Tumgik
#تاجک صدر
akksofficial · 1 year
Text
تاجک صدر امام علی رحمان کی دوروزہ دورے پر اسلام آباد آمد، 21توپوں کی سلامی دی گئی
تاجک صدر امام علی رحمان کی دوروزہ دورے پر اسلام آباد آمد، 21توپوں کی سلامی دی گئی
اسلام آباد(نمائندہ عکس) تاجکستان کے صدر امام علی رحمان دوروزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے، تاجک صدر وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کرر ہے ہیں،اسلام آباد ایئرپورٹ پر وفاقی وزیرتعلیم سید نوید قمر نے معزز مہمان کا استقبال کیا، تاجک صدر کو گلدستے بھی پیش کیے گئے، تاجک صدر اور وفاقی وزیر تجارت کے درمیان تبادلہ خیال کیا گیا،تاجک صدر امام علی رحمان کو 21توپوں کی سلامی دی گئی، پاکستان اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
spitonews · 1 year
Text
پاکستان، تاجکستان تعلقات کی نئی جہت
پاکستان، تاجکستان تعلقات کی نئی جہت
پاکستان اور تاجکستان نے تجارت، معیشت، توانائی، زراعت، سیکیورٹی، صنعت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے اور قریبی اور برادرانہ تعلقات کو مزید تقویت دینے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تاجک صدر کے دورے کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم بنانے اور تعاون کے نئے دور کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ تاجکستان کا وسط ایشیا میں ایک بہت ہی اہم مقام ہے اور یہ خطے کے لیے ’’گیٹ وے‘‘…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
تاجکستان ، طالبان میں‌ کشیدگی بڑھنے پر وزیراعظم کا تاجک صدر کو فون
تاجکستان ، طالبان میں‌ کشیدگی بڑھنے پر وزیراعظم کا تاجک صدر کو فون
تاجک حکومت اور افغان طالبان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے ثالثی کا کردارادا کرتے ہوئے تاجک صدر امام علی رحمٰن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ یہ فون کال ایسے وقت میں کی گئی جب طالبان حکام اور تاجک حکومت کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduu · 5 years
Text
یاد ماضی
مین سٹریم اور سوشل میڈیا میں اکثر پچاس ، ساٹھ اور ستر کی دہائی کے پاکستانی شہروں کی ایسی تصاویر لگائی جاتی ہیں جو بہت ہانٹ کرتی ہیں اس دور کے پاکستانی شہروں کا جدید پسند ، روادار، آزاد خیال اور ترقی پسند ماحول دیکھ کر نہ صرف اس گزرے ماضی کا ناسٹیلجیا جنم لیتا ہے بلکہ قاری آج کے شہروں کا ماحول دیکھ کر سوچنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ دراصل ہم نے تو ترقی کی بجائے تنزلی کی اگر ہمارا ماضی ایسا ہی تھا۔
آخر یہ ترقی معکوس کیوں ہوئی، اس کی عام وضاحت تو جنرل ضیا اور افغان جہاد کی صورت میں دی جاتی ہے لیکن یہ دو سیاسی وجوہات کافی نہیں اور بہت سے سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں مثلاً کیا ان دو واقعات نے پورے معاشرے کی بنت اور سوچ ہی تبدیل کردی؟ کیا فرد واحد یوں ایک معاشرہ کو اس کے مرضی کے خلاف تبدیل کرسکتا ہے روبوٹ کی طرح ؟ ایسا کبھی ہوا نہیں پھر باقی مسلم دنیا افغانستان ، ایران ، لبنان و��یرہ بھی اسی دور میں اسی طرح تبدیلی کے عمل سے گزرے تو وہاں بھی کیا ضیا نے کچھ کیا؟
اس تمام تجزیہ سے سماجی پہلو نکال دیا جاتا ہے تو سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں اگر اس تصویر میں سماجی جہت کو بھی شامل کرلیا جائے تو تصویر مکمل ہوجاتی اور ہر چیز اپنی جگہ پہ بیٹھ جاتی ہے۔ یہ ایک سماجی پروسیس تھا جو کم و بیش تمام مسلم معاشروں پہ اسی دور میں اثرانداز ہوا اسکو سمجھے بغیر مکمل کہانی سمجھ نہیں آ سکے گی۔
پچاس کی دہائی کے لگ بھگ جب مسلم ممالک آزاد ہوئے تو ان ممالک کی باگ ڈور جس طبقہ نے سنبھالی وہ جدید مغربی تعلیم یافتہ طبقہ تھا لیکن مسلم معاشروں کے اندر ایک کشمکش نوآبادیاتی دور سے ہی چلی آرہی تھی اس کشمکش کو جدیدیت پسند شہری کلچر اور روایت پسند دیہی مذہبی کلچر کی کشمکش کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ شہروں کی تعلیم یافتہ کلاس پہ جدید مغرب کی چھاپ کافی نمایاں تھی جبکہ دیہی عوامی کلچر پہ قدامت پسند مذہبیت کی چھاپ تھی۔ مذہبی طبقہ جدیدیت سے خوفزدہ تھا اور اسے مغربیت گردانتا تھا اسے خوف تھا کہ جدیدیت اپنے ساتھ مغربیت لائے گی اور پرانے روایتی کلچر کو بہا لے جائے گی کچھ اسے اپنی اجاراداری کے خاتمے کا بھی ڈر تھا اس لئے جدیدیت کو مغربیت، عریانی اور فحاشی سے تعبیر کرتا تھا۔
لیکن پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں انفراسٹکچر کی کمزوری کے باعث دیہی طبقہ دیہات یا چھوٹے شہروں تک محدود تھا جبکہ شہروں بالخصوص بڑے شہروں کا کلچر جدیدیت کا حامل تھا اسی لئے اس عہد کی تصویریں آج کے شہروں کی نسبت بہت آزاد خیال اور روادار معاشرے کی جھلک دکھاتی ہیں۔ یہ معاملہ پاکستان کی حد تک نہ تھا بلکہ تمام مسلم دنیا یہی تصویر پیش کرتی تھی افغانستان جو پاکستان کی نسبت معاشی اور ہر لحاظ سے پسماندہ تھا وہاں کابل کا شہری معاشرہ جو تاجک آبادی پہ مشتمل تھا جدیدیت یا مغربیت میں پاکستانی شہری معاشرہ سے کہیں آگے تھا جبکہ افغانستان کا دیہی پشتون معاشرہ پاکستان کے دیہی پشتون معاشرہ کی نسبت کہیں زیادہ پسماندہ اور تنگ نظر تھا لیکن کمزور انفراسٹکچر کی وجہ سے شہری تاجک اور دیہی پشتون دو الگ دنیاؤں میں رہ رہے تھے۔
ایران ، لبنان ، ترکی الغرض ہر جگہ کم و بیش مجموعی صورتحال ایسی ہی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ تبدیلی کا عمل بھی جاری تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ ان نوآزاد ملکوں میں اس وقت کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ نے ملکوں کی ترقی کے لیے بے مثال کام کیا پاکستان کے حکمران طبقے اور بزنس انڈسٹریل کلاس نے ایشیا مین ترقی کے ریکارڈ توڑے اس کے ساتھ انفراسٹکچر بھی بہتر ہوتا گیا اور دیہاتوں سے مذہبیت کے حامل قدامت پسند دیہی کلچر کی عوامیت بھی رفتہ رفتہ شہروں کا رخ کرنے لگی ابتدا میں انکی تعداد بہت کم تھی تو شہری کلچر کا ہی حصہ بنتے گئے لیکن ستر کی دہائی تک کیفیت بدلنا شروع ہوئی جیسے جیسے قدامت پسند مذہبی کلچر کی افرادی قوت بڑھتی گئی تو ایک تضاد یا ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوئی۔ قدامت پسند دیہی کلچر کی قیادت روایتی طور پہ مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں تھی جو جدیدیت پسند شہری کلچر کو مغرب زدہ عریانی اور فحاشی کو پھیلانے والا اور معاشرے کے لیئے خطرہ قرار دیتا تھا ان کے مطابق اگر اس عریانی اور بے حیائی کو نہ روکا گیا تو یہ معاشرہ کو زوال پذیر کردے گا۔
ستر کی دہائی کے دوسرے وسط تک شہروں میں قدامت پسند طبقہ کی نمائندگی کافی مضبوط ہوچکی تھی لہذا خطہ بھونچالوں کی زد میں آنا شروع ہوگیا۔ اگرچہ افغانستان میں سردار داؤد کے خلاف قدامت پسند مذہبی طبقہ کی تحریک کی بھٹو نے بھی جواباً سرپرستی کی لیکن یہ تقسیم اور ٹکراؤ پہلے سے ہی موجود تھی اور انکے داؤد پہ الزمات یا شکایات بعینہ وہی تھے جو پی این اے کی تحریک نظام مصطفی میں بھٹو پہ لگائے گئے یا شاہ ایران پہ۔ بھٹو اور شاہ ایران کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انکے خلاف وہ طبقہ جو خود کو ماسکو نواز ترقی پسند کہلاتا تھا بھی مذہبی طبقہ کی تحریک میں شامل تھا۔
بھٹو کے خلاف نظام مصطفی کی یہ تحریک اپنی بھرپور اور ہمہ گیر تھی کہ ملک تقریباً مفلوج ہی ہوکر رہ گیا تھا اور اگر ضیا مارشل لاء نہ بھی لگاتا تو یہ کہنا مشکل ہے کہ بھٹو کامیابی سے ملک اور حکومت چلا سکتا تھا اسی طرح شاہ ایران کے خلاف تو عوام کا ایک سیلاب تھا جو امڈ پڑا اور اسے جاتے ہی بنی۔
افغانستان کی حد تک فوج نے داؤد کی چھٹی کرا طاقت کے زور پہ حالات کنٹرول کرنا چاہے لیکن نتیجہ الٹ نکلا۔ اس طرح ۱۹۸۰ تک ماحول ہی بدل چکا تھا۔
جہاں تک سیاسی عوامل کا تعلق ہے تو وہ بھی اتنے چھوٹے ، محدود اور مقامی نہیں تھے جتنے ہمارے تجزیہ کار بتاتے ہیں سیاسی عوامل بھی کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر تھے۔ مشرق وسطی کے ممالک کی اپنی اندرونی کشمکش تھی یہ جدیدیت پسند روس نواز فوجی ڈکٹیٹروں اور امریکہ نواز قدامت پسند عرب بادشاہتوں میں تقسیم تھا۔ عمومی امریکی رویہ یہ تھا کہ اگر کوئی جدیدیت پسند ڈکٹیٹر امریکہ نواز ہوتا شاہ ایران کی طرح تو امریکہ اسے قدامت پسند بادشاہتوں پہ ترجیح دیتا تھا لیکن خمینی کے اسلامی جمہوری انقلاب کے نعرے نے یکدم سے ماحول بدل دیا ڈکٹیٹر اور بادشاہ بیک وقت اس نعرے سے خوفزدہ تھے اور انکے آپسی اختلافات پس ��شت چلے گئے اسی لیے ایران عراق جنگ میں باشاہتوں نے صدام کی حمایت کی شاہ ایران کے جانے کے بعد امریکہ نے بھی اپنا سارا وزن عرب بادشاہتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ادھر عرب بادشاہتوں نے مسلم ممالک میں قدامت پسند اسلام کی ترویج کے لئے باقاعدہ سرمایہ کاری کی کیونکہ قدامت پسند اسلام بادشاہت کا روایتی طور پہ عادی تھا اسی لئے پاکستان کا اسلامسٹ جو پہلے مودودی کی سوچ سے متاثر تھا اب رفتہ رفتہ مدارس کے اسلام کی طرف رجحان رکھنے لگ گیا۔ ضیا کی بجائے کوئی اور ہوتا تو شائد اس کے لئے بھی اس مجموعی سیاسی ماحول سے کوئی جائے مفر نہ ہوتی لیکن ضیا تو خود قدامت پسند دیہی مذہبی فکر سے تعلق رکھتا تھا تو کچھ اور سوچنے کی گنجائش ہی کب تھی؟
ادھر اسی کی دہائی کے پاکستان مین شہراؤ کا عمل کہیں اور تیز ہوگیا اور شہروں میں اب بھاری تعداد قدامت پسند دیہی مذہبی فکر کے حامل طبقہ کی تھی تو تبدیلی کا یہ عمل مکمل ہی ہوگیا اس وقت کے پاکستانی شہروں کی معاشرت نے وہ رخ اختیار کرلیا جو ہم آج دیکھ رہے ہیں اور جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے بالکل معکوس رخ پہ نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ضیا تو ۱۹۸۸ میں چلا گیا لیکن اسکا شروع کیا ہوا عمل ریورس نہ ہوسکا کیونکہ شہروں میں وہ جدیدیت پسند طبقہ نہ صرف پسپا ہوچکا تھا بلکہ اب تو اقلیت بن چکا تھا الیکشن یا جمہوریت بھی ان تبدیلیوں کو ریورس نہ کرسکتی تھی یہی وجہ ہے کہ ضیا کے بعد کے جمہوری دور میں بھی معاشرہ اسی ڈھب پہ چلتا آیا جو ضیا کے دور میں متعین ہوچکی تھی۔
صرف ایک ہی طاقت تھی جو جنوب مشرقی ایشیا کی طرح جدیدیت پسندی کی حمایت کرسکتی تھی اور وہ تھی انڈسٹریل بزنس کلاس کی معاشی اور کاروباری ضروریات لیکن بھٹو دور کی نیشنلائزیشن کے بعد پاکستان کی وہ کلاس جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی حیرت انگیز معاشی کارکردگی کی ذمہ دار تھی، ملک چھوڑ کر ہی جاچکی تھی کچھ نے یورپ میں بینکنگ شروع کردی کوئی ہانگ کانگ میں شپنگ سے وابستہ ہوگیا کوئی جرمنی میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے لگا۔ جو باقی رہ گئے تھے وہ انڈسٹریل کلاس کہلانے کے لائق نہ تھے بلکہ دیگر ممالک کے موازنہ میں چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے تاجر تھے جنکا سکوپ ، ضروریات اور مفادات بہت محدود درجہ کے تھے۔
مسلم ممالک میں جدیدیت پسند اور قدامت پسند مذہبی کلچر کے ٹکراؤ کی دلچسپ مثال مراکش اور الجزائر کا موازنہ ہے۔ مراکش کی نسبت الجزائر آزادی سے ہی بہت زیادہ جدیدیت پسند سمجھا گیا حواری بومدین کے دور سے وہ مراکش کی نسبت کہیں زیادہ خوشحال تھا اس کے شہروں کا ماحول یورپ کے شہروں سے ملتا تھا جس میں اس دور میں الجزائری خواتین میں ساحل سمندر پہ غسل آفتابی ایک عام روایت تھی۔ جبکہ مراکش اس کی نسبت کمزور معیشت کی حامل بادشاہت تھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد الجزائر کے صدر کو مغرب کے قریب آنا پڑا تو مغرب بالخصوص فرانس کے دباؤ پہ شاذلی بن جدید کے دور میں جمہوریت لانے کی کوشش ہوئی اور ۱۹۹۱ میں انتخابات ہویے لیکن انکا نتیجہ سب کی توقعات کے برعکس تھا اور شدت پسند اسلامسٹ پارٹی نے میدان مار لیا۔
یہ نتائج اتنے غیر متوقع تھے کہ نہ صرف الجزائر کی حکمران فوجی کونسل نے صدر شاذلی بن جدید کی چھٹی کرا کے ان انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا بلکہ خود مغرب نے بھی خوفزدہ ہو کر اس اقدام کی تائید کی اس کے بعد الجزائر ایک لمبا عرصہ خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس کے برعکس سست رفتار مراکش رفتہ رفتہ آئینی بادشاہت کی طرف بڑھتا گیا جہاں جدیدیت پسند شہری کلچر اور قدامت پسند دیہی مذہبی کلچر دونوں کے نمائندے شاہ پرست تھے اور بادشاہت پہ متفق تھے اس طراح مراکشی معاشرہ میں وہ پولرائزیشن پیدا نہ ہوئی جو دیگر مسلم معاشروں میں جدیدت پسندوں اور قدامت پسندوں کا خاصہ رہی۔ یوں بالاخر آج مراکش میں جدید پسند معاشرتی رویہ گراس روٹ لیول پہ پہنچنے کا دعوی کرسکتا ہے جو دیگر مسلم ممالک میں شاذ ہی موجود ہے۔
پاکستان ایک نئی معاشرتی سطح سے دوچار ہے یہ جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ اربنائزڈ ملک ہے جہاں دیہی کے مقابلہ میں شہری آبادی کا تناسب ساٹھ فیصد کے قریب ہے اس تبدیلی نے اثرات بھی مرتب کئے ہیں تعلیم ، انفراسٹکچر اور ابلاغ بڑھا ہے معاشی ڈھانچہ اور ضروریات تبدیل ہورہی ہیں اس وجہ سے قدامت پسند مذہبی طبقہ کی اپیل دن بدن گھٹتی جارہی ہے اور حالیہ ادوار میں مذہبی طبقہ نے جو سیاسی جوئے کھیلے اس کی وجہ سے عوام میں انکی اہمیت اور تاثر گھٹتا گیا۔ سیاسی حالات بھی بدل چکے ہیں ریاست کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے وہ جدیدیت سے ہم آہنگ ہوئے بغیر عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ دیکھتے ہیں کہ کل کے پاکستانی شہروں کا ناک نقشہ کیسا ہوتا ہے
11 notes · View notes
columnspk · 2 years
Text
Ukraine Hamla Aur Tajik Taliban
Ukraine Hamla Aur Tajik Taliban
یوکرین حملہ اور تاجک طالبان تاجک صدر کے تاجک طالبان کے حق میں اور افغان طالبان کے خلاف حالیہ بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ تاجکستان امریکہ کا انتہائی قریبی سٹریٹجک پارٹنر ہے جبکہ اس کی معیشت اور دفاع کا مکمل انحصار روس پر ہے۔ تاجکستان کے صدر نے یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے روس کی حمایت کی ہے جو شاید صدر تاجکستان کے پاس واحد انتخاب ہے۔ تاجکستان سے تاجک طالبان پناہ گزینوں کی افغانستان ہجرت…
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 3 years
Text
وزیراعظم عمران خان نے تاجک صدر سے افغانستان کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے تاجک صدر سے افغانستان کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے ہفتہ کو تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور 16-17 ستمبر کو دوشنبے کے حالیہ دورے کے دوران ان کی اور ان کے وفد کی مہمان نوازی پر شکریہ ادا کیا۔ پرائم منسٹر آفس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے گزشتہ ماہ دوشنبے میں ہونے والے مذاکرات کی پیروی کے بارے میں خیالات کا تبادلہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعاون کی موجودہ سطح پر اطمینان کا اظہار کیا اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
وزیراعظم اور تاجک صدر کے درمیان رابطہ، افغان معاملے پر گفتگو - اردو نیوز پیڈیا
وزیراعظم اور تاجک صدر کے درمیان رابطہ، افغان معاملے پر گفتگو – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان اور تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں رہنماؤں نے دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کا عزم کیا ساتھ ہی افغانستان کے معاملے پر بات چیت کی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے تاجک صدر کا دوشنبے کے حالیہ دورے پر مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دوشنبے میں ہونے والی بات چیت کو دہرایا۔ دونوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
اشرف غنی نے بطور صدر اڑان بھری مگر لینڈنگ مفرور شخص کی حیثیت سے کی فواد چودھری 
اشرف غنی نے بطور صدر اڑان بھری مگر لینڈنگ مفرور شخص کی حیثیت سے کی فواد چودھری 
اشرف غنی نے بطور صدر اڑان بھری مگر لینڈنگ مفرور شخص کی حیثیت سے کی ، فواد …
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی سے متعلق کہا کہ جب انہوں نے رات ڈھائی بجے اڑان بھری تو وہ صدر کی حیثیت سے تھی مگر وہی پرواز جب ہمسایہ ملک میں لینڈ کی تو ان کی حیثیت ایک مفرور شخص کی تھی ، یہی حال پاکستان میں تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کا لندن میں ہے ۔
اسلام آباد میں لیڈر ان اسلام سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ ہمارے ہاں بھی تین تین سال تک وزیر اعظم رہنے والے مفروریت کی زندگی گزار رہے ہیں ، مسئلہ ان کی بے ایمانی کا تھا جس کے باعث وہ اس حال میں ہیں ، تو قسمت ، حوصلہ اور ایمانداری آپ کو ہیرو بناتی ہے ۔وزیر اعظم نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ افغانستان میں مخلوط حکومت کے خواہاں ہیں کیوں کہ افغانستان میں پختونوںکی اکثریت ہے مگر تاجک افراد کی اقلیت کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ، وزیر اعظم کا ماننا ہے کہ جب تک تاجک اور پختون مل کر افغانستان میں حکومت سازی کا معاہدہ نہیں کرتے تب تک ملک میں استحکام نہیں آئے گا ، اگر کوئی ایک فریق حکومت بنا بھی لیتا ہے تو چھ مہینے سال بعد دوسرا فریق اس کے خلاف میدان میں آجائے گا۔پاکستان پوری کوشش کر رہا تھا کہ یہاں مذاکرات کے ذریعے معاملات حل ہوں مگر اشرف غنی نے اس مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا جس کے نتیجے میں اسے افغانستان سے بھاگنا پڑا ۔ پاکستان کی لیڈر شپ کا کردار مستحکم افغانستان کو جنم دے گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے دورہ منسوخ کرنے پر آج وفاقی وزیر داخلہ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بات کروں گا، پاکستان کے خلاف جب جب سازش ہوئی یہ ملک اتنا بھی مضبوط بن کر ابھرا ، 20سال تک افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی ، افغانستان میں ایسی حکومت رہی جس کا مقصد صرف پاکستان کو نقصان پہنچانا تھا ، کوشش کی جاتی رہی کہ ہمارا مشرقی اور مغربی بارڈر کمزور ہو ، مگر بیس سال کے بعد آج سازشیں کرنے والے ناکام رہے اور خطے میں فیصلوں کیلئے پاکستان کی جانب دیکھا جا رہا ہے ۔
فواد چودھری نے کہا کہ آج دنیا بھر میں پاکستان اہمیت کا حامل ملک ہے ، افغانستان میں حکومت سازی کا معاملہ ہو یا سینٹرل ایشیا کو سی پیک کے ساتھ ملانے کی بات، چاہے سی پیک کے یورپی یونین سے کنکشن بنانے کا معاملہ ہو ، ہر طرح سے پاکستان کے فیصلوںپر انحصار کیا جا رہا ہے ۔ہم بھارت سے بھی اچھے تعلقات کی بات کرتے ہیں ، ہمارا بھ��رت کے عوام کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے ، ہندوستان کے حکمران سب سے بڑا مسئلہ ہیں، وہ ووٹ اسی بات پر لیتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو ختم کریں گے ، وہ پاکستان کے خلاف نہیں ، مسلمانوں کے خلاف ہے ۔ نریندر مودی کا عروج مسلمانوں کے قتل عام کی بناءپر ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ آر ایس ایس سے متاثر نظریہ نیچے جائے ، کوئی ماڈریٹ لیڈر شپ ابھرے ، مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ 
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان کو گلوبل لیڈر بنانا وزیر اعظم کا ویژن ہے ، ہم ازبکستان گئے وہاں دو معاہدے سائن کئے ، ایک معاہدہ ٹرانس مزار شریف ٹرین کا اور دوسرا معاہدہ ٹرانس ٹرک کا کیا، اس میں گوادر کراچی کو ٹرین سے تاشقند سے ملائیں گے جو مزار شریف سے ہو کر گزرے گی ، دوسرے معاہدے میں ہم چاہتے ہیں کہ جب ہمارے ٹرک گوادر یا کراچی سے نکلیں تو پہلی بار ان کا کسٹم تاشقند میں جا کر ہو ۔سی پیک پہلے سینٹرل ایشیا سے جڑ جاتی ہے اور پھر آگے جا کر یورپی یونین سے جڑ جاتی ہے ، سی پیک اور یورپی یونین کو اکٹھا کرنا وزیر اعظم پاکستان کا ویژن ہے ۔
مزید :
اہم خبریں –سیاست –
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 388666161164782, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی طالبان حکومت میں شمولیت کیلئے مذاکرات شروع کردیے، وزیراعظم
تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی طالبان حکومت میں شمولیت کیلئے مذاکرات شروع کردیے، وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کیلئے طالبان سے مذاکرات شروع کردیے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ ’دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے طویل بات چیت کے بعد میں نے ایک شمولیتی حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 3 years
Text
وزیر اعظم عمران خان تاجکستان پہنچ گئے
وزیر اعظم عمران خان تاجکستان پہنچ گئے
وزیر اعظم عمران خان دو روزہ دورے پر تاجکستان پہنچ گئے ، دارالحکومت دوشنبے کے ائیرپورٹ پر تاجک وزیر اعظم نے پاکستانی ہم منصب کا استقبال کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے تاجکستان پہنچنے پر ننھے بچوں نے وزیر اعظم کو خوش آمدید کہا اور گلدستے پیش کئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی دورہ تاجکستان پر وزیر اعظم کے ہمراہ ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان تاجک صدر کی دعوت پر شنگھائی تعاون تنظیم کونسل کے اجلاس میں شرکت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
تین دہشتگرد گروپ اب بھی افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کررہے ہیں: وزیراعظم
تین دہشتگرد گروپ اب بھی افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کررہے ہیں: وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہےکہ تین دہشتگرد گروپ اب بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ تاجک صدر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ایس سی او کے انعقاد پر تاجک صدر کو مبارک باد دیتا ہوں، دونوں ملکوں کے درمیان اہم گفتگو اور افغان صورتحال سے متعلق بات ہوئی، تاجکستان کے ساتھ تجارت، سیاحت، اطلاعات اور ادویہ سازی سمیت مختلف شعبوں پر بھی بات ہوئی۔ وزیراعظم عمران…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 3 years
Text
وزیراعظم اور تاجک صدر کا افغانستان کے بارے میں خیالات کا تبادلہ ایکسپریس ٹریبیون۔
وزیراعظم اور تاجک صدر کا افغانستان کے بارے میں خیالات کا تبادلہ ایکسپریس ٹریبیون۔
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے ہفتہ کو تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور گزشتہ ماہ دوشنبے میں ہونے والے مذاکرات کی پیروی کے بارے میں خیالات کا تبادلہ کیا۔ وزیر اعظم نے حالیہ دورے کے دوران ان کی اور ان کے وفد کی مہمان نوازی پر صدر رحمان کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعاون کی موجودہ سطح پر اطمینان کا اظہار کیا اور قریبی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے…
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
اشرف غنی تاجکستان میں نہیں تو اس وقت کون سے ملک میں ہیں ؟ - اردو نیوز پیڈیا
اشرف غنی تاجکستان میں نہیں تو اس وقت کون سے ملک میں ہیں ؟ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین دوشنبے: افغان صدر اشرف غنی تاجکستان میں نہیں ہیں بلکہ تاجک حکومت کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر ایک اور اسلامی ملک کے لیے روانہ ہوئے تھے جہاں سے وہ امریکا چلے جائیں گے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق تاجکستان نے اشرف غنی کی ملک میں آمد یا ان کے طیارے ک�� تاجکستان کی فضائی حدود سے گزرنے کی سخت الفاظ میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں زیر گردش ایسی خبریں اور اطلاعات بے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
وزیراعظم عمران خان نے افغان حکومت کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا
وزیراعظم عمران خان نے افغان حکومت کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا
اسلام آباد/لاہور – وزیر اعظم عمران خان۔ ہفتہ نے کہا کہ اس نے ایک جامع افغان حکومت کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تاکہ تاجک ، ہزارہ اور ازبک شامل ہوں۔
ایک ٹویٹ میں ، پی ایم عمران خان۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ دوشنبے میں افغانستان کے پڑوسیوں کے رہنماؤں اور خاص طور پر تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کے ساتھ طویل گفتگو کے بعد کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا ، “دوشنبے میں افغانستان کے پڑوسیوں کے رہنماؤں اور خاص طور پر تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کے ساتھ طویل گفتگو کے بعد ، میں نے طالبان کے ساتھ ایک جامع افغان حکومت کے لیے بات چیت شروع کی ہے تاکہ تاجک ، ہزارہ اور ازبک شامل ہوں۔” عمران خان۔. 40 سال کے تنازعے کے بعد ، یہ شمولیت امن اور مستحکم افغانستان کو یقینی بنائے گی ، جو نہ صرف افغانستان بلکہ خطے کے مفاد میں ہے۔
وزیراعظم ، جنہوں نے اپنے دو روزہ دورے کا اختتام بنیادی طور پر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے کیا لیکن اس نے افغانستان کے پڑوسی ممالک بشمول ایران ، قازقستان ، ازبکستان اور تاجکستان کی قیادت سے بھی ملاقات کی۔
ایس سی او میں بھی ، وزیر اعظم نے افغانستان میں پائیدار امن کے حصول کے لیے تمام برادریوں کی نمائندگی کرنے والی افغانستان میں ایک جامع حکومت کے لیے پاکستان کے موقف کا اعادہ کیا تھا۔
سمٹ کے موقع پر وزیراعظم نے روس ٹوڈے ٹیلی ویژن سے بھی بات کی اور کہا کہ افغانستان ایک اہم دور سے گزر رہا ہے۔ عمران خان۔ یہ کہ جنگ زدہ ملک میں امن اور استحکام کا واحد راستہ حکومت ہے۔
وزیر اعظم نے روسی ٹی وی کو بتایا کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کے لیے واشنگٹن کا پاکستان کا قربانی کا بکرا ‘انتہائی تکلیف دہ بات’ ہے۔
پاکستان نے افغانستان پر امریکی قبضے میں امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کی بھاری قیمت چکائی ، لہذا امریکی سیاستدانوں کو سن کر اسلام آباد کو اس کی ذلت آمیز پسپائی میں تکلیف پہنچتی ہے ، پاکستانی وزیر اعظم عمران خان۔ کہا.
آر ٹی سے بات کرتے ہوئے ، عمران خان۔ افغانستان میں امریکی ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے اسلام آباد کی طرف انگلی اٹھانے والے امریکی حکام کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی حالیہ سماعتوں کو اس مایوس کن بیان بازی کی مثال کے طور پر اجاگر کیا۔
ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں نے ان سینیٹرز کے کچھ تبصروں سے شدید تکلیف محسوس کی۔ افغانستان میں اس شکست کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا ہمارے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔ جب امریکہ میں نائن الیون کے دہشت گرد حملے ہوئے تو پاکستان ایک خوفناک صورتحال میں تھا۔
پرویز مشرف ، ایک جنرل جو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آیا تھا ، ابھی ابھی صدر منتخب ہوا تھا اور اپنی حکومت کے لیے امریکی مدد مانگ رہا تھا۔ افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے سے امریکی فوجی امداد کو محفوظ بنانے میں مدد ملی ، لیکن ، عمران خان۔ یقین ہے ، اب بھی ایک غلط کال تھی۔ اس نے مجاہدین افواج کو الگ کر دیا ، جنہیں پاکستانی انٹیلی جنس نے افغانستان میں امریکی سوویت مخالف مہم کے ایک حصے کے طور پر صرف دو دہائی قبل تعمیر کرنے میں مدد کی تھی۔
ہم نے انہیں غیر ملکی قبضے کے خلاف لڑنے کی تربیت دی ہے۔ یہ ایک مقدس جنگ تھی ، ایک جہاد۔ اور امریکیوں کے حملے کے ساتھ ، پاکستان انہی لوگوں کو بتا رہا تھا کہ “امریکیوں کے خلاف جنگ دہشت گردی تھی۔ تو وہ ہمارے خلاف ہوگئے۔ انہوں نے ہمیں ساتھی کہا۔
افغان شورش نے قدرتی طور پر سرحد کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اتحادی پائے۔ وہاں رہنے والے پشتون قبائل کا بنیادی طور پر پشتون طالبان کے ساتھ نسلی تعلق تھا ، لہذا بہت سے لوگوں نے اسلام آباد کے خلاف طالبان کی حمایت کی۔ اور ملک کو نقصان پہنچا۔
وزیر اعظم نے کہا ، “پاکستانی فوج کے خلاف اندرونی حملے ہوئے ، جنہوں نے مجاہدین کو تربیت دی۔” جنرل مشرف پر فوج کے اندر سے دو خودکش حملے ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اوباما انتظامیہ کے تح�� پاکستان پر شورش کو پس پشت ڈالنے کے لیے ڈرون جنگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ تاریخ کا واحد موقع تھا جب کسی ملک پر اس کے اتحادی بمباری کر رہے تھے۔ 280،000 ڈرون حملے امریکہ نے پاکستان میں کیے۔
عمران خان۔ ایک جنگ میں امریکہ کی مدد کی لاگت کا اندازہ لگایا گیا ، جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا ، صرف 80،000 جانیں ضائع ہوئیں۔ یہاں دسیوں ہزار معذور اور نمایاں معاشی نقصان بھی ہوا۔ خان نے کہا کہ “دوہرے سلوک” اور “طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں” فراہم کرنے کا الزام لگایا جانا ، جیسا کہ چیئرمین رابرٹ مینینڈیز نے سینیٹ کی سماعتوں کے دوران کہا ، ایسا محسوس ہوا جیسے امریکہ نے ان تمام قربانیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
افغانستان کی صورتحال اس انٹرویو کا بنیادی موضوع تھا ، جو وزیر اعظم نے تاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر آر ٹی کو دیا۔ ایشیائی سکیورٹی بلاک میں ملک کے کئی پڑوسی شامل ہیں جو اب طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ ان میں سے ایک ، ایران ، تنظیم میں اس کی حیثیت کو اجتماع کے دوران مکمل رکنیت میں اپ گریڈ کیا گیا تھا۔
عمران خان۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان کا ملک طالبان کی نئی حکومت کو جائز تسلیم کرنے کے لیے جلدی میں نہیں ہے ، عالمی برادری کو افغانستان میں استحکام کے لیے عسکری تحریک کی مدد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا متبادل ہر ایک کے لیے برا ہوگا۔
“میرے خیال میں صرف ایک ہی انتخاب بچا ہے جو حوصلہ افزائی کرے۔ [the Taliban]، ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کہ وہ ایک جامع حکومت ، انسانی حقوق کے بارے میں کیے گئے وعدوں اور اعلانات پر قائم رہ��ں ، [about] ہر ایک کو عام معافی دینا ، “انہوں نے کہا۔ امید ہے کہ اگر یہ کام کرتا ہے تو آپ 40 سالوں میں پہلی بار افغانستان میں امن قائم کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو پابندیوں اور تنہائی سے سزا دینا افغان عوام کو تکلیف کا باعث بنے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ امریکی حمایت یافتہ حکومت اپنے زیادہ تر بجٹ کو فنڈ دینے کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار کرتی ہے ، لہذا “اگر غیر ملکی امداد غائب ہوگئی تو ملک ٹوٹ جائے گا”۔ ایک افراتفری کا شکار افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کی پناہ گاہ اور پناہ گزینوں کا ذریعہ ہوگا ، جس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔
بدقسمتی سے اب تک طالبان اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے خاص طور پر آگے نہیں آرہے تھے ، جیسا کہ اس کی نئی کابینہ میں کون شامل تھا۔ عمران خان۔ یقین رکھتا ہے کہ امریکہ پر فتح جو کہ ایک بڑا کارنامہ تھا ، نے تحریک کی عسکری قیادت میں بہت سے لوگوں کو انعامات کا حصول چاہا ، اس کے نتائج لعنتی ہیں۔
طالبان کی جدوجہد “سب سے مہاکاوی جدوجہد میں سے ایک تھی جس سے کوئی بھی گزر سکتا تھا۔ 20 سال کے بعد ، وہ بنی نوع انسان کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشینوں میں سے ایک سے بچ گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ، “پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ طالبان کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ جب تک کہ وہ دیگر تمام اقلیتوں ، فرقوں اور گروہوں کو حاصل نہیں کریں گے ، جب تک وہ سب کو اپنی چھتری تلے نہیں لاتے ، ان کی حکومت غیر مستحکم رہے گی۔” خان نے کہا کہ ایسی جامع حکومت ہی واحد چیز ہے جو افغانستان کو طویل مدتی استحکام کی طرف لے جا سکتی ہے۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : '106170627023', xfbml : true, version : 'v2.9' ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/en_US/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src="https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v2.12"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); . Source link
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
تاجک صدر اور میں مل کر افغان امن کےلیے ہر ممکن کوشش کریں گے، وزیراعظم
تاجک صدر اور میں مل کر افغان امن کےلیے ہر ممکن کوشش کریں گے، وزیراعظم @ImranKhanPTI #Tajikistan #Afghanistan #Aajkalpk
دوشنبے: وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں بدقسمتی سے بجلی بہت مہنگی ہے۔ ٹی ٹی پی کو معافی دینے پر غور کرسکتے ہیں، شاہ محمود قریشی پاکستان اور تاجکستان کے مابین کاروباری شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے مشترکہ بزنس فورم سے وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں کئی سال کے تنازع کے بعد امن قائم ہو گا، پاک تاجک تجارت کیلئے افغانستان میں امن قیام ضروری ہے تاکہ نقل و حمل بہتر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
sportsclassic · 4 years
Text
نفرتیں، لڑائیاں اور کرکٹ
'کرکٹ ڈپلومیسی' کی اصطلاح عام طور پر پاکستان اور بھارت جیسے حریف ممالک میں استعمال ہوتی ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ماضی میں کئی بار جب دونوں جوہری ملکوں کے درمیان جنگ کے خطرات منڈلائے ہیں تو پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان کھیل نے یا ان میچوں کے دوران دونوں اطراف کی قیادت کے اسٹیڈیم میں ایک ساتھ بیٹھے نظر آنے سے کشیدگی کم ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں جن ملکوں کو اندرونی خلفشار کا سامنا ہے، وہاں سفارت کاری کے ساتھ ساتھ کرکٹ بھی سیاسی، مذہبی اور سماجی خلش کو کم کرتے ہوئے متحارب اکائیوں کو متحد کرتا نظر آتا ہے۔ پاکستان کے بعد افغانستان میں بھی کرکٹ اس قدر مقبول ہو رہی ہے کہ تجزیہ کاروں کے بقول پہلی بار پشتون، تاجک، ازبک حتیٰ کہ طالبان بھی، تمام دھڑے جب افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی بات کرتے ہیں تو گروہی صف بندی سے آگے نکل کر "ہم اور ہمارا" کا صیغہ استعمال کرتے ہیں جو بہت بڑی تبدیلی ہے۔ میرویس افغان لندن میں سینیئر صحافی اور افغان امور کے تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے لوگ کرکٹ کو پسند کرنے لگے ہیں اور کرکٹ افغانستان میں خوشی کا بڑا ذریعہ بن رہی ہے۔ ان کے بقول، "ہمارے ہاں میوزک نہیں، کانسرٹ نہیں، شوبز نہیں، ماڈلنگ نہیں۔ اگر کوئی چیز خوشی کا سبب بن رہی ہے تو وہ کرکٹ ہے۔" وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ کرکٹ پاکستان میں پناہ لینے والے افغان خاندانوں کے ذریعے افغانستان آئی ہے لیکن اب پورا ملک اس میں دلچسپی لینے لگا ہے۔
مریالے اباسین افغانستان میں ایک ٹی وی پروگرام کے میزبان اور کرکٹ کے شوقین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ورلڈ کپ سے پہلے افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی کامیابیوں بالخصوص پاکستان کے خلاف پریکٹس میچ میں فتح نے پورے ملک میں لوگوں کے خون گرما دیے ہیں۔ بہت جوش وخروش ہے اور اُمیدیں بڑھ گئی ہیں۔ "جن لوگوں کو افغانستان کے حالات کا پتا نہیں وہ شاید یہ بات سمجھ ہی نہیں سکتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ کرکٹ نے لوگوں کو متحد کیا ہے۔ پہلی بار کوئی ایسی چیز سامنے آئی ہے جس پر کوئی پشتون ہو، ازبک ہو یا تاجک، حتیٰ کہ طالبان، سب اس کو اپنا مان رہے ہیں اور وہ "ہم اور ہمارا" کا کلمہ استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ہماری کرکٹ ٹیم جیتی ہے۔ ہم جیت گئے ہیں۔ یہ مشاہدہ بالکل درست ہے کہ طالبان بھی کرکٹ پسند کرتے ہیں۔" وہ کہتے ہیں کہ جب افغانستان کی کرکٹ ٹیم کسی دوسرے ملک کے خلاف میچ کھیل رہی ہوتی ہے تو عام طور پر پورے ملک میں ایک پُرامن خاموشی ہوتی ہے۔ میرویس افغان کے بقول افغانستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنا سکیورٹی ہر جگہ جاتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کو سب فریق پسند کرتے ہیں۔
کرکٹ ڈپلومیسی اور پاک بھارت کشیدگی کرکٹ نے جنوبی ایشیا کی دونوں جوہری طاقتوں - پاکستان اور بھارت - کے درمیان بھی تناؤ کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کرکٹ میچ میں شائقین کا جنون عروج پر ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کی ٹیمیں جب بھی ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتری ہیں تو سیاسی درجہ حرارت کم ہوا ہے۔ اس بارے میں سیاسی و سماجی علوم کے پاکستانی ماہر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کہتے ہیں، "کرکٹ کا بنیادی تصور جنٹلمین گیم کا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اس کھیل نے میدانوں سے نکل کر سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ 80ء کی دہائی کے اواخر میں جب پاکستان بھارت تعلقات بہت کشیدہ تھے، پاکستان کے صدر جنرل ضیاءالحق میچ دیکھنے بھارت پہنچے اور راجیو گاندھی کے ساتھ اسٹیڈیم میں بیٹھے نظر آئے۔ اس پر 'کرکٹ ڈپلومیسی' کی اصطلاح سامنے آئی۔ اس کے بعد پاکستان کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے ہم منصب ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ بھارت میں ہی مل بیٹھ کر سیمی فائنل دیکھا۔ اس کے علاوہ جب بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم جیتتی ہے تو اندرونی سطح پر بھی ایک قومی احساس کے ساتھ تفاخر اجاگر ہوتا ہے۔"
ڈاکٹر عاصم کے بقول کرکٹ پاکستان کے علاوہ افغانستان میں بھی سیاسی اور سماجی اثر و نفوذ دکھا رہی ہے۔ "افغانستان میں بھی کرکٹ انتشار کے ماحول میں یکجائی کا کام کرتی نظر آتی ہے۔ ٹیم جب جیتتی ہے تو نسلی تفاوت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ کرکٹ کے کھیل کو اپنانے کے لیے سب یکجا نظر آتے ہیں۔" گزشتہ ماہ عرب اخبار 'گلف نیوز' نے خبر دی تھی کہ ورلڈ کپ 2019ء کے دوران پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی ملاقات بھارت کے وزیرِ اعظم نریندرمودی سے ہو سکتی ہے۔ اخبار کے مطابق دونوں وزرائے اعظم ورلڈ کپ کے ابتدائی میچ دیکھنے کے لیے جون کے پہلے ہفتے میں انگلینڈ میں موجود ہوں گے اور برطانوی عہدیدار کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں رہنماؤں کی سائیڈ لائن ملاقات کا اہتمام ہو سکے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان بذاتِ خود عالمی شہرت حاصل کرنے والے کرکٹر ہیں جو پاکستان کے لیے 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان تھے۔
اسد حسن
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes