Tumgik
#سٹیٹ بینک پاکستان
urduchronicle · 4 months
Text
شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ، مارچ میں مہنگائی میں کمی متوقع ہے، گورنر سٹیٹ بینک
اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح سود کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ اس سال افراط زر 23 سے 25 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔جی ڈی پی گروتھ کی شرح 2.3 فیصد تک رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ سخت مانیٹری…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 19 days
Text
گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان جمیل احمد کی ابوظہبی میں سالانہ سرمایہ کاری میٹنگ میں شرکت
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی ن��ل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
gamekai · 1 year
Text
چین سے 70 کروڑ ڈالر ملنے کی توقع ہے: وزیر خزانہ
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو کہا ہے کہ حکومت کو رواں ہفتے چین سے 70 کروڑ ڈالر ملنے کی توقع ہے جس سے ملک کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو تقویت ملے گی جو خطرناک حد تک کم ترین سطح تک گر چکے ہیں۔ اسحاق ڈار نے ایک ٹوئٹر پوسٹ میں کہا: ’رسمی کارروائیاں مکمل اور چائنا ڈویلپمنٹ بینک کے بورڈ نے پاکستان کے لیے 70 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دی ہے۔ یہ رقم سٹیٹ بینک آف پاکستان کو رواں ہفتے ہی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
چین سے 70 کروڑ ڈالر ملنے کی توقع ہے: وزیر خزانہ
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو کہا ہے کہ حکومت کو رواں ہفتے چین سے 70 کروڑ ڈالر ملنے کی توقع ہے جس سے ملک کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو تقویت ملے گی جو خطرناک حد تک کم ترین سطح تک گر چکے ہیں۔ اسحاق ڈار نے ایک ٹوئٹر پوسٹ میں کہا: ’رسمی کارروائیاں مکمل اور چائنا ڈویلپمنٹ بینک کے بورڈ نے پاکستان کے لیے 70 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دی ہے۔ یہ رقم سٹیٹ بینک آف پاکستان کو رواں ہفتے ہی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 1 year
Text
ٹویوٹا باقی سال کے لیے پیداوار بند کر دے گا۔
ٹویوٹا باقی سال کے لیے پیداوار بند کر دے گا۔
لاہور: ٹویوٹا انڈس موٹرز کے پاس ہے۔ مطلع کیا پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا کہنا ہے کہ وہ 20 دسمبر سے 31 دسمبر تک پیداوار بند کردے گی۔ یہ تیسرا موقع ہوگا جب ٹویوٹا 2022 میں غیر پیداواری دن منائے گی۔ ٹویوٹا نے اپنے اقدامات کی بنیادی وجہ سٹیٹ بینک کی جانب سے مکمل طور پر ناکڈ-ڈاؤن (CKD) کٹس کی درآمد پر پابندیوں کی وجہ سے ناکافی انوینٹری کی سطح کا حوالہ دیا ہے۔ کمپنی نے پہلے پیداوار روک دی تھی۔ سے یکم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
moazdijkot · 1 year
Text
پاکستان کے پاس چار سال میں کم ترین چھ ارب 70 کروڑ ڈالر: سٹیٹ بینک
پاکستان کے پاس چار سال میں کم ترین چھ ارب 70 کروڑ ڈالر: سٹیٹ بینک
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے کہا ہے کہ بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے صورت حال قابو میں ہے اور پاکستان ادائیگیاں بروقت کرے گا۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے جمعے کو کہا کہ اس کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً چھ ارب 71 کروڑ ڈالر کی سطح پر آ گئے ہیں جو 2019 کے بعد سب سے کم ہیں۔ پرائیویٹ بینکوں کے ذخائر لگ بھگ پانچ ارب 87 کروڑ ڈالر ہیں۔ یوں مجموعی طور پر ملک کے کل زرمبادلہ کے ذخائر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hindiurdunews · 1 year
Text
پاکستان کے پاس چار سال میں کم ترین چھ ارب 70 کروڑ ڈالر: سٹیٹ بینک
پاکستان کے پاس چار سال میں کم ترین چھ ارب 70 کروڑ ڈالر: سٹیٹ بینک
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے کہا ہے کہ بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے صورت حال قابو میں ہے اور پاکستان ادائیگیاں بروقت کرے گا۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے جمعے کو کہا کہ اس کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً چھ ارب 71 کروڑ ڈالر کی سطح پر آ گئے ہیں جو 2019 کے بعد سب سے کم ہیں۔ پرائیویٹ بینکوں کے ذخائر لگ بھگ پانچ ارب 87 کروڑ ڈالر ہیں۔ یوں مجموعی طور پر ملک کے کل زرمبادلہ کے ذخائر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
پاکستان اورشمالی امریکا کے ممالک کے درمیان فاضل تجارت کے حجم میں جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں سالانہ بنیادوں پراضافہ
پاکستان اورشمالی امریکا کے ممالک کے درمیان فاضل تجارت کے حجم میں جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں سالانہ بنیادوں پراضافہ
اسلام آباد (عکس آن لائن)پاکستان اورشمالی امریکا کے ممالک کے درمیان فاضل تجارت کے حجم میں جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں سالانہ بنیادوں پراضافہ ریکارڈکیاگیاہے، پہلی سہ ماہی میں شمالی امریکا کے ممالک کوبرآمدات میں 7.60 فیصدکی نمو جبکہ درآمدات میں 17 فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی ہے۔ سٹیٹ بینک اورپاکستان بیوروبرائے شماریات کی جانب سے اس حوالہ سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق جاری مالی سال کی پہلی سہ…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
omega-news · 2 years
Text
75 روپے کا نوٹ آگیا
75 روپے کا نوٹ آگیا
اب آپ 75 روپے یکمشت اپنی جیب، اپنے بٹوے میں پرس میں رکھ سکتے ہیں .جی ہاں 75 روپے کا نوٹ آگیاہے پاکستان کے 75 ویں یوم آزادی کی مناسبت سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے 75 روپے کا نوٹ جاری کیا گیا ہے ج سٹیٹ بینک کی طرف سے جاری اعلامیے کے مطابق 75 روپے کا کرنسی نوٹ سٹیٹ بینک کی شاخوں اور نجی بینکوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے. اس نوٹ کو عام لین دین کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے. اس کے بارے میں بتایا گیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
اللّٰہ کے ساتھ اعلان جنگ۔ کب تک؟
سودی لین دین ایک ایسا عمل ہے جس کے متعلق سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 278 اور 279 میں واضح طور ارشاد ہوا، اے ایمان والو سود چھوڑ دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔ سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ہے اور شرعی اصطلاح میں ربا کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا۔ سود کسی غریب یا مسکین سے لیا جائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے، یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، لالچ و حرص، خود غرضی و طمع، شقاوت و سنگدلی، اور بخل جیسی اخلاقی بیماریاں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام میں سود کو ہر صورت میں حرام قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ تجارت حلال ہے اور سود حرام۔ یوں تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی سود سے پاک نظامِ معیشت رائج کرنے کی کوشش کی گئی۔
جولائی 1948 میں اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک کو یہ احکامات دیئے کہ وہ اسلامی اصولوں پر نظام معیشت قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی جلد رحلت کی وجہ سے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ 1977 کے بعد کچھ نمائشی اقدامات کیے گئے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی گئی۔ وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی۔علما میں سے جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری اور مفتی تقی عثمانی کو عدالت کا جج نامزد کیا گیا لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کو دس سال کے لئے پابند کیا گیا کہ وہ مالیاتی امور کے متعلق کوئی رائے نہیں دے گی۔ اس دوران 30 جون 1990ء کو پہلی درخواست عدالت میں دائر کی گئی، جس کے بعد مختلف جماعتوں، اداروں اور افراد کی جانب سے 88 درخواستیں دائر کی گئیں۔ جب یہ دس سال کی مدت ختم ہوئی تو 14 نومبر 1991ء کو وفاقی شرعی عدالت پاکستان کے اس وقت چیف جسٹس جناب ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن نے سود کے خلاف وہ پہلا تاریخی فیصلہ دیا جس نے پہلی مرتبہ سودی نظام کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔
اس فیصلے میں واضح طور پر قرار دیا گیا کہ ایسے تمام قوانین جن سے سود کو تحفظ دیا گیا، وہ اسلامی احکامات سے متصادم ہیں لہٰذا انہیں کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔اس وقت میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے۔ ان کی حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ اس دوران مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی باری باری حکومت کرتی رہیں لیکن کسی حکومت نے اس معاملے میں دلچسپی نہ لی۔ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ میں اس مقدمے کی سماعت ہوئی۔ آٹھ سال کے بعد 23 دسمبر 1999 کو سپریم کورٹ کے شریعت بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اس دوران پرویز مشرف برسر اقتدار آئے۔ ان کی حکومت نے ایک سرکاری بینک کے ذریعے نظر ثانی کی اپیل دائر کی۔ اس اپیل کی سماعت سے قبل سود کیخلاف فیصلہ دینے والے جج صاحبان جسٹس وجیہہ الدین احمد اور جسٹس خلیل الرحمٰن خان کو پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے کی بنا پر سپریم کورٹ سے فارغ کر دیا گیا۔
مولانا تقی عثمانی کا کنٹریکٹ بحال نہ کیا گیا جبکہ جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری پہلے ہی وصال فرما چکے تھے۔ سپریم کورٹ کے نئے بندوبست نے 24 جون 2002 کے تاریک دن جسارت کرتے ہوئے 1999 کے اپنے فیصلے اور وفاقی شرعی عدالت کے 1991 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور کیس اسی وفاقی شرعی عدالت میں از سر نو سماعت کے لیے بھیج دیا گیا جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ اسے حق سماعت ہی حاصل نہیں۔ ان 20 برس میں کتنے حکمران آئے اور چلے گیے۔ کتنے ججز تبدیل ہوئے، وفاقی شرعی عدالت کے 9 چیف جسٹس صاحبان تبدیل یا ریٹائرڈ ہوئے۔عدلیہ بحا��ی تحریک چلی، لانگ مارچ ہوئے، آئینی ترامیم ہوتی رہیں۔ لیکن کسی حکومت کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ سود جیسی نحوست سے جان چھڑائے اور اللہ کے ساتھ جنگ بند کر کے عجز و انکسار کا مظاہرہ کرے۔ 2002 سے لے کر اپریل 2022 تک تقریباً 20 سال یہ مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں لٹکا رہا۔ 
اور 28 اپریل 2022 بروز جمعرات کو بالآخر وفاقی شرعی عدالت کے جج جسٹس سید محمد انور نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے یہ قرار دیا کہ سود سے پاک بینکاری دنیا بھر میں ممکن ہے۔ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ معاشی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے حکومتوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن کسی حکومت نے اس حوالے سے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ پاکستان کی پارلیمان نے اس پر تحسین و تائید کی قرار داد منظور کی۔ اب یہ افسوسناک خبر پڑھنے کو ملی ہے کہ ا سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پانچ دیگر بینکوں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ کیا حکومتِ وقت کو اندازہ ہے کہ وہ کس کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے؟ کیا معاشی ماہرین جان بوجھ کر عذابِ خداوندی کو دعوت دے رہے ہیں؟ کیا وزیراعظم پاکستان اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ ہیں؟ خدا کے لیے ہوش کے ناخن لیں۔ اب تمام دینی اور سیاسی رہنماؤں کو اس موقف پر اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔ ملک کے تمام دینی ادارے اور علما ملکر اس مقدمے میں فریق بنیں اور پوری تیاری کے ساتھ سپریم کورٹ میں اس مقدمے کا دفاع کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی لیت و لعل سے کام لئے بغیر اس اپیل کو واپس لے، ملکی بینکنگ کو غیر سودی نظام پر منتقل کرے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
پاکستانیوں نے کریڈٹ کارڈ سے خریداری کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے
پاکستانیوں نے کریڈٹ کارڈز کے زریعے خریداری کے تمام ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعدادو شمار کے مطابق رواں برس پاکستان میں کریڈٹ کارڈز سے خریداری کے رجحان میں گزشتہ سال نومبر کے مقابلہ میں 27.3 فیصد اضافہ ہوا۔ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال نومبر میں صارفین نے کریڈٹ کارڈز کے ذریعے 85 ارب روپے کی خریداری کی تھی۔ پاکستانیوں نے اکتوبر میں کریڈٹ کارڈز کے ذریعے 105 ارب روپے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
کیا پاکستان کے معاشی بحران کی وجہ امریکہ ہے؟
پاکستان کے معاشی بحران کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا یہ محض غلط معاشی اور سیاسی پالیسیوں کا منطقی نتیجہ ہے یا اس کا تعلق امور خارجہ سے بھی ہے اور ناراض امریکہ پاکستان کو سزا دینے پر تلا ہوا ہے؟ معاشی مسائل نے پہلی بار پاکستان کا گھر نہیں دیکھا۔ قرض اور امداد کی درخواست لے کر تو ہم 1948 سے پھر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی پہلی بار معاملہ نہیں ہو رہا، یہ طویل کہانی ہے۔ سخت شرائط بھی آئی ایم ایف نے پہلی بار پیش نہیں کیں۔ برسوں سے شرائط بھی آتی رہیں اور معاملات بھی طے ہوتے رہے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ اس بار آئی ایم ایف کا رویہ ہی کچھ اور ہے۔ وہ کوئی بات مان ہی نہیں رہا اور اس نے عملاً پاکستانی حکومت سے ناک سے لکیریں کھنچوا دی ہیں؟ بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم فرما رہے ہیں اگر آئی ایم ایف نے مزید شرائط عائد نہ کیں تو امید ہے ہمارا اس سے معاہدہ ہو جائے گا۔ 
خود سپردگی کی کیفیت یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقے کو دیا گیا ٹیکس ریلیف دوسرے ہی ہفتے ’یو ٹرن‘ لیتے ہوئے نہ صرف واپس لے لیا گیا بلکہ ٹیکس کی شرح بھی تقریباً دگنی کر دی گئی۔ پیٹرول کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا اور ابھی کھیل جاری ہے۔ اس سے پہلے عمران حکومت نے آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے غیر معمولی ’قانون سازیاں‘ کر ڈالیں۔ سٹیٹ بینک کو خودمختار کر کے آئی ایم ایف کے ایک اہلکار کو اس کا سربراہ بنا دیا۔ روپے کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر معیشت کی چولیں ہلا دیں، لیکن اس کے باجود آئی ایم ایف کسی ہرجائی محبوب کی طرح دسترس سے باہر ہے۔ معاملہ کیا ہے؟ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں اور سب سے بڑی وجہ امریکی ناراضی ہے۔ غلط یا صحیح سے قطع نظر، قرائن بتاتے ہیں کہ امریکہ کے خیال میں افغانستان میں پاکستان نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا اور اب وہ غصے میں اس کا بدلہ چکانا چاہتا ہے۔ یہ غصہ کسی ایک حکومت کے ساتھ نہیں، پاکستان کے ساتھ ہے۔ 
چنانچہ بائیڈن نے اگر عمران خان کو فون نہیں کیا تھا تو ایسا کوئی رابطہ تاحال شہباز شریف کے ساتھ بھی نہیں ہوا۔ بظاہر امریکہ یہ بات دل پر لے چکا ہے کہ ’پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دے دی۔‘ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو جن مسائل کا سامنا رہا، واقفانِ حال کا دعویٰ ہے کہ اس کی وجوہات وہ نہیں جو بیان کی جاتی ہیں۔ اس معاملے میں کچھ حروف نا گفتہ بھی ہیں جن کا تعلق بین الاقوامی سیاست سے ہے اور پاکستانی نظام احتساب کی طرح ایسا نہیں ہے کہ کوئی اپنے نامہ اعمال کی بنیاد پر گرفت میں آ جائے بلکہ جس گستاخ کو گرفت میں لانا ہو اس کا نامہ اعمال نکال لیا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف سے آئی ایم ایف تک، اس پردہ زنگاری میں کوئی معشوق ہے، جس کا مزاج برہم ہے۔ یہ سوچنا اب ہمارا کام ہے کہ ’افغان جہاد‘ سے لے کر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ تک کا ایندھن بن کر ہم نے کیا حاصل کیا؟ 
یہ کیسی خارجہ پالیسی تھی کہ دونوں جنگوں میں ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر اپنا وجود گھائل کر لیا لیکن جنگ کے اختتام پر ہم ہی معتوب ٹھہرے۔ حتیٰ کہ افغان طالبان بھی بھارت سے قربت بڑھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں پارلیمان میں اپنی پالیسیوں پر با معنی تنقیدی جائزہ لینے کی رسم کب شروع ہو گی؟ نائن الیون کے بعد ہمیں امریکہ سے نئی شرائط پر معاملہ کرنا چاہیے تھا۔ ایک جمہوری حکومت ہوتی تو شاید بہتر معاملہ کرتی، لیکن پرویز مشرف غیر آئینی حکمران تھے۔ ان کے لیے یہی کافی تھا کہ دنیا ان کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے معاملہ کر لے۔ آمر چونکہ داخلی سطح پر حلقہ انتخاب سے محروم ہوتا ہے تو وہ عالمی برادری میں اپنی اہمیت بنانے کے لیے اسی کو حلقہ انتخاب سمجھتا ہے۔ چنانچہ وہ یوں قائل ہو ئے کہ فون کرنے والے بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ معیشت کے اس سونامی سے نکلنے کے لیے ہمیں پہلی بات تو یہ سمجھنا ہو گی کہ ہمیں امور خارجہ کی صورت گری پر نظر ثانی کی ضروت ہے۔ 
کوئی کمی رہ گئی تھی تو تحریک انصاف کے وزیر خزانہ اسد عمر نے پوری کر دی جنہوں نے آتے ہی انقلابی اور غیر ذمہ دارانہ بیانات سے معیشت اور امور خارجہ دونوں کو بازیچہ اطفال بنا دیا۔ صبح شام وہ آئی ایم ایف کی غلامی کی زنجیر توڑ پھینکنے کے رجز پڑھتے اور انہیں اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ معاشی حقائق کیا ہیں۔ امور خارجہ کانچ کی طرح نازک ہوتے ہیں، یہ جذباتی گنڈاسے سے حل نہیں ہوتے۔ چنانچہ غیر ذمہ دارانہ اسلوب گفتگو سے جب معاملات بگاڑ دیے گئے تو اسد عمر صاحب خود تو وزارت خزانہ سے الگ ہو گئے لیکن آئی ایم ایف نے سارے حساب چکا دیے اور پھر اسی تحریک انصاف نے ہاتھ باندھ کر اسی آئی ایم ایف کی ہر شرط مانی، جس کے خلاف رجز پڑھے جاتے تھے۔ معیشت بہتر تو کبھی بھی نہ تھی لیکن یہ اسد عمر ہی تھے جنہوں نے معیشت کو بند گلی میں لا چھوڑا اور ان کا کام آسان کیا جو پاکستان کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔ 
پھر بھی اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ عمران خان کے حالیہ امریکہ مخالف بیانیے نے پوری کر دی ہے۔ معیشت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن عالم یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس معاشی ماہرین کی کوئی ٹیم ہی نہیں ہے۔ سیاسی جماعت کو کسی نے ادارہ بنایا ہی نہیں۔ خوشامد اور تذلیل ہی ان کا مبلغ زاد راہ بن چکا ہے۔ قومی مسائل پر سنجیدہ مباحث کا نہ ذوق ہے نہ اہلیت۔ چنانچہ جب اقتدار ملتا ہے تو سب کو انہی چند دستیاب ’معاشی ماہرین‘ سے کام چلانا پڑتا ہے جو اکانومی تو سمجھتے ہیں لیکن پولیٹیکل اکانومی سے بے نیاز ہیں۔ اکانومی ایک بے رحم کھیل ہے۔ آپ کے پاس دس روپے ہیں تو روٹی ملے گی ورنہ نہیں، چاہے مر جاؤ، لیکن پولیٹیکل اکانومی کہتی ہے کہ نہیں، ہم نے اعداد و شمار اور عوام کی مجبوریوں میں توازن رکھنا ہے، اس لیے آٹھ روپے کی روٹی دے دو، باقی کے دو روپے ہم کہیں سے پورے کر دیتے ہیں۔ 
وزیر خزانہ صرف ’معیشت کا ماہر‘ ہو تو وہ اعدادوشمار ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے لیکن وزیر خزانہ اگر سیاست کی دنیا کا آدمی بھی ہو تو وہ اعداد وشمار کے ساتھ عوام کی غربت، ان کی قوت خرید اور ان کے مسائل کو بھی مد نظر رکھتا ہے۔  جمہوریت کی بنیاد ہی اسی اصول پر ہے کہ معاشی نظام منتخب لوگ چلائیں۔ No Taxation without representation کا اصول یہی تھا کہ ٹیکس عوامی نمائندوں کے فیصلے کے بغیر نہ لگایا جائے۔ حفیظ شیخ سے شوکت ترین اور مفتاح اسماعیل تک یہ لوگ ’اکانومی‘ کے بندے ہیں، ’پولیٹیکل اکانومی‘ کے نہیں۔ ان کی بلا سے عوام پر کیا گزرتی ہے، ان کی منزل مقصود اعداو شمار کا گورکھ دھندا ہے۔چنانچہ عالم یہ ہے کہ پون صدی گزار کر بھی ہمارے دامن میں دو ہی معاشی اصول ہیں۔ پہلا یہ کہ آئی ایم ایف سے قرض ملے گا تو معیشت چلے گی۔ دوسرا یہ ہے کہ قرض نہیں ملے گا تو ہم دیوالیہ ہو جائیں گے۔ ہمارے پاس نہ کوئی اور متبادل ہے نہ کوئی ویژن اور صلاحیت ہے جو متبادل تلاش کر سکے۔ اب تو لگتا ہے کہ لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کی نوبت آئی تو کپڑے کے لیے بھی آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑے گا۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
جوڈیشل ایکٹیوازم : کب تک، کہاں تک ؟
Tumblr media
ایک پارلیمانی جمہوری طرز معاشرت میں جوڈیشل ایکٹیوازم کو کب تک اور کہاں تک گوارا کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال وقت نے انگارے کی صورت ایک بار پھر معاشرے کی ہتھیلی پر رکھ دیا ہے۔ ہم چاہیں تو اسے یہیں بجھا دیں، چاہیں تو اس سے سب کچھ جلا لیں۔ بالعموم، سوموٹو ہی کی کارروائی کو جوڈیشل ایکٹیوازم سمجھا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تصور بہت وسیع ہو چکا ہے اور اس سے جڑے چیلنجز بھی بہت سنگین ہو چکے ہیں۔ جب پارلیمان 2012 میں توہین عدالت کے قانون میں ترمیم کرتی ہے تو سپریم کورٹ پارلیمان کے بنائے اس قانون کو کالعدم قرار دے دیتی ہے۔ یہ بھی بظاہر جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔ جب آئین میں آرٹیکل 184 سب کلاز تین میں از خود نوٹس کے سپریم کورٹ کو دیے گئے اختیارات کی تشریح کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے صرف چیف جسٹس مراد لیا جاتا ہے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔ جب سموسوں کی قیمتوں میں اضافے پر از خود نوٹس لے لیا جاتا ہے یا جب عتیقہ اوڈھو کے بیگ سے شراب کی مبینہ بوتل برآمد ہونے پر سوموٹو کی کارروائی شروع ہو جاتی ہے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔
جب بینچ بنانے کے اختیارات کا یوں استعمال ہو کہ پارلیمان بھی سراپا سوال بن جائے اور جب بینچوں کی تشکیل میں اہم ترین مواقع پر سینیئر ترین جج کو نظر انداز کیا جائے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔ جب بینچ میں کسی جج کو شامل کرنے کی شان نزول یہ بیان کی جائے کہ کسی کو خاموش پیغام دینا مقصود تھا تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔ جب اس پر پارلیمان قانون بنانے لگے اور صوابدیدی اختیارات ختم کرتے ہوئے باقاعدہ طے کرنا چاہے کہ سوموٹو کیسے لیا جائے گا اور بینچ کی تشکیل کیسے ہو گی، لیکن عدالت پارلیمان کے قانون بنانے سے ہی پہلے اس کے خلاف فیصلہ کر دے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔ جب الجہاد ٹرسٹ کیس میں طے شدہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں لایا جائے اور پارلیمانی کمیشن عملاً غیر متعلق ہو جائے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔ جب آئین کی تشریح کا دائرہ کار اتنا وسیع ہو جائے کہ اسے ری رائٹ ہی کر دیا جائے، جب ڈی فیکشن کلاز کی شرح کے نام سرے سے ووٹوں کو ہی مسترد کر دیا جائے، باوجود اس کے کہ یہ بات آئین میں کہیں موجود ہی نہ ہو تو گویا یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔
Tumblr media
جب عدالت کے پاس خود آئین میں ترمیم کا اختیار نہ ہو اور وہ یہ اختیار حاکم وقت کو دے دے کہ وہ آئین کو آئین میں دیے گئے اصول کی بجائے اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتا ہے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہی کی ایک انتہائی شکل ہے۔ جب کہا جائے کہ عدلیہ میں چین آف کمانڈ پیدا ہو چکی ہے تو یہ تصور آئین میں اجنبی ہے اور اسے بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہی کہا جائے گا۔ جب ٹرائل کورٹ کے اوپر ایک نگران جج تعینات کر دیا جائے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔ جب چیف جسٹس ڈیم بنانے کی اضافی ذمہ داری اپنے سر لے لیں اور ڈیم فنڈ قائم کر دیا جائے تو یہ بھی جوڈیشل ایکٹیوازم ہے۔ اختیارات کی تقسیم آئین پاکستان کی مبادیات میں سے ہے۔ جوڈیشل ایکٹیوازم حد سے بڑھ جائے تو یہ تقسیم ختم ہونے لگتی ہے اور اس سے بہت ساری قباحتیں جنم لیتی ہیں۔ جوڈیشل ایکٹیوازم کی پاکستان نے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ریکوڈیک اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ہم چھ ارب ڈالر جرمانہ کروا بیٹھے۔ اس وقت ناک سے لکیریں کھینچ کر ہم نے آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر قرض کا وعدہ لیا ہے۔ 
یہ چھ ارب ڈالر جوڈیشل ایکٹیوازم کا ادنیٰ سا خراج تھا۔ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے وقت عدالت نے چیف ایگزیکٹیو کو حکم دیا تھا اور حکم عدولی پر وہ نااہل ہوئے۔ اب کی بار عدالت نے چیف ایگزیکٹیو سے باز پرس سے پہلے سٹیٹ بینک کے گورنر کو براہ راست حکم دے دیا ہے۔ یہ بھی بظاہر جوڈیشل ایکٹیوزم ہی تو ہے۔ لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ اس سے ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو کیا پیغام گیا ہو گا جنہیں ہم نے معاشی اصلاحات کے بعد بتایا تھا کہ اب سٹیٹ بینک خود مختار ہو چکا۔ خدا نہ کرے اس کی قیمت ریکوڈیک سے بھی زیادہ ادا کرنی پڑ جائے۔ سوال اب یہ ہے کہ یہ جوڈیشل ایکٹیوازم کب تک اور کہاں تک؟ پارلیمان کو کسی اشتعال اور ردعمل کی کیفیت کا شکار ہوئے بغیر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا اور اس بارے میں قانون سازی کرنا ہو گی اور قانون سازی کے اپنے اس حق پر اصرار کرنا ہو گا۔ 
اہل سیاست کا کردار بھی اس باب میں شاندار نہیں ہے۔ ان کی قانون سازی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ جب ان کا مفاد خطرے میں پڑتا ہے تو انہیں یاد آتا ہے کہ سپریم کورٹ کے رولز اینڈ پروسیجرز میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ وہ اپنے مفاد کے لیے نیب کا قانون بدلتے ہیں۔ وہ قانون سازی کو بھی اسی مفاد کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور عدالتی فیصلوں کو بھی اپنے مفاد کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔ ایسے میں ان پر جوڈیشل ریویو کا چیک نہ ہونے کا مطلب پارلیمان کا بالادستی نہیں بلکہ جمہوری آمریت ہو گا۔ توازن ہی زندگی کا حسن ہے اور اعتدال ہی میں نجات ہے۔ سب کو آئین میں دیے گئے دائرہ کار میں لوٹ جانا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔
آصف محمود 
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
spotstory · 2 years
Photo
Tumblr media
حکومت پاکستان نے 75 روپے کا نوٹ چھاپنے کی منظوری دیدی اسلام آباد (سپاٹ سٹوری): پاکستان کی 75 ویں سالگرہ پر 75 روپے کا یادگاری نوٹ چھاپنے کی منظوری دیدی گئی ۔ وزارت خزانہ نے سٹیٹ بینک کو 75 روپے کا یاد گاری نوٹ چھاپنے سے آگاہ کر دیا جبکہ وفاقی کابینہ کی جانب سے یادگاری نوٹ کے ڈیزائن کی منظوری بھی دیدی گئی ہے ۔ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ 75 روپے کے نوٹ کی چھپائی مقامی کاغذ پر ہوگی۔ وزارت خزانہ نے نوٹیفکیشن جاری کر دیاہے ۔ (at Islamabad اسلام آباد) https://www.instagram.com/p/Ce6M_AKqKAN/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا؟
جبار خان کی عمر 85 سال ہے۔ ان کا تعلق پاکستان کے بڑے کاروباری گھرانے سے ہے۔ ملکی حالات کے باعث انھوں نے تین ٹیکسٹائل فیکٹریاں بند کر دی ہیں۔   ایک کیمیکل کا یونٹ بیچ دیا ہے اور آبائی جائیداد بیچنے کا سوچ رہے ہیں۔  انھوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ سٹیٹ بینک اور چیمبر کے باہر احتجاج بھی کیا ہے۔   وہ کہتے ہیں ’ملک میں جو معاشی حالات آج ہیں وہ تقریباً 48 سال قبل پاکستان ٹوٹنے کے فورا بعد پیدا ہوئے تھے۔‘…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes