Tumgik
#اردو خبریں
risingpakistan · 3 months
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
globalknock · 4 months
Text
کیا سندھ پریمئیر لیگ میں شریک کھلاڑیوں، آفیشلرز کو واجبات ادا نہیں کیے گئے؟ - ایکسپریس اردو
سابق کپتان شاہد آفریدی سمیت کئی پاکستانی کرکٹرز ایونٹ میں شریک تھے (فوٹو: ایکسپریس ویب) سندھ پریمئیر لیگ میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں اور منتظمین تاحال ادائیگی نہیں کی گئی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خبریں گردش کررہی ہیں کہ سندھ پریمئیر لیگ (ایس پی ایل) کے پہلے ایڈیشن ��یں شریک کھلاڑیوں اور آفیشلرز کو واجبات ادا نہیں کیے گئے ہیں۔ ایک پلیٹ فارم پر پوسٹ شیئر کی گئی ہے کہ پاکستانی کرکٹر صہیب مقصود…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 5 months
Text
ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے آپ کے پورے خاندان کا خاتمہ کر دیا
Tumblr media
میری نسل کے لوگوں نے ٹیلی ویژن پر پہلی جنگ تب دیکھی تھی جب سنہ 1990 میں امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ بغداد پر بموں کی بارش شروع ہوئی تو دنیا کے پہلے عالمی نیوز چینل نے لائیو دکھایا اور غالباً ہیڈلائن اسی طرح کی تھی کہ ’بغداد کا آسمان بمباری سے جگمگا اٹھا ہے‘۔ خبریں پڑھنے والے نے ہیڈلائن کچھ اس طرح پڑھی تھی جیسے فٹ بال میچوں پر کمنٹری کرنے والے جوش میں آ کر کسی گول کا منظر بیان کرتے ہیں۔ اسی دن سے عالمی جنگیں ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں۔ آپ کسی بھی دن، رات کے کھانے کے وقت ٹی وی لگائیں تو دنیا میں کہیں نہ کہیں کسی شہر کا آسمان بمباری سے جگمگا رہا ہو گا اور گورے صحافیوں کو اس شہر کا درست نام لینا کبھی نہیں آئے گا۔ آہستہ آہستہ لائیو کوریج اور میڈیا جنگ کا لازمی حصہ بن گئے جس طرح کسی زمانے فوج کے ساتھ طبل اور نقارے بجانے والے چلتے تھے، جو اپنی سپاہ کا خون گرماتے تھے۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل جیسے اخبارات کے مدبر صحافی پہلے جنگ کا جواز سمجھاتے تھے پھر الیکٹرانک میڈیا میں ان کے بھائی بہن حملہ آور فوجوں کے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر جنگ کی کوریج کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ 
ان جنگوں میں بندوق کی نالی اور ان کی آنکھ دشمن کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے۔  جب ہنستی بستی آبادیاں تباہ کر دی جاتیں اور لوگ اپنے گھروں کے ملبوں سے اپنے پیاروں کی لاشیں اور کھانے کے برتن ڈھونڈ رہے ہوتے تو مغرب سے مغربی ضمیر کے رحم دل دستے سوکھا راشن اور بچوں کے کھلونے لے کر پہنچ جاتے۔ ان کے امدادی ٹرکوں پر بھی کیمرے والے صحافی موجود ہوتے جو راشن کے لیے اٹھے ہاتھوں اور بے کس چہروں کی تصویریں دنیا تک پہنچاتے اور داد پاتے۔ جدید جنگ تقریباً ایک مکمل سا پیکج بن گئی تھی جس میں اسلحے کا کاروبار بھی خوب پھلتا پھولتا اور جنگ زدہ لوگوں کے لیے خیموں اور کمبلوں کی مانگ بھی ہمیشہ ضرور رہتی۔ جن کو ازلی خون کی پیاس تھی انھیں بھی خوراک مل جاتی اور جن کے دل انسانیت سے بھرپور تھے ان کا دھندہ بھی چلتا رہتا۔ پہلے آسمانوں سے بمباری، پھر بستیاں روندتے ہوئے ٹینک، اس کے بعد جنگ بندی کے مطالبے اور پھر امدادی ٹرکوں کے قافلے۔ اسلحے کی فیکٹریاں بھی تین شفٹوں میں چلتیں اور انسانی ہمدری سے لبریز مغربی ضمیر کی دیہاڑیاں بھی لگتی رہتیں۔ 
Tumblr media
جب اسرائیل نے غزہ پر وحشت ناک بمباری شروع کی (اور چونکہ ایڈیٹوریل گائیڈ لائن کی ضرورت ہے اس لیے بتاتے چلیں کہ یہ لڑائی سات اکتوبر کے حماس حملوس سے شروع نہیں ہوئی 70 سال پہلے شروع ہوئی تھی) تو موسمی دفاعی تجزیہ نگاروں کا بھی خیال تھا کہ امریکہ اور اس کی باقی نام نہاد برادری چند دن اسرائیل کو کھلا ہاتھ دے گی، ایک کے بدلے دس مارو، اگر کسی نے غزہ میں گھر، سکول، ہسپتال، میوزیم بنا لیا ہے تو اسے نیست و نابود کر دو۔ بچے مریں گے مارو لیکن پھر مغربی ضمیر انگڑائی لے کر بیدار ہو گا اور کہے گا ہم نے بہت ہزار بچوں کی لاشوں کی تصویریں دیکھی ہیں اب یہ کام بند کرو۔ لیکن مغربی ضمیر کی گنتی ابھی پوری نہیں ہوئی۔ ہم تک ننھے بچوں کی تصویریں اور کہانیاں دنیا تک پہنچانے والے 70 صحافی بھی مار دیے ہیں۔ ان میں سے کئی پورے خاندان کے ساتھ۔ لیکن مغربی ضمیر اسرائیل سے صرف یہ کہلوا سکا ہے کہ ہم نے غلط بم مار دیا۔ چند دن پہلے کرسمس منایا گیا، دنیا میں سب سے زیادہ آبادی حضرت عیسٰی کے پیروکاروں کی ہے۔ 
حضرت عیسیٰ بھی فلسطینی ہیں لیکن مغرب نے انھیں گورا، نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والا بنا لیا۔ ان کی جائے پیدائش بیت اللحم ہے، وہاں بھی اسرائیل کئی دفعہ گولے چلا چکا ہے۔ اس مرتبہ کرسمس پر وہاں حضرت عیسیٰ کے بچپن کے مجسمے کو ایک ملبے کے ڈھیر میں پڑا ہوا دکھایا گیا اور محترم پادری منتھر آئزیک نے اپنے کرسمس کے خطبے میں فرمایا: ’اور آج کے بعد ہمارا کوئی یورپی دوست ہمیں انسانی حقوق یا عالمی قانون پر لیکچر نہ دے کیونکہ ہم گورے نہیں ہیں اور تمہاری اپنی ہی منطق کے مطابق انسانی حقوق اور عالمی قانون ہم پر لاگو نہیں ہوتے۔‘
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
غیر اعلانیہ ایمرجنسی - Roznama Sahara اردو
بی بی سی(برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ) کے دہلی اور ممبئی میں واقع دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے بزن بول دیا ہے۔ ہر چند کہ اب تک محکمہ کی جانب سے باضابطہ کوئی بیان نہیںجاری کیاگیا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ یہ کارروائی کن معاملات میں کی جارہی ہے۔لیکن خبریں ہیںکہ محکمہ انکم ٹیکس کے افسران وہاں اکائونٹس بک چیک کر رہے ہیں۔بی بی سی کے دونوں شہروںمیں واقع دفاتر کو اندر سے بند کرکے کارکنوں کا فون اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 1 year
Text
غیر اعلانیہ ایمرجنسی - Roznama Sahara اردو
بی بی سی(برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ) کے دہلی اور ممبئی میں واقع دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے بزن بول دیا ہے۔ ہر چند کہ اب تک محکمہ کی جانب سے باضابطہ کوئی بیان نہیںجاری کیاگیا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ یہ کارروائی کن معاملات میں کی جارہی ہے۔لیکن خبریں ہیںکہ محکمہ انکم ٹیکس کے افسران وہاں اکائونٹس بک چیک کر رہے ہیں۔بی بی سی کے دونوں شہروںمیں واقع دفاتر کو اندر سے بند کرکے کارکنوں کا فون اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
غیر اعلانیہ ایمرجنسی - Roznama Sahara اردو
بی بی سی(برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ) کے دہلی اور ممبئی میں واقع دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے بزن بول دیا ہے۔ ہر چند کہ اب تک محکمہ کی جانب سے باضابطہ کوئی بیان نہیںجاری کیاگیا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ ی�� کارروائی کن معاملات میں کی جارہی ہے۔لیکن خبریں ہیںکہ محکمہ انکم ٹیکس کے افسران وہاں اکائونٹس بک چیک کر رہے ہیں۔بی بی سی کے دونوں شہروںمیں واقع دفاتر کو اندر سے بند کرکے کارکنوں کا فون اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 1 year
Text
غیر اعلانیہ ایمرجنسی - Roznama Sahara اردو
بی بی سی(برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ) کے دہلی اور ممبئی میں واقع دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے بزن بول دیا ہے۔ ہر چند کہ اب تک محکمہ کی جانب سے باضابطہ کوئی بیان نہیںجاری کیاگیا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ یہ کارروائی کن معاملات میں کی جارہی ہے۔لیکن خبریں ہیںکہ محکمہ انکم ٹیکس کے افسران وہاں اکائونٹس بک چیک کر رہے ہیں۔بی بی سی کے دونوں شہروںمیں واقع دفاتر کو اندر سے بند کرکے کارکنوں کا فون اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hassanriyazzsblog · 1 year
Text
🌹🌹 *𝓥ⲈꞄⲒ𝓕ⲨⲒⲚ𝓖 ⲂⲈ𝓕ⲞꞄⲈ*
*ⲀⲤⲤⲈⲢⲦⲒⲚ𝓖* 
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
5️⃣8️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *VERIFYING BEFORE ACCEPTING*
*The Quran commands that when you find any news about someone, first investigate it.*
(Quran 49:6)
*This shows that accepting any news without investigation is an irresponsible act.*
*People usually tend to accept what they have heard or read.*
*However, experience shows that often news presenters air the news without knowing the whole story, while later research reveals that the news was incomplete and conclusions drawn from that were also incomplete.*
*Accepting any news without research often causes harm and creates misgivings.*
*People form wrong opinions about each other so much so that the wrong news can sometimes become a cause of friction.*
*In such a situation, it is our responsibility to thoroughly investigate the news before accepting it.*
*No news should be considered authentic without carrying out proper research.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *خبروں (باتوں) کی تصدیق کریں :*
*اللہ سبحان تعالی سورہ لقمان ایمان والو کو حکم دیتا ہے کہ"اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔"*
(قرآن 49:6)
*اس حکم ربانی کے ذریعے ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ کسی بھی بات یا خبر کو بغیر تحقیق کئے سچ تسلیم کر لینا ایک غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔*
*ہم لوگ عام طور پر جو کچھ سنتے ہیں یا پڑھتے ہیں اس کو سچ تسلیم کر لیتے ہیں۔*
*حالانکہ، ہمارا اپنا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ اکثر خبر دینے والے بات کی پوری سچائی جانے بغیر ہی خبر نشر کرتے ہیں، جبکہ بعد میں ہونے والی ت��قیق سے پتہ چلتا ہے کہ نشر کی گئی خبر ادھوری اور نامکمل تھی اور اس سے اخذ کردہ نتائج بھی نامکمل تھے۔*
*ایسی خبروں یا باتوں کو اگر ہم تحقیق کئے بغیر سچ مان لیتے ہیں تو اکثر ہمیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور یہ بہت سی بدگمانیوں کا بھی باعث بنتے ہیں۔*
*ہم لوگ سنی سنائی ہوئی باتیں یا خبروں کی وجہ سے کبھی کبھی ایک دوسرے کے بارے میں اس قدر غلط رائے قائم کر لیتے ہیں کہ بعض اوقات غلط خبریں آپس میں جھگڑوں کا سبب بن جاتی ہیں۔*
*ایسی صورتحال میں ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم کسی خبر یا بات کو سچ تسلیم کرنے سے پہلے اس کی اچھی طرح چھان بین (تحقیق) کریں۔*
*کسی بھی خبر یا بات کو بغیر تحقیق کیے سچ نہیں مانا جانا چاہیے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🍁 *بغیر تحقیق بات کو پھیلانا/اشاعت کرنا گناہ ھے :*
▪️ *مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ دین ِاسلام ان کاموں سے روکتا ہے جو معاشرتی امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور وہ کام کرنے کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنتا ہے ،جیسے مذکورہ بالا آیت میں بیان کئے گئے اصول کو اگر ہم آج کل کے دَور میں پیش ِنظر رکھیں توہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں لڑائی جھگڑے اورفسادات ہوتے ہی اسی وجہ سے ہیں کہ جب کسی کوکوئی اطلاع دی جاتی ہے تووہ اس کی تصدیق نہیں کرتا بلکہ فوراًغصہ میں آجاتاہے اور وہ کام کر بیٹھتاہے جس کے بعد ساری زندگی پریشان رہتاہے ۔*
▪️ *اسی طرح ہمارے ہاں خاندانی طور پر جو جھگڑے ہوتے ہیں وہ اسی نَوعیَّت کے ہوتے ہیں ۔چاہے وہ ساس بہوکامعاملہ ہو یا شوہر و بیوی کا کہ تصدیق نہیں کی جاتی اور لڑائیاں شروع کردی جاتی ہیں ۔*
▪️ *اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایک شخص اگر عادل ہو تو اس کی خبر معتبر ہے اورحاکم یک طرفہ بیان پر فیصلہ نہ کرے بلکہ فریقَین کا بیان سن کر ہی کوئی فیصلہ کرے اور غیبت کرنے والے اور چغل خور کی بات ہر گز قبول نہ کی جائے اور کسی کام میں جلدی نہ کی جائے ورنہ بعد میں پچھتانا پڑسکتا ہے۔*
▪️قرآن پاک اور آحادیث مبارکہ میں بیشتر مقامات پر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کیے پھیلانے کی سنگینی کا ذکر کیا گیا ہے۔
⭕ *چنانچہ فرمان الہی ہے : ”اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے، خواہ امن یا خوف، تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس کو رسول کے اور جو اُن میں ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان کے اوپر حوالہ رکھتے تو اس کو وہ حضرات تو پہچان ہی لیتے ہیں جو ان میں اس کی تحقیق کر لیا کرتے ہیں۔"* (سورةالنساء:آیت83)
⭕ *”جس بات کا یقینی علم نہ ہو ( اٹکل پچو) اس کے پیچھے نہ ہو لیا کرو، (کیوں کہ) کان، آنکھ اور دل ان سب سے قیامت کے دن پوچھ گچھ ہو گی۔“* (سورة بنی اسرائیل:آیت36)
⭕ *"اور بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بن سمجھے اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اس کی ہنسی اڑائیں، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔"*
(سورة لقمان: 6)
🍃 *رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جو آدمی کوئی ایسی بات بیان کرے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹی ہے تو دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا وہ بھی ہے۔“*
🍃 *رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کی تلاش رکھتے تھے اور(خاص)لوگوں سے پوچھتے رہتے کہ (عام) لوگوں میں کیا واقعات ہو رہے ہیں؟*
(بوادرالنوادر:694)
▪️ *تحریر بھی تقریر کی طرح ہے :* *"شرع میں تحریر کا حکم بمنزلہ تقریرکے اور مطالعہ کا حکم مثل استماع کے ہے، جس چیز کا تلفظ وتکلم اور استماع گناہ ہے ،ا س کا لکھنا اور چھاپنااور مطالعہ کرنا بھی گناہ ہے ۔تحریر کا حکم زبان کی طرح ہے، کیوں کہ قلم سے جو گناہ سرزد ہوگا وہ زبان کے اعتبار سے زیادہ سنگین ہوگا، کیوں کہ تحریری بات محفوظ ہوتی ہے "۔*
▪️ *گناہ کی پردہ پوشی کرنا اشاعت سے افضل ہے :*
🍃 *رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : ”جو شخص کسی کا عیب چھپاتا ہے وہ اتنا ثوا ب پاتا ہے جیسے کوئی زندہ درگور لڑکی کو دوبارہ زندہ کر دے“۔*
(ابو داود، الترغیب والترھیب:4/103)
*(اگر عیب کسی کی حق تلفی اور اضرار کا سبب بنتا ہو تو اس کے تدارک کے لیے امکانی کوشش کرنا ضروری ہے،اس وقت پردہ پوشی کرنا درست نہیں)*
🍃 *”جو شخص اپنے بھائی کا عیب چھپائے،اللہ تعالیٰ اس کے عیوب قیامت کے دن چھپائیں گے اور جو شخص اپنے بھائی کے عیب کھولتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے عیب کھول دیتے ہیں،یہاں تک کہ اس کو گھر کے اندر بیٹھے ہوئے رسواکر دیتے ہیں۔“* (الترغیب والتر ہیب ص:104)
🍃 *"بیہودہ بات کو چھوڑ نا ان چیزوں میں سے ہے،جو انسان کے اسلام کو آراستہ کر نے والی ہیں"۔* (مشکوٰة)
🍃 *"کسی انسان کے جھوٹے ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے کر دے۔"*
🍃 *" اپنے بھائی مسلمان کی مصیبت کے وقت خوشی ظاہر نہ کر،(ایسانہ ہو)کہ خداوند کریم اس پر رحم فرمائے اور تجھ کو اس میں گرفتار کرے"۔* (مشکوٰة)
🍃 *"چار باتیں مومن کی شان نہیں:1.طعن کرنا 2. لعنت کرنا 3. فحش بکنا 4. بدخو ہونا"۔* (مشکوٰة)
🍂 *کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بات بغیر تحقیق کے کہہ دینا یہ اتنی بڑی بیماری ہے جس سے پورے معاشرے میں بگاڑ اور فساد پھیلتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں ، عداوتیں پیدا ہوتی ہیں ۔*
🍃 *اس لئے اللہ سبحان تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ جب بھی تمہیں کوئی خبر ملے تو پہلے اس خبر کی تحقیق کرلو، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : "انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جو بات سنے اس کو آگے بیان کرنا شروع کردے "۔*
▪️ *لہٰذا جو آدمی ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کرنے لگے تووہ بھی جھوٹا ہے، اس کو جھوٹ بولنے کا گناہ ہوگا ۔ سو جب تک تحقیق نہ کرلو، بات کو آگے بیان نہ کرو۔*
🍂 *افسوس یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اس قبيح گناہ کے اندر بري طرح ڈوبا ہوا ہے، ایک شخص کی بات آگے نقل کرنے میں کوئی احتیاط نہیں ، بلکہ اپنی طرف سے اس میں نمک مرچ لگا کے اضافہ کرکے اس کو آگے بڑھا دیا جانا ايك عام سي بات بن گئي هے۔ دوسرے شخص نے جب اس بات كو سنا تو اس نے اپنی طرف سے اور اضافہ کرکے آگے چلتا کردیا، بات ذرا سی تھی ، مگر وہ پھیلتے پھیلتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اس کے نتیجے میں دشمنیاں ، عداوتیں ، لڑائیاں ، قتل و غارت گری اور نفرتیں پھیل رہی ہیں ۔ بہر حال ! قرآن کریم ہمیں یہ سبق دے رہا ہے کہ یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے، یہ اس لئے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم جھوٹی افواہیں پھیلاؤ اس لئے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم لوگوں پر الزام اور بہتان عائد کیا کرو، بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جب تک کسی بات کی مکمل تحقیق نہ ہوجائے، اس کو زبان سے نہ نکالو۔ افسوس ہے کہ آج ہم لوگ باری تعالیٰ کے اس حکم کو فراموش کئے ہوئے ہیں ، اور اس کے نتیجے میں ہم طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہورہے ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اس برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے -*
*آمین یا رب العالمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
knowledgeanswers · 2 years
Link
0 notes
mailsiwala · 3 years
Text
سوشل میڈیا جعلی اکاؤنٹس بنا کر لڑکیوں کو بلیک میل کرنے والا شخص گرفتار ملزم صبیح فرحت کو 21 جنوری تک جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا
سوشل میڈیا جعلی اکاؤنٹس بنا کر لڑکیوں کو بلیک میل کرنے والا شخص گرفتار ملزم صبیح فرحت کو 21 جنوری تک جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا
سوشل میڈیا جعلی اکاؤنٹس بنا کر لڑکیوں کو بلیک میل کرنے والا شخص گرفتار ملزم صبیح فرحت کو 21 جنوری تک جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا Source link
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
پاکستان میں ٹیلی ویژن کے آغاز کی کہانی
Tumblr media
پاکستان میں ٹیلی ویژن کا آغاز 59 سال قبل 26 نومبر 1964 میں ہوا۔ حسن اتفاق ہے کہ اقوام متحدہ نے ٹیلی ویژن کا عالمی دن منانے کے لیے نومبر کی 21 تاریخ کا تعین کیا ہے۔ ٹیلی ویژن کی ایجاد کی کہانی تحیر انگیز ہے۔ ٹیلی ویژن آواز، تصویر اور روشنی کے امتزاج کا نام ہے۔ ٹیلی گراف، ریڈیو اور فلم کی ایجاد نے ٹیلی ویژن کی راہ ہموار کی۔ ٹیلی اور ویژن دو لفظ ہیں۔ ٹیلی رومن لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’دور‘‘ جب کہ ’’ ویژن‘‘ انگریزی لفظ ہے جس کا مطلب ’’دیکھنا‘‘۔ اس طرح ٹیلی ویژن کا مطلب دور سے دیکھنا یا ’’دور درشن‘‘ ہے۔ ٹیلی ویژن کی ابتدا 1930 کی دہائی میں ہوئی۔ 1950 کی دہائی میں امریکا اور یورپ میں ٹیلی ویژن کی ترقی اور ترویج میں تیزی آئی۔ 1960 کی دہائی اس کے پھیلاؤ کی دہائی ہے۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کا لفظ تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی زبان سے سنا گیا، وہ امریکا میں دو مرتبہ پاکستان کے سفیر رہے تھے، انھوں نے ایک نجی محفل میں ٹیلی ویژن کا تذکرہ کیا۔ 
جنرل محمد ایوب خان کے دور میں تعلیمی اصلاحات کمیشن بنایا گیا، اس کمیشن نے باضابطہ طور پر پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ٹیلی ویژن کے آغاز کی سفارش کی۔ اکتوبر 1963 میں ٹیلی ویژن نیٹ ورک شروع کرنے کے احکامات جاری ہوئے اور 26 نومبر 1964 کو پاکستان کے پہلے ٹیلی ویژن مرکز کا لاہور میں ایوب خان نے افتتاح کیا۔ ابتدائی دفاتر لاہور آرٹس کونسل کی پرانی عمارت کے لان میں ٹینٹ لگا کر قائم کیے گئے۔ کچھ عرصہ بعد ریڈیو پاکستان لاہور کی کینٹین میں پہلا ٹی وی اسٹوڈیو بنایا گیا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کی عمارت کے ساتھ خالی پلاٹ پر ملک کے پہلے ٹیلی ویڑن سینٹر کی عمارت بھی تعمیر ہوئی۔ اس وقت ملک کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں پاکستان ٹیلی ویژن کے اسٹیٹ آف دی آرٹ اسٹوڈیوز اور عمارتیں ہیں، یہ ادارہ ہزاروں افراد کو ملازمت دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں تمام نجی ٹی وی چینلز میں ’’مدر چینل‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 26 نومبر 1964 کو پی ٹی وی نشریات کا آغاز پونے چار بجے شام ہوا۔
Tumblr media
تلاوت کلام کے بعد صدر جنرل محمد ایوب خان نے افتتاحی تقریر کی۔ شام 7 بجے اردو خبریں نشر ہوئیں اور رات نو بجے ٹرانسمیشن قومی ترانے کے ساتھ ختم ہوئی ابتدا میں پاکستان ٹیلی ویڑن کی نشریات ہفتے میں چھ دن، صرف پانچ گھنٹے کے لیے ہوتی تھیں جب کہ سوموار کے دن ٹی وی نشریات نہیں ہوا کرتی تھیں۔  ابتدائی ایام میں اردو اور انگریزی خبروں کے حصول کے لیے کوئی نیوز ایجنسی نہ تھی تازہ ترین خبریں دنیا بھر کے ریڈیو مانیٹر کر کے حاصل کی جاتی تھیں۔ پی ٹی وی کے پاس صرف دو اسٹوڈیو کیمرے تھے، بیرونی فلم بندی کے لیے کوئی فیلڈ کیمرہ نہ تھا بعد ازاں چابی سے چلنے والے دو کیمرے لیے گئے جن میں 100 فٹ فلم کا رول آتا تھا۔ فلم بندی کے بعد نیگٹیو فلم کو ایک پرائیویٹ لیبارٹری میں دھلوایا جاتا تھا اور پھر ’’ ٹیلی سینی‘‘ برقی الے کے ذریعے اسے پوزیٹو بنا کر ٹی وی پر دکھایا جاتا تھا۔ 
کئی سال تک پی ٹی وی کے مراکز سے پانچ گھنٹوں کے دوران کل 20 منٹ کی خبریں پیش کی جاتی تھیں۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ( لاہور اور ڈھاکا) ٹیلی ویژن کے درمیان ٹیلکس، ٹیلی پرنٹر اور ٹیلی فون کنیکشنز قابل اعتماد اور تیز رفتار نہ تھے، اس لیے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان نیوز فلموں کو ہوائی جہاز کے ذریعے بھیجا جاتا تھا اور دوسرے دن ان کی نشریات ممکن ہوتی تھیں۔ 1970 میں پہلی بار 25 منٹ کا خبرنامہ کراچی مرکز سے شروع کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1975 میں جب مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو مائیکرو ویو اور بوسٹرز کے ذریعے قومی نشریاتی رابطے سے منسلک کیا گیا تو راولپنڈی اور اسلام آباد ٹیلی ویڑن سینٹر سے خبریں بیک وقت پورے ملک میں نشر ہونے لگیں، ہر صوبائی دارالحکومت کے ٹی وی مرکز سے مقامی خبروں کا اغاز بھی ہوا۔ صبح کی روزانہ نشریات کا باقاعدہ آغاز پہلی بار 1989 میں ہوا جب کہ جولائی 2002 سے پی ٹی وی نے ہفتے میں ساتوں دن 24 گھنٹے کی نشریات شروع کی اور ہر گھنٹے کے آغاز پر نیوز بلٹن نشر کیا جانے لگا۔ 
نیوز اور کرنٹ افیئرز کے لیے ایک الگ ٹی وی چینل بھی بنایا گیا۔ اب جب کہ پاکستان ٹیلی ویژن 60 سال کا ہونے کو ہے اگر اس کی کارکردگی کا اختصار سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی وی کی پہلی دہائی کو گولڈن پیریڈ کہا جا سکتا ہے۔ دوسری دہائی پی ٹی وی کی ٹیکنیکی اور پیشہ ورانہ ترقی سے عبارت ہے۔ تیسری دہائی گلیمر اور میلو ڈرامہ یعنی رومان اور جذباتیت کی دھائی شمار کی جا سکتی ہے۔ جب کہ چوتھی دہائی میں پی ٹی وی کی اجارہ داری بتدریج ختم ہونے لگی اور نجی چینلز مقابلے میں آنا شروع ہوئے۔ اور اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پی ٹی وی کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت سے مالی مدد لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان تمام عوامل کے باوجود سرکاری ٹی وی ہر ملک کی ضرورت ہے، اسے حکومت وقت اور ریاست کا ترجمان بھی سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری ٹی وی کو قومی ٹیلی ویژن کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس کی کارکردگی کا موازنہ نجی ٹی وی چینلز کی پالیسیوں اور ابلاغی اقدار سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی کارکردگی اور تخلیقی صلاحیتوں کا دائرہ حکومت وقت کی پالیسیوں کے گرد گھومتا ہے اور ان کا تحفظ بھی کرنا ہوتا ہے۔
سرور منیر راؤ  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
jeeveypakistan · 4 years
Link
"An Evening Poet" in honor of renowned poet, songwriter and columnist Younis Hamdam
0 notes
ecoamerica · 1 month
Text
youtube
Watch the 2024 American Climate Leadership Awards for High School Students now: https://youtu.be/5C-bb9PoRLc
The recording is now available on ecoAmerica's YouTube channel for viewers to be inspired by student climate leaders! Join Aishah-Nyeta Brown & Jerome Foster II and be inspired by student climate leaders as we recognize the High School Student finalists. Watch now to find out which student received the $25,000 grand prize and top recognition!
16K notes · View notes
shiningpakistan · 6 months
Text
اونے پونے افغان ہمارے کس کام کے
Tumblr media
دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم میں چوتھائی پاکستان ڈوب گیا۔ دیہی علاقوں میں پھنس جانے والوں کے ہزاروں مویشی سیلاب میں بہہ گئے اور جو بچ گئے انھیں بھی اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے اونے پونے بیچنا پڑا۔ سیلاب کے ماروں کے ہم زبان و ہم علاقہ و ہم عقیدہ بیوپاریوں نے مصیبت کو کاروبار میں بدل دیا۔ میں نے مظفر گڑھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھا کہ جانوروں کے بیوپاری حفاظتی بندوں پر گدھ کی طرح منڈلا رہے تھے۔ جس گائے یا بیل کی قیمت عام حالات میں پچاس ہزار روپے تھی۔ اس کی بولی پندرہ سے بیس ہزار روپے لگائی گئی۔ کوئی بھی بیوپاری پانچ ہزار کی بکری اور دنبے کا ساڑھے سات سو روپے سے زائد دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ جبکہ مرغی کی قیمت پچاس سے ستر روپے لگائی جا رہی تھی اور سیلاب زدگان کو اس بلیک میلنگ سے بچنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ قصہ یوں یاد آ گیا کہ ان دنوں یہ خبریں تواتر سے آ رہی ہیں کہ جن افغان مہاجرین کو پاکستان میں جنم لینے والی دوسری، تیسری اور چوتھی نسل کے ہمراہ افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ انھیں فی خاندان صرف پچاس ہزار روپے لے جانے کی اجازت ہے۔ وہ اپنے مویشی نہیں لے جا سکتے۔ 
بہت سوں نے پاکستان میں مقامی خاندانوں میں شادیاں کیں۔ ان کے بچے اور پھر بچوں کے بچے ہوئے۔ انھوں نے ٹھیلے لگائے، دوکانیں کھولیں، ٹرانسپورٹ کا کام کیا۔ بہت سے مقامی بیوپاری ان کے لاکھوں روپے کے مقروض ہیں۔ پاکستانی شہری نہ ہونے کے سبب جن مقامی لوگوں کی شراکت داری میں انھوں نے کاروبار کیا۔ ان میں سے بہت سوں نے اب آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ ان کے گھروں اور دوکانوں کی قیمت ساٹھ سے ستر فیصد تک گر چکی ہے۔ ان مہاجروں کو نہیں معلوم کہ سرحد پار پچاس ہزار روپے سے وہ کیا کام کریں گے۔ ان کی زیرِ تعلیم بچیاں افغانستان کے کس سکول میں پڑھیں گی؟ جن خاندانوں کی کفالت عورتیں کر رہی ہیں ان عورتوں کو افغانستان میں کون گھروں سے باہر نکلنے دے گا؟ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ان پناہ گزینوں کو تمام ذاتی سامان کے ساتھ ساتھ املاک اور کاروبار کی فروخت سے ملنے والے پیسے ہمراہ لے جانے کی اجازت دے دی جاتی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ان سب کو دوبارہ اٹھا کے کیمپوں میں رکھ دیا جاتا اور ان کیمپوں کی ذمہ داری مشترکہ طور پر قانون نافذ کرنے والوں اور اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیناں ِ( یو این ایچ سی آر ) کے سپرد کر دی جاتی۔ اس بابت ایرانی ماڈل کا مطالعہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہ تھا۔
Tumblr media
یہ بھی ممکن تھا کہ تب تک انتظار کر لیا جاتا جب تک پاکستان سمیت عالمی برادری کابل حکومت کو سفارتی سطح پر تسلیم نہ کر لیتی۔ یا افغانستان میں انسانی حقوق کے حالات سے مطمئن نہ ہو جاتی اور اس کے بعد اقوام ِ متحدہ کے متعلقہ اداروں کے مشورے سے مہاجرین کی واپسی کی کوئی باعزت پالیسی مرتب کر کے اس پر خوش اسلوبی سے عمل کیا جاتا تاکہ بہت سے عالمی ادارے اور حکومتیں ان مہاجرین کی وطن واپسی کے بعد انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ بنیادی سہولتیں دان کر دیتیں۔ مجھے ذاتی طور پر کسی غیرقانونی تارکِ وطن سے ہمدردی نہیں۔ مگر ہر سال لگ بھگ آٹھ لاکھ پاکستانی بھی غیرقانونی طور پر ملک چھوڑ کے یورپ اور دیگر براعظموں کا رخ کر رہے ہیں۔ جہاں رفتہ رفتہ انھیں بنیادی سہولتیں اور حقوق میسر آ ہی جاتے ہیں۔ کیا آپ نے حال فی الحال میں کبھی سنا کہ کسی مغربی ریاست نے چالیس برس سے ملک میں رہنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو اجتماعی طور پر وہاں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کے بچوں سمیت باہر نکال دیا ہو؟ اگر مغرب بھی ایسی ہی پالیسی اپنا لے تو فوراً تنگ نظری، نسلی امتیاز، تعصب کا ٹھپہ ہم ہی لوگ لگانے میں پیش پیش ہوں گے۔
بنگلہ دیش چاہتا تو شہریت سے محروم لاکھوں اردو بولنے والے مشرقی پاکستانیوں کو بیک بینی و دو گوش ملک سے نکال سکتا تھا۔ مگر پچاس برس ہونے کو آئے یہ مشرقی پاکستانی جن کی تعداد اب چند ہزار رہ گئی ہے۔ آج بھی ڈھاکہ کے جنیوا کیمپ میں ریڈکراس کی مدد سے جی رہے ہیں۔ بنگلہ دیش لاکھوں روہنگیوں کا بوجھ بھی بٹا رہا ہے جن میں سے آدھوں کے پاس کاغذ ہی نہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بلا دستاویزات مقیم افغانوں کی بے دخلی کے بعد ان افغانوں کی باری آنے والی ہے جن کے پاس اپنی مہاجرت قانوناً ثابت کرنے کی دستاویزات موجود ہیں۔ مگر ان دستاویزات کی معیاد ہر دو برس بعد بڑھانا پڑتی ہے اور حکومتِ پاکستان کا اس بار ان کی مدت میں اضافے کا کوئی موڈ نہیں۔ حالانکہ اقوامِ متحدہ کے بقول یہ لاکھوں مہاجرین پناہ گزینیت سے متعلق انیس سو اکیاون کے بین الاقوامی کنونشن کی طے شدہ تعریف پر پورے اترتے ہیں اور انھیں ایک غیر محفوط ملک میں واپس جبراً نہیں دھکیلا جا سکتا۔ مگر پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔
اسی سے ملتی جلتی پالیسی اکیاون برس قبل یوگنڈا کے فوجی آمر عیدی امین نے اپنائی تھی جب انھوں نے لگ بھگ ایک صدی سے آباد نوے ہزار ہندوستانی نژاد باشندوں ( ایشیائی ) کو نوے دن میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور فی خاندان محض دو سو بیس ڈالر ساتھ لے جانے کی اجازت دی۔ جن پاکستانی فیصلہ سازوں نے کالعدم ٹی ٹی پی اور کابل حکومت کے خلاف غصے کو تمام افغان پناہ گزینوں پر برابر تقسیم کر کے بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کی یہ پالیسی وضع کی ہے۔ ان فیصلہ سازوں کی اکثریت کے پاس آل اولاد سمیت دوہری شہریت ہے اور یہ دوہری شہریت بھی ان ممالک کی ہے جہاں ہر سال لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن پہنچتے ہیں اور وہ ایک مخصوص مدت میں متعلقہ قانونی ضوابط سے گذر کے بالاخر قانونی بنا دئیے جاتے ہیں۔ چالیس برس پہلے افغانوں کو اسلامی بھائی کہہ کے خوش آمدید کہا گیا اور ان کے کیمپ دکھا دکھا کے اور مظلومیت بیچ بیچ کر ڈالر اور ریال وصولے گئے۔ کس نے وصولے اور کہاں لگائے۔ خدا معلوم۔ جب گائے دودھ دینے کے قابل نہیں رہتی تو چارے کا خرچہ بچانے کے لیے اسے چمڑہ فروشوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
shujaktk · 5 years
Photo
Tumblr media
"عورت برائے فروخت " اردو ڈیزائنر کے نیوز سیکشن میں ضرور پڑھیں اردو ڈیزائنر کی مدد سے بہترین ڈیزائن بنائیں اور شئیر کریں اور گوگل پلے سٹور پر خوبصورت ریوو ضرور دیں کہ اپکی ریوو سے ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے شکریہ #خبریں #معلوماتی #اردوڈیزائنر #آرزو #اردوزبان #قیمتی #اردو #فیسبک #پیج #ڈیزائن #پوسٹ #عورت #فروخت https://www.instagram.com/p/B4otmruAG5j/?igshid=w6ejor948xdo
0 notes
ayaz-g-blog · 5 years
Photo
Tumblr media
• • • • • • ہماری نئ اردو ویب سائٹ کا آغا www.mehdifoundation.com یہاں پرآپ روحانیت سے متعلق تازہ ترین خبریں , مضامین اور وڈیوز حاصل کر سکتے ہیں ۔ رابطہ کےلئے یا اپنی راۓ ہم تک پہنچانےکےلے ہمیں ای میل کرسکتےہیں۔ [email protected]! #روحانیت #امام_مہدی #پاکستان #مہدی #پاکستانی #صوفی #مہدی #فاؤنڈیشن #مہدی_فاؤنڈیشن_انٹرنیشنل #اردو #چاند #سورج #حجراسود #مسجد #قرآن #گوہر_شاہی #مہتاب #شمس #گوہر #خبریں #ImamMehdiGoharShahi #GoharShahiTeaches_KhatameNabuwat #ALRATV #GoharShahi #YounusAlGohar https://www.instagram.com/p/B3CuqzDHCW4/?igshid=umyuzk2e1eld
0 notes
emergingpakistan · 4 years
Text
ِ’جنگ کے لیے تیار رہو‘ : چینی صدر شی جن پنگ
چینی صدر شی جن پنگ کی طرف سے اپنی فوج کو تمام ممکنہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کے حکم کو بھارت اور چین کے درمیان فوجی ٹکراو کے بڑھتے خدشات کے مد نظرغیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر دفاع، قومی سلامتی کے مشیر اور تینوں افواج کے سربراہوں کے ساتھ موجودہ صورت حال کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔ صدر شی جن پنگ، جو 20 لاکھ ملکی افواج کے سربراہ بھی ہیں، نے چینی افواج کے اعلی افسران کے ایک وفد کو خطاب کرتے ہوئے حکم دیا کہ وہ جنگ کے لیے مضبوط تیاری شروع کر دیں اور فو ج سے کہا کہ وہ انتہائی بدترین، پیچیدہ اور پریشان کن حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے، ان سے فوراً اور موثر انداز میں نمٹنے کے لیے خود کو تیار رکھیں۔
چینی خبر رساں ایجنسی کے مطابق صدرشی جن پنگ نے یوں تو کسی مخصوص خطرے کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی بھارت کا نام لیا لیکن یہ بیان چونکہ ایک ایسے وقت آیا ہے جب حقیقی کنٹرول لائن پر بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اس لیے اسے غیر معمولی قرار دیا جارہا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے لداخ اور شمالی سکم میں حقیقی کنٹرول لائن پر بھارت اور چین نے اپنی اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان ہاتھا پائی اور مارپیٹ کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ان جھڑپوں میں دونوں ملکوں کے تقریباً ایک سو جوان زخمی ہو چکے ہیں۔ چینی فوج کے ذریعہ بھارتی نیم فوجی دستے کے جوانوں کو حراست میں لینے کی خبریں بھی آئی تھیں لیکن بھارت نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔ 
بھارتی میڈیا نے سیٹلائٹ تصویروں کے ثبوت کے ساتھ دعوی کیا ہے کہ چین لداخ کے قریب ایک ایئر بیس کی توسیع کر رہا ہے اور اس نے وہاں جنگی طیارے بھی تعینات کر دیے ہیں۔ ان حالات کے مدنظر وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک اعلی سطحی میٹنگ کی۔ جس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور تینوں افواج کے سربراہوں نے وزیر اعظم کو حقیقی کنٹرول لائن پر صورت حال کے حوالے سے بریف کیا۔ جنرل بپن راوت نے لداخ میں صورت حال کو سنبھالنے کے لیے فوجی مشوروں سے بھی وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔ اس سے قبل وزیر اعظم مودی نے خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرنگلا سے اور وزیر دفاع نے فوج کے تینوں سربراہوں کے ساتھ بھی الگ سے تبادلہ خیال کیا تھا۔ 
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں ہونے والی میٹنگ میں بنیادی طور پر یہ طے پایا کہ حقیقی کنٹرول لائن پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھارت باہمی احترام اور بات چیت کے میکنزم کو اپنانے کے حق میں ہے تاہم متعلقہ ذمہ داروں کو کسی بھی صورت حال کے لیے تیار رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ دریں اثنا دہلی میں آج آرمی کمانڈروں کی سشماہی میٹنگ شروع ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلی فوجی افسران کی اس تین روزہ کانفرنس میں بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی پر یقینی طور پر غور و خوض کیا جائے گا۔ مودی حکومت کے ایک سینئر وزیر کا کہنا تھا کہ چین نے اپنے میڈیا کے ذریعہ بھارت پر نفسیاتی دباو ڈالنا شروع کر دیا ہے اور اس حوالے سے بھارت کے ساتھ اسی علاقے میں 1962 میں ہونے والی جنگ کی یاد دلا رہا ہے۔ 
دوسری طرف اپوزیشن کانگریس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ موجودہ صورت حال سے عوام کو آگاہ کرے۔ کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے کہا”حکومت بھارتی عوام کو بتائے کے سرحد پر آخر کیا ہورہا ہے؟ ہمیں مختلف طرح کی خبریں مل رہی ہیں۔ اس معاملے میں شفافیت ضروری ہے تاکہ عوام کو حقیقی صورت حال کا علم ہو سکے۔" ادھر مسئلے کو حل کرنے کے لیے سفارتی سطح پر بھی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ بھارت نے 'ورکنگ میکانزم‘ کو سرگرم کر دیا ہے۔ یہ میکانزم 2012 میں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں قائم کیا گیا تھا اور اس پر بیجنگ میں اس وقت کے بھارتی سفیر او رموجودہ وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے دستخط کیے تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے موجودہ بحران جلد ختم ہو جائے لیکن چونکہ حقیقی کنٹرول لائن پرمختلف مقامات کے سلسلے میں کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہے اس لیے مستقبل میں بھی اسی طرح کے جھگڑے اور بحران پیدا ہوتے رہیں گے لہذا اس تنازعہ کو جلد از جلد حل کرنا انتہائی ضروری ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
1 note · View note
ecoamerica · 2 months
Text
youtube
Watch the American Climate Leadership Awards 2024 now: https://youtu.be/bWiW4Rp8vF0?feature=shared
The American Climate Leadership Awards 2024 broadcast recording is now available on ecoAmerica's YouTube channel for viewers to be inspired by active climate leaders. Watch to find out which finalist received the $50,000 grand prize! Hosted by Vanessa Hauc and featuring Bill McKibben and Katharine Hayhoe!
16K notes · View notes