Tumgik
#ٹارگٹ کلنگ
urduchronicle · 4 months
Text
پاکستانی شہریوں کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ہیں، عالمی برادری اایکشن لے، پاکستان
پاکستان نے جمعرات کو کہا کہ اس کے پاس پاکستانی سرزمین پر دو پاکستانی شہریوں کے قتل سے ہندوستانی ایجنٹوں کو جوڑنے کے “معتبر ثبوت” ہیں۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ محمد سائرس قاضی نے صحافیوں کو بتایا، “یہ کرایہ پر کرائے قتل کے مقدمات ہیں جن میں متعدد دائرہ اختیار میں پھیلے ہوئے ایک بین الاقوامی سیٹ اپ شامل ہے۔” قاضی نے کہا کہ قتل کا طریقہ کینیڈا اور امریکہ میں ہونے والی کوششوں جیسا تھا۔ اسلام آباد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 4 months
Text
غزہ کے بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ
Tumblr media
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ گذشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید آٹھ ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 27 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کر رہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعہ کی ابتدا سات اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد وشمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد وشمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد وشمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
Tumblr media
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظر انداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کر رہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ 
اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔ آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیو یارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔
بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔ سپین اور بیلجیئم کے وزرائے اعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ سپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ 
گذشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔ اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیر جانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آ سکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر 
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ 
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
spitonews · 1 year
Text
راولپنڈی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں 2 افراد قتل
نامعلوم افراد نے گرجاروڈ پر چلتی گاڑی پر فائرنگ کی  راولپنڈی: گرجاروڈ پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے 2 افراد کو قتل کردیا، ابتدائی تحقیقات میں واقع ٹارگٹ کلنگ ثابت ہوا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ نامعلوم افراد نے گرجاروڈ پر چلتی گاڑی پر فائرنگ کی جس سے 2 افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر جاں بحق افراد کی لاشیں پولیس کی موجودگی میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال منتقل کردیں۔ گاڑی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
راولپنڈی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے وکیل کو بچوں کے سامنے قتل کر دیا
راولپنڈی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے وکیل کو بچوں کے سامنے قتل کر دیا
راولپنڈی: نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے وکیل کو بچوں کے سامنے قتل کر دیا، پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ کا لگتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق راولپنڈی کے علاقے ڈھیری حسن آباد میں نامعلوم افراد نے گاڑی پر فائرنگ کردی ،فائرنگ سےگاڑی میں سوارایڈووکیٹ شیخ عمران جاں بحق ہوگئے۔ پولیس نے بتایا کہ ایڈووکیٹ شیخ عمران بچوں کو اسکول چھوڑکر گھرجا رہے تھے کہ نامعلوم ملزمان نے ٹارگٹ کیا اور سر میں دو گولیاں ماریں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 1 year
Text
راولپنڈی میں وکیل کو بچوں کے سامنے قتل کر دیا گیا
راولپنڈی میں وکیل کو بچوں کے سامنے قتل کر دیا گیا
فوٹو : ایکسپریس نیوز  راولپنڈی: راولپنڈی کے علاقے ڈھیری حسن آباد میں ٹارگٹ کلنگ کی واردات میں ملزمان نے ایڈووکیٹ شیخ عمران کو قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق مقتول وکیل شیخ عمران صبح بچوں کو اسکول چھوڑنے جا رہے تھے کہ ڈھیری حسن آباد الف شاہ قبرستان کے قریب نامعلوم ملزمان نے ٹارگٹ کیا اور سر میں دو گولیاں ماری جس سے وہ موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ ایڈووکیٹ شیخ عمران اسلام آباد میں وکلالت کرتے تھے۔ ملزمان نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
کوئی خان صاحب کو سمجھائے
عمران خان کو کوئی سمجھائے کہ فوج سے لڑائی پاکستان کے لیے اچھی نہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ میں تو فوج کے حق میں ہوں، فوج پاکستان کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے، فوج کے ادارے کو اگر کمزور کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو کمزور کر دیا جائے اور ہمارا نیوکلیئرپروگرام بھی خطرےمیں پڑ جائے! وہ کہتے ہیں کہ اُن کا اعتراض فوج کے ادارے پر نہیں بلکہ چند افراد پر ہے جنہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا۔ ہو سکتا ہے وہ واقعی یہ سمجھتے ہوں لیکن کوئی ذرا پاکستان تحریک انصاف کے ووٹروں، سپورٹروں کو تو دیکھے اور سنے کہ وہ خان صاحب کی باتیں سن سن کر اپنی ہی فوج کے ��ارے میں کیسی کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران جو طوفانِ بدتمیزی اپنی ہی فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کے خلاف برپا کیے رکھا، اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کوئی خان صاحب کو سمجھائے کہ وہ خود جو چاہے سمجھتے ہوں، اُن کے بیانیوں اور فوج مخالف باتوں سے اُن کے فالوورز کی بڑی تعداد اپنی ہی فوج کے خلاف گمراہ ہو چکی ہے جو پاکستان کے لیے بہت خطرناک ہے۔
کہتے ہیں کہ مجھے تو چند ایک افراد پر اعتراض ہے، تو پھر اُس کا الزام اداروں پر کیوں لگاتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی ثبوت، بغیر کسی منطق کے؟ اپنے اوپر قاتلانہ حملہ ہوا، حملہ آور زندہ پکڑا گیا، اُس کا بیان بھی سامنے آ گیا ، نہ حملہ آور نے کسی سازش کی بات کی، نہ پولیس یا کسی سرکاری ادارے اور ایجنسی نے، لیکن حملے والے دن ہی شام کو خان صاحب نے وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ کے ساتھ ساتھ ایک میجر جنرل کا نام لے کر کہا کہ اُن تینوں نے قاتلانہ حملے کی سازش کی۔ خان صاحب جو کہتے ہیں اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ہو سکتا ہے وہ غلط ہوں لیکن اُن کے ماننے والے، چاہنے والے ووٹرز سپورٹرز تو یقین کر بیٹھے ہیں کہ خان صاحب پر انہی ��وگوں نے حملہ کروایا ہے۔ کینیا میں ارشد شریف کے قتل کی خبر پاکستان میں پہنچنے کی دیر تھی کہ خان صاحب اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم نے اپنے ہی اداروں پر الزام لگانا شروع کر دیا۔ 
آج بھی بڑے یقین سے خان صاحب خود بھی، اُن کے دوسرے رہنما اور ووٹرز، سپورٹرز بھی یہی کہتے ہیں کہ ارشد شریف کی ٹارگٹ کلنگ کروائی گئی، حالاں کہ اب جو حقائق وہاں سے سامنے آ رہے ہیں وہ کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ گزشتہ رات جیو کے پروگرام میں شاہ زیب خانزادہ نے عمران خان کو سعودی عرب کے حکمرانوں کی طرف سے ملنے والی گھڑی اور دوسرے تحائف کے بارے میں خبردی جو خان صاحب کے خلاف جاتی ہے، اس پر بھی چیئرمین تحریک انصاف نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں یہ الزام لگا دیا کہ اس کے پیچھے بھی ہینڈلز ہیں۔ فوج اور اس کی قیادت کو نیوٹرل رہنے پر جانور کے بار بار طعنے دئیے، اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش سے جوڑا اور اس مبینہ سازش کو پاکستان میں کامیاب بنانے کا اداروں پر الزام لگاتے ہوئے انہیں ہینڈلرز کہا۔ جب حکومت میں تھے تو فوج کی قیادت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب کہتے ہیں کہ اُن کے پاس تو اختیار ہی نہ تھا۔
فوج اور اس کی قیادت کے متعلق اتنے الزامات لگائے کہ اب کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہاں تک کہ آنے والے آرمی چیف کے متعلق بھی سیاسی نوعیت کے سوال کھڑے کر دئیے یعنی جو ابھی آرمی چیف بنے گا گویا اُسے بھی عہدے پر تعینات ہونے سے پہلے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ خان صاحب کے اس سارے بیانیے کا مقصد اداروں کو اپنی حمایت میں اور موجودہ حکومت کے خلاف کھڑا کرنا ہے۔ وہ فوج سے چاہتے ہیں کہ فوج موجودہ حکومت کے خاتمے اور فوری الیکشن کے لیے اُن کی مدد کرے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ جو چاہتے ہیں وہ فوج کو مزید سیاست میں گھسیٹنے کی خواہش ہے، خان صاحب کو کوئی سمجھائے کہ وہ خود کو فوج کے مقابل لے آئے ہیں۔ کوئی ہے جو خان صاحب کو سمجھائے کہ لڑائی سیاسی مخالفین سے کی جاتی ہے نہ کہ اپنے قومی اداروں سے اور وہ بھی ایسے اداروں سے جو پاکستان کی سالمیت اور اس کے تحفظ کے لیے لازم ملزوم ہیں۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-news · 2 years
Text
شاید عقل کی ٹرین چھوٹ گئی ہے
ریاستی جبر کے ہتھیاروں میں بلڈوزر کے سفاکانہ استعمال کا موجد اسرائیل ہے۔ جس نے اس مشین کو فلسطینی املاک مٹانے کے لیے کمال جانفشانی سے استعمال کیا۔ مگر اب لگتا ہے بھارت اس معاملے میں اسرائیل کا بھی مرشد ہو گیا ہے۔ اس بابت ارودن دھتی رائے کا ایک فکر انگیز مضمون نگاہ سے گذرا۔ اب یہ مت پوچھ لیجیِے گا کہ کون ارون دھتی رائے؟ ’’ پچھلے چند ماہ سے حکمران بی جے پی کی زیرِ اختیار ریاستوں میں اس نئے چلن نے زور پکڑ لیا ہے کہ جن مسلمانوں پر سرکار مخالف مظاہروں میں شرکت کا شبہ ہو ان کے گھروں، دکانوں اور کاروبار پر بلڈوزر چلا دیا جائے۔ ریاستی وزرائے اعلیٰ ان حرکتوں پر شرمسار ہونے کے بجائے سینہ ٹھونک کے انتخابی اور سیاسی جلسوں میں اسے قابلِ فخر کارنامے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہ رجحان اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ اب وہ مرحلہ شروع ہو گیا ہے جہاں اندھی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی ہتھیار استعمال ہو سکتا ہے تاکہ ایک لولی لنگڑی جمہوریت کو کھلم کھلا ایک مجرمانہ ذہنیت والی فسطائیت میں بدلنے کی راہ میں ایک بھی رکاوٹ نہ رہے۔
اب ہم پر ہندو سادھوؤں کا روپ دھار کے غنڈے راج کریں گے اور بطور ہدف مسلمان تو دشمن نمبر ایک ہیں ہی۔ ماضی میں مسلم طبقات منصوبہ بند قتلِ عام، اجتماعی تشدد کے نتیجے میں موت، ٹارگٹ کلنگ، زیرِ حراست ہلاکت، جعلی پولیس مقابلوں اور جھوٹے مقدمات میں قید و بند کا نشانہ بنائے جاتے رہے۔ اب ان ہتھکنڈوں کی فہرست میں گھروں اور کاروبار کی بلڈوزنگ بھی شامل ہو گئی ہے۔ جس طرح زرایع ابلاغ میں اس نئے ہتھیار کی افادیت پر گفتگو ہو رہی ہے یا لکھا جا رہا ہے۔ اس سے یہ تصویر ابھر رہی ہے کہ بلڈوزر دراصل آسمانی قہر کا نام ہے۔بلڈوزر کے بڑے بڑے فولادی بلیڈوں اور آہنی پنجوں کو دشمنوں کو گھائل کرنے کی ان دیومالائی داستانوں سے جوڑا جا رہا ہے جن میں دیوتا راکھشسوں کو بے دردی سے کچل دیتے ہیں۔ بلڈوزر نئی ابھرتی جوشیلی ہندو توائی نسل کے لیے روایتی ترشول کا جدید طاقت ور استعارہ بنایا جا رہا ہے۔
چند ہفتے پہلے جب برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن بھارت کے دورے پر آئے تو انھوں نے مودی کی جنم بھومی ریاست گجرات میں برطانوی مدد سے قائم بلڈوزر ساز فیکٹری میں ایک بلڈوزر پر بیٹھ کر خوشی خوشی تصویر کھنچوائی جو خاصی وائرل ہوئی۔ میرے لیے یہ سوچنا بھی محال ہے کہ دنیا بھر کے معاملات سے آگاہ بورس جانسن اتنے معصوم ہیں کہ انھیں یہ تک اندازہ نہ ہوا ہو کہ اس وقت بھارت میں بلڈوزر کس پالیسی کا استعارہ ہے اور ان کی یہ تصویر بھارت کے اندر اور باہر کیا پیغام دے گی۔ ویسے بھی کوئی سربراہِ مملکت و حکومت اپنے باضابطہ سرکاری دورے میں کیوں خامخواہ کسی بلڈوزر کے ساتھ تصویر کھچنوائے گا جب کہ اس تصویر سے کوئی خاص پیغام یا اشارہ دینا مقصود نہ ہو۔ ریاستی حکومتیں اس بلڈوزر پالیسی کے دفاع میں یہ کہتی ہیں کہ یہ کام وہ نہیں کر رہے بلکہ مقامی بلدیات تجاوزات ڈھانے کے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے بلڈوزر استعمال کر رہی ہیں اور اس کام میں ہندو مسلم کا فرق نہیں کیا جاتا۔
قانون سب کے لیے برابر ہے۔ یہ دلیل دینے کا مقصد معذرت خواہی یا قانون کی مساوی بالادستی کا تصور اجاگر کرنا نہیں بلکہ متاثرہ طبقات کو یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ اس بارے میں کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کہ بلڈوزنگ کا عمل کسی نہ کسی مرحلے پر روک دیا جائے گا۔ بھلا سرکاری بابوؤں سے بہتر کون جانتا ہے کہ بیشتر ملک میں زیادہ تر تعمیرات یا غیر قانونی ہیں یا نیم قانونی یا پھر مشکوک۔ ضابطہ کہتا ہے کہ غیرقانونی تعمیر ختم کرنے سے پہلے مکین یا مالک کو قانونی نوٹس دیا جاتا ہے، اسے اپیل کا حق دیا جاتا ہے اور تمام ضروری قانونی راستے بند ہونے کے بعد ہی انہدام کا مرحلہ آتا ہے۔ مگر عملاً یہ ہو رہا ہے کہ جن جن مسلمانوں کی کاروباری و رہائشی املاک کو گرایا گیا ہے۔ انھیں اس انتہائی قدم سے پہلے قانونی نوٹس تو کجا زبانی انتباہ بھی نہیں کیا گیا اور بلڈوزروں نے اچانک کسی تحریری عدالتی اجازت نامے، وارنٹ یا ضروری قانونی شنوائی اور اپیل مسترد ہونے کا انتظار کیے بغیر ہی کچھ دیر میں ان عمارتوں کو تالیاں بجاتے، نعرے لگاتے، ناچتے ہجوم کے سامنے ملبے کے ڈھیر میں بدل ڈالا۔
دورِ بلڈوزری سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر ہجوم مسلمان آبادیوں کو نشانہ بنا رہا ہے تو پولیس نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ مگر بلڈوزنگ کے عمل میں بلدیاتی عملہ یہ کارروائی پولیس کے پہرے میں مکمل کرتا ہے اور میڈیا کے کیمرے اس جگہ پہلے سے موجود ہوتے ہیں اور جوش و خروش کے ساتھ اس کارنامے کی براہ راست رپورٹنگ کرتے ہیں۔ مذمت اور تنقید شام کو کسی اکادکا چینل کے کسی پروگرام میں ہوتی ہے اور وہ بھی خانہ پری کے لیے۔ متاثرہ فریق اگر عدالت سے رجوع کرے تو اسے سماعت کی لمبی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ یعنی مسلمان برادری کو واضح پیغام دیا جا رہا ہے کہ آپ اب ہر طرف سے تنہا ہو، کوئی مدد نہیں آئے گی ، کوئی شنوائی نہیں ہو گی۔ دورِ جمہوریت میں جو ادارے زیادتیوں کا قانونی نوٹس لے کر ازالے یا اشک شوئی کی کوشش کرتے تھے وہ سب ادارے اب ریاست کے ہاتھوں مذاق بن چکے ہیں۔ 
سولہ جون کو فوج میں بھرتی کی نئی سرکاری پالیسی کے خلاف پورے شمالی بھارت میں ہزاروں نوجوانوں نے بھرپور پرتشدد احتجاج کرتے ہوئے سرکاری املاک کو اچھا خاصا نقصان پہنچایا۔ ریل کے ڈبے جلے ، شاہراہیں بند کر دی گئیں اور ایک جگہ تو بے جے پی کا مقامی دفتر بھی جلا دیا گیا۔ چونکہ ہنگامہ کرنے والوں کی اکثریت غیر مسلم تھی لہٰذا ان کے گھر، کاروبار اور خاندان کسی بھی تادیبی کاروائی یا بلڈوزنگ سے محفوظ ہیں۔ دو ہزار چودہ اور دو ہزار انیس کے اتنخابات میں بی جے پی نے اپنی کامیابی سے عملاً ثابت کر دیا کہ اسے بیس کروڑ مسلمانوں میں سے کسی ایک کے بھی ووٹ کی ضرورت نہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ جب کسی کمیونٹی کا ووٹ ہی بے وقعت ہو جائے تو پھر اسے آسانی سے ہر طرح کی زیادتی کی سان پر چڑھایا جا سکتا ہے۔ ان کے حق میں بولنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کی سیاسی طاقت کی کسی کو ضرورت ہی نہیں رہتی۔
حال ہی میں توہینِ مذہب کے پس منظر میں مسلمانوں نے جو احتجاجی مظاہرے کیے۔ ان میں اسد الدین اویسی کی جماعت آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین کے کچھ جوشیلے رہنماؤں نے گستاخی کے مرتکب بی جے پی کے رہنماؤں کو سرِ عام پھانسی دینے اور سر تن سے جدا کرنے کی بات کی۔ اس طرح کے مطالبات اور دھمکیوں سے ہندوتوا تنظیموں کی چاندی ہو گئی۔ میڈیا نے بار بار وہ تقریری ٹکڑے دکھائے اور پھر اس بیانیے کو ایک نئی زندگی مل گئی کہ یہ ہے مسلمانوں کا اصلی اور بھیانک چہرہ۔ وہ سر اور گردن الگ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو بھیانک انجام تک پہنچانے کی دھمکیوں کا جوابی سلسلہ عروج پر پہنچ گیا۔ بی جے پی کے جن دو رہنماؤں کو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی پاداش میں پارٹی سے معطل کر دیا گیا تھا انھیں والہانہ مجمع نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اب ان کا سیاسی مستقبل پہلے سے زیادہ روشن ہے۔
آج کے بھارت میں وہ تمام انتظامی و سیاسی ادارے جو برسوں کی محنت کے بعد کھڑے کیے گئے تھے ان پر گیروا رنگ پھر گیا ہے۔ چار سو سے زائد نیوز چینلوں ، بے شمار ویب سائٹس اور بیسیوں سوشل میڈیا بریگیڈّ ز کی مدد سے وہ نسل لگ بھگ تیار ہو چکی ہے جسے اس ملک کے ماضی ، حال اور مل جل کے رہنے اور درگزر کی روایات سے باکل الگ تھلگ کر کے ایک انسانی ہتھیار میں بدلا جا رہا ہے۔ اب ایسے شدت پسند گروہ تیزی سے ابھر رہے ہیں جن کے سامنے بے جی پی بھی ایک معقول اور اعتدال پسند جماعت محسوس ہوتی ہے۔ جو مٹھی بھر لوگ اس انتہا پسندی کے خلاف اب تک سینہ سپر ہیں انھیں غداروں اور دہشت گردوں کے کھاتے میں لکھ دیا گیا ہے۔ شاید وقت نکل چکا ہے۔ شاید عقل کی ٹرین بھارت سے چھوٹ گئی ہے ۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
جموں کشمیر ٹارگٹ کلنگ: مرکزی سرکار کے گلے کی ہڈی بنی ،اضافی سیکورٹی دستے وادی جائیں گے، مشتبہ نشانے پر
جموں کشمیر ٹارگٹ کلنگ: مرکزی سرکار کے گلے کی ہڈی بنی ،اضافی سیکورٹی دستے وادی جائیں گے، مشتبہ نشانے پر
جموں کشمیر ٹارگٹ کلنگ: مرکزی سرکار کے گلے کی ہڈی بنی ،اضافی سیکورٹی دستے وادی جائیں گے، مشتبہ نشانے پر     ٍسری نگر ، 3جون ( آئی این ایس انڈیا )     جموں و کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ مرکزی حکومت کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ محض 24 گھنٹوں میں تین اہم میٹنگیں ہوئی ہیں۔ اسی عرصے میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے دو بار ملاقات کی ہے۔ جموں و کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ، کشمیری پنڈتوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 3 years
Text
ایم کیو ایم لندن کا بھارتی ایجنسی را اور قوم پرست دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا
ایم کیو ایم لندن کا بھارتی ایجنسی را اور قوم پرست دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا
کراچی(عکس آن لائن)ایم کیو ایم لندن کا بھارتی ایجنسی را اور قوم پرست دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا،امریکہ میں مقیم ایم کیو ایم لندن کی رکن رابطہ کمیٹی کہکشاں حیدر مرکزی کردار نکلیں،بانی ایم کیو ایم کے احکامات پرکہکشاں حیدر دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کراتی ہیں محکمہ انسداد دہشت گردی اور سندھ رینجرز نے شواہدمیڈیا سے سامنے پیش کردیئے ۔ جمعرات کو ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہدنے سندھ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 4 months
Text
کراچی : ابوالحسن اصفہانی روڈ پر دکان پر فائرنگ، 2 افراد ہلاک، ٹارگٹ کلنگ کا شبہ
کراچی میں رات گئے دوکان پر فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد ہلاک جبکہ تین زخمی ہوگئے، واقعہ ابوالحسن اصفہانی روڈ کے قریب پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق دو مسلح ملزمان نے دوکان میں بیٹھے افراد پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دوکان کے مالک کا بھائی عبدالباری موقع پر توڑ گیا جبکہ چار افراد زخمی ہوئے جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ایوب نامی شخص زخموں کی تاب نا لاتے ہوئے چل بسا۔ ملزمان نے دوکان میں لوٹ مار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
45newshd · 5 years
Photo
Tumblr media
ٹارگٹ کلنگ میں ملوث گریڈ 14 کا سرکاری ملازم گرفتار ،دوران تفتیش حیران کن انکشافات کراچی(آن لائن) محکمہ کے ایم سی کا گریڈ 14کے ملازم عدنان عرف ملا کو ٹارگٹ کلنگ کے متعدد مقدمات میں گرفتار کر لیا گیا ہے ،ملزم پولیس پر حملوں ، قتل، اقدام قتل اوردہشت گردی کے مقدمات میں اشتہاری ہونے کے باوجود 14ویں گریڈ تک ترقی کرگیا۔
0 notes
spitonews · 1 year
Text
سابق چیف جسٹس کی ریلی پر فائرنگ میں ملوث سیاسی جماعت کا ٹارگٹ کلر گرفتار
سی ٹی ڈی کی دوسری کارروائی میں ٹریفک پولیس اہلکار کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ملزم 8 سال کے بعد گرفتار   کراچی: کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ نے چھاپہ مار کارروائیوں میں دو ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کرلیا،گرفتار ٹارگٹ کلر ٹریفک پولیس اہلکار کے قتل اور سیاسی مخالفین کے قتل میں ملوث ہیں ۔ سی ٹی ڈی شعبہ تفتیش نےصدر پارکنگ پلازہ کے قریب خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے ٹریفک پولیس اہلکار کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ملزم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
راولپنڈی میں وکیل کو بچوں کے سامنے قتل کر دیا گیا
راولپنڈی میں وکیل کو بچوں کے سامنے قتل کر دیا گیا
 راولپنڈی: راولپنڈی کے علاقے ڈھیری حسن آباد میں ٹارگٹ کلنگ کی واردات میں ملزمان نے ایڈووکیٹ شیخ عمران کو قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق مقتول وکیل شیخ عمران صبح بچوں کو اسکول چھوڑنے جا رہے تھے کہ ڈھیری حسن آباد الف شاہ قبرستان کے قریب نامعلوم ملزمان نے ٹارگٹ کیا اور سر میں دو گولیاں ماری جس سے وہ موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ ایڈووکیٹ شیخ عمران اسلام آباد میں وکلالت کرتے تھے۔ ملزمان نے وکیل کو بچوں کو سامنے…
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 1 year
Text
کراچی میں مبینہ ٹارگٹ کلنگ میں ایم کیو ایم کا سابق کارکن جاں بحق
کراچی میں مبینہ ٹارگٹ کلنگ میں ایم کیو ای�� کا سابق کارکن جاں بحق
  کراچی: شہر قائد کے علاقے حسین آباد میں مبینہ ٹارگٹ کلنگ میں ایم کیو ایم کا سابق کارکن شہزاد جاں بحق ہوگیا جبکہ مختلف علاقوں میں ڈکیتی مزاحمت اور دیگر فائرنگ کے واقعات میں لڑکی سمیت 6 افراد زخمی ہوگئے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق ضلع وسطی کے علاقے حسین آباد فیڈرل بی ایریا بلاک 3 رونق اسلام اسکول کے قریب ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا۔ مقتول کی لاش ایدھی کے رضا کاروں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
ہمارے تعصبات اور اپنا اپنا قاتل
اینکر ارشد شریف مرحوم ایک بڑے ہی افسوس ناک سانحہ کا شکار ہو گئے۔ اللہ تعالی اُن کی مغفرت فرمائے، آمین۔ اُنہیں کینیا میں پولیس نے بڑی بے دردی سے قتل کر دیا جبکہ اُن کا نہ کوئی جرم تھا نہ قصور۔ کینیا کی پولیس کی ابتدائی انکوائری کے مطابق ارشد شریف کی گاڑی کو، جس میں وہ سوار تھے، کسی چوری شدہ گاڑی کے لیے لگائے گئے ناکے پر نہ رُکنے کی وجہ سے غلط فہمی کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور فائر کی گئی گولیوں میں سے ایک گولی ارشد شریف کے سر پر لگی جس سے وہ جاں بحق ہو گئے۔ ارشد شریف کے سانحہ نے سب کو افسردہ کر دیا۔ ابھی کینیا کی پولیس نے اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کرنی ہیں جبکہ پاکستان نے بھی اپنی ایک انکوائری ٹیم کینیا بھیج دی ہے۔ انکوائری کمیشن بنانے کا بھی حکومت نے اعلان کر دیا ہے۔ بہت سے سوال ہیں جن کا جواب مانگا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟ مقتول صحافی کن حالات میں پاکستان سے گئے؟ کس نے باہر جانے پر مجبور کیا؟ 
وہ بیرونِ ملک کہاں کہاں اور کس کے پاس رہے؟ کس کے مشورے پر اور کیوں کینیا گئے؟ وہاں کس کے پاس ٹھہرے؟ اُن کا ڈرائیور جو اُن کے ساتھ سانحہ کے وقت موجود تھا، وہ کہاں ہے؟ اُس کا بیان ابھی تک سامنے کیوں نہیں آیا؟ وہ اُنہیں کیوں سانحہ والی جگہ پر لے کر گیا؟ کیا یہ ایک غلطی کے نتیجے میں رونما ہونے والا سانحہ تھا یا کوئی سازش اور سوچا سمجھا منصوبہ ؟ کیا اس سازش کا پاکستان سے کوئی تعلق ہے؟ کیا کوئی سیاسی جماعت یا کوئی ادارہ اس مبینہ سازش کے پیچھے ہے؟ ان سوالوں کا جواب معلوم کرنا ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن جس بات کا مجھے بے انتہا افسوس ہے وہ یہ کہ اس سانحہ کے بعد سامنے آنے والے سوالوں کے جواب ملنے سے پہلے ہی سب نے اپنے اپنے نتیجے نکالنا شروع کر دیے ہیں۔ اگر کسی نے شریف فیملی پر الزام تراشی شروع کر دی تو عمران خان پر بھی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں، جو میری نظر میں ہمارے معاشرے میں اُس نفرت کی سیاست کا نتیجہ ہے جس نے ہماری سیاست، معاشرے اور ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ایک طبقے نے تو سیدھا سیدھا پاکستان کے اداروں پر انگلیاں اُٹھانا شروع کر دیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان جیسے بڑے سیاستدان، جن کے کروڑوں ووٹرز اور سپورٹرز ہیں، نے تو سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ ارشد شریف کی اُنہوں نے ٹارگٹ کلنگ کی جو اُن کو پاکستان میں نامعلوم فون کر کے دھمکاتے تھے، جنہوں نے موجودہ حکمرانوں کو، جن کو وہ چور ڈاکو کہتے ہیں، قوم پر مسلط کیا۔ عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اُن کو یہ اطلاعات ملی تھیں کہ ارشد شریف کو قتل کرنے کا پروگرام بنا لیا گیا تھا اور اور اسی لیے اُنہوں نے صحافی کو فوری طور پر پاکستان چھوڑ کر ملک سے باہر جانے کا کہا گیا ۔ خان ، اُن کی پارٹی اور سوشل میڈیا تو ریاستی اداروں کی طرف ہی اشارے کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اُنہوں نے فوری فیصلہ کر لیا ہے کہ ارشد شریف کا قاتل کون ہے؟ اگر کسی کو شک ہے کہ پاکستان میں بیٹھ کر کسی نے صحافی کو کینیا میں قتل کروا دیا تو ایسے میں اُٹھنے والے سوالوں کے جواب اور ٹھوس شواہد کے بغیر کیسے کوئی نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ اس جرم میں کوئی ریاستی ادارہ ملوث ہے۔ ؟
سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ باتیں تو ہوتی ہی ہیں اور بے بنیاد الزامات بھی لگائے جاتے ہیں لیکن ایسے معاملے میں سوشل میڈیا کو دیکھ کر اگر ہمارے سیاسی رہنما اور صحافیوں کا ایک طبقہ اپنے ہی اداروں کے متعلق یہ ذہن بنا کر بیٹھ جائے کہ وہی ذمہ دار ہیں تو یہ بہت ہی نامناسب بات ہے۔ جس ریاستی ادارے کی ہم بات کر رہے اُس کی سیاست میں مداخلت پر ہمیں اعتراض ہے ، یہ بھی درست ہے کہ ایجنسیاں صحافیوں کے ساتھ زیادتیاں کرتی رہیں اور میڈیا پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں لیکن اگر بغیر کسی ثبوت کے ہم اپنے ہی ملک کے ایک ایسے ادارے پر سنگین الزامات لگائیں گے جو پاکستان کے دفاع، اس کی سالمیت اور ہمارے جوہری پروگرام کا ضامن ہے اور جس نے دہشت گردی کے خلاف ہزاروں قربانیاں دے کر جنگ لڑی اور آج بھی یہ قربانیاں دی جا رہی ہیں تاکہ عوام محفوظ رہیں، تو پھر عوام اور اس ادارے کے درمیان مضبوط رشتہ کیسے قائم رہے گا۔
جو لوگ بغیر ثبوت کے اپنے ریاستی ادارے کے متعلق یہ فیصلہ کر چکے کہ یہ جرم اُنہی نے کیا ہے وہ اپنے اپنے سیاسی اور ذاتی تعصبات میں اندھے ہو چکے ہیں، انہیں پاکستان کی خاطر اپنے طرزِعمل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ہاں اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لائے لیکن اپنے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات یا تعصبات کی وجہ سے ایسی کوئی غیرذمہ دارانہ حرکت نہ کریں کہ پاکستان کو ہی کمزور کردیں۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
latestnewsvideos · 5 years
Photo
Tumblr media
کراچی ، ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ایک طویل سکوت کے بعد کراچی میں ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش آیا ہے، اس سلسلے میں جو افسوس ناک خبر سامنے آئی ہے، اس کی تفصیلات کے مطابق پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے ٹاؤن آفس پر فائرنگ کے نتیجے میں دوکارکن جاں بحق جب کہ 3 زخمی ہوگئے۔ نامعلوم افراد جن کی تعداد ایک درجن کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، انھوں نے سیاسی جماعت کے دفتر پر فائرنگ کی ۔ واقعہ کے حقائق تو تفتیش کے بعد ہی سامنے آسکیں گے ۔ کراچی میں ایک طویل ترین آپریشن کے بعد امن وامان کی صورتحال خاصی بہتر ہوئی تھی، اور شہر میں بے گناہ انسانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی تھم گیا تھا ۔ شہرکی رونقیں لوٹ آئی تھیں ، شہری رات گئے تک بازاروں میں شاپنگ کرتے نظر آتے ہیں ۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے ، ملکی صنعت کا پہیہ رواں بھی اسی کے دم سے رہتا ہے . تقریباً تین دہائیوں کے بعد شہر میں مکمل امن قائم ہوا ہے  اور سیاسی سرگرمیاں بھی آزادانہ طور پر جاری وساری ہیں۔ ان سیاسی سرگرمیوں کو جاری وساری رہنا چاہیے،کراچی اور سندھ میںضمنی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ہوا اور اس میں عوام نے بڑھ چڑھ کر اپنے حق رائے دہی کا بھی استعمال کیا ہے، یہ اس امرکا غماز ہے کہ کراچی کے عوام کا سیاسی شعور بلند ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ رینجرز نے نوگو ایریاز کا خاتمہ کردیا تھا، لیکن یہ واقعہ اس امرکی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ راکھ میں ابھی بھی چنگاری موجود ہے۔ اس واقعے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے جلد ازجلد اس واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جانا چاہیے تاکہ کسی کوکراچی کے امن کو سبوتاژکرنے کی جرات نہ ہو، اگر کسی سازش کے تحت یہ واقعہ پیش آیا ہے تو اس کے حقائق کو بھی عوام کے سامنے منظرعام پر لانا چاہیے۔کراچی میں پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرزکواعتماد میں لے، کراچی میں ہرقیمت پر امن وامان برقرار رہنا چاہیے۔ The post کراچی ، ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ appeared first on ایکسپریس اردو. Source link
0 notes