Tumgik
#حدیث زندگی
deafeningqueensoul · 1 year
Text
SOS 🆘
Please spread the word and help the people Mahabad, THEY NEED YOUR HELP!!!!
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
Be their voice!!!
1K notes · View notes
humaahmed · 1 year
Text
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ
صَــلَّــی اللّٰـهُ تَـعَالٰـی عَـلَـیْـہِ وَاٰلِــہ وَسَــــلَّم
(صبح بخیر زندگی)
اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّاَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ کُلَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ
’’اے اللہ! میں تیری رحمت ہی کی امید رکھتا/رکھتی ہوں، پس تو آنکھ جھپکنے کے برابر بھی مجھے
میرے اپنے نفس کے سپرد نہ کرنا اور میرے لیے میرے سب کام سنوار دے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
سنن أبی داود، الأدب، باب مایقول إذا أصبح؟ حدیث:5090، ومسند أحمد: 42/5
Tumblr media
3 notes · View notes
asliahlesunnet · 10 days
Photo
Tumblr media
عبادت کا مقصود تقرب الہٰی اور جنت کا حصول ہونا چاہیے سوال ۲۰: اخلاص کے کیا معنی ہیں اور اگر عبادت سے مقصود کوئی اور چیز ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کا عبادت سے مقصود تقرب الٰہی اور جنت کا حصول ہو اور اگر عبادت سے مقصود کچھ اور ہو تو اس کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ۱۔ عبادت سے مقصود اگر غیر اللہ کا تقرب اور لوگوں کی طرف سے تعریف و توصیف کا حصول ہو تو اس سے عمل ضائع ہو جاتاہے کیونکہ یہ شرک ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ((اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا اَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِی تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ)) (صحیح مسلم، الزہد والرقائق، باب تحریم الریاء ح: ۲۹۸۵۔) ’’میں تمام شرکاء کی نسبت شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں اس نے میرے ساتھ کسی غیر کو بھی شریک کر لیا تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑکر دست بردارہوجاتا ہوں۔‘‘ ۲۔ عبادت سے مقصود اقتدار، منصب یا مال وغیرہ کی دنیوی غرض کا حصول ہو، تقرب الٰہی کا حصول مقصود نہ ہو تو یہ عمل بھی رائیگاں جاتا ہے اور اس کا تصرف انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کا سبب نہیں بنتا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَ ہُمْ فِیْہَا لَا یُبْخَسُوْنَ، اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ، ﴾(ہود: ۱۵۔۱۶) ’’جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں، ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا اور کچھ نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کیے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے، سب ضائع ہوا۔‘‘ اس میں اور پہلی قسم میں فرق یہ ہے کہ پہلی قسم میں مقصود یہ تھا کہ اس کی تعریف کی جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے جب کہ دوسرے شخص کا مقصود یہ ��ہیں ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، لوگوں کی تعریف کرنے یا نہ کرنے کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں بلکہ اس کا مطمع نظر تقرب الہی کے بجائے کچھ اور ہی ہے جس کاتذکرہ ابھی ابھی کیا جاچکا۔ ۳۔ عبادت سے مقصود تقرب الٰہی کے حصول کے ساتھ ساتھ کوئی دنیوی غرض بھی ہو، مثلاً: عبادت کے لیے طہارت کی نیت کے وقت جسمانی بشاشت اور نظافت کا ارادہ بھی کر لے، نماز ادا کرتے وقت جسمانی ورزش کا بھی ارادہ کر لے، روزے کے ساتھ جسمانی وزن کے کم کرنے اور فضلات کےدور کرنے کا بھی قصد کرلے اور حج کے ساتھ مشاعر اور حجاج کی زیارت کا ارادہ بھی کر لے تو اس سے اخلاص کے اجر میں کمی آجاتی ہے اور اگرچہ غالب نیت عبادت ہی کی ہے تو اس سے کمال اجر و ثواب میں کمی آجاتی ہے لیکن وہ اسے گناہ یا جھوٹ کے ساتھ نقصان مضرت رسانی کا باعث نہ ہوگا کیونکہ حجاج کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ﴾ (البقرۃ: ۱۹۸) ’’اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو۔‘‘ اگر اغلب نیت عبادت کی نہ ہو تو اسے آخرت میں اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، اسے اس کا بدلہ دنیا ہی میں مل جائے گا اور یہ بھی خدشہ ہے کہ وہ اس کے لئے گناہ گار بننے کا باعث بن جائے کیونکہ اس نے عبادت کو، جو اعلیٰ مقصود ہے، حقیر دنیا کے حصول کا وسیلہ کے طورپر اختیارکیا۔ ایسا شخص گویا کہ ان لوگوں کی طرح ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ، ﴾ (التوبۃ: ۵۸) ’’اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں اگر ان کو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہو جاتے ہیں۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک آدمی جہاد کا ارادہ رکھتا ہے مگر جہاد سے اس کا مقصود دنیوی مال کا حصول ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا اَجْرَ لَہُ)) (سنن ابی داود، الجہاد، باب فیمن یغزو ویلتمس الدنیا، ح: ۲۵۱۶ وسنن النسائی، الجہاد، باب من غزا یلتمس الاجر والذکر، ح: ۳۱۴۲۔) ’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘ اس شخص نے اپنے سوال کو تین بار دہرایا ہر بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا: ’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘ صحیحین میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ لِدُنْیَا یُصِیْبُہَا، اَوِ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا، فَہِجْرَتُہُ اِلٰی مَا ہَاجَرَ اِلَیْہِ)) (صحیح البخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدا ء الوحی الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ح:۱ وصحیح مسلم، الامارۃ، باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انما الاعمال بالنیۃ… ح:۱۹۰۷ واللفظ لمسلم۔) ’’جس شخص کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اس طرف ہوگی جس طرف اس نے ہجرت کی۔‘‘ اگر اس کے نزدیک دونوں امر مساوی ہوں یعنی نہ تو عبادت کی نیت غالب ہو اور نہ غیر عبادت کی تو اس کا معاملہ محل نظر ہے۔ زیادہ صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو عمل اللہ کے لیے بھی کرتا ہے اور غیر اللہ کے لیے بھی۔ اس قسم اور اس سے پہلی قسم میں فرق یہ ہے کہ اس سے پہلے قسم میں غیر عبادت کی غرض بالضرورۃ حاصل ہے اور اس کا ارادہ اس کے عمل کے ساتھ بالضرورۃ وجود پذیرہواہے مرادیہ ہے کہ اس نے اس دنیوی امر کا ارادہ کیا جو اس کے عمل کا قدرتی تقاضا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اس قسم میں یہ جاننے کے لیے معیار کیا ہے کہ عبادت کا پہلو زیادہ غالب ہے یا غیرعبادت کا؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ معیار یہ ہے، خواہ حاصل ہو یا نہ ہو کہ عبادت کے سوا اس کا کوئی دوسرا مقصود ہے ہی نہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے عمل میں عبادت کی نیت زیادہ غالب ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو غالب نیت غیر عبادت کی ہوگی۔ بہرحال نیت، جو دل کے ارادے کا نام ہے، کا معاملہ بہت عظیم اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نیت ہی انسان کو صدیقین کے درجے تک پہنچا دیتی ہے اور نیت ہی انسان کو پست سے پست درجے تک گرا دیتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے: ’’اخلاص کی وجہ سے مجھے اپنے نفس کے خلاف جس طرح جہاد کرنا پڑا، کسی اور چیز کی وجہ سے مجھے ایسا جہاد نہیں کرنا پڑا۔‘‘ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اخلاص نیت اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۶۰، ۶۱، ۶۲ ) #FAI00020 ID: FAI00020 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
hassanriyazzsblog · 18 days
Text
🌹🌹𝗖𝗢𝗡𝗧𝗥𝗢𝗟 𝗢𝗡 𝗧𝗛𝗘 𝗧𝗢𝗡𝗚𝗨𝗘.
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
8️⃣4️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💠 𝗖𝗢𝗡𝗧𝗥𝗢𝗟 𝗢𝗡 𝗧𝗛𝗘 𝗧𝗢𝗡𝗚𝗨𝗘:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝘀𝗮𝗶𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗶𝘁 𝗶𝘀 𝗲𝗻𝗼𝘂𝗴𝗵 𝗳𝗼𝗿 𝗮 𝗺𝗮𝗻 𝘁𝗼 𝗯𝗲 𝗮 𝗹𝗶𝗮𝗿 𝘁𝗼 𝗿𝗲𝗽𝗲𝗮𝘁 𝗲𝘃𝗲𝗿𝘆𝘁𝗵𝗶𝗻𝗴 𝗵𝗲 𝗵𝗲𝗮𝗿𝘀.
(Musnad al-Bazzar, Hadith No. 8201)
● 𝗧𝗵𝗶𝘀 𝘁𝗿𝗮𝗱𝗶𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗲𝘅𝗽𝗹𝗮𝗶𝗻𝘀 𝗮𝗻 𝗶𝗺𝗽𝗼𝗿𝘁𝗮𝗻𝘁 𝗽𝗿𝗶𝗻𝗰𝗶𝗽𝗹𝗲 𝗼𝗳 𝗲𝘁𝗶𝗾𝘂𝗲𝘁𝘁𝗲, 𝘄𝗵𝗶𝗰𝗵 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗺𝗮𝗻 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗻𝗲𝘃𝗲𝗿 𝘀𝗽𝗲𝗮𝗸 𝘄𝗶𝘁𝗵𝗼𝘂𝘁 𝘁𝗵𝗶𝗻𝗸𝗶𝗻𝗴.
● 𝗜𝗻 𝘀𝗼𝗰𝗶𝗮𝗹 𝗹𝗶𝗳𝗲, 𝘄𝗲 𝗼𝗳𝘁𝗲𝗻 𝗵𝗲𝗮𝗿 𝗮 𝗹𝗼𝘁 𝗼𝗳 𝗻𝗲𝗴𝗮𝘁𝗶𝘃𝗲 𝘁𝗵𝗶𝗻𝗴𝘀 𝗮𝗯𝗼𝘂𝘁 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿𝘀.
● 𝗪𝗲 𝗸𝗻𝗼𝘄 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗲𝘅𝗽𝗲𝗿𝗶𝗲𝗻𝗰𝗲 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝘄𝗵𝗲𝗻 𝘀𝗼𝗺𝗲𝘁𝗵𝗶𝗻𝗴 𝗵𝗲𝗮𝗿𝗱 𝗶𝘀 𝗿𝗲𝗽𝗲𝗮𝘁𝗲𝗱, 𝘁𝗵𝗲 𝗻𝗮𝗿𝗿𝗮𝘁𝗶𝘃𝗲 𝗰𝗮𝗻 𝗯𝗲 𝗱𝗶𝘀𝘁𝗼𝗿𝘁𝗲𝗱 𝘀𝗼 𝗺𝘂𝗰𝗵 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗼𝗳𝘁𝗲𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗼𝗿𝗶𝗴𝗶𝗻𝗮𝗹 𝘃𝗲𝗿𝘀𝗶𝗼𝗻 𝗶𝘀 𝗰𝗼𝗺𝗽𝗹𝗲𝘁𝗲𝗹𝘆 𝗹𝗼𝘀𝘁.
● 𝗧𝗵𝗲𝗿𝗲𝗳𝗼𝗿𝗲, 𝗺𝗮𝗻 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗻𝗲𝘃𝗲𝗿 𝗿𝗲𝗽𝗲𝗮𝘁 𝘁𝗵𝗶𝗻𝗴𝘀 𝗯𝗮𝘀𝗲𝗱 𝗼𝗻 𝗷𝘂𝘀𝘁 𝗹𝗶𝘀𝘁𝗲𝗻𝗶𝗻𝗴.
● 𝗛𝗼𝘄𝗲𝘃𝗲𝗿, 𝘁𝗵𝗲𝗿𝗲 𝗶𝘀 𝗻𝗼𝘁𝗵𝗶𝗻𝗴 𝘄𝗿𝗼𝗻𝗴 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗿𝗲𝗽𝗲𝗮𝘁𝗶𝗻𝗴 𝗴𝗼𝗼𝗱 𝗻𝗲𝘄𝘀, 𝗯𝘂𝘁 𝗶𝗳 𝗶𝘁 𝗶𝘀 𝗯𝗮𝗱 𝗻𝗲𝘄𝘀, 𝗶𝘁 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗻𝗼𝘁 𝗯𝗲 𝗿𝗲𝗽𝗲𝗮𝘁𝗲𝗱 𝘂𝗻𝘁𝗶𝗹 𝘁𝗵𝗲 𝘄𝗵𝗼𝗹𝗲 𝘁𝗵𝗶𝗻𝗴 𝗵𝗮𝘀 𝗯𝗲𝗲𝗻 𝗽𝗿𝗼𝗽𝗲𝗿𝗹𝘆 𝗶𝗻𝘃𝗲𝘀𝘁𝗶𝗴𝗮𝘁𝗲𝗱.
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💠 زبان پر کنٹرول:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو دہرائے۔
(مسند البزار، حدیث نمبر 8201)
● یہ روایت زندگی گزارنے کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول کی وضاحت کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو کبھی بھی بغیر سوچے سمجھے بات نہیں کرنی چاہیے۔
● سماجی زندگی میں، ہم اکثر دوسروں کے بارے میں بہت سی منفی باتیں سنتے ہیں۔
● ہم تجربے سے جانتے ہیں کہ جب سنی ہوئی بات کو دہرایا جاتا ہے تو بیانیہ اس قدر مسخ ہو جاتا ہے کہ اکثر اصل نسخہ بالکل ختم ہو جاتا ہے۔
● اس لیے انسان کو کبھی بھی صرف سننے کی بنیاد پر چیزوں کو نہیں دہرانا چاہیے۔
● تاہم، اچھی خبر کو دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر یہ بری خبر ہے، تو اسے اس وقت تک نہیں دہرانا چاہیے جب تک کہ پوری بات کی صحیح تحقیق نہ ہو جائے۔
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
💠 جھوٹ معاشرہ کو تباہ وبرباد کرتا ہے:
● سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنےسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
● ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو، یا اَنجانے میں ہو، کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کردیتا ہے، لڑائی، جھگڑا اور خون وخرابہ کا ذریعہ ہوتا ہے، کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔
● جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گرجاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
▪️جھوٹ کیاہے؟
لفظ جھوٹ کو عربی زبان میں ’’کذب‘‘ کہتے ہیں۔ خلافِ واقعہ کسی بات کی خبر دینا، چاہے وہ خبر دینا جان بوجھ کر ہو، یا غلطی سے ہو، جھوٹ کہلاتا ہے۔ (المصباح المنیر)
● اگر خبر دینے والے کو اس بات کا علم ہو کہ یہ جھوٹ ہے، تو وہ گنہگار ہوگا، پھر وہ جھوٹ اگر کسی کے لیے ضرر کا سبب بنے، تو یہ گناہِ کبیرہ میں شمار کیا جائے گا، ورنہ تو گناہِ صغیرہ ہوگا۔
▪️ قرآن کریم میں جھوٹوں کا انجام:
● اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کوئی بات بلا تحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے، تو پھر اس کی جواب دہی کے لیے تیار رہے۔
🔹 ارشادِ خداوندی ہے: ’’اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل در آمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی۔‘‘(سورۃ الاسراء:۳۶)
● ’’یعنی بے تحقیق بات زبان سے مت نکال، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر، آدمی کو چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کراور بقدرِ کفایت تحقیق کرکےکوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے، سنی سنائی باتوں پر بے سوچے سمجھے یوں ہی اَٹکل پچو کوئی قطعی حکم نہ لگائےیا عمل درآمد شروع نہ کردے۔
● اس میں جھوٹی شہادت دینا، غلط تہمتیں لگانا، بے تحقیق چیزیں سن کرکسی کے درپے آزار ہونا، یا بغض و عداوت قائم کرلینا، باپ دادا کی تقلید یا رسم و رواج کی پابندی میں خلافِ شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا، اَن دیکھی، یا اَن سنی چیزوں کو دیکھی یا سنی ہوئی بتلانا، غیر معلوم اشیاء کی نسبت دعویٰ کرنا کہ میں جانتا ہوں، یہ سب صورتیں اس آیت کےتحت میں داخل ہیں۔
● یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن تمام قویٰ کی نسبت سوال ہوگاکہ ان کو کہاں کہاں استعمال کیاتھا؟ بے موقع تو خرچ نہیں کیا؟‘‘
● انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اللہ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔
🔹 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔‘‘(سورۂ ق:۱۸)
● یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اُسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کرلیتے ہیں۔
● یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔
🔹 رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان بعض اوقات کوئی کلمۂ خیر بولتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضاء دائمی قیامت تک کی لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ ووبال کہاں تک پہنچے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔ ‘‘ (ابن کثیر، تلخیص، از: معارف القرآن، ج:۸، ص:۱۴۳)
● جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہےاور یہ ایسا گناہِ کبیرہ ہے کہ قرآن کریم میں، جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔
🔹 ارشادِ ربانی ہے: ’’لعنت کریں اللہ کی اُن پر جو کہ جھوٹے ہیں۔‘‘(سورۂ آلِ عمران: ۶۱)
▪️حدیث شریف میں جھوٹ کی مذمت:
جیسا کہ مندرجہ بالا قرآنی آیات میں جھوٹ اور بلا تحقیق کسی بات کے پھیلانے کی قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے، اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اس بدترین گناہ کی قباحت وشناعت کھلے عام بیان کی گئی ہے۔ ہم ذیل میں چند احادیث مختصر وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں:
ایک حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے، لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو ایمان کا منافی عمل قرار دیا ہے۔
🔹 حدیث ملاحظہ فرمائیے: ’’حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا: کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےجواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’ نہیں (اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)۔‘‘(مؤطا امام مالک، حدیث : ۳۶۳۰/۸۲۴)
● ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلتِ نفاق سے متصف ہے۔
🔹 حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے: ’’جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔‘‘(صحیح بخاری، حدیث : ۳۴)
● ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، تورحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہوجاتے ہیں:
🔹 ’’جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے۔‘‘(سنن ترمذی : ۱۹۷۲)
● ایک حدیث میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے۔
🔹 حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں: ’’۔۔۔۔۔۔ یقیناً جھوٹ برائی کی رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آں کہ اللہ کے یہاں ’’کذّاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری، حدیث : ۶۰۹۴)
● رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔ خیانت تو خود ہی ایک مبغوض عمل ہے، پھر اس کا بڑا ہونا یہ کتنی بڑی بات ہے!
🔹 حدیث ذیل میں ملاحظہ فرمائیں: ’’یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حال آں کہ تم اس سے جھوٹ بول رہےہو۔‘‘(سنن ابو داود، حدیث: ۴۹۷۱)
● ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ شمار کیا ہے:
🔹’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟ تین بارفرمایا۔ پھر صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: ہاں! اے اللہ کے رسول!۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ ـــــــپھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایاــــــ: ’’خبردار! اور جھوٹ بولنا بھی (کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے)۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: ۲۶۵۴)
● صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے۔
🔹 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسےشخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو۔‘‘(سنن ترمذی، حدیث: ۲۳۱۵)
▪️جھوٹ بولنا حرام ہے:
● شریعتِ مطہرہ اسلامیہ میں جھوٹ بولنا اکبر کبائر (کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ) اور حرام ہے، جیسا کہ قرآن واحادیث کی تعلیمات سے ثابت ہے۔
🔹اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پس جھوٹ افترا کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے۔‘‘ (سورۃ النحل:۱۰۵)
🔹 ایک دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ہے: ’’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگادو گے، بلا شبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں، وہ فلاح نہ پاويں گے۔‘‘(سورۃ النحل:۱۱۶)
▪️جھوٹ اعتماد و یقین کو ختم کردیتا ہے:
● جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، لہٰذا جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔
● جھوٹ اللہ رب العالمین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا باعث ہے۔
● جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے، جو دوسری بیماریوں کے مقابلہ میں بہت عام ہے۔
● لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا؟
● جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہوجاتی ہے، تو لوگ اس کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔
● جھوٹ بولنے والا شخص کبھی کبھار حقیقی پریشانی میں ہوتا ہے، مگر سننے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایسےشخص پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کرچکا ہے۔
▪️حرفِ آخر▪️
● جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔
● لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔
● دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔
● اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔
● اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد بننا چاہتے ہیں، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّ ِعمل نہ دیں۔
● اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔
● اگر وہ ثبوت پیش نہیں کرپاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکاریں۔
🔹 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل صاف نہیں ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس نے اللہ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ نہیں کرلی ہے۔ (مسند احمد، بحوالہ احیاء العلوم)
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
discoverislam · 3 months
Text
وسعت رزق
Tumblr media
اس دور میں معاشرے کا تقریباً ہر فرد ہی رزق کی تنگی سے پریشان ہے اور اس کی ساری تگ و دو حصول رزق کے لیے رہ گئی ہے۔ ہم سب رزق میں وسعت اور برکت کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگر قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ صرف دنیاوی جدوجہد، محنت اور کوشش پر انحصار کر لیتے ہیں۔ لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت اور برکت کے چند اسباب تحریر کیے جارہے ہیں تاکہ ہمیں وسعت رزق کے لیے اسلام کے راہ نما اصولوں سے آگاہی مل سکے۔ اگر ہم دنیاوی جدوجہد کے ساتھ، اِن اسباب کو بھی اختیار کر لیں، تو ﷲ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء ﷲ، جو ہر شخص کی خواہش ہے۔
استغفار و توبہ  ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا، مفہوم: ’’پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک! وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘ (سورۂ نوح) مفسرین لکھتے ہیں کہ سورۂ نوح کی ان آیات اور سورۂ ہود کی آیات میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی مانگنے سے رزق میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے کثرت سے ﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی، ﷲ تعالیٰ اس کو ہر غم سے نجات دیں گے، ہر مشکل سے نکال دیں گے اور اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔‘‘ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند حاکم)
Tumblr media
تقوی  ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (ہر مشکل سے) نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سورۂ الطلاق)
ﷲ تعالی پر کامل توکل  توکل (بھروسا) کے معنی امام غزالیؒ نے یوں لکھے ہیں: ’’توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔‘‘ (احیاء العلوم) ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ پر بھروسا رکھے، وہ اس کو کافی ہے۔‘‘ (سورۂ الطلاق) رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ’’اگر تم ﷲ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسا کرو جیسا کہ اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ) یاد رکھیں! حصولِ رزق کے لیے کوشش اور محنت کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کو بھی حصول رزق کے لیے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے۔
عبادت  اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم دن رات مسجد میں بیٹھے رہیں اور حصول رزق کے لیے کوئی کوشش نہ کریں بلکہ ﷲ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے زندگی گزاریں۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر، میں تیرے سینے کو تونگری سے بھر دوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد)
حج اور عمرے  رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’پے در پے حج اور عمرے کیا کرو۔ بے شک! یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر (یعنی غریبی اور گناہوں) کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔‘‘ ( ترمذی، نسائی)
صلۂ رحمی  رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اپنے رزق میں کشادگی چاہے، اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ (بخاری) صلۂ رحمی سے رزق میں وسعت اور کشادگی ہوتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق حدیث کی تقریباً ہر مشہور و معروف کتاب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات موجود ہیں۔
انفاق فی سبیل ﷲ  ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، مفہوم: ’’اور تم لوگ (ﷲ کی راہ میں) جو خرچ کرو، وہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘ (سورۂ سبا) احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ ﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں ملے گا۔ دنیا میں بدلہ مختلف شکلوں میں ملے گا، جس میں ایک شکل رزق کی کشادگی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کی اولاد! تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘ (مسلم) عزیز بھائیو! جس طرح حصولِ رزق کے لیے ہم اپنی ملازمت، کاروبار اور تعلیم و تعلم میں جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں، جان و مال اور وقت کی قربانیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی روشنی میں ذکر کیے گئے اِن اسباب کو بھی اختیار کر لیں تو ﷲ تبارک و تعالیٰ ہماری روزی میں وسعت اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء ﷲ۔
ﷲ تعالیٰ ہمیں اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی  
0 notes
minhajbooks · 4 months
Text
Tumblr media
مخدومۂ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب
🛒 کتب گھر بیٹھے حاصل کریں، صرف ایک کلک کی دوری پر! https://www.minhaj.biz/buy-books/B8T2797RTU
🔰 ’فاطمہ میری جان کا حصہ ہے‘ (اِس حدیث مبارک کے طُرُق اور روایت کرنے والے محدثین کا بیان)
اس کتاب میں مخدومۂ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں سرورِ کائنات ﷺ کے فرمان ’فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِّنِّي ‘ کو مختلف طرق کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حدیثِ مبارک کو روایت کرنے والے محدثین کا تذکرہ بھی شاملِ کتاب ہے۔ یہ مختصر کتاب اپنے اندر تاریخی اہمیت سموئے ہوئے ہے۔
🔰 ’فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہے‘ (اِس حدیث مبارک کے 63 طُرُق کا بیان)
سرورِ کائنات ﷺ نے اس حدیثِ مبارک میں اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو سارے جہانوں کی تمام خواتین کی سردار قرار دیا ہے۔ یوں اس تالیف میں درج بالا حدیثِ مبارک کو تریسٹھ (63) مختلف طُرُق کو یک جا کر کے ایک گل دستے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔
🔰 سیدہ فاطمۃ الزہ��ا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب
اس تالیف میں مخدومۂ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب کو چالیس فصول میں بیان کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ شہزادیِ کونین کا مقام دنیوی و اخروی زندگی میں کس قدر بے مثال رفعتوں کا آئینہ دار ہے اور حضور ﷺ اپنی اس لخت جگر سے کس قدر والہانہ انداز سے محبت فرماتے تھے۔
🔰 Fatima (S.A): The Great Daughter of Prophet Muhammad (pbuh)
“Fatima is the leader of all the women in paradise” are the words of the Last Messenger of God, Muhammad (peace be upon him). Indeed the special place she held in her Father’s heart and the noble and courageous life that she led combined with her spiritual eminence made her one of the greatest women that have ever lived.
The Blessed Prophet (peace be upon him) paid special attention to her tarbiya (training and development) by ensuring that she accompanied him to many of his significant life events such as to his first public declaration of Prophethood in the harsh and unpredictable surroundings of Mecca; and what was one of the most historically significant events of Islam the night of Ascension, it was Fatima who had stayed with the Prophet (peace be upon him) and opened the door to Angel Gabriel the night that he (peace be upon him) ascended to the heavens and ultimately to God Almighty Himself.
This book is a collection of authentic hadith that describe Lady Fatima’s supreme spiritual status and the special place that she held with the Holy Prophet (peace be upon him), as well narrations describing the special status awarded to her husband Ali (A.S) and her sons, Hasan and Hussain (A.S).
🌐 پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/english/selected-books-collection/Sayyida-Kainat-salam-Allah-alayha
🛒 کتب گھر بیٹھے حاصل کریں، صرف ایک کلک کی دوری پر! https://www.minhaj.biz/buy-books/B8T2797RTU
💬 وٹس ایپ لنک / نمبر 👇 https://wa.me/923224384066
0 notes
nooriblogger · 5 months
Text
چوالیسویں محفل
دورانیہ10منٹ 24 جمادی الاول، 1445 ہجری(مطابق 08 دسمبر، 2023 عیسوی، بروز ہفتہ، رات آٹھ سے گیارہ) بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ فکرِ آخرت حاضری دنیا کی زندگی دھوکہ ہےنفسِ مسولہنذرانہ زکوٰۃ ہے پیغام فکرِ آخرت الدنيا مزرعۃ الآخرۃ۔ترجمہ:دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ امام غزالی رحمت اللہ علیہ اپنی کتاب احیاء العلوم میں اس حدیث مبارکہ کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، “دنیا آخرت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
topnaz · 5 months
Text
مجله سبک زندگی تاپ ناز
مجله تاپ‌ناز‌
مجله سبک زندگی تاپ ناز شامل موضوعات سلامت، گردشگری، آشپزی، بیوگرافی، جملات و متن های زیبا، عکس نوشته، اشعار، معرفی کسب و کار
سایت تاپ ناز یکی از قدیمی ترین سایت های سبک زندگی ایرانی است که مطالب متنوعی را ارائه کرده است. سایت تاپ ناز سال 1390 تاسیس شد و به مرور زمان کیفیت سایت و مطالب آن ارتقا داده شد.
معنی نام سایت
تاپ ناز به چه معناست؟ در سال 90 به دنبال یک نام ترکیبی خاص برای ایجاد سایت با موضوعات مربوط و دلخواه خانم ها بودیم، برای همین از کلمه ناز (به معنای: ادا، اطوار، دلال، شیوه، عشوه، غمزه، غنج، قر، کرشمه، جمیل، خواستنی، دلجو، ظریف، قشنگ، محبوب، نازنین، تفاخر، فخر، نازش، دلجویی، ملاطفت، نوازش، آسایش، رفاه، نعمت) استفاده کردیم و کلمه انگلیسی تاپ (بالا، بهترین و فوق) را هم در ادامه کلمه ناز قرار دادیم و هدف گردآوری بهترین مطالب مخصوص خانم ها بود که به مرور دیگر موضوعات هم به سایت اضافه شد.
تاسیس سایت
سایت تاپ ناز در سال 1390 تاسیس شد و در طول 12 سال، به یکی از محبوب ترین و معروف ترین سایت های ایران تبدیل شد. این سایت دارای موضوعات سبک زندگی، تفریحی، فرهنگی و هنری و … می باشد.
رسالت ما به عنوان یک مجله اینترنتی، احترام به تمام علایق و سلیقه های مختلف است و قصد افزایش آگاهی در موارد مختلف زندگی را داریم. در این سایت جامع ترین اطلاعات در زمینه های مختلف را گردآوری کرده ایم که به آسانی در دسترس هستند و مطالب سایت به صورت رایگان ارائه شده اند.
منبع:  https://www.topnaz.com/
--------------------------------------------
شعر و داستان
شعر و داستان, شعر زیبا, داستانک, مطالب ادبی, ادبیات, شاعر, شعرهای زیبا
سخنان دیل کارنگی نویسنده و سخنران معروف با جملات انگیزه دهنده زندگی
در این بخش سخنان دیل کارنگی شخصیت برجسته انگیزشی، نویسنده و سخنران معروف را گردآوری کرده ایم.
دیل هاریسون کارنگی (به انگلیسی: Dale Harbison Carnegie) (زاده ۲۴ نوامبر ۱۸۸۸ – درگذشته ۱ نوامبر ۱۹۵۵) یک نویسنده و سخنران آمریکایی توسعه دهندهٔ درس‌هایی در زمینهٔ پیشرفت شخصی، فروشندگی و سخنرانی در جمع بود. یکی از شاخص‌ترین و مهمترین ایدهٔ کارنگی در کتاب‌هایش این بود که می‌توان اخلاق برخی را با تغییر دادن رفتارمان در مقابل شان، تغییر داد.
سخنان دیل کارنگی نویسنده معروف
    برای رسیدن به آرامش باید دری آهنی بر روی گذشته و آینده کشید و تنها به زمان حال اندیشید. دیل کارنگی
    اگر مي‌بيني كسي به روي تو لبخند نمي‌زند علت را در لبان فرو بسته ي خود جستجو كن. دیل کارنگی
    همواره دیگران را تشویق کنید. خطاهایشان را کوچک و کاری را که می‌خواهید انجام دهند آسان نشان دهید. دیل کارنگی
    هنر گوش دادن را فراگیرید. فرصت‌ها گاهی به آهستگی در می‌زنند. دیل کارنگی
شعر پرستار با مجموعه شعر قدردانی از زحمات پرستاران با عکس نوشته
در این بخش چند شعر زیبا درباره شغل پرستاری، تشکر کردن از پرستار و جملات زیبا برای پرستاران عزیز ارائه کرده ایم.
شعر پرستار
    تاجر عشقیم و کالای وفا داریم ما
    اصلا ای اهل عالم کیمیا داریم ما
    بارش مهریم بر درمانده ها و دردمند
    چشم یکسانی بر فقر و غنا داریم ما
    سرو ایستاده بپائیم تا بخوابد مهر و ماه
    چشم ما نرگس ندارد ادعا داریم ما
    شام تاریک است و درد سنگین و ما درد آشنا
    اندر آن تاریکی ظلمت خدا داریم ما
    با صدای پای ما خورشید برخیزد ز خواب
    با نماز صبح بیماران صفا داریم ما
    مونس ما آه یلدا و حدیث درد و رنج
    همنشینی با نوای بی نوا داریم ما
    پای هر تختی دمی درد دلی باید شنید
    گوش عادت کرده ای با لهجه ها داریم ما
    نیستی ای دوست تا اشکش ببینی در سپاس
    ما چنین دردانه را اشک خدا داریم ما
    این سجایا را پرستار از برای خود نگفت
    این اقلی بود در تقدیر ایشان که رجا داریم ما
شعر کودکانه پرستار + اشعار به زبان کودکانه برای تشکر و قدردانی از پرستاران
شعر کودکانه زیبا با موضوع پرستار برای قدردانی و تشکر از پرستاران عزیز و فداکار را در این بخش تاپ ناز آماده کرده ایم.
شعر کودکانه تشکر از پرستار
    توی پرستاری نمونه ست
    در کل دنیا عمه زینب
    حس می کنم سخت است کارش
    زیرا سر کار است هر شب
    او با نگاه مهربانش
    مثل ستاره می درخشد
    چون دوست دارد تا به بیمار
    لبخند شادی را ببخشد
    یک هدیه می گیرم برایش
    امسال در روز پرستار
    روزی که می آید به دنیا
    یکه عمه خوب و فداکار
شعر عاشقانه حافظ در مورد عشق
گلچین شعر، دوبیتی عاشقانه، غزلیات عاشقانه، رباعیات و اشعار عاشقانه عشقی و رمانتیک و معشوق را در ادامه تاپ ناز می خوانید.
شعر کوتاه حافظ
    مرحبا ای پیک مشتاقان بده پیغام دوست
    تا کنم جان از سر رغبت فدای نام دوست
    واله و شیداست دایم همچو بلبل در قفس
    طوطی طبعم ز عشق شکر و بادام دوست
    الا ای آهوی وحشی کجایی
    مرا با توست چندین آشنایی
    دو تنها و دو سرگردان دو بیکس
    دد و دامت کمین از پیش و از پس
    بیا تا حال یکدیگر بدانیم
    مراد هم بجوییم ار توانیم
منبع :    https://www.topnaz.com/category/fun/story/
------------------------------------------------------------
بیوگرافی
بیوگرافی بازیگران, زندگینامه, بیوگرافی خوانندگان و هنرمندان
بیوگرافی بردلی کوپر بازیگر با استعداد هالیوود؛ از ازدواج تا رابطه با دوست دختر رونالدو
بردلی کوپر یکی از ستارگان هالیوود است که به غیر از داشتن چهره‌ای جذاب در بازیگری نیز مهارت بسیار بالایی دارد. بردلی چندین بار نامزد دریافت اسکار شده و با بازیگران بزرگی همکاری کرده است، ما امروز در مجله اینترنتی تاپ ناز به زندگی شخصی و هنری این ستاره هالیوود خواهیم پرداخت، پس تا آخر همراه ما باشید.
بردلی کوپر در یک خانواده کاتولیک بزرگ شد. گلوریا کمپانو، مادر بردلی، یکی از کارمندان شعب شبکه NBC در فیلادلفیا بود و چارلز کوپر، پدر بردلی، کارگزار سهام در شرکت سرمایه‌ گذاری مریل لینچ بود. وی یک خواهر بزرگ‌تر از خود با نام هالی دارد. طرف پدری، ریشه‌ ایرلندی داشت، درحالی‌که اقوام مادری وی ایتالیایی بودند و اجداد آن‌ها به‌شهرهای ناپل و آبروزو برمی‌گشت.
در ابتدا بردلی در دانشگاه ویلانوا پذیرش می‌شود ولی مدتی بعد به دانشگاه جورج‌تاون انتقالی گرفته و در همین دانشگاه مدرک لیسانس زبان انگلیسی خود را در سال 1997 کسب می‌کند. در دانشگاه جورج‌تاون بود که بردلی به زبان فرانسه مسلط شده و بعد از آن به عنوان دانشجو، 6 ماه به فرانسه رفته و در اکس آن پروانس اقامت می‌کند. کمی بعد در سال 2000 نیز وی موفق به اخذ مدرک فوق لیسانس از اکتورز استودیو در نیویورک می‌شود.
مشکل شنوایی در کودکی
بردلی کوپر در هنگام تولد یکی از گوش هایش دچار عفونت شدید شده بود و کسی از این موضوع باخبر نشده بود، تا اینکه بعد از درد بسیار و مراجعه به دکتر متوجه شدند که پرده گوشش به شدت آسیب دیده است به خاطر همین دلیل یکی از گوش های او شنوایی کمی نسبت به دیگری دارد.
بیوگرافی الکساندرا داداریو بازیگر جذاب آمریکایی از روابط تا ازدواج
الکساندرا داداریو یکی از جذاب‌ترین بازیگران هالیوود است که به تازگی رتبه اول زیباترین زن سال را بدست آورده است. ما امروز در مجله اینترنتی تاپ ناز به زندگی شخصی و هنری این سلبریتی مشهور خواهیم پرداخت، پس تا آخر همراه تاپ ناز بمانید.
الکساندرا آنا داداریو در 16 مارس 1986 در شهر نیویورک، ایالات متحده آمریکا دیده به جهان گشود.
الکساندرا داداریو در خانواده‌‌ای به شدت پولدار و پرنفوذ بزرگ شد. مادر او کریستینا وکیل معروفی در آمریکا و پدر او ریچارد دادستان و رئیس سابق واحد ضد تروریسم بود. همینطور پدربزرگ وی امیلیو کیو داداریو از سال 1959 تا 1971 یکی از اعضای دموکرات مجلس نمایندگان ایالات متحده در ایالت کنتیکت بود.
او فرزند اول خانواده بود و بعد از او یک پسر و یک دختر دیگر متولد شدند. برادر الکساندرا، متیو بازیگر است و خواهرش کاترین مدل و چهره مشهور فضای مجازی است.
الکساندرا داداریو به گفته خودش در خانواده‌ای به شدت مقرراتی بزرگ شد. او در سن 9 سالگی به نواختن پیانو مشغول شد و در کمترین مدت به یکی از حرفه‌ای ترین پیانیست‌های همسن خود تبدیل شد. او بعد‌ها به یادگیری رقص نیز مشغول شد. الکساندرا می‌گوید که از همان سنین کودکی با دیدن فیلم، به بازیگری علاقه‌مند شد.
الکساندرا به مدرسه بریرلی رفت و به تحصیل ادامه داد. او همچنین در مدرسه خصوصی Brearley، در شهر نیویورک به تحصیل ادامه پرداخت. او بعد‌ها به دانشگاه Marymount Manhattan در منهتن رفت و به تحصیلش ادامه داد. به گفته خود وی تصمیم داشت حقوق بخواند اما به خاطر علاقه به بازیگری از ادامه تحصیل انصراف داد.
بیوگرافی الیزابت اولسن بازیگر جذاب هالیوود؛ از بازیگری تا روابط عاشقانه
الیزابت اولسن یکی از ستارگان نوظهور سینما است که در چند سال اخیر در نقش مارولی ساحره توانسته اسم و رسمی برای خود دست و پا کند، این بازیگر توانمند علاوه بر استعداد در بازیگری، چهره‌ای به شدت زیبا و جذاب دارد. ما امروز در مجله اینترنتی تاپ ناز به زندگی شخصی و هنری الیزابت اولسن خواهیم پرداخت، پس تا آخر همراه تاپ ناز بمانید.
الیزابت در دوران کودکی بیش از آن که به بازیگری علاقه‌مند باشد، دوست داشت خواننده‌ معروفی شود. او در کودکی در جمع دوستان و خانواده اش بارها قدرت و زیبایی صدایش را به رخ کشیده بود و به خاطر تشویق اطرافیانش در دوران دبیرستان در تست خوانندگی گروه مدرسه اش شرکت کرد.
مدرسه‌ هنر تیش یکی از مشهورترین مدارس هنر کشور آمریکا است، جایی که الیزابت در آن جا به تحصیل می‌پرداخت. این مدرسه همانند یک زمین تمرین برای هنرمندان بود و بسیاری از بازیگران، خوانندگان و فیلم سازان کار خود را از این مجموعه شروع کرده‌اند. الیزابت نیز که از همان دوران کودکی تحصیلات آکادمیک خود را در این مجموعه گذارند. از دیگر فعالیت هایی که الیزابت در دوران کودکی به آن ها مشغول بود میتوان به رقص باله نیز اشاره کرد که البته هیچ وقت به صورت حرفه ای آن را ادامه نداد.
خانواده‌ای به شدت مشهور
بیشتر خانواده اولسن ها از همان ابتدا شهرت زیادی بدست آورده بودند. مادر الیزابت جارنی یکی از مشهورترین رقاص های آن زمان بود و همچنین خواهران دوقلوی الیزابت که نه تنها از سنین کودکی به عرصه بازیگری ورود کرده بودند بلکه بخاطر چهره زیبایی که داشتند در زمینه فشن و مد نیز به شهرت بسیاری دست پیدا کرده بودند.
الیزابت اولسن بیشتر شهرت دوران بازیگری خود را مدیون دنیای مارول و نقش ابرقهرمانی وانداویژن یا همان ساحره است که او را نه تنها در آمریکا بلکه در تمام دنیا به شهرتی باورنکردنی رساند.
الیزابت اولین بار توسط کارگردان های موفق، برادران روسو به سینمای مارول وارد شد. فیلم کاپیتان آمریکا: سرباز زمستان اولین حضور الیزابت در مارول بود که به شدت درخشان ظاهر شد و فیلم توانست فروشی معادل بر 714 میلیون دلار داشته باشد.
حضور خوب و پررنگ الیزابت اولسن تنها در یک فیلم مارول متوقف نشد و او در دیگر قسمت های این مجموعه انتقام‌جویان: عصر اولتران، کاپیتان آمریکا: جنگ داخلی، انتقام‌جویان: جنگ ابدیت، انتقام‌جویان: پایان بازی و دکتر استرنج در چندجهانی دیوانگی نیز به ایفای نقش پرداخت.
منبع :   https://www.topnaz.com/category/fun/biogerafi/
---------------------------------------------------------------
متن و جملات زیبا
متن زیبا، پیامک، اس ام اس، جملات زیبا، متن های کوتاه و بلند
سخنان اسحاق نیوتون فیزیکدان معروف با جملات آموزنده
در این بخش سخنان اسحاق نیوتون دانشمند و فیزیکدان برجسته را ارائه کرده ایم. در ادامه گزیده ای از متن و جملات آموزنده اسحاق نیوتون را در تاپ ناز بخوانید.
جملات زیبا و سخنان اسحاق نیوتون
    جاذبه حرکت سیارات رو توضیح میده،
    اما نمی تونه توضیح بده که چه کسی سیارات رو به ح��کت در میاره.
    من نمیدانم به چشم مردم دنیا چگونه به نظر می آیم اما در چشم خودم شبیه کودکی هستم که در کنار دریا به بازی مشغول است و هر از گاهی از یافتن سنگی صاف تر یا صدفی زیباتر مشعوف می شود، در حالی که اقیانوس عظیم حقیقت کشف نشده، پیش چشم او گسترده است.
    این زیباترین منظومه خورشید، سیارات و دنباله‌ دار ها،
    تنها می‌ تونست از مشورت و فرمانروایی موجودی هوشمند و قدرتمند سرچشمه بگیره.
متن تبریک بارداری؛ جملات صمیمانه تبریک باردار شدن عزیزان
در این بخش مجموعه متن تبریک بارداری، جملات صمیمانه و عکس نوشته تبریک باردار شدن عزیزان را ارائه کرده ایم.
جملات و متن تبریک بارداری
    گل‌ های سپید یاس همه از میلاد فرزندی که در دل داری، مژده می‌دهند و کودکی‌های عشق را سرود سبز حضورش می‌سراید
    باردار شدنت مبارک عزیزم
**
    با عشق و آرزوهای خوب برای همسر باردارم
    ازت می خوام که مراقب خودت باشی
    و مطمئن بشی که زایمان خوبی در پیش داری
    و یه فرشته کوچولو به زندگی ما هدیه بدی
**
    در چند ماه آینده تو به جمع موجودات فوق بشری به نام “مادران” می پیوندی
    مامان شدنت مبارک
سخنان زیگموند فروید روانکاو معروف؛ 30 جمله آموزنده زیبا و از او
در این بخش مجموعه سخنان زیگموند فروید را گردآوری کرده ایم.در ادامه جملات و متن هایی آموزنده از این روانکاو را بخوانید.
زیگموند فروید (به آلمانی: Sigmund Freud, تلفظ آلمانی: [ˈzi:kmʊnt ˈfʁɔʏ̯t] نام در زمان تولد: زیگیسموند شلومو فروید، ۶ مهٔ ۱۸۵۶ – ۲۳ سپتامبر ۱۹۳۹) عصب‌شناس برجسته اتریشی و بنیانگذار دانش روانکاوی، به‌عنوان یک روش درمانی در روان‌شناسی بود. فروید از تاثیرگذارترین شخصیت‌های اوایل قرن بیستم بود.
جملات و سخنان زیگموند فروید
    زن باید مرد را نرم کند اما نباید او را ضعیف کند.
**
    نگاه کردن به گل‌ها آرامش‌آور است. آنها نه احساسی دارند و نه ستیزه‌ای.
**
    آدم اكراه دارد كه بگوید نیت «شاد بودن انسان» در برنامه «آفرینش» جایی نداشته است.
متن احساسی هوای بارانی + جملات خاص و ویژه روز بارانی پاییز و زمستان
متن و جملات احساسی بارانی و بارش
جدیدترین مجموعه جملات و متن های روز بارانی فصل پاییز و زمستان را با مضامین احساسی آماده کرده ایم این متن های احساسی را می توانید در روزهای بارانی سال برای کپشن و استوری انتخاب کنید و از خواندن آنها لذت ببرید.
    فصل باران است بارانی شویم / از درون جوشیم و طوفانی شویم
    بوی خاک و بوی نمناک چمن / کیف دارد زیر باران تر شدن
    در تمام قطره ها تکثیر شو / زیر باران خدا تطهیر شو . . .
    دمش گرم ، باران را میگویم ، به شانه ام زد و گفت :
    خسته شدی ، امروز تو استراحت کن ، من به جایت می بارم . . .
    تنها ادامه میدهم در زیر باران
    حتی به درخواست چتر هم جواب رد میدهم
    میخواهم تنهایی ام را به رخ این هوای دو نفره بکشم
    ببار باران من نه چتر دارم نه یار . . .
    با ابرها چه غصه‌ی پنهانی‌ست؟
    این عصرِ چندشنبه‌ی بارانی‌ست؟
    وقتی که می‌بُریم مدام از هم
    این عشق نیست ، چاقوی زنجانی‌ست !
    حکمت باران در این ایام می دانی که چیست ؟
    آب و جارو میشود بهر محرم کوچه ها . . .
    السلام علیک یا اباعبدالله
    سر زد به دل دوباره غم کودکانه ای
    آهسته می تراود از این غم ، ترانه ای
    باران شبیه کودکی ام پشت شیشه هاست
    دارم هوای گریه ، خدایا ، بهانه ای . . .
منبع :   https://www.topnaz.com/category/fun/sms/
1 note · View note
nabroman · 7 months
Text
دانلود رمان فریحا از حدیث افشارمهر با لینک مستقیم برای موبایل و کامپیوتر
Tumblr media
دانلود رمان فریحا از حدیث افشارمهر با لینک مستقیم برای موبایل و کامپیوتر
دانلود رمان فریحا از حدیث افشارمهر با لینک مستقیم
ژانر رمان: عاشقانه،درام
خلاصه رمان فریحا
یه دختر با یه سرگذشت غمگین، دختری که مادرش فرار کرده و پدرش یه الکلی
بی‌خانمانه. از همهٔ جهان طرد شده و هیچ‌کس دوستش نداره… اون دختر منم! فریحا‌ نور
دنیای غمگین خودم رو پر از نقش و‌ سکانس کردم من عاشق بازیگری بودم.
می‌خواستم یه روز بزرگ‌ترین بازیگر ترکیه بشم، اما توی دنیایی زندگی‌ می‌کردم که زن‌ها
رو جدی نمی‌گرفتن و یکی از اون‌‌ها من بودم. چی می‌شه اگه زندگی بچرخه، همه‌چیز‌
عوض شه و توی یه زیرشیرونی زندگی کنی  درحالی‌که سرپرست خواهر دبیرستانیت هستی؟
من می‌تونم؟ این سؤالی بود که همیشه از خودم پرسیدم. ته این قصهٔ پرغصه چی
می‌شه؟ عشق، هدف و شغل‌ همگی اون‌ چیزی نشدن که همیشه تصور‌ می‌کردم.
زندگی خیلی عجیبه!
عجیب‌بودنش زمانی می‌شه که عاشق عشق قدیمی دوستم شدم، رفیق صمیمیم!!! چرا؟
چرا این اتفاق افتاد وقتی اون رو مسخره می‌کردم که اینقدر عاشق اون مرده
download
0 notes
Text
چھوڑ آیا ہوں۔ छोड़ आया हूं
سمندر کو دریا میں نچوڑ آیا ہوں اپنی زمین اپنا مکان چھوڑ آیا ہوں۔ آکر یہاں میں بن گیا ہوں مہاجر وطن میں بزرگوں کی ہڈیاں چھوڑ آیا ہوں ہمارے درد کا مسیحائی اب کوں کریگا دنیا کے خاطر قرآن و حدیث چھوڑ آیا ہوں نہیں ہے مجھے اب انجام کی کوئی پرواہ زمین پر رہ کر آسماں والے کو چھوڑ آیا ہوں زندگی گزار دیا سر زمین حرم میں مگر دولت کما لایا اسلام چھوڑ آیا ہوں समंदर को दरिया में निचोड़ आया हूं,अपनी…
View On WordPress
0 notes
deendwellers · 9 months
Text
جہنم کا عذاب قرآن و حدیث سے: ایک گہرائی سے تحقیق
Visit the mentioned link to the full article uploaded on my website:-
0 notes
humaahmed · 2 years
Text
اَلسَّــلاَمُ عَلَيـكُــم وَرَحْـمَــةُ اللهِ وَبَــرَكـَاتــه
صَــلَّــی اللّٰـهُ تَـعَالٰـی عَـلَـیْـہِ وَاٰلِــہ وَسَــــلَّم
(صبح بخیر زندگی)
تکلیفیں برداشت کرنا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کردینے والے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کو پسند کرتا ہے۔'' (سورة آل عمران: 143)
اور فرمایا: ''اور وہ شخص جس نے صبر کیا اور معاف کردیا بے شک یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔'' (سورة الشوری:43)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: "اے اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتے دار ہیں میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں (تعلقات جوڑتا ہوں) اور وہ مجھ سے قطع تعلقی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہوں اور وہ مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں، میں ان سے حلم و بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ مجھ سے جہالت سے پیش آتے ہیں۔ (یہ ساری باتیں سن کر) آپ نے فرمایا: ''اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے کہا ہے تو گویا تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو اور جب تک تم ایسے کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے خلاف تمہارے ساتھ ایک مددگار رہے گا۔''
(مسلم)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (318) ملاحظہ فرمائیں
Tumblr media
3 notes · View notes
winyourlife · 11 months
Text
خوش رہنے کے دس اصول
Tumblr media
’خوشی‘ ایک ایسا چہار حرفی لفظ ہے جو کہ اس کائنات کا ہر فرد اپنی زندگی میں ہر لحظہ موجود چاہتا ہے لیکن یہ کسی شوخ پرندے کی مانند ایک شاخ سے دوسری اور ایک مسکن سے اگلے ٹھکانے کی طرف لپکتا رہتا ہے۔ جس شاخ پہ بیٹھ جاتا ہے وہ کھل اْٹھتی ہے اور جہاں سے کوچ کرتا ہے وہاں غم نامی سیاہ کوا کائیں کائیں کرتا ہے اور شاخ تھکی ہوئی اور پژمردہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ خوشی آخر ہے کیا؟؟ مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کے حصول میں خوشی محسوس کرتا ہے، وہ نعمتیں جو پوری پوری کائنات کے چپے چپے میں بکھری ہوئی ہیں۔ نعمتوں کے حصول میں کامیابی سے اس کے دل میں خوشی اور شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ مذہب میں خوشی کا تصور مختلف ہے، وہ خوشی جو حقیقی اور ازلی ہے۔ ایک مسلمان پر بعض اوقات غم کی بھی کیفیات وارد ہوتی ہیں اور یہ غم مختلف آزمائشوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ وہ آزمائشیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک مسلمان کا امتحان لیتا ہے۔ 
اللہ رب العزت نے ان مصیبتوں پر انسان کو صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اور کتنے ہی انبیاء ایسے ہوئے جنہوں نے جہاد کیا اور ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے (اولیاء ) بھی شریک ہوئے، تو نہ انہوں نے ان مصیبتوں کے باعث جو انہیں اللہ کی راہ میں پہنچیں، ہمت ہاری اور نہ وہ کمزور پڑے اور نہ وہ جھکے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (آل عمران 3:146) یہی صبر ایک مسلمان کے اندر خوشی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق : ’’خوش ہونا اس ذہنی کیفیت کا نام ہے جب ہمیں ساری دنیا اچھی لگ رہی ہوتی ہے۔ منفی سوچیں ہم سے دور ہوتی ہیں اور ہم زیادہ صحت مند محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘ معاشرتی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو ہر من چاہی چیز کا حصول خوشی ہے۔ دنیا کی ہر آسائش اور تمام نعمتیں اپنے پاس جمع کرنا خوشی کی انتہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر شخص کی خوشی کا پیمانہ دوسرے سے مختلف ہے۔ کسی کے نزدیک اپنی فکروں کو رفع کرنا خوشی ہے تو کوئی بچپن کے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کو خوشی قرار دیتا ہے۔ کسی کو چاہنا اور چاہے جانا خوشی لگتا ہے تو کسی کے لیے امتحان کا ختم ہونا خوشی ہے۔ کسی کو مرضی کا کام خوشی دیتا ہے تو کسی کے مطابق ذہنی سکون ہونا خوشی ہے۔ یہ فہرست نہ ختم ہونے والی ہے کیو نکہ ہر شخص کی خوشی دوسرے سے الگ ہے۔
Tumblr media
دنیا کے اکثر لوگوں کے پریشان رہنے کی وجہ خوشی کی تلاش ہے۔ خوش رہنا بھی ایک فن ہے اور اس کو بھی باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں خوش رہنے جیسا بنیادی فن سکھایا ہی نہیں جاتا حالانکہ ہماری مذہبی تعلیمات اس حوالے سے اس قدر مثبت اور زبردست ہیں کہ اگر ہم ان پر عمل پیرا ہوں تو زندگی میں خوشی نہ ہونے کی شکایت دور ہو جائے۔ خوشی کا تعلق دراصل آپ کی قوت برداشت پر ہے، جتنی آپ کی قوت برداشت مضبوط ہو گی اتنا ہی آپ خوش رہنے میں کامیاب ہوں گے۔ بات بے بات لوگوں پر غصہ نہ کرنا اور اختلاف رائے کو کھلے دل سے برداشت کر لینے والا شخص ہمیشہ خوش رہتا ہے۔ اگر آپ اپنے مزاج کے خلاف ہونے والے کاموں کو برداشت کرنا سیکھ گئے ہیں تو آپ نے خوش رہنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ آپ لوگوں کی خوشی میں جلتے کڑھتے نہیں ہیں بلکہ دل سے خوش ہو کر شامل ہوتے ہیں تو آپ خوش رہ سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی قسمت پر شاکی نہیں ہیں اور اپنے غم اور دکھ اللہ کے سوا کسی کے سامنے بیان نہیں کرتے تو یقین کریں آپ خوش رہ لیں گے۔ اگر آپ چھوٹی سے چھوٹی نعمت ملنے اور بڑی سے بڑی مشکل پڑنے پر بھی لفظ ’اللہ‘ ہی منہ سے نکا لتے ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں۔
اگر آپ نے لوگوں کو گرا کر خود اوپر اٹھنا، دوسروں کو پیچھے چھوڑ کر خود آگے نکلنا اور دوسروں کے بارے میں بُرے گمان رکھنے کی بجائے دوسروں کی کامیابی کے لیے بھی سوچنا شروع کر دیا ہے تو یقین کریں آپ نے خوش رہنا سیکھ لیا ہے۔ جب تک آپ وقتی چیزوں میں خوشی تلاش کرتے رہیں گے تو یہی ہو گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ خوشی کافور ہو جائے گی۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ پریشانیوں، غموں، دل اور روح کی بے سکونی اور ناخوشی کے بنیادی اسباب میں سے ایک اہم سبب ’’اپنے پاس ہونے والی چیزوں سے راضی نہ ہونا ہے‘‘۔ اس حوالے سے یہ حدیث مبارکہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ :’’جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے مقرر کیا ہے اْس پر راضی رہو تو غنی ترین لوگوں میں سے ہو جاؤ گے‘‘۔ (سنن ترمذی) جو کچھ آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کا نہ ملنا کوئی انوکھا امر نہیں ہے، بلکہ اسے ایک معمول کے طور پر لینا چاہیے لیکن ہم اسے معمول کی بجائے حسرت اور دکھ بنا لیتے ہیں اور پھر یہی حسرت اور دکھ ناخوشی، نفسیاتی دباؤ بلکہ بعض اوقات جسمانی بیماریوں تک کا باعث بن جاتا ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ کوئی چیز یا دنیاوی مال و آسائش روحانی سکون اور خوشی کا باعث نہیں ہوتی جب تک اللہ اس میں برکت نہ ڈال دے۔ اس دنیا میں بہت سے لوگ مال و دولت کی ریل پیل کے باوجود خوش نہیں ہیں۔ دوسری طرف بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لیے ضروریاتِ زندگی پوری کرنا بھی عظیم مشقت ہے لیکن وہ خوش اور پُر سکون ہوتے ہیں۔ خوشی نظر آنے والی یا ہاتھ میں آنے والی چیز نہیں ہے، سکون کو ہم دیکھ نہیں سکتے اور نہ اطمینان کو چْھوا جا سکتا ہے۔ جو چیز نظر ہی نہیں آتی، وہ نظر آنے والی مادی چیزوں سے کیسے مل سکتی ہے؟ نفسیاتی اور عمرانی علوم کے ماہرین نے خوش رہنے کے لئے انسانوں کو چند اصول بتائے ہیں اگر ان پر عمل کیا جائے تو شاید خوشی نامی تتلی آپ کے گرد منڈلانا شروع کر دے۔
1۔ مثبت سوچ: اگرآپ لمبے عرصے کیلیے خوش رہناچاہتے ہیں تومثبت سوچ اپنائیں۔ ہر منفی سے منفی بات سے بھی مثبت پہلونکالنے کی عادت اپنائیں۔ روزانہ کم از کم چالیس دن تک اپنی زندگی کا ایک سے دومنٹ جائزہ لیں اور اس کے تین مثبت پہلو نکالیں۔ اللہ کی عطا کردہ کوئی سی تین نعمتیں شمار کریں۔ چالیس دن کے بعدآپ کا ذہن خود بخود آپ کی زندگی کے مثبت پہلو شمار کرنے لگے گا اور یہ آپ کی ��وچ کا حصہ بن کر آپ کو خوش رکھنے میں معاون ثابت ہو گا۔
2۔ چھوٹی سے چھوٹی کامیابی کو اہمیت دیں: زندگی میں خوش ہونے کے لیے بڑی خوشی یا کسی عظیم کامیابی کا انتظار کرنا اور اس کے حصول کی کوشش میں مصروف رہنا کبھی آپ کو حقیقی خوشی نہیں دے سکتا۔ کسی بڑے معرکے کے انجام پانے کا انتظار کرنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی کامیابیوں اور خوشیوں کی بھی اتنی خوشی منائیں جیسے آپ نے دنیا فتح کر لی ہو۔
3۔ زندگی میں توازن رکھیں : اپنی زندگی کی ترجیحات طے کریں اور کام اور تفریح کو توازن سے زندگی کا حصہ بنائیں۔ نہ تو صرف کام میں منہمک رہیں اور نہ ایسا کریں کہ زندگی جیسے قیمتی سرمائے کو محض تفریح کی نذر کر دیں۔ خود کو، اہل خانہ کو اور دوستوں کو باقاعدگی سے وقت دیں۔ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ مل بیٹھنے کا پروگرام ضرور بنائیں کیوں کہ زندگی صرف کام کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے بھی ہے۔
4۔ تخلیقی سوچ اپنائیں : انسان کی سوچ کا اس کے مزاج پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اگر معاشرے کی روایتی فکر سے ہٹ کر تعمیری اور تخلیقی سوچ رکھیں گے تو یہ چیز آپ کو خوشی دے گی۔ تخلیقی سرگرمیاں مثلاً لکھنا، رنگ آمیزی کرنا آپ کی طبیعت کو شاد کام کر سکتی ہیں۔ تخلیق اللہ کی صفت ہے، اگر آپ کو اس میں سے کچھ عطا ہوا ہے تو آپ خوش بخت ہیں۔
5۔ اپنی خامیاں قبول کریں : آپ اس وقت تک کامیاب اور خوش نہیں ہو سکتے جب تک اپنی ذات کی خامیوں کو کھلے دل سے قبول نہیں کرتے۔ دنیا میں کامل انسان صرف آپ ﷺ ہیں۔ باقی سب خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہیں۔ اپنی خامیاں تسلیم کر کے ان کی اصلاح کی کوشش کریں کیوں کہ آپ کو اس کوشش کا بھی اجر ملے گا۔
6۔ اپنی مرضی کا کام منتخب کریں : اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو کسی ایسے کام میں استعمال مت کریں جو آپ کی طبیعت کے موافق نہ ہو۔ ہمیشہ اپنی دلچسپی کا شعبہ منتخب کریں تا کہ آپ اس کا حق ادا کر سکیں۔ اپنی زندگی کے قیمتی مہ وسال بے دلی سے اور بوجھ سمجھ کر کیے جانے والے کام میں ضائع مت ہونے دیں۔
7۔ حال میں زندگی گزاریں : خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا دیا جائے اور مستقبل کے لئے اللہ پر بھروسہ کیا جائے۔ جن چیزوں کو بدلنا آپ کے بس میں نہیں ہے انہیں فراموش کر دیں۔ آپ کا آج آپ کے ہاتھ میں ہے، اس لیے آج میں رہنے کی عادت اپنائیں۔
8۔ خود اعتماد بنیں: اللہ نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور رکھی ہے۔ اپنی خوبیوں کا احساس کریں اور خود کو دوسروں سے کم تر مت سمجھیں۔ اس بات کا یقین رکھیں کہ جو صلاحیت اور خوبی آپ کے پاس ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ جب آپ اپنی صلاحیتوں کو پہچان لیں گے تو پُر اعتماد اور خوش رہیں گے۔
9۔ دوسروں سے موازنہ مت کریں : اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو کبھی اپنی زندگی کا موازنہ اور مقابلہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ مت کریں۔ بظاہر خوش باش دکھا ئی دینے والا شخص بھی دکھ چھپائے ہو سکتا ہے اور بظاہر بدحال معلوم ہونے والا اپنے دگرگوں حالات کے باوجود مطمئن ہو سکتا ہے۔ جو کچھ آپ کو دیا گیا ہے، اس پر شکر گزار ہوں، دوسروں کو دی گئی نعمتوں پر نظر مت رکھیں۔
10۔ اپنی خوبیاں خود کو یاد دلاتے رہیں : ہر انسان میں چھوٹی بڑی لا تعداد خوبیاں ہوتی ہیں۔ کسی دن اگر زیادہ اداس ہوں تو کاغذ قلم لے کر بیٹھ جائیں اور اپنی خوبیاں لکھ کر خود کو یاد دلائیں، یقیناً آپ بہت اچھا محسوس کریں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ زندگی عارضی بھی ہے اور مختصر بھی، تو اس مختصر اور عارضی پڑاؤ کے وقفے میں دائمی حیات کو آسان بنانے والے کام کریں۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں پر محنت کریں تا کہ آپ اطمینان سے اس دنیا سے رخصت ہوں اور دائمی زندگی میں حقیقی خوشی سے ہم کنار ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت ہی وہ واحد جگہ بتائی ہے جہاں کوئی خوف اور غم نہیں ہو گا۔
ڈاکٹر شائستہ جبیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
hassanriyazzsblog · 22 days
Text
🌹🌹𝗟𝗜𝗩𝗘𝗟𝗜𝗛𝗢𝗢𝗗.
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
8️⃣3️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💠 𝗟𝗜𝗩𝗘𝗟𝗜𝗛𝗢𝗢𝗗:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝘀𝗮𝗶𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗔𝗹𝗹𝗮𝗵 𝗹𝗼𝘃𝗲𝘀 𝗛𝗶𝘀 𝘀𝗲𝗿𝘃𝗮𝗻𝘁 𝘄𝗵𝗼 𝗲𝗮𝗿𝗻𝘀 𝗵𝗶𝘀 𝗹𝗶𝘃𝗲𝗹𝗶𝗵𝗼𝗼𝗱 𝘁𝗵𝗿𝗼𝘂𝗴𝗵 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸.
(AlMaqasidulHasanah, Hadith No. 246)
● 𝗧𝗵𝗶𝘀 𝘁𝗿𝗮𝗱𝗶𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗲𝘅𝗽𝗹𝗮𝗶𝗻𝘀
𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗺𝗽𝗼𝗿𝘁𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝗲𝗮𝗿𝗻𝗶𝗻𝗴 𝗮 𝗹𝗶𝘃𝗶𝗻𝗴.
● 𝗠𝗮𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗮 𝗹𝗶𝘃𝗶𝗻𝗴 𝗯𝘆 𝘄𝗼𝗿𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝗶𝘀 𝗻𝗼𝘁 𝗮 𝘀𝗶𝗺𝗽𝗹𝗲 𝗺𝗮𝘁𝘁𝗲𝗿.
● 𝗧𝗵𝗲 𝗳𝗮𝗰𝘁 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝘀𝗼𝘂𝗿𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝗮𝗹𝗹 𝗵𝘂𝗺𝗮𝗻 𝘃𝗶𝗿𝘁𝘂𝗲𝘀.
● 𝗧𝗵𝗲 𝗽𝗿𝗼𝘃𝗶𝘀𝗶𝗼𝗻 𝗼𝗳 𝗹𝗮𝗯𝗼𝗿 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝗺𝗼𝘀𝘁 𝗹𝗮𝘄𝗳𝘂𝗹.
● 𝗘𝗮𝗿𝗻𝗶𝗻𝗴 𝗮 𝗹𝗶𝘃𝗶𝗻𝗴 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝗺𝗮𝗸𝗲𝘀 𝗮 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻 𝗴𝗿𝗼𝘂𝗻𝗱𝗲𝗱 𝗶𝗻 𝗿𝗲𝗮𝗹𝗶𝘁𝘆.
● 𝗧𝗵𝗲 𝗽𝗿𝗼𝘃𝗶𝘀𝗶𝗼𝗻 𝗼𝗳 𝗵𝗮𝗿𝗱
𝘄𝗼𝗿𝗸 𝗰𝗿𝗲𝗮𝘁𝗲𝘀 𝗮 𝘁𝗲𝗺𝗽𝗲𝗿𝗮𝗺𝗲𝗻𝘁 𝗼𝗳 𝘀𝗶𝗺𝗽𝗹𝗶𝗰𝗶𝘁𝘆 𝗶𝗻 𝗮 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻.
● 𝗛𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝘀𝗮𝘃𝗲𝘀 𝗮 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗲𝗮𝘀𝗲.
● 𝗛𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝗶𝘀 𝗮𝗻 𝗶𝗺𝗽𝗼𝗿𝘁𝗮𝗻𝘁 𝗺𝗲𝗮𝗻𝘀 𝗼𝗳 𝗱𝗲𝘃𝗲𝗹𝗼𝗽𝗶𝗻𝗴 𝗼𝗻𝗲’𝘀 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻𝗮𝗹𝗶𝘁𝘆.
● 𝗘𝘃𝗲𝗻 𝗶𝗳 𝘁𝗵𝗲𝗿𝗲 𝗶𝘀 𝗻𝗼 𝗰𝗼𝗺𝗽𝘂𝗹𝘀𝗶𝗼𝗻, 𝗺𝗮𝗻 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗮𝗱𝗼𝗽𝘁 𝘁𝗵𝗲 𝗺𝗲𝘁𝗵𝗼𝗱 𝗼𝗳 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝗳𝗼𝗿 𝗵𝗶𝘀 𝗹𝗶𝗳𝗲.
● 𝗜𝗻 𝗮𝗹𝗹 𝗰𝗶𝗿𝗰𝘂𝗺𝘀𝘁𝗮𝗻𝗰𝗲𝘀, 𝗵𝗲 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗿𝗲𝗳𝗿𝗮𝗶𝗻 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝘀𝗲𝗲𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗮 𝗹𝗶𝗳𝗲 𝗼𝗳 𝗲𝗮𝘀𝗲.
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💠 ذریعہ معاش:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اپنے اس بندے سے محبت کرتا ہے جو محنت سے روزی کماتا ہے۔
(المقصد الحسنۃ، حدیث نمبر 246)
● یہ روایت روزی کمانے کی اہمیت کی وضاحت کرتی ہے۔
● محنت کر کے روزی کمانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
● حقیقت یہ ہے کہ محنت ہی تمام انسانی خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔
● محنت مزدوری سب سے زیادہ حلال ہے۔
● محنت سے روزی کمانا انسان کو حقیقت میں اباد کرتا ہے۔
● محنت سے کمائی ہوئی روزی انسان میں سادگی کا مزاج پیدا کرتی ہے۔
● محنت انسان کو آسانی سے بچاتی ہے۔
● محنت کسی کی شخصیت کی نشوونما کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
● کوئی مجبوری نہ ہو تب بھی انسان کو اپنی زندگی کے لیے محنت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
● انسان کو ہر حال میں آرام کی زندگی کی تلاش سے گریز کرنا چاہیے۔
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
💠 اسلامی تعلیمات کی روشنی میں محنت کی عظمت اور کسبِ حلال کی اہمیت :
● اسلام دنیا کے تمام مذاہب میں وہ واحد مذہب ہے،جس نے کسب حلال کے لیے محنت کو نہ صرف عظمت بخشی،بلکہ محنت کشوں کے حقوق متعین کیے۔
● اسلامی نظریۂ محنت کے تحت ہر فرد معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کا ذمے دار ہے‘ اور ہر شخص ہر حلال اور جائز پیشہ اپناسکتا ہے۔
● پیشوں کے انتخاب میں کوئی پابندی نہیں، سوائے ان کے جو شرعی طور پر ممنوع ہوں، ہر وہ شخص جو شرعی حدود میں رہ کر محنت کرتا ہے اسلام اسے عظمت عطا کرتا ہے۔
● اسلام محنت اور محنت کشی کو سراہتے ہوئے محنت کشوں اور مزدوروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
● محنت کا مقام اور محنت کرنے کی ترغیب کے حوالے سے ارشادات ربانی ملاحظہ ہوں۔
🔹ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا، جس کی اس نے کوشش کی ہو۔( سورۃ النجم)
🔹 ایک مقام پر فرمایاگیا:’’ اور دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھول۔ ( سورۃ القصص)
🔹 نیز فرمایا گیا! ’’اور پھر جب نماز (جمعہ) ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور پھر اﷲ کا فضل یعنی رزق تلاش کرنے لگو‘‘۔(سورۃ الجمعہ)
🔹 ﷲ تعالیٰ ک�� ارشاد ہے:’’ مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔‘‘(سورۃ النساء) ’’پس تم اﷲ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجایا لایا کرو‘‘۔(سورۃ العنکبوت)
🔹 ہادی عالم ‘ نبی رحمت‘ سرکار دو عالمﷺ نے محنت کرنے والوں کو جو جاں فشانی سے رزق حلال کماتے ہیں،اﷲ کا دوست و محبوب قرار دیا ہے اور خود آپ ﷺ نے محنت کرنے والے ہاتھوں کو چوم کر تاقیامت انہیں عظمت عطا فرمائی اور محنت کشوں کے حقوق کو ان الفاظ سے سند عطا فرمائی’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو‘‘۔( بیہقی‘ شعب الایمان)
🔹 محنت کی عظمت سے متعلق آپ ﷺ کے چند ارشادات گرامی ملاحظہ ہوں۔
🔹 ’’رزق حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے‘‘۔ (طبرانی)
🔹 ’’رزق زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تلاش کرو‘‘۔ ( طبرانی‘المعجم الاوسط)
🔹 ’’کسی شخص نے کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کماکر کھائے‘ اﷲ کے نبی حضرت دائودؑ اپنے ہاتھوں سے کما کر کھایا کرتے تھے‘‘ (الجامع الصحیح)
🔹 ’’بعض گناہ ایسے ہیں جنہیں سوائے رزق حلال اورطلب معیشت کے اور کوئی چیز نہیں دور کرتی‘‘۔(طبرانی)
🔹 ’’بے شک اﷲ محنت کرنے والے مومن کو محبوب رکھتا ہے‘‘۔(طبرانی)
🔹 ’’بہترین کمائی مزدور کی کمائی ہے بشرط یہ کہ کام خلوص اور خیرخواہی سے کرے‘‘۔ (دیلمی‘ الفردوس)
🔹 ’’فجر کی نماز سے لے کر طلوع شمس تک رزق کی جدوجہد کیے بغیر نیند نہ کرو‘‘۔(عسقلانی‘القول المسدود)
● اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ جاں فشانی‘ محنت و مشقت‘ سعی و کوشش کے بغیر کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی‘ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے محنت وسعی لازم ہے۔
● اگر ہم اپنے ماضی پر روشنی ڈالیں، یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں عرب کے بادیہ نشینوں نے محنت و جدوجہد کو اپنایا تو وہ صحرائے عرب سے اٹھ کر ایک عالم پر چھاگئے اور دنیا کے ہر شعبے میں چاہے وہ عبادات ہوں‘ معاملات ہوں‘ معیشت ہو یا معاشرت‘ سائنس ہو یا شعر وادب ،غرض اپنی محنت و جاںفشانی سے بحر و بر مسخر کرلیے اور پوری دنیا میں ہدایت و علم کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنے۔
● آپ ﷺ کے فرامین اور عملی زندگی سے ہمیں عمل پیہم‘محنت و مشقت اور جان فشانی کی تلقین ملتی ہے۔
● آپ ﷺ نے بچپن میں بکریاں چرائیں‘ بعثت سے پہلے باقاعدہ تجارت کی اور تجارت کی غرض سے طویل اسفار بھی کیے۔
● بیت اﷲ کی تعمیر میں حصہ لیا‘ رسول اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد مسجد قبا اور مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر میں حصہ لیا اور صحابہ ؓ کے ساتھ مزدوروں کی طرح کام کیا‘ غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھودنے میں بہ نفس نفیس شریک ہوئے۔
● آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا یہ پہلو تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگا لیتے تھے۔
● آپ ﷺ اپنی جوتیوں کی خود مرمت فرمالیتے اور سیتے تھے۔
● انبیائے کرام ؑ جہاں اﷲ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی ذمے داریاں مکمل طور سے ادا فرماتے اور رسالت کی تبلیغ فرماتے وہاں دنیوی اعتبار سے بھی ان کی محنت‘ سعی اور کوشش کی واضح مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔
● سرکار دو عالم ﷺ کے ساتھیوں نے بھی کبھی محنت سے جی نہیں چرایا اور کوئی بھی حلال پیشہ اپنانے میں عار نہ سمجھا، بلکہ اپنے عمل سے امت پر یہ ثابت کردیا کہ عزت و عظمت معاشی جدوجہد میں مضمر ہے۔
● ایک دن جب حضرت سعد ؓ نے نبی پاک ﷺ سے ہاتھ ملایا تو آپ ﷺ نے ہاتھوں کی سختی کی وجہ دریافت فرمائی تو حضرت سعد ؓ نے عرض کیا،اپنے اہل وعیال کے لیے روزی کماتا ہوں‘ اس لیے ہاتھوں کا یہ حال ہوا ہے تو رسول اﷲ ﷺ نے اپنے مبارک لبوں سے حضرت سعد ؓ کے ہاتھوں کو چوم لیا اور فرمایا: ’’یہی وہ ہاتھ ہیں جنہیں جہنم کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی‘‘۔ (ابن اثیر)
● اسلام نے سب سے پہلے محنت کشوں کے حقوق مقررفرمائے۔
🔹 آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ ان پر اتنا کام نہ لادو جو انہیں مغلوب کردے اور اگر ان پر بار ڈالو تو ان کی مدد و اعانت کرو‘‘۔ (امام بخاری‘ الجامع الصحیح)
🔹 آپ ﷺ نے مزدوروں کے حقوق سے متعلق یہ مشہور عالم ہدایت فرمائی: ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردیا کرو‘‘۔ (ابن ماجہ‘ السنن)
🔹آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اور کام لینے میں اسے اتنی تکلیف نہ دی جائے جو کہ وہ برداشت نہ کرسکے‘‘۔ (مسلم‘ الصحیح)
● محنت کی عظمت اور محنت کشوں کے حقوق سے متعلق اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔
● اسلام نے محنت کی عظمت ہی کو دنیا اور آخرت کی ترقی اور کامیابی کا ذریعہ قرار دیا اور سب سے زیادہ محنت کشوں کے حقوق کی اسلام نے پاس داری کی ہے۔
● آئیے ہم سب مل کر وطن عزیز کی تعمیر کریں‘ محنت سے جی نہ چرائیں،ایک دوسری کے حقوق کی پاس داری کریں اور پھر سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی روایات کو زندہ کریں۔
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
discoverislam · 7 months
Text
مقبول اعمال کی شرطِ اوّل
Tumblr media
ﷲ تبارک و تعالیٰ نے ابن آدم کی اصل کام یابی کے لیے ایمان اور عمل دونوں کو ضروری اور لازمی قرار دیا ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت اور اس سے ہر مسلمان کو اچھی طرح سے واقف ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ایسے لوگوں کے لیے مختلف انعامات کے وعدے کیے گئے ہیں، جن میں سے بہت سے انعامات تو اس دنیا میں بھی مل جاتے ہیں جب کہ دوسرے بہت سے انعامات ﷲ تعالیٰ اپنے ان محبوب بندوں کو آخرت میں دیں گے۔ سب سے بڑی کام یابی یہ ہے کہ وہ آخرت میں جو اصل اور ہمیشہ کی زندگی ہے۔ ﷲ کی نعمتوں اور خصوصی فضل و عنایت کے حق دار قرار دیے جائیں گے اور انہیں اپنے کیے کا بھرپور بدلہ ملے گا۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات جس پر اسلام نے بہت زور دیا ہے اسے بھی یاد رکھنا چاہیے۔ بلکہ اس کے بغیر ہمارے اعمال پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں ہو گا اور وہ یہ ہے کہ ہمارے نیک اعمال میں اخلاص ہو، اور اخلاص کا مطلب یہی ہے کہ جو بھی نیک کام ہم کریں اسے فقط ﷲ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کریں۔ 
کوئی بھی نیک عمل ریاکاری اور لوگوں کی نگاہ میں محترم بننے کے لیے کیا جا رہا ہو تو وقتی طور پر ہمیں اپنے مقاصد تو حاصل ہو جائیں گے مگر جو اس کا اصل مقصد یعنی اجر و ثواب اور عندﷲ مقبولیت ہمیں ہرگز حاصل نہیں ہو گی۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم : انسان کے تمام اعمال کا دار و مدار اس کی نیّت پر ہے اور آدمی کو اس کی نیّت کے مطابق ہی اجر ملے گا، پس جس شخص نے ﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت درحقیقت ﷲ اور رسولؐ کی طرف ہی ہوئی اورجس شخص نے کسی دنیا وی غرض یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو عندﷲ اس کی ہجرت اسی کی طرف مانی جائے گی۔‘‘ مذکورہ حدیث پاک میں ہجرت کا ذکر ایک مثال کے طور پر کیا گیا ہے اور چوںکہ اسلام کی ابتدا میں یہ ایک بہترین عمل تھا اس لیے خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
Tumblr media
اس حدیث پاک میں نبی محترم ﷺ کا اصل میں یہ کہنا ہے کہ تمام مسلمانوں کے تمام نیک اعمال کے مقبول یا نامقبول ہونے کے لیے اصل بنیاد اس کی نیّت ہے، اگر نیّت درست ہو گی تو وہ عمل مقبول ہو گا اور اگر نیّت درست نہ ہو تو وہ عمل مقبول نہیں ہو گا۔ چاہے وہ عمل ظاہر میں صالح اور عمدہ ہی کیوں نہ لگے۔ یعنی ﷲ تعالیٰ کے نزدیک ظاہر کے ساتھ انسان کے باطن کی یک سوئی اور توجہ الی ﷲ بھی ضروری ہے اور اس کے بعد ہی انسان کا عمل اس لایق ہو گا کہ اس پر اجر و ثواب مرتب ہو۔ اس موقع پر ممکن ہے کسی شخص کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا ہو جائے کہ اگر ﷲ تعالیٰ کے نزدیک کسی بھی عمل کے قبولیت کا دار و مدار نیّت پر ہے، تو اگر کوئی انسان کسی غلط عمل کو اگر اچھی نیّت سے کریں تو وہ درست ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص چوری کرتا ہے یا ڈاکا ڈالتا ہے اور اس کی سوچ اور نیّت یہ ہے کہ وہ چوری کیے ہوئے مال کو غریبوں، مسکینوں اور یتیموں میں تقسیم کروں گا، تو اس کا یہ عمل درست ہونا چاہیے؟
اس سلسلے میں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو عمل قبیح اور بُرا ہے اس کے بُرا ہونے اور ﷲ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہونے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں، بلکہ اگر کوئی شخص کسی بھی قبیح عمل کو اچھی نیّت سے کرے تو عین ممکن ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی مزید سخت پکڑ کا شکار ہوجائے، کیوں کہ یہ تو ﷲ تعالیٰ کے دین اور اس کے حکم کے ساتھ مذاق کرنے جیسا ہے۔ حدیث کی رُو سے اگر کوئی مسلمان پابندی کے ساتھ پنج وقتہ نمازیں پڑھتا ہے۔ نوافل و مستحبات کا بھی اہتمام کرتا ہے اور ایسا کرنے سے اس کی غرض یہ ہے کہ پاس پڑوس کے لوگ اسے اچھی نظروں سے دیکھیں اور اسے معاشرے میں وقار حاصل ہو تو یقیناً اس کی یہ نمازیں ضایع جائیں گی اور ان پر کوئی بھی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ بڑے سے بڑے عمل کے مقبول ہونے کے لیے بھی ہماری نیّت کا درست اور خالص ہونا لازمی ہے، اس کے بغیر عمل کرنا یا نہ کرنا دونوں برابر ہیں۔
ایک طویل حدیث رسول مقبول ﷺ میں عملِ صالح کے اس اہم پہلو پر مزید تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ حدیث پاک مسلم شریف میں نقل کی گئی ہے اور اس میں ایسے تین لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جواس جہاں میں اپنی نیک اعمال کی وجہ سے بڑے مشہور معروف ہوں گے لیکن بہ روز قیامت میں ﷲ تعالیٰ انہیں جہنم میں ڈالنے کا حکم فرمائیں گے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں ایک وہ شخص ہو گا جو راہِ خدا میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا ہو گا۔ حساب کتاب کے دوران اسے پہلے دنیا میں اسے دی جانے والی نعمتیں یاد دلائی جائیں گی پھر پوچھا جائے گا کہ تم نے ﷲ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ تو وہ کہے گا کہ یا ﷲ میں نے تیری راہ میں جہاد کر کے اور اپنی جان قربان کر کے تیری نعمتوں کا حق ادا کیا۔ تو ﷲ کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ تم جھوٹے ہو تم نے جہاد تو محض اس لیے کیا کہ دنیا کے لوگ تمہیں بڑا بہادر آدمی سمجھیں، پس دنیا میں تو تیری بہادری کا چرچا ہوتا رہا اور پھر اس شخص کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
دوسرا شخص وہ عالم دین اور عالم قرآن ہو گا اس سے بھی اسی طرح کا سوال کیا جائے گا اور جواب میں کہے گا کہ خدایا! میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کا علم حاصل کیا اور اسے لوگوں میں پھیلایا اور بے شمار لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دی، تو اسے کہا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم نے یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمہیں عالم، قاری اور مولانا کہیں پس تمہیں دنیا میں تو یہ سب کہا گیا۔ اور پھر اسے بھی جہنّم میں ڈالنے کا حکم صادر ہو گا۔ اس کے بعد ایک تیسرا شخص پیش ہو گا، جس نے دنیا میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں پر اپنے مال و دولت خرچ کرتا ہو گا، ان کی ضرورتوں میں کام آیا ہو گا، ﷲ تعالیٰ جب اس سے دریافت کرے گا کہ میری نعمتوں کا حق کس طرح ادا کیا تو وہ اپنی سخاوت کے حوالے دے گا۔ جس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو، تم نے تو یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمھیں سخی کہیں اور تمہاری سخاوت کا چرچا کیا جائے پس دنیا میں تو تمہاری خوب شہرت ہوچکی اور پھر اس شخص کو بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
ان احادیث کے علاوہ قرآن مجید کی متعدد آیات اور دوسری بہت سی احادیث پاک میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان کوئی بھی نیک اعمال کریں تو صرف ﷲ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھیں۔ ﷲ کی رضا کے بغیر بڑے سے بڑا عمل بھی ﷲ تعالیٰ کے نزدیک کوئی وقعت اور اہمیت نہیں رکھتا۔ ان تمام ارشادات اور تعلیمات کی روشنی میں ہم مسلمانوں کو اپنے اعمال کا بہ غور جائزہ لینا ہو گا اور جو بھی نیک اعمال ہم کرتے ہیں ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کل بدقسمتی سے مسلمانوں کا رشتہ اپنے دین سے اور اعمالِ خیر سے مسلسل ختم ہوتا جارہا ہے اور جو بھی نیک اعمال کرتے ہیں، ان میں بھی ریاکاری، دوسروں کے سامنے اپنی اہمیت جتانے اور دوسروں کے سامنے اچھا بننے جیسی بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ سے کی جانے والی ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں اور ہماری ذلت و پستی کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جب تک کہ ہم اپنے حقیقی دین اسلام کی طرف مخلصانہ رجوع نہیں کریں گے اور اپنے اعمال کو درست کرنے کے ساتھ ان میں اخلاص پیدا نہیں کریں گے، اس وقت تک ﷲ کی رحمت اور اس کی خاص توجہ کا حصول مشکل ہے۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
عنایت کابلگرامی  
0 notes
minhajbooks · 7 months
Text
Tumblr media
🔰 وقت کی اہمیت (اسلامی تعلیمات کے تناظر میں)
وقت انسانی زندگی کی سب سے زیادہ قیمتی متاع ہے۔ کوئی شے اس کا بدل نہیں ہوسکتی۔ جدید دور میں ہر فرد وقت کی کمی کی شکایت کرتا نظر آتاہے۔ لیکن مسئلہ وقت کی کمی سے زیادہ اس کی management کا ہے۔ وقت کو قابو میں رکھنے اور ضائع ہونے سے بچانے کے لیے تنظیم الاوقات یعنی time management کا موضوع ایک فن کی شکل اِختیار کرچکا ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی اِس مختصر کتاب میں نہ صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں وقت کی قدر و قیمت اور ا��ہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کے لیے انتہائی مفید tips بھی دی گئی ہیں۔
مصنف : ڈاکٹر حسین محی الدین قادری زبان : اردو صفحات : 48 قیمت : 170 روپے https://www.minhajbooks.com/urdu/book/695/Waqt-ki-Ahmiyat-Islami-Talimat-kay-Tanazur-mein/
📧 رابطہ خریداری https://wa.me/9203097417163
0 notes