی شما ارائه خدمات به بازار داخلی است و یا سرعت بارگذاری برای کاربران محلی بسیار مهم است، هاست ایرانی ممکن است گزینه مناسبی باشد. اما اگر هدف شما دسترسی به بازارهای جهانی و ارائه خدمات به کاربران بین‌المللی است، هاست خارجی ممکن است انتخاب مناسب‌تری باشد. در هر صورت، مطمئن شوید که تصمیم خود را بر اساس اطلاعات دقیق و مطالعه دقیقی از مزایا و معایب هر دو گزینه بگیرید.
1 note · View note
risingpakistan · 12 days
Text
بیرونی قرضوں پر انحصار سے نجات کیسے؟
Tumblr media
پاکستان اپنے قیام سے ہی غیر ملکی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا آ رہا ہے۔ اس رجحان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کے قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے 90 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ مالیاتی رسک اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005ء کی مقرر کردہ 60 فیصد حد سے بھی زیادہ ہے۔ بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ بیس سال کے دوران قومی ترقیاتی اخراجات کا حجم 20 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آ گیا ہے جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں پر حکومتی سرمایہ کاری مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ترقی کی شرح میں اضافے کیلئے قرض لینے کی پالیسی کے قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بیرونی قرضے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو تجارتی خسارے کو سنبھالنے اور اہم شعبوں کو فنڈ دینے کیلئے مالی معاونت کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اس صورتحال میں نئی حکومت کیلئے جاری معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ مختلف ترقیاتی اشاریوں اور جمع شدہ غیر ملکی قرضوں کے درمیان روابط کا باریک بینی سے تجزیہ کرے۔
اس طرح کی جانچ پڑتال ملک کے معاشی بحرانوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کیلئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے لئے یہ موازنہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت جس معاشی بحران سے دوچار ہے اس کی بڑی وجہ بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم ہے جو معاشی استحکام کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ قومی معیشت پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی آبادی میں ہونے والا تیز رفتار اضافہ بھی ہے۔ اس خطرے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آبادی کے حجم کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ معاشی لحاظ سے پاکستان دنیا میں 46ویں نمبر پر ہے۔ اس کے برعکس امریکہ، چین اور بھارت ناصرف آبادی کے اعتبارسے دنیا کے تین بڑے ممالک ہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی وہ دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ہیں۔ یہ حالات معاشی اور مالیاتی نظم و نسق میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دیگر ترقی پذیر ممالک بھی بیرونی قرضوں کو مالیاتی خسارہ پورا کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ دینے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ قرضے براہ راست اور بالواسطہ طور پر تجارت، افراط زر، شرح مبادلہ، کھپت، سرمایہ کاری، جی ڈی پی کی نمو اور قرضوں کی ادائیگی جیسے معاشی عوامل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
Tumblr media
اس وقت پاکستان جس معاشی بدحالی کے دہانے پر کھڑا ہے اس کا تقاضا ہے کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کر کے فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کرپائیدار ترقی کو فروغ دینے اور قرض کے انتظام کی صلاحیت کو بہتر بنانے پر کام کیا جائے۔ علاوہ ازیں کرنسی کی قدر میں کمی، افراط زر، سیاسی عدم استحکام اور متضاد اقتصادی پالیسیوں جیسے عوامل کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو غیر ملکی قرضوں پر کم انحصار کو ترجیح دیتے ہوئے طویل مدتی قرض کے انتظام کی ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ یہ حکمت عملی موجودہ قرضوں کی ادائیگی، نئے قرضوں کے جمع ہونے کو روکنے اور فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنانے پر مشتمل ہونی چاہئے۔ قرض لینے کی لاگت کو کم کر کے، قرض کی پائیداری کو بڑھا کر، سرمایہ کاروں کے اعتماد و شفافیت کو فروغ دے کر اور اقتصادی ترقی کو سہارا دے کربیرونی قرضوں کو لاحق خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے روایتی عالمی مالیاتی اداروں سے ہٹ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، بین الاقوامی منڈیوں میں بانڈز جاری کرنا، مالی امداد کے متبادل راستے تلاش کرنا مخصوص قرض دہندگان پر انحصار کم کر سکتا ہے۔
چین، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سےنجات حاصل کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں چین کی جانب سے مختلف کرنسیوں میں قرض کے اجراء نے کرنسی کے اتار چڑھاو کے اندیشے کو کم کیا ہے اور سرمایہ کاروں کی منڈیوں کو وسیع کیا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے مختلف کرنسیوں میں بانڈز جاری کرنے سے قرض لینے کی لاگت کم ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے سکوک بانڈز کے اجراء نے اپنے سرمایہ کاروں کی بنیاد کو متنوع بنانے کے لیے اسلامی مالیاتی اصولوں کی تعمیل کرتے ہوئے فنڈنگ کے نئے ذرائع کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ بیرونی قرضوں پر معاشی انحصار کم کرنے کے لیے طویل المدت بنیادوں پر ادارہ جاتی اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی مستقبل کی نسلوں کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے مزید دبانے کے مترادف ہو گی جسے کسی طرح بھی قومی مفاد میں قرار ��ہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ادارہ جاتی اصلاحات کے علاوہ ��یر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر کے اور برآمدات پر مبنی صنعتوں کو فروغ دے کر قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری عملے کی تربیت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے بیرونی قرضوں کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی خوشحالی کا راستہ پیداواری صلاحیت اور برآمدات میں اضافے، توانائی کی لاگت کو کم کرنے اور زراعت میں سرمایہ کاری کرنے میں مضمر ہے۔
کاشف اشفاق 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
online-urdu-news · 16 days
Text
ہندوستان کے صنعتی سامان کی درآمدات میں چین کا حصہ گزشتہ 15 سالوں میں 21 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہو گیا: GTRI
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیلی کام، مشینری اور الیکٹرانکس جیسے چینی صنعتی سامان پر ہندوستان کے بڑھتے ہوئے انحصار کے ساتھ، نئی دہلی سے اس طرح کے سامان کی درآمدات میں بیجنگ کا حصہ گزشتہ 15 سالوں میں 21 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہو گیا ہے۔ اقتصادی تھنک ٹینک گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو (جی ٹی آر آئی) کی رپورٹ کے مطابق چین کے ساتھ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ تشویش کا باعث ہے، اور اس انحصار کے اسٹریٹجک اثرات…
View On WordPress
0 notes
asliahlesunnet · 19 days
Photo
Tumblr media
اسباب اختیار کریں مگر حقیقی بھروسا مسبب الاسباب پر ہو سوال ۲۳: اسباب ووسائل پر بھروسہ اور تعلق قلبی کا کیا حکم ہے؟ جواب :اسباب اختیار کرنے کی کئی اقسام ہیں: پہلی قسم: وہ ہے جو اپنے اصل کے اعتبار سے توحید کے منافی ہے، مثلاً یہ کہ انسان کسی ایسی چیز سے تعلق خاطر یا میلان طبع کے ساتھ وابستگی کا رویہ اپنائے، جس میں کسی تاثیر کا ہونا ممکن ہی نہ ہو مگر وہ اس پر کامل اعتماد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اعراض کر لے جیسا کہ قبروں کے پجاری مصیبتوں کے وقت قبروں میں مدفون مردوں سے مدد مانگتے ہیں، تو ان کا یہ تعامل ایسا شرک اکبر ہے جس کی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے اس طرح کے کسی سبب کو اختیار کرنے والے کے بارے میں یہ حکم واردہوا ہے جو اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے: ﴿اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ، ﴾ (المائدۃ: ۷۲) ’’جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا، اللہ اس پر بہشت کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘ دوسری قسم: بندہ کسی صحیح شرعی سبب پر اعتماد کرے لیکن مسبب الأسباب یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے تجاہل عارفانہ برتے۔ یہ بھی شرک ہی کی ایک قسم ہے۔ لیکن اس اعتقادکی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ اس نے سبب پر بھروسا کیا ہے اور مسبب یعنی اللہ تعالیٰ کو بھول گیا ہے۔ تیسری قسم: سبب پر صرف اتنا اعتماد کرے کہ وہ صرف سبب ہے اور حقیقی بھروسا اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہی پر کرے اور اعتقاد یہ رکھے کہ یہ سبب بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، وہ چاہے تو اسے باقی رکھے اور اگر چاہے تو اسے ختم کر دے۔ اس سبب کا اللہ تعالیٰ کی مشیت میں کوئی اثر نہیں۔ وسیلہ اور سبب اختیارکرنے کے بارے میں بندے کا یہ طریقہ نہ تو اصل کے اعتبار سے توحید کے منافی ہے نہ ہی کمال وتمام کے اعتبار سے ہی اس کی عقیدۂ توحیدپر کوئی زد پڑتی ہے۔ شرعی اور صحیح اسباب موجود ہونے کے باوجود انسان کو چاہیے کہ وہ اسباب ہی پر انحصار نہ کرے بلکہ انحصار صرف اللہ کی ذات گرامی پر کرے، چنانچہ وہ ملازم جس کا کامل اعتماد صرف اپنی تنخواہ پر ہو اور وہ مسبب، یعنی ذات باری تعالیٰ سے غفلت کا شکارہو ، تو یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔ اگر اس کا اعتقاد یہ ہو کہ تنخواہ تو ایک سبب ہے اور مسبب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پاک ہے، تو یہ توکل کے منافی نہیں کیونکہ اسباب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اختیار فرمایا کرتے تھے، جب کہ آپ کا حقیقی اعتماد اور بھروسا صرف مسبب یعنی اللہ عزوجل کی ذات بابرکات پر ہوتا تھا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۶۴، ۶۵ ) #FAI00022 ID: FAI00022 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
jhelumupdates · 2 months
Text
موبائل فون چارج کرتے وقت یہ باتیں یاد رکھیں
0 notes
urduintl · 2 months
Text
سعودی عرب میں ڈریگن بال پر مبنی پہلا تھیم پارک کا اعلان
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ مشہور جاپانی اینی میٹڈ سیریز ڈریگن بال پر مبنی تھیم پارک بنائے گا، جس پر اس سیریز کے مداحوں کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے. اس تھیم پارک کو بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس پارک کے وسط میں 70 میٹر طویل ڈریگن بنایا جائے گا اور اس میں کم از کم 30 جھولے ہوں گے۔ یہ دنیا میں اینی میٹڈ سیریز ڈریگن بال پر مبنی پہلا تھیم پارک ہو گا. تاہم اس اعلان کو چند حلقوں کی جانب سے سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے.سعودی عرب میں ڈریگن بال پر مبنی پہلا تھیم پارک کا اعلان
سعودی عرب اور ڈریگن بال تھیم پارک منصوبے پر تنقید
سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال اور خصوصاً ہم جنس پرست افراد کے حقوق کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا بھی ہے. تھیم پارک کی تعمیم سے تعلق رکھنے والی قدیہ انویسٹمنٹ کمپنی (کیو آئی سی) کے مطابق یہ پارک پانچ لا��ھ مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر محیط ہوگا جو کہ مکمل طور پر سعودی حکومت کے انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت ہے. اس پروجیکٹ پر کام کرنے والی قدیہ انویسٹمنٹ کمپنی اور ڈریگن بال کو بنانے والی جاپانی کمپنی توئی اینیمیشن کی ’طویل مدتی سٹریٹیجک شراکت داری‘ کا حصہ ہیں. اس تھیم پارک کی تعمیر سے منسوب سوالات پیدا ہوئے ہیں جو کہ عوام کی ذہنوں میں خلاف ورزی کا سبب بنسکتے ہیں.
تھیم پارک کی تعمیر سے منسوب سوالات
تھیم پارک کی تعمیر سے منسوب سوالات کا مرکزی حصہ انسانی حقوق کی صورتحال اور ہم جنس پرستی کے حقوق کو لے کر ہوئے ہیں. سوشل میڈیا پر اس منصوبے کی تنقید اس حقیقت کی وجہ سے بڑھی ہے کہ سعودی عرب میں ہم جنس پرستی سزا بخش نہیں مانی جاتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی رپورٹس بھی آتی رہتی ہیں. منصوبے تکنیکی جانب سے تو منظم ہو رہا ہے لیکن سیاسی اور اجتماعی جوانمریاں اس کی تعمیر سے منسوب سوالات کا باعث بن رہی ہیں.
انسانی حقوق کی صورتحال اور خصوصاً ہم جنس پرست افراد کے حقوق کی تسلیم نہ کرنے والی کارروائیوں کے بعد سعودی عرب کا ایک بڑا تفریحی اور سیاحتی منصوبہ قائم کرنے پر سوالات اٹھے ہیں. اسپاتالیٹی اور حقوقی رواسازی کا سیاسی مقصد اس پرکشش پارک کے تعمیر کا حصہ ہونے سے روک رہا ہے. سوشل میڈیا پر موجود غیر مسلم تقاضوں کا متناقص ہونا بھی اسپتالیٹی اور محلوں کی معماری پر سوالات کھڑے کر کے خارج ہو رہا ہے.
یہ تھیم پارک سعودی عرب کا ایک بڑا تفریحی اور سیاحتی منصوبہ ہے جو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قریب تعمیر کیا جا رہا ہے. یہ تفریحی منصوبہ سعودی عرب کی معیشت کو تیل کے علاوہ دیگر ذرائع پر انحصار کرنے کے منصوبوں کا حصہ بن سکتا ہے. اس کے قلم و کاغذ پر تشریعی، اقتصادی اور تجاری ٹیکنالوجی پر پابندیاں پائی جائیں گی جس سے عوام کی تشریعی اور معیاری صلاحیتوں کو بچایا جائے گا. سعودی عرب میں ڈریگن بال کے چند مداحوں نے تھیم پارک کے منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے.
سعودی عرب کی القدیہ انویسٹمنٹ کمپنی کے مطابق یہ تھیم پارک پانچ لاکھ مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر محیط ہوگا جو کہ مکمل طور پر سعودی حکومت کے انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت ہے. مستقبل میں یہ پارک سعودی عرب کے دیگر شہروں میں بھی فراہم کیا جاسکتا ہے. سعودی عربی حکومت کیلئے اس پارک کو تشیعقلاسی عوام کی آمدنی کا ایک میدان بنانے کا مقصد بنایا گیا ہے. اس پارک کا استعمال سعودی عرب کی ریاست میں موجود اراضی کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے رکھا جا رہا ہے.
سعودی عربی حکومت میں طویل الامدادی منصوبہ بنانے کی اسلامی عوام کی خواہش اور تجارتی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے. سعودی عرب میں سونم مرمت کے حصوں کی معیشت کے دیگر زریعوں پر نشوو کاری کی جاتی ہے. سعودی عرب کا یہ رکھ رھا استعمال پوری دنیا پر عکس اند‍از ہوو رھا ہے چونکہ تھیم پارک جہاں پریوو ਹو سکتا ہیو بلاکائٹ عوام کو مورروسم کے زیر اورکرنے کے راستے پروتکشش کرتا ہے چونکہ یہ منصوبوہ برآمد کرنے سے پہلے سعودی عرب اور جاپانی سیاحوں کی زیاده آمدنی دھندن کا سامنا کر رہی ہوتی تھی۔ سعودی عرب کے وزیر الاقتصاد کا یہ کہنا ہے کہ یہ منصوبہ سعودی آرب کی پیسٹیکسوئوز معیشتی پانی کی آمدنی میں ثانوی تجدید کھادیا گئی ہیں.
جہاں ڈریگن بال کے چند مداحوں نے تھیم پارک کے منصوبے کا خیرمقدم کیا ہوا ہے، وہیں سوشل میڈیا پر دیگر افراد نے سعودی عرب میں اس پرکشش پارک کی تعمیر کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے. ان لوگوں نے اس پروجیکٹ کی بابت وزارت کی جانب سے واضع کردہ معیشتی، راجنیتی اورمسافرتی چیزوں کی پابندیوں پر سوالات کھڑے کردیے ہیں. سعودی عرب کے میر منصور بن سلمان کے کہنے پر تھیم پارک تعمیر سے کیمیونٹی کا استعمال مسافرتی چیزوں کو تیل سے متروک کرتا ہے. ڈریگن بال کے چند مداحوں نے بڑے خوشی سے سعودی عرب میں منصوبے کو خیرمقدم کیا ہے.
سعودی عرب کی حکومت کو ایسے خیالات کا خیال کرنا پڑتا ہے کہ ڈریگن بال میٹڈ سیریز کے خالق اکیرا توریاما کی موت کے چند ہفتے بعد سعودی عرب میں اس منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ توریاما کی وفات یکم مارچ کو 68 سال کی عمر میں ہوئی. ڈریگن بال کے ویب سائٹ پر ایک بیان کے مطابق، صرف ان کے خاندان اور بہت کم دوست ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے. دنیا بھر کے مداحوں نے توریاما کو ایسے کردار تخلیق کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جو ان کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں. ڈریگن بال کامک سیریز کا آغاز 1984 میں ہوا. یہ سون گوکو نامی لڑکے کی کہانی ہے جو جادوئی ڈریگن بالز کو اکٹھا کرنے کی جستجو کرتا ہے کیونکہ وہ اسے سپر پاور دے سکتے ہیں. یہ اب تک کی سب سے زیادہ بااثر اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی جاپانی کامکس میں سے ایک ہے.
اس تھیم پارک کی تعمیم سے متعلق یہ اعلان ڈریگن بال کے خالق اکیرا توریاما کی موت کے چند ہفتے بعد سامنے آیا ہے. توریاما کی وفات یکم مارچ کو 68 سال کی عمر میں ہوئی. ڈریگن بال ویب سائٹ پر ایک بیان کے مطابق، صرف ان کے خاندان اور بہت کم دوست ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے. دنیا بھر کے مداحوں نے توریاما کو ایسے کردار تخلیق کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جو ان کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں. ڈریگن بال کامک سیریز کا آغاز 1984 میں ہوا۔ یہ سون گوکو نامی لڑکے کی کہانی ہے جو جادوئی ڈریگن بالز کو اکٹھا کرنے کی جستجو کرتا ہے کیونکہ وہ اسے سپر پاور دے سکتے ہیں.
0 notes
rising-gwadar · 2 months
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
پاکستان چین کا 5 نئی اقتصادی راہداریوں کے لیے کوششیں تیز، ورکنگ گروپ بنانے پر اتفاق_
ان رہداریوں کو 5 ایز فریم ورک سے منسلک کیا جائے گا_ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور چینی سفیر کا ملاقات میں اتفاق
یہ اتفاق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال اور چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ کے درمیان وزارت منصوبہ بندی میں ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی ملاقات میں کیا گیا_
چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے پروفیسر احسن اقبال کو چوتھی بار وزیر منصوبہ بندی کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی_
واضح رہے کہ ان پانچ نئے اقتصادی راہداریوں پر ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جاہے گا ان راہداریوں ملازمتوں کی تخلیق کی راہداری، اختراع کی راہداری، گرین انرجی کی راہداری، اور جامع علاقائی ترقی شامل ہیں_
ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ چین کی وزارت منصوبہ بندی اور قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن (این ڈی آر سی) اور وزرات منصوبہ بندی اقتصادی راہدریوں پر الگ الگ Concept Paper مرتب کریں گے، جو مستقبل میں ہر شعبے کے لیے ایک واضح روڈ میپ فراہم کریں گے_
جبکہ بعدآزں یہ Concept Paper جے سی سی میں پیش کی جاہیں گی_
یاد رہے کہ وزارت منصوبہ بندی نے پہلے ہی 5Es فریم ورک پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جس میں ایکسپورٹ، انرجی، ایکویٹی، ای پاکستان اور ماحولیات شامل ہیں_
وزیر اعظم شہباز شریف کے وژن کے تحت ہر شعبے میں پاکستان کی خوشحالی کو آگے بڑھانے کے لیے یہ فریم ورک پانچ نئے اقتصادی راہداریوں کے ساتھ منسلک کیا جائے گا_
ملاقات میں وفاقی وزیر نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ذریعے پاکستان کی برآمدی صلاحیتوں کو تیز کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کے اندر خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کی کامیابی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا_
انہوں نے ایک "ون پلس فور" ماڈل تجویز کیا، جس کے تحت پاکستان میں ہر SEZ کو چین کے ایک صوبے کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی، SEZs کے اندر خصوصی کلسٹرز تیار کرنے کے لیے ایک صنعتی گروپ، تکنیکی مہارت فراہم کرنے کے لیے چین سے ایک SEZ، اور ایک سرکاری کمپنی کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی_
جبکہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زور اشتراکی فریم ورک پاکستان میں SEZs کے قیام اور ترقی کو تیز کرے گا، ان کی مسابقت اور سرمایہ کاروں کے لیے کشش میں اضافہ کرے گا_
اس موقع پر چین کے سفیر کے سی پیک کے فیز ٹو پر عمل دررامد تیز کرنے پر پاکستان کی کاوشوں کو سراہا_
انہوں نے خصوصی طور پر وفاقی وزیر کی سی پیک کے منصوبوں پر دلچسبیبی لینے اور منصوبوں کو تیز کرنے پر کوششوں کو سراہا_
جبکہ وفاقی وزیر کو خصوصی طور پر مسٹر سی پیک کے لقب سے مخاطب کرتے ہوے کہا چینی قیادت اپکی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے_
مزید براں، پروفیسر احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ SEZs کی کامیابی کا انحصار ان کی مخصوص صنعتوں کے کلسٹر بننے، پیمانے کی معیشتوں کو فروغ دینے، اور جدت اور ترقی کے لیے سازگار ایک متحرک ماحولیاتی نظام کی تشکیل پر ہے_
ملاقات میں بات گوادر پورٹ اور M-8 موٹروے جیسے اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر خصوصی زور دینے کے ساتھ علاقائی روابط بڑھانے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی، جو تجارتی روابط کو مضبوط کریں گے اور علاقائی انضمام کو آسان بنائیں گے_
ملاقات میں وفاقی وزیر نے چینی سفیر کو یقین دلایا کہ حکومت چینی حکام کی سیکورٹی کے کیے بھر پور اقدامات اٹھا رہئ ہے_
1 note · View note