Tumgik
pakistan-affairs · 1 year
Text
توشہ خانہ، 13 صدور، وزرائے اعظم نے اب تک 3039 تحفے حاصل کئے
پاکستان کے 13 صدور اور وزرائے اعظم نے اب تک 3039 تحفے توشہ خانے سے کوڑیوں کے دام پر حاصل کیے جن کی کل مالیت 16 کروڑ روپے بنتی ہے، اب سے زیادہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز پاکستان سے جاتے ہوئے 1،126 تحفے ساتھ لے گئے، جنرل ضیا نے توشہ خانے سے 16 لاکھ روپے میں ایک سو بائیس تحفے لئے، جنرل ایوب خان واحد صدر اور بلخ شیرمزاری واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے تمام تحفے توشہ خانہ میں جمع کرائے اور کوئی بھی تحفہ گھر لے کر نہیں گئے، ذرائع کے مطابق توشہ خانے سے تحفے حاصل کرنے والے حکمرانوں کی تفصیلات سامنے آگئیں، اب تک ملک کے تیرہ صدر اور وزیراعظم توشہ خانے سے تین ہزار انتالیس تحفے لے چکے ہیں، تحفے لینے والوں میں جنرل ضیاء سے جنرل مشرف تک صدور، جونیجو سے شوکت عزیز تک وزرائے اعظم شامل ہیں، ذرائع کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر دو بی ایم ڈبلیو اور دو ٹویوٹا جیپ کیلئے توشہ خانہ میں 93 لاکھ جمع کرائے یعنی اصل مالیت کا محض 15 فیصد ہے، یہ قیمتی گاڑیاں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے دی تھیں۔
بلال عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
واضح معاشی پالیسی کا نفاذ ۔۔۔ وقت کی ضرورت
ملک کی معاشی ترقی کا انحصار صنعتی ترقی پر ہے، کیونکہ پاکستان کی برآمدات پر نظر دوڑائی جائے تو چند ارب ڈالرکا خام زرعی مال برآمد کرنے کے علاوہ 26 یا 27 ارب ڈالر کی برآمدات صنعتی شعبے کی تیار کردہ مصنوعات پر مشتمل ہیں اور اس صنعتی ترقی کا انحصار ملکی معیشت پر ہے، ملک کی معاشی پالیسی پر ہے۔ ملکی مصنوعات کی نکاسی پر ہے، اگر ملک کے حالات بہتر ہوں گے تو ملک کے اندر معاشی حالات بھی بہتری کی جانب گامزن ہوں گے اور ان سب باتوں کا دار و مدار ملک کے سیاسی حالات پر ہے۔ اس وقت ملک کے سیاسی حالات کیسے ہیں۔ کس طرح ملک میں ایسا سیاسی عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے جس سے ملک کے اندر روزمرہ کی تجارت شدید متاثر ہو رہی ہے اور جس سے ملک کا تاجر طبقہ انتہائی مخدوش حالات میں گھر چکا ہے۔ تاجر دہائیاں دے رہے ہیں کہ تجارت سکڑ کر رہ گئی ہے۔ صنعت کار اس بات سے نالاں ہیں کہ ملک کی مبہم معاشی پالیسی صنعت کاری کے عمل کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
��لک کی صنعتی مصنوعات کی تیاری میں ایک بڑا حصہ درآمدی خام مال پر مشتمل ہوتا ہے لیکن درآمدات کے سلسلے میں حکومت وقت کی پالیسی ابہام کا شکار ہے جس کے باعث برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کی گومگو پر مبنی پالیسی کے باعث درآمدی خام مال کی صنعتوں میں سرگرمیاں تعطل کا شکار ہیں ظاہر ہے جب کارخانوں کی پیداوار متاثر ہو گی۔۔ خام مال بندرگاہوں میں ہی اٹکا رہے گا اور آیندہ کے لیے اس کی درآمدات کو روک لیا جائے گا یا پالیسی میں ابہام ہو گا ایسی صورت میں ان صنعتوں کا بھرپور پیداوار دینا بھی محال ہو کر رہے گا۔ کارخانے تین شفٹوں سے دو شفٹوں پھر ایک شفٹ پر منتقل ہو کر پیداوار کم برآمدات کم اور زرمبادلہ کی کمائی کم اور بے روزگاری زیادہ بڑھ کر بالآخر ملکی صنعتی ترقی کا انحطاط شروع ہو جائے گا اور حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے۔
ملک کی مجموعی صنعتی تجارتی اور برآمدی صورتحال ایسی ہو گئی ہے کہ اب برآمدات کم ہو رہی ہیں، ملک کے اندر خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بیرونی سرمایہ کاری انتہائی کم ہو چکی ہے۔ اس سے مافیاز فائدہ اٹھا رہے ہیں، خاص طور پر انھوں نے روپے کو نشانہ بنا لیا ہے۔ حکام سمجھتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت 200 روپے سے کم ہے لیکن گزشتہ دو ہفتوں سے ڈالر ریٹ بڑھتا چلا جا رہا ہے اس وقت 225 روپے تک پہنچا ہوا ہے۔ مزید اضافے کا امکان ہے۔ یعنی اس وقت حکومتی اندازوں کے مطابق 200 روپے فی ڈالر کو مدنظر رکھیں تو ڈالر کی قیمت 12 سے 13 فیصد زائد ہے اور یہ تمام باتیں ملک کی معاشی صنعتی تجارتی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کے علاوہ ترسیلات زر میں کمی سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کا مافیاز خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اس کے علاوہ آئی ایم ایف کا دباؤ بھی معاشی حالات کو بگاڑ رہا ہے۔ سیلاب سے ہونے والے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان لیکن اس کے ازالے کا فقدان بھی معیشت کو مضمحل کیے جا رہا ہے اور ملک کی سیاسی کشیدگی بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ 
ایسے میں جب معیشت نرغے میں آ کر لڑکھڑانے لگتی ہے تو سارا بوجھ ملکی کرنسی پر ہی پڑتا ہے اور وہ دھڑام سے نیچے گرنے لگتی ہے۔ موجودہ حکومت کی کئی مبہم معاشی پالیسیاں صنعتکاری کے عمل میں اندیشوں کو جنم دے رہی ہیں۔ سیاسی کشیدگی بڑھ کر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔ ایسے میں ہر شخص متاثر ہو رہا ہے۔ مافیاز کھل کر اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آٹا مہنگا ہو رہا ہے۔ پھل، سبزیاں، انڈے، مرغی، دال، گوشت ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔ ملک کی معاشی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ جلد ہی ملک میں گیس کی قلت پیدا ہوکر صنعتی عمل کو مزید زک پہنچا سکتی ہے بلکہ کراچی میں گیس کی قلت نے گھریلو خواتین سے لے کر مل اونرز تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق صرف کراچی میں 150 صنعتی یونٹس کی توانائی کی ضرورت لکڑیاں جلا کر پوری کی جا رہی ہے۔ اور 60 یا 70 یونٹس کوئلے پر چلائے جا رہے ہیں۔ 
گیس کی قلت توانائی بحران پیدا کر کے برآمدات کو شدید خطرات سے دوچار کر دے گی۔ گھروں کے لیے بھی کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ تک ہو رہی ہے۔ اس طرح لکڑی اور کوئلے کے استعمال سے ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ امریکی، یورپی برآمدی آرڈرز منسوخ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد یورپی ملکوں کے لیے برآمدات میں اضافے کی توقعات دم توڑ جائیں گی۔ حکومت اس کا فوری حل نکالے۔  جس طرح روس سے گندم اور پٹرول کی خریداری کی جائے گی اسی طرح ایران سے سستی گیس حاصل کی جاسکتی ہے تاکہ ہم اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ کراچی کی صنعتوں کا متاثر ہونے کا مطلب ہے کہ ملک کی برآمدات کا بڑا حصہ شدید متاثر ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ترسیلات زر میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ یورپی یونین سے پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 11 فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق جولائی 2022 تا اکتوبر 22 تک ان چار ماہ کے دوران یورپی یونین کے مختلف ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے علاوہ دنیا بھر سے سمندر پار ملکوں سے پاکستانیوں کی مجموعی طور پر بھیجی گئی ترسیلات زر میں مجموعی طور پر 8 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سال قبل سالہا سال سے اس مد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا، لیکن اس کمی کی کئی وجوہات میں سے اہم وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ہونا بھی ہے۔ ماہ نومبر کے آخر میں آئی ایم ایف سے مذاکرات ہونے والے ہیں اور ملک میں شدید سیلاب کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے کسی قسم کی نرمی کے آثار نظر نہیں آرہے۔ حکام اس جانب بھی توجہ دیں کہ چین سے لیے گئے قرضوں کو اس طرح سے ری شیڈول کیا جائے کہ پاکستان موجودہ معاشی بحران سے نکل آئے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات میں جوکہ پانچ روز جاری رہیں گے جس کی حتمی تاریخ کا ملک میں سیاسی کشیدگی کے باعث ابھی تک اعلان نہیں ہوا۔ 
بہرحال پاکستانی حکام پہلے بھی کئی بار شرائط میں مزید نرمی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی ادارہ پاکستان کو سخت ترین شرائط پر ہی معاہدہ کرنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ پہلے یہ مذاکرات 15 نومبر کو ہوتے تھے لیکن اب سیاسی درجہ حرارت میں اضافے نے اسے تعطل میں ڈال دیا ہے۔ جس سے مافیاز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور کرنسی بھی کمزور ہو رہی ہے اور ڈالر مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی طرف توجہ دینا ہو گی کہ کس طرح ان صنعتوں کو رواں دواں رکھا جائے۔ درآمدی خام مال استعمال کر کے برآمدات کے آرڈرز پورے کرتے ہیں۔ گیس کی فراہمی کے علاوہ بار بار بجلی نرخوں میں اضافہ نے ملک بھر کے صارفین، صنعتی اداروں کو سخت متاثر کر دیا ہے۔ نتیجتاً برآمدی لاگت بڑھنے سے ہر ماہ برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ملک کی معاشی پالیسی سے تمام ابہام کو دور کر کے واضح معاشی پالیسی کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔
محمد ابراہیم خلیل  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
کوئی خان صاحب کو سمجھائے
عمران خان کو کوئی سمجھائے کہ فوج سے لڑائی پاکستان کے لیے اچھی نہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ میں تو فوج کے حق میں ہوں، فوج پاکستان کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے، فوج کے ادارے کو اگر کمزور کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو کمزور کر دیا جائے اور ہمارا نیوکلیئرپروگرام بھی خطرےمیں پڑ جائے! وہ کہتے ہیں کہ اُن کا اعتراض فوج کے ادارے پر نہیں بلکہ چند افراد پر ہے جنہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا۔ ہو سکتا ہے وہ واقعی یہ سمجھتے ہوں لیکن کوئی ذرا پاکستان تحریک انصاف کے ووٹروں، سپورٹروں کو تو دیکھے اور سنے کہ وہ خان صاحب کی باتیں سن سن کر اپنی ہی فوج کے بارے میں کیسی کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران جو طوفانِ بدتمیزی اپنی ہی فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کے خلاف برپا کیے رکھا، اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کوئی خان صاحب کو سمجھائے کہ وہ خود جو چاہے سمجھتے ہوں، اُن کے بیانیوں اور فوج مخالف باتوں سے اُن کے فالوورز کی بڑی تعداد اپنی ہی فوج کے خلاف گمراہ ہو چکی ہے جو پاکستان کے لیے بہت خطرناک ہے۔
کہتے ہیں کہ مجھے تو چند ایک افراد پر اعتراض ہے، تو پھر اُس کا الزام اداروں پر کیوں لگاتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی ثبوت، بغیر کسی منطق کے؟ اپنے اوپر قاتلانہ حملہ ہوا، حملہ آور زندہ پکڑا گیا، اُس کا بیان بھی سامنے آ گیا ، نہ حملہ آور نے کسی سازش کی بات کی، نہ پولیس یا کسی سرکاری ادارے اور ایجنسی نے، لیکن حملے والے دن ہی شام کو خان صاحب نے وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ کے ساتھ ساتھ ایک میجر جنرل کا نام لے کر کہا کہ اُن تینوں نے قاتلانہ حملے کی سازش کی۔ خان صاحب جو کہتے ہیں اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ہو سکتا ہے وہ غلط ہوں لیکن اُن کے ماننے والے، چاہنے والے ووٹرز سپورٹرز تو یقین کر بیٹھے ہیں کہ خان صاحب پر انہی لوگوں نے حملہ کروایا ہے۔ کینیا میں ارشد شریف کے قتل کی خبر پاکستان میں پہنچنے کی دیر تھی کہ خان صاحب اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم نے اپنے ہی اداروں پر الزام لگانا شروع کر دیا۔ 
آج بھی بڑے یقین سے خان صاحب خود بھی، اُن کے دوسرے رہنما اور ووٹرز، سپورٹرز بھی یہی کہتے ہیں کہ ارشد شریف کی ٹارگٹ کلنگ کروائی گئی، حالاں کہ اب جو حقائق وہاں سے سامنے آ رہے ہیں وہ کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ گزشتہ رات جیو کے پروگرام میں شاہ زیب خانزادہ نے عمران خان کو سعودی عرب کے حکمرانوں کی طرف سے ملنے والی گھڑی اور دوسرے تحائف کے بارے میں خبردی جو خان صاحب کے خلاف جاتی ہے، اس پر بھی چیئرمین تحریک انصاف نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں یہ الزام لگا دیا کہ اس کے پیچھے بھی ہینڈلز ہیں۔ فوج اور اس کی قیادت کو نیوٹرل رہنے پر جانور کے بار بار طعنے دئیے، اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش سے جوڑا اور اس مبینہ سازش کو پاکستان میں کامیاب بنانے کا اداروں پر الزام لگاتے ہوئے انہیں ہینڈلرز کہا۔ جب حکومت میں تھے تو فوج کی قیادت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب کہتے ہیں کہ اُن کے پاس تو اختیار ہی نہ تھا۔
فوج اور اس کی قیادت کے متعلق اتنے الزامات لگائے کہ اب کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہاں تک کہ آنے والے آرمی چیف کے متعلق بھی سیاسی نوعیت کے سوال کھڑے کر دئیے یعنی جو ابھی آرمی چیف بنے گا گویا اُسے بھی عہدے پر تعینات ہونے سے پہلے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ خان صاحب کے اس سارے بیانیے کا مقصد اداروں کو اپنی حمایت میں اور موجودہ حکومت کے خلاف کھڑا کرنا ہے۔ وہ فوج سے چاہتے ہیں کہ فوج موجودہ حکومت کے خاتمے اور فوری الیکشن کے لیے اُن کی مدد کرے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ جو چاہتے ہیں وہ فوج کو مزید سیاست میں گھسیٹنے کی خواہش ہے، خان صاحب کو کوئی سمجھائے کہ وہ خود کو فوج کے مقابل لے آئے ہیں۔ کوئی ہے جو خان صاحب کو سمجھائے کہ لڑائی سیاسی مخالفین سے کی جاتی ہے نہ کہ اپنے قومی اداروں سے اور وہ بھی ایسے اداروں سے جو پاکستان کی سالمیت اور اس کے تحفظ کے لیے لازم ملزوم ہیں۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
وزیراعظم، آرمی چیف غلط مشوروں سے ہوشیار
دو دن قبل مجھے ذرائع نے اطلاع دی کہ کچھ گڑبڑ ہونے والی ہے۔ میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ ایک دو دن میں تفصیل معلوم ہو جائے گی۔ ملکی حالات کو دیکھ کر سوچا کہ کیا گڑ بڑ ہو سکتی ہے؟ سوچا کہیں مارشل لاء یا ایمرجنسی کے نفاذ کا فیصلہ تو نہیں کرلیا گیا ؟۔ اسی فکر میں عسکری ذرائع سے رابطہ کیا، اپنے خدشات کا اظہار کیا تو بتایا گیا ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو، تاہم جو سیاسی صورتحال اس وقت ملک میں ہے اُس کے تناظر میں بدقسمتی سے بے شمار لوگ یہ کہنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں کہ اس سے بہتر تو مارشل لاء ہے۔ اس بارے میں ہمارے سیاستدانوں کو غور کرنا چاہئے کہ کیوں اُن کا ایسا رویہ ہوتا ہے کہ لوگ جمہوریت سے ہی متنفر ہو جاتے ہیں۔ اس ملک میں بار بار مارشل لاء بھی لگتے رہے اور اُن کے نتیجے میں ملک کا جو حال ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ 
ہمارے سیاست دان بھی جمہوریت کے نام پر ووٹ تو لیتے ہیں لیکن عموعی طور پر اُن کے رویے اور طرز حکمرانی انتہائی مایوس کن ہوتا ہے چنانچہ لوگ اُن سے بھی خوش نہیں ہوتے۔ حل تو صرف یہی ہے کہ آئین کی پاسداری کی جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف سب ادارے اپنا اپنا کام کریں تو دوسری طرف حکومتیں اور اسمبلیاں آئین کی منشاء کے مطابق پرفارم کریں، لوگوں کے مسائل حل کریں، انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں، حکومتی اداروں میں عوام کے لئے ڈلیوری سسٹم کو فعال بنائیں۔ جمہوریت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بس نواز شریف، زرداری اور عمران خان وغیرہ کو ووٹ دے کر ایوان اقتدار میں بٹھا دیا جائے، جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومت عوام کی زندگیوں کو بہتر بنائے اور ملک و قوم کی ترقی کیلئے دن رات ایک کر دے، وہ قانون کی حکمرانی، خود احتسابی، میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنائے۔ 
جمہوریت کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ الیکشن جیتنے والوں کو ملک پانچ سال کیلئے ٹھیکے پر دے دیا جائے کہ جو جی میں آئے کرتے پھریں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہی ہوتا رہا ہے۔ میں بات کچھ اور کرنا چاہتا تھا لیکن مارشل لاء کے ذکر کی وجہ سے کہیں اور نکل گیا۔ گزشتہ روز مجھے اپنے ذرائع سے اطلاع ملی کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ن لیگ کے رہنما نواز شریف کو کچھ لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو چھ ماہ کیلئے ایکسٹینشن دے دی جائے جبکہ جنرل باجوہ پہلے ہی صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ وہ مزید ایکسٹینشن نہیں لیں گے اور اس ماہ کے آخر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔مجھے ذاتی طور پر بھی اہم عسکری ذرائع نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ جنرل باجوہ مزید ایکسٹینشن کسی صورت میں نہیں لیں گے۔ اب کچھ افراد اس کوشش میں ہیں کہ وزیراعظم جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن کیلئے راضی کریں۔
ایسا مشورہ دینے والے نہ حکومت کے خیر خواہ ہیں نہ جنرل باجوہ کے۔ مجھے امید ہے کہ وزیراعظم اور ن لیگ کی قیادت کے ساتھ ساتھ جنرل باجوہ بھی ایسے مشورے کو سختی سے رد کریں گے۔ میری تو ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ ایکسٹینشن تو ہونی ہی نہیں چاہئے، کیوں کہ اس سے فوج کے ادارے کو نقصان ہوتا ہے۔ میں تو شروع سے 2019 میں بنائے گئے اُس قانون کے بھی خلاف ہوں جس کے ذریعے افواج پاکستان کے سربراہان کو ایکسٹینشن دینے کیلئے ایک قانونی جواز پیدا کیا گیا، جس میں سپریم کورٹ اور پارلیمینٹ دونوں نے بہت متنازعہ کردار ادا کیا۔ پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستان کی سیاست اور جمہوریت سب کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس قانون کو ختم کیا جائے اور ایک ایسی پالیسی بنائی جائے کہ آئندہ ایکسٹینشن کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو۔ 
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ افواج پاکستان کے سربراہان کی تعیناتی کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کی طرح سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھا جائے۔ یعنی جو سب سے سینئر ہو اُسے آرمی چیف تعینات کر دیا جائے۔ اس سے ہر تین سال بعد اس تعیناتی کے گرد گھومتی سیاست، افواہوں اور رسہ کشی سے جان چھوٹ جائے گی جو نہ صرف اداروں کیلئے بہتر ہو گا بلکہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کیلئے بھی مفید ہو گا اور بے جا کے سیاسی عدم استحکام سے حکومتوں کی جان چھوٹ جائے گی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
موجود صورتحال، کئی تشویشناک پہلو
گزشتہ دنوں وطن عزیز میں چند ایسے افسوس ناک اور تشویش ناک واقعات پیش آئے جو اگرچہ بظاہر سیاسی تناظر میں دیکھے جارہے ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو ان واقعات کا صرف سیاسی پہلو نہیں بلکہ ان کے سماجی معاشرتی، دینی اور خاص طور پر ملک و ملت کے مستقبل کے حوالے سے جو پہلو ہیں ان کو ضرور سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان واقعات کی بنیاد وزیرآباد میں پاکستان تحریک انصاف کی ریلی پر فائرنگ کا مبینہ واقعہ ہے ان واقعات کا ایک تو سیاسی پہلو ہے جس پر اظہار خیال اور اظہار رائے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی یہ ہمارا شعبہ اور موضوع ۔۔۔ چونکہ سیاسی اعتبار سے کچھ عرصے سے ایسی شعبدہ بازیاں، ایسی غلط بیانیاں اور ایسے ایسے معاملات سامنے آرہے ہیں کہ کسی بھی واقعہ کو جس انداز سے پیش کیا جارہا ہوتا ہے اس پر من و عن یقین کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی ان پر کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے اس لیے لانگ مارچ پر فائرنگ کے حوالے سے بھی لوگوں میں واضح تقسیم موجود ہے کچھ لوگ اسے حقیقی واقعہ سمجھ رہے ہیں اور کچھ ان دعووں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔
حقیقت کچھ بھی ہو لیکن ان واقعات سے جڑے ہوئے چند پہلو بہت خطرناک، افسوس ناک اور تشویش ناک ہیں۔ سب سے پہلا افسوس ناک امر سیاسی انتہا پسندی ہے، یہ سیاسی انتہا پسندی راتوں رات پروان نہیں چڑھی اس کا طویل پس منظر ہے لیکن یہ اتنی خطرناک چیز ہے جس کی وجہ سے ملکی حالات اس نہج تک آگئے ہیں کہ یہ سیاسی انتہا پسندی، عدم برداشت اور گالی اور گولی کا کلچر اس ملک کے ہر طبقے اور ہر گلی کوچے کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ جو آگ ہے یہ ہر دامن تک پہنچ سکتی ہے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کلچر کی روک تھام کے لیے پوری سنجیدگی اور اہتمام سے کردار ادا کیا جائے دوسرا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس سیاسی انتہا پسندی کو بھی مذہب کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی گئی اور سیاسی انتہا پسندی کو محفوظ راستہ دینے کےلیے مذہبی انتہا پسندی کا بہانہ تراشا گیا اور یہ کوئی آج کی بات نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے سیاسی، جغرافیائی اور بین الاقوامی امور کا سارا ملبہ مذہب اور مذہب پسندوں پر ڈالنے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کی اصطلاح گھڑی گئی۔
اس موقع پر مذہبی رہنماؤں کو بالخصوص اور دیگر تمام لوگوں کو بالعموم مذہبی انتہا پسندی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی سخت حوصلہ شکنی کرنا ہو گی اور سیاسی انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس حادثے کا تیسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حادثہ وزیر آباد میں ہوا۔ اصل حقائق ابھی سامنے نہیں آئے۔ واقعہ کی مکمل تفصیلات تک منظر عام پر نہیں آئیں لیکن اس سے قبل ایک جنونی جتھہ کورکمانڈر ہاؤس پشاور پر حملہ آور ہو چکا تھا۔ کچھ لوگوں نے وزیر داخلہ کے گھر اور کچھ لوگوں نے گورنر ہاؤس لاہور کا گھیراؤ کر لیا تھا اور ملک بھر میں توڑ پھوڑ شروع ہو چکی تھی۔ یہ کتنی خطرناک اور افسوسناک روش ہے کیا ہم اپنے ملک اور اپنے گھر کو یوں اپنے ہاتھوں سے آگ لگا دیں گے؟ _کل خدانخواستہ کوئی اور واقعہ پیش آتا ہے تو کیا اس کے نتیجے میں ملک میں انارکی اور فسادات کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں اگر بغور دیکھا جائے تو جس طرح عرب بہار کے نام پر کئی عرب ممالک کو آگ اور خون میں دھکیلا گیا خاکم بدھن یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کو بھی کسی بند گلی میں دھکیلنے کی منصوبہ بندی ہو چکی ہو۔
عرب بہار کے ابتدائی ایام اور پھر اس کا بھیانک انجام سامنے رکھا جائے تو یہ چند اشارے ایسے ہیں جن کی وجہ سے ہم سب کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور وطن عزیز کو عرب بہار کے بعد بعض عرب ممالک کو درپیش صورتحال جیسی صورتحال سے بچانے کے لیے پوری طرح سے فکرمند ہو جانا چاہیے۔ وزیرآباد واقعہ کے بعد جو سب سے افسوسناک اور خطرناک چیز سامنے آئی وہ یہ کہ پہلی دفعہ افواج پاکستان کے ایک حاضر سروس افسر کا نام لے کر انہیں واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا یہ کوئی معمولی بات نہیں یہ کسی ایک افسر کا نام نہیں بلکہ افواج پاکستان کے پورے نظام پر عدم اعتماد اور شکوک وشبہات کا اظہار ہے۔ اس سے قبل سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں الزام تراشیاں یا بیان بازی کرتے رہے لیکن افواج پاکستان کو اس طرح اعلانیہ پہلی دفعہ ہدف بنایا گیا یاد رہے کہ پاک فوج تو ہمارا آخری حصار ہے اور دشمن کی کوشش ہے کہ یہ حصار توڑ دیا جائے، عوام اور فوج کے مابین عدم اعتماد اور غلط فہمیاں پیدا کی جائیں۔
تحقیق وتفتیش کے ضابطے مکمل ہونے سے قبل وزیرآباد واقعہ کی آڑ میں افواج پاکستان کے خلاف ایسی مہم جوئی دشمن کے مقاصد کی تکمیل کے مترادف ہے۔ ابھی چند دن قبل ایک صحافی کے قتل کا سارا معاملہ بھی افواج پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی اور تازہ واقعے میں تو بہت کھل کر جماعتی پالیسی کے طور پر پاک فوج کو ٹارگٹ کیا گیا جو بلاشبہ خطرے کی گھنٹی ہے اور اس سلسلے کو یہیں روکنا ہوگا ورنہ ملکی سالمیت اور استحکام کے لیے یہ صورتحال بہت زیادہ الارمنگ ہے۔ موجودہ صورت حال میں سیاسی و مذہبی جماعتوں، مقتدر حلقوں عدلیہ، میڈیا اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی مجلس مشاورت کی فوری ضرورت ہے جس میں ایسا میثاق اور ضابطۂ اخلاق طے کیا جائے جو ملک و ملت کو اس ہیجانی کیفیت اور موجودہ صورت حال کے خطرناک نتائج و عواقب سے محفوظ رکھے ، اللہ رب العزت وطن عزیز کی حفاظت فرمائیں آمین۔
مولانا حنیف جالندھری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
یہاں لوگوں کے لئے کون سوچتا ہے
عجیب اتفاق ہے کہ ملک چلانے والے سب ارب پتی ہو گئے، ملک مقروض ہو گیا اور مجال ہے کسی نے ایک دھیلے، رتی یا پائی کی کرپشن کی ہو۔ پاکستان میں چند خاندان حکومتوں میں رہے، اب بھی نظام حکومت انہی کے ہاتھوں میں ہے، یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس مقروض ملک کا قرض وہ اتارتے ہیں جنہوں نے یہ قرض لیا ہی نہیں، قرضے ہڑپ کرنے والے اور لوگ ہیں اور قرضوں کا بوجھ سہنے والے لوگ حکمرانوں سے مختلف ہیں۔ حکومتوں میں رہنے والے چند خاندانوں کو نظام پوری طرح سپورٹ کرتا ہے۔ ان خاندانوں کے کرتوتوں کی پردہ پوشی کرتا ہے، یہاں عام لوگوں کے لئے سوچنے والا غالباً کوئی نہیں۔ یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ جب میں حکمرانوں کو غیر پاکستانی لباس میں دیکھتا ہوں، ان کی چیزوں کو دیکھتا ہوں، ان کی بیگمات کے ہاتھوں میں مہنگے ترین غیر ملکی پرس دیکھتا ہوں تو یہ سوچ مجھے بار بار ڈستی ہے کہ آخر اس ملک کے عوام کا کیا قصور ہے؟ 
کیا یہ ملک مافیاز کے لئے بنا تھا؟ یہ ملک ان مقاصد سے دور کیسے چلا گیا جن کی تکمیل کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا تھا؟ عام لوگوں اور حکمرانوں میں فاصلے اس قدر کیسے بڑھ گئے، لوگوں پر حکمرانی کرنے والوں کے طور طریقے تو عام لوگوں جیسے ہوتے ہیں۔ ایران میں کس طرح سادہ سا لباس پہننے والے امام خمینیؒ انقلاب کے رہبر بن گئے، چین میں انسان کی ترقی کا دارومدارمحنت پر ہے، وہاں خاندانی نظام ترقی کی وجہ نہیں بنتا اور پھر وہاں کا نظام کسی کی مدد نہیں کرتا، صرف لوگوں کی مدد کرتا ہے، چین نے اپنے پسماندہ علاقوں کی پسماندگی صرف دس پندرہ سال میں دور کی، افسوس ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکا، ہم ساٹھ کی دہائی میں پورے خطے میں سب سے آگے تھے، آج ہمارا تذکرہ آخری صفوں میں ہوتا ہے۔
افسوس کہ ہمارے ہاں لوگوں کی پسماندگی دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی کی ہی نہیں گئی، ہم نے نفرتوں میں آدھا ملک گنوا دیا، ہم ہنوز اس سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں، تیس چالیس برس پہلے جب ہم خطے میں آگے تھے، انہی تیس چالیس برسوں میں ہمارے ہاں ایسے خاندانوں کی حکومتیں رہیں جو بیرونی دنیا میں جائیدادیں بناتے رہے، اس دوران ملک کہیں پیچھے چلا گیا، اسی عرصے میں نظام بھی ان خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا۔ اس پورے کھیل نے کرپشن کے درخت اگائے، اب ان تناور درختوں نے دھرتی پر نفرت کا زہر گھول دیا ہے، نفرت اور دہشت سے نہ تو امن آتا ہے اور نہ ہی ترقی ہوتی ہے، خوشحالی ایسے علاقوں کا راستہ بھول جاتی ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ حکمرانوں کے مہنگے سوٹ اور مہنگی گاڑیاں غریبوں کا استحصال کرکے حاصل کی جاتی ہیں، ہم عجیب قوم ہیں ہم نے اپنے محسنوں کو بھی دکھ دیئے، ایک ٹی وی اینکر نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوچھا کہ آپ نے کبھی شاعری کی تو جواباً قوم کے محسن نے اپنا ہی شعر سنا ڈالا۔ کہنے لگے کہ : گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
شاید ہمارے پورے نظام کو ملک لٹنے کا دکھ نہیں، شاید بربادیوں کا کھیل اس نظام کو نظر نہیں آ رہا؟ قومیں بہت پہلے سوچتی ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا لیجئے۔ آگرہ میں پیدا ہونے والے موتی لال نہرو ہندوستان کے نامور وکیل تھے، انہوں نے بڑے شوق سے اپنے بیٹے کو انگلستان سے قانون کی تعلیم دلوائی، موتی لال نہرو نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کی پرورش شہزادوں کی طرح کی، جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان لوٹا تو باپ نے اپنے بیٹے کو الہٰ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیئے۔ موتی لال نہرو نے دیکھا کہ اس کا بیٹا جواہر لال نہرو کمیونسٹ خیالات کا مالک ہے، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتا ہے، موتی لال نے بیٹے کو بہت سمجھایا، جب دال نہ گلی تو پھر ایک دن موتی لال نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کی الماری سے قیمتی سوٹ، مہنگے جوتے اور سگار نکالے اور لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ 
ساتھ ہی الماری میں کھدر کے تین کرتے، دو پائجامے اور دیسی جوتی رکھوا دی، کمرے سے اعلیٰ فرنیچر اٹھوا کر دری اور موٹی چادر بچھوا دی اور پھر خانساماں کو حکم دیا کہ کل سے صاحبزادے کو جیل جیسا سادہ کھانا دینا شروع کرو، موتی لال نے بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا۔ جواہر لال نہرو شام کو گھر لوٹا تو اس نے اپنے کمرے کا عجیب و غریب حال دیکھا، یہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے والد کے پاس گیا، والد اس وقت ٹالسٹائی کا شہرہ ٔ آفاق ناول وار اینڈ پیس پڑھ رہے تھے۔ جواہر لال نہرو نے اپنے باپ سے پوچھا، آپ مجھ سے خفا ہیں؟ موتی لال نہرو نے کتاب سے نظریں ہٹائیں اور مدھم سی آواز میں جواب دیا ...’’ میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا...‘‘ بیٹے نے پوچھا ،’’تو پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا؟‘‘ والد نے جواب دیا ...’’ بیٹا تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل، بھوک اور خواری ہے، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان چیزوں کے عادی ہو جائو، 
غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ ہوتا نہیں اس لئے اگر تم عام آدمی کی بات کرتے ہو تو تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہئے، تم انگلستان کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر بات کرو گے تو کون اعتبار کرے گا، میں نہیں چاہتا کہ دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے چنانچہ آج سے تم وہی کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے، تم اتنے پیسے ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں...‘‘ جواہر لال نہرو نے والد کی پیشانی چومی اور پھر مرتے دم تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے، کھانا بھی غریبوں جیسا کھایا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں لیڈر شپ اور عوام میں زمین آسمان کا تفاوت ہے اسی لئے حکمراں، عوام کا نہیں سوچتے، انہیں غریب لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔ بقول ڈاکٹر اطہر قسیم صدیقی:
کوئی تو ایسا جواں مرد ہو قبیلے میں جو روز حشر سے پہلے حساب دے ڈالے
مظہر برلاس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
اقتداری اور سیاسی مصلحتیں
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار میں اپنی بے بسی کا جو اعتراف کیا وہ نیا نہیں بلکہ اب تک ہر سیاسی جماعت کے وزیر اعظم کے ساتھ بے بسی کا مسئلہ رہا ہے صرف پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو یہ مسئلہ درپیش نہیں تھا مگر بعد میں ان کے خلاف بھی ملک میں سازشیں شروع ہو گئی تھیں جس کے نتیجے میں انھیں راولپنڈی کے جلسے میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا تھا۔ لیاقت علی خان کے بعد آنے والے تمام ہی وزیر اعظم مختصر عرصہ بعد اقتدار سے ہٹائے گئے کہ بھارتی وزیر اعظم نہرو کو کہنا پڑا تھا کہ ’’ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیر اعظم بدل جاتا ہے۔‘‘ پاکستان کے چار فوجی حکمرانوں نے تین عشروں سے زیادہ اور تقریباً چار عشروں تک سیاسی وزرائے اعظم نے حکومت کی۔ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے دور میں کوئی سیاسی وزیر اعظم نہیں تھا۔ ملک کے دو ٹکڑے ہو جانے کے بعد جنرل یحییٰ سے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کرایا گیا تھا اور بھٹو صاحب غیر منتخب صدر اور پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں 1973 کے متفقہ آئین کے تحت وزیر اعظم بنے تھے۔ جنرل یحییٰ نے 1970 میں غیر جانبدارانہ انتخابات اپنی مصلحت کے تحت کرائے تاکہ وہ صدر برقرار رہ سکتے مگر انتخابی نتائج ان کی توقعات کے برعکس آئے تھے۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار سے علیحدگی سے قبل سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس بلائی تھی جس کی ناکامی کے بعد جنرل یحییٰ نے اقتدار سنبھال لیا تھا اور دو سالہ صدارت میں وہ مزید صدارت کے خواہاں تھے مگر ملک ٹوٹ گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے اقتدار میں آتے ہی سیاسی حمایت کے حصول کے لیے بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کیا تھا جو انتخابات نہ کرائے جانے پر حکومت چھوڑ گئی تھیں اور 1985 میں انھوں نے غیر جماعتی انتخابات کروا کر محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا تھا مگر وہ واحد اصول پرست سیاستدان تھے۔ جنھوں نے جنرل ضیا کی مرضی کے خلاف فیصلے کیے تو جنرل ضیا نے انھیں ہٹا دیا تھا اور میاں نواز شریف واحد وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جنھیں جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا گیا تھا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کر کے اقتدار سنبھالا اور 2002 میں سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کرائے اور ان کی صدارت میں ملک کو تین وزیر اعظم ملے جن میں چوہدری شجاعت اور ظفراللہ جمالی سیاسی وزیر اعظم تھے۔
جنرل پرویز مشرف کو اپنا مفاد غیر سیاسی شوکت عزیز میں نظر آیا مگر اپنے مزید اقتدار کے لیے انھوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ یو اے ای جا کر این آر او کیا اور وہ بے نظیر کی وطن واپسی نہیں چاہتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف خود نواز شریف اور بے نظیر کے اسی طرح خلاف تھے جیسے آج عمران خان میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے صدارت بچانے کے لیے بے نظیر سے معاہدہ کیا اور بے نظیر نے وزیر اعظم بننے کے لیے وطن واپسی کو ترجیح دی اور دو ماہ میں شہید کردی گئیں۔ جنرل پرویز مشرف 2007 میں 8 سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی ملک کا مزید صدر بننا چاہتے تھے۔ 2008 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت نے جنرل پرویز مشرف کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف پیپلز پارٹی کے امین فہیم اور اعتزاز احسن کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر عمران خان وزیر اعظم بننا چاہتے تھے اور عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کو ریفرنڈم میں وردی میں صدر منتخب کرایا مگر جنرل پرویز مشرف نے انھیں ملک کا وزیر اعظم نہیں بنایا جس پر وہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہو گئے اور انھوں نے ظفراللہ جمالی کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم کا ووٹ دیا تھا جن کے وہ اب سخت ترین مخالف ہیں۔
1970 کے بعد 2022 تک 52 سالوں میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف تقریباً 20 سال اور سیاسی وزرائے اعظم محمد خان جونیجو سے عمران خان تک جتنے وزرائے اعظم اقتدار میں آئے ان کا عرصہ اقتدار تقریباً 32 سال بنتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب، ایوب خان کے وزیر خارجہ تھے اور باہمی اختلاف پر حکومت سے علیحدہ ہو کر انھوں نے صدر ایوب کے خلاف کھل کر تحریک چلائی تھی۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف طویل عرصہ اقتدار میں رہے مگر مصلحتوں کا شکار رہے۔ تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف تینوں بار وقت سے قبل اقتدار سے نکالے گئے۔ اب ان کے بھائی شہباز شریف اقتدار میں ہیں جو پہلی بار تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کے بعد وزیر اعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہوئے مگر عمران خان نہیں مانتے اور اپنے ہٹائے جانے کا ذمے دار کبھی امریکا کو کبھی غیر جانبدار ہو جانے والوں کو قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان کو آر ٹی ایس کے باعث اکثریت نہ ہونے کے باوجود اتحادی دلا کر وزیر اعظم بنایا گیا تھا اور اپنے اتحادیوں کے الگ ہونے کے بعد وہ اقتدار سے محروم ہوئے۔ 
عمران خان نے بھی اقتدار کے لیے 5 قومی اسمبلی کی نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ق) کو دو اور سات نشستیں رکھنے والی ایم کیو ایم کو ایک وزارت دی تھی اور اختر مینگل والے اصول پرست رہنما تھے جنھوں نے 4 نشستوں کے باوجود کوئی وزارت نہیں لی تھی اور عمران حکومت میں ہی وعدے پورے نہ ہونے پر حکومت کی حمایت چھوڑ دی تھی۔ جنرل ضیا کے دور میں محمد خان جونیجو ان کی جی حضوری کر کے وزیر اعظم رہ سکتے تھے مگر وہ اصولوں پر قائم رہے جس پر انھیں ہٹایا گیا تھا۔ سابق وزراء اعظم میں سے کوئی بھی اصول پرستی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ سب نے اقتدار کو اصولوں پر ترجیح دی اور مفاداتی سیاست کی۔ عمران خان نے پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر اقتدار حاصل کیا تھا۔ انھیں بالاتروں کی جتنی حمایت ملی کسی اور وزیر اعظم کو کبھی نہیں ملی تھی اور وہ اب بھی غیر سیاسی ہو جانے والوں کو اقتدار میں پھر آنے کے لیے کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وہ غیرجانبداری ختم کر کے انھیں دوبارہ لائیں۔ عمران خان کی طرح کسی سابق وزیر اعظم نے ماضی میں کبھی ایسا نہیں کہا تھا جس سے تمام سابق حکمرانوں اور عمران خان کی سیاست کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
چین کی مستقل مزاجی اور نئی سرد جنگ
اکتوبر 2022ء چین کے عروج کے حوالے سے تاریخی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ صدر شی جن پنگ کو مرکزی کمیونسٹ پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے، وہ تیسری مدت کیلئے چین کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ بے مثال کامیابی شی جن پنگ کو چین کا مقبول ترین رہنما ثابت کرتی ہے، جو ماؤزے تنگ کے پیش رو ہیں۔ شی جن پنگ کے تیسری مدت کیلئےانتخاب کا مطلب یہ ہے کہ چین ترقی، اقتصادی برتری، عالمی وعلاقا��ی روابط اور سالمیت کی اپنی موجودہ پالیسیوں کو برقرار رکھے گا۔ بیجنگ کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتے اثر و رسوخ پر دنیا محض حیرت میں مبتلا ہے جبکہ مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ انتہائی خوف میں مبتلا ہے۔ دنیا بھر کیلئے ماضی میں چین کے ساتھ اپنے معاملات پر نظرِ ثانی اور مستقبل کا لائحہِ عمل مرتب کرنے کیلئے یہ بہترین وقت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا۔ سوویت یونین اس کا براہ راست حریف تھا۔ جنگ کے خاتمے سے لے کر 1989 میں سوویت یونین کی تحلیل تک دنیا دو دھڑوں میں تقسیم رہی۔ 
لبرل دنیا کے نظریہ سازوں نے اس وقت چین کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی پالیسی اپنائی۔ اس وقت چین ایک ترقی پذیر ملک تھا۔ یہ غربت، جنگوں اور ٹوٹ پھوٹ کے مسائل سے دو چار تھا۔ چین کو روس کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کیلئے امریکہ نے چین کو مغربی دنیا میں متعارف کرایا اور اسے عالمی تجارت کے مرکزی دھارے میں رسائی دی۔ یوں جب امریکی یورپ پر اپنے تسلط کو یقینی بنانے میں مصروف تھے، چین نے مستقل مزاجی سے اپنی معیشت کو ترقی دی۔ وہ ٹیکنالوجی کے فروغ کی پالیسی پر عمل کے ساتھ ساتھ برآمدات کو وسعت دینے کی پالیسی پر عمل کرنے میں کامیاب رہا۔ صنعت و تجارت کے شعبے مرکزی کمیونسٹ پارٹی کی توجہ کے مرکز بن گئے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ کو یونی پولر دنیا ورثے میں ملی، امریکہ لبرل ازم پر عمل پیرا رہا۔ چین ڈبلیو ٹی او کے اہم ارکان میں سے ایک بن گیا۔ اس کی سستی لیبر، سخت محنت اور مستقل مزاجی نے امریکی کمپنیوں کو چینی فیکٹریوں کے دروازوں تک پہنچا دیا۔ 
ایک زمانے میں، چینی مصنوعات کو کمتر سمجھا جاتا تھا لیکن وہ دن گزر چکے، کیونکہ امریکی اور یورپی کمپنیوں کی اکثریت نے اپنی مینوفیکچرنگ شین زین اور شنگھائی کی فیکٹریوں میں منتقل کر دی۔ دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں، چین اور اس کے عوام نے تمام اندازے اور اعداد و شمار الٹ کے رکھ دیے ہیں۔ اب چین کا جی ڈی پی امریکہ سے بڑھ چکا ہے، یورپ پہلے ہی چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کا خواہاں ہے۔ چین نے عسکری طور پر بھی غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چنانچہ جاپان میں اس کی موجودگی اور تائیوان میں اس کے اسٹرٹیجک اثاثے امریکہ کیلئے ناقابلِ برداشت ہیں۔ اب ایک نئی سرد جنگ نمو پا چکی ہے جو سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان ہونے والی سرد جنگ سے کہیں زیادہ گنجلک ہو سکتی ہے۔ چین عددی برتری رکھتا ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں اس کی موجودگی ہے۔ 
امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی شروعات امریکہ نے سوویت معیشت کو نقصان پہنچا کر کی، چین کے معاملے میں صورتحال الٹ ہے۔ چین کھلی اور آزاد منڈی میں امریکی معیشت کا مقابلہ کر رہا ہے، جو سوویت یونین کبھی نہیں کر سکا۔ اس وقت مارکیٹ پر امریکی مصنوعات اور معیشت کا غلبہ تھا اور ان کھلی منڈی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے سوویت یونین کو شکست ہوئی۔ تاہم اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر کھلے عام اس کا اعتراف کیا اور تجارتی تحفظ پسندی کا فلسفہ متعارف کروایا۔ انہوں نے کہا کہ چینی مصنوعات امریکی منڈیوں میں غیر منصفانہ مراعات کے ساتھ فروخت ہو رہی ہیں۔ امریکی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ امریکہ کی معیشت غیر منصفانہ طرز عمل کی وجہ سے خسارے میں جا رہی ہے، جبکہ یہ امریکی صنعتوں کی ناکامی اور چینی برآمدات کی کم لاگت کا اثرہے۔ نئی سرد جنگ میں امریکہ اپنی ناکام خارجہ اور داخلہ پالیسی کی وجہ سے پسپا ہو رہا ہے۔ یہ ویت نام، عراق، افغانستان اور شام میں بڑی ناکامیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ امریکہ مزید فوجی مہمات کا متحمل نہیں رہا۔
نیٹو کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے، یورپ جنگ کے دہانے پر ہے۔ اس بار یوکرین پر روسی حملے اور یوکرین کیلئے مغرب کی حمایت نے چین کے خلاف روسی تعاون کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔ چین نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف اقدامات کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔ چین اپنی فوجی اور اقتصادی توسیع کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چین نے ایشیا میں اپنے قدم جمانے کے بعد اب افریقہ اور وسطی ایشیا تک دائرہ پھیلا لیا ہے۔ مغربی سفارت کاروں کو ایسا لگتا ہے کہ چین کو الگ تھلگ رکھ کر اور اسے تیسری دنیا کے مسائل میں الجھا کر ترقی سے روکا جا سکتا ہے لیکن اب، بہت دیر ہو چکی ہے، یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ چین ایک دہائی سے بھی کم عرصہ میں کرۂ ارض پر غلبہ پالے گا۔ ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ امریکہ کی بجائے بیجنگ کے اتحادی ہوں گے۔ مغربی دنیا کے حقیقت پسند چین کے عروج کو امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ لبرل ازم ختم ہو چکا ہے۔ 
چین دنیا کی قدیم ترین قوموں میں سے ایک ہے جبکہ امریکہ کی تاریخ صرف چند سو سال پرانی ہے۔ چین اپنی عدم تشدد کی پالیسی، دیگر اقوام کے احترام اور باہمی ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ سرمایہ دارانہ لالچ ، فاسٹ فوڈ کلچر، ہالی ووڈ اور جمہوریت کے نام پر جنگوں سے دنیا کو متعارف کرواتا رہا جس نے عراق، ویت نام اور افغانستان جیسے ممالک کو تباہ کیا۔ اسرائیل جیسی ظالم قوموں کی پشت پناہی کی اورفلسطینیوں کے قتلِ عام کی کھلی اجازت دی۔ یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں تبدیلی شاذ و نادر ہی پرامن رہی ہے، طاقت کے پرانے نظام اتنی آسانی سے مفلوج نہیں ہوں گے، ہم ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر ہیں۔
امتیاز رفیع بٹ (مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
معاشی استحکام، طویل المدتی فیصلہ سازی ضروری
پاکستان کی سیاسی صورتحال کی طرح معاشی ترقی کا سفر بھی مسلسل نشیب وفراز سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے بڑے بڑے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں سے لے کر ایک عام مزدور تک اضطراب میں مبتلا ہے کہ کل کیا ہو گا؟ اگرچہ سیاسی عدم استحکام سے ملک کے معاشی معاملات بھی متاثر ہو رہے ہیں لیکن گزشتہ چند ماہ سے جس طرح معاشی افق پر دھند چھائی ہوئی ہے ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف عالمی سطح پر روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث تیل اور گیس سمیت زرعی اجناس کی قیمتیں نیچے نہیں آ رہی ہیں اور دوسری طرف یورپ میں سردیوں کی آمد کے باعث انرجی اور پاکستان میں تاریخی سیلاب کے باعث زرعی اجناس کی مانگ میں اضافہ اپنی انتہا پر پہنچا ہوا ہے۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی حکومت عوام کو اعتماد میں لے کر معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے فوری فیصلے کرتی لیکن مفتاح اسماعیل کے بعد اسحاق ڈار بھی اس بحران سے نکلنے کے لئے انہی روایتی طریقوں پر انحصار کر رہے ہیں جن کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک طفیلی ریاست بنا کر زیادہ سے زیادہ امداد یا قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف حاصل کیا جا سکے۔ حالانکہ ماضی میں یہ نسخہ متعدد بار آزمانے کے باوجود پاکستان یا اس کے عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا سکا۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے ابھی چند روز پہلے ہی ایکسپورٹ انڈسٹری کے احتجاج اور تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسابقتی انرجی ٹیرف بحال کیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ یہ انرجی ٹی��ف جون 2023ء تک کے لئے ہے اور یکم جولائی 2023ء سے اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کو وقتی طور پر ریلیف تو مل گیا ہے لیکن مستقبل میں انرجی ٹیرف میں اضافے کی تلوار اب انڈسٹری کے سر پہ لٹکنا شروع ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں سیلز ٹیکس ریفنڈز کی مد میں حکومت کی طرف سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران 50 ارب روپے کی عدم ادائیگی سے ایکسپورٹرز کو سرمائے کی قلت کے باعث ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو ریفنڈز کی فوری ادائیگی کے لئے بنایا گیا نظام 'فاسٹر بھی تعطل کا شکار ہے اور 16 ستمبر سے 17 اکتوبر 2022 کی مدت کے ریفنڈز پیمنٹ آرڈرز (آر پی اوز) بھی ادا نہیں ہو سکے ہیں۔ 
ان وجوہات کی بنا پر یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نومبر کے مہینے میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 20 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ یہ صورتحال ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے زیادہ مایوس کن ہے کیونکہ برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والا یہ سیکٹر گزشتہ کئی سال سے طویل المدتی منصوبہ بندی کے حوالے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں تیار کی جانے والی ٹیکسٹائل پالیسی تاحال نافذ نہیں کی جا سکی۔ اس تاخیر کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ابھی تک ٹیکسٹائل پالیسی کے لئے انرجی ٹیرف کا تعین نہیں ہو سکا حالانکہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری کے لئے خام مال اور دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں کا کردار بھی اہم ہے جس کے بغیر کوئی بھی ایکسپورٹر بیرون ملک سے آرڈر حاصل کرنے کے لئے اپنے گاہکوں کو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مسابقتی نرخ نہیں دے سکتا۔
مسابقتی نرخوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ اور یورپ کی منڈیوں میں برآمد کی جاتی ہیں جہاں ہمارا مقابلہ اپنے ہمسایہ ممالک چین، بھارت اور بنگلہ دیش سے ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو ملنے والے برآمدی آرڈرز میں اضافے کی بڑی وجہ پاکستان کی طرف سے دیگر ممالک کی نسبت دیئے جانے والے بہتر مسابقتی نرخ تھے۔ علاوہ ازیں ہمیں بھارت اور بنگلہ دیش میں کورونا کی وبا اور چین پر عائد امریکی پابندیوں کی و جہ سے بھی اپنا مارکیٹ شیئر بڑھانے کا موقع ملا تھا۔ گزشتہ حکومت کی بہتر پالیسیوں اور قدرت کی طرف سے پیدا کردہ موافق حالات کی وجہ سے اس عرصے میں پاکستان کی ہوم ٹیکسٹائل، ڈینم اور اپیرل کی مصنوعات کے برآمدی آرڈرزمیں تاریخی اضافہ ہوا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی کی اس محنت کا ثمر موجودہ حکومت کو اس شکل میں ملا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 26 فیصد سے زائد اضافہ ہوا جس سے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں خاصی مدد ملی تھی۔ 
علاوہ ازیں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ شعبہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں آٹھ فیصد سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے جبکہ ملک کے مجموعی برآمدی شعبے میں اس کا حصہ تقریباً 60 فیصد سے زائد ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان میں مینوفیکچرنگ کا سب سے بڑا شعبہ ہے جو صنعتی شعبے میں کام کرنے والی تقریباً 40 فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس شعبے میں گزشتہ دور حکومت کے دوران ہونے والی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2018ء میں ٹیکسٹائل کی عالمی برآمدات میں پاکستان کا شیئر ایک اعشاریہ آٹھ فیصد تھا جو 2021 کے اختتام تک بڑھ کر دو اعشاریہ چار فیصد ہو گیا تھا۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے مفاد میں گزشتہ حکومت کے دور میں تیار کی گئی ٹیکسٹائل پالیسی کے نفاذ کو فی الفور ی��ینی بنائے تاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی اور پاکستان کی برآمدات میں اضافے کا سفر جاری رکھا جا سکے۔
کاشف اشفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
ہمارے تعصبات اور اپنا اپنا قاتل
اینکر ارشد شریف مرحوم ایک بڑے ہی افسوس ناک سانحہ کا شکار ہو گئے۔ اللہ تعالی اُن کی مغفرت فرمائے، آمین۔ اُنہیں کینیا میں پولیس نے بڑی بے دردی سے قتل کر دیا جبکہ اُن کا نہ کوئی جرم تھا نہ قصور۔ کینیا کی پولیس کی ابتدائی انکوائری کے مطابق ارشد شریف کی گاڑی کو، جس میں وہ سوار تھے، کسی چوری شدہ گاڑی کے لیے لگائے گئے ناکے پر نہ رُکنے کی وجہ سے غلط فہمی کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور فائر کی گئی گولیوں میں سے ایک گولی ارشد شریف کے سر پر لگی جس سے وہ جاں بحق ہو گئے۔ ارشد شریف کے سانحہ نے سب کو افسردہ کر دیا۔ ابھی کینیا کی پولیس نے اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کرنی ہیں جبکہ پاکستان نے بھی اپنی ایک انکوائری ٹیم کینیا بھیج دی ہے۔ انکوائری کمیشن بنانے کا بھی حکومت نے اعلان کر دیا ہے۔ بہت سے سوال ہیں جن کا جواب مانگا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟ مقتول صحافی کن حالات میں پاکستان سے گئے؟ کس نے باہر جانے پر مجبور کیا؟ 
وہ بیرونِ ملک کہاں کہاں اور کس کے پاس رہے؟ کس کے مشورے پر اور کیوں کینیا گئے؟ وہاں کس کے پاس ٹھہرے؟ اُن کا ڈرائیور جو اُن کے ساتھ سانحہ کے وقت موجود تھا، وہ کہاں ہے؟ اُس کا بیان ابھی تک سامنے کیوں نہیں آیا؟ وہ اُنہیں کیوں سانحہ والی جگہ پر لے کر گیا؟ کیا یہ ایک غلطی کے نتیجے میں رونما ہونے والا سانحہ تھا یا کوئی سازش اور سوچا سمجھا منصوبہ ؟ کیا اس سازش کا پاکستان سے کوئی تعلق ہے؟ کیا کوئی سیاسی جماعت یا کوئی ادارہ اس مبینہ سازش کے پیچھے ہے؟ ان سوالوں کا جواب معلوم کرنا ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن جس بات کا مجھے بے انتہا افسوس ہے وہ یہ کہ اس سانحہ کے بعد سامنے آنے والے سوالوں کے جواب ملنے سے پہلے ہی سب نے اپنے اپنے نتیجے نکالنا شروع کر دیے ہیں۔ اگر کسی نے شریف فیملی پر الزام تراشی شروع کر دی تو عمران خان پر بھی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں، جو میری نظر میں ہمارے معاشرے میں اُس نفرت کی سیاست کا نتیجہ ہے جس نے ہماری سیاست، معاشرے اور ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ایک طبقے نے تو سیدھا سیدھا پاکستان کے اداروں پر انگلیاں اُٹھانا شروع کر دیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان جیسے بڑے سیاستدان، جن کے کروڑوں ووٹرز اور سپورٹرز ہیں، نے تو سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ ارشد شریف کی اُنہوں نے ٹارگٹ کلنگ کی جو اُن کو پاکستان میں نامعلوم فون کر کے دھمکاتے تھے، جنہوں نے موجودہ حکمرانوں کو، جن کو وہ چور ڈاکو کہتے ہیں، قوم پر مسلط کیا۔ عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اُن کو یہ اطلاعات ملی تھیں کہ ارشد شریف کو قتل کرنے کا پروگرام بنا لیا گیا تھا اور اور اسی لیے اُنہوں نے صحافی کو فوری طور پر پاکستان چھوڑ کر ملک سے باہر جانے کا کہا گیا ۔ خان ، اُن کی پارٹی اور سوشل میڈیا تو ریاستی اداروں کی طرف ہی اشارے کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اُنہوں نے فوری فیصلہ کر لیا ہے کہ ارشد شریف کا قاتل کون ہے؟ اگر کسی کو شک ہے کہ پاکستان میں بیٹھ کر کسی نے صحافی کو کینیا میں قتل کروا دیا تو ایسے میں اُٹھنے والے سوالوں کے جواب اور ٹھوس شواہد کے بغیر کیسے کوئی نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ اس جرم میں کوئی ریاستی ادارہ ملوث ہے۔ ؟
سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ باتیں ��و ہوتی ہی ہیں اور بے بنیاد الزامات بھی لگائے جاتے ہیں لیکن ایسے معاملے میں سوشل میڈیا کو دیکھ کر اگر ہمارے سیاسی رہنما اور صحافیوں کا ایک طبقہ اپنے ہی اداروں کے متعلق یہ ذہن بنا کر بیٹھ جائے کہ وہی ذمہ دار ہیں تو یہ بہت ہی نامناسب بات ہے۔ جس ریاستی ادارے کی ہم بات کر رہے اُس کی سیاست میں مداخلت پر ہمیں اعتراض ہے ، یہ بھی درست ہے کہ ایجنسیاں صحافیوں کے ساتھ زیادتیاں کرتی رہیں اور میڈیا پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں لیکن اگر بغیر کسی ثبوت کے ہم اپنے ہی ملک کے ایک ایسے ادارے پر سنگین الزامات لگائیں گے جو پاکستان کے دفاع، اس کی سالمیت اور ہمارے جوہری پروگرام کا ضامن ہے اور جس نے دہشت گردی کے خلاف ہزاروں قربانیاں دے کر جنگ لڑی اور آج بھی یہ قربانیاں دی جا رہی ہیں تاکہ عوام محفوظ رہیں، تو پھر عوام اور اس ادارے کے درمیان مضبوط رشتہ کیسے قائم رہے گا۔
جو لوگ بغیر ثبوت کے اپنے ریاستی ادارے کے متعلق یہ فیصلہ کر چکے کہ یہ جرم اُنہی نے کیا ہے وہ اپنے اپنے سیاسی اور ذاتی تعصبات میں اندھے ہو چکے ہیں، انہیں پاکستان کی خاطر اپنے طرزِعمل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ہاں اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لائے لیکن اپنے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات یا تعصبات کی وجہ سے ایسی کوئی غیرذمہ دارانہ حرکت نہ کریں کہ پاکستان کو ہی کمزور کردیں۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
pakistan-affairs · 2 years
Text
درآمدات، زرمبادلہ اور مہنگائی
اوپیک ممالک نے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا ہے جس کے باعث چند ہفتوں قبل تیل کی عالمی قیمت کم ہو کر 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کے بعد اضافے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جن دنوں تیل کی عالمی قیمت کم تھی بھارت نے اور چین نے روس سے قبل خریداری کے معاہدے کر لیے تھے، لیکن اب تیل کی عالمی قیمت بڑھ چکی ہے اور دیر سے پاکستان اس جانب راغب ہوا کہ روس سے تیل خریدا جائے گا۔ گندم کے بارے میں ابھی واضح اعلان سامنے نہیں آیا حالانکہ روس کی جانب سے گندم کی فراہمی کا عندیہ بھی دیا جاچکا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کا گراف بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے اہم کرداروں میں سے دو اہم عناصر پٹرول اور گندم ہیں جب کہ برآمدات میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حصہ 55 فی صد سے زائد ہونے کے باعث خام کپاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ لہٰذا یکے بعد دیگر ان تینوں کی درآمدات کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ پاکستانی معیشت پر ان کے اثرات کا احاطہ کیا جا سکے۔
جہاں تک کپاس کی بات ہے تو اس کا اہم ترین پیداواری علاقے کی بیشتر زمینوں پر حالیہ سیلاب کا پانی اب تک کھڑا ہے، جس سے کپاس کی پیداوار میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح 20 نومبر تک گندم کی پیداوار کے حصول کے لیے بوائی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے، سیلابی علاقوں میں بدستور پانی کھڑا ہے۔ واقفین حال کا کہنا ہے کہ پانی کی نکاسی کی مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث پانی کی نکاسی میں تاخیر ہوتی چلی جا رہی ہے لہٰذا اس سال ملک کو کپاس کی پیداوار میں بھی زبردست کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کپاس پاکستان کی وہ برآمدی پیداوار ہے جسے روپہلی ریشہ بھی کہا جاتا تھا اور یہ سندھ اور پنجاب کی اہم ترین نقد آور فصل ہے۔ انگریزوں نے اس خطے میں اپنی آمد کے فوراً بعد کراچی کی بندرگاہ کو زبردست ترقی دی اور ریلوے نظام قائم کر کے یہاں سے کپاس وغیرہ انگلستان (انگلینڈ) برآمد کیا کرتے تھے۔
یعنی برطانیہ کے ٹیکسٹائل کے صنعتکار اسے درآمد کیا کرتے تھے اور اس سال پاکستان کو بڑی مقدار میں خام کپاس کی درآمد کی ضرورت ہو گی۔ پی بی ایس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جولائی 22 تا ستمبر 22 کے سہ ماہی کے دوران ایک لاکھ 43 ہزار میٹرک ٹن خام کپاس کی درآمد پر 84 ارب 95 کروڑ روپے صرف کر چکے ہیں۔ اس طرح 38 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کیا جاچکا ہے۔ آیندہ برس بھی صورت حال انتہائی مخدوش نظر آ رہی ہے، کیونکہ سیلاب متاثرین کی بحالی کی منصوبہ بندی اور ان کے لیے عالمی امداد اور جو بھی امداد آ رہی ہے اس کی تقسیم میں عدم شفافیت، موسم سرما کی آمد کے ساتھ مسائل ہی مسائل پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں، لہٰذا دیگر بہت سی وجوہات کے باعث معاملات انتہائی پیچیدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں اجناس خوراک کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں خوراک کے بحران کے بھی خدشات بڑھ چکے ہیں۔ ایسے میں گندم کی قیمت بڑھتی جائے گی۔ عالمی منڈی میں نرخ بڑھنے کے باعث روس بھی اپنی گندم کی قیمت بڑھا دے گا۔
روس گندم کی پیداوار کا اہم ترین ملک ہے۔ پاکستان اب گندم کے درآمدی ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہے دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں فی ایکڑ اوسط پیداوار کم ازکم 70 من ہے، جب کہ پاکستان نے کسی بھی نئی ٹیکنالوجی و دیگر کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ لہٰذا ملک میں فی ایکڑ اوسط پیداوار 40 من ہے۔ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا یہ نظریہ ہوتا ہے کہ گھر کی ضرورت کے مطابق دانے (گندم) پیدا کر لی جائے، کافی ہے۔ یعنی اپنی زمینوں پر دیگر فصلیں کاشت کر لیتے ہیں یا کئی اخراجات میں اضافے کے باعث مناسب کھاد، اسپرے، مناسب بیج، کم قیمت ادویات جن میں سے اکثر جعلی ادویات ہوتی ہیں۔ یہ عوامل اور مسائل گندم کی زیادہ کاشت سے عدم دلچسپی کا باعث بن رہے ہیں۔ فی الحال گندم کی امپورٹ سے متعلق سہ ماہی اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یہ حقدار بنتی ہے یعنی جولائی 22 تا ستمبر 22 تک پاکستان نے 8 لاکھ 57 ہزار میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر 91 ارب 5 کروڑ روپے بالحاظ ڈالر 41 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ صرف کر چکا ہے۔
اگر صوبائی حکومتیں محکمہ موسمیات کی طرف سے آگاہی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے گندم کے ذخیرہ گاہوں کی حفاظت کر لیتی یا فوری طور پر گندم محفوظ جگہوں پر منتقل کر دیتی اس کے ساتھ ہی گزشتہ سال نومبر سے ہی گندم کی قیمت جیسے بڑھ رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی گندم مافیاز کی طرف سے اسٹاک ذخیرہ کرنے کی سختی سے ممانعت اور کنٹرول کر لیتی تو شاید پاکستان کے 20 یا 25 کروڑ ڈالر بھی بچ جاتے اور آٹا کہیں 150 کہیں 140 روپے فی کلو بھی نہ ملتا۔ لہٰذا اب حکومت کو روس سے سستی گندم دستیاب ہو رہی ہے تو کم ازکم 20 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریداری کا معاہدہ کر لے۔ اب رہ گئی بات پٹرول کی جس کا مہنگائی میں اہم کردار ہے، جس کی درآمد پر پاکستان ان گزشتہ تین ماہ یعنی جولائی 22 تا ستمبر 22 تک 10 کھرب 9 ارب روپے خرچ کر چکا ہے جس کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ 4 ارب 86 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ خرچ ہوا ہے۔ 
یعنی سیدھی بات یہ ہے کہ ان 3 ماہ میں اگر 5 ارب ڈالر خرچ ہو گئے تو پورا سال کیا بنے گا لہٰذا وزیر خزانہ اگر روس سے سستا تیل خرید سکتے ہیں تو یہ اچھی بات ہو گی۔ اس طرح شاید زرمبادلہ کی کچھ بچت ہو جائے۔ پٹرول سستا اور سستی گندم کی خریداری سے مہنگائی کو کچھ کنٹرول کیا جاسکے گا۔ باقی رہی بات سستے خام کپاس کی تو درآمد پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے زرمبادلہ کی کچھ بچت ہو جائے جس سے ٹیکسٹائل برآمدات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
محمد ابراہیم خلیل 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
آخر امریکہ چاہتا کیا ہے؟
امریکہ کے منصب صدارت پر متمکن 80 سالہ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متعلق ایک متنازعہ بیان دے کر ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔ جو احباب پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ سے واقف ہیں ان کے لیے اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں۔ 1950 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران پاکستان نے روس کے بجائے امریکہ کا انتخاب کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے روس کے بجائے امریکہ کا دورہ کر کے واضح طور پر امریکی اتحادی ہونے کا اعلان کیا۔ لیکن پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ دھوپ چھاؤں کی مانند ہی رہی۔ کبھی پاکستان امریکی توقعات پر پورا نہ اترا تو کبھی امریکہ نے پاکستان کی امیدوں کے برعکس اقدامات کئے۔ تاہم پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں امریکہ واحد ملک ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے سیاسی اور دفاعی معاملات میں شریک کار رہا۔ 1954 سے لیکر اب تک مختلف مواقع پر امریکہ نے پاکستان کو امداد فراہم کی۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ جب گندم بھی امریکہ سے آتی تھی اور گندم اٹھانے والے اونٹوں کے گلے میں’’تھینک یو امریکا ‘‘کا ٹیگ لگا ہوتا تھا۔ امریکہ کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ امریکہ نے اس گندم کے پیسے ڈالر کے بجائے روپوں میں وصول کرنے کی سہولت دی اور ساتھ ہی یہ بھی پیش کش کر دی کہ وہ یہ رقم امریکہ کو ادا کرنے کے بجائے پاکستان میں ہی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں۔  1954 میں دونوں ممالک کے درمیان پہلا دفاعی معاہدہ ہوا۔ 1954 سے 1964 تک امریکہ کی جانب سے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے۔ 1980 کی دہائی پاک امریکا تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی دہائی کہلائی جا سکتی ہے۔ 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ لیا۔  ابتدا میں صدر جمی کارٹر نے پاکستان کو 40 کروڑ ڈالر کی پیشکش کی جسے پاکستان نے ’’مونگ پھلی‘‘ کہہ کر مسترد کر دیا۔ 1981 میں صدر ریگن نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کی پیشکش کی جسے قبول کر لیا گیا۔ 1980 سے 1990 کے درمیان امریکہ نے پاکستان کو 2 اعشاریہ 19 ارب ڈالر کی فوجی معاونت فراہم کی جبکہ معاشی ترقی کے لیے 3 اعشاریہ 1 ارب ڈالر بھی فراہم کیے۔
اس دور میں مسلح افواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔ امریکہ نے پاکستان کو 40 ایف 16 طیاروں سمیت جدید ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ بھی مہیا کی۔ اس وقت کے صدر پاکستان، جنرل محمد ضیاء الحق نے امریکی عزائم کو بھانپتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تیزی سے عملدرآمد شروع کیا۔ مختلف حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کسی حکمران جماعت نے سمجھوتا نہ کیا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو کا منصوبہ تھا جسے بعد میں آنے والے تمام حکمرانوں نے تیز رفتاری کے ساتھ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا۔ اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے دھماکے رکوانے کے لئے میاں نوازشریف کو متعدد فون کئے۔ ان پر دباؤ ڈالا۔ 
مبینہ طور پر رقم دینے کی بھی پیشکش کی۔ تاہم انہوں نے پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق ایٹمی دھماکے کر دئیے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمیشہ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ ہر امریکی حکمران اس حوالے سے مختلف نوعیت کے بیانات دے کر اپنے خبث باطن کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا حالیہ بیان بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے بجا طور پر امریکی صدر کے بیان کو مسترد کیا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بجا طور پر یہ کہا گیا کہ اگر ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کی بات کرنی ہے تو اس کا سب سے پہلا نشانہ تو بھارت ہونا چاہیے جس کے میزائل پاکستان میں آکر گرے جب کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن نے اس کے انتظامات کو عالمی معیار کے عین مطابق قرار دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر کا بیان ان کے اس ذہنی دباؤ کی عکاسی کرتا ہے جس سے وہ دوچار ہیں۔
ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی کے استقبالیے میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا خطاب وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ جس میں بائیڈن کے حوالے سے لکھا گیا کہ’’ میرے نزدیک شاید دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک، پاکستان ہے۔ اس کے پاس موجود جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔‘ ''امریکی صدر کے یہ الفاظ بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظرنامے کوذہن میں رکھ کر ادا کیے گئے۔ روس یوکرائن جنگ کے دوران روس کی مسلسل بالادستی اور چین کی عالمی سفارتکاری نے امریکی صدر کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار کر دیا ہے۔ عالمی منظر نامے پر امریکہ کے کئی پرانے اتحادی اسے چھوڑ رہے ہیں۔ کئی نئے بلاک امریکی طاقت کو چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔ روس یوکرین تنازعات کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان سمیت متعدد ممالک کے غیر جانبدار رویے نے بھی امریکی صدر کو جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔ اس امر میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی بہترین پروفیشنل افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی، توازن اور سمجھ داری کے ساتھ چلائی جا رہی ہے۔ بعض اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دفتر خارجہ پر کی گئی تنقید بلا جواز معلوم ہوتی ہے کیونکہ پاکستانی وزارت خارجہ نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس بیان کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہو کر ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا اور امریکی صدر کے بیان کو نہ صرف غیر ضروری قرار دیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں صدر بائیڈن سے کئی سوالات پوچھے جبکہ صف اول کے دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مثبت اور ذمہ دارانہ بیانات انکے ذمہ دار فرد ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ آنے والے دنوں میں نئی عالمی صف بندی کی جائے گی جس کیلئے نئے کردار کے تعین کیلئے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا تاکہ ایسی پالیسی ترتیب دی جا سکے جو بدلتے ہوئے عالمی تقاضوں کے مطابق پاکستانی مفادات کا تحفظ کر سکے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
ملک کی بدلتی صورتحال
قارئین میں اسرائیل کے ایک سابق وزیر اعظم ایہود اونمرت کا قصہ بتاتا ہوں۔ وہ اسرائیل کا وزیراعظم تھا، اس نے 7 سال فوج میں ملازمت کی پھر وزیر کے عہدے پر کام کرتا رہا۔ القدس کا میونسپل صدر رہا، نائب وزیر اعظم بھی رہا اور پھر وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوا ۔2009 میں انکشاف ہوا کہ جب یہ میونسپل کا صدر تھا تو اس نے رشوت لی تھی، جس پر 11 سال یعنی 2016 تک کورٹ میں مقدمہ چلتا رہا حتیٰ کہ اس کا رشوت لینا ثابت ہو گیا اور کورٹ نے اس کو 7 سال کی سزا دے دی۔ جب جرم ثابت ہو گیا تو کسی اسرائیلی نے یہ نہیں کہا کہ یہ فوجی تھا یا ہمارا وزیر اعظم رہا اور اس نے ملک کی بہت خدمت کی تھی، بلکہ وہ قوم کے نزدیک صرف ایک رشوت خور اور لٹیرا تھا۔ یہ سبب ہے ان کی کامیابیوں کا اور ہماری ناکامیوں کا کیونکہ کہ ہم ایسے لیڈروں کے جنہوں نے ہمیں لوٹا، گن گاتے ہیں اور ان کے سروں پر تاج پہناتے ہیں۔
اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی میں کشمکش جاری ہے، عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر فیصلے دے رہی ہیں۔ لاہور کی عدلیہ کچھ اور فیصلے دے رہی ہے اور اسلام آباد کی عدلیہ کچھ اور۔ اس وقت سب کے گناہ معاف ہو رہے ہیں۔ کوئی پنجاب پر قابض ہے توکوئی اسلام آبا د پر۔ انتظامیہ بھی خاموش ہے، فوج بھی خاموشی سے دیکھ رہی ہے ۔ پاکستان کا کیا ہو گا ؟ صوبے اپنے اپنے مطلب کی باتیں کر رہے ہیں، تمام وہ افراد جن کو سزائیں دی گئی تھیں اب ان کو آہستہ آہستہ بری کیا جا رہا ہے۔ ہر صبح ایک نئی بریت کا اعلان ہوتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے عوام لااینڈ آرڈر، مہنگائی اور سیلاب سے پریشان ہیں، اس وقت یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ یہ ملک کون چلا رہا ہے اور کب تک اس طرح چلتا رہے گا ؟ کل تک جو چل نہیں سکتے تھے اور پاکستان میں جن کا علاج نہیں ہو سکتا تھا وہ نیب کے جاتے ہی سوٹ پہن کر باہر آگئے اور اسمبلی سے حلف اٹھا کر وزیر خزانہ بنا دئیے گئے۔
اب ایک اور بیمار صرف نواز شریف صاحب رہ گئے ہیں اور ان کو لینے ان کی صاحبزادی مریم نواز پہنچ چکی ہیں اور اب لگتا ہے وہ بھی صحت مند ہو جائیں گے ۔ یہ بھی افواہیں سننے میں آرہی ہیں کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ فروخت کرنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ اللہ خیر کرے۔ ڈالر کیوں نیچے آرہا ہے یہ آج تک سمجھ نہیں آیا اور یہ پہلے کیوں اوپر جا رہا تھا اس کی بھی سمجھ نہیں آئی، نواز شریف صاحب کی ہی حکومت تھی اس وقت مفتاح اسماعیل صاحب وزارتِ خزانہ چلا رہے تھے اور اب بھی نواز شریف صاحب کی حکومت ہے اور ان کے سمدھی اسحاق ڈار صاحب وزارتِ خزانہ چلا رہے ہیں، فرق صاف ظاہر ہے۔ یہاں میں قارئین کو بتاتا چلوں کہ باہر کے ملک میں ایک  شخص پر سائیکل چوری کا الزام لگا اور کیس چلتا رہا اور آخر میں جب اس کو جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نے کہا کہ استغاثہ تمہارے خلاف سائیکل کی چوری کا ثبوت فراہم نہیں کر سکا لہٰذا ہم تمہیں باعزت بری کرتے ہیں، ملزم نے جواب دیا جج صاحب تو کیا میں وہ سائیکل استعمال کر سکتا ہوں؟ 
جج نے ہڑبڑا کر کہا کہ یہ جا کر اس کے مالک سے پوچھو، ایسے ہی کچھ ایون فیلڈ میں ہوا۔ ماشاء اللہ برسوں سے ایون فیلڈ میں نوازشریف کی فیملی رہتی تھی اور اچانک پتہ چلا کہ یہ تو منی لانڈرنگ کا پیسہ تھا۔ نیب نے ثابت کیا اور ایک عدالت نے سزا بھی دی مگر دوسری عدالت نے بری کر دیا ۔ پہلے انہوں نے کہا تھا کہ میری تو کوئی پراپرٹی نہیں ہے پھر اچانک اتنی بڑی پراپرٹی نکل آئی یہ بھی کمال کی بات ہے ۔ نواز شریف نے بھی اسمبلی میں بھی یہی بیان دیا کہ الحمدللہ ہماری کوئی پراپرٹی نہیں ہے، پھر کہا کہ یہ میرے بچوں کی ہے اور وہ اب پاکستانی نہیں ہیں، طرح طرح کے بہانے تراشتے رہے قطری خط بھی آیا مگر پھر بھی سزا ہوئی اب نواز شریف کو واپس لا نے کیلئے میرا خیال ہے فیصل واوڈا کیس کی طرح ان کا کیس بھی ایسے ہی سنا جائے گا اور شاید وہی فیصلہ ہو کہ ایک آدمی کو کیسے ہمیشہ کے لئے نااہل قرار دیاجا سکتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے وہ بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا۔
حکومت نے اب اراکینِ پارلیمنٹ کی گرفتاریاں روکنے سے متعلق اہم بل سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ سینیٹ میں ارکان پارلیمنٹ کی گرفتاری کو مشکل ترین بنانے کا بل سینیٹر میاں رضاربانی نے پیش کیا جو مسٹر کلین سمجھے جاتے ہیں ۔ مجوزہ بل میں ارکان پارلیمنٹ کی قتل سمیت کسی بھی الزام میں گرفتاری انتہائی مشکل بنائی جارہی ہے، کسی رکن اسمبلی یا سینیٹ کو اجلاس سے 8 دن قبل گرفتار نہیں کیا جاسکے گا، پارلیمنٹ کے احاطے سے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جائے گا، عدالتی کارروائی بھی کسی سیشن کے دوران نہیں کی جاسکے گی۔ بل میں مزید کہا گیا ہے کہ اجلاس سے 15 روز قبل اور 15 روز بعد تک کے پروڈکشن آررڈز جاری کرنا ہوں گے۔ سبحان اللہ کیسی منطق نکالی گئی ہے خیال رہے کہ چیف جسٹس خود نیب اور دیگر ترامیم پر برہمی کا اظہار کر چکے ہیں مگر ہمارے سیاستدان باز ہی نہیں آرہے۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
جیل جیسی بادشاہت کہاں؟
تیس ستمبر کو پنجاب کے محکمہ داخلہ کے انٹیلی جینس سینٹر ( پی آئی سی) نے آئی جی جیل خانہ جات، چیف سیکریٹری پنجاب، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اور وزیرِاعلیٰ دفتر کے ایڈیشنل سیکریٹری (لا اینڈ آرڈر) کو ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ ارسال کی۔ مندرجات حسبِ ذیل ہیں۔ ’’ ڈسٹرکٹ جیل اٹک کرپشن اور بے قاعدگیوں کا گڑھ بن چکی ہے۔ تشدد ، اذیت رسانی، جنسی زیادتی اور منشیات کا فروغ مسلسل ہے۔ جیل انتظامیہ کی پشت پناہی کے سبب یہاں ڈرگ مافیا کے پنجے گڑے ہوئے ہیں اور منافع میں حصہ داری ہے۔ منشیات فروش جیل کے اندر سے اپنا کاروبار بلاخوف و خطر چلا رہے ہیں۔ یوں منشیات کے عادی قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کاروبار کے سرخیل دو قیدی منشیات فروش ہیں۔ ان میں سے ایک پر چودہ اور دوسرے کے خلاف آٹھ مقدمات درج ہیں۔ منشیات کی کھیپ ملاقاتیوں کے ذریعے جیل منتقل کی جاتی ہیں۔ چرس کی جو مقدار باہر پانچ سو روپے میں میسر ہے جیل میں اس کی قیمت تین سے ساڑھے تین ہزار روپے کے درمیان ہے۔ 
فی گرام آئس نامی نشہ بھی اسی قیمت پر دستیاب ہے۔ قیدی سے ملاقات کے عوض پانچ سو سے دو ہزار روپے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ دس ہزار روپے کی ادائیگی پر قیدی کو جیل سپریٹنڈنٹ کے کمرے میں بٹھا کراہلِ خانہ کی ملاقات کروا دی جاتی ہے۔ کوئی قیدی باہر سے کھانا منگوانا چاہے تو ایک ہزار روپے میں ناشتہ، پانچ ہزار روپے میں چکن کڑاہی اور دس ہزار روپے میں مٹن کڑاہی منگوانے کی بھی سہولت ہے۔ سات برس قید بھگتنے والے ایک منشیات فروش کو پچاس ہزار روپے ماہانہ کے عوض گھر سے منگوائے کپڑے پہننے کی مستقل آزادی ہے۔ اسے روم کولر کی بھی سہولت حاصل ہے۔ وہ ضرورت کی ہر شے باہر سے منگوا سکتا ہے۔ عام قیدی ہفتے میں ایک بار فون پر گھر والوں سے بات کر سکتا ہے۔ مگر متمول ملزم کو تین بار فون کرنے کی سہولت حاصل ہے۔ قتل کے جرم میں قید پولیس کا ایک سابق ملازم بھی تیس ہزار روپے ماہانہ نذرانے کے بدلے مذکورہ سہولتیں برت رہا ہے۔
جیل میں ادویات کے نام پر چند پین کلرز دستیاب ہیں۔ البتہ متمول قیدی جیل ڈاکٹر کی پرچی پر باہر سے ادویات منگوا سکتے ہیں۔ لنگر خانے کے کام پر سو قیدی متعین ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ ستر قیدی پانچ ہزار روپے ماہانہ رشوت دے کر مشقت سے جان چھڑا لیتے ہیں اور ان کی جگہ بے سہارا قیدی مشقت پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ تحقیقی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اٹک جیل کے اندرونی معاملات کی تحقیقات اعلیٰ سطح پر کروائی جائیں اور تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ کم ازکم ایڈیشنل سیکریٹری کے مرتبے کا کوئی ایمان دار افسر ہو۔ ٹارچر اور تشدد کے رجحان کی سختی سے حوصلہ شکنی اور اس بابت محکمہ جیل کے حکام کی جدید تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ قیدیوں سے ملاقات کے لیے آنے والی خواتین کے عزت و احترام اور حرمت کے تحفظ کے لیے جیل کے زنانہ عملے کو ذمے داریاں منتقل کی جائیں۔ یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ذہنی مسائل سے دوچار یا منشیات کے عادی قیدیوں کو عام قیدی شمار کرنے کے بجائے ان کے علاج معالجے اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جائے۔
قیدیوں کو متعدی امراض اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے محکمہ صحت پنجاب کو جیلوں میں تسلی بخش صحت سہولتوں کے قیام اور انتظام میں حصہ دار بنایا جائے۔ نہ اٹک جیل نئی ہے نہ اس سے متعلق رپورٹ حیرت ناک ہے۔پاکستان کی تقریباً ہر بڑی جیل کے بارے میں ہر کچھ عرصے بعد ایسی رپورٹیں سامنے آتی رہتی ہیں اور جانے کس الماری میں بند ہو جاتی ہیں۔ معزز جج اچانک چھاپے بھی مارتے رہتے ہیں۔ عدالتیں جیلوں کی اصلاحات کے بارے میں احکامات بھی صادر کرتی رہتی ہیں۔ کاغذ پر وقتاً فوقتاً اصلاحات ہوتی بھی دکھائی دیتی ہیں مگر عملی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ گزشتہ برس دسمبر میں ایک زیریں عدالت نے کراچی سینٹرل جیل کے چند قیدیوں کی شکایت پر آئی جی جیل خانہ جات کو فوری ایکشن لینے کا حکم دیا۔ شکایت یہ تھی کہ مفلوک الحال قیدیوں کو عدالت لانے لے جانے والی گاڑی میں دس دس کے گروہ میں باندھ کے بٹھایا جاتا ہے۔ البتہ جو قیدی رشوت دیں انھیں تین اور چار کی تعداد میں آرام سے سفر کی سہولت دی جاتی ہے۔
اس سال جنوری میں انکشاف ہوا کہ کراچی سینٹرل جیل میں قتل کے جرم میں عمر قید کاٹنے والے متمول مجرم شاہ رخ جتوئی سزا سنائے جانے کے بعد مختلف اوقات میں کل ملا کے بیس ماہ تک شہر کے ایک سرکاری اور تین نجی اسپتالوں میں بیماری کے بہانے شاہانہ زندگی گذارتا رہا، جب کہ جیل میں بھی اسے ’’ پیسہ پھینک تماشا دیکھ ’’ کے بدلے غیر معمولی آرام دہ سہولتیں میسر رہیں۔ شاہ رخ کے علاوہ بیس دیگر نامی گرامی قیدیوں کو جیل سے باہر جناح اسپتال اور نجی اسپتالوں میں بیماری کے نام پر داخل رہنے کی سہولت حاصل رہی۔ جب یہ خبر چینلوں پر نشر ہوئی تو فوری طور پر تمام وی آئی پی قیدیوں کو جیل منتقل کر دیا گیا۔ جیل کی پولیس محکمے کے اندر ایک آزاد اور بااختیار بادشاہت ہے، اگر کسی پر کرپشن ، بے قاعدگی اور ٹارچر کا الزام ثابت بھی ہو جائے تو اسے زیادہ سے زیادہ معطل کر دیا جاتا ہے یا پھر کسی اور جیل میں تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ جب میڈیا کا بخار ٹوٹتا ہے تو سب اپنے اپنے استھانوں پر واپس چلے آتے ہیں۔
کبھی کوئی اکا دکا ایمان دار افسر کسی جیل میں مقرر ہو جائے تو اس کے اردگرد وہ تانا بانا بنا جاتا ہے کہ وہ خود ہی اپنا تبادلہ کسی اور برانچ میں کروا کے جان چھڑانے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس ماحول میں اگر کوئی انتظامی اہل کار دعوی کرے کہ اب جیلوں کا نظام پہلے سے بہتر ہے تو اس سے بحث میں الجھنے کے بجائے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ جانے میں ہی عافیت ہے۔ جیل پاکستان جیسے ممالک میں آج بھی ایک فسطائی بادشاہت کی طرح چلائی جاتی ہے اور جیلر سے زیادہ بااختیار بادشاہ صرف قصوں کہانیوں میں ہی پایا جاتا ہے۔
وسعت اللہ خان   
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
نظامِ انصاف کا نوحہ
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستانی قوم عدلیہ کی کارکردگی سےمطمئن ہے تو انہوں نے یہ سوال سامعین کی طرف اچھال دیا۔ اس اجلاس کے سامعین بھی عدلیہ سے ہی تعلق رکھتے تھے لیکن یہ سوال سننے کے بعد کوئی شخص بھی یہ نہ کہہ سکا کہ پاکستانی عدلیہ عوامی توقعات پر پورا اتر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کبھی قابلِ رشک نہیں رہی۔ جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت کی سیاہی اس کے دامن پر انڈیل دی۔ یحییٰ خان کے مارشل لا کو سند جواز بھی پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے عطا کی اور جسٹس ارشاد حسن خان نے پرویز مشرف کو وہ سب کچھ عطا کر دیا جو اس نے مانگا بھی نہیں تھا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کے نتیجے میں بحال ہونے والے چیف جسٹس کی داستانیں آج افسانوی کہانیوں کی طرح معلوم ہوتی ہے۔
انہوں نے ریکوڈک سے لے کر افسران کی تقرری تک کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی ان کے اس تسلسل کو جسٹس ثاقب نثار نے بھی خوب نبھایا عدالت عظمیٰ سے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہونے لگی۔ کبھی اسکولوں کی چیکنگ کے لیے جج صاحبان کی ڈیوٹیاں لگ گئیں۔ سابق چیف جسٹس معززین کو بے عزت کرنے کے علاوہ شاید کوئی کام جانتے ہی نہیں تھے۔ موصوف نے انصاف فراہم کرنے کے علاوہ ہر وہ کام کیا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مذکورہ اصحاب نے پاکستانی عدلیہ کو تماشا بنا کے رکھ دیا۔ اگر عدالتی تاریخ میں جسٹس کارنیلیس، جسٹس وجیہ الدین احمد، جسٹس شفیع الرحمٰن جیسے جج صاحبان کا نام نہ ہو تویہ تاریخ ناقابلِ بیان دستاویز بن کر رہ جاے؟ پھر پاکستان کی تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔ یوسف رضا گیلانی عدالتی انا کی بھینٹ چڑھتے ہوئے نااہل ہوئے۔
میاں نواز شریف نہ صرف نااہل ہوئے بلکہ انہیں بار بار نااہل قرار دیا گیا، مریم نواز اور ان کا خاوند اسی عدالت عظمیٰ سے نہ صرف سزا یافتہ ہوئے بلکہ نااہل بھی ٹھہرے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی عدالتی پیشیاں کیسے فراموش کی جا سکتی ہیں پاکستان کے ایک اور مقبول ترین لیڈر عمران خان کو سبق سکھانے کے لئے رات 12 بجے یہی عدالتیں کھلیں۔ کبھی شاہراہ دستور پر واقع عدالت عظمیٰ نے رات گئے انگڑائی لی تو کبھی اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے رات کو انصاف کا بول بالا کرنے کی کہانی تحریر کی۔ وہی عمران خان عدالتی وقار کی خاطر معافی مانگنے جج صاحبہ کی عدالت میں پیش ہوا تو جج صاحبہ نے عدالت میں بیٹھنے کے بجائے رخصت پر جانا زیادہ مناسب سمجھا۔ کیا اس رویہ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے عدلیہ کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جس کے تمام کردار غم و اندوہ کی تصویر بنے ہوئے ہیں، اس کی دہلیز پر سیاستدانوں کی کردار کشی کے چھینٹے ہیں اور عوامی مینڈیٹ کا خون بھی۔
انہیں جس کام کی تنخواہ ملتی ہے اس میں کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان عالمی رینکنگ میں 130 ویں نمبر پر ہے اور ہمارے بعد کمبوڈیا اور افغانستان جیسے ممالک ہیں جہاں پر نظام انصاف سرے سے موجود ہی نہیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام پر نہ عوام کو اعتماد ہے اور نہ خود عدلیہ کے ارکان کو۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے محترمہ مریم نواز کو بری کرنے کا فیصلہ کیا جس پر تمام قانون پسند حلقوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ یہ کیسا چمتکار ہو گیا۔ اگر سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کا فیصلہ درست مان لیا جائے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ماتحت عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔ اور اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ درست مانا جائے تو کیا سپریم کورٹ کے جج صاحبان اس فیصلے کے نتیجے میں مریم نواز کی قیدو بند اور کردار کشی کا حساب دیں گے؟ جےآئی ٹی کی تفتیش کے بعد سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کی کیا حیثیت رہ گئی ہے،؟
کبھی یہی عدالت عظمی اور عالیہ تھیں جن کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا اب ایسی کیا تبدیلی آگئی ہے کہ معزز جج صاحبان یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ ملزمان کے خلاف صفحہ مثل پر ایک بھی ثبوت موجود نہیں۔ جے آئی ٹی کے دس والیم پر مشتمل ثبوت اگر ناکافی تھے تو سپریم کورٹ نے سزا کس بنیاد پر دی تھی؟ اور اگر وہ ثبوت کافی تھے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں ناکافی قرار کیوں دیا؟ یہ محض ایک مثال ہے ورنہ عدلیہ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس زوال کی سب سے بڑی وجہ عدالتوں میں احتساب کا فقدان ہے، تحریک انصاف کے دور حکومت میں ایک معزز جج کے اثاثوں کے متعلق ریفرنس دائر کیا گیا تو گویا قیامت سی آ گئی۔حکومت کو وہ ریفرنس واپس لینا پڑا۔ قوم سراپا سوال ہے کہ اگر سیاستدان اپنے خاندان کے اثاثوں کا جواب دہ ہے تو عدلیہ کے جج صاحبان کیوں نہیں؟حالیہ برسوں میں ماتحت عدالتوں کے لکھے گئے فیصلوں کے معیار پر سینئر وکلا کی گفتگو سن کر بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
عدلیہ کی حالیہ کارکردگی سے عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں، لیکن اشرافیہ کے مقدمے فاسٹ ٹریک پر سنے جا رہے ہیں۔ معزز جج صاحبان اور وکلا حضرات کو مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ ''معاشرہ کفر کے ساتھ چل سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں،‘‘ اب عدالتوں کو اشرافیہ کے بجائے عوام کے مقدمات پر توجہ دینا ہو گی ورنہ عوامی عدالت انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
کیا اپنوں کو ہی نوازنے آئے تھے؟
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید 8 معاونین خصوصی مقرر کر دیے ہیں جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور اس نئے تقرر کے بعد کابینہ کی تعداد 70 ہو گئی ہے۔ برسوں قبل رقبے میں سب سے بڑا اور آبادی میں سب سے چھوٹے صوبے میں صرف ایک رکن بلوچستان اسمبلی اپوزیشن میں رہ گیا تھا اور باقی تمام ارکان اسمبلی کو بلوچستان کابینہ میں مختلف عہدوں سے نواز دیا گیا تھا اور اب ایک نئی مثال موجودہ اتحادی حکومت میں پیش کی گئی ہے جس میں 11 جماعتیں شامل ہیں اور صرف دو چھوٹی جماعتیں ایسی ہیں جن کو حکومتی عہدہ نہیں ملا۔ اے این پی کو کے پی کی گورنر شپ دی جانی تھی جس میں مولانا فضل الرحمن رکاوٹ بنے تو ایک قومی نشست رکھنے والی اے این پی کو وفاقی وزارت دینے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور سابق وزیر اعلیٰ کے پی آفتاب شیرپاؤ بھی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں اور اب 8 معاونین خصوصی کا حصہ بھی پیپلز پارٹی کو دیا گیا ہے کیونکہ سندھ میں برسر اقتدار اور اتحادی حکومت کی دوسری بڑی جماعت ہے جس کے پاس متعدد اہم وفاقی وزارتیں ہیں۔
قومی اسمبلی میں 85 نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ن) نے 5 ماہ قبل وزارت عظمیٰ اور بعض اہم وزارتیں لی تھیں جس کے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سیاسی کم اور کاروباری زیادہ ہیں اور انھوں نے ملک میں مہنگائی بڑھا کر ماضی کی پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کو جولائی کے ضمنی انتخابات میں شکست سے دوچار کرا کر (ن) لیگ سے پنجاب کی حکومت بھی گنوائی اور آئی ایم ایف سے قسطیں ملنے کے بعد صورتحال میں بہتری کا جو خواب انھوں نے (ن) لیگی قیادت کو دکھایا تھا وہ بھی چکنا چور ہو گیا اور قرضے کی دو قسطیں ملنے کے بعد ڈالر کی مسلسل اڑان جاری ہے اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی ذمے داری خود لینے کے بجائے وزیر خزانہ سیلاب پر ڈال کر بری الذمہ ہو جائیں گے اور مفتاح اسمٰعیل کے اس دوسرے تجربے کی ناکامی کے بعد دس اکتوبر کے بعد وہ آئینی طور پر وزیر خزانہ نہیں رہ سکیں گے۔
محکمہ ریلوے کے ماضی کے کامیاب وزیر خواجہ سعد رفیق کو نہ جانے کیوں ہوا بازی کا محکمہ وزیر اعظم نے دیا ہوا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف کی واپسی کی آئے دن تاریخیں دینے والے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف سمیت متعدد وزیر محکموں سے محروم ہیں۔ بھٹو دور میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے میاں خورشید تو بھٹو حکومت کے خاتمے تک وزیر بے محکمہ ہی رہے تھے اور انھیں چار سال تک ع��دہ نہیں ملا تھا جب کہ موجودہ اتحادی حکومت کا تو مستقبل بھی نظر نہیں آ رہا کہ کب اتحادی روٹھ جائیں یا کب کسی کے اشارے پر صدر مملکت وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیں اور کب نئے انتخابات کا بگل بج جائے۔ اتحادی حکومت میں یہ حال ہے کہ ان کی اپنی ہی پارٹی کے وزیر توانائی خرم دستگیر ہی اپنے وزیر اعظم کے اعلان کی تردید کر رہے اور کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے اعلان کردہ تین سو یونٹوں تک فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم معاف نہیں کی جا رہی ہے بلکہ عارضی طور پر ملتوی کی جا رہی ہے جو یقینی طور پر سردیوں میں بجلی کے کم استعمال کے نتیجے میں جب بل کم ہوں گے تو یہ فیول ایڈجسٹمنٹ رقم وصول کر لی جائے گی۔
ملک بھر میں وزیر توانائی خرم دستگیر کے اپنے ضلع گوجرانوالہ سمیت بجلی بلوں کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ بل اور ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کی جا رہی ہیں، مظاہرین بل جمع نہ کرانے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت میں بڑے حصے کی حامل مسلم لیگ (ن) سے پوچھ رہے ہیں کہ بیوی بچوں کا پیٹ پالیں یا بجلی کے بھاری بل ادا کریں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف بھی عوام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پٹرول کی بچت کے لیے عوام پیدل چلیں یا سائیکلوں پر سفر کریں اور بجلی کی بھی بچت کریں تاکہ بجلی کے بل کم آئیں۔ وزیر توانائی سمیت متعدد (ن) لیگی وزیروں نے بارشوں سے قبل ملک میں بجلی کی بے پناہ لوڈ شیڈنگ کم ہونے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے مگر سخت گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ مزید بڑھ گئی تھی۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق تو ملک میں حکومت کا وجود ہے ہی نہیں بلکہ موقعہ پرستوں کا ایک ٹولہ ہے جو جلد سے جلد اپنے اقتداری حصے وصول کرنے میں دن رات مصروف ہے شاید انھیں خطرہ ہے کہ نہ جانے کب اتحادی حکومت ختم ہو جائے اس لیے زیادہ سے زیادہ مفادات اور مال سمیٹ لیا جائے جس میں وہ کمی نہیں کر رہے اور اپنوں کو نواز بھی رہے ہیں۔
گیارہ بارہ جماعتوں کی حکومتوں میں شامل سیاسی رہنما اپنے اتحادیوں کو بھی بھول چکے ہیں جن سے وعدے کر کے شہباز شریف کو اپنا وزیراعظم منتخب کرایا تھا۔ پیپلز پارٹی سندھ کا گورنر ایم کیو ایم کا بنوا سکی نہ کے پی میں اے این پی کو گورنری دلا سکی اور حکومت بلوچستان میں پانچ ماہ بعد بھی اپنے اتحادی کو گورنر کا عہدہ نہیں دلا سکی ہے البتہ آئے روز وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کے نوٹیفکیشن ضرور جاری کیے جا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پی اور بلوچستان میں اپنے گورنر لگوانے کے لیے کوشاں ہیں اور باقی اتحادیوں کو کچھ نہیں ملا۔ مولانا کے صاحبزادے کے پاس مواصلات جیسی اہم وزارت اور جے یو آئی کے تین وزیر بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ ایک سابق سینئر بیورو کریٹ نے اپنے ایکسپریس میں شایع ہونے والے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان سے بیرون ملک سرمایہ منتقل کرانے، شہریت دلوانے جیسے کام کرانے کے ایک ماہر نے انھیں بتایا ہے کہ اتحادی حکومت کے لوگ اپنا کمایا گیا ناجائز مال بیرون ملک محفوظ کرانے میں پہلے والوں سے بھی زیادہ پیش پیش ہیں اور بہت جلدی یہ کام کرا رہے ہیں۔
اتحادی حکومت کو عمران حکومت کی نااہلی اور آئی ایم ایف سے طے معاملات کا پتا تھا انھوں نے ریاست بچانے کی آڑ میں عمران خان کے خوف اور مزید مقدمات سے بچنے کے لیے عمران خان کو ہٹایا تھا یہ بھی سابق حکومت کی طرح عوام کے ہمدرد ہیں نہ ہی عوام کو ریلیف دینے آئے تھے بلکہ مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کرنے عوام کے لیے بجلی گیس، پٹرول مہنگا کرنے آئے تھے۔ متعدد وزرا اپنا سوٹ پہننے کا شوق پورا کرنے آئے تھے تاکہ میڈیا میں منفرد نظر آئیں کیونکہ سوٹ پہنے بغیر یہ خود کو حاکم نہیں سمجھتے۔ اتحادی حکومت کو بھی عوام سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ انھوں نے عوام مخالفانہ اقدامات سے عوام کے دلوں میں اپنے لیے دوریاں بڑھا لی ہیں اور سب نے اپنوں کو نوازنا تھا اور مزید نوازیں گے۔ اب ان سے اچھائی کی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
یہ کیسا پاکستان ہے؟
کسی تقریب سے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی حال ہی میں کی گئی تقریر کا ویڈیو کلب سنا جس میں اُنہوں نے ایک ایسی بات کی جو بحیثیت قوم ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اس پاکستان میں ہم کب تک اسلام کا دفاع کرتے رہیں گے؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمیں اسلام کا یہاں دفاع نہیں بلکہ اسلام کا نفاذ کرنا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’مغرب کی طرف سے ہم پر حملے ہو رہے ہیں یعنی ہمیں اسلام سے دور کیا جا رہا ہے، ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ہم اس پر اپنے ہی ملک میں دفاعی پوزیشن میں آ گئے ہیں‘‘۔ سینیٹر صاحب نے کہا کہ ’’ اسلام کے معاملے پر ہمیں دفاعی نہیں، جارحانہ پالیسی اپنانا ہو گی کیونکہ اسلام پر بیرونی اور اندرونی حملے ہو رہے ہیں اور ہم یہاں دفاعی پوزیشن لیے ہوئے ہیں۔؟‘‘ جو کچھ سینیٹر صاحب نے کہا وہ سو فیصد درست ہے۔ 
جب سے پاکستان بنا، اسلام کے نام پر قوم سے دھوکہ کیا گیا لیکن گزشتہ دو دہائیوں خصوصاً جنرل مشرف کے دور اور 9/11 کے بعد تو اسلام کی بات کرنے والوں کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا گیا۔ اسلام کا نفاذ تو ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، اسلام کی بات کرنے والوں کوشدت پسندی سے ایسا نتھی کیا گیا اور روشن خیالی ، انسانی حقوق، حقوق نسواں، برابری اور نجانے کیسے کیسے نعروں کے ذریعے مغربی سوچ کو میڈیا اور این جی اوز وغیرہ کے توسط سے کچھ اس طرح پھیلایا گیا کہ بہت سے اسلام کی بات کرنے والوں کو خاموش کرا دیا گیا، کئی لوگوں نے تو اپنے اسلامی نظریہ کو چھوڑ کر روشن خیالی اور لبرلزم کی باتیں کرنا شروع کر دیں اب اگر کوئی اسلام کے نفاذ، کسی غیر اسلامی اقدام یا فحاشی و عریانی کے خلاف بات کرے تو اُسے موجودہ زمانے کے لیے ان فٹ قرار دے دیا جاتا ہے اور کہا جاتا کہ یہ تو fundamentalists ہیں، یہ تو پرانے زمانے کی باتیں کرنے والے لوگ ہیں، ان کا اس ماڈرن دنیا سے کیا لینا دینا۔؟
یہ کیسا پاکستان ہے جہاں سود کے خاتمے کیلئے منت ترلے کیے جا رہے ہیں لیکن حکومت بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس لعنت کے دفاع کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلی جائے اور ماسوائے چند ایک مذہبی سیاسی جماعتوں کے کوئی اس پر آواز تک نہ اُٹھائے؟ یہ کیسا پاکستان ہے جہاں ہم جنس پرستی کے فروغ کے لیے تو مختلف حیلے بہانوں سے کھلے عام کام ہو رہا ہو، متنازعہ قوانین بھی بنائے جا رہے ہوں لیکن ایسے غیر اسلامی اقدامات کی مخالفت کرنے والوں کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا جائے؟ یہ کیسا پاکستان ہے جہاں فحاشی و عریانی پھیلانے والوں کو تو کھلی چھٹی ہے اور وہ اسے عورت کی آزادی اور ترقی کے نام پر سپورٹ کرنے میں بھی آزاد ہیں لیکن جب کوئی اس معاشرتی خرابی کے خلاف بات کرتا ہے تو اُس پر مورل پولیسنگ (moral policing) کا ٹھپا لگا کر اُسے خاموش کرا دیا جاتا ہے؟ 
یہ کیسا پاکستان ہے جہاں آئین میں درج اسلامی شقوں کی کھلے عام خلاف ورزی ہو رہی ہو اور اس پر نہ کوئی عدالت بولے نہ پارلیمنٹ، نہ میڈیا لیکن اس کے برعکس ایک ڈپٹی سپیکر کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک کو ختم کرنے کی رولنگ کو آئین سے غداری اور اس پر حملہ قرار دے دیا جائے؟ یہ کیسا پاکستان ہے جہاں پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا آئین کی اسلامی شقوں کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک کرتے ہوں ؟ بحیثیت قوم ہم مغربی کلچر کی یلغار سے اس قدر مرعوب ہیں کہ حق اور باطل میں تفریق کرنے سے بھی قاصر ہو چکے ہیں۔ ہم اسلام کی بات کرتے ہوئے جھجکتے ہیں جب کہ مغرب کی نقالی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس معاملے پر ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی طور پر سوچنا ہو گا، غور کرنا ہو گا تاکہ اپنی غلطیوں کا ادراک کر سکیں، اس سے پہلے کہ ہم اپنی دنیا و آخرت کو تباہ کر بیٹھیں۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes