Tumgik
#نیٹو
urduchronicle · 4 months
Text
نیٹو اخراجات میں حصہ نہ ڈالنے والے ملک کا دفاع نہیں کروں گا بلکہ روس کے حملے کی حوصلہ افزائی کروں گا، ٹرمپ
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز کہا کہ وہ روس کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ نیٹو کے کسی بھی رکن ملک کے ساتھ “جو چاہے کرے”۔ ٹرمپ نے یہ بات ان نیٹو ملکوں کے لیے کہی جو دفاعی اخراجات میں برابر کا حصہ نہیں ڈالتے، اور ٹرمپ کا یہ بیان اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ صدر بن گئے تو اجتماعی دفاع کی شق کی پابندی نہیں کریں گے۔ ساؤتھ کیرولینا میں ایک ریلی میں ٹرمپ نے کہا کہجب وہ صدر تھے تو انہوں نے کہا کہ ہر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 1 year
Text
نیٹو نے سربیا کی کوسوو میں فوجیوں کی تعیناتی کی درخواست مسترد کر دی۔ نیٹو نیوز
نیٹو نے سربیا کی کوسوو میں فوجیوں کی تعیناتی کی درخواست مسترد کر دی۔ نیٹو نیوز
امن دستوں نے جھڑپوں کے بعد کوسوو میں 1,000 پولیس اور فوج کے اہلکاروں کو بھیجنے کی بلغراد کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ کوسوو میں نیٹو کے مشن نے سربوں اور کوسوو حکام کے درمیان جھڑپوں کے بعد کوسوو میں 1000 سربیائی پولیس اور فوج کے اہلکاروں کو بھیجنے کی سرب حکومت کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ سربیا کے سابق صوبے کوسوو نے 1998-1999 کی جنگ کے بعد 2008 میں آزادی کا اعلان کیا جس کے دوران نیٹو نے البانوی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
چین کے خلاف نیٹو کا" اقتصادی ورژن‘‘ بنانا بہت خطرناک ہوگا، چینی وزارت خارجہ
چین کے خلاف نیٹو کا” اقتصادی ورژن‘‘ بنانا بہت خطرناک ہوگا، چینی وزارت خارجہ
بیجنگ (عکس آن لائن)چینی وزارت خارجہ کے یورپی ڈویژن کے ڈائریکٹر وانگ لو تھونگ نے جی سیون اور نیٹو سمٹ میں چین سے متعلقہ امور کے حوالے سے چائنا میڈیا گروپ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ چین کے خلاف نیٹو کا” اقتصادی ورژن‘‘ بنانا بہت خطرناک ہوگا۔ اتوار کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق ” دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو” سے مقابلہ کرنے کے لیے جی 7 کے پیش کردہ ” عالمی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ پارٹنرشپ” منصوبے کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
نیٹو کا نیا نظریہ سلامتی جاری، روس اور چین براہِ راست خطرہ قرار
نیٹو کا نیا نظریہ سلامتی جاری، روس اور چین براہِ راست خطرہ قرار
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے روس اور چین کو براہِ راست خطرہ قرار دے دیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے روس اور چین کو براہِ راست خطرہ قرار دیا ہے۔ نئے نظریہ سلامتی کے تحت اتحاد کو سب سے زیادہ اور براہِ راست خطرہ روس سے ہے جبکہ چین کی توسیع پسندانہ اور جابرانہ پالیسیاں بھی نیٹو کے مفادات،سلامتی اور اقدار کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔ اسپین دارالحکومت میڈرڈ میں نیٹو سمٹ کے دوران مغربی دفاعی اتحاد کے رکن ممالک نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 14 days
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
Tumblr media
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
Tumblr media
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ 
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔ 
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
apnabannu · 4 months
Text
انڈیا میزائل بردار امریکی ’پریڈیٹر ڈرون‘ حاصل کرنے والا پہلا غیر نیٹو ملک بن گیا: اس ڈورن میں خاص کیا ہے؟
http://dlvr.it/T2D3pT
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
کیا اقوام متحدہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے؟
Tumblr media
لیگ آف نیشنز کی طرح کیا اقوام متحدہ بھی اپنی طبعی عمر مکمل کر چکی ہے اور کیا اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک نئے عالمی نظام کے قیام پر غوروفکر شروع کر دے؟ اقوام متحدہ کی سب سے بڑی خرابی اس کی تعمیر میں مضمر ہے۔ بظاہر یہ اقوام عالم کا مشترکہ فورم ہے، جہاں تمام ریاستیں برابر ہیں لیکن عملاً یہ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین کا بندوبست ہے جہاں جارج آرویل کے ’اینیمل فارم‘ کی طرح کچھ اقوام کچھ زیادہ برابر ہیں۔ یہی خرابی لیگ آف نیشنز میں بھی تھی۔ بظاہر وہ بھی بین الاقوامی ادارہ تھا لیکن سامنے کی حقیقت یہ تھی کہ وہ بھی پہلی عالمی جنگ کے فاتحین کا قائم کردہ بندوبست تھا۔ اسی وجہ سے سے لیگ آف نیشنز بھی ناکام ہوئی اور یہی وہ خرابی ہے جس نے اقوام متحدہ کو بھی لاچار اور بے بس کر دیا ہے۔ ان دونوں اداروں کے زیرانتظام جو بین الاقوامی قانون بنا وہ بھی اپنی اصل حالت میں بین الاقوامی نہیں ہے، اس پر بنیادی طور پر مغربی اقوام کی فکر کار فرما رہی ہے۔ ان ہی مغربی اقوام کے باہمی معاہدے درجہ بدرجہ بین الاقوامی قانون کہلائے اور اس قانون کی صورت گری میں دو تہائی سے زیادہ دنیا کا سرے سے کوئی کردار ہی نہ تھا۔
اقوام متحدہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ادارہ انصاف اور برابری کے اصول پر نہیں کھڑا بلکہ یہ کنگ الفریڈ کے قدیم انگلستان کی طرح جاگیردارانہ خطوط پر استوار ہے۔ اقوام متحدہ نے دنیا کو پانچ بڑے جاگیرداروں میں تقسیم کر رکھا ہے اور انہیں ویٹو پاور دے رکھی ہے۔ جنرل اسمبلی میں اقوال زریں کی حد تک ساری اقوام برابر ہیں لیکن سلامتی کونسل میں جہاں عملی اقدامات لینے ہوتے ہیں وہاں سب برابر نہیں ہیں۔ وہاں پانچ عالمی جاگیردار ضرورت سے زیادہ برابر ہیں اور باقی کی دنیا ان کے مزارعین پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ کا امن اور انصاف کا تصور یہ نہیں ہے کہ دنیا میں ایک عادلانہ نظام قائم ہو بلکہ اس کا امن اور انصاف کا تصور یہ ہے کہ ان پانچ عالمی جاگیرداروں میں سے کوئی خفا نہ ہو۔ یہ پانچ قوتیں باہم ٹکرا نہ جائیں، اس کا نام عالمی امن اور سلامتی ہے۔ باقی کی دنیا چاہے خون میں نہا جائے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ چنانچہ کسی بھی ملک کے خلاف اس وقت تک طاقت استعمال نہیں کی جا سکتی جب تک یہ پانچوں ملک متفق نہ ہو جائیں۔ ان میں سے کوئی ایک ملک بھی ویٹو کر دے تو پھر چاہے ساری دنیا ایک طرف ہو، پھر چاہے فلسطین میں نسل کشی ہوتی رہے اور چاہے جنرل اسمبلی بار بار قراردادیں لاتی رہے، سلامتی کونسل طاقت استعمال نہیں کر سکتی۔
Tumblr media
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ قانون کی عمل داری سے محروم قدیم جاگیردار معاشروں کی طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ کسی بھی کمزور اور محکوم ملک کے لیے اقوام متحدہ اور اس کا قانون سہارا نہیں بن سکتا۔ ریاستوں کے لیے امان اب اسی میں ہے کہ وہ ان پانچ عالمی جاگیرداروں میں سے کسی ایک کی سرپرستی میں آ جائیں۔ ویٹو پاور کا حامل ملک پشت پر کھڑا ہو تو اقوام متحدہ اور عالمی قانون آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مسلم دنیا کے پاس ویٹو پاور نہیں ہے۔ چونکہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں مسلمان دنیا شکست خوردہ تھی، اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم دنیا کو ویٹو سے محروم رکھنا محض اتفاق ہے یا اس میں کچھ اہتمام بھی شامل ہے ؟ اپنی بنیادی ساخت کی اس کمزوری کو، اقوام متحدہ اپنے طرز عمل سے دور کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ عراق جیسے ملک سے معاملہ ہو تو اقوام متحدہ کی دو قراردادووں کی پامالی پر اسے روند دیا جاتا ہے اور اسرائیل جیسے ملک سے واسطہ پڑ جائے تو جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی ڈھیروں قراردادوں کی پامالی کے باوجود اسرائیل کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا اور اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔
اسی طرح خود اقوامِ مغرب کا طرز عمل بھی یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ضابطوں کو صرف وہاں خاطر میں لاتے ہیں جہاں ان کے مفاد کا تقاضا ہو۔ جہاں ان کا مفاد کسی اور چیز کا تقاضا کرے، یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے ضابطوں کو پامال کر دیتے ہیں بلکہ یہ متبادل راستے بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ سلامتی کونسل کی مسلمہ بین الاقوامی قوت کے ہوتے ہوئے نیٹو کے ذریعے کارروائیاں کرنا اور اقوام متحدہ سے بالاتر ایف اے ٹی ایف کا عالمی مالیاتی نظام وضع کرنا اسی متبادل کی علامات ہیں۔ لیگ آف نیشنز سے اقوام متحدہ تک، ان دونوں اداروں کی عدم فعالیت، یک رخی اور تضادات کا حاصل یہ ہے کہ اب دنیا کو ایک نئے ادارے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو عالمی جنگ کے فاتحین کا کلب نہ ہو بلکہ اقوام عالم کا حقیقی نمائندہ ادارہ ہو، جہاں کچھ اقوام کے ہاتھ میں ویٹو کی اندھی طاقت نہ ہو بلکہ تمام اقوام کو یکساں عزت اور توقیر حاصل ہو اور جس کا ’انٹر نیشنل لا‘ کسی خاص تہذیبی فکری بالادستی کا مظہر نہ ہو بلک اس کی بنیاد دنیا بھر کی اجتماعی دانش پر رکھی گئی ہو۔ یہ کوہ کنی بہت مشکل سہی لیکن ایک وقت آئے گا کہ دنیا کو تیشہ اٹھانا ہی پڑے گا۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
pakistanpress · 6 months
Text
ایردوان امریکہ کے سامنے ڈٹ گئے
Tumblr media
ترکیہ، اس وقت نیٹو میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہونے کے علاوہ یورپی یونین کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کا منتظر ہے چنانچہ امریکہ اور یورپی یونین کے چند ایک رکن ممالک ترکیہ سے حماس کی حمایت ختم کرنے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن صدر ایردوان نے یورپی یونین کے دباؤ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ امریکہ کسی نہ کسی طریقے سے صدر ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے میں مصروف رہا ہے، اس نے پہلے ترکیہ میں فیتو دہشت گرد تنظیم کی پشت پناہی کرتے ہوئے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، پھر بائیڈن نے صدر منتخب ہونے سے قبل صدر ایردوان کو مختلف طریقے سے اقتدار سے ہٹانے کیلئے، ترکیہ کی اپوزیشن کی حمایت کرنے کا کھلا پیغام دیا۔ پھر بائیڈن نے ترکیہ کی جیل میں جاسوسی کے الزام میں قید پادری Brunson کی رہائی کیلئے ترکیہ پر دبائو ڈالا اور رہا نہ کرنے کی صورت میں ترکیہ کو سبق سکھانے کی دھمکی بھی دی۔ اسی طرح یورپی یونین کے دس ممالک نے ترک بزنس مین عثمان کوالا کو رہا کروانے کیلئے ترکیہ پر شدید دباؤ ڈالا لیکن صدر ایردوان امریکہ اور یورپی یونین کی ان دھمکیوں سے ذرہ بھر بھی مرعوب نہ ہوئے بلکہ انہوں نے فوری طور پر ان دس ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر جلا وطن کرنے کا حکم جاری کر دیا تاہم ان ملکوں کی جانب سے معذرت کرنے پر معاملے کو بگڑنے سے روک لیا گیا۔ 
Tumblr media
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ترکیہ آئے ہوئے اعلیٰ امریکی حکام نے تر کیہ کی حماس کی کھل کر حمایت کیے جانے پر تشو یش سے آگاہ توضرور کیا لیکن وہ صدر ایردوان کے موقف کو اچھی طرح جاننے کی وجہ سے ترک حکام کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ امریکی انڈر سیکرٹری برائن نیلسن حماس اسرائیل جنگ میں تر کیہ سے حماس کو فنڈز کی منتقلی کے شواہد تو پیش نہ کر سکے تاہم انہوں نے ماضی میں ترکیہ کی جانب سے حماس کو فنڈز فراہم کیے جانے کا الزام ضرور عائد کیا جسے ترک وزارتِ خارجہ نے یکسر مسترد کر دیا۔ یاد رہے صدر ایردوان بڑے واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک حماس کو کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتا کیونکہ حماس فلسطین کی حقیقت ہے اور وہاں کی سیاسی جماعت ہے جو عام انتخابات جیت کر غزہ میں بر سر اقتدارآئی ہے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ ترکیہ کسی بھی ملک کو ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دے گا، ترکیہ کی خارجہ پالیسی ترک عوام کی توقعات اور مفادات کےمطابق ہی انقرہ میں مرتب کی جاتی ہے۔ 
صدر ایردوان نے امریکی حکام کے دورے سے قبل پارلیمنٹ میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے گروپ اجلاس میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یا ہو کے بارے میں سخت بیان دیتے ہوئے یاہو کو " غزہ کا قصاب" اور اسرائیل کو ایک" دہشت گرد ریاست " قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے نیتن یا ہو کو عالمی عدالت کے روبرو پیش کرنے کیلئے اپنی تیاریوں سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقریباً 3 ہزار وکلاء نے دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اس حوالے سے پہلے ہی سے درخواستیں دے رکھی ہیں، جس میں بڑی تعداد میں ترک وکلاء اور ترک اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہیں جو اس کیس کی پیروی کریں گے۔ وہاں ہمیں یقین ہے جس طرح سربیہ اور کوسوو میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے"سربیہ قصاب" کرادزیچ کو دی ہیگ کی عالمی عدالت سے سزا دلوائی گئی تھی بالکل اسی طرح "غزہ کے قصاب" نیتن یا ہو کو نسل کشی کے الزام میں سزا دلوا کر ہی دم لیں گے۔
ہزاروں سال سے آباد فلسطینیوں کے مکانات، زمینوں اور دفاتر کو ناجائز طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے جسے کسی بھی صورت قابلِ قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور ہم اس ریاستی دہشت گردی پرخاموش نہیں رہ سکتے۔ ہمارے بین الاقوامی رابطوں کا سب سے اہم ایجنڈا بلا شبہ غزہ کی جنگ ہے۔ صدر ایردوان نے اس وقت تک 50 سے زائد عالمی رہنمائوں سے رابطہ کیا ہے۔ وہ رواں ہفتے 2 اہم دورے کر رہے ہیں، پہلے قطر اور پھر یونان کا دورہ کریں گے قطر نے ترکیہ ہی کے تعاون سے اسرائیل اور حماس تنازع کو روکنے میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور اب وہ اس دورے کے دوران قطر کے امیر سے مستقل جنگ بندی کیلئے کیے جانے والے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے جبکہ یونان کے دورے میں غزہ کی صورتحال پر بھی غور کیا جائے گا۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
spitonews · 1 year
Text
افغان جنگ میں نہتے شہری کو قتل کرنے والا آسٹریلوی فوجی 3 سال بعد گرفتار
آسٹریلیو فوجی کو افغانستان میں شہری کے قتل پر گرفتار کرلیا گیا؛ فوٹو: فائل نیو ساﺅتھ ویلز: آسٹریلیا میں 41 سالہ سابق فوجی اہلکار کو افغانستان میں جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر گرفتار کرلیا گیا۔  عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں آسٹریلوی فوجیوں کا دستہ پہلی بار 2001 اور پھر 2005 میں بھیجا گیا تھا۔ افغان جنگ کے دوران ان دستوں نے نیٹو اتحادی فوج کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔ آسٹریلوی فوجی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
Tumblr media
کہتے ہیں کہ سری لنکا تین ماہ پہلے ڈیفالٹ کر چکا تھا لیکن اس کا اعلان تین ماہ بعد کیا گیا۔ ڈیفالٹ کے بعد عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) نے بیل آئوٹ پیکیج دینے کیلئے شرط عائد کی کہ سری لنکا دفاعی بجٹ میں کٹوتی کرے اور فوج کا حجم کم کرے۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ سری لنکا کی فوج کو نصف کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کیلئے سری لنکا کی حکومت نے پہلے مرحلے میں فوجی اہلکاروں کی 16000 ( سولہ ہزار ) اسامیوں کو ختم کر دیا ہے اور نئے بجٹ میں ان کیلئے پیسے بھی نہیں رکھے ہیں۔ حکومت نے فوج میں رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی اسکیم بھی دی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کم کئے جا سکیں۔ ان اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف سے ابھی تک ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ آئی ایم ا یف کو خوش کرنے کیلئے شاید سری لنکا کو مزید اقدامات کرنا پڑیں گے۔ پاکستان کی طرح سری لنکا کی فوج سے بھی داخلی امور میں بہت مدد لی جاتی ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اسے خصوصی ٹاسک سونپے گئے۔ 
فوج سے پولیسنگ کا کام بھی لیا جاتا ہے، قدرتی آفات میں بھی فوج ریسکیو اور ریلیف کا کام کرتی ہے۔ سری لنکا کی سرحدوں کی صورت حال بھی کسی طرح اطمینان بخش نہیں کہی جا سکتی۔ اس کے باوجود سری لنکا کے معاشی حالات نے اسے مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی افواج کا حجم کم کرے۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اگلے روز اپنے ایک بیان میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ نہ کر جائے اور کہیں پاکستان سے بھی اپنی افواج میں کٹوتی کرنے کا مطالبہ نہ کر دیا جائے۔ عمران خان نے جس خدشے کا اظہار کیا ہے، وہ خدشہ بے جواز نہیں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ عمران خان کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ اس صورت حال کی ذمہ دار پی ڈی ایم کی حکومت ہے اور اگر ان کی ( یعنی عمران خان کی ) حکومت کا خاتمہ نہ کیا جاتا تو ایسی صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ 
Tumblr media
عمران خان کے سیاسی مخالفین کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ اس صورت حال کی ذمہ دار عمران خان کی پونے چار سال کی حکومت ہے اور یہ کہ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے کیلئے عالمی طاقتیں عمران خان کو اقتدار میں لائیں تاکہ وہ ان ( عمران خان ) سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرا سکیں۔ آج پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، اس کی ذمہ داری موجودہ یا پچھلی دو تین سیاسی حکومتوں پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ یہ حالات اس نظام کے منہدم ہو جانے کا نتیجہ ہیں، جسکے ذریعہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے اس ملک کو چلایا ۔ پاکستان کو اس مرحلے تک پہنچانے کیلئے بہت پہلے سے کام ہو رہا تھا ۔ بقول کسے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق پاکستانی افواج دنیا کی ساتویں طاقتور ترین افواج ہیں۔ صرف یہی نہیں پاکستان دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بھی ہے۔ اس کی معیشت کا اس حال تک پہنچنا انتہائی تشویش ناک ہے۔ آئی ایم ایف جو ’’ معاشی اصلاحات ‘‘ تجویز کر رہا ہے، وہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کیلئے نہیں بلکہ کسی عالمی ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ آئی ایم ایف ایک ایسا ادارہ ہے، جو ورلڈ آرڈر کے تحت چلتا ہے۔ 
یہ ورلڈ آرڈر امریکہ اور اس کے حواریوں کا بنایا ہوا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا آگے بڑھ کر ساتھ دیا۔ خصوصاً پاکستانی افواج نے اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا ۔ ایک زمانہ تھا ، جب امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو اس بات کی ضرورت تھی کہ پاکستانی افواج زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوں۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ کمیونزم کی بڑھتی پیش قدمی کو روکنے کیلئے پاکستان کو دو عالمی دفاعی معاہدوں میں شامل کیا گیا۔ یہ دو عالمی معاہدے ساؤتھ ایسٹ ایشیاء ٹریٹی آرگنائزیشن ( سیٹو ) اور سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ( سینٹو ) یا معاہدہ بغداد تھے ۔ پاکستانی افواج نے اس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستانی افواج اگرچہ تنظیم معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس ( نیٹو ) کا حصہ تو نہیں تھیں لیکن افغانستان میں دو دفعہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگوں میں نیٹو افواج کا بھرپور ساتھ دیا ۔ امریکہ نے ہی اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ بڑی افواج بنانے کی حوصلہ افزائی کی اور بیانیہ یہ دیا گیا کہ پاکستان کو بھارت کا مقابلہ کرنا ہے، جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ 
امریکہ نے ہی اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کو سیکورٹی اسٹیٹ بننے کی طرف دھکیلا ، جہاں جمہوریت نہ پنپ سکی ۔ پاکستان کو اسی راستے پر چلتے رہنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کا طفیلی بنا دیا گیا ۔ اب آئی ایم ایف سے پاکستان شاید 23 واں پیکیج حاصل کرے گا ، جس کے بارے میں ابھی تک وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اتنی بڑی اور مضبوط پاکستانی افواج کی ضرورت نہیں رہی اور اگر نہیں رہی تو کیا یہ بڑی اور مضبوط افواج امریکہ کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب آئی ایم ایف کی ان شرائط سے مل جائے گا ، جو پیکیج دینے کی صورت میں سامنے آسکتی ہیں ۔ اگر اس پیکیج میں فوج کا حجم کم کرنے یا دفاعی اخراجات کم کرنے کی شرط نہ لگائی گئی تو اگلے ایک دو سال میں نئے پیکیج کیلئے یہ شرط ضرور ہو گی ۔ خدشہ ہے کہ صرف فوج کا حجم کم کرنے کی شرط نہیں ہو گی۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی کوئی شرط سامنے آسکتی ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں ۔ اب ہمیں اعتراف کرنا پڑیگا کہ حالات کے ذمہ دار ہمارے حقیقی حکمران ہیں ، جنہیں ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ ابتدا سے ان کی بنائی گئی غلط پالیسیاں نہ صر ف ملک اور عوام کو بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ کو دلدل میں دھنساتی چلی گئیں۔ 
ہماری عدلیہ ، ہمارا میڈیا ، ہمارے دانشور اور ہمارے سیاست دان شریک مجرمان ہیں ۔ جن سیاست دانوں نے پاکستان کو اس راہ سے ہٹانے کی کوشش کی، اس نے اس کی خوف ناک قیمت ادا کی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر کوئی پیسہ کما کے اپنے بچوں کو باہر بھیج رہا ہے لیکن حالات سے فرار ممکن نہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ختم کیا جائے۔ عوام پر زیادہ معاشی بوجھ ڈالنے کی بجائے ادارے اپنے اخراجات میں رضاکارانہ کمی کریں۔ ورنہ غریب عوام کی اکثریت تو پہلے ہی حالات کو بھگت رہی ہے، آزمائش اب کسی اور کیلئے ہو گی۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 4 months
Text
نیٹو رکنیت کے لیے سویڈن کی درخواست منظور کرنے کی عجلت نہیں، سپیکر ہنگری پارلیمنٹ
ہنگری کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے جمعرات کے روز کہا کہ ترکی کی طرف سے توثیق کے بعد سویڈن کی نیٹو کی رکنیت کی درخواست کو منظور کرنے ��ی کوئی عجلت نہیں۔ ترکی کی جنرل اسمبلی، جہاں صدر طیب اردگان کے حکمران اتحاد کو اکثریت حاصل ہے، نے اس درخواست کو منظور کرنے کے لیے 287-55 ووٹ دیا۔ سویڈن کے الحاق کے لیے ہنگری سمیت تمام 31 رکن ممالک کی باضابطہ منظوری درکار ہے، لیکن ترکی کی منظوری کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 1 year
Text
سویڈن کا کہنا ہے کہ نیٹو کی درخواست کے لیے ترکی کے مطالبات کو پورا نہیں کر سکتا | نیٹو نیوز
سویڈن کا کہنا ہے کہ نیٹو کی درخواست کے لیے ترکی کے مطالبات کو پورا نہیں کر سکتا | نیٹو نیوز
وزیر اعظم الف کرسٹرسن کا کہنا ہے کہ ترکی بہت زیادہ مانگ رہا ہے، لیکن انہیں یقین ہے کہ انقرہ نیٹو کے لیے اس کی بولی کو منظور کر لے گا۔ سویڈن کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ سویڈن کو یقین ہے کہ ترکی نیٹو فوجی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اس کی درخواست منظور کر لے گا لیکن وہ ان تمام شرائط کو پورا نہیں کرے گا جو انقرہ نے اس کی حمایت کے لیے رکھی ہیں۔ “ترکی دونوں تصدیق کرتے ہیں کہ ہم نے وہی کیا ہے جو ہم نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
نیٹو امریکہ کے لیے  گروہی محاذ آرائی میں ملوث ہونے کا ایک آلہ ہے، چینی میڈ یا
نیٹو امریکہ کے لیے  گروہی محاذ آرائی میں ملوث ہونے کا ایک آلہ ہے، چینی میڈ یا
میڈرڈ(عکس آن لائن) میڈرڈ میں نیٹو سربراہی اجلاس کے ذریعے اختیار کردہ ایک نئی اسٹریٹجی دستاویز میں پہلی بار چین کا ذکر کرتے ہوئے اسے “یورو-اٹلانٹک کے لیے ایک نظامی چیلنج” قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک اور واضح ثبوت ہے کہ نیٹو نے ایک خیالی دشمن بنانے اور کیمپ محاز آرائی میں ملوث ہونے کے لیے سیاہ اور سفید کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔ بیلجیئم کے میڈیا ادارے “ایوننگ نیوز” نے نشاندہی کی کہ نیٹو امریکی تسلط کی محض ایک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
مشرقِ وسطیٰ میں نیٹو طرز کے عسکری اتحاد کی حمایت کریں گے، اردن
مشرقِ وسطیٰ میں نیٹو طرز کے عسکری اتحاد کی حمایت کریں گے، اردن
اردن نے نیٹو کی طرز پر مشرق وسطیٰ میں فوجی اتحاد قائم کرنے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ نے گزشتہ روز سی این بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اگر نیٹو جیسا فوجی اتحاد بنایا جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس کی تائید کریں گے تاہم ضروری ہے کہ یہ پوری دنیا پر محیط ہو، واضح ہو کہ ہم اس میں کیسے شریک ہوں گے، یہ ہمارے لیے کیا اور کیسے کرے گا، بصورت دیگر یہ سب کے لیے پریشان کن…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 4 months
Text
امریکا نے ترکیہ کو ایف-16 جنگی طیاروں کی فروخت کی منظوری دے دی
Tumblr media
امریکا نے ترکیہ کو 23 ارب ڈٓالر مالیت کے 40 ایف-16 طیاروں کی فراہمی کی منظوری دے دی۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے ترکیہ کو ایف-16 فراہم کرنے کی منظوری ترک پارلیمنٹ کی جانب سے سویڈن کو نیٹو کی رکنیت دینے کی اجازت کے بعد دی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کانگریس نے ترکیہ کے ساتھ 23 ارب ڈالر مالیت کے معاہدے کی منظوری دی تھی اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جمعے کی رات کو ہی اس کی توثیق کر دی۔ امریکا نے ترکیہ کے علاوہ یونان کو 8.6 ارب ڈالر مالیت کے جدید ایف-35 جنگی طیاروں کی فراہمی کی منظوری بھی دی ہے۔  خیال رہے کہ ترکیہ اور امریکا نیٹو اتحادی ہیں اور یونان مغربی فوجی بلاک کا بھی حصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ترکیہ نے جیسے سویڈن کی نیٹو رکنیٹ کی منظوری کے دستاویزات واشنگٹن کو فراہم کیے، اس کے بعد امریکا نے بھی ایف-16 کی فراہمی کی توثیق کر دی۔ امریکا سے 40 ایف-16 طیاروں اور اس کے آلات کی وصولی سے ترکیہ کے پاس موجود 79 ایف-16 طیاروں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو گا اور دفاعی صلاحیت میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔ ترکیہ نے امریکا سے اکتوبر 2021 میں ایف-16 کے حصول کا معاہدہ کیا تھا لیکن اس معاہدے پر عمل درآمد سویڈن کی نیٹو رکنیت میں تاخیر کی وجہ سے التوا کا شکار ہوگئی تھی اور امریکی کانگریس نے رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
cryptoguys657 · 1 year
Text
نیٹو ممالک نے روس کو سبق سکھانے کی ٹھان لی
نیٹو ممالک نے روس کو سبق سکھانے کی ٹھان لی ہے اور یوکرین کا دفاع مضبوط کرنے کیلیے مزید ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق نارتھ اٹلانٹک ٹرینٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے رکن ممالک نے یوکرین کی حمایت میں ڈٹ گئے ہیں اور روس کو سبق سکھانے کی ٹھان لی ہے۔ بلیجیئم کے درالحکومت برسلز میں منعقدہ اجلاس میں نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع نے جنگ میں روس کی شکست کو یقینی بنانے اور یوکرین کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes