Tumgik
#تاجک
apnibaattv · 2 years
Text
ایف ایم بلاول کی تاجک ہم منصب سے ملاقات، علاقائی امن کے لیے پاکستان کے عزم کی یقین دہانی
ایف ایم بلاول کی تاجک ہم منصب سے ملاقات، علاقائی امن کے لیے پاکستان کے عزم کی یقین دہانی
تاجکستان کے وزیر خارجہ سراج الدین محردین (L) اور پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری۔ – وزارت خارجہ/فائل تاشقند: وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے جمعرات کو ازبکستان کے شہر تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO-CFM) کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے موقع پر اپنے تاجک ہم منصب سراج الدین محردین سے دو طرفہ ملاقات کی۔ محردین سے ملاقات میں ایف ایم بلاول نے علاقائی امن بالخصوص افغانستان کے تناظر میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
تاجک صدر امام علی رحمان کی دوروزہ دورے پر اسلام آباد آمد، 21توپوں کی سلامی دی گئی
تاجک صدر امام علی رحمان کی دوروزہ دورے پر اسلام آباد آمد، 21توپوں کی سلامی دی گئی
اسلام آباد(نمائندہ عکس) تاجکستان کے صدر امام علی رحمان دوروزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے، تاجک صدر وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کرر ہے ہیں،اسلام آباد ایئرپورٹ پر وفاقی وزیرتعلیم سید نوید قمر نے معزز مہمان کا استقبال کیا، تاجک صدر کو گلدستے بھی پیش کیے گئے، تاجک صدر اور وفاقی وزیر تجارت کے درمیان تبادلہ خیال کیا گیا،تاجک صدر امام علی رحمان کو 21توپوں کی سلامی دی گئی، پاکستان اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
abduljabar · 1 year
Text
Tumblr media
#قرآن # فارسی. # دری # تاجکستان # تاجک # افغانستان # بلوچ # بلوچستان #حدیث #حدیث_صحیح #احادیث_صحیح_بخاری_فارسی #کابل #تهران #گناه #بخشش # بخشنده
0 notes
spitonews · 1 year
Text
کراچی کے شہری موبائل کیلئے ڈاکؤوں سے مزاحمت نہ کریں،کراچی پولیس چیف
کراچی کے شہری موبائل کیلئے ڈاکؤوں سے مزاحمت نہ کریں،کراچی پولیس چیف
  کراچی: سٹی پولیس چیف جاوید اوڈھو نے شہریوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ  شہری فون کیلئے ڈاکوؤں سے مزاحمت نہ کریں۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گزشتہ روز ڈکیتی مزاحت کے دوران مرنے والے جامعہ این ای ڈی کے طالبعلم مقتول بلال کے متعلق گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ہوٹل پر دو ڈاکووں نے موبائل فون چھیننےکی کوشش کی، گرفتار ملزم 16 سال کا اور تاجک افغان ہے، دوسرے ملزم کو بھی شناخت کرلیا گیا، ملزم کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی طالبان حکومت میں شمولیت کیلئے مذاکرات شروع کردیے، وزیراعظم
تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی طالبان حکومت میں شمولیت کیلئے مذاکرات شروع کردیے، وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کیلئے طالبان سے مذاکرات شروع کردیے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ ’دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے طویل بات چیت کے بعد میں نے ایک شمولیتی حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
45newshd · 4 years
Photo
Tumblr media
آر پی او راولپنڈی سہیل حبیب تاجک نے 12 سالہ طالبہ زیادتی کیس کی تفتیش تبدیل کردی  راولپنڈی (این این آئی)روات میں دوبئی پلٹ ساتویں جماعت کی طالبہ سے اجتماعی زیادتی کیس میں اہم پیشرفت ہوئی ہے ،آر پی او راولپنڈی سہیل حبیب تاجک نے 12 سالہ طالبہ زیادتی کیس کی تفتیش تبدیل کردی ، ایس ایس پی انوسٹی گیشن کی نگرانی میں اے ایس پی سول لائن بنش فاطمہ تفتیش کریں گی،زیادتی کا شکار بچی اور اسکی والدہ کو مکمل سیکورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی
0 notes
qalamkar-blog · 5 years
Photo
Tumblr media
احمد شاہ مسعود، طالبان اور افغانستان - حصہ اول انٹرویو ترجمہ شاہسوار حسین ہاں، یہ اب بھی ممکن ہے بشرطیکہ پاکستان طالبان کی حمایت کرنے سے باز آجائے تاکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ہو ماضی میں ان کا مطالبہ تھا کہ اسلحہ ہمارے حوالے کریں پھر وقت کے ساتھ مطالبہ بدل دیا کہا اسلحہ پاس رکھیں اور زیر کنٹرول علاقے بھی، لیکن اس شرط پر کہ آپ کو امارت اسلامی افغانستان اور اس کے اصول و قوانین قبول کرنے پڑیں گے اور آپ کو دوسرا بڑا اور اہم عہدہ یعنی وزارت عظمٰی دیں گے۔ ہم نے یہ پیشکش مسترد کر دی مجھے یہ بہت مشکل اور کسی حد تک ناممکن نظر آتا ہے کہ طویل عرصے تک طالبان کے ساتھ باہمی تعاون کرنا یا ان کے ساتھ طویل مدتی اتحاد کا اشتراک کرنا۔ احمد شاہ مسعود 2 ستمبر 1953ء افغانستان کے شمالی علاقے پنج شیر میں پیدا ہوئے تھے نسلاً تاجک تھے۔ 1970ء میں کابل یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی۔ 1979ء میں سویت یونین کے خلاف آخر تک لڑنے پر ان کو شیر پنج شیر کا خطاب دیا گیا۔ اس کے بعد طالبان کے خلاف زندگی کے آخری سانس تک لڑتے رہے۔ چونکہ نسلاً تاجک تھے تو اس سبب سے ہمارے اکثر پشتونوں میں  اس کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی یا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان کو ایک جنگجو کے طور پر دیکھا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جمہوری اور سیاسی اعتبار سے بھی کافی فہم رکھتے تھے جمہوری نظام کو ہی افغانستان کا بہتر مستقبل سمجھتے تھے۔ 9/11 کے واقعے سے دو دن قبل 9 ستمبر 2001ء میں القاعدہ کے لوگ  صحافیوں کے روپ میں ان کا انٹرویو کر رہے تھے جب کیمرے میں بم دھماکا ہوا اور وہ اس حملے میں جاں بحق ہوئے۔ موت سے قبل اگست 2001ء میں ایک پولش صحافی نے اس کا انٹرویو کیا تھا جس کا ترجمہ فہم کے مطابق پیش کرتا ہوں۔
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
تاجکستان ، طالبان میں‌ کشیدگی بڑھنے پر وزیراعظم کا تاجک صدر کو فون
تاجکستان ، طالبان میں‌ کشیدگی بڑھنے پر وزیراعظم کا تاجک صدر کو فون
تاجک حکومت اور افغان طالبان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے ثالثی کا کردارادا کرتے ہوئے تاجک صدر امام علی رحمٰن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ یہ فون کال ایسے وقت میں کی گئی جب طالبان حکام اور تاجک حکومت کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduu · 5 years
Text
یاد ماضی
مین سٹریم اور سوشل میڈیا میں اکثر پچاس ، ساٹھ اور ستر کی دہائی کے پاکستانی شہروں کی ایسی تصاویر لگائی جاتی ہیں جو بہت ہانٹ کرتی ہیں اس دور کے پاکستانی شہروں کا جدید پسند ، روادار، آزاد خیال اور ترقی پسند ماحول دیکھ کر نہ صرف اس گزرے ماضی کا ناسٹیلجیا جنم لیتا ہے بلکہ قاری آج کے شہروں کا ماحول دیکھ کر سوچنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ دراصل ہم نے تو ترقی کی بجائے تنزلی کی اگر ہمارا ماضی ایسا ہی تھا۔
آخر یہ ترقی معکوس کیوں ہوئی، اس کی عام وضاحت تو جنرل ضیا اور افغان جہاد کی صورت میں دی جاتی ہے لیکن یہ دو سیاسی وجوہات کافی نہیں اور بہت سے سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں مثلاً کیا ان دو واقعات نے پورے معاشرے کی بنت اور سوچ ہی تبدیل کردی؟ کیا فرد واحد یوں ایک معاشرہ کو اس کے مرضی کے خلاف تبدیل کرسکتا ہے روبوٹ کی طرح ؟ ایسا کبھی ہوا نہیں پھر باقی مسلم دنیا افغانستان ، ایران ، لبنان وغیرہ بھی اسی دور میں اسی طرح تبدیلی کے عمل سے گزرے تو وہاں بھی کیا ضیا نے کچھ کیا؟
اس تمام تجزیہ سے سماجی پہلو نکال دیا جاتا ہے تو سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں اگر اس تصویر میں سماجی جہت کو بھی شامل کرلیا جائے تو تصویر مکمل ہوجاتی اور ہر چیز اپنی جگہ پہ بیٹھ جاتی ہے۔ یہ ایک سماجی پروسیس تھا جو کم و بیش تمام مسلم معاشروں پہ اسی دور میں اثرانداز ہوا اسکو سمجھے بغیر مکمل کہانی سمجھ نہیں آ سکے گی۔
پچاس کی دہائی کے لگ بھگ جب مسلم ممالک آزاد ہوئے تو ان ممالک کی باگ ڈور جس طبقہ نے سنبھالی وہ جدید مغربی تعلیم یافتہ طبقہ تھا لیکن مسلم معاشروں کے اندر ایک کشمکش نوآبادیاتی دور سے ہی چلی آرہی تھی اس کشمکش کو جدیدیت پسند شہری کلچر اور روایت پسند دیہی مذہبی کلچر کی کشمکش کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ شہروں کی تعلیم یافتہ کلاس پہ جدید مغرب کی چھاپ کافی نمایاں تھی جبکہ دیہی عوامی کلچر پہ قدامت پسند مذہبیت کی چھاپ تھی۔ مذہبی طبقہ جدیدیت سے خوفزدہ تھا اور اسے مغربیت گردانتا تھا اسے خوف تھا کہ جدیدیت اپنے ساتھ مغربیت لائے گی اور پرانے روایتی کلچر کو بہا لے جائے گی کچھ اسے اپنی اجاراداری کے خاتمے کا بھی ڈر تھا اس لئے جدیدیت کو مغربیت، عریانی اور فحاشی سے تعبیر کرتا تھا۔
لیکن پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں انفراسٹکچر کی کمزوری کے باعث دیہی طبقہ دیہات یا چھوٹے شہروں تک محدود تھا جبکہ شہروں بالخصوص بڑے شہروں کا کلچر جدیدیت کا حامل تھا اسی لئے اس عہد کی تصویریں آج کے شہروں کی نسبت بہت آزاد خیال اور روادار معاشرے کی جھلک دکھاتی ہیں۔ یہ معاملہ پاکستان کی حد تک نہ تھا بلکہ تمام مسلم دنیا یہی تصویر پیش کرتی تھی افغانستان جو پاکستان کی نسبت معاشی اور ہر لحاظ سے پسماندہ تھا وہاں کابل کا شہری معاشرہ جو تاجک آبادی پہ مشتمل تھا جدیدیت یا مغربیت میں پاکستانی شہری معاشرہ سے کہیں آگے تھا جبکہ افغانستان کا دیہی پشتون معاشرہ پاکستان کے دیہی پشتون معاشرہ کی نسبت کہیں زیادہ پسماندہ اور تنگ نظر تھا لیکن کمزور انفراسٹکچر کی وجہ سے شہری تاجک اور دیہی پشتون دو الگ دنیاؤں میں رہ رہے تھے۔
ایران ، لبنان ، ترکی الغرض ہر جگہ کم و بیش مجموعی صورتحال ایسی ہی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ تبدیلی کا عمل بھی جاری تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ ان نوآزاد ملکوں میں اس وقت کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ نے ملکوں کی ترقی کے لیے بے مثال کام کیا پاکستان کے حکمران طبقے اور بزنس انڈسٹریل کلاس نے ایشیا مین ترقی کے ریکارڈ توڑے اس کے ساتھ انفراسٹکچر بھی بہتر ہوتا گیا اور دیہاتوں سے مذہبیت کے حامل قدامت پسند دیہی کلچر کی عوامیت بھی رفتہ رفتہ شہروں کا رخ کرنے لگی ابتدا میں انکی تعداد بہت کم تھی تو شہری کلچر کا ہی حصہ بنتے گئے لیکن ستر کی دہائی تک کیفیت بدلنا شروع ہوئی جیسے جیسے قدامت پسند مذہبی کلچر کی افرادی قوت بڑھتی گئی تو ایک تضاد یا ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوئی۔ قدامت پسند دیہی کلچر کی قیادت روایتی طور پہ مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں تھی جو جدیدیت پسند شہری کلچر کو مغرب زدہ عریانی اور فحاشی کو پھیلانے والا اور معاشرے کے لیئے خطرہ قرار دیتا تھا ان کے مطابق اگر اس عریانی اور بے حیائی کو نہ روکا گیا تو یہ معاشرہ کو زوال پذیر کردے گا۔
ستر کی دہائی کے دوسرے وسط تک شہروں میں قدامت پسند طبقہ کی نمائندگی کافی مضبوط ہوچکی تھی لہذا خطہ بھونچالوں کی زد میں آنا شروع ہوگیا۔ اگرچہ افغانستان میں سردار داؤد کے خلاف قدامت پسند مذہبی طبقہ کی تحریک کی بھٹو نے بھی جواباً سرپرستی کی لیکن یہ تقسیم اور ٹکراؤ پہلے سے ہی موجود تھی اور انکے داؤد پہ الزمات یا شکایات بعینہ وہی تھے جو پی این اے کی تحریک نظام مصطفی میں بھٹو پہ لگائے گئے یا شاہ ایران پہ۔ بھٹو اور شاہ ایران کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انکے خلاف وہ طبقہ جو خود کو ماسکو نواز ترقی پسند کہلاتا تھا بھی مذہبی طبقہ کی تحریک میں شامل تھا۔
بھٹو کے خلاف نظام مصطفی کی یہ تحریک اپنی بھرپور اور ہمہ گیر تھی کہ ملک تقریباً مفلوج ہی ہوکر رہ گیا تھا اور اگر ضیا مارشل لاء نہ بھی لگاتا تو یہ کہنا مشکل ہے کہ بھٹو کامیابی سے ملک اور حکومت چلا سکتا تھا اسی طرح شاہ ایران کے خلاف تو عوام کا ایک سیلاب تھا جو امڈ پڑا اور اسے جاتے ہی بنی۔
افغانستان کی حد تک فوج نے داؤد کی چھٹی کرا طاقت کے زور پہ حالات کنٹرول کرنا چاہے لیکن نتیجہ الٹ نکلا۔ اس طرح ۱۹۸۰ تک ماحول ہی بدل چکا تھا۔
جہاں تک سیاسی عوامل کا تعلق ہے تو وہ بھی اتنے چھوٹے ، محدود اور مقامی نہیں تھے جتنے ہمارے تجزیہ کار بتاتے ہیں سیاسی عوامل بھی کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر تھے۔ مشرق وسطی کے ممالک کی اپنی اندرونی کشمکش تھی یہ جدیدیت پسند روس نواز فوجی ڈکٹیٹروں اور امریکہ نواز قدامت پسند عرب بادشاہتوں میں تقسیم تھا۔ عمومی امریکی رویہ یہ تھا کہ اگر کوئی جدیدیت پسند ڈکٹیٹر امریکہ نواز ہوتا شاہ ایران کی طرح تو امریکہ اسے قدامت پسند بادشاہتوں پہ ترجیح دیتا تھا لیکن خمینی کے اسلامی جمہوری انقلاب کے نعرے نے یکدم سے ماحول بدل دیا ڈکٹیٹر اور بادشاہ بیک وقت اس نعرے سے خوفزدہ تھے اور انکے آپسی اختلافات پس پشت چلے گئے اسی لیے ایران عراق جنگ میں باشاہتوں نے صدام کی حمایت کی شاہ ایران کے جانے کے بعد امریکہ نے بھی اپنا سارا وزن عرب بادشاہتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ادھر عرب بادشاہتوں نے مسلم ممالک میں قدامت پسند اسلام کی ترویج کے لئے باقاعدہ سرمایہ کاری کی کیونکہ قدامت پسند اسلام بادشاہت کا روایتی طور پہ عادی تھا اسی لئے پاکستان کا اسلامسٹ جو پہلے مودودی کی سوچ سے متاثر تھا اب رفتہ رفتہ مدارس کے اسلام کی طرف رجحان رکھنے لگ گیا۔ ضیا کی بجائے کوئی اور ہوتا تو شائد اس کے لئے بھی اس مجموعی سیاسی ماحول سے کوئی جائے مفر نہ ہوتی لیکن ضیا تو خود قدامت پسند دیہی مذہبی فکر سے تعلق رکھتا تھا تو کچھ اور سوچنے کی گنجائش ہی کب تھی؟
ادھر اسی کی دہائی کے پاکستان مین شہراؤ کا عمل کہیں اور تیز ہوگیا اور شہروں میں اب بھاری تعداد قدامت پسند دیہی مذہبی فکر کے حامل طبقہ کی تھی تو تبدیلی کا یہ عمل مکمل ہی ہوگیا اس وقت کے پاکستانی شہروں کی معاشرت نے وہ رخ اختیار کرلیا جو ہم آج دیکھ رہے ہیں اور جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے بالکل معکوس رخ پہ نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ضیا تو ۱۹۸۸ میں چلا گیا لیکن اسکا شروع کیا ہوا عمل ریورس نہ ہوسکا کیونکہ شہروں میں وہ جدیدیت پسند طبقہ نہ صرف پسپا ہوچکا تھا بلکہ اب تو اقلیت بن چکا تھا الیکشن یا جمہوریت بھی ان تبدیلیوں کو ریورس نہ کرسکتی تھی یہی وجہ ہے کہ ضیا کے بعد کے جمہوری دور میں بھی معاشرہ اسی ڈھب پہ چلتا آیا جو ضیا کے دور میں متعین ہوچکی تھی۔
صرف ایک ہی طاقت تھی جو جنوب مشرقی ایشیا کی طرح جدیدیت پسندی کی حمایت کرسکتی تھی اور وہ تھی انڈسٹریل بزنس کلاس کی معاشی اور کاروباری ضروریات لیکن بھٹو دور کی نیشنلائزیشن کے بعد پاکستان کی وہ کلاس جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی حیرت انگیز معاشی کارکردگی کی ذمہ دار تھی، ملک چھوڑ کر ہی جاچکی تھی کچھ نے یورپ میں بینکنگ شروع کردی کوئی ہانگ کانگ میں شپنگ سے وابستہ ہوگیا کوئی جرمنی میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے لگا۔ جو باقی رہ گئے تھے وہ انڈسٹریل کلاس کہلانے کے لائق نہ تھے بلکہ دیگر ممالک کے موازنہ میں چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے تاجر تھے جنکا سکوپ ، ضروریات اور مفادات بہت محدود درجہ کے تھے۔
مسلم ممالک میں جدیدیت پسند اور قدامت پسند مذہبی کلچر کے ٹکراؤ کی دلچسپ مثال مراکش اور الجزائر کا موازنہ ہے۔ مراکش کی نسبت الجزائر آزادی سے ہی بہت زیادہ جدیدیت پسند سمجھا گیا حواری بومدین کے دور سے وہ مراکش کی نسبت کہیں زیادہ خوشحال تھا اس کے شہروں کا ماحول یورپ کے شہروں سے ملتا تھا جس میں اس دور میں الجزائری خواتین میں ساحل سمندر پہ غسل آفتابی ایک عام روایت تھی۔ جبکہ مراکش اس کی نسبت کمزور معیشت کی حامل بادشاہت تھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد الجزائر کے صدر کو مغرب کے قریب آنا پڑا تو مغرب بالخصوص فرانس کے دباؤ پہ شاذلی بن جدید کے دور میں جمہوریت لانے کی کوشش ہوئی اور ۱۹۹۱ میں انتخابات ہویے لیکن انکا نتیجہ سب کی توقعات کے برعکس تھا اور شدت پسند اسلامسٹ پارٹی نے میدان مار لیا۔
یہ نتائج اتنے غیر متوقع تھے کہ نہ صرف الجزائر کی حکمران فوجی کونسل نے صدر شاذلی بن جدید کی چھٹی کرا کے ان انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا بلکہ خود مغرب نے بھی خوفزدہ ہو کر اس اقدام کی تائید کی اس کے بعد الجزائر ایک لمبا عرصہ خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس کے برعکس سست رفتار مراکش رفتہ رفتہ آئینی بادشاہت کی طرف بڑھتا گیا جہاں جدیدیت پسند شہری کلچر اور قدامت پسند دیہی مذہبی کلچر دونوں کے نمائندے شاہ پرست تھے اور بادشاہت پہ متفق تھے اس طراح مراکشی معاشرہ میں وہ پولرائزیشن پیدا نہ ہوئی جو دیگر مسلم معاشروں میں جدیدت پسندوں اور قدامت پسندوں کا خاصہ رہی۔ یوں بالاخر آج مراکش میں جدید پسند معاشرتی رویہ گراس روٹ لیول پہ پہنچنے کا دعوی کرسکتا ہے جو دیگر مسلم ممالک میں شاذ ہی موجود ہے۔
پاکستان ایک نئی معاشرتی سطح سے دوچار ہے یہ جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ اربنائزڈ ملک ہے جہاں دیہی کے مقابلہ میں شہری آبادی کا تناسب ساٹھ فیصد کے قریب ہے اس تبدیلی نے اثرات بھی مرتب کئے ہیں تعلیم ، انفراسٹکچر اور ابلاغ بڑھا ہے معاشی ڈھانچہ اور ضروریات تبدیل ہورہی ہیں اس وجہ سے قدامت پسند مذہبی طبقہ کی اپیل دن بدن گھٹتی جارہی ہے اور حالیہ ادوار میں مذہبی طبقہ نے جو سیاسی جوئے کھیلے اس کی وجہ سے عوام میں انکی اہمیت اور تاثر گھٹتا گیا۔ سیاسی حالات بھی بدل چکے ہیں ریاست کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے وہ جدیدیت سے ہم آہنگ ہوئے بغیر عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ دیکھتے ہیں کہ کل کے پاکستانی شہروں کا ناک نقشہ کیسا ہوتا ہے
11 notes · View notes
potafg · 4 years
Video
#saripul#afghanistan#afghan#kunar#jalalabad#pashto#pashton ‎#افغانستان#افغانی#کونړ#کابل#افغانستان_کابل#افغانستان_زیبا#افغاني#دخترافغانی#جلال_آباد#پشتو#پشتون#تاجک#هزاره#افغانیهای_ایران#کنر#خبر#هرات_افغانستان#ننګرهار https://www.instagram.com/p/B-2ZShTp4Qn/?igshid=cg4ww20fj5jb
0 notes
columnspk · 2 years
Text
Ukraine Hamla Aur Tajik Taliban
Ukraine Hamla Aur Tajik Taliban
یوکرین حملہ اور تاجک طالبان تاجک صدر کے تاجک طالبان کے حق میں اور افغان طالبان کے خلاف حالیہ بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ تاجکستان امریکہ کا انتہائی قریبی سٹریٹجک پارٹنر ہے جبکہ اس کی معیشت اور دفاع کا مکمل انحصار روس پر ہے۔ تاجکستان کے صدر نے یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے روس کی حمایت کی ہے جو شاید صدر تاجکستان کے پاس واحد انتخاب ہے۔ تاجکستان سے تاجک طالبان پناہ گزینوں کی افغانستان ہجرت…
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
چین افغان سرحد پر تاجکستان کے لیے فوجی اڈہ بنائے گا - اردو نیوز پیڈیا
چین افغان سرحد پر تاجکستان کے لیے فوجی اڈہ بنائے گا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین بیجنگ: چین نے افغانستان کی سرحد کے قریب تاجکستان کے لیے فوجی اڈہ تعمیر کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق تاجکستان نے تصدیق کی ہے کہ چین افغانستان کی سرحد پر تاجک پولیس کے لیے اڈہ بنائے گا جس کا مقصد افغان سرزمین سے شدت پسند گروپوں کے حملوں اور نقل مکانی کی کوششوں کو روکنا ہے۔ اس حوالے سے تاجکستان کے ایک پارلیمانی ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
abduljabar · 2 years
Text
Tumblr media
حدیث روز
7 notes · View notes
spitonews · 1 year
Text
پاکستان، تاجکستان تعلقات کی نئی جہت
پاکستان، تاجکستان تعلقات کی نئی جہت
پاکستان اور تاجکستان نے تجارت، معیشت، توانائی، زراعت، سیکیورٹی، صنعت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے اور قریبی اور برادرانہ تعلقات کو مزید تقویت دینے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تاجک صدر کے دورے کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم بنانے اور تعاون کے نئے دور کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ تاجکستان کا وسط ایشیا میں ایک بہت ہی اہم مقام ہے اور یہ خطے کے لیے ’’گیٹ وے‘‘…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jaajnews · 3 years
Text
روسیې او تاجکستان افغان پولې ته نژدې فوځيان راوستي!
روسیې او تاجکستان افغان پولې ته نژدې فوځيان راوستي!!
د روسیې رسنیو د معلوماتو لمخې روسیه او تاجکستان د افغانستان پولې ته نژدې یو لړ روزنیز تمرينات ترسره کوي. دغه تمرينات د روسیې او تاجکستان د فوځي همکاریو د تړون برخه ده چې پکې د پلي تمریناتو ترڅ��ګ دا ځل د روسیې جنګي الوتکې هم شتون لري چې یو لړ تمرينات به ترسره کړي. دغه تمرينات د افغان – تاجک پولې د ساتنې او امنیت په موخه ترسره کیږي.پدې وروستیو کې د طالبانو او تاجکستان تر منځ ځینې خبره ت��ادله شوي،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 3 years
Text
وزیراعظم عمران خان نے تاجک صدر سے افغانستان کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے تاجک صدر سے افغانستان کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے ہفتہ کو تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور 16-17 ستمبر کو دوشنبے کے حالیہ دورے کے دوران ان کی اور ان کے وفد کی مہمان نوازی پر شکریہ ادا کیا۔ پرائم منسٹر آفس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے گزشتہ ماہ دوشنبے میں ہونے والے مذاکرات کی پیروی کے بارے میں خیالات کا تبادلہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعاون کی موجودہ سطح پر اطمینان کا اظہار کیا اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes