Tumgik
asliahlesunnet · 5 days
Photo
Tumblr media
نبی صلی اللہ علیہ وسلم معوذات پڑھ کر خود کودم کیا کرتے تھے سوال ۲۵: کیا دم کرنا توکل کے منافی عمل ہے؟ جواب :توکل کے معنی یہ ہیں کہ جلب منفعت اوردفع مضرت کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات پر سچا اعتماد کرنا ان اسباب ووسائل کا سہارا پکڑتے ہوئے جن کے اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ توکل یہ نہیں کہ اسباب اختیار کیے بغیر اللہ تعالیٰ پر بھروسا کیا جائے۔ اسباب کے بغیر اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنا، اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی حکمت پر طعن کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسَبَّبَات کو اسباب کے ساتھ مربوط قرار دیا ہے۔ یہاں پر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر سب سے زیادہ توکل کرنے والا کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر سب سے زیادہ توکل کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا نقصان سے بچنے کے لیے آپ اسباب استعمال کرتے تھے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں آپ اسباب استعمال فرمایا کرتے تھے۔ جب جنگ کے لیے تشریف لے جاتے تو دشمن کے تیروں سے بچنے کے لیے زرہیں زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ غزوۂ احد میں آپ نے دو زرہیں زیب تن فرمائیں تاکہ پیش آنے والے خطرات سے بچنے کی تیاری کی جا سکے، تو معلوم ہوا کہ اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے، بشرطیکہ انسان اعتقاد یہ رکھے کہ یہ محض اسباب ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ان میں کوئی تاثیر نہیں، لہٰذا انسان کا پڑھ کر اپنے آپ کو یا اپنے بیمار بھائیوں کو دم کرنا توکل کے منافی نہیں ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معوذات پڑھ کر اپنے آپ کو دم کر لیا کرتے تھے اور یہ بھی ثابت ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیمار ہوتے تو آپ انہیں بھی پڑھ کر دم فرما دیا کرتے تھے۔ واللّٰہ اعلم فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۶۶، ۶۷ ) #FAI00024 ID: FAI00024 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 5 days
Photo
Tumblr media
اسباب اختیار کریں مگر حقیقی بھروسا مسبب الاسباب پر ہو سوال ۲۳: اسباب ووسائل پر بھروسہ اور تعلق قلبی کا کیا حکم ہے؟ جواب :اسباب اختیار کرنے کی کئی اقسام ہیں: پہلی قسم: وہ ہے جو اپنے اصل کے اعتبار سے توحید کے منافی ہے، مثلاً یہ کہ انسان کسی ایسی چیز سے تعلق خاطر یا میلان طبع کے ساتھ وابستگی کا رویہ اپنائے، جس میں کسی تاثیر کا ہونا ممکن ہی نہ ہو مگر وہ اس پر کامل اعتماد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اعراض کر لے جیسا کہ قبروں کے پجاری مصیبتوں کے وقت قبروں میں مدفون مردوں سے مدد مانگتے ہیں، تو ان کا یہ تعامل ایسا شرک اکبر ہے جس کی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے اس طرح کے کسی سبب کو اختیار کرنے والے کے بارے میں یہ حکم واردہوا ہے جو اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے: ﴿اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ، ﴾ (المائدۃ: ۷۲) ’’جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا، اللہ اس پر بہشت کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘ دوسری قسم: بندہ کسی صحیح شرعی سبب پر اعتماد کرے لیکن مسبب الأسباب یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے تجاہل عارفانہ برتے۔ یہ بھی شرک ہی کی ایک قسم ہے۔ لیکن اس اعتقادکی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ اس نے سبب پر بھروسا کیا ہے اور مسبب یعنی اللہ تعالیٰ کو بھول گیا ہے۔ تیسری قسم: سبب پر صرف اتنا اعتماد کرے کہ وہ صرف سبب ہے اور حقیقی بھروسا اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہی پر کرے اور اعتقاد یہ رکھے کہ یہ سبب بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، وہ چاہے تو اسے باقی رکھے اور اگر چاہے تو اسے ختم کر دے۔ اس سبب کا اللہ تعالیٰ کی مشیت میں کوئی اثر نہیں۔ وسیلہ اور سبب اختیارکرنے کے بارے میں بندے کا یہ طریقہ نہ تو اصل کے اعتبار سے توحید کے منافی ہے نہ ہی کمال وتمام کے اعتبار سے ہی اس کی عقیدۂ توحیدپر کوئی زد پڑتی ہے۔ شرعی اور صحیح اسباب موجود ہونے کے باوجود انسان کو چاہیے کہ وہ اسباب ہی پر انحصار نہ کرے بلکہ انحصار صرف اللہ کی ذات گرامی پر کرے، چنانچہ وہ ملازم جس کا کامل اعتماد صرف اپنی تنخواہ پر ہو اور وہ مسبب، یعنی ذات باری تعالیٰ سے غفلت کا شکارہو ، تو یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔ اگر اس کا اعتقاد یہ ہو کہ تنخواہ تو ایک سبب ہے اور مسبب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پاک ہے، تو یہ توکل کے منافی نہیں کیونکہ اسباب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اختیار فرمایا کرتے تھے، جب کہ آپ کا حقیقی اعتماد اور بھروسا صرف مسبب یعنی اللہ عزوجل کی ذات بابرکات پر ہوتا تھا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۶۴، ۶۵ ) #FAI00022 ID: FAI00022 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 5 days
Photo
Tumblr media
اہل سنت والجماعت کے مسلک میں امید اور خوف کے پہلو سوال ۲۱: امید اور خوف کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا کیا مذہب ہے؟ جواب :اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں کہ انسان امید کے پہلو کو مقدم قرار دے یا خوف کے پہلو کو۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خوف اور امید کا پہلو ایک جیسا ہی ہونا چاہیے، خوف کا پہلو امید پر غالب ہو نہ امید کا پہلو خو ف پر غالب ہو۔‘‘ اور انہی سے منقول ہے: ’’اگران دونوں پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو غالب آجائے، تو بندہ ہلاک وبربادہو جائے ۔‘‘ کیونکہ اگر اس نے امید کے پہلو کو غالب کر دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہو جائے گا اور اگر اس نے خوف کے پہلو کو غالب کر دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کا شکار ہو جائے گا۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے: ’’فعل طاعت کے وقت امید کا پہلو غالب ہونا چاہے اور ارادہ معصیت کے وقت خوف کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔ کیونکہ بندہ جب طاعت کا کام کرے گا تو گویاکہ اس نے حسن ظن کے مطابق کام کیا، لہٰذا امید وآس یعنی قبولیت کا پہلو غالب ہونا چاہیے لیکن معصیت کے ارادے کے وقت خوف کا پہلو غالب ہونا چاہیے تاکہ انسان سرے سے معصیت کا ارتکاب ہی نہ کر ے۔ کچھ دوسرے لوگوں نے یہ کہا ہے: ’’تندرست آدمی کے لیے خوف کا پہلو اور مریض کے لیے امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔‘‘ کیونکہ تندرست آدمی پر جب خوف کا پہلو غالب ہوگا تو وہ اسے معصیت سے بچائے گا اور مریض پر جب امید کا پہلو غالب ہوگا تو وہ اللہ تعالیٰ سے حسن ظن کے ساتھ ملاقات کرے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ اس مسئلے میں مختلف حالات میں صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ غلبہ خوف کے وقت جب اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونے کا اندیشہ ہوتو اس کے لیے اس اندیشے کو زائل کر دینا اور امید کے پہلو کو پیش نظر رکھنا واجب ہے اور امید کے پہلو کو غالب قرار دینے کی صورت میں جب اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہونے کا ڈر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوف کے پہلو کو غالب کر دے۔ انسان درحقیقت خود اپنا معالج وطبیب ہے بشرطیکہ اس کا دل زندہ ہو اور جس شخص کا دل مردہ ہو اور وہ اپنے دل کا علاج کر سکتا ہو نہ اپنے دل کے حالات کا جائزہ لے سکتا ہو تو اسے کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی وہ شتر بے مہارہوتا ہے۔ سوال ۲۲: کیا اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی ہے؟ جنگ خلیج کے دوران بعض لوگوں نے اسباب اختیار کیے تھے اور بعض نے انہیں ترک کر دیا تھااورکہنا شروع کردیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں؟ جواب :مومن کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے دل کو اللہ عزوجل کے ساتھ وابستہ کیے رکھے اور جلب منفعت اور دفع مضرت کے لیے ذات باری تعالیٰ پر سچا اعتماد کرے کیونکہ اللہ وحدہ کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ، ﴾ (ہود: ۱۲۳) ’’ا��ر آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم اللہ ہی کو ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا رکھواور جو کچھ تم کر رہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا: ﴿یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ، فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ، وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ، ﴾(یونس: ۸۴۔۸۶) ’’اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اگر (دل سے) فرمانبردار ہو تو اسی پر بھروسا رکھو۔ تب وہ بولے کہ ہم اللہ ہی پر بھروسا رکھتے ہیں، اے ہمارے پروردگار! ہم کو ظالم لوگوں کے ہاتھوں آزمائش میں نہ ڈال اور اپنی رحمت سے قوم کفار سے نجات بخش۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ، ﴾ (آل عمران: ۱۶۰) ’’اور مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا، ﴾ (الطلاق: ۳) ’’اور جو اللہ پر بھروسا رکھے گا تو وہ اس کو کافی ہوگا۔ بلا شبہ اللہ اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کر دیتا ہے، اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ مومن پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب پر، جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے، اعتماد کرے اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھے اور ان شرعی، قدری اور حسی اسباب کو بھی اختیار کرے جنہیں اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کیونکہ خیر کو لانے والے اور شر کو دور کرنے والے اسباب اختیار کرنا بھی اللہ تعالیٰ اور اس کی حکمت پر ایمان لانا ہے اوراسباب ووسائل کا اختیارکرنا توکل کے منافی نہیں ،ذرا دیکھئے تو صحیح! سید المتوکلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شرعی وقدری اسباب اختیار فرمایا کرتے تھے، سوتے وقت آپ سورۂ اخلاص اور معوذ تین پڑھ کر اپنے آپ کو دم کیا کرتے تھے، جنگ میں زرہ پہنا کرتے تھے۔ جب مشرکوں کی جماعتوں نے جمع ہو کر مدینہ منورہ چڑھائی کی تو آپ نے مدینہ کی حفاظت کے لیے اس کے اردگرد خندق کھودی تھی۔ جن اسباب کو انسان جنگوں کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے استعمال کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ان نعمتوں میں شمار کیا ہے جن پر وہ شکر کا مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی داؤد علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿وَ عَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْ بَاْسِکُمْ فَہَلْ اَنْتُمْ شٰکِرُوْنَ ، ﴾ (الانبیاء: ۸۰) ’’اور ہم نے تمہارے لیے ان کو ایک (طرح کا) لباس بنانا بھی سکھا دیا تاکہ تم کو لڑائی (کے ضرر) سے بچائے، پس تم کو شکر گزار ہونا چاہیے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو مکمل، عمدہ اور مضبوط زرہیں بنانے کا حکم دیا کہ اس سے دفاع خوب ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو، جو میدان جنگ سے قریب ہوں اور جنگ کی وجہ سے نقصان سے ڈرتے ہوں، احتیاط کے طور پر ایسے ماسک استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، جو جسم کو نقصان پہنچانے والی گیسوں سے مانع ہوں یا ایسے حفاظتی اقدامات اختیار کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جو زہریلی گیسوں کو ان کے گھروں تک نہ پہنچنے دیں کیونکہ یہ ایسے اسباب ہیں جو خرابی سے بچاتے اور نقصان سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اسی طرح کھانے پینے کی ایسی اشیاء جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جن کے بارے میں انہیں اندیشہ ہو کہ جنگ کی وجہ سے انہیں شاید یہ چیزیں نہ ملیں۔ اندیشہ جس قدر زیادہ قوی ہو احتیاط اسی قدر زیادہ کرنی چاہیے، لیکن واجب ہے کہ اعتماد اور بھروسہ صرف ذات باری تعالیٰ پر ہو۔ مذکورہ بالا اسباب کو اللہ تعالیٰ کی شریعت وحکمت کے تقاضے کے مطابق استعمال کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ یہ عقیدہ نہیں ہونا چاہیے کہ جلب منفعت اور دفع مضرت میں اسباب ہی اصل ہیں اسی کے ساتھ مومنوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کریں کہ اس نے یہ اسباب مہیا فرمائے اور ان کے استعمال کی بھی اجازت عطا فرمائی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو فتنوں اور ہلاکتوں کے اسباب سے محفوظ رکھے اور ہمیں اور ہمارے تمام بھائیوں کو اپنی ذات پاک پر ایمان اور توکل کی قوت عطا فرمائے اور ان اسباب کے اختیار کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے جن کی اس نے اجازت دی ہے، اور پھر ان اسباب کو اسی طرح استعمال کرنے کی توفیق بخشے جس کی وجہ سے وہ ہم سے راضی ہو جائے۔ اسال اللّٰہ لی ولکم العافیہ۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۶۲، ۶۳، ۶۴ ) #FAI00021 ID: FAI00021 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 5 days
Photo
Tumblr media
عبادت کا مقصود تقرب الہٰی اور جنت کا حصول ہونا چاہیے سوال ۲۰: اخلاص کے کیا معنی ہیں اور اگر عبادت سے مقصود کوئی اور چیز ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کا عبادت سے مقصود تقرب الٰہی اور جنت کا حصول ہو اور اگر عبادت سے مقصود کچھ اور ہو تو اس کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ۱۔ عبادت سے مقصود اگر غیر اللہ کا تقرب اور لوگوں کی طرف سے تعریف و توصیف کا حصول ہو تو اس سے عمل ضائع ہو جاتاہے کیونکہ یہ شرک ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ((اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا اَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِی تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ)) (صحیح مسلم، الزہد والرقائق، باب تحریم الریاء ح: ۲۹۸۵۔) ’’میں تمام شرکاء کی نسبت شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں اس نے میرے ساتھ کسی غیر کو بھی شریک کر لیا تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑکر دست بردارہوجاتا ہوں۔‘‘ ۲۔ عبادت سے مقصود اقتدار، منصب یا مال وغیرہ کی دنیوی غرض کا حصول ہو، تقرب الٰہی کا حصول مقصود نہ ہو تو یہ عمل بھی رائیگاں جاتا ہے اور اس کا تصرف انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کا سبب نہیں بنتا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَ ہُمْ فِیْہَا لَا یُبْخَسُوْنَ، اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ، ﴾(ہود: ۱۵۔۱۶) ’’جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں، ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی م��ں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا اور کچھ نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کیے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے، سب ضائع ہوا۔‘‘ اس میں اور پہلی قسم میں فرق یہ ہے کہ پہلی قسم میں مقصود یہ تھا کہ اس کی تعریف کی جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے جب کہ دوسرے شخص کا مقصود یہ نہیں ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، لوگوں کی تعریف کرنے یا نہ کرنے کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں بلکہ اس کا مطمع نظر تقرب الہی کے بجائے کچھ اور ہی ہے جس کاتذکرہ ابھی ابھی کیا جاچکا۔ ۳۔ عبادت سے مقصود تقرب الٰہی کے حصول کے ساتھ ساتھ کوئی دنیوی غرض بھی ہو، مثلاً: عبادت کے لیے طہارت کی نیت کے وقت جسمانی بشاشت اور نظافت کا ارادہ بھی کر لے، نماز ادا کرتے وقت جسمانی ورزش کا بھی ارادہ کر لے، روزے کے ساتھ جسمانی وزن کے کم کرنے اور فضلات کےدور کرنے کا بھی قصد کرلے اور حج کے ساتھ مشاعر اور حجاج کی زیارت کا ارادہ بھی کر لے تو اس سے اخلاص کے اجر میں کمی آجاتی ہے اور اگرچہ غالب نیت عبادت ہی کی ہے تو اس سے کمال اجر و ثواب میں کمی آجاتی ہے لیکن وہ اسے گناہ یا جھوٹ کے ساتھ نقصان مضرت رسانی کا باعث نہ ہوگا کیونکہ حجاج کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ﴾ (البقرۃ: ۱۹۸) ’’اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو۔‘‘ اگر اغلب نیت عبادت کی نہ ہو تو اسے آخرت میں اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، اسے اس کا بدلہ دنیا ہی میں مل جائے گا اور یہ بھی خدشہ ہے کہ وہ اس کے لئے گناہ گار بننے کا باعث بن جائے کیونکہ اس نے عبادت کو، جو اعلیٰ مقصود ہے، حقیر دنیا کے حصول کا وسیلہ کے طورپر اختیارکیا۔ ایسا شخص گویا کہ ان لوگوں کی طرح ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ، ﴾ (التوبۃ: ۵۸) ’’اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں اگر ان کو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہو جاتے ہیں۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک آدمی جہاد کا ارادہ رکھتا ہے مگر جہاد سے اس کا مقصود دنیوی مال کا حصول ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا اَجْرَ لَہُ)) (سنن ابی داود، الجہاد، باب فیمن یغزو ویلتمس الدنیا، ح: ۲۵۱۶ وسنن النسائی، الجہاد، باب من غزا یلتمس الاجر والذکر، ح: ۳۱۴۲۔) ’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘ اس شخص نے اپنے سوال کو تین بار دہرایا ہر بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا: ’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘ صحیحین میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ لِدُنْیَا یُصِیْبُہَا، اَوِ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا، فَہِجْرَتُہُ اِلٰی مَا ہَاجَرَ اِلَیْہِ)) (صحیح البخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدا ء الوحی الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ح:۱ وصحیح مسلم، الامارۃ، باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انما الاعمال بالنیۃ… ح:۱۹۰۷ واللفظ لمسلم۔) ’’جس شخص کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اس طرف ہوگی جس طرف اس نے ہجرت کی۔‘‘ اگر اس کے نزدیک دونوں امر مساوی ہوں یعنی نہ تو عبادت کی نیت غالب ہو اور نہ غیر عبادت کی تو اس کا معاملہ محل نظر ہے۔ زیادہ صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو عمل اللہ کے لیے بھی کرتا ہے اور غیر اللہ کے لیے بھی۔ اس قسم اور اس سے پہلی قسم میں فرق یہ ہے کہ اس سے پہلے قسم میں غیر عبادت کی غرض بالضرورۃ حاصل ہے اور اس کا ارادہ اس کے عمل کے ساتھ بالضرورۃ وجود پذیرہواہے مرادیہ ہے کہ اس نے اس دنیوی امر کا ارادہ کیا جو اس کے عمل کا قدرتی تقاضا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اس قسم میں یہ جاننے کے لیے معیار کیا ہے کہ عبادت کا پہلو زیادہ غالب ہے یا غیرعبادت کا؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ معیار یہ ہے، خواہ حاصل ہو یا نہ ہو کہ عبادت کے سوا اس کا کوئی دوسرا مقصود ہے ہی نہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے عمل میں عبادت کی نیت زیادہ غالب ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو غالب نیت غیر عبادت کی ہوگی۔ بہرحال نیت، جو دل کے ارادے کا نام ہے، کا معاملہ بہت عظیم اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نیت ہی انسان کو صدیقین کے درجے تک پہنچا دیتی ہے اور نیت ہی انسان کو پست سے پست درجے تک گرا دیتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے: ’’اخلاص کی وجہ سے مجھے اپنے نفس کے خلاف جس طرح جہاد کرنا پڑا، کسی اور چیز کی وجہ سے مجھے ایسا جہاد نہیں کرنا پڑا۔‘‘ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اخلاص نیت اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۶۰، ۶۱، ۶۲ ) #FAI00020 ID: FAI00020 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 5 days
Photo
Tumblr media
قبولیتِ دعا کے لیے ضروری شرائط سوال ۱۹: انسان کیونکر دعا کرے درانحالیکہ اس کی دعا تو قبول ہی نہیں ہوتی جب کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اُدْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ ’’مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘ جواب :میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو درست عقیدہ اور صحیح قول و عمل کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ، ﴾ (الغافر: ۶۰) ’’اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا، بلا شبہ جو لوگ میری عبادت سے سرکشی (تکبر) کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘ سائل کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول نہیں فرماتا تو اسے اپنے حال اور اس آیت کریمہ میں اشکال معلوم ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو اس سے دعا کرے گا وہ اس کی دعا کو قبول فرمائے گا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت چند ضروری شرائط کے ساتھ مشروط ہے جو کہ حسب ذیل ہیں: ۱۔ اللہ عزوجل کی ذات پاک کے لیے اخلاص: یعنی انسان دعا میں اخلاص کا ثبوت دے، اللہ تعالیٰ کی طرف حضوری قلب کے ساتھ متوجہ ہو، اس کی جناب میں صدق دل کے ساتھ انابت کرے اور ا�� بات کو خوب جان لے کہ اللہ تعالیٰ دعا قبول فرمانے پر قادر ہے اور پھر قبولیت کی امید کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اوردعاء کی قبولیت کی آس لگاکر رب کریم کے حضور دعاء کرے۔ ۲۔ دعا کرتے وقت انسان یہ محسوس کرے کہ اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے استعانت کی شدید ترین حاجت وضرورت ہے اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے جو مجبور ومضطر کی دعا کو اس وقت شرف قبولیت سے نوازتا ہے جب وہ اس سے دعا کرے اور اللہ ہی ذات ہر تکلیف کو دورکرنیوالی ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح دعا کرے کہ وہ سمجھتا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بے نیاز ہے، اسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات اقدس سے استعانت کی کوئی ضرورت وحاجت نہیں بلکہ وہ صرف عادت اور روٹین کے طور پر دعا کر رہا ہے تو ایسا شخص بھلا کب اس قابل ہے کہ اس کی دعا کو قبول کیا جائے۔ ۳۔ انسان حرام کھانے سے اجتناب کرے، حرام کھانا انسان اور اس کی دعا کی قبولیت کے حاجزبن کر حائل ہو جاتا ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلاَّ طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ تَعَالٰی: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ اشْکُرُوْا لِلّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۱۷۲) ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَائِ: یَا رَبِّ! یَا رَبِّ! وَمَطْمَعُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ، وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فَاَنَّی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ؟)) (صحیح مسلم، الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا، ح:۱۰۱۵۔) ’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز ہی کو قبول فرماتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے، جو اس نے رسولوں کو حکم دیا تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، بے شک میں تمہارے عملوں سے، جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہوں۔‘‘ اور فرمایا: ’’اے اہل ایمان! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ۔‘‘ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس نے لمبا سفر کیا ہے، پراگندہ حال وپراگندہ بال اور غبار آلودگی کے عالم میں آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر کہتا ہے: اے رب! اے رب! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے اور اس کا پینا حرام کا ہے اور اس کا لباس حرام کا ہے اور حرام ہی کے ساتھ اس نے پرورش پائی ہے گویاکہ اس کی بود وباش حرام خوری میں ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو؟‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کی دعا کی قبولیت کو بعید ازقیاس قرار دیا ہے اگرچہ اس نے ان ظاہری اسباب کو اختیارکررکھاتھا جن سے دعا قبولیت حاصل کرتی ہے اور وہ یہ ہیں: ۱۔ آسمان کی طرف یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف دونوں ہاتھوں کا اٹھانا کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمان پر اپنے عرش کے اوپر ہے اور اللہ کی طرف ہاتھ پھیلانا قبولیت کے اسباب میں سے ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ نے ’’مسند‘‘ میں روایت کیا ہے: ((اِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ کَرِیْمٌ یَسْتَحْیِیْ من عبدہ اذارفع الیہ یدیہ أ ن یردھما صفرا))( مسند احمد: ۵/ ۴۳۸ وجامع الترمذی، الدعوات، باب ان اللّٰه حی کریم، ح: ۳۵۵۶، وسنن ابن ماجہ، الدعاء، باب رفع الیدین فی الدعاء، ح: ۳۸۶۵۔) ’’بے شک اللہ تعالیٰ صاحب حیا اور کرم فرمانے والا ہے، وہ اس بات سے عار محسوس کرتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ہاتھوں کو اس کی طرف اٹھائے تو وہ انہیں خالی او ر نامراد واپس لوٹا دے۔‘‘ ۲۔ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اسم پاک ’’رب‘‘ کے ساتھ یا رب! یا رب! کہہ کر دعا کی تھی اور اس اسم پاک کے وسیلے کے ساتھ دعا کرنا بھی اسباب قبولیت میں سے ایک سبب ہے، کیونکہ رب کے معنی خالق، مالک پروردگار اور تمام امور کی تدبیر کرنے والے کے ہیں، اس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں وارد اکثر دعائیں اللہ تعالیٰ کے اسی اسم پاک سے شروع ہوتی ہیں: ﴿رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ، رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَاعَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ، فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ﴾(آل عمران: ۱۹۳۔۱۹۵) ’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا جو ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کردے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا۔ اے ہمارے پروردگار! تو نے جن جن چیزوں کے ہم سے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے وعدے کیے ہیں وہ ہمیں عطا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا، اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ تو خلاف وعدہ نہیں کرتا، تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو، خواہ مرد ہو یا عورت، ضائع نہیں کرتا۔ تم آپس میں ایک دوسرے کی جنس ہو۔‘‘ تو پتہ یہ چلا کہ اس اسم پاک کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنے کا بھی اسباب قبولیت میں شمار ہے۔ ۳۔ یہ شخص مسافر تھا اور سفر کو بھی اکثر وبیشتر حالتوں میں اسباب قبولیت میں ہی شمارکیا جاتا ہے کیونکہ سفر میں انسان اپنے اہل خانہ میں مقیم ہونے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ ضرورت وحاجت محسوس کرتا ہے اور پھر وہ پریشان بال اور غبار آلود بھی ہو، گویا اپنی ذات کی طرف اس کی توجہ نہیں کیونکہ اس موقعہ سے اس کے نزدیک زیادہ اہم بات یہ ہواکرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے فریاد کرے چاہے وہ جس حال میں بھی ہو، اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرے، خواہ اس کے بال پریشان اور اس کا لباس غبار آلود ہو یا وہ آسودہ حال ہو۔ پریشان حالی وغبار آلودگی کا بھی دعا کی قبولیت میں عمل دخل ہے، جیسا کہ نبی کی اس حدیث میں ہے: ((اَتَونِی شُعْثًا غُبْرًا ضاحین من کل فج عمیق)) (صحیح مسلم،کتاب الحج،باب فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ(۴۳۶)۔ میرے بندے میری جناب حاضری دینے کی غرض سے پراگندہ حال اور پراگندہ بال قربانی کا جانور ساتھ لئے ہوئے دوردرزعلاقوں سے چل کر آئے ہیں۔ قبولیت دعا کے یہ سارے اسباب شخص مذکور کے کچھ کام نہ آئے کیونکہ اس کا کھانا حرام کا، لباس حرام کا اور حرام ہی کے ساتھ اس کی پرورش ہوئی تھی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اس شخص کی دعا کیسے قبول ہو؟‘‘ اجابت دعا کی یہ شرائط جب بندے کے پاس پوری نہ ہوں تو قبولیت اس سے کوسوں دور ہو جاتی ہے۔ اگر شرائط پوری ہوں اور اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کی دعا کو قبول نہ فرمائے تو اس میں کوئی ایسی حکمت پنہاں ہوتی ہے، جسے اللہ ہی جانتا ہے مگر دعا کرنے والا نہیں جان سکتا۔ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کر لو اور وہ تمہارے لیے بری ہو، جب قبولیت دعا کی ساری شرطیں موجود ہوں، مگر اللہ تعالیٰ دعا قبول نہ فرمائے تو وہ یا تو اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ کسی بڑی برائی کو اس سے دور فرمانا چاہتا ہے یا اس دعا کو اس کی خاطر قیامت کے دن کے لیے ذخیرہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی وجہ سے وہ اسے زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب عطا فرما دے کیونکہ دعا کرنے والے نے جب دعا کی ساری شرطیں بھی پوری کر دیں، مگراللہ تعالیٰ نے اسے قبول نہ فرمایا اور کسی بڑی برائی کو بھی اس سے دور نہ فرمایا تو ممکن ہے کہ یہ عدم قبولیت کسی حکمت کی وجہ سے ہو، وہ حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دوگنا اجر وثواب عطا فرمانا چاہتا ہو، ایک دعا کرنے کا اجر و ثواب اور دوسرا عدم قبولیت کی مصیبت کا اجر و ثواب بلاشبہ اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے عظیم الشان اور اکمل وأتم ترین اجر و ثواب سے سرفراز فرما ئے گا۔ پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ انسان یہ نہ سمجھے کہ اس کی دعا قبول ہی نہیں ہوتی کیونکہ یہ بات بھی دعا کی عدم قبولیت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یُسْتَجَابُ لَاحَدِکُمْ مَا لَمْ یَعْجَلْ، قالوا کیف یعجل یارسول اللّٰه ؟ قال: یَقُولُ: دَعَوْت ودعوت ودعوتُ فَلَمْ یُسْتَجَبْ لِیْ))( صحیح البخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل، ح: ۶۳۴۰ وصحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب بیان انہ یستجاب للداعی مالم یعجل… ح: ۲۷۳۵۔) ’’تم میں سے اس شخص کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ جلدی بازی سے کام نہ لے (صحابہ کرام نے عرض کیا دعاء میں جلد بازی کا کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ فرمایا کہ بندہ یہ کہتے پھرے کہ میں نے دعاکی میں نے دعاء کی میں نے دعاء کی مگر میری دعا تو قبول ہی نہ ہوئی۔‘‘ لہٰذا انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی وہ قبولیت میں تاخیر سمجھتے ہوئے دعا سے مایوس ہو جائے اورحسرت وندامت کا اظہار کرنے لگے پھرمایوس ہوکر دعاء ترک کر دے، بلکہ اسے چاہیے کہ اصرار و گریہ وزاری کے ساتھ دعا کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کی جانے والی ہر دعا عبادت اور تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ دعا سے اجر وثواب میں بھی اضافہ ہو تا رہتا ہے، لہٰذا اے بھائی! اپنے تمام عام ، خاص، مشکل اور آسان امور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہا کرو۔ اگر دعا کا عبادت ہونے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہ بھی ہوتا تو بھی آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر وقت دعا کرتا رہے۔ واللّٰہ الموفق فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۵۶، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰ ) #FAI00019 ID: FAI00019 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 6 days
Photo
Tumblr media
جن اور انسان کس حکمت کے تحت پیدا کیے گئے؟ سوال ۱۸: جنوں اور انسانوں کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے؟ جواب :اس سوال کا جواب دینے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خلقت اور شریعت کے بارے میں ایک عام قاعدے کی طرف توجہ مبذول کروا دی جائے اور یہ قاعدہ مندرجہ ذیل فرامین الٰہی سے ماخوذ ہے: ﴿وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ، ﴾ (التحریم: ۲) ’’اور وہ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ: ﴿اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا﴾ (النساء: ۲۴) ’’بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘ یہ قاعدہ اس مضمون کی ان بہت سی آیات کریمہ سے ماخوذ ہے جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خلقت وشریعت ،یعنی اس کے احکام کونیہ اور احکام شرعیہ میں حکمت کار فرما ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جس چیز کو بھی پیدا فرماتا ہے اس میں اس کی حکمت کے اسرار پنہاں ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت دونوں صورتوں میں کار فرما ہے ،خواہ اس نے اس چیز کو ایجاد کیا ہو یا معدوم۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شریعت کا جو حکم بھی دیا ہے، خواہ وہ ایجاب کی صورت میں ہو یا تحریم کی صورت میں یا اباحت کی صورت میں ہو یا حرمت کی صورت میں (ان سب میں اس نے کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پو شیدہ رکھی ہے) لیکن یہ الگ بات ہے کہ ان کونی وشرعی احکام کی حکمت ہمیں معلوم ہے یا نہیں یا بعض لوگوں کو ان کے علم و فہم کی وجہ سے اس کا علم ہوتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں سرفراز فرمایا ہے۔ جب یہ قاعدہ معلوم ہوگیا تو ہم عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو عظیم حکمت اور قابل ستائش مقصد کی خاطر پیدا فرمایا ہے اور وہ حکمت ومقصود یہ ہے کہ جن وانس اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی عبادت کریں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ، ﴾ (الذاریات: ۵۶) ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف اورصرف میری ہی عبادت کریں۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ، ﴾ (المومنون: ۱۱۵) ’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَیَحْسَبُ الْاِنسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی، ﴾ (القیامۃ: ۳۶) ’’کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اسے یونہی بے کار چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘ علاوہ ازیں اور بھی بہت سی آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوں اور انسانوں کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی غالب حکمت کار فرما ہے اور وہ یہ ہے کہ جن وانس اللہ ہی کی عبادت کریں۔ اور عبادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے محبت اور تعظیم کے ساتھ عجز وانکسار کا اظہار کیا جائے اور وہ اس طرح کہ اس نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں کیا جائے اور جن کاموں سے اس نے منع فرمایا ہے ان سے اجتناب کیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَمَا اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ﴾ (البینۃ: ۵) ’’اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ یک سو ہو کر اللہ کی عبادت کریں۔‘‘ اسی حکمت کی وجہ سے جن وانس کو پیدا کیا گیا ہے، پھر جو شخص اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سرکشی کرے اور اس کی عبادت کرنے سے تکبر کرے، تو اس کا طرز عمل اس حکمت کے مخالف ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا فرمایا ہے اور اس کے اس فعل سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو گویا عبث پیدا فرمایا ہے گو وہ صراحت نہ بھی کرے لیکن اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اس کے سرکشی اور تکبر کرنے کا یہی مفہوم ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۵۵، ۵۶ ) #FAI00018 ID: FAI00018 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 6 days
Photo
Tumblr media
اللہ کی وحدانیت اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی اسلام کی کلید ہے سوال ۱۶: محترم مفتی صاحب سے سوال کیا گیا کہ آپ شہادتین کی وضاحت فرما دیں؟ جواب :شہادتین یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ دونوں شہادتیں اسلام کی کنجی ہیں۔ ان کے بغیر اسلام میں داخل ہونا ممکن ہی نہیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اس وقت حکم دیا تھا جب آپ نے انہیں یمن بھیجا تھا کہ سب سے پہلے آپ انہیں اس بات کی دعوت دیں کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، آپ نے ان سے فرمایا: ((فَاِذَا جِئْتَہُمْ فَادْعُہُمْ اِلٰی اَنْ یَشْہَدُوا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ)) ( صحیح البخاری، المغازی، باب بعث ابی موسی ومعاذ الی الیمن، ح: ۴۳۴۷ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدعاء الی الشہادتین وشرائع الاسلام، ح:۱۹) ’’پس جب آپ ان کے پاس جائیں تو انہیں اس بات کی دعوت دیں کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ ان میں سے پہلا کلمہ، یعنی اس بات کی گواہی کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘ اس کے ساتھ انسان اپنی زبان اور اپنے دل کے ساتھ اعتراف کرتا ہے کہ اللہ عزوجل کے ساتھ کوئی معبود حقیقی نہیں کیونکہ ’’الٰہ‘‘ مَالُوہٌ کے معنی میں ہے، اس لیے کہ تَأَلَّہَ کے معنی عبادت کرنے کے ہیں گویا اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ وحدہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔ یہ جملہ نفی واثبات پر مشتمل ہے، نفی ’’لَا اِلٰہَ‘‘ ہے یعنی کوئی الہ نہیں اور اثبات ہے ’’الا اللہ‘‘ یعنی سوائے اللہ کے۔ اور ’’اللّٰہ‘‘ لفظ جلالت ہے، جو ’’لا‘‘ کی خبر محذوف سے بدل ہے، گویا اصل عبارت اس طرح ہے: (لَا اِلٰہَ حَقٌّ اِلاَّ اللّٰہُ) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔‘‘ یہ دل کے ساتھ ایمان کے بعد زبان سے اقرار ہے اور یہ اللہ وحدہ کے لیے اخلاص عبادت اور اس کے سوا ہر چیز کی عبادت کی نفی پر مشتمل ہے۔ ہم نے جو یہ کہا کہ یہاں ’’حَقٌ‘‘ محذوف ہے، اس سے اس اشکال کا جواب بھی واضح ہو جاتا ہے جو بہت سے لوگ پیش کیا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ تم کیسے کہتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، جب کہ اللہ کے سوا بہت سے معبودوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام معبود رکھا ہے اور ان کی پوجا کرنے والے بھی انہیں معبود ہی کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فَمَآ اَغْنَتْ عَنْہُمْ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ لَّمَّا جَآئَ اَمْرُ رَبِّکَ﴾ (ہود: ۱۰۱) ’’جب تمہارے پروردگار کا حکم آپہنچا تو جن معبودوں کو وہ اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ﴾ (الاسراء: ۳۹) ’’اور اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود نہ بنانا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ﴾ (القصص: ۸۸) ’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ پکارنا۔‘‘ اور مزید فرمایا: ﴿لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰہًا﴾ (الکہف: ۱۴) ’’ہم اس کے سوا کسی کو معبود (سمجھ کر) نہ پکاریں گے۔‘‘ چنانچہ یہ کیسے ممکن ہے کہ لا الہ الا اللہ بھی کہیں اور غیر اللہ کے لیے الوہیت بھی ثابت کریں؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم غیر اللہ کے لیے الوہیت ثابت کریں جب کہ رسولوں نے اپنی قوموں سے کہا تھا: ﴿اُعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ﴾ (الاعراف: ۵۹) ’’اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔‘‘ اس اشکال کا جواب لا الہ الا اللہ کی خبر محذوف قرار دینے کی صورت میں واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ معبود، جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، معبود تو ہیں مگر یہ معبودان باطلہ ہیں کیونکہ انہیں ذرہ بھر حق الوہیت حاصل نہیں۔ اس کی دلیل حسب ذیل ارشاد ربانی تعالیٰ ہے: ﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ، ﴾ (لقمان: ۳۰) ’’یہ اس لیے کہ اللہ کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ لغو ہیں اور یہ کہ اللہ ہی عالی رتبہ (اور) گرامی قدر ہے۔‘‘ اس کی دلیل یہ ارشاد ربانی تعالیٰ بھی ہے: ﴿اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی، وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی، اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰی، تِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی، اِنْ ہِیَ اِلَّا اَسْمَآئٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اَنزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ﴾ٓ (النجم: ۱۹۔۲۳) ’’بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا اور تیسری دیوی منات کو جو گھٹیا ہے (کیا یہ الٰہ ہو سکتے ہیں؟ مشرکو!) کیا تمہارے لیے تو بیٹے ہوں اور اللہ کے لیے بیٹیاں؟ یہ تقسیم تو بہت بے انصافی کی ہے۔ یہ تو صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیے ہیں، اللہ نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی ہے۔‘‘ اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ﴾ٓ (یوسف: ۴۰) ’’تم اس کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو وہ نام ہی تو ہیں جو خود تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔‘‘ ��و لا الہ الا للہ کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ معبود جو اس کے سوا ہیں اور ان کے پجاری ان کی الوہیت کے قائل ہیں، تو ان کی الوہیت حقیقی نہیں بلکہ ان کی الوہیت باطل ہے اور حقیقی الوہیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے شایان شان ہے۔ اور اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ یہ زبان کے ساتھ اقرار اور دل کی تصدیق کے ساتھ مشروط ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہ قریشی ہاشمی(صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام جن وانس کی طرف مبعوث فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ یٰٓا یُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ نِ جَمِیْعًا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ، ﴾ (الاعراف: ۱۵۸) ’’(اے محمد!) کہہ دو، اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، وہ جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو تم اللہ پر اور اس کے رسول، پیغمبر امی پر، جو خود بھی اللہ پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا، ﴾ (الفرقان:۱) ’’وہ (اللہ عزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ جہان والوں کو ہدایت کرے۔‘‘ اس گواہی کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر اس بات کی تصدیق کی جائے جس کی آپ نے خبر دی ہے، ہر اس کام کو تسلیم کیا جائے جس کا آپ نے حکم دیا ہے اور ہر اس چیز سے اجتناب کیا جائے جس سے آپ نے منع فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اسی طرح کی جائے جس طرح کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طریقہ سکھایا ہے۔ اس گواہی کاتقاضا بھی یہی ہے کہ بندہ یہ عقیدہ رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ربوبیت میں کوئی حق نہیں، کائنات میں آپ کو کوئی تصرف حاصل نہیں، اسی طرح عبادت میں بھی آپ کو کوئی حق حاصل نہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو خود اللہ کے بندے ہیں لہٰذا آپ کی عبادت نہیں کی جا سکتی اور آپ اللہ کے رسول ہیں کہ آپ کی تکذیب نہیں کی جا سکتی، آپ اپنے لیے یا کسی کے لیے نفع ونقصان کے مالک نہیں سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ چاہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ﴾ (الانعام: ۵۰) ’’کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (اللہ کی طرف سے) آتا ہے۔‘‘ آپ اللہ تعالیٰ کے عبد مامور ہیں اور اسی بات کا اتباع کرتے ہیں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ اِنِّی لَا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا، قُلْ اِنِّی لَنْ یُّجِیْرَنِی مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا، ﴾ (الجن: ۲۱۔۲۲) ’’(یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا، (یہ بھی) کہہ دو کہ اللہ کے عذاب سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں پاتا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿قُل لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ، ﴾ (الاعراف: ۱۸۸) ’’کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو مومنوں کو ڈرانے اور خوش خبری سنانے والا ہوں۔‘‘ اسی سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کا کوئی مستحق نہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ مخلوقات میں سے کوئی تو معلوم یہ ہوا کہ عبادت کی مستحق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے، اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ، ﴾ (الانعام: ۱۶۲۔ ۱۶۳) ’’کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرمانبردار ہوں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق یہ ہے کہ آپ کو اسی مقام و مرتبہ پر فائز قرار دیا جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فائز قرار دیا ہے اور وہ یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے عبد اور اس کے رسول ہیں۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۵۱، ۵۲، ۵۳، ۵۴ ) #FAI00016 ID: FAI00016 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 6 days
Photo
Tumblr media
آیت﴿ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ﴾میں نر یا مادہ کے متعلق کوئی تصریح نہیں سوال ۱۵ : آج کل ڈاکٹروں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ لڑکا ہے یا لڑکی جب کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ (لقمان: ۳۴) ’’اور وہی (حاملہ کے) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (کہ نر ہے یا مادہ)۔‘‘ چنانچہ تفسیر ابن جریر میں امام مجاہد سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ اس کی بیوی کیا جنے گی اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔ امام قتادہ رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے؟ ان میں تطبیق کیسے ہوگی، نیز یہ فرمائیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ﴿مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ کے عموم کا مخصص کیا ہے؟ جواب :اس مسئلے کے بارے میں گفتگو سے قبل میں اس بات کو بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن کریم کی صراحت امر واقع سے متعارض ہو اور اگر کوئی امر واقع بظاہر قرآن مجید کے خلاف ہو تو امر واقع محض دعویٰ ہوگا جس کی کوئی حقیقت نہیں یا قرآن مجید کا تعارض صریح نہیں ہوگا کیونکہ قرآن مجید کی صراحت اور حقیقت واقع دو قطعی امر ہیں اور دو قطعی چیزوں میں کبھی بھی تعارض نہیں ہو سکتا۔ اس وضاحت کے بعد ہم یہ کہیں گے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ اطباء دقیق آلات کے استعمال سے حاملہ کے پیٹ کی چیزوں کو معلوم کرنے لگے ہیں کہ وہ نر ہے یا مادہ۔ اگر یہ بات باطل ہے تو پھر اس کے بارے میں گفتگو کی ضرورت ہی نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر بھی آیت قرآنی کے خلاف نہیں ہے کیونکہ آیت قرآنی ایک غیبی امر پر دلالت کرتی ہے، جو آیت میں مذکور پانچ باتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم سے متعلق ہے اور جنین سے متعلق غیبی امور کہ ماں کے پیٹ میں اس کی مدت کی مقدار کتنی ہوگی، اس کی زندگی، اس کے عمل اور رزق کی مقدار کتنی ہوگی، شقاوت اور سعادت کے اعتبار سے اس کی کیا کیفیت ہوگی اور یہ نر ہوگا یا مادہ۔ یہ تمام امور تخلیق سے قبل غیبی ہیں، جب کہ تخلیق کے بعد تو یہ علم حاضر ہوگیا، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس وقت جنین تین اندھیروں میں مستور ہوتا ہے اگر ان اندھیروں کو زائل کر دیا جائے تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا ہے اور یہ بات کوئی بعید نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی قوی شعاعیں پیدا کر رکھی ہیں جو ان اندھیروں کو پھاڑ دیتی ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ جنین نر ہے یا مادہ اور آیت کریمہ میں نر یا مادہ کے علم کے بارے میں کوئی تصریح نہیں، اسی طرح سنت میں بھی ایسی کوئی تصریح موجود نہیں ہے کہ اس علم سے مراد نر یا مادہ کا علم ہے۔ سائل نے ابن جریر کے حوالے سے امام مجاہد رحمہ اللہ کی جو یہ روایت ذکر کی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ اس کی بیوی کیا جنے گی؟ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے، یہ روایت منقطع ہے کیونکہ امام مجاہد رحمہ اللہ تابعین میں سے ہیں۔ امام قتادہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر بیان کی ہے تو ممکن ہے کہ اسے اس بات پر محمول کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے اختصاص کا تعلق تخلیق سے پہلے کا ہے اور تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں دوسروں کو بھی معلوم کرا دیتا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورۂ لقمان کی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ آئندہ ان ارحام سے کیا کچھ پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن جب جنین کے بارے میں وہ حکم دے دیتا ہے کہ یہ نر ہے یا مادہ، بدبخت ہے یا خوش بخت تو وہ یہ باتیں اس جنین کے ساتھ موکل فرشتوں کو اور اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے معلوم کروا دیتا ہے۔‘‘ آپ نے جو یہ پوچھا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ میں عموم کا مخصص کیا ہے، تو ہم عرض کریں گے کہ اگر آیت تخلیق کے بعد نر یا مادہ کو بیان کرتی ہے، تو مخصص انسانی حس اور امر واقع ہیں۔ علمائے اصول نے بیان کیا ہے کہ کتاب وسنت کے عموم کے مخصصات نص یا اجماع یا قیاس یا عقل ہیں، علمائے اصول کا کلام اس بارے میں معروف ہے۔ اگر آیت کا تعلق تخلیق سے قبل کی حالت سے ہے، تو پھر یہ اس بات کے معارض نہیں ہے جو جنین کے نر یا مادہ کے معلوم ہو جانے کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔ بحمدللہ امر واقع کے اعتبار سے نہ کوئی ایسی چیز موجود ہے اور نہ کبھی موجود ہوگی جو قرآن کریم کی صراحت کے خلاف ہو۔ دشمنانِ اسلام نے قرآن کریم پر طعن وتشنیع کرتے ہوئے، ایسے امور کی نشان دہی کی ہے جو قران کریم کے ساتھ ظاہراً متعارض ہیں، تو اس کی وجہ یا تو کتاب اللہ کے بارے میں ان کے فہم کا قصور ہے یا ان کی نیت میں خرابی ہے۔ جہاں تک اہل دین و علم کا تعلق ہے تو وہ بحث و تحقیق کے بعد اس حقیقت تک پہنچ گئے ہیں، جس کے سامنے ان لوگوں کے تمام شکوک وشبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ وللّٰه الحمد والمنۃ۔ اس مسئلے میں کچھ لوگ افراط اور تفریط میں مبتلا ہیں اور کچھ معتدل ہیں۔ کچھ لوگوں نے قرآن مجید کے ظاہر کو لے لیا ہے، جو صریح نہیں ہے اور پھر انہوں نے اس کے خلاف ہر واقعی اور یقینی امر کی مخالفت کی ہے اور اس طرح انہوں نے اپنے قصور فہم اور کوتاہی کی وجہ سے اپنے آپ کو مورد الزام قرار دے لیا ہے یا پھر قرآن کریم پر اعتراض کا باعث بنے ہیں جو ان کی نظر میں یقینی اور امر واقع کے خلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے اس چیز سے اعراض کیا ہے جس پر قرآن کریم کی دلالت ہے اور انہوں نے محض مادی امور کو اختیار کر لیا ہے اور اس طرح یہ ملحد بن گئے ہیں۔ معتدل وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی دلالت کو لیا ہے اور امر واقع کے ساتھ اس کی تصدیق کی ہے اور جان لیا ہے کہ قرآن کریم کی تصریح اور امر واقع دونوں ہی برحق ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ تصریح قرآن کریم اس امر معلوم کے مخالف ہو جسے آنکھوں سے مشاہدہ کیا جا رہا ہو، گویا انہوں نے منقول اور معقول دونوں پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح انہوں نے اپنے دین اور عقل کو بچا لیا اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی اس حق کی طرف راہنمائی فرما دی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا بلاشبہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہدایت کرنے والے، ہدایت یافتہ اور اصلاح وتجدید کی دعوت دینے والا مصلح ونیک قائد بناکر سرخروئی عطاء فرمائے۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰہِ، عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ۔ فتاوی ارکان اسل��م ( ج ۱ ص ۴۹، ۵۰، ۵۱ ) #FAI00015 ID: FAI00015 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 6 days
Photo
Tumblr media
کلمۂ طیبہ میں توحید کی تین اقسام :عبادت، ربوبیت اور الوہیت سوال ۱۷: ’’لا الہ الا اللہ‘‘ توحید کی تمام اقسام پر کس طرح مشتمل ہے؟ جواب :یہ کلمہ توحید کی تمام اقسام پر مشتمل ہے، سوال یہ پیداہوتاہے کہ کلمہ توحید کی توحیدکی تمام اقسام پر دلالت ضمنی ہے یا الزامی ہے۔ وہ اس طرح کہ جب کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے کہ ’’میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘ تو اس سے ذہن میں فوراً یہ خیال آتا ہے کہ اس سے مراد توحید عبادت ہے جسے توحید الوہیت کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے اور توحید الوہیت توحید ربوبیت پر بھی مشتمل ہے کیونکہ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ وحدہ کی عبادت کرے تو اس کی ربوبیت کے ا قرار کے بغیر تواللہ کی عبادت نہیں کرے گا۔ اسی طرح یہ توحید اسماء و صفات پر بھی مشتمل ہے کیونکہ انسان صرف اسی کی عبادت کرتا ہے جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ وہ مستحق عبادت ہے اوراللہ کے اسماء وصفات کا یہی تقاضا ہے، اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے یہ کہا تھا: ﴿یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا، ﴾ (مریم: ۴۲) ’’ابا جان! آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں۔‘‘ بایں طورتوحید عبادت، توحید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات پر خودبخود مشتمل ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۵۴، ۵۵ ) #FAI00017 ID: FAI00017 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 7 days
Photo
Tumblr media
علم غیب کا دعویٰ کرنے والا کافر ہے سوال ۱۴ : جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرے اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ کافر ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبَعَثُوْنَ، ﴾ (النمل: ۶۵) ’’کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں، اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کب (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ سب لوگوں کے سامنے یہ اعلان فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی آسمانوں اور زمین میں غیب نہیں جانتا، لہٰذا جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرے، وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تکذیب کرتا ہے۔ اس بنیادپران لوگوں سے ہم یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے لیے غیب جاننا کیسے ممکن ہے، جب کہ غیب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں جانتے تھے؟ کیا تم افضل ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ اگر یہ کہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اشرف ہیں تو وہ اس بات کی وجہ سے بھی کافر ہو جائیں گے اور اگر وہ یہ کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشرف تھے تو پھر ہم ان سے پوچھیں گے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو غیب نہ جانتے ہوں اور تم اسے جانتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہِ اَحَدًا، اِلَّا مَنِ ارْتَضَی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ م بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا، ﴾ (الجن: ۲۶۔۲۸) ’’وہی غیب (کی بات) جاننے والا ہے اوروہ کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا، ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس (کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس) کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے۔‘‘ یہ دوسری آیت ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ علم غیب کا دعویٰ کرنے والا کافر ہے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے یہ اعلان فرما دیں: ﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ﴾ (الانعام: ۵۰) ’’کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (اللہ کی طرف سے) آتا ہے۔‘‘ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۸، ۴۹ ) #FAI00014 ID: FAI00014 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 7 days
Photo
Tumblr media
غیر مسلم اسلام میں داخل ہوں یا احکام اسلام کے تابع ہو جائیں سوال ۱۳ : کیا کافر کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ اسلام قبول کر لے؟ جواب :ہر کافر کے لیے، خواہ وہ عیسائی ہو یا یہودی، یہ واجب ہے کہ وہ دین اسلام قبول کر لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں فرمادیا ہے: ﴿قُلْ یٰٓاَ یُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ، ﴾ (الاعراف: ۱۵۸) ’’(اے محمد!) کہہ دو، اے لوگو! بے شک میں تم سبکی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، وہ جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو تم اللہ پر اور اس کے رسول، پیغمبر امی پر، جو خود بھی اللہ پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پاجاؤ۔‘‘ لہٰذا تمام لوگوں پر یہ واجب ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں، البتہ دین اسلام نے اللہ تعالیٰ کی رحمت وحکمت کے پیش نظر غیر مسلموں کے لیے اس بات کو بھی جائز قرار دیا ہے کہ وہ اپنے دین پر باقی رہیں بشرطیکہ وہ مسلمانوں کے احکام شریعت کا پاس ولحاظ رکھیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ہُمْ صٰغِرُوْنَ، ﴾ (التوبۃ: ۲۹) ’’جو لوگ اہل کتاب میں سے اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں، ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔‘‘ صحیح مسلم میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ کا کسی کو امیر مقرر کرتے تو آپ اسے اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور اپنے ہم سفر مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی وخیر خواہی کا حکم دیتے اور فرماتے تھے: ((اُدْعُہُمْ اِلٰی ثَلَاثِ خِصَالٍ اَوْ خِلَالٍ فَأَیَّتُہُنَّ مَا اَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ)) (صحیح مسلم، الجہاد والسیر، باب تامیر الامراء… ح: ۱۷۳۱۔) ’’انہیں تین باتوں کی دعوت دو، وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی تسلیم کر لیں تو ان کی طرف سے تم اسے قبول کر لو اور ان سے (جنگ کرنے سے) رک جاؤ۔‘‘ ان تین باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ جزیہ ادا کریں، اس لیے اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ کے علاوہ دیگر غیر مسلموں سے بھی جزیہ قبول لیا جائے گا۔ حاصل کلام یہ کہ غیر مسلموں کے لیے واجب ہے کہ وہ یا تو اسلام میں داخل ہو جائیں یا احکام اسلام کے تابع ہو جائیں۔ واللّٰہ الموفق فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۷، ۴۸ ) #FAI00013 ID: FAI00013 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 7 days
Photo
Tumblr media
شیطانی وسوسوں سے ڈرنا ہی ایمان صریح ہے سوال : ایک شخص کے دل میں شیطان نے اللہ عزوجل کے بارے میں بہت زیادہ وسوسے پیدا کر دیے ہیں اور وہ اس کی وجہ بہت ڈرتا ہے خوف وہراس کا شکار رہتا ہے اس سلسلہ میں آپ کیا راہنمائی فرمائیں گے؟ جواب: سائل کے بارے میں جو یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ شیطانی وسوسوں کے نتائج سے ڈرتا ہے، تو اس کے لیے یہ خوف وہراس نوید بشارت ہے کہ اس کے حق میں اس کے نتائج اچھے ہی ہوں گے دراصل ان وسوسوں کے ذریعے سے شیطان مومنوں پر حملہ آور ہوتا ہے تاکہ ان کے دلوں میں صحیح عقیدے کو خراب کر کے ان میں فساد وبگاڑ پیداکردے، اوراللہ کے بندوں کو نفسیاتی و فکری قلق واضطراب میں مبتلا کر دے تاکہ ان کا ایمان مکدر ہو جائے بلکہ اگر وہ سچے مومن ہیں تو ان کی زندگی ہی أجیرن کر دے۔ اہل ایمان کو پیش آنے والی یہ کوئی پہلی یا آخری بات نہیں ہے بلکہ جب تک دنیا میں کوئی مومن ہے، اس طرح کی باتیں پیش آتی رہیں گی۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس طرح کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ سے پوچھا کہ ہم اپنے دلوں میں بعض ایسی باتیں پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی انہیں زبان پر لانا بھی بہت گراں سمجھتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ((اَوَ قَدْ وَجَدْتُّمُوہُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ)) (صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان… ح: ۱۳۲۔) ’’کیا تم اس چیز کو (اپنے دلوں میں) پاتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی ہاں!‘‘ آپ نے فرمایا: ’’یہی ایمان صریح ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَأْتِی الشَّیْطَانُ اَحَدَکُمْ فَیَقُوْلُ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ حَتَّی یَقُوْلَ مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ؟ فَاِذَا بَلَغَہٗ فَلْیَسْتَعِذْ بِاللّٰہِ وَلْیَنْتَہِ)) (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، ح: ۳۲۷۶ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان، ح: ۱۳۴۔) ’’تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آکر کہتا ہے کہ (مخلوق کو) اس طرح کس نے پیدا کیا ہے؟ اس طرح کس نے پیدا کیا ؟ حتیٰ کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب وہ یہاں تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگے اور رک جائے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک شخص نے عرض کیا: میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ انہیں زبان پر لانے سے مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ میں جل کر کوئلہ ہو جاؤں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی رَدَّکیدہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ))( سنن ابی داود، الادب، باب فی رد الوسوسۃ، ح: ۵۱۱۲۔) ’’سب تعریف اس اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اس کے معاملے کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا ۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب الایمان میں تحریرفرماتے ہیں کہ مومن شیطانی وسوسوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو کفر یہ اندازکے وسوسے ہوتے ہیں جن سے اس کا سینہ تنگ ہو جاتا ہے، جیسا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تھا: یا رسول اللہ! ہم میں کسی ایک کے دل میں اگر ایسا خیال بھی آجاتا ہے کہ اسے زبان پر لانے کے بجائے اس کے نزدیک یہ باتکہیں زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے کہ وہ آسمان سے زمین پر گر جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ((ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ)) صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان… ح: ۱۳۲۔) ’’یہ تو خالص ایمان ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: (صحابی نے عرض کیا کہ) وہ اسے زبان پر لانا بہت گراں محسوس کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الحمد للّٰه الذی رد کیدہ الی الوسوسۃ)) ( سنن ابی داود، الادب، باب فی رد الوسوسۃ، ح: ۵۱۱۳۔) ’’سب تعریف اس اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اس کے مکرو فریب کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا ہے۔‘‘ یعنی اس طرح کا وسوسہ بندے کی دلی کراہت وناپسندیدگی کے باوجودپیداہونا، پھراس کا اسے اپنے دل سے دور کرنے کی کوشش بھی کرتا خالص ایمان ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی مجاہد کے پاس کوئی دشمن آجائے اور وہ اسے دور ہٹاتے ہوئے اس پر غالب آجائے تو یہ عظیم جہاد ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے فرمایا ہے: ’’یہی وجہ ہے کہ طالب علم اور عبادت گزار لوگوں کو ایسے وسوسے اور شبہات پیش آتے ہیں، جو دوسرے لوگوں کو پیش نہیں آتے کیونکہ دوسرے لوگ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے راستے پر چلتے ہی نہیں بلکہ وہ تو اپنے رب سے غافل ہو کر خواہشات نفس کے پجاری بن جاتے ہیں اور یہی شیطان کا مطلوب و مقصود ہے، لیکن اس کے برعکس جو لوگ علم وعبادت کے ساتھ اپنے رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، دراصل شیطان ان کا دشمن ہے اور وہ انہیں اللہ تعالیٰ سے دور لے جانا چاہتا ہے۔‘‘[1] میں اس سائل سے یہ بھی کہوں گا کہ جب تمہارے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ وسوسے شیطانی ہیں، تو انہیں وقت وتوانائی صرف کرکے دور ہٹا دو اوران کے خلاف برسرپیکارہوجاؤ یہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے بشرطیکہ تم ان کے خلاف مجاہدہ کرتے رہو، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: -(ان اللّٰه تجاوز عن امتی ما وسوست بہ صدورہا ما لم تعمل او تتکلم)) (صحیح البخاری، العتق، باب الخطاء والنسیان فی العتاقۃ والطلاق، ح: ۲۵۲۸ وصحیح مسلم، ح: ۱۲۷۔) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے سینوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر کا رویہ اختیارفرمایا ہے، جب تک وہ ان کے مطابق عمل نہ کرے یا ان کے مطابق بات نہ کرے۔‘‘ اگر آپ سے یہ کہا جائے کیا آپ اپنے دل میں آنے والے ان وسوسوں پر اعتقاد رکھتے ہیں؟ یا انہیں حق سمجھتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اس طرح صفت بیان کریں جس طرح آپ کے دل میں وسوسہ آتا ہے؟ تو آپ اس کا یہ جواب دیں کہ ہمیں اس طرح کی بات زبان پر لانا زیب نہیں دیتی، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور یہ تو بہت بڑا بہتان ہے، آپ دل اور زبان سے اس کی تردید کریں، اس سے نفرت کرتے ہوئے لوگوں میں دور سے دور ترہو تے چلے جائیں اس بنیادپردل میں آنے والے یہ خیالات محض وسوسے ہیں اور شیطان کے جال ہیں، جو انسان کے جسم میں خون کی گردش کی طرح چلتا پھرتارہتاہے تاکہ تمہیں دین سے دور لے جائے اور دین کو تم پر خلط ملط کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی اور حقیر باتوں کے بارے میں شیطان تمہارے دل میں شک وشبہ پیدا نہیں کرتا، مثلاً: تم ہمیشہ دنیا کے ان بڑے بڑے شہروں کے بارے میں سنتے رہتے ہو جو مشرق ومغرب کے ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ انسانوں سے بھرے ہوئے ہیں، مگر ان شہروں کے وجود کے بارے میں تمہارے دل میں کبھی کوئی شک پیدا نہیں ہوا اور نہ کبھی دل میں یہ خیال آیا ہے کہ یہ تو ویرانے اور اجڑے ہوئے دیار ہیں، رہنے سہنے کے قابل ہی نہیں اور نہ ان میں کوئی رہ رہا ہے کیونکہ اس طرح کے کاموں میں تشکیک پیدا کرنے سے شیطان کو کوئی غرض نہیں، البتہ شیطان کی بڑی غرض یہ ضرور ہے کہ وہ مومن کے ایمان کو خراب کر دے۔ وہ اپنے سواروں اورپا پیادوں کے ساتھ مل کر کوشش کرتا ہے کہ مومن کے دل سے علم وہدایت کی روشنی کو بجھا دے اور اسے شک اور حیرت کی تاریکی میں مبتلا کر دے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے ایک مفید دوا کی نشان دہی فرما دی ہے جو موجب شفا ہے اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ وسوسے کی حالت میں انسان اعوذ باللّٰہ پڑھ لے اور وسوسے کو ترک کر دے۔ جب انسان وسوسے کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگا رہے تاکہ اس کی رضا اور اجر وثواب کو حاصل کر سکے تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وسوسہ ختم ہو جائے گا۔ ان تمام خیالات کو اپنے دل سے جھٹک دیا کرو جبکہ تم اللہ کی عبادت کر رہے ہو، اس سے دعا کر رہے ہو اور اس کی عظمت و بزرگی کے گن گا رہے ہو۔ اگر تم کسی کو سن لو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہ کچھ کہہ رہا ہے، جو تمہارے دل میں بصورت وسوسہ پیدا ہو رہا ہے، تو تمہارا بس چلے تو تم اسے قتل کر دو، تو اس سے بھی معلوم ہوا کہ تمہارے دل میں پیدا ہونے والی ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ محض خیالات اور وسوسے ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں جیسے کسی شخص نے اپنے کپڑوں کو دھویا ہو اور اس کا لباس پاک صاف ہو مگر اس کے دل میں بار بار یہ خیال آئے کہ شاید اس کا کپڑا پاک نہیں، شاید ایسے کپڑے میں نماز نہیں ہوتی تو اس صورت میں اس طرح کے وسوسوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دینی چاہیے۔ میری نصیحت کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ٭ اس صورت میں اعوذ باللہ پڑھ لیا جائے اور دل میں آنے والے خیالات بالکل ترک کر دئیے جائیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے۔ ٭ عبادت اور عمل کو انہماک اور استغراق کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت بجا لاتے ہوئے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے سر انجام دیا جائے۔ ٭ انسان اگر مکمل توجہ، انہماک اور استغراق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ یہ سارے وسوسے کافور ہو جائیں گے۔ ٭ اللہ تعالیٰ سے کثرت کے ساتھ دعا اور التجا بھی کی جائے کہ وہ اپنے فضل و کرم کے ساتھ ان وسوسوں سے محفوظ رکھے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴، ۴۵، ۴۶، ۴۷ ) #FAI00012 ID: FAI00012 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 1 year
Photo
Tumblr media
مسجد میں نماز کی حاضری اس کے ایمان کی دلیل ہے سوال : کیا محض مساجد میں آنے جانے کی بنیاد پر کسی شخص کے ایمان کی گواہی دی جا سکتی ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے؟ جواب: جی ہاں! اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ مساجد میں نمازوں کے لیے آنے والے شخص کی حاضری اس کے ایمان کا ثبوت فراہم کرتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے ساتھ ایمان ہی نے اسے گھر سے چل کرکر مسجد میں آنے پر مجبور کیا ہے۔ سائل نے جو یہ کہا کہ ’’جیسا کہ حدیث میں آیا ہے‘‘ تو اس کا اشارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی درج ذیل حدیث کی طرف ہے: ((اِذَا رَأَیْتُمُ الرَّجُلَ یَعتاہَدُ الْمَسْجِدَ فَاشْہَدُوْا لَہُ بِالْاِیْمَانِ)) ( جامع الترمذی، الایمان ،باب ما جاء فی حرمۃ الصلاۃ،ح: 2617) ’’جب تم کسی شخص کو مسجد آتا جاتا دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔‘‘ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، صحیح سند کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت نہیں ہے۔‘‘ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴ ) #FAI00011 ID: FAI00011 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 1 year
Photo
Tumblr media
ایمان کی ستر سےزیادہ شاخیں ہیں سوال: ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی اور بری تقدیر کے ساتھ ایمان لایا جائے اور ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اَ لْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شعبۃ الخ)) (جامع الترمذی، الایمان، باب ماجاء فی استکمال الایمان والزیادۃ والنقصان، ح: ۲۶۱۴ وسنن ابن ماجہ، المقدمۃ، باب فی ا لایمان، ح:۵۷) ’’ایمان کے ستر سے زیادہ دروازے ہیں۔‘‘ ان دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟‘‘ جواب: دراصل ایمان نام ہے عقیدہ کااس کے چھ اصول ہیں جو حدیث جبرئیل علیہ السلام میں مذکور ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ((اَ لْاِیْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ، وَمَلَائِکَتِہِ، وَکُتُبِہِ، وَرُسُلِہِ، وَالْیَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ)) ( صحیح البخاری، الایمان، باب سوال جبرئیل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الایمان والاسلام والاحسان، ح: ۵۰ ومسلم، الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان… ح:۸) ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاؤ اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔‘‘ اور وہ ایمان جو اعمال اور ان کے انواع واجناس پر مشتمل ہے، اس کی کم وبیش ستر یااس سے زیادہ شاخیں ہیں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت کریمہ میں نماز کو ایمان کے نام سے موسوم فرمایا ہے: ﴿وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (البقرۃ:۱۴۳) ’’اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان (نماز) کو یوں ہی ضائع کر دے، اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحب رحمت ہے۔‘‘ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اس آیت کریمہ میں ایمان سے مراد بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کی جانے والی نماز ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنےکے حکم سے قبل مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے ۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۳، ۴۴ ) #FAI00010 ID: FAI00010 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 1 year
Photo
Tumblr media
حدیث جبریل اورحدیث عبدالقیس میں تطبیق کی صورت کیا ہے؟ سوال: حدیث جبرئیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے: ((اَ لْاِیْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ، وَمَلَائِکَتِہِ، وَکُتُبِہِ، وَرُسُلِہِ، وَالْیَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ)) (صحیح البخاری، الایمان، باب سوال جبرئیل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الایمان والاسلام والاحسان، ح: ۵۰ ومسلم، الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان… ح:۸) ’’(ایمان یہ ہے) کہ تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاؤ اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان ویقین رکھو۔‘‘ اور حدیث وفد عبدالقیس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے: ((بِشَہَادَۃِ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَاِقَامِ الصَّلَاۃِ، وَاِیْتَائِ الزَّکَاۃِ، وَاَدَائِ الْخُمُسِ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ)) صحیح البخاری، الایمان، باب اداء الخمس من الایمان، ح: ۵۳ وصحیح مسلم، الایمان، باب الامر بالایمان باللّٰه تعالی ورسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم … ح:۱۷) ’’ایمان یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور مال غنیمت میں سے خمس ادا کرو۔‘‘ ان دونوں حدیثوں میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟ جواب: اس سوال کے جواب سے قبل میں یہ بات کہنا پسند کروں گا کہ کتاب وسنت میں قطعاً کوئی تعارض نہیں ہے، نہ تو قرآن مجید کا کوئی مقام کسی دوسرے مقام سے متعارض ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ ہی میں کوئی تعارض ہے۔ قرآن وسنت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو امر واقع کے خلاف ہو کیونکہ امر واقع حق ہے اور کتاب وسنت بھی حق ہے، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ حق میں تناقض ہو، اس قاعدے کو سمجھ لینے سے بہت سے اشکالات دور ہو جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿َفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا، ﴾ (النساء: ۸۲) ’’بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔‘‘ جب قرآن مجید میں کوئی اختلاف نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ایک حدیث میں ایمان کی کوئی تعریف بیان فرمائی ہے اور دوسری حدیث میں کوئی دوسرااندازبیان بطور تعریف اختیارکیا ہے، جو آپ کی نظر میں پہلی تعریف کے خلاف ہے، لیکن حقیقت میں اگر آپ ان دونوں تعریفوں پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حدیث جبرئیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو درج ذیل تین اقسام میں تقسیم فرمایا ہے: (۱)اسلام (۲)ایمان اور (۳)احسان حدیث وفد عبدالقیس میں آپ نے صرف ایک ہی قسم یعنی اسلام کو بیان فرمایا ہے اور جب اسلام کا علی الاطلاق ذکر ہو تو اس میں ایمان بھی داخل ہوتا ہے کیونکہ شعائر اسلام کو ایک مومن ہی قائم کر سکتا ہے۔ جب اکیلے اسلام کا ذکر ہو تو اس ایمان اس کے ضمن خودبخود شامل ہواکرتا ہے اور جب تنہا ایمان کا ذکر ہو تو اس میں اسلام بھی داخل ہوتا ہے اور جب اسلام وایمان دونوں کا ذکر ہوتو اس صورت میں ایمان کا تعلق دلوں سے اور اسلام کا تعلق جسمانی اعضاء سے ہوتا ہے۔ ایک طالب علم کے لیے یہ بہت اہم نکتہ ہے، چنانچہ جب اکیلے اسلام کا ذکر ہو تو اس میں ایمان بھی داخل ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ﴾ (آل عمران: ۱۹) ’’دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔‘‘ اور معلوم ہے کہ دین اسلام، عقیدہ، ایمان اور احکام شریعت کے مجموعے کا نام ہے اور جب اکیلے ایمان کا ذکر ہو تو اس میں اسلام بھی داخل ہوتا ہے اور جب دونوں اکٹھے مذکور ہوں تو ایمان کا تعلق دلوں سے اور اسلام کا تعلق جسمانی اعضا سے ہوتا ہے، اسی لیے بعض سلف نے کہا ہے کہ ’’اسلام علانیہ ہے اور ایمان مخفی‘‘ کیونکہ ایمان دل میں جاگزیں ہوتاہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک منافق بظاہر نماز پڑھتا، صدقہ وخیرات کرتا اور روزے رکھتا ہے تو ایسا شخص ظاہر ی طور پر تو مسلمان ہے لیکن وہ مومن نہیں ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ہُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ، ﴾ (البقرۃ:۸) ’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے۔‘‘ فتاوی ارکا�� اسلام ( ج ۱ ص ۴۱، ۴۲، ۴۳ ) #FAI00009 ID: FAI00009 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 1 year
Photo
Tumblr media
ایمان دل سے تصدیق،زبان سے اظہار اور اعضا سے عمل کانام ہے سوال: اہل سنت والجماعت کے ہاں ایمان کی تعریف کیا ہے اور کیا ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے؟ جواب: اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان دل کے ساتھ تصدیق، زبان سے اظہار اور اعضا کے ساتھ عمل کرنے کا نام ہے، ایمان مندرجہ ذیل تین امور پر مشتمل ہے۔ ٭ اقرار بالقلب ’’دل کے ساتھ اعتراف۔٭ نطق باللسان ’’زبان سے شہادت‘‘٭عمل بالجوارح ’’اعضاء کے ساتھ عمل۔‘‘ ایمان کی تعریف جب یہ ہے، تو اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے کیونکہ دل کے ساتھ اعتراف کے درجات مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی خبر کا اقرار اس چیز کے اقرار کی طرح نہیں ہو سکتا جس کا بندے نے خود مشاہدہ کیا ہو، اسی طرح ایک آدمی کی خبر کا اقرار اس خبر کے اقرار کی طرح نہیں ہو سکتا جسے دو آدمیوں نے بیان کیا ہو، اسی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا: ﴿رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ﴾ (البقرۃ: ۲۶۰) ’’اے پروردگار! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا، اللہ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن (میں دیکھنا) اس لیے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کر لے۔‘‘ دل کے اقرار، طمانیت اور سکون کی وجہ سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور اسے انسان خود بھی محسوس کرتا ہے، مثلاً: جب وہ کسی مجلس ذکر میں ہو اور اس میں وعظ ونصیحت اور جہنم و جنت کا ذکر خیرہو تو بندے کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان یوں محسوس کرتا ہے گویا جہنم و جنت کا وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہے پھر جب وہ اس مجلس سے اٹھ جائے اور اس پر غفلت طاری ہو جائے تو دل کے اس یقین میں کمزوری آجاتی ہے جو مجلس میں حاضری کے وقت تھی۔ اسی طرح قول سے بھی ایمان میں اضافہ ہوتا ہے کہ جو شخص دس بار اللہ کا ذکر کرے، وہ اس شخص کی طرح تو نہیں ہو سکتا جس نے سو بار اللہ کا ذکر کیا ہو، پہلے کی نسبت اس دوسرے شخص کے ایمان میں بدرجہا اضافہ کی حامل ہے۔ اسی طرح جس شخص نے عبادت کو بہت کامل طریقے سے ادا کیا ہو اس کا ایمان اس شخص کے ایمان سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔ جس نے عبادت کو ناقص رہنے دیا ہو۔ اسی طرح جب کوئی انسان اپنے اعضا وجوارح کے ساتھ دوسرے انسان کی نسبت زیادہ عمل سرانجام دے تو دوسرے کی نسبت اس کا ایمان بہرحال بہت زیادہ ہوگا، قرآن وسنت سے ایمان میں کمی بیشی ثابت ہے، مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِیْمَانًا﴾ (المدثر: ۳۱) ’’اور ان (جہنم کے فرشتوں) کا شمار کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کیا ہے اور اس لیے کہ اہل کتاب یقین کریں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو۔‘‘ اور مزید فرمایا: ﴿وَ اِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖٓ اِیْمَانًا فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّ ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ، وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِہِمْ وَ مَاتُوْا وَ ہُمْ کٰفِرُوْنَ، ﴾ (التوبۃ: ۱۲۴۔۱۲۵) ’’اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو بعض منافق (استہزا کرتے اور) پوچھتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے، تو جو ایمان والے ہیں ان کا تو ایمان زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا اور وہ مرے بھی تو کافر کے کافر۔‘‘ اور صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَّ دِیْنٍ اَذْہَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ اِحْدَاکُنَّ)) صحیح البخاری، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، ح:۳۰۴۔) ’’میں نے دین اور عقل میں ناقص تم عورتوں سے زیادہ اچھے بھلے آدمی کی مت مارنے والا کسی کو نہیں پایا۔‘‘ معلوم ہوا کہ ایمان میں اضافہ اور کمی ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایمان میں اضافے کا سبب کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان میں اضافے کے کئی اسباب ہیں، مثلاً: ٭اللہ تعالیٰ کی اس کے اسماء و صفات کے ساتھ معرفت: انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء وصفات کے بارے میں جس قدر زیادہ معرفت حاصل ہوگی، اسی قدر بلا شک وشبہ اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اہل علم جنہیں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا وہ علم ہے جو دوسروں کو نہیں ہے تو اس اعتبار سے دوسروں کی نسبت ان کا ایمان زیادہ قوی ہوتا ہے۔ ٭اللہ تعالیٰ کی کونی وشرعی نشانیوں پر غور کرنا: انسان اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں پر، جو اس کی مخلوقات ہیں، جب بھی غور کرتا ہے تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ، وَفِیْ اَنفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریات:۲۰۔۲۱) ’’اور یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں اور خود تمہارے نفوس میں بھی ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟‘‘ اس مضمون کے متعلق اور بھی بہت سی آیات کریمہ ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات پر غور و فکر کرنے سے انسان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٭ کثرت طاعات: انسان جب کثرت سے اللہ تعالیٰ کی طاعات بجا لاتا ہے تو اس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہو تا رہتا ہے، خواہ یہ طاعات قولی ہوں یا فعلی، ذکر ایمان کی کمیت وکیفیت میں اضافہ کر نے کا باعث ہے، اسی طرح نماز، روزہ اور حج سے بھی ایمان کی کمیت وکیفیت میں اضافہ ہو تا ہے۔ اس کے برعکس ایمان کو نقصان پہنچانے والے اسباب حسب ذیل ہیں: ٭جہالت: اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں جہالت ایمان میں کمی کا موجب ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بارے میں انسان کی معرفت میں کمی ہوگی تو اس سے خودبخود اس کے ایمان میں بھی کمی واقع ہو جائے گی۔ ٭غور و فکر نہ کرنا: اللہ تعالیٰ کی کونی وشرعی نشانیوں میں غور و فکر نہ کرنا بھی ایمان میں کمی کا سبب بنتا ہے یا کم از کم اس سے ایمان جامد ہو جاتا ہے اور نشوونما نہیں کر پاتا۔ گناہ کا ارتکاب: گناہ کے دل اور ایمان پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَزْنِی الزَّانِی حِیْنَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ)) صحیح البخاری، الحدود، باب الزنا وشرب الخمر، ح: ۶۷۷۲ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی… ح:۵۷۔) ’’زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔‘‘ ترک طاعت: ترک طاعت بھی ایمان میں کمی کا سبب ہے۔ اگر طاعت واجب ہو اور اس نے عذر کے بغیر اسے ترک کیا ہو تو یہ ایک ایسی کمی ہے جس پر اسے نہ صرف ملامت کی جائے گی بلکہ سزا بھی دی جائے گی اور اگر اطاعت واجب نہ تھی یا واجب تو تھی مگر اس نے اسے کسی شرعی عذر کی وجہ سے ترک کیا تو یہ ایک ایسی کمی ہے کہ اس پر اسے ملامت نہیں کی جائے گی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص قرار دیا اور دین کے اعتبار سے ناقص ہونے کا سبب یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ حالت حیض میں نماز نہیں پڑھتیں اور روزہ نہیں رکھتیں اور پھر اس حالت میں ترک صوم وصلوٰۃ کی وجہ سے وہ قابل ملامت بھی نہیں بلکہ انہیں حکم ہی یہی ہے کہ اس حالت میں وہ نماز اور روزے کو ترک کر دیں، چنانچہ جب وہ اپنے اس شرعی عذر کی وجہ سے ان کاموں کو سر انجام دینے سے قاصر ہیں جنہیں سر انجام دینے میں مردوں کو کوئی عذر نہیں تو اس وجہ سے وہ مردوں کے مقابلہ میں ناقص قرار پائیں۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۹، ۴۰، ۴۱ ) #FAI00008 ID: FAI00008 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 1 year
Photo
Tumblr media
سیرت طیبہ کادامن مضبوطی سےتھامنا اعتدال سے اور اس سے تجاوز غلو ہے سوال: دین میں اعتدال سے کیا مراد ہے؟ جواب: دین میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ انسان کو نہ تو اس قدر غلو سے کام لینا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے بھی آگے بڑھ جائے اور نہ اس میں اس قدر کوتاہی ہونی چاہیے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں پامالی پر اتاروہوجائے۔ دین میں راہ اعتدال یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیا جائے، اور غلو یہ ہے کہ اس سے تجاوز کیا جائے اور کوتاہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت تک پہنچا ہی نہ جائے۔ اس کی مثال یہ ہے جیسے ایک شخص کہے کہ میں رات کے قیام کا ارادہ رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ساری زندگی نہ سوؤں کیونکہ نماز تمام عبادات سے افضل ہے، لہٰذا میری خواہش یہ ہے کہ میں ساری ساری رات بیدار رہاکروں تو یہ شخص اللہ تعالیٰ کے دین میں غلو بازی کرنے والا ہے اور ایسا شخص اپنے موقف کے اعتبارسے حق پر نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہوبہو یہی واقعہ پیش آچکاہے کہ کچھ لوگ جمع ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ میں رات بھر قیام کروں گا اور کبھی نہیں سوؤں گا، دوسرے نے کہا میں ساری زندگی روزے رکھتا رہوں گا اور کبھی بھی روزہ نہیں چھوڑوں گا اور تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا: ((مَا بَالُ اَقْوَامٍ یقولون کَذَا وَکَذَا؟ أناَاَصُومُ وَاُفْطِرُ، وأقوم وأنام، وَاَتَزَوَّجُ النِّسَائَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ)) صحیح بخاری،کتاب الأدب باب من لم یواجہ الناس بالعتاب(۶۱۰۱) صحیح مسلم، النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیہ… ح: ۱۴۰۱۔) ’’ان لوگوں کو کیا ہواگیاہے، جنہوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں اور عورتوں سے شادی بیاہ بھی کرتا ہوں، چنانچہ جس شخص نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘ اورایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ((أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللّٰهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ للّٰهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، ��َمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي)) (صحيح البخاری، النکاح ،باب الترغیب فی النکاح، ح: 5063) ’’تمہی لوگوں نے یہ باتیں کی ہیں اللہ کی قسم! میں تم سب سےزیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس کا زیادہ تقویٰ اختیار کرنےوالا ہوں ،لیکن میں روزہ رکھتاہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں، نماز پڑھتا اور سو بھی جاتا ہوں اور عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ، لہٰذا جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔‘‘ ان لوگوں نے دین میں غلو سے کام لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے براء ت کا اظہار فرما دیا، کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منہ موڑا تھا، جب کہ سنت یہ ہے کہ روزہ رکھا بھی جائے اور چھوڑ بھی دیا جائے، رات کو قیام بھی کیا جائے اور آرام بھی اور عورتوں سے نکاح بھی کیا جائے۔ کوتاہی وہ شخص کرتا ہے جو یہ کہے کہ مجھے نفل عبادت کی ضرورت نہیں، لہٰذا میں نفل ادا نہیں کروں گا، میں صرف فرض ہی ادا کیا کروں گا، ایسا شخص بسا اوقات فرائض میں بھی کوتاہی کرنے لگتا ہے۔ معتدل وہ ہے جو اس طریقے پر چلے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین کا طریقہ تھا۔ دوسری مثال ملاحظہ فرمائیں: تین اشخاص کے سامنے ایک فاسق آدمی حاضرہوا ، تو ان میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ میں اس فاسق آدمی کو سلام نہیں کروں گا، اسے چھوڑ دوں گا، اس سے دور ہو جاؤں گا اور اس سے کلام نہیں کروں گا۔ دوسرا شخص کہتا ہے کہ میں اس فاسق کے ساتھ چلوں گا، اسے سلام کروں گا، اس سے خندہ پیشانی سے پیش آوں اپنے ہاں اسے مدعو کروں گا اور خود بھی اس کی دعوت کو قبول کروں گاکیونکہ میرے نزدیک یہ شخص ہوبہوایک نیک آدمی ہی کی طرح ہے اور تیسرا شخص کہتا ہے کہ میں اس فاسق آدمی کو اس کے فسق کی وجہ سے ناپسند اور اس کے ایمان کی وجہ سے پسند کرتا ہوں اور اس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کروں گا سوائے اس کے کہ کنارہ کشی اس کی اصلاح کا سبب ہو اور اگر کنارہ کشی اس کی اصلاح کا سبب نہ بنے بلکہ اس کے فسق میں اضافے کا سبب بن جائے تو میں اس سے کنارہ کشی نہیں کروں گا۔ ان تین اشخاص کے بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ ان میں سے پہلے شخص کا عمل افراط اور غلو پر مبنی ہے، دوسرے کا تفریط اور کمی پر جب کہ تیسرے کا عمل معتدل ہے۔ اسی طرح تمام عبادات ومعاملات میں بھی لوگوں کا یہی حال ہے کہ ان میں سے بعض کوتاہ ہیں، بعض غالی اور بعض معتدل۔ تیسری مثال ملاحظہ فرمائیں: ایک شخص اپنی بیوی کا اسیر ’’زن مرید‘‘ ہے، وہ جس طرف چاہے اس کے منہ کو پھیر دیتی ہے اور وہ اسے گناہ سے روکتا ہے نہ کسی اچھے کام کی ترغیب دیتا ہے بلکہ عورت اس کی عقل پر سوار اور اس پر حاکم بن بیٹھی ہے۔ دوسرا شخص اپنی بیوی کے ساتھ تکبر وغرور کا معاملہ کرتا، اسے پر کاہ کی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسے اپنے گھریلو ملازم سے بھی کم تر سمجھتا ہے اور تیسرے شخص کا طرز عمل معتدل ہے، وہ اس کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: ﴿وَ لَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ِ (البقرۃ: ۲۲۸) ’’اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔‘‘ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا یَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُّؤْمِنَۃً اِن�� کَرِہَ مِنْہَا خُلْقًا رَضِیَ مِنْہَا آخَرَ)) صحیح مسلم، الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء، ح: ۱۴۶۷) ’’کوئی مومن مرد اپنی مومن بیوی سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی عادت اسے ناپسند ہوگی تو کوئی دوسری عادت پسند بھی ہوگی۔‘‘ ان تینوں میں سے یہ آخری شخص معتدل ہے، پہلا اپنی بیوی کے بارے میں غالی ہے اور دوسرا کوتاہ۔ دیگر تمام اعمال وعبادات کو بھی اسی پر قیاس کر لیجئے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۷، ۳۸، ۳۹ ) #FAI00007 ID: FAI00007 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes