Tumgik
#یہی ایک وجہ مجھے مجبور کرتی ہے کہ کسی کو بھی اپنے اور اپنے دل کے قریب نہ آنے دوں
ariesvibe · 10 months
Text
.
10 notes · View notes
پردہ بکارت کے متعلق ایک تلخ حقیقت
غلط الفاظ کے استعمال پر پیشگی معذرت مگر یہ گفتگو کرنا ضروری ہے اور اپنے معاشرے کا چہرہ سامنے لانا مقصود ہے. اور میری یہ تحریر نہ تو لڑکیوں کے حق میں ہے اور نہ لڑکوں کے حق میں بلکہ صحیح بات کو واضح کرنا اس تحریر کا مقصد ہے.
لڑکے تو قابل اعتراض گفتگو امید ہے نہیں کریں گے لیکن اگر کوئی عورت پڑھے یا لڑکی پڑھے تو گندے الفاظ پر کمنٹس کی بجائے میری کہی ہوئی بات سے اگر اتفاق ہو تو اپنی اپنی رائے دیجئیے گا. شکریہ.
پردہ بکارت(عورت کی پھدی کی سیل) کے متعلق بہت کچھ سننے کو ملتا ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ.
آج میں بھی کچھ چیزیں آپ کے سامنے رکھوں گا.
آج کل جب بھی کسی شخص کی شادی ہو تو اس سے سننے میں یہ بات ضرور ملتی ہے کہ کڑی دی پھدی سیل پیک ہونی چاہی دی اے جے سیل پیک لبے تے چس آ جانی اے. اور انہی حضرات کے ساتھ اگر کچھ ایام شادی سے پہلے گزارے ہوں تو پتہ چلے گا کہ موصوف جس بھی لڑکی کو دیکھتے تھے یہی بولتے تھے کہ ایدھی سیل پھاڑنی اے کسے دن یا یہ بولتے ہیں کہ ایدھی سیل میں اپنے لن نال پاڑی سی بڑی چس آئی سی سالی پوری گشتی اے.یعنی ہم اپنے دل میں یہی آس امید لیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ دنیا کی ہر لڑکی کی پھدی ہم ہی ماریں اور اس کی سیل بھی سب سے پہلے ہم ہی توڑیں اور اس سب کے بعد بھی ہمیں ایسی لڑکی ملے جو بالکل سیل پیک ہو اس کی پھدی کو کسی لنڈ کا ٹچ کرنا تو کیا اس کے جسم کو کبھی کسی نے دیکھا تک نہ ہو.
تو بھئی پہلی بات تو ہے کہ اگر آپ ہر لڑکی کی سیل کھولنا چاہتے ہو تو اس گندی سوچ میں آپ اکیلے تو ہیں نہیں بلکہ آپ کے بہت سے دوست اس میں شامل ہوں گے اور جب ایسی سوچ بہت سے لوگ رکھتے ہوں تو سیل پیک لڑکی آپ کے لیے بچے گی کیا؟؟؟؟
اسی کی متعلق دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ دوسروں کی بننے والی بیویوں کی سیل کھولتے رہو گے تو کوئی ایسا بندہ بھی ہو گا جس نے آپ کی ہونے والی بیوی کی سیل کھول دی ہو گی عربی کی کہاوت ہے کہ( کما تدین تدان) یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے.
اب دوسری عورتوں کی سیل کھولنے کے بعد ان کی پھدیوں کو استعمال شدہ کرنےکے بعد سیل پیک پھدی کی امید بھی نہ رکھیں.
تیسری بات یہ ہے کہ آپ بات بات پر کسی بھی لڑکی کو گشتی کا لقب دے دیا کرتے ہیں توآپ کے نزدیک گشتی ہونے کا معیار کیا ہے آیا یہ معیار ہے کہ آپ جس کو اپنے پیار کا جھانسا دے کر اس کی پھدی مار رہے ہو وہ گشتی ہے؟؟؟ اگر وہ گشتی ہے تو پھر آپ کیا ہوۓ.
یا کسی لڑکی کو مجبور کر کے اس کی پھدی مارنا یہ گشتی پن کا اظہار کرتا ہے اگر ایسا ہونا گشتی ہونا ہے توآپ تو پھر اس کے دلال ہوئے نا.
یا پھر ہر راہ چلتی لڑکی آپ کے نزدیک گشتی ہے تو پھر اس نظریے سے تو آپ کی ماں بہن بھی گشتیاں ہی ہوئیں.
اب ایک اور سوال یہ ذہنوں میں آتا ہے کہ اگر تو لڑکی سیل پیک نکلے اس کی سیل ٹوٹی ہوئی نہ ہو تو پھولے نہیں سماتے اور اگر سیل ٹوٹی ہوئی نکل آئے تو آسمان سر پر اٹھا لیں گے کہ ما‌ں یدی پہلے کسے کولوں پھدا مرواندی رہی اے. پتہ نہیں کس کس دا لوڑا پھدے وچ لیندی رہی اے وغیرہ وغیرہ باتیں سننے کو ملتی ہیں اب سوال یہ ہے کہ واقعی جس عورت کی سیل کھلی ہو وہ پہلے پھدا مروا چکی ہوتی ہے یا نہیں یا پھر کسی اور وجہ سے اس کی سیل کھل گئی یا کوئی حادثہ ہوا ہو اس کے ساتھ جس کے نتیجے میں یہ کام ہوا.
اب اس کا جواب چند صورتوں میں بنتا ہے.
1. اگر کسی لڑکی کی سیل کھلی ہوئی ہو تو سب سے پہلے یہ بات یاد رکھی جائے کہ ایسا ضروری نہیں کہ لنڈ کے پھدی میں جانے سے ہی پھدی کی سیل پھٹے اس کے بغیر بھی پھٹ سکتی ہے مثلاً کوئی لڑکی انچی چھلانگ مارتی ہے تو بھی سیل پھٹ سکتی ہے کونکہ گھر کے کام کاج میں یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں اب وہ لڑکی پہلے سے آپ کو نہ تو جانتی ہے کہ آپ کی سوچ کیسی ہے اور نہ وہ یہ جانتی ہے کہ آپ کی شادی اس سے ہو گی اگر اسے یہ دونوں باتیں پتہ ہوتیں تو وہ آپ سے آکر کہہ دیتی کہ آ کر فلاں کوم کر جاو کیونکہ اگر میں نے یہ کام کیا تو انچی چھلانگ لگانے یا زور لگانے سے میری سیل پھٹ جائے گی اور آپ کو سیل پیک پھدی نہیں مل پائے گی.جب ایسا نہیں ہے تو سیل پھٹی ہوئی ہونے پر شور کیوں.
2. اب ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی بھی لڑکی کی پھدی لنڈ کے جانے سے نہ پھٹی ہوئی ہو بلکہ بعض لڑکیاں شادی سے پہلے سیکس کرتی ہیں اور خوب انجوائے کرتی ہیں اس کی پرواہ کیے بغیر کہ آئندہ کیا ہو گا جب شوہر سہاگ رات کو لنڈ ڈالے گا اور کھلی ہوئی پھدی اور سیل پیک نہ ہونے کا اس کو شک ہو جائے گا اور یہ بھی کہ یہ پہلے سے مرواتی رہی ہے. اب ایسا گھناؤنا فعل کرنے والی لڑکیاں ان کے پاس ایک بنا بنایا بہانہ بھی موجود ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لازمی نہیں کہ سیل پیک ہی ہو کھیل کود میں ٹوٹ جاتی ہے سیل اب ہمارا کیا قصور وغیرہ وغیرہ.
یہ بہانہ بنا کروہ لڑکیاں جو شادی سے پہلے بلا جھجک کھلے عام بہت سوں سے پھدی مروا چکی ہوتی ہیں وہ دوسری لڑکیوں جنہوں نے ایسا بالکل کرنا تو دور سوچا بھی نہیں ہوتا بدنام کروا دیتی ہیں اس میں غلطلی سراسر لڑکیوں کی ہوتی ہے جو ان کارناموں کے باوجود اپنی پاکدامنی ثابت کرنے میں جٹی ہوتی ہیں اور جب ان کے موبائل-فون سے شوہر کو ایسی چیٹس ملتی ہیں جوکہ بطور ثبوت و دلیل ہوتی ہے کہ ان کے شادی سے پہلے ناجائز تعلقات تھےجوکہ ان لڑکوں سے کی گئی ہوتی ہے جن سے شادی سے پہلے بھی تعلقات ہوتے ہیں اور شادی کے باوجود جن کو نہیں چھوڑا گیا ہوتا.اب ان تمام باتوں کے بعد بھی اگر مرد کے دل میں شک پیدا نہ ہو تو کیا حسن ظن پیدا ہو کہ محترمہ پھدی مروانے کے میسج اور مل کر فلاں فلاں جگہ مروانے کے میسج اچھی نیت اور بھائی بہن سمجھ کر کیے ہوں گے؟؟؟؟
نیز سیل کا پھٹنا بعض اوقات فنگرنگ کرنے یا سبزیوں اور دیگر گول اور لمبی چیزوں کےغلط استعمال سے بھی ہوتا ہے ظاہر ہے کہ جب پورن مویز دیکھیں گی تو ایسا کرنا ہی پڑے گا کیونکہ جب لڑکے کر سکتے ہیں تو لڑکیوں پر کیسی پابندی.
یہاں پر میں اپنی گرل فرینڈ کا ایک واقعہ سنانے جا رہا ہوں جو کہ حقیقت ہے اور جس کو میں شئیر تو نہیں کرنا چاہتا تھا پر گفتگو کے چلتے یہ بات کرنی پڑی.
میری ایک ہمسائی جس کا نام شازیہ تھا بچپن سے اس کو دیکھتا آیا تھا اور جب تھوڑا جوان ہوا تو اس کے جسم کے ابھار دیکھ ��ر لنڈ کھڑا ہو جاتا اور مٹھ بھی مارتا تھا اس کے نام کی.
وہ چونکہ ہمارے گھر بھی آتی تھی اکثر اوقات اورہمارے باتھ روم کے دروازے میں سوراخ تھا جس سے بار سب نظر آتا تھا جب وہ آتی تو میں باتھ روم میں گھس کر اس کو دیکھتے ہوئے مٹھ مارتا تھا.
شکل سے تو وہ بہت ہی شریف نظر آتی تھی اور پھر بعد میں اس نے درس نظامی یعنی عالمہ کورس بھی کر لیا تو مجھے لگا کہ اب تو بہت ہی شریف ہو گئی ہو گی مگر اس کے راز تب کھلے جب ایک دن میں فیس بک استعمال کر رہا تھا اور ایک آئی ڈی کی لڑکی والی تصویر سامنے آئی جس میں لڑکی کا چہرہ تو نہیں تھا لیکن نیچے والا دھڑ تھا اس کے جسم کے خدوخال سے مجھے ایسا لگا کہ ہو نہ ہو یہ میری ہمسائی ہی ہے کیونکہ میں اس کے جسم کو بخوبی پہچانتا تھا کیونکہ اس کو اس نزدیکی کے ساتھ جو دیکھا تھا اور وہ ہماری ہمسائی بھی تھی تو ہماری چھت سے اس کے گھر کا سارا نظارہ ہوتا تھا اور میں اس کو صفائی کرتے ہوئے اس کے نظر آتے ہوئے بوبز اور اس کی گانڈ میں پھنسی قمیض بھی دیکھا کرتا تھا اور اس کے سونے کی حالت کو بھی بعض اوقات دیکھا کرتا تھا اور کئی وفعہ تو اس کو موٹر سائیکل پر اپنے پیچھے بٹھایا بھی تھا بہرحال مجھے اس تصویر کو دیکھ کر تجسس پیدا ہوا میں نے اس آئی ڈی پر فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی چونکہ میری آئی ڈی پر میری ذاتی تصویر تھی تو اس نے ایکسیپٹ کر لی کچھ دن بعد میں نے ایک میسج کیا کون ہے؟ اگے سے بات چلی تو گویا اس لڑکی نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کیا کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ میں اسے جانتا نہیں اور وہ مجھے جانتی ہے تو وہ مجھے میرے گھر کا بائیو ڈیٹا بتا کر بلیک میل کرنے لگی اور میں جان بوجھ کر ہونے لگا اور اس کے سامنے ایکٹنگ کرنے لگا.بلاخر اس نے مجھے اپنا بتا دیا کہ وہ واقعی میری ہمسائی ہے یوں بات چلتی چلتی ایک دن میں نے اس سے نماز کا کہا تو کہنے لگی کہ میری طبیعت خراب ہے مجھے سمجھ آ گئی کہ اس کو حیض آیا ہے مگر بہانے کے ساتھ پوچھا کیسی طبیعت خراب ہے اس نے انکار کیا میں نے اصرار کیا تو بلاخر اس نے بتایا کہ مجھے حیض آیا ہے میں نے اس کی اس عادت کے بارے میں پوچھا کہ کتنے دن تک آتا ہے اسے حیض اس نے 5 سے 6 دن کی عادت بتائی اب بات آہستہ آہستہ آگے بڑھی تو میں نے اس کو گفٹ دینا شروع کیے اور پہلے پہل تو بات صرف میسجز کی حد تک تھی پھر بات ملنے ملانے پر آئی اور پھر گلے ملنا اور لپ کس کرنا ہمارے درمیان عام ہو گیا حالانکہ وہ اچھی بھلی مذہبی تھی اور پھر کافی دفعہ میں نے اس کو اپنے گھر بلا کر کسنگ بھی کی اور آہستہ آہستہ اس کی پھدی پر ہاتھ بھی اوپر اوپر سے لگاتا جس پر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا ایک دن میں نے اس کی شلوار میں ہاتھ ڈال کر اس کی پھدی کی لائن میں انگلی ڈالی تو وہ بہت گیلی تھی جب میں نے ایسا کیا تو اس نے فوراً میرے لنڈ کو پکڑ لیا اور تھوک لگا کر ہلانے لگی میں بہت حیران ہوا کہ اس کو ایسا کیسے پتہ ہے میرے پوچھنے پر اس کا جواب یہ تھا کہ وہ کافی عرصے سے پورن مویز دیکھتی ہے. ایک دن میرے سب گھر والے گھر پر نہیں تھے تو میں نے اسے بلایا اور اسے پورا ننگا کر کے اس کو چوما چاٹاپھر آخر میں اس کی پھدی کو نہ چاہتے ہوئے بھی چاٹنا پڑا کیونکہ اس کی ضد تھی پر جب چوسنا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اس کی پھدی کافی کھلی تھی کیونکہ اس سے پہلے میں نے کبھی اس کی پھدی اس طرح نہیں دیکھی تھی میں نے پوچھا کہ تم سیل پیک ہو کیا تو کہنے لگی ہاں میں نے چیک کرنے کے لیے پوچھا انگلی ڈالوں تو درد تو نہیں ہو گا کہنے لگی ڈال کر دیکھ کو اس کے بعد میں نے ایک انگلی ڈالی پھر دوسری اور پھر تیسری پر محترمہ کو درد کہاں ہونا تھا میرا شک پکا ہو گیا کہ کچھ تو کام خراب ہے میں نے کہا کہ نہ خون نکلا نہ درد ہوا کیا وجہ ہے تو فوراً پلٹا کھا گئی اور بولی کہ میں رسی پھلانگتی ہوں جس کی وجہ سے پھٹ گئی ہو گی میں نے مان لیا پھر کافی مرتبہ میں نے اور اس نے سیکس بھی کیا اس کی پھدی بھی ماری.
وہ لڑکی بچوں کو ٹیوشن بھی دیتی تھی تو ایک دن بات کرتے کرتے اس نے کہا کہ تمہیں ایک عجیب بات بتاؤں میں نے کہا کہ بتاؤ کہنے لگی کہ آج جب میں بچوں کو پڑھانے کے لیے کرسی پر بے دھیانی میں بیٹھی تو اچانک پھدی میں کوئی چیز چبھی اور میں اچانک اٹھ گئی جب دیکھا تو نیچے کسی نے پینسل کھڑی کر کے رکھی تھی اس پر خون لگا تھا جب باتھ روم میں گئی تو پھدی سے خون نکل رہا تھا پھر پیڈ لیا اور لگا کر پڑھانے آئی.
کچھ مزید باتیں کھلیں اور وہ کھل کر سامنے آتی گئی کہ مذہبی ہونے کے باوجود وہ اتنی گندی تھی.
ایک مرتبہ اس نے بتایا کہ مجھ سے پہلے اس نے اپنے ایک کزن کے ساتھ بس کسنگ کی تھی تو میں وہ پھدی کے اندر ڈلنے والے تین انگلیوں کا معاملہ سمجھ کیا کہ ہو نہ ہو اسی سے اس نے اپنی پھدی مروائی ہو گی کیونکہ لڑکے کو تو صرف اشارہ چاہیے ہوتا ہے اور (لڑکی تیرا ایک اشارہ حاضر ہے لنڈ ہمارا)اس پر عمل فوراً ہوتا ہے.
بہرحال اب اس کی شادی ہو چکی ہے مگر پھر بھی وہ مجھ سے رابطے میں رہتی ہے جب شادی کے بعد اس کے ساتھ میرا رابطہ ہوا تو میں نے پوچھا کہ شوہر نے پوچھا نہیں کہ خون کیوں نہیں نکلا تو کہنے لگی پوچھا تھا پر میں نے کہہ دیا کہ کھیلتے ہوئے ٹوٹ گیا تھا.
اب بندہ پوچھے کہ کیا یہ سراسر دھوکا نہیں ہے اپنے شوہر کے ساتھ کہ اس کو یہ کہا جا رہا ہے کہ سیل کھیلنے سے ٹوٹی جبکہ اس پھدی میں ہم اپنا آٹھ انچ لمبا اور 2.5 انچ موٹا لوڑا بھی ڈالتے رہے ہیں.
مطلب یہ کہ ہر بار ایسا ہی نہیں ہوتا کہ سیل کھیلنے سے ٹوٹے بلکہ کئی بار چدوانے سے بھی ٹوٹتی ہے اس حقیقت کو بھی مانا جائے.
بعض اوقات یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی نے کسی لڑکی کو مجبور کیا ہو بلیک میل کیا ہو اور اس کے ساتھ زبردستی سیکس کیا ہو اس صورت میں بھی کھلنے والی سیل پر اعتراض نہیں اور نہ ہی کھیل کود سے کھلنے والی سیل پر اعتراض ہے. اعتراض تو جان بوجھ کر مرضی کے ساتھ سیکس کرنے پر کھلنے والی سیل پر ہے کہ اس پر بھی الزام مرد پر ہی کیوں اور یہ کہنا ہی کیوں کہ سیل کھیلنے سے کھلی ہو گی اور اس پر اپنی پاکدامنی ثابت کرنا کیا درست ہے؟؟؟
کوئی بندہ یہ نہ سمجھے کہ اس سے مقصود اپنی سیکس سٹوری سنانا تھی ہرگز نہیں بلکہ کچھ باتیں کھل کر کرنی تھیں.
Tumblr media
48 notes · View notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
واقعہ کربلا اور ہم
واقعہ کربلا اور ہم
آج عشرہ محرم کا چھٹا دن ہے…… چار روز بعد آئندہ جمعرات کو یوم عاشور ہو گا…… دنیا بھر کے شیعہ مسلمان اور سنیوں کی بھاری اکثریت اس دن کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے افراد کنبہ کی جن میں نہتی خواتین اور معصوم بچے بھی شامل تھے میدان کربلا میں یزیدی لشکر کے ہاتھوں مظلومانہ شہادت کی یاد تازہ کرتی ہے…… مجالس اور مساجد میں واقعہ کربلا کی تفصیلات بیان کی جاتی ہے…… شدت غم سے نڈھال سامعین ان پر گزرنے والے مصائب اور آلام کا تذکرہ کر کے گریہ و آہ وزاری کرتے ہیں …… ماتم کیا جاتا ہے…… حضرت حسین اور ان کے افراد خاندان کی حالت زار کا عقیدت بھرے الفاظ اور غمگین لہجوں میں ایسا ایسا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ سننے والا غیرمسلم ہو بھی تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا…… حضرت حسینؓ کی مظلومیت اور یزید کے ظالم فوجیوں کے ہاتھوں ان پر بے بسی کی کیفیت طاری کر کے شہادت سے دوچار کرنے کا المیہ ہمارے شعروادب کا استعارہ بن چکا ہے…… شاعری کی گئی ہے…… مرثیے رقم کئے گئے ہیں …… اردو ادب کی تاریخ ان بیانیوں سے بھری پڑی ہے…… میر انیس و دبیر جیسے چوٹی کے شاعروں نے تمام تر عروج اپنے مرثیوں کی وجہ سے حاصل کیا اور ہماری شاعری میں لازوال مقام پا لیا…… غالب سے لے کر اقبال اور آج کے عہد تک کی اعلیٰ شاعری کے نمونے حسین کی لازوال قربانی کو خراج تحسین سے مزین ہیں …… اس طرح شعراء، ادیب اور واعظین ہر سال مجالس منعقد کر کے اپنے اپنے کمالات کا مظاہرہ کرتے ہیں اور غم حسین کی محافل کو ایک زندہ اور ہماری ثقافت کے اندر رچی بسی روایات کا زندہ رکھنے کا باعث بنے ہوئے ہیں …… سنی مساجد میں بھی وعظ کی خصوصی محافل منعقد کی جاتی ہے جن میں عامتہ الناس اور معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ پوری عقیدت کے ساتھ شرکت کر کے ہماری ابتدائی تاریخ کے سالوں کے اس اہم تر واقعے کے حوالے سے اپنے اندر جذبہ شہادت سے تسکین حاصل کرتے ہیں …… شیعہ بھائی اس موقع پر مخصوص اور جانی پہچانی رسومات ادا کرتے ہیں …… علم نکالے جاتے…… ذوالجناح کے جلوس برآمد ہوتے ہیں …… شرکاء سینہ کوبی کرتے ہیں …… اس طرح غم حسین کی یہ اہم تر تقریب ان کے یہاں سب سے بڑے مذہبی فریضے کی ادائیگی کا ذریعہ بن جاتی ہے…… جلوسوں کے راستوں پر جابجا ٹھنڈے پانیوں کی سلیبیں آراستہ کر کے حضرت حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی پیاس کا غم بجھایا جاتا ہے…… یوم عاشور کی تقریبات کا خاتمہ شام غریباں کے انعقاد پر ہوتا ہے…… جس میں قافلہ حسینی کی وہ خواتین اور بچے جو تلواروں کی زد سے بچ گئے …… ان بیوہ خواتین اور یتیم بچوں کی مظلومیت اور بے بسی کا ایسا منظر باندھا جاتا ہے کہ سن کر پتھر دل بھی ایک دفعہ موم ہو جاتے ہیں …… یہ چند جھلکیاں ہیں …… جن جانب اشارہ کر کے عشرہ محرم کے دوران اہل تشیع کی جانب سے نواسہ رسول کو ان کی مظلومانہ شہادت پر خراج عقیدت پیش کرنے کا حوالہ دیا گیا ہے ورنہ ان کے یہاں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں محرم کی تقریبات غم جو عبادت کا درجہ رکھتی ہیں اس سے کہیں زیادہ اور مختلف نوع کی رسومات کی ادائیگی کی صورت میں کیا جاتا ہے…… اسی طرح سنّی مسلمانوں کی جیسا کہ عرض کیا گیا بھاری اکثریت اپنے انداز میں یہ دن مناتی ہے…… مجالس میں مواعظ کے علاوہ گھروں کے اندر ختم قرآن پاک کا گہری عقیدت کے ساتھ اہتمام ہوتا ہے…… نیازیں بانٹی جاتی ہیں …… پلاؤ اور حلیم کی دیگیں پکتی ہیں اور ان میں تیارکردہ خوان خوب تقسیم ہوتے ہیں …… پیشتر مقامات پر لوگ اپنے اپنے علاقے کے قبرستانوں کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کے پیارے اس دنیا کو خیرباد کہہ کر ابدی نیند سو رہے ہوتے ہیں …… قبروں پر نئی مٹی ڈالی جاتی ہے…… انہیں پھولوں سے سجایا جاتا ہے…… پھولوں اور اگربتیوں کی خوشبوؤں سے پورا قبرستان مہک اٹھتا ہے…… یہ دن اتنے جوش و جذبے اور غم و اندوہ کی کیفیت میں ڈوب کر یوں منایا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارے طرز احساس کا حصہ بن گیا ہے…… اس کی رسوم اور تقریبات کے ذریعے نہ صرف ہم مسلمانوں کے ایک بڑے اور اہم فرقے کے لوگوں کے لئے عبادت کا وسیلہ بن جاتا ہے بلکہ سنّی عوام کے یہاں منعقد ہونے والی تقریبات ساری تصویر کا حصہ بن کر غمِ حسین کو ہمارے یہاں کی ادبی و ثقافتی زندگی کا اہم جز بنا دیتی ہے یوں اہل سنت کے یہاں عیدین کے بعد 10 محرم کا دن مذہبی علامات کے اظہار کا سب سے بڑا سبب بن جاتا ہے…… 
حضرت حسینؓ کی شہادت عظمیٰ کی یاد اس لئے بھی گہرے رنج و غم کے ساتھ منائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عظیم المرتبت آخری نبی حضرت محمد رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کی چند دہائیوں کے بعد ان کے اہل بیت کو اس المیے سے دوچار ہونا پڑا اس وجہ سے یہ واقعہ طلوع اسلام کی پہلی صدی کے اندر ہی ہمارے ملی دامن پر اَن مٹ سیاہ داغ بن کر چپک سا گیا ہے کہ مٹائے نہیں مٹتا…… دوسرا اہم تر سبب اس کا وہ عظیم الشان مشن ہے جس کی تکمیل کی خاطر جناب حسین نا صرف حکومتِ یزید جیسی پہاڑ سے زیادہ وقت کی مضبوط طاقت اور فوج کے ساتھ جا ٹکرائے…… اپنی خواتین اور بچوں تک کو قربانی کے لئے پیش کر دیا…… وہ مشن اور مقصد جیسا کہ ہمارے علماء تاریخ 
اور شارحین اسلام نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اسلامی ریاست یا خلافتِ اسلامیہ کے مضبوط ترین ستون کو اپنی موروثی بادشاہت کو مضبوط کرنے کے لئے مسمار کر دیا گیا تھا…… یزید کی بیعت کھلے عام مسلمانوں کی آزاد مرضی کی بجائے حکومتی جبر کے تحت کرائی گئی…… یوں اس وقت کے ووٹ کی حرمت پامال ہو کر رہ گئی…… حضرت حسینؓ کے لیے حکمران وقت کے بار بار کے تقاضوں اور ترغیبات کے باوجود ایسی بیعت کی توثیق کرنا مشکل ہو گیا تھا…… ان کے لئے نانا کے وجود میں لائے ہوئے اور قائم کردہ اس دینی ریاستی نظام پر ضرب کاری کا لگایا جانا ناقابل برداشت تھا اس لئے انہوں نے اس عالم میں کہ لوگوں پر یزید کی ناجائز حکمرانی کی ہیبت طاری تھی پہلے کنبے کے افراد کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ سے کوفہ تک کا لمبا سفر اختیار کیا…… یہ سب کھلی کارروائی تھی کسی قسم کی خفیہ یا زیرزمین سرگرمی نہیں تھی…… انہوں نے چونکہ سرعام اور بار بار کے مطالبے کے باوجود یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور ناجائز غیرآئینی حکومت کے آگے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا جو وقت کی اشرافیہ کے طرز عمل کے خلاف تھا…… اس لئے اس عہد کے کئی داناؤں نے سمجھایا آپ اتنا بڑا خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں دمشق کے دربار کی جانب سے اسے خروج (بغاوت) پر محمول کیا جائے گا…… آپ کی اتنی بڑی قربانی کو قدرومنزلت کی نگاہ سے کوئی دیکھنے والا نظر نہیں آتا اور کم لوگوں میں آپ کی خاندانی تقدیس کی پروا باقی رہ گئی ہے…… اس عالم میں اپنی اور گھر کی خواتین و بچوں کی زندگیوں کو کسی بڑے خطرات سے دوچار نہ کیجئے لیکن حضرت حسینؓ کا جیسا کہ کتبِ تاریخ گواہ ہیں ایک ہی جواب تھا میں ایک ناجائز حکمران کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسے اپنے نانا کی عظیم الشان وراثت پر قابض نہیں ہونے دوں گا…… مدینہ سے روانگی کے وقت انہیں اہلِ کوفہ سے توقع تھی اور ان کی جانب سے موصول ہونے والے کئی خطوط اس کے گواہ بھی تھے کہ وہ قافلہ حسینی کی عملی حمایت اور کوفہ میں ان کی آمد کی دل و جان سے استقبال کر کے ان کی قوت میں خاطر خواہ اضافہ کر دیں گے لیکن وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا سب نے منہ پھیر لیا ہے…… اس حالت میں جناب حسین کہے قافلے کو یزیدی فوج نے گھیرے میں لے کر بے دردی کے ساتھ ان کے قتل کا سامان کیا…… یوں جو کچھ ہوا ہماری قوم کا بچہ بچہ اس سے واقف ہے اور اسی المیہ عظیم کی ہر سال کی مانند ان دنوں بھی ہم پورے روایتی طریقے سے یاد منا رہے ہیں ……
مگر فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے نواسہ رسول کو خراج تحسین پیش کرنے کا کیا یہی طریقہ ہمارے پاس باقی رہ گیا ہے جس مقصد کی خاطر انہوں نے اتنی بڑی اور تاریخی قربانی دی کیا ملتے جلتے حالات کے اندر اس کی تکمیل  ہماری ذمہ داری نہیں ہے…… پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ریاست مدینہ کے قیام کے بعد دوسری نظریاتی ریاست اس ملک کی شکل میں وجود میں لائی گئی…… قائداعظمؒ اس کے بانی تھے اور علامہ اقبالؒ اس کے تصور کے خالق…… علامہ سوشل جمہوریت کے بہت بڑے قائل تھے ان کے لیکچروں اور فارسی و اردو شاعری میں یا جو خطوط علامہ مرحوم نے بانی پاکستان کے نام لکھے یہاں تک کہ خطبہ الٰہ آباد جسے تصور پاکستان کی اثاثی دستاویز کہا جاتا ہے کہیں اس بات کا اشارہ نہیں پایا جاتا کہ نئی اور متوقع ریاست میں عوامی کی بجائے عسکری طاقت کے بل بوتے پر کسی کی حکمرانی کو جائز سمجھا جائے گا ان کے بعد بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لئے آزاد اور علیحدہ مملکت کے حصول کی خاطر اپنی کامیاب جدوجہد کے دوران کسی مقام پر بھی خالصتاً جمہوری اصولوں کے علاوہ جبر اور تسلط کے کسی اور طریقہ کار کو اختیار کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا نہ اپنی قیادت اور جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے بارے میں ایسا کوئی تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی کوئی عسکری قوت بھی ان کی مددگار بن کر قیام مملکت کے مشن کو نتیجہ خیز بنا سکتی ہے ان کا تمام تر یقین اپنے نصب العین کی سچائی اور برصغیر کے مسلمان عوام کی جمہوری طاقت پر انحصار کئے ہوئے تھا…… 1940 کا قراردادِ پاکستان منظور کرنے والا لاہور کا جلسہ ہو یا 1945-46 کے انتخابات ہوں جس میں مسلمانانِ ہند کی بھاری اکثریت نے ووٹ دیا تھا…… اس تمام تر جاں گسل جدوجہد کے دوران جانوں کی قربانیاں بھی دی گئیں جیلیں بھی کاٹی گئیں مخالفین کے طعنے بھی برداشت کئے گئے لیکن جو بھی راستہ اختیار کیا اس میں کسی قسم کی خفیہ یا زیرزمین سرگرمی کا نشان نہیں ملتا یہ کھلے میدان کی لڑائی تھی جس میں قائداعظمؒ نے مسلمان عوام کی بھاری اکثریت کے علاوہ علماء کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی…… مولانا شبیر احمد عثمانی جیسی جلیل القدر علمی شخصیت نے ساتھ دینے کا اعلان کیا…… بیوروکریسی یا فائنیشل سروسز میں چودھری محمد علی مرحوم اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے گورنر زاہد حسین جیسے اپنے شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد نے دست تعاون بڑھایا لیکن تحریک پاکستان کے تمام سالوں کے دوران ہمیں ایک موقع پر بھی کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی جرنل یا آفیسر کا براہ راست یا بالواسطہ کردار نظر نہیں آیا نہ قائد اس کی ضرورت محسوس کرتے تھے…… مملکت خداداد کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے انہوں نے جو حلف اٹھایا اس میں مرحوم نے صاف الفاظ میں عہد کیا کہ وہ پاکستان کے آئین کی جو ابھی بنا نہیں تھا پیروی کو فرض اولین قرار دیں گے…… اپنی وفات سے چند ماہ پہلے کوئٹہ میں سینئر افسروں کی ایک تربیت گاہ سے خطاب کرتے ہوئے سوال و جواب کے سیشن کے دوران قائد نے بھانپنے میں دیر نہ لگائی کہ ان افسروں کی سوچ کا زاویہ نظر کیا ہے…… باہر آ کے انہوں نے صاف لفظوں میں بیان کیا کہ ہمارے افسروں کو آئین و جمہوریت کے لوازمات سے آگاہ کرنا ازحد ضروری ہو گیا ہے تاکہ وہ اس حقیقت کا ادراک کر لیں کہ ان کا فریضہ ملک کی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے نا کہ ریاستی امور میں مداخلت کرنا…… مگر موصوف کے آنکھیں بند کر لینے اور لیاقت علی کے قتل کے بعد ہمارا ملک اور قوم مارشل لاؤں کے جس اندھے گڑھے میں جا گرا ہے اور اب تک جوہری لحاظ سے جس غیرآئینی حکمرانی کے زیرسایہ ہمیں سرنیہوڑا کر زندہ رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اس عالم میں ہم حضرت حسینؓ کی یاد میں بے حال ہوئے جا رہے ہیں مگر ان کے اصولوں اور طرزعمل کو فراموش کر دیتے ہیں …… ریاست مدینہ کا نام لیتے نہیں تھکتے…… اس صورت حال اور کھلی و پس پردہ غیرآئینی حکمرانی کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو طنزو تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے…… کیا واقعہ کربلا کے المیے کی یادیں ہم سے اسی طرز عمل کا تقاضا کرتی ہیں …… مجھے یاد ہے 1961 میں جب پاکستان پہلے مارشل لاء کی زد میں تھا مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ٹیمپل روڈ لاہور پر ایک شیعہ لیڈر محمد علی زیدی کی قیام گاہ پر مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا شیعہ اور سنّی مسلمان یادِ حسین میں تو پیچھے نہیں رہتے لیکن آج اگر حضرت حسینؓ اسی محفل میں آ کر مسلمانوں سے مطالبہ کریں آؤ میرے ساتھ مل کر ایک غیرآئینی حکمرانی کے خلاف نکل کھڑے ہو جاؤ تو مجھے یقین ہے آپ میں سے دو آدمی بھی ڈر اور خوف کے مارے ساتھ دینے والے نہیں ہوں گے…… میں ایک عام سا نوجوان اس محفل میں موجود تھا اور یہ میرے دیکھنے کی بات ہے پوری کی پوری مجلس پر جس کے اندر بعض جیّد علماء بھی موجود تھے عجب سی خاموشی چھا گئی، بعد میں کچھ اور علماء نے بھی محفل کو گرمایا لیکن کسی ایک کو مولانا مودودی کے اٹھائے گئے نقطے کی جانب اشارہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی…… آج بھی جب ہم ہر سال کی مانند عشرہ محرم کی تقریبات منا رہے ہیں ہمارے ملک کے نظام پر جبر اور تشدد کی فضا چھائی ہے کم لوگوں کو کھل کر بات کرنے کا یارا ہے……
Source link
0 notes
emergingpakistan · 3 years
Text
جو بائیڈن اور ایردوان
امریکہ اور ترکی کے درمیان جمہوریہ ترکی کے قیام ہی سے بڑے گہرے تعلقات چلے آرہے ہیں اور ترکی عالمِ اسلام کا واحد ملک ہے جو نیٹو کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ دیگر کئی ایک پیکٹ میں اس کا اتحادی رہا ہے اور اب بھی اسے امریکہ کے ایک انتہائی قریبی اتحادی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اگرچہ    اس دوران مختلف مواقع پر تعلقات میں جمود بھی آتا رہا اور سنہ 1974 میں قبرص کی جنگ کے بعد امریکہ نے کچھ عرصے کیلئے ترکی کو اسلحہ فروخت کرنے پر جو پابندیاں عائد کی تھیں اور پانچ بلین ڈالر مالیت کے امدادی پیکیج کو سینٹ میں جو ویٹو کیا تھا ، وہ سب کچھ جو بائیڈن ہی کا کیا دھرا تھا اور گزشتہ 36 سال سے ترکی کی قبرص سے متعلق پالیسی کی بھی وہ بھر پور طریقے سے مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب صدر بائیڈن اور صدر ایردوان کے درمیان تعلقات کیسے استوار ہوتے ہیں اور اس کے اثرات ترکی اور امریکہ پر کیسے مرتب ہوتے ہیں؟ لیکن یہاں پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ موجودہ دور کا ترکی ماضی والا ترکی نہیں رہا بلکہ دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط ہو چکا ہے اس لیے اسے اب اپنے دفاع کیلئے امریکی اسلحے اور جنگی سازو سامان کی اس قدر ضرورت باقی نہیں رہی جیسی کہ اسے ماضی میں ہوا کرتی تھی۔
نو منتخب صدر جو بائیڈن کا تعلق ریاستِ ڈیلاوئر (Delaware) سے ہے، جہاں یونانی نژاد باشندے کثرت سے آباد ہیں اور بڑا اثرو رسوخ رکھتے ہیں جو بائیڈن اپنے ان ہی ووٹروں کی وجہ سے قبرص اور بحیرہ ایجین میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں یونان کی حمایت سے متعلق بیان دینے سے کبھی گریز نہیں کرتے۔ نائب صدر ہونے کے دور میں انہوں نے چار بار ترکی کا دورہ کیا۔ پہلا دورہ 2011ء میں کیا جب عبداللہ گل صدر اور ایردوان وزیراعظم تھے اور انہوں نے اس وقت’’ عرب اسپرنگ‘‘ پر بات چیت کی تھی جبکہ دوسرا دورہ 2014ء میں کیا جب ایردوان ملک میں صدارتی ریفرنڈم کروانے کے بعد صدر منتخب ہوئے تھے اور اس موقع پر انہوں نے دہشت گرد تنظیم ’’داعش‘‘ کے بارے میں شروع کردہ فضائی آپریشن کے بارے میں بات چیت کی تھی جبکہ اس سے قبل انہوں نے بیان دیا تھا کہ امریکہ نے ترکی کو شام کے صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کیلئے مالی اور فوجی امداد فراہم کی ہے۔
بائیڈن کے اس بیان پر ترک صدر ایردوان نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا جس کے نتیجے میں بائیڈن اپنے بیان کو واپس لینے اور ترکی سے معذرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور اس کے بعد انہوں نے ترکی کے انجرلیک کے ہوائی اڈے کو شام اور’’داعش‘‘ کے خلاف استعمال کرنے کیلئے حکومتِ ترکی کی اجازت حاصل کرنے کی غرض سے ترکی کا دورہ کیا تھا۔ ترکی میں 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے بعد ماہ اگست میں انہوں نے ایک بار پھر ترکی کا دورہ کیا اور امریکہ کی جانب سے ترکی کی حمایت میں کسی قسم کا کوئی بیان نہ دینے پر اپنی معذرت اور ندامت کا دوسری بار اظہار کیا۔ بائیڈن صدر اوباما کے دور میں نائب صدر اور اس سے قبل سینٹ میں خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن اور پھر چیئرمین ہونے کے دور میں ہمیشہ ہی آرمینی لابی کے زیر اثر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کئی بار ترکی پر بڑے برملا طریقے سے ’’ آرمینی نسل کشی‘‘ کا الزام لگاتے چلے آئے ہیں اور جیسے ہی صدارتی امیدوار بنے انہوں نے آرمینی لابی کا دل جیتنے کیلئے انہیں پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر میں صدر منتخب ہو گیا تو میں آرمینی نسل کشی کے بل کی حمایت کروں گا۔‘‘
نو منتخب صدر جو بائیڈن کا نیو یارک ٹائمز کو دیا گیا انٹرویو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ ہمیں ترکی کی حزبِ اختلاف کی کھل کر حمایت کرنی چاہیے تاکہ صدر ایردوان کا فوج کے ذریعے نہیں بلکہ انتخابات کے ذریعے تختہ الٹا جا سکے اور کرد قومیت پسندوں کو ترک پارلیمنٹ میں مزید نمائندگی دی جا سکے‘‘ اس بیان پر ترک صدر ایردوان اور ترکی کے تمام سیاستدانوں نے شدید ردِعمل ظاہر کیا تھا۔ چند ماہ قبل ترکی کی اعلیٰ ترین عدلیہ ’’کونسل آف دی اسٹیٹ‘‘ کی جانب سے گزشتہ ستر سال سے میوزیم کی حیثیت سے خدمات فراہم کرنے والے کلیسا ’’آیا صوفیہ‘‘ جسے سلطان محمد فاتح کی جانب سے مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا اور پھر 1935ء میں اسے میوزیم میں تبدیل کیا گیا تھا سے متعلق دائر کردہ مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے اسے دوبارہ سے مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے پر بھی جو بائیڈن نے اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ ’’آیا صوفیہ کئی ایک مذاہب کے پیرو کاروں کیلئے ایک مقدس مقام ہے جو اپنے فنِ معماری کے باعث سب کی توجہ کا مرکز ہے۔
گزشتہ 85 سال سے دنیا کے مختلف علاقوں سے مختلف مذاہب کے انسان اس کی زیارت کرتے آئے ہیں اور 1985ء سے یونیسکو نے اسے عالمی ورثے کی فہرست میں جگہ دے رکھی ہے۔ حکومتِ ترکی کے اسے مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے سے مجھے شدید دکھ پہنچا ہے۔ اس لیے میں صدر ایردوان سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور دوبارہ سے اسے میوزیم میں تبدیل کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔‘‘ دیکھنا یہ ہے کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان سے کس قسم کے تعلقات قائم ہوں گے؟ کیا جو بائیڈن اپنے موقف میں نرمی پیدا کریں گے؟ کیونکہ وہ علاقے میں کسی بھی صورت ترکی جیسے اتحادی کو کھونا نہیں چاہیں گے۔ تادم تحریر صدر ایردوان نے جو بائیڈن کو مبارکباد کا پیغام روانہ نہیں کیا جبکہ دنیا کے دیگر تمام ممالک کے رہنما صدر بائیڈن کو مبارکباد کا پیغام دے چکے ہیں۔
ڈاکٹر فر قان حمید 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
ناقابل یقین ذہنی صلاحیت کی مالک شنکتلا دیوی کی زندگی پر فلم گیتا پانڈےبی بی سی نیوز، دلی18 منٹ قبل،Amazon primeریاضی کی ماہر انڈیا کی شکنتلا دیوی، جنہیں اکثر ’انسانی کمپیوٹر‘ بھی کہا جاتا ہے، ان کی زندگی پر بننے والی ایک نئی فلم جمعہ کو ایمیزون پرائم پر نمائش کے لیے ریلیز کی جا رہی ہے۔ بالی ووڈ اداکارہ ودیا بالن جنہوں نے اس فلم میں شکنتلا دیوی کا کردار نبھایا ہے، ان کے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ ایک ’چھوٹے شہر کی انڈین لڑکی تھیں جنہوں نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی‘۔ریاضی میں شکنتلا دیوی کے حیران کن مہارت کی وجہ سے ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل کیا گیا اور انہیں دنیا بھر میں شہرت بھی ملی۔شکنتلا دیوی نامی نئی فلم کے ٹریلر کے ایک سین میں جب کمرے میں بیٹھے لوگ ودیا بالن کے کردار سے دو بڑے نمبروں کو آپس میں ضرب دینے کو کہتے ہیں تو وہ مسکرا کر پوچھتی ہیں کہ ’جواب دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں دوں؟‘اصل زندگی میں شکنتلا دیوی کینیڈا کے ایشین ٹی وی نیٹورک کے ساتھ ایک انٹرویو میں ایسا کر چکی ہیں۔ اس انٹرویو کی ویڈیو پانچ لاکھ سے زیادہ بار دیکھی جا چکی ہے۔ یہ ویڈیو اپریل 2013 میں ان کی وفات کے بعد جاری کی گئی تھی۔ ان کا انتقال 83 برس کی عمر میں ہوا تھا۔ودیا بالن نے بی بی سی کو بتایا کہ کردار کی تیاری کرتے ہوئے وہ ویڈیو انہوں نے بھی دیکھی تھی۔ یہ بھی پڑھیے،اس ویڈیو میں سوال پوچھنے والا شخص، جو کہ ایک کینیڈین یونیورسٹی میں ریاضی کے طالب علم تھے، کہتے ہیں کہ ’ایک کیلکولیٹر کو اس سوال کا جواب دینے میں تین منٹ لگیں گے‘۔ شکنتلا دیوی کچھ سیکنڈوں میں جواب دے دیتی ہیں۔ممبئی سے فون پر بات کرتے ہوئے ودیا بالن نے کہا کہ ’انہوں نے کوئی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی، لیکن وہ ریاضی کے مشکل سے مشکل سوال، اپنے ذہن میں لمحوں میں حل کر لیتی تھیں۔ سب سے تیز کمپیوٹر سے بھی تیز۔‘اپنے انٹرویوز میں شکنتلا دیوی کہہ چکی ہیں کہ وہ، ’تین سال کی عمر سے اپنے ذہن میں ہندسوں کا حساب لگاتی آئی ہیں۔‘ وہ یہ بھی کہہ چکی ہیں کہ ان کے والد کو، جو کہ ایک سرکس آرٹسٹ تھے، ان کے فن کے بارے میں تب پتہ چلا جب وہ تاش کھیلتے ہوئے انھیں ہر بار ہرا دیتیں، اور انہیں احساس ہوا کہ اس کی وجہ ہاتھ کی صفائی نہیں بلکہ پتوں کو یاد کرنے کی ان کی صلاحیت تھی۔شکنتلا دیوی سے جب بھی ان کے اس غیر معمولی اور حیران کن ہنر کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ ’یہ خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے، ایک مقدس تحفہ۔‘،Amazo primeوہ چھ سال کی تھیں جب انہوں نے انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے شہر میسور میں، جہاں ان کی پیدائش ہوئی، پہلی بار عوامی پرفارمنس دی۔انہوں نے خود ہی لکھنا پڑھنا سیکھا اور پھر کئی دہائیوں تک دنیا بھر میں یونیورسٹیز، تھیئٹرز، ریڈیو اور ٹی وی شوز پر ناظرین کے سامنے، اپنے ذہن میں ریاضی کے مشکل سے مشکل سوال حل کرتی رہیں۔ سن 1950 میں انہوں نے بی بی سی کے ایک ٹی وی شو میں شرکت کی تو ان کا ایک جواب شو کے میزبان کے جواب سے مختلف تھا۔ شکنتلا دیوی نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ دراصل سوال میں ہی ایک غلطی تھی۔ جب ماہرین نے سوال پر دوبارہ نظر ڈالی تو شکنتلا دیوی کی بات صحیح نکلی۔سن 1977 میں شکنتلا دیوی نے امریکی شہر ڈیلس میں یونیویک کو شکست دی، جسے دنیا کا تیز ترین سوپر کمپیوٹر سمجھا جاتا ہے۔اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں جگہ بنانے کے لیے انہوں نے لندن کے امپیریئل کالیج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ایک ہزار لوگوں کے سامنے تیرہ تیرہ ہندسوں والے دو نمبروں کو اپنے ذہن میں ضرب دیا۔ انہیں ایسا کرنے میں 28 سیکنڈ لگے، جن میں 26 ہندسوں والا جواب پڑھنے کا وقت بھی شامل تھا۔ ،Amazon primeودیا بالن کہتی ہیں کہ ریاضی میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ شکنتلا دیوی علم نجوم کی بھی ماہر تھیں۔ انہوں نے علم نجومِ، کھانا بنانے، ریاضی اور جرائم پر کتابیں بھی لکھیں۔ انہوں نے ستر کی دہائی میں ہم جنس پرستی کو جرم تصور کیے جانے کے خلاف بھی ایک کتاب لکھی، جب انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک اور معاشروں کے لیے یہ ایک بڑی بات تھی۔’ان کی شخصیت کے بہت سارے پہلو تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی اپنی شرائط پر جی، وہ بالکل بےخوف تھیں۔ اور یہ آج کل کی نہیں پچاس سال پرانی بات ہے۔‘ودیا بالن کہتی ہیں کہ دو سال قبل جب فلم کی ہدایت کار انو مینن ان سے ملیں تو، ’میں نے شکنتلا دیوی کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کے بارے میں سنا، تو میں نے کہا کہ، اُف، یہ کہانی تو فلم بننے کا ہی انتظار کر رہی ہے۔‘ودیا بالن نے بہت سارے ویڈیوز دیکھ کر، شکنتلا دیوی پر لکھے گئے آرٹیکلز پڑھ کر، اور انوپما بینرجی کی باتیں سن کر خود کو اس فلم کے لیے تیار کیا۔ انوپما بینرجی شکنتلا دیوی کی اکلوتی بیٹی ہیں، اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ لندن میں رہتی ہیں۔’اس سب سے مجھے ان کی زندگی میں جھانکنے کا ایک موقع ملا۔ مجھے جو بات بہت دلچسپ لگی وہ یہ تھی کہ اکثر ہم ریاضی کے ساتھ کسی ایسے شخص کا تصور نہیں کرتے جو زندہ دل ہو، مستی کرتا ہو، لیکن شکنتلا دیوی اس تصور کو چیلینج کرتی ہیں۔’وہ ہندسوں کے ساتھ کھیلتی تھیں، جب وہ ریاضی کا کوئی سوال حل کر رہی ہوتی تھیں تو ان کے چہرے پر مسرت، خوشی نظر آتی ہے۔ اور انہیں پرفارم کرنا بہت پسند تھا۔ یہ سب ایک ریاضی دان کے لیے بہت غیر معمولی ہے، کیونکہ ریاضی کو اکثر بورنگ اور روکھا سمجھا جاتا ہے۔‘بورنگ اور روکھا، یہ وہ الفاظ بالکل نہیں ہیں جو آپ شکنتلا دیوی کے ساتھ جوڑ سکیں۔ 1990 میں کیے جانے والے ایک مطالعے میں انسانی قابلیت پر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں محقق آرتھر آر جینسن نے ان کے لیے ان الفاظ کا استعمال کیا ’چوکس، زندہ دل، خوش مزاج اور خوش کلام‘۔تاہم فلم ساز اور سابق رکن پارلیمان پریتیش نندی کہتے ہیں کہ ان کی زندہ دلی اور خوش مزاجی کے باوجود ان کی زندگی میں ’کافی ‘بھی تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کی وجہ ان کی ذاتی زندگی تھی، مگر سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ان کے پاس ہنر تو تھا مگر اس سے روزی کمانے کا ذریعہ نہیں۔‘اپنے انٹرویوز میں شکنتلا دیوی اس بارے میں بات کر چکی ہیں کہ ان کا ہنر دریافت ہونے کے بعد ان پر کس طرح گھر چلانے کی ذمہ داری آن پڑی تھی، اور پھر بڑے ہونے کے بعد ایک ایسے شخص سے شادی جو دراصل ہم جنس پرست تھے۔پریتیش نندی کہتے ہیں کہ شکنتلا دیوی جب بھی ممبئی آتی تھیں تو ان سے ضرور ملتی تھیں۔ ’وہ کبھی یہ سمجھ نہیں پائیں کہ ان کے ہنر کے پیچھے کیا تھا۔ میں ہمیشہ ان سے کہتا تھا کہ کیا آپ اپنے ذہن کے اندر جھانک کر یہ نہیں پتہ کر سکتیں کہ آپ یہ کرتی کیسے ہیں؟‘ اور وہ ہمیشہ کہتی تھیں ’بس یہ قدرتی طور پر ہو جاتا ہے۔‘وہ بتاتے ہیں ’وہ اپنے اس ہنر کی وجہ نہیں جانتی تھیں، مگر المیہ یہ ہے کہ کسی اور نے بھی جاننے کی کوشش نہیں کی۔‘نندی کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ روزی روٹی کے بارے میں فکر مند رہتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں ’جینیئس ہونا ہی کافی نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ انہیں زیادہ شوز نہیں ملتے۔ مگر تب تک ان کے ہنر کو ایک فن کے بجائے ایک عجوبے کی طرح دیکھا جانے لگا تھا۔‘’انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں، ہندسوں کی جادوگری لوگ بھول چکے تھے۔ ان کا خود پر اعتماد بھی کچھ کم ہو گیا تھا۔ وہ علم نجوم کی طرف مائل ہو رہی تھیں، اور اپنا پیٹ پالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ انھوں نے سینکڑون چیزیں کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لیا، مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔‘اس فلم کے بارے میں ودیا بالن کہتی ہیں ’ایسا نہیں ہے کہ جینیئس میں کوئی خامیاں نہیں ہوتیں۔ زندگی اور اس فلم، دونوں کی خوبی یہی ہے۔ سب کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ اس سب کی عکاسی ہی اس فلم کو منفرد بناتی ہے۔‘ودیا بالن کو امید ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب عالمی وبا کی وجہ سے لوگ گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں، یہ فلم لوگوں کا دل بہلائے گی۔’مجھے یہ بھی امید ہے کہ اس سے ہمارے بچوں کو ریاضی سکھانے کی طریقے میں بھی تبدیلی آئے گی، بچوں میں اس کا خوف کم ہوگا اور وہ اس کی طرف راغب ہوں گے۔‘ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
gcn-news · 4 years
Text
شمشیر بے نیام، قسط نمبر 15
Tumblr media
تمہارا سفر آسان ہو ولید کے بیٹے!‘‘بوڑھے نے بازو بلندکرکے لہرایا اور بولا ’’نیچے آ جاؤ۔کچھ دور اکھٹے چلیں گے۔‘‘خالد نے گھوڑے کی لگام کو ایک طرف جھٹکا دیا اور ہلکی سی ایڑھ لگائی گھوڑا نیچے اتر گیا۔’’ہاہا……ہاہا ‘‘خالد نے اپنا گھوڑا بوڑھے کے گھوڑے کے پہلو میں لے جا کر خوشی کا اظہار کیا اور کہا۔’’ابو جریج !اور یہ سب تمہارا خاندان ہے؟‘‘’’ہاں!‘‘بوڑھے ابو جریج نے کہا۔’’ یہ میرا خاندان ہے۔اور تم خالد بن ولید کدھر کا رخ کیا ہے؟مجھے یقین ہے کہ مدینہ کو نہیں جا رہے۔مدینہ میں تمہارا کیاکام؟‘‘یہ قبیلہ غطفان کا ایک خاندان تھا جو نقل مکانی کر کے کہیں جا رہا تھا۔ابو جریج نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ خالد مدینہ تو نہیں جا رہا ،تو خالد نے اسے بتانا مناسب بھی نہ سمجھا ۔’’اہلِ قریش کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘ابو جریج نے کہا۔’’کیا یہ صحیح نہیں کہ محمد)ﷺ( کو لوگ نبی مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔کیا ایسا نہیں ہو گا کہ ایک روز مدینہ والے مکہ پر چڑھ دوڑیں گے اور ابو سفیان ان کے آگے ہتھیار ڈال دے گا ۔‘‘’’سردار اپنی شکست کا انتقام لینا ضروری نہیں سمجھتا ۔وہ ہتھیار ڈالنے کو بھی برا نہیں سمجھے گا۔‘‘خالد نے کہا۔’’کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہم سب مل کر مدینہ پر حملہ کرنے گئے تھے تو مدینہ والوں نے اپنے اردگرد خندق کھود لی تھی ۔‘‘خالدنے کہا ۔’’ہم خندق پھلانگ سکتے تھے۔ میں خندق پھلانگ گیا تھا، عکرمہ بھی خندق کے پار چلا گیا تھا مگر ہمارا لشکر جس میں تمہارے قبیلے کے جنگجو بھی تھے، دور کھڑا تماشہ دیکھتا رہا تھا۔ مدینہ سے پسپا ہونے والا سب سے پہلا آدمی ہمارا سردار ابو سفیان تھا۔‘‘’’میرے بازؤں میں طاقت نہیں رہی ابنِ ولید!‘‘ ابو جریج نے اپنا ایک ہاتھ جو ضعیفی سے کانپ رہا تھا ۔خالد کے آگے کر کے کہا۔’’میرا جسم ذرا سا بھی ساتھ دیتا تومیں بھی ا س معرکے میں اپنے قبیلے کے ساتھ ہوتا ۔اس روز میرے آنسو نکل آ ئے تھے جس روز میرا قبیلہ مدینہ سے پسپا ہو کر لوٹا تھا۔ اگر کعب بن اسد دھوکا نہ دیتا اورمدینہ پر تین چار شب خون مار دیتا تو فتح یقیناً تمہاری ہوتی۔‘‘خالد جھنجھلااٹھا ۔اس نے ابوجریج کو قہر کی نظروں سے دیکھا اور چپ رہا۔ ’’کیا تم نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن نے تمہارے قبیلے کے ایک آدمی جرید بن مسےّب کو محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے تیار کر لیا تھا۔‘‘ ابو جریج نے پوچھا۔’’ہاں!‘‘ خالد نے کہا۔’’سنا تھا اور مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ جرید بن مسےّب میرے قبیلے کا آدمی تھا ۔کہاں ہے وہ؟’’وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اس کا پتا نہیں چلا ۔میں نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن اسے اپنے ساتھ یہودی جادوگر لیث بن موشان کے پاس لے گئی تھی اور اس نے جرید کو محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے تیار کیا تھا مگر مسلمانوں کی تلواروں کے سامنے لیث بن موشان کا جادو جواب دے گیا۔جرید بن مسےّب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔بنو قریظہ میں سے زندہ بھاگ جانے والے صرف دو تھے لیث بن موشان اور یوحاوہ ۔‘‘ ’اب صرف ایک زندہ ہے ۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’ لیث بن موشان ۔صرف لیث بن موشان زندہ ہے۔‘‘’’اور جرید اور یوحاوہ؟‘‘’’وہ بد روحیں بن گئے تھے۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’میں تمہیں ان کی کہانی سنا سکتا ہوں ۔تم نے یوحاوہ کو دیکھا تھا۔ وہ مکہ کی ہی رہنے والی تھی۔ اگر تم کہو گے کہ اسے دیکھ کر تمہارے دل میں ہل چل نہیں ہوئی تھی اور تم اپنے اندر حرارت سی محسوس نہیں کرتے تھے توخالد میں کہوں گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔کیا تمہیں کسی نے نہیں بتایا تھا کہ مدینہ پر حملہ کیلئے غطفان اہلِ قریش سے کیوں جا ملا تھا اور دوسرے قبیلے کے سرداروں نے کیوں ابو سفیان کو اپنا سردار تسلیم کرلیا تھا۔یہ یوحاوہ اور اس جیسی چار یہودنوں کا جادو چلاتھا۔‘‘گھوڑے اور اونٹ چلے جا رہے تھے۔ اونٹوں کی گردنوں سے لٹکتی ہوئی گھنٹیاں بوڑھے ابو جریج کے بولنے کے انداز میں جلترنگ کا ترنم پیداکر رہی تھیں ۔خالد انہماک سے سن رہا تھا۔ ’’جرید بن مسےّب یوحاوہ کے عشق کا اسیر ہو گیا تھا۔‘‘ابو جریج کہہ رہا تھا۔’’ تم نہیں جانتے ابنِ ولید! یوحاوہ کے دل میں اپنے مذہب کے سوا کسی آدمی کی محبت نہیں تھی ،وہ جرید کو اپنے طلسم میں گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔میں لیث بن موشان کو جانتا ہوں ۔جوانی میں ہماری دوستی تھی۔ جادو گری اور شعبدہ بازی اس کے باپ کا فن تھا۔ باپ نے یہ فن اسے ورثے میں دیا تھا ۔تم میری بات سن رہے ہو ولید کے بیٹے یا اُکتا رہے ہو؟اب میں باتو ں کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘خالد ہنس پڑااوربولا۔’’سنرہا ہوں ابو جریج…… غور سے سن رہا ہوں۔‘‘’’یہ تو تمہیں معلوم ہو گا کہ جب ہمارے لشکر کو مسلمانوں کی خندق اور آندھی نے مدینہ کا محاصرہ اٹھا کر پسپائی پر مجبور کر دیا تو محمد)ﷺ( نے بنو قریظہ کی بستی کو گھیر لیا تھا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’لیث بن موشان اور یوحاوہ ،جرید بن مسےّب کو وہیں چھوڑ کر نکل بھاگے۔‘‘ ’’ہاں ہاں ابو جریج!‘‘ خالد نے کہا ۔’’مجھے معلوم ہے کہ مسلمانوں نے بنو قریظہ کے تمام مردوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں تم میری باتوں سے اکتا گئے ہو ۔‘‘ابو جریج نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’تم میری پوری بات نہیں سن رہے ہو۔‘‘’’مجھے یہ بات وہاں سے سناؤ ۔‘‘خالد نے کہا۔’’ جہاں سے میں نے پہلے نہیں سنی۔میں وہاں تک جانتا ہوں کہ جرید بن مسےّب اُسی پاگل پن کی حالت میں مارا گیا تھا جو اس بوڑھے یہودی شعبدہ باز نے اس پر طاری کیا تھا اور وہ خود یوحاوہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل بھاگا تھا۔ ’’پھر یوں ہوا……‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ اُحد کی پہاڑیوں کے اندر جو بستیاں آباد ہیں وہاں کے رہنے والوں نے ایک رات کسی عورت کی چیخیں سنیں ۔تین چار دلیر قسم کے آدمی گھوڑوں پر سوار ہو کر تلواریں اور برچھیاں اٹھائے سر پٹ دوڑے گئے لیکن انہیں وہاں کوئی عورت نظر نہ آئی اور چیخیں بھی خاموش ہو گئیں ۔وہ اِدھر ُادھر گھوم پھر کر واپس آ گئے۔’’یہ چیخیں صحرائی لومڑیوں یا کسی بھیڑیے کی بھی ہو سکتی تھیں؟‘‘ خالد نے کہا۔ ’’بھیڑیے اور عورت کی چیخ میں بہت فرق ہے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ لوگ اسے کسی مظلوم عورت کی چیخیں سمجھے تھے۔ وہ یہ سمجھ کر چپ ہو گئے کہ کسی عورت کو ڈاکو لے جا رہے ہوں گے یا وہ کسی ظالم خاوند کی بیوی ہو گی اور وہ سفر میں ہوں گے ۔لیکن اگلی رات یہی چیخیں ایک اور بستی کے قریب سنائی دیں ۔وہاں کے چند آدمی بھی ان چیخوں کے تعاقب میں گئے لیکن انہیں کچھ نظرنہ آیا ۔اس کے بعد دوسری تیسری رات کچھ دیر کیلئے یہ نسوانی چیخیں سنائی دیتیں ا ور رات کی خاموشی میں تحلیل ہو جاتیں ۔پھر ان پہاڑیوں کے اندر رہنے والے لوگوں نے بتایا کہ اب چیخوں کے ساتھ عورت کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔جرید……جرید……کہاں ہو ؟آجاؤ۔وہاں کے لوگ جرید نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتے تھے ۔ان کے بزرگوں نے کہا کہ یہ کسی مرے ہوئے آدمی کی بدروح ہے جو عورت کے روپ میں چیخ چلارہی ہے ۔ابو جریج کے بولنے کا انداز میں ایسا تاثر تھا جو ہرکسی کو متاثر کر دیا کرتا تھا لیکن خالد کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا جس سے پتا چلتا کہ وہ قبیلہ غطفان کے اس بوڑھے کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے۔’’ لوگوں نے اس راستے سے گزرنا چھوڑ دیا۔ جہاں یہ آوازیں عموماً سنائی دیا کرتی تھیں ۔‘‘ابو جریج نے کہا ۔’’ایک روز یوں ہوا کہ دو گھوڑ سوا ر جو بڑے لمبے سفر پر تھے ،ایک بستی میں گھوڑے سرپٹ دوڑاتے پہنچے۔گھوڑوں کا پسینہ یوں پھوٹ رہا تھا جیسے وہ پانی میں سے گزر کر آئے ہوں ۔ہانپتے کانپتے سواروں پر خوف طاری تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک وادی میں سے گزر رہے تھے کہ انہیں کسی عورت کی پکار سنائی دی۔جریدٹھہرجاؤ…… جرید ٹھہرجاؤ…… میں آ رہی ہوں۔ان گھوڑ سواروں نے اُدھر دیکھا جدھر سے آواز آ رہی تھی۔ایک پہاڑ ی کی چوٹی پر ایک عورت کھڑی ان گھوڑ سواروں کو پکار رہی تھی ۔وہ تھی تو دور لیکن جوان لگتی تھی ۔وہ پہاڑی سے اترنے لگی تو دونوں گھوڑ سواروں نے ڈر کر ایڑھ لگا دی ۔’’سامنے والی چٹان گھومتی تھی ۔گھوڑ سوار اس کے مطابق وادی میں گھوم گئے ۔انہیں تین چار مزید موڑ مڑنے پڑے گھبراہٹ میں وہ راستے سے بھٹک گئے تھے۔ وہ ایک اور موڑ مڑے تو ان کے سامنے تیس چالیس قدم دور ایک جوان عورت کھڑی تھی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ نیم برہنہ تھی۔اس کا چہرہ لاش کی مانند سفید تھا ۔گھوڑسواروں نے گھوڑے روک لیے ۔عورت نے دونوں بازو ان کی طرف پھیلا کر اورآگے کو دوڑتے ہوئے کہا۔ میں تم دونوں کے انتظار میں بہت دنوں سے کھڑی ہوں۔ دونوں گھوڑسواروں نے وہیں سے گھوڑے موڑے اور ایڑھ لگا دی ۔‘‘بو��ھا جریج بولتے بولتے خاموش ہو گیا۔اس نے اپنا ہاتھ خالد کی ران پر رکھا اوربولا ۔’’میں دیکھ رہاہوں کہ تمہارے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہم کچھ دیرکیلئے رک جائیں پھر نہ جانے تم کب ملو،تمہارا باپ ولید بڑا زبردست آدمی تھا۔ تم میرے ہاتھوں میں پیدا ہوئے تھے۔ میں تمہاری خاطر تواضع کرنا چاہتا ہوں۔روکو گھوڑے کو اور اتر آؤ۔‘‘ یہ قافلہ وہیں رک گیا۔’’و ہ کسی مرے ہوئے آدمی یا عورت کی بدروح ہی ہو سکتی تھی۔‘‘ابو جریج نے بھنا ہوا گوشت خالد کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔’’کھاؤ ولید کے بیٹے !پھر ایک خوفناک واقعہ ہو گیا۔ایک بستی میں ایک اجنبی اس حالت میں آن گرا کہ اس کے چہرہ پر لمبی لمبی خراشیں تھیں جن سے خون بہہ رہاتھا ۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جسم پر بھی خراشیں تھیں ۔وہ گرتے ہی بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے اس کے زخم دھوئے اور اس کے منہ میں پانی ڈالا۔وہ جب ہوش میں آیا تو اس نے بتایا کہ وہ دو چٹانوں کے درمیان سے گزر رہا تھا کہ ایک چٹان کے اوپر سے ایک عورت چیختی چلاتی اتنی تیزی سے اُتری جتنی تیزی سے کوئی عورت نہیں اتر سکتی تھی۔یہ آدمی اس طرح رک گیا جیسے دہشت زدگی نے اس کے جسم کی قوت سلب کرلی ہو۔ وہ عورت اتنی تیزی سے آ رہی تھی کہ رُک نہ سکی ،وہ اس آدمی سے ٹکرائی اور چیخ نماآواز میں بولی ۔تم آ گئے جرید! میں جانتی تھی تم زندہ ہو۔آؤ چلیں۔اس شخص نے اسے بتایا کہ وہ جرید نہیں لیکن وہ عورت اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتی رہی اور کہتی رہی تم جرید ہو ،تم جرید ہو۔اس شخص نے اس سے آزاد ہونے کی کوشش میں اسے دھکا دیا وہ گر پڑی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ آدمی اسے کوئی پاگل عورت سمجھ کر وہیں کھڑا رہا۔وہ اس طرح اس کی طرف آئی کہ اس کے دانت بھیڑیوں کی طرح باہرنکلے ہوئے تھے اور اس نے ہاتھ اس طرح آگے کر رکھے تھے کہ اس کی انگلیاں درندوں کے پنجوں کی طرح ٹیڑھی ہو گئی تھیں ۔وہ آدمی ڈر کر الٹے قدم پیچھے ہٹا اور ایک پتھر سے ٹھوکر کھا کر پیٹھ کے بل گرا۔یہ عورت اس طرح اس پر گری اور پنجے اس کے چہرے پر گاڑھ دیئے جیسے بھیڑیا اپنے شکار کو پنجوں میں دبوچ لیتاہے ۔اس نے اس آدمی کا چہرہ نوچ ڈالا۔اس نے اس عورت کو دھکا دے کر پرے کیا اور اس کے نیچے سے نکل آیا۔لیکن اس عورت نے اپنے ناخن اس شخص کے پہلوؤں میں اتار دیئے ا ور اس کے کپڑے بھی پھاڑ ڈالے اور کھال بھی بری طرح زخمی کردی۔اس زخمی نے بتایا کہ اس عورت کی آنکھوں اور منہ سے شعلے سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے تھے،وہ اسے انسانوں کے روپ میں آیا ہوا کوئی درندہ سمجھا۔ اس آدمی کے پاس خنجر تھا لیکن اس کے ہوش ایسے گم ہوئے کہ و ہ خنجرنکال��ابھول گیا۔اتفاق سے اس آدمی کے ہاتھ میں اس عورت کے بال آ گئے۔ اس نے بالوں کو مٹھی میں لے کر زور سے جھٹکا دیا ۔وہ عورت چٹا ن پر گری۔ یہ آدمی بھاگ اٹھااسے اپنے پیچھے اس عورت کی چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔اسے بالکل یاد نہیں تھا وہ اس بستی تک کس طرح پہنچا ہے ۔وہ ان خراشوں کی وجہ سے بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ اس پر دہشت سوار تھی۔پھر دو مسافروں نے بتایا کہ انہوں نے راستے میں ایک آدمی کی لاش پڑی دیکھی ہے جسے کسی درندے نے چیر پھاڑ کر ہلاک کیا ہو گا۔انہوں نے بتایا کہ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور تمام جسم پر خراشیں تھیں،اس جگہ کے قریب جس جگہ اس عورت کی موجودگی بتائی جاسکتی تھی، چھوٹی سی ایک بستی تھی ۔وہاں کے لوگوں نے نقل مکانی کا ارادہ کرلیا لیکن یہودی جادوگر لیث بن موشان پہنچ گیا۔ اسے کسی طرح پتا چل گیا تھا کہ ایک عورت اس علاقے میں جرید جرید پکارتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے اور جو آدمی اس کے ہاتھ آ جائے اسے چیر پھاڑ دیتی ہے ۔‘‘ابو جریج نے خالد کو باقی کہانی یوں سنائی ۔اسے بدروحوں کے علم کے ساتھ گہری دلچسپی تھی اور وہ لیث بن موشان کو بھی جانتا تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ یہودی جادوگر وہاں پہنچ گیا ہے تو وہ بھی گھوڑے پر سوا رہوا اور وہاں جا پہنچا۔وہ اس بستی میں جا پہنچا جہاں لیث بن موشان آکر ٹھہرا تھا۔’’ابو جریج!‘‘ بوڑھے لیث بن موشان نے اٹھ کر بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔’’تم یہاں کیسے آ گئے؟‘‘’’میں یہ سن کہ آیا ہوں کہ تم اس بد روح پر قابو پانے کیلئے آئے ہو۔‘‘ابو جریج نے اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا۔’’کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ اس بدروح نے یا وہ جو کچھ بھی ہے،دو تین آدمیوں کو چیر پھاڑ ڈالا ہے؟‘‘’’وہ بد روح نہیں میرے بھائی!‘‘ لیث بن موشان نے ایسی آواز میں کہا جو ملال اور پریشانی سے دبی ہوئی تھی۔’’وہ خدائے یہودہ کی سچی نام لیوا ایک جوان عورت ہے۔اس نے اپنی جوانی ا پنا حسن اور اپنی زندگی یہودیت کے نام پر وقف کررکھی تھی۔اس کانام یوحاوہ ہے۔‘‘’’میں نے اسے مکہ میں دو چار مرتبہ دیکھا تھا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’اسکے کچھ جھوٹے سچے قصے بھی سنے تھے۔یہ بھی سنا تھاکہ اس نے قریش کے ایک آدمی جرید بن مسیّب کو تمہارے پاس لا کر محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے تیار کیاتھا پھر میں نے یہ بھی سنا تھاکہ تم اور یوحاوہ مسلمانوں کے محاصرے سے نکل گئے تھے اور جرید پیچھے رہ گیا تھا ۔اگر یوحاوہ زندہ ہے اوروہ بدروح نہیں تو وہ اس حالت تک کس طرح پہنچی ہے؟‘‘’’ا س نے اپنا سب کچھ خدائے یہودہ کے نام پر قربان کر رکھا تھا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’ لیکن وہ آخر انسان تھی، جوان تھی ،وہ جذبات کی قربانی نہ دے سکی۔ اس نے جرید کی محبت کو اپنی روح میں اتارلیاتھا۔جرید­پرجتنا اثرمیرے خاص عمل کا تھا۔اتنا ہی یوحاوہ کی والہانہ محبت کا تھا۔‘‘ ’’میں سمجھ گیا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’اسے جرید بن مسےّب کی موت نے پاگل کر دیا ہے ۔کیا تمہارا عمل اور جادو اس عورت پر نہیں چل سکتا تھا؟‘‘لیث بن موشان نے لمبی آہ بھری اوربے نور آنکھوں سے ابو جریج کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھااور کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کہا۔’’میرا عمل اس پرکیا اثر کرتا۔وہ مجھے بھی چیر پھاڑنے کومجھ پر ٹوٹ پڑتی تھی۔میرا عمل اس صورت میں کام کرتا کہ میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا اور میرا ہاتھ تھوڑی دیرکیلئے اس کے ماتھے پر رہتا۔‘‘’’جہاں تک میں اس علم کو سمجھتا ہوں۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’وہ پہلے ہی پاگل ہو چکی تھی اور تمہیں اپنا دشمن سمجھنے لگی تھی۔‘‘’’اور اسے میرے خلاف دشمنی یہ تھی کہ میں جرید بن مسےّب کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آیا تھا ۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں اسے اپنے ساتھ لا سکتا تھا لیکن وہ اس حد تک میرے طلسماتی علم کے زیرِ اثر آچکا تھا کہ ہم اسے زبردستی لاتے تو شاید مجھے یا یوحاوہ کو قتل کردیتا۔میں نے اس کے ذہن میں درندگی کا ایساتاثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ قتل و غارت کے سوااور کچھ سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔اگر میں ایک درخت کی طرف یہ اشارہ کرکہ کہتا کہ یہ ہے محمد،تو وہ تلوار اس درخت کے تنے میں اتار دیتا۔مجھے یہ توقع بھی تھی کہ یہ پیچھے رہ گیا تو ہو سکتاہے کہ محمد)ﷺ( تک پہنچ جائے اور اسے قتل کر دے لیکن وہ خود قتل ہو گیا۔‘‘’’کیا تم اب یوحاوہ پر قابو پا سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا۔’’مجھے امید ہے کہ میں اسے اپنے اثر میں لے آؤں گا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’کیا تم مجھے اس کام میں شریک کر سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا اور کہا۔’’میں کچھ جاننا چاہتاہوں۔ کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘’’اگربڑھاپا تمہیں چلنے دے تو چلو۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’ میں تھوڑی دیر تک روانہ ہونے والا ہوں ۔یہاں کے کچھ آدمی میرے ساتھ چلنے کوتیار ہو گئے ہیں۔‘‘’’اور پھر خالد بن ولید!‘‘ بوڑھے ابو جریج نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جذباتی لہجے میں کہا ۔’’ہم دونوں بوڑھے،اونٹوں پر سوار اس پہاڑی علاقے میں پہنچے جہاں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ ایک عورت کو دیکھا گیا ہے۔ہم تنگ سی ایک وادی میں داخل ہوگئے۔ ہمارے پیچھے دس بارہ گھڑ سوار اور تین چار شتر سوار تھے۔ وادی میں داخل ہوئے تو ان سب نے کمانوں میں تیر ڈال لیے۔وادی آگے جاکر کھل گئی ،ہم دائیں کو گھومے تو ہمیں کئی گدھ نظر آئے جو کسی مردار کو کھا رہے تھے ۔ایک صحرائی لومڑی گدھوں میں سے دوڑتی ہوئی نکلی۔ میں نے دیکھا اس کے منہ میں ایک انسانی بازو تھا ۔ اور لومڑیاں بھاگیں اور گدھ اڑ گئے۔وہاں انسانی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں ۔سر الگ پڑا تھا۔اس کے بال لمبے اِدھر ُادھر بکھرے ہوئے تھے ۔کچھ کھوپڑی کے ساتھ تھے۔آدھے چہرے پر ابھی کھال موجود تھی وہ یوحاوہ تھی۔لیث بن موشان کچھ دیراس کی بکھری ہوئی ہڈیوں کو اور ادھ کھائی چہرے کو دیکھتا رہا۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کی دودھ جیسی داڑھی میں جذب ہو گئے۔ہم وہاں سے آگئے۔‘‘’’لیث بن موشان اور یوحاوہ نے جرید بن مسےّب کو محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے تیار کیا تھا ۔‘‘خالد نے ایسے لہجے میں کہا جس میں طنز کی ہلکی سی جھلک بھی تھی ۔’’جرید بن مسیّب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور یوحاوہ کا انجام تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ……کیا تم سمجھے نہیں ہو ابو جریج؟‘‘’’ہاں ۔ہاں!‘‘بوڑھے ابو جریج نے جواب دیا۔’’لیث بن موشان کے جادو سے محمد )ﷺ(کا جادوزیادہ تیز اور طاقتور ہے۔لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ محمد)ﷺ( کے ہاتھ میں جادو ہے۔اس جادو کا ہی کرشمہ ہے کہ اس کے مذہب کو لوگ مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔جرید کو قتل ہونا ہی تھا۔‘‘’’میرے بزرگ دوست! ‘‘خالد نے کہا ۔’’اس بدروح کے قصّے مدینہ میں بھی پہنچے ہوں گے لیکن وہاں کوئی نہیں ڈرا ہوگا۔محمد)ﷺ( کے پیروکاروں نے تسلیم ہی نہیں کیا ہو گا کہ یہ جن بھوت یا بدروح ہے۔‘‘’’محمد)ﷺ( کے پیروکاروں کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ابو جریج نے کہا۔’’محمد)ﷺ( کے جادو نے مدینہ کے گرد حصار کھینچا ہوا ہے ،محمد)ﷺ( کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔وہ اُحد کی لڑائی میں زخمی ہوا اور زندہ رہا ۔تمہارا اور ہمارا اتنا زیادہ لشکر مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے گیا تو ایسی آندھی آئی کہ ہمارا لشکر تتّر بتّر ہو کہ بھاگا۔میدانِ جنگ میں محمد)ﷺ( کے سامنے جو بھی گیا اس کا دماغ جواب دے گیا۔کیا تم جانتے ہو خالد! محمد)ﷺ( کے قتل کی ایک اور کوشش ناکام ہو چکی ہے؟‘‘’’سنا تھا۔‘‘خالد نے کہا۔’’ پوری بات کا علم نہیں۔‘‘’’یہ خیبر کا واقعہ ہے۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’مسلمانوں نے خیبر کے یہودیوں پر چڑھائی کی تویہودی ایک دن بھی مقابلے میں نہ جم سکے۔‘‘’’فریب کار قوم میدان میں نہیں لڑ سکتی۔‘‘خالد نے کہا ۔’’یہودی پیٹھ پر وار کیاکرتے ہیں۔‘‘’’اور وہ انہوں نے خیبر میں کیا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’یہودیوں نے مقابلہ تو کیا تھا لیکن ان پر محمد )ﷺ(کا خوف پہلے ہی طاری ہو گیاتھا۔میں نے سنا تھا کہ جب مسلمان خیبر کے مقام پرپہنچے تو یہودی مقابلے کیلئے نکل آئے۔ان میں سے بعض محمد )ﷺ(کوپہچانتے تھے۔کسی نے بلند آواز سے کہا کہ محمد بھی آیا ہے ۔پھر کسی اور نے چلا کر کہا۔محمدبھی آیا ہے۔یہودی لڑے تو سہی لیکن ان پر محمد کا خوف ایسا سوار ہوا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔‘‘ یہودیوں نے شکست کھائی تو انہوں نے رسولِ کریمﷺ سے وفاداری کااظہار کرنا شروع کر دیااور ایسے مظاہرے کیے جن سے پتا چلتا تھا کہ مسلمانوں کی محبت سے یہودیوں کے دل لبریز ہیں ۔انہی دنوں جب رسولِ کریمﷺ خیبر میں ہی تھے ۔ایک یہودن نے آپﷺ کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔اس نے عقیدت مندی کا ااظہار ایسے جذباتی انداز میں کیا کہ رسولِ خداﷺ نے اسے مایوس کرنا مناسب نہ سمجھا۔آپﷺ اس کے گھر چلے گئے۔آپﷺ کے ساتھ ’’بشرؓ بن البارأ ‘‘تھے۔یہودن زینب بنتِ الحارث نے جو سلّام بن شکم کی بیوی تھی۔رسولِ خداﷺ کے راستے میں آنکھیں بچھائیں اور آپﷺ کو کھانا پیش کیا۔اس نے سالم دنبہ بھونا تھا۔اس نے رسول اﷲﷺ سے پوچھا کہ ’’آپﷺ کو دنبہ کاکون ساحصہ پسند ہے؟‘‘آپﷺ نے دستی پسند فرمائی۔یہودن دنبہ کی دستی کاٹ لائی اور رسولِ خدا ﷺ اور بشرؓ بن البارأ کے آگے رکھ دی۔بشرؓ بن البارأ نے ایک بوٹی کاٹ کر منہ میں ڈال لی۔رسولِ اکرمﷺ نے بوٹی منہ میں ڈالی مگر اگل دی۔’’مت کھانا بشر!‘‘آپﷺ نے فرمایا۔’’اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔‘‘بشرؓ بن البارأ بوٹی چبا رہے تھے۔انہوں نے اگل تو دی لیکن زہر لعابِ دہن کے ساتھ حلق سے اتر چکا تھا۔’’اے یہودن!‘‘رسولِ خداﷺ نے فرمایا۔’’کیا میں غلط کہہ رہا ہوں کہ تو نے اس گوشت میں زہرملایا ہے؟‘‘یہودن انکار نہیں کر سکتی تھی۔اس کے جرم کا ثبوت سامنے آ گیا تھا۔ بشرؓ بن البارأ حلق پر ہاتھ رکھ کر اٹھے اور چکرا کر گر پڑے۔زہر اتنا تیز تھا کہ اس نے بشر ؓکو پھر اٹھنے نہ دیا ۔وہ زہر کی تلخی سے تڑپے اور فوت ہو گئے۔’’اے محمد!‘‘ یہودن نے بڑی دلیری سے اعتراف کیا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔‘‘رسول اﷲﷺ نے اس یہودن اور اس کے خاوند کے قتل کا حکم فرمایااور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ آپﷺ نے جو مشفقانہ روّیہ اختیار کیا تھا وہ ان کی ذہنیت کے مطابق بدل ڈالا۔ابنِ اسحاق لکھتے ہیں۔مروان بن عثمان نے مجھے بتایا تھا کہ رسولِ خدا ﷺ آخری مرض میں مبتلا تھے ،آپﷺ نے وفات سے دو تین روز پہلے اُمّ ِ بشر بن البارأ کو جب وہ آپ ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں ۔فرمایا تھا۔’’اُمّ ِ بشر!میں آج بھی اپنے جسم میں اس زہر کا اثر محسوس کررہا ہوں۔جو اس یہودن نے گوشت میں ملایا تھا۔میں نے گوشت چبایا نہیں اگل دیا تھا۔مگر زہر کااثر آج تک موجود ہے۔‘‘اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ رسول اﷲﷺ کی آخری بیماری کا باعث یہی زہر تھا۔ #جاری_ہے Read the full article
0 notes
daleelpk-blog · 4 years
Text
اللہ کا احسان ہمارے محافظ ہمارے قوام - شہلا خضر ناظم آباد
Tumblr media
جنوری کی ایک یک بستہ صبح تھی۔ ہفتے کا روز تھا ۔ گزشتہ رات ہی سے گہر ے بادلوں نے آسمان کو گھیر رکھا تھا ۔ صبح فجر کے وقت ہلکی ہلکی پھوار نے یکدم خنکی میں مزید اضا فہ کر دیا تھا ۔ آج میرے چھوٹے بیٹے کے اسکول میں Parents & Teachers Meeting تھی ۔ چونکہ اسکول صدر کے مصروف کاروباری علاقے میں تھا اسی لئے ہم نے صبح سویرے ہی نکلنا مناسب سمجھا تاکہ ٹریفک کے اژدھام سے بچا جا سکے ۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا بیٹے کو ساتھ لیا اسکول کی جانب روا نہ ہوئے ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ اچانک سے ٹھنڈی ہوائیں بھی چلنا شروع ہو چکی تھیں لہٰذا میں نے اچھی طرح گرم شال کو اپنے چاروں طرف لپیٹا اور گاڑی کے شیشے اوپر چڑھا دیئے تا کہ ہوا کی ہلکی سی رمق مجھ تک نہ پہنچ پائے ۔ ابھی گلی سے نکل کر بڑی سڑک کی جانب بڑھے ہی تھے کہ سامنے کے ۔ ایم۔سی کے عملے کے افراد بڑی بڑی جھا ڑو لئے صفائی میں مصروف نظر آئے ۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ مین روڈ کے وسیع و عریض رقبے پر ہوائوں کی رفتار اور شدت بھی کافی زیادہ تیزی تھی اور وہ خاکروب معمولی گرم کپڑ وں کے سہارے اس قدر یخ بستہ ہوائوں میں مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے ۔ میرے شوہر صاحب میرے فکرمند چہرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے وہ میری پریشانی کا سبب بھانپ گئے تھے کیونکہ وہ میری عادت سے اچھی طرح واقف تھے کہ کسی کو بھی پریشانی اور دقت میں دیکھ کر میں بے چین ہو جاتی ہوں ، انہوں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ارے بھئی یہ تو ان کا رو ز کا کام ہے ۔ یہ اس ڈیوٹی کے عادی ہیں ۔ آپ تو گھر سے اس وقت نہیں نکلتی اسی لئے حیران ہورہی ہیں میں تو روز انہیں ایسے ہی کام کرتے دیکھتا ہوں ۔ دل ہی دل میں میں ان کے لئے دعائیں کرنے لگی کہ اگر یہ خاکروب ہماری سڑکیں اور گلیاں صاف نہ کریں تو ہم بڑی پریشانی میں پڑ جائیں گے ۔ اب ہم گو لیمار چورنگی کی طرف رواں دواں تھے ۔ دھول اڑاتے خاکروب اب نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔ قریبی پیٹرول پمپ پر ہم نے گاڑی رو کی تا کہ فیول بھروایا جا سکے ۔ غیر معمولی سردی کی وجہ سے پیٹرول پمپ بھی ویران پڑا تھا ۔ پیٹرول پمپ پر دو نو عمر دبلے پتلے لڑکے یونیفارم میں ملبوس کھڑے تھے ۔ انکی عمر 17 یا 18کے ہی لگ بھگ ہوگی ۔ راس عمر کے لڑکے اسکول کالج جاتے ہیں مگر لگتا ہے کہ حالات نے انہیں تعلیم کے زیور سے محروم کرکے پیٹرول پمپ کی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ میرے شوہر صاحب نے کھڑکی کا شیشہ کھولا اور فیول بھروانے کے لئے ہدایات دینے لگے ۔ شیشہ کھلتے ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا گاڑی کے اندر داخل ہو گیا ۔ پچھلی نشست پر بیٹھے میرے بیٹے نے شوہر مچادیا "پاپا جلدی سے شیشہ بند کریں مجھے سردی لگ رہی ہے " "پاپا جی" نے جلدی سے فیول کے پیسے لڑکے کے ہاتھ میں تھمائے اور شیشہ چڑھا لیا کہ مبادا ان نے لاڈلے بیٹے کو "فلو" نہ ہوجائے ۔ اتنے میں ایک اور گاڑی آگئی اور وہ لڑکے اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اپنی ڈیوٹی میں مصروف ہو گئے ۔ ہم بھی آگے روانہ ہوئے ۔ بے فکری کی عمر میں ان دونوں بچوں نے کس قدر حوصلے سے معاش کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی ۔ اللہ پاک نے انہیں کتنی ہمت اور صبر دے رکھا ہے ۔ میں انہیں سوچوں میں گم تھی کچھ ہی دیر میں ہم تیزی سے آگے بڑھ گئے اور کب آہستہ آہستہ دن کا اجالا بھی پھیل چکا تھامعمول کی زندگی رواں دواں تھی ۔ بہت سے موٹر سائکل سوار ٹفن باکس لٹکائے ہیلمٹ پہنے ہو ئے چیکٹس اور دستانے چڑھائے اپنے کام پر روانہ نظر آئے ۔ سڑک کے کناروں پر موجود فٹ پاتھوں پر بھی کچھ چہل پہل شروع ہو چکی تھی ۔ اب ہم گرومندر کے قریب پہنچ گئے ۔ سخت سردی کے باوجود بیکری اور "ملک شاپس " کھل چکی تھیں اور دکاندار حضرات اپنی اپنی دکانوں کی صفائی اور قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول نظر آئے ۔ نیو ٹا ئون اکی مسجد کے سامنے ٹھیلے والے بھائی اپنے پھلوں کو سجا نے اور ترتیب دینے میں مشغول تھے ۔ قریب ہی ایک چھوٹا سا ڈھابہ تھا جہاں پرگرم گرم چائے پرا ٹھہ بنانے والے باورچی بھائی بھی گاہکوں کے لئے ناشتہ بنانے کا انتظام کر رہے تھے اور میزیں کرسیاں لگانے والے لڑکے بھی معمول کے فرا ئض سر انجام دے رہے تھے۔ اسکول پہنچے تو گیٹ پر موجود ادھیڑ عمر چوکیدار مستعدی سے ڈیوٹی دیتے نظر آئے ۔ کینٹین بھی کھل چکی تھی ۔ کینٹین والے انکل خوش دلی سے بچوں کو اشیاء فروخت کر رہے تھے ۔ آڈیٹوریم میں میٹنگ شروع ہونے والی تھی ۔ والدین کی بڑی تعدادپہنچ چکی تھی ۔ ہم نے Peonسے نمبر لیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ۔ تمام Subject Techers سے مل کر ان سے انکی رائے لینی ضروری تھی ۔ رش کی وجہ سے والدین کے لئے لگا ئی جانے والی کرسیاں کچھ کم پڑگئیں ۔ فوری طور سے کچھ مرد حضرات اپنی کرسیوں سے اٹھ گئے اور خواتین آرام سے کرسیوں پر بیٹھ گئیں ۔ مرد حضرات ایک طرف کھڑے ہوگئے ۔ کچھ ہی دیر میں ہمارا نمبر آگیا ۔ اپنے بیٹے کے تمام اساتذہ سے اچھے ریمارکس ملے اور ہم مطمئن ہو کر گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ تقریباً دن کے گیارہ بج چکے تھے ۔ ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ سڑک کے کنارے لمبی قطار میں غریب مزدور اپنی بیلچے کدالیں اور اوزار لئے کام ملنے کی آس میں سرد ہوائوں میں چپ چپ گہری سوچوں میں ��م بیٹھے تھے شاید وہ یہی سوچ رہے ہوں کہ اگر انہیں مزدوری نہ ملی تو ان کے گھر کا چولہا کیسے چلے گا اور بیوی بچوں کے پیٹ کیسے بھریں گے۔ ٹریفک کانسٹیبل بھی برساتی پہن کر چوراہے پر موجود ٹریفک کو کنٹرول کرنے میں مگن تھے ۔ شدید سردی کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والے رکشہ ڈرائیور بس ڈرائیور اور کوچ والے بھائی سب تلاش معاش کے لئے سڑکوں پر موجود تھے ۔ ہمیں گھر پہنچا کر میرے شوہر صاحب نے پانی کا گلاس پیا اور جلدی جلدی اپنے کام پر روانہ ہو گئے کیونکہ وہ ایک کانٹریکٹر ہیں اور ہفتے کے ساتوں دن Site پر کام کرواتے ہیں کیونکہ مزدور ایک بھی دن چھٹی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ جس دن وہ کام پر نہیں جاتے اس دن بچوں کو بھوکا ہی سونا پڑتا ہے ۔ گھر کے پر سکون گرم ماحول میں بیٹھ کر میری آنکھوں سے شکرانے کے آنسو نکل آئے ۔ ہم عورتوں کتنی خوش نصیب ہیں ہمیں گھر کا محفو ظ تحفظ دینے والے ہمارے لئے دن رات گرم سرد موسم کا سامنا کرے ۔ دنیا کی تلخ و ترش باتوں کو برداشت کرکے اپنے آرام دہ گھروں کو چھوڑ کر سارا دن ، رزق حلال کما کر لانے والے ہمارے قوام ہمارے گھروں کے باپ بھائی ، شوہر اور بیٹے ہمارے لئے رب کائنات کا عظیم کا تحفہ ہیں ۔ مسلم مرد اپنے خاندان کے لئے رزق حلال کمانا عین عبادت سمجھتے ہیں ۔ گھروں میں موجود اپنی ماں بہن ،بیوی اور بیٹی کو ہر آسائش مہیا کرتے ہیں ۔ اپنی خواہشات اور ضروریات کو محدود رکھ کر اپنے خاندان کی کفالت کی بھاری ذمہ داری پوری رضا و رغبت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور اپنی خواتین کو قیمتی موتی کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں ۔ اسلامی نظام معاشرت نے عورت کو عزت و تکریم کے اعلیٰ درجات پر فائز کیا ہے۔ صدیوں سے رائج جاہلانہ اور فرسودہ رسم و رواج اور نسل درنسل چلنے والی تنگ نظری کا خاتمہ کیا ۔ جو مرتبہ و مقام اور عزت توقیر ہمیں مسلم معاشرہ اور اسلامی شعائر نے ساڑھے چودہ سال پہلے دی وہ 21ویں صدی کی بے چاری مغربی عورت کے لیے آج بھی صرف سہانا خواب ہے ۔ جس رب کا ئنات نے انسان کو تخلیق کیا وہ قرآن پاک میں خود ہی فرماتا ہے کہ کیا وہ ہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا " بالکل بجا فرماتا ہے وہ پروردگار عالم ہے وہ ہماری رگ رگ سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ عورت جیسی نازک اور انمول ہستی کو مضبوط اور با اعتماد ساتھ کی ضرورت قدم قدم پر ہے اسی لئے ہمیں پیدائش کے ساتھ ہی باپ بھائی اور خاندانی نظام کے ساتھ ہی شوہر اور بیٹوں کے مضبوط اور خوبصورت رشتوں سے جوڑ دیا ۔ میری پیاری بہنوں آپ یقین جانیں جن معاشروں میں خاندانی یونٹ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کو گھر کی محفوظ چار دیواری سے نکال کر برابری کے جھوٹے نعروں کی آڑمیں حوادث زمانہ کا سامنا کرنے کے لئے کھڑا کر دیا ہے، وہاں کی عوررت ہماری زندگیوں پر رشک کرتی ہیں ۔ کیونکہ مسلم عورت گھر کی ملکہ ہے اور مغربی عورت راستے میں پڑے کسی پتھر کی طرح ادھر ادھر لڑھکتی ہی جارہی ہے ۔ اصل میں تو استحصال کا شکار بے چاری مغربی مظلوم عورت ہے کیونکہ اسے تو اس کے اپنے ہی مطلبی خود غرض مردوں نے زمانے کی ٹھوکروں پر چھوڑدیا تا کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ ان نازک کندھوں کے اوپر ڈال کر خود اپنی زندگی کی عیاشیوں میں گزار دیں ۔ اسلام رواداری اور مساوات کا داعی ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ کسی بھی مشکل او غیر معمولی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے اس میں احکام موجود نہ ہوں ۔ بعض اوقات گھروں کے قوام کسی بیماری یا معذوری یا قلت معاش کے باعث نا مسائد حا لات کا شکار ہوتے ہیں ۔ ایسے میں اسلامی نظام معاشرت عورت کو اپنے "قوام"کا ساتھ نبھانے کے لئے کام کرنے کی رخصت اور وسعت عطا کرتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار خواتین چادر اور چار دیواری میں رہتے ہوئے بھی حصول معاش کے لئے مشقت و محنت کر کے گھر والوں کا ہاتھ بٹا رہی ہیں ۔ ایک"مستحکم خاندانی نظام "اسلامی معاشرے کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے کہ جس پر نظام عدل ایثار و محبت مساوات اور حسن اخلاق سے مزین پاکیزہ اسلامی معاشرہ قائم ہو تا ہے ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جن گھرانوں میں اسلامی تعلیمات کا حقیقی شعور موجود ہے اور فرسودہ روایات کی اندھا دھند تقلید نہیں ان گھرانوں میں عورت قدر و منزلت اور اعتماد پا کر زندگی کے ہر شعبے میں اپنے گھر کے قوام کے ساتھ شانہ بشانہ موجود ہے اور مل جل کر مفاہمت کے ماحو ل میں اپنی نسلوں کی بہترین تعلیم و تربیت میں مشغول عمل نظر آتی ہے ۔ لہٰذا جو بھی ذی شعور انسان عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسلامی نظام معاشرت کا مطالعہ کرے اور "لانگ مارچ اور ریلی نکالنے میں ضائع کرنے کے بجائے اپنی توانائیاں اسلامی نظام شریعت را ئج کرنے کے لئے صَرف کریں۔ Read the full article
0 notes
humlog786-blog · 4 years
Text
ایک خط -افسانہ- سعادت حسن منٹو
Tumblr media
تمہارا طویل خط ملا جسے میں نے دو مرتبہ پڑھا۔ دفتر میں اس کے ایک ایک ��فظ پر میں نے غور کیا۔ اور غالباً اسی وجہ سے اس روز مجھے رات کے دس بجے تک کام کرنا پڑا، اس لیے کہ میں نے بہت سا وقت اس غورو فکر میں ضائع کردیا تھا۔ تم جانتے ہو اس سرمایہ پرست دنیا میں اگر مزدور مقررہ وقت کے ایک ایک لمحے کے عوض اپنی جان کے ٹکڑے تول کر نہ دے تو اسے اپنے کام کی اُجرت نہیں مل سکتی۔ لیکن یہ رونا رونے سے کیا فائدہ! شام کو عزیز صاحب، جن کے یہاں میں آج کل ٹھہرا ہوں۔ دفتر میں تشریف لائے اور کمرے کی چابیاں دے کر کہنے لگا۔ ’’میں ذرا کام سے کہیں جا رہا ہوں۔ شاید دیر میں آنا ہو۔ اس لیے تم میرا انتظار کیے بغیر چلے جانا۔ ‘‘ لیکن پھر فوراً ہی چابیاں جیب میں ڈالیں اور فرمانے لگے: ’’نہیں، تم میرا انتظار کرنا۔ میں دس بجے تک واپس آجاؤں گا۔ ‘‘ دفتری کام سے فارغ ہوا تو دس بج چکے تھے۔ سخت نیند آرہی تھی۔ آنکھوں میں بڑی پیاری گدگدی ہورہی تھی۔ جی چاہتا تھا کرسی پر ہی سو جاؤں۔ نیند کے غلبے کے اثر میں میں نے گیارہ بجے تک عزیز صاحب کا انتظار کیا مگر وہ نہ آئے۔ آخر کار تھک کر میں نے گھر کی راہ لی۔ میرا خیال تھا کہ وہ ادھر ہی ادھر گھرچلے گئے ہوں گے اور آرام سے سو رہے ہوں گے۔ آہستہ آہستہ نصف میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد میں تیسری منزل پر چڑھا اور جب اندھیرے میں دروازے کی کنڈی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو آہنی تالے کی ٹھنڈک نے مجھے بتایا کہ عزیز صاحب ابھی تشریف نہیں لائے۔ سیڑھیاں چڑھتے وقت میرے تھکے ہوئے اعضا سکون بخش نیند کی قربت محسوس کرکے اور بھی ڈھیلے ہو گئے، اور جب مجھے ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا تو مضمحل ہو گئے۔ دیر تک چوبی سیڑھی کے ایک زینے پر زانوؤں میں دبائے عزیز صاحب کا انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئے۔ آخر کار تھک ہار کر میں اٹھا اور تین منزلیں اتر کر نیچے بازار میں آیا اور ایسے ہی ٹہلنا شروع کردیا۔ ٹہلتے ٹہلتے پل پر جا نکلا جس کے نیچے سے ریل گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اس پُل کے پاس ہی ایک بڑا چوک ہے۔ یہاں تقریباً آدھ گھنٹے تک میں بجلی کے ایک کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا اور سامنے نیم روشن بازار کو اس امید پر دیکھتا رہا کہ عزیز صاحب گھر کی جانب لوٹتے نظر آجائیں گے۔ آدھ گھنٹے کے اس انتظار کے بعد میں نے دفعتاً سر اٹھا کر کھمبے کے اوپر دیکھا، بجلی کا قمقمہ میری ہنسی اڑا رہا تھا۔ جانے کیوں! تھکاوٹ اور نیند کے شدید غلبے کے باعث میری کمر ٹوٹ رہی تھی اور میں چاہتا تھا کہ تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جاؤں۔ بند دوکانوں کے تھڑے مجھے نشست پیش کررہے تھے مگر میں نے ان کی دعوت قبول نہ کی چلتا چلتا پُل کی سنگین منڈیر ��ر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ کشادہ بازار بالکل خاموش تھا۔ آمدوفت قریب قریب بند تھی، البتہ کبھی کبھی دُور سے موٹر کے ہارن کی رونی آواز خاموش فضا میں لرزش پیدا کرتی ہوئی اوپر کی طرف اُڑ جاتی تھی۔ میرے سامنے سڑک کے دورویہ بجلی کے بلند کھمبے دُور تک پھیلے چلے گئے تھے جو نیند اور اس کے احساس سے عاری معلوم ہوتے تھے۔ ان کو دیکھ کر مجھے روس کے مشہور شاعر میاتلف کی نظم کے چند اشعار یاد آگئے۔ یہ نظم چراغ ہائے سرراہ سے معنون کی گئی ہے۔ میا تلف، سڑک کے کنارے جھلملاتی روشینوں کو دیکھ کر کہتا ہے ؂ یہ ننھے چراغ، یہ ننھے سردار صرف اپنے لیے چمکتے ہیں جو کچھ یہ دیکھتے ہیں، جو کچھ یہ سنتے ہیں کسی کو نہیں بتاتے روسی شاعر نے کچھ درست ہی کہا ہے۔ میرے پاس ہی ایک گز کے فاصلے پر بجلی کا کھمبا گڑا تھا اور اس کے اوپر بجلی کا ایک شوخ چشم قمقمہ نیچے جھکا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں روشن تھیں مگر وہ میرے سینے کے تلاطم سے بے خبر تھا۔ اسے کیا معلوم مجھ پر کیا بیت رہی ہے۔ سگریٹ سُلگانے کے لیے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو تمہارے وزنی لفافے پرپڑا۔ ذہن میں تمہارا خط پہلے ہی سے موجود تھا۔ چنانچہ میں نے لفافہ کھول کر بسنتی رنگ کے کاغذ نکال کر انھیں پڑھنا شروع کیا۔ تم لکھتے ہو: ’’کبھی تم شیطان بن جاتے ہو اور کبھی فرشتہ نظر آنے لگتے ہو۔ ‘‘ یہاں بھی دو تین حضرات نے میرے متعلق یہی رائے قائم کی ہے اور مجھے یقین سا ہو گیا ہے کہ میں واقعی دو سیرتوں کا مالک ہو۔ اس پر میں نے اچھی طرح غور کیا ہے اور جو نتیجہ اخذ کیا ہے، وہ کچھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے: بچپن اور لڑکپن میں مَیں نے جو کچھ چاہا، وہ پورا نہ ہونے دیا گیا، یوں کہوکہ میری خواہشات کچھ اس طرح پوری کی گئیں کہ ان کی تکمیل میرے آنسوؤں اور میری ہچکیوں سے لپی ہُوئی تھی۔ میں شروع ہی سے جلد باز اور زُود رنج رہا ہوں۔ اگر میرا جی کسی مٹھائی کھانے کو چاہا ہے اور یہ چاہ عین وقت پر پوری نہیں ہوئی تو بعد میں میرے لیے اس خاص مٹھائی میں کوئی لذت نہیں رہی۔ ان امور کی وجہ سے میں نے ہمیشہ اپنے حلق میں ایک تلخی سی محسوس کی ہے اور اس تلخی کی شدت بڑھانے میں اس افسوسناک حقیقت کا ہاتھ ہے کہ میں نے جس سے محبت کی، جس کو اپنے دل میں جگہ دی، اس نے نہ صرف میرے جذبات کو مجروح کیا بلکہ میری اس کمزوری ’’محبت‘‘ سے زبردستی ناجائز فائدہ بھی اُٹھایا۔ وہ مجھ سے دغا فریب کرتے رہے، اور لُطف یہ ہے کہ میں ان تمام دغا بازیوں کے احساس کے باوجود ان سے محبت کرتا رہا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اپنی ہر نئی چال کی کامیابی پر بہت مسرور ہوتے تھے کہ انھوں نے مجھے بے وقوف بنا لیا اور میری بے وقوفی دیکھو کہ میں سب کچھ جانتے ہوئے بے وقوف بن جاتا تھا۔ جب اس ضمن میں مجھے ہر طرف سے ناامیدی ہوئی، یعنی جس کسی کو میں نے دل سے چاہا، اس نے میرے ساتھ دھوکا کیا تو میری طبیعت بجھ گئی اور میں نے محسوس کیا کہ ریگستان میں ایک بھونرے کے مانند ہوں جسے رس چوسنے کے لیے حد نظر تک کوئی پھول نظر نہیں آسکتا لیکن اس کے باوجود محبت کرنے سے باز نہ رہا اور حسبِ معمول کسی نے بھی میرے اس جذبے کی قدر نہ کی۔ جب پانی سر سے گزر گیا اور مجھے اپنے نام نہاد دوستوں کی بے وفائیاں اور سرد مہریاں یاد آنے لگیں تو میرے سینے کے اندر ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ میرے جذباتی، سرمدی اور ناطق وجود میں ایک جنگ سی چھڑ گئی۔ ناطق وجود ان لوگوں کو ملعون و مطعون گردانتے ہوئے اور گزشتہ واقعات کی افسوسناک تصویر دکھاتے ہوئے اس بات کا طالب تھا کہ میں آئندہ سے اپنا دل پتھر کا بنا لوں اور محبت کو ہمیشہ کے لیے باہر نکال پھینکوں، لیکن جذباتی وجود ان افسوسناک واقعات کو دوسرے رنگ میں پیش کرتے ہوئے مجھے فخر کرنے پر مجبور کرتا تھا کہ میں نے زندگی کا صحیح راستہ اختیار کیا ہے۔ اس کی نظر میں ناکامیاں ہی کامیابیاں تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ میں محبت کیے جاؤں کہ یہی کائنات کی روحِ رواں ہے۔ تحت الشعور وجود اس جھگڑے سے میں بالکل تھلگ رہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر ایک نہایت ہی عجیب و غریب نیند کا غلبہ طاری ہے۔ یہ جنگ خدا جانے کس نا مبارک روز شروع ہوئی کہ اب میری زندگی کا ایک جزو بن کے رہ گئی ہے۔ دن ہو یا رات جب کبھی مجھے فرصت کے چند لمحات میسر آتے ہیں، میرے سینے کے چٹیل میدان پر میرا ناطق وجود اور جذباتی وجود ہتھیار باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ ان لمحات میں جب ان دونوں کے درمیان لڑائی زوروں پر ہو، اگر میرے ساتھ کوئی ہم کلام ہو تو میرا لہجہ یقیناًکچھ اور قسم کا ہوتا ہے۔ میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی گھل رہی ہوتی ہے۔ آنکھیں گرم ہوتی ہیں اور جسم کا ایک ایک عضو بے کل ہوتا ہے۔ میں بہت کوشش کیا کرتا ہوں کہ اپنے لہجے کو درشت نہ ہونے دوں، اور بعض اوقات میں اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتا ہوں۔ لیکن اگر میرے کانوں کو کوئی چیز سُنائی دے یا میں کوئی ایسی چیز محسوس کروں جو میری طبیعت کے یکسر خلاف ہے تو پھر میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میرے سینے کی گہرائیوں سے جوکچھ بھی اٹھے، زبان کے راستے باہر نکل جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات جو الفاظ بھی ایسے موقع پر میری زبان پر آتے ہیں، بے حد تلخ ہوتے ہیں۔ ان کی تلخی اور درشتی کا احساس مجھے اس وقت کبھی نہیں ہوا۔ اس لیے کہ میں اپنے اخلاص سے ہمیشہ اور ہر وقت باخبر رہتا ہوں اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میں کبھی کسی کو دکھ نہیں پہنچا سکتا۔ اگر میں نے اپنے ملنے والوں میں سے یا کسی دوست کو ناخوش کیا ہے تو اس کا باعث میں نہیں ہوں بلکہ یہ خاص لمحات ہیں جب میں دیوانے سے کم نہیں ہوتا یا تمہارے الفاظ میں ’’شیطان‘‘ ہوتا ہوں، گو یہ لفظ بہت سخت ہے اور اس کا اطلاق میری دیوانگی پر نہیں ہوسکتا۔ جب تمہارا پچھلے سے پچھلا خط موصول ہوا تھا، اس وقت میرا ناطق وجود جذباتی وجود پر غالب تھا اور میں اپنے دل کے نرم و نازک گوشت کو پتھر میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ میں پہلے ہی سے اپنے سینے کی آگ میں پھنکا جارہا تھا کہ اوپر سے تمہارے خط نے تیل ڈال دیا۔ تم نے بالکل درست کہا ہے ’’تم درد مند دل رکھتے ہو، گو اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ ‘‘ میں اس کو اچھا کیوں نہیں سمجھتا۔ اس سوال کا جواب ہندوستان کا موجودہ انسانیت کش نظام ہے جس میں لوگوں کی جوانی پر بڑھاپے کی مہر ثبت کردی جاتی ہے۔ میرا دل درد سے بھرا ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ میں علیل ہوں اور علیل رہتا ہوں۔ جب تک درد مندی میرے سینے میں موجود ہے، میں ہمیشہ بے چین رہوں گا۔ تم شاید اسے مبالغہ یقین کرو مگر یہ واقعہ ہے کہ درد مندی میرے لہو کی بوندوں سے اپنی خوراک حاصل کررہی ہے، اور ایک دن ایسا آئے گا جب درد ہی درد رہ جائے گا اور تمہارا دوست دنیا کی نظروں سے غائب ہو جائے گا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ درد مندی کے اس جذبے نے مجھے کیسے کیسے بھیانک دُکھ پہنچائے ہیں۔ یہ کیا کم ہے کہ میری جوانی کے دن بڑھاپے کی راتوں میں تبدیل ہو گئے ہیں اور جب یہ سوچتا ہوں تو اس بات کا تہیّہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ مجھے اپنا دل پتھر بنا لینا چاہیے۔ لیکن افسوس ہے اس درد مندی نے مجھے اتنا کمزور بنا دیا ہے کہ مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا، اور چونکہ مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا اس لیے میری طبیعت میں عجیب و غریب کیفیتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ شعر میں اب بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا، اس لیے کہ شاعری سے مجھے بہت کم دلچسپی رہی ہے۔ لیکن مجھے اس بات کا کامل طور پر احساس ہے کہ میری طبیعت شاعری کی طرف مائل ہے۔ شہر میں بسنے والے لوگوں کی ’’وزنی شاعری‘‘ مجھے پسند نہیں۔ دیہات کے ہلکے پھلکے نغمے مجھے بے حد بھاتے ہیں۔ یہ اس قدر شفاف ہوتے ہیں کہ ان کے پیچھے دل دھڑکتے ہوئے نظر آسکتے ہیں۔ تمہیں حیرت ہے کہ میں ’’رومانی حزنیہ‘‘ کیوں کر لکھنے لگا اور میں اس بات پر خود حیران ہُوں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنے محسوسات کو دوسروں کی زبان میں بیان کرکے اپنا سینہ خالی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ ’’ذہنی مفلس‘‘ ہیں اور مجھے ان پر ترس آتا ہے۔ یہ ذہنی افلاس مالی افلاس سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ میں مالی مُفلس ہوں مگر خدا کا شکر ہے ذہنی مفلس نہیں ہوں، ورنہ میری مصیبتوں کی کوئی حد نہ ہوتی۔ مجھے یہ کتنا بڑا اطمینان ہے کہ میں جوکچھ محسوس کرتا ہوں، وہی اپنی زبان میں بیان کرلیتا ہوں۔ میں نے اپنے افسانوں کے متعلق کبھی غور نہیں کیا۔ اگر ان میں کوئی چیز بقول تمہارے ’’جلوہ گر‘‘ ہے تو میرا بے کل باطن۔ میرا ایمان نہ تشدد پر ہے اور نہ عدم تشدد پر۔ دونوں پر ہے اور دونوں پر نہیں۔ موجودہ تغیر پسند ماحول میں رہتے ہوئے میرے ایمان میں استقلال نہیں رہا۔ آج میں ایک چیز کو اچھا سمجھتا ہوں لیکن دوسرے روز سورج کی روشنی کے ساتھ ہی اس چیز کی ہئیت بدل جاتی ہے۔ اس کی تمام اچھائیاں برائیاں بن جاتی ہیں۔ انسان کا علم بہت محدود ہے اور میرا علم محدود ہونے کے علاوہ منتشر بھی ہے۔ ایسی صورت میں تمہارے اس سوال کا جواب میں کیوں کر دے سکتا ہوں! ’’مجھ‘‘ پر مضمون لکھ کر کیا کرو گے پیارے! میں اپنے قلم کی مقراض سے اپنا لباس پہلے ہی تار تار کر چکا ہوں۔ خدا کے لیے مجھے اور ننگا کرنے کی کوشش نہ کرو۔ میرے چہرے سے اگر تم نے نقاب اٹھا دی تو تم دنیا کو ایک بہت ہی بھیانک شکل دکھاؤ گے۔ میں ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ہوں جس پر میرا قلم کبھی کبھی پتلی جھلی منڈھتا رہتا ہے۔ اگر تم نے جھلیوں کی یہ تہہ ادھیڑ ڈالی تو میرا خیال ہے جو ہیبت تمہیں منہ کھولے نظر آئے گی، اسے دیکھنے کی تاب تم خود میں نہ پاؤ گے۔ میری کشمیر کی زندگی، ہائے میری کشمیر کی زندگی! مجھے معلوم ہے تمہیں میری زندگی کے اس خوشگوار ٹکڑے کے متعلق مختلف قسم کی باتیں معلوم ہوتی رہی ہیں۔ یہ باتیں جن لوگوں کے ذریعے تم تک پہنچتی ہیں، ان کو میں اچھی طرح جانتاہوں۔ اس لیے تمہارا یہ کہنا درست ہے کہ تم ان کو سن کر ابھی تک کوئی صحیح رائے مرتب نہیں کرسکے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ کہنے کے باوجود تم نے ایک رائے مرتب کی اور ایسا کرنے میں بہت عجلت سے کام لیا ہے۔ اگر تم میری تمام تحریروں کو پیش نظر رکھ لیتے تو تمہیں یہ غلط فہمی ہرگز نہ ہوتی کہ میں کشمیر میں ایک سادہ لوح لڑکی سے کھیلتا رہا ہوں۔ میرے دوست تم نے مجھے صدمہ پہنچایا ہے۔ وزیر کون تھی۔ اس کا جواب مختصر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دیہاتی لڑکی تھی۔ جوان اور پوری جوان! اس پہاڑی لڑکی کے متعلق جس نے میری کتاب زندگی کے کچھ اوراق پر چند حسین نقوش بنائے ہیں۔ میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں۔ میں نے وزیر کوتباہ نہیں کیا۔ اگر ’’تباہی‘‘ سے تمہاری مراد ’’جسمانی تباہی‘‘ ہے تو وہ پہلے ہی سے تباہ شدہ تھی، اور وہ اسی تباہی میں اپنی مسرت کی جستجو کرتی تھی۔ جوانی کے نشے میں مخمور اس نے اس غلط خیال کو اپنے دماغ میں جگہ دے رکھی تھی کہ زندگی کا اصل حظ اور لطف اپنا خون کھولانے میں ہے، اور وہ اس غرض کے لیے ہر وقت ایندھن چنتی رہتی تھی۔ یہ تباہ کن خیال اس کے دماغ میں کیسے پیدا ہوا اس کے متعلق بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ ہماری صنف میں ایسے افراد کی کمی نہیں جن کا کام صرف بھولی بھالی لڑکیوں سے کھیلنا ہوتا ہے۔ جہاں تک میرا اپنا خیال ہے وزیر اس چیز کا شکار تھی جسے تہذیب و تمدن کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں ہے جو شہروں کے شور و شر سے بہت دور ہمالیہ کی گود میں آباد ہے، اور اب تہذیب و تمدن کی ��دولت شہروں سے اس کا تعارف کرادیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں شہروں کی گندگی اس جگہ منتقل ہونا شروع ہو گئی ہے۔ خالی سلیٹ پر تم جو کچھ بھی لکھو گے، نمایاں طور نظر آئے گا۔ اور صاف پڑھا جائے گا۔ وزیر کا سینہ بالکل خالی تھا۔ دنیوی خیالات سے پاک اور صاف لیکن تہذیب کے کھردرے ہاتھوں نے اس پر نہایت بھدے نقش بنا دیے تھے جو مجھے اس کی غلط روش کا باعث نظر آتے ہیں۔ وزیر کامکان یا جھونپڑا سڑک کے اوپر کی ڈھلان میں واقع تھا اور میں اس کی ماں کے کہنے پر ہر روز اس سے ذرا اوپر چیڑ کے درختوں کی چھاؤں میں زمین پر دری بچھا کر کچھ لکھا پڑھا کرتا تھا اور عام طور پروزیر میرے پاس ہی اپنی بھینس چرایا کرتی تھی۔ چونکہ ہوٹل سے ہر روز دری اُٹھا کر لانا اور پھر اسے واپس لے جانا میرے جیسے آدمی کے لیے ایک عذاب تھا، اس لیے میں اسے ان کے مکان ہی میں چھوڑ جاتا تھا۔ ایک روز کا واقعہ ہے کہ مجھے غسل کرنے میں دیر ہو گئی اور میں ٹہلتا ٹہلتا پہاڑی کے دشوار گزار راستوں کو طے کرکے جب ان کے گھر پہنچا اور دری طلب کی تو اس کی بڑی بہن کی زبانی معلوم ہوا کہ وزیر دری لے کر اوپر چلی گئی ہے۔ یہ سُن کر میں اور اوپر چڑھا اور جب اس بڑے پتھر کے قریب آیا جسے میں میز کے طور پر استعمال کرتا تھا تو میری نگاہیں وزیر پر پڑیں۔ دری اپنی جگہ بچھی ہوئی تھی اور وہ اپنا سبز کلف لگا دوپٹہ تانے سو رہی تھی۔ میں دیر تک پتھر پر بیٹھا رہا۔ مجھے معلوم تھا وہ سونے کا بہانہ کرکے لیٹی ہے شاید اس کا خیال تھا کہ میں اسے جگانے کی کوشش کروں گا اور وہ گہری نیند کا بہانہ کرکے جاگنے میں دیر کرے گی۔ لیکن میں خاموش بیٹھا رہا بلکہ اپنے چرمی تھیلے سے ایک کتاب نکال کر اس کی طرف پیٹھ کرکے پڑھنے میں مشغول ہو گیا۔ جب نصف گھنٹہ اسی طرح گزر گیا تو وہ مجبور ہو کر بیدار ہُوئی۔ انگڑائی لے کر اس نے عجیب سی آواز منہ سے نکالی۔ میں نے کتاب بند کردی اور مڑ کر اس سے کہا: ’’میرے آنے سے تمہاری نیند تو خراب نہیں ہو ئی؟‘‘ وزیر نے آنکھیں مل کر لہجے کو خواب آلود بناتے ہوئے کہا: ’’آپ کب آئے تھے؟‘‘ ’’ابھی ابھی آکے بیٹھا ہوں۔ سونا ہے تو سو جاؤ۔ ‘‘ ’’نہیں۔ آج نگوڑی نیند کو جانے کیا ہو گیا۔ کمر سیدھی کرنے کے لیے یہاں ذری کی ذری لیٹی تھی کہ بس سو گئی۔ دو گھنٹے سے کیا کم سوئی ہوں گی۔ ‘‘ اس کے گیلے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے جو کچھ باہر جھانک رہا تھا، اس کو میرا قلم بیان کرنے سے عاجز ہے۔ میرا خیال ہے اس وقت اس کے دل میں یہ احساس کروٹیں لے رہا تھا کہ اس کے سامنے ایک مرد بیٹھا ہے اور وہ عورت ہے۔ جوان عورت۔ شباب کی امنگوں کا ابلتا ہوا چشمہ! تھوڑی دیر کے بعد وہ غیر معمولی باتونی بن گئی اور بہک سی گئی۔ مگر میں نے اس کی بھینس اور بچھڑے کا ذکر چھیڑنے کے بعد ایک دلچسپ کہانی سنائی جس میں ایک بچھڑے سے اس کی ماں کی الفت کا ذکر تھا۔ اس سے اس کی آنکھوں میں وہ شرارے سرد ہو گئے جو کچھ پہلے لپک رہے تھے۔ میں زاہد نہیں ہوں، اور نہ میں نے کبھی اس کا دعویٰ کیا ہے۔ گناہ و ثواب اور سزا و جزا کے متعلق میرے خیالات دوسروں سے جدا ہیں اور یقیناًتمہارے خیالات سے بھی بہت مختلف ہیں۔ میں اس وقت ان بحثوں میں نہیں پڑنا چاہتا اس لیے کہ اس کے لیے سکون قلب اور وقت درکار ہے۔ برسیبل تذکرہ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے تم میرے خیالات کے متعلق کچھ اندازہ لگا سکو گے۔ باتوں باتوں میں ایک مرتبہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ حُسن اگر پورے شباب اور جوبن پر ہو تو وہ دلکشی کھو دیتا ہے۔ مجھے اب بھی اس خیال پر ایمان ہے۔ مگر میرے دوست نے اسے مہمل منطق قراردیا۔ ممکن ہے تمہاری نگاہ میں بھی یہ مہمل ہو۔ مگر میں تم سے اپنے دل کی بات کہتا ہوں۔ اس حُسن نے میرے دل کو اپنی طرف راغب نہیں کیا جو پورے شباب پر ہو۔ اس کو دیکھ کر میری آنکھیں ضرور چندھیا جائیں گی۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس حسن نے اپنی تمام کیفیتیں میرے دل و دماغ پر طاری کردی ہیں۔ شوخ اور بھڑکیلے رنگ اس بلندی تک کبھی نہیں جا سکتے جو نرم و نازک الوان و خطوط کو حاصل ہے۔ وہ حسن یقیناًقابل احترام ہے جو آہستہ آہستہ نگاہوں میں جذب ہو کر دل میں اُتر جائے۔ روشنی کا خیرہ کن شعلہ دل کے بجائے اعصاب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن اس فضول بحث میں پڑنے سے کیا فائدہ۔ میں کہہ رہا تھا کہ میں زاہد نہیں ہوں، یہ کہتے وقت میں دبی زبان میں بہت سی چیزوں کا اعتراف بھی کررہا ہوں لیکن اس پہاڑی لڑکی سے جو جسمانی لذتوں کی دلدادہ تھی، میرے تعلقات صرف ذہنی اور روحانی تھے۔ میں نے شاید تمہیں یہ نہیں بتایا کہ میں اس بات کا قائل ہُوں کہ اگر عورت سے دوستی کی جائے تو اس کے اندر نُدرت ہونی چاہیے۔ اس سے اس طرح ملنا چاہیے کہ وہ تمہیں دوسروں سے بالکل علیحدہ سمجھنے پر مجبور ہو جائے اسے تمہارے دل کی ہر دھڑکن میں ایسی صدا سُنائی دے جو اس کے کانوں کے لیے نئی ہو۔ عورت اور مرد۔ اور ان کا باہمی رشتہ ہر بالغ آدمی کو معلوم ہے۔ لیکن معاف کرنا یہ رشتہ میری نظروں میں فرسودہ ہو چکا ہے۔ اس میں یکسر حیوانیت ہے۔ میں پوچھتا ہوں اگر مرد کو اپنی محبت کا مرکز کسی عورت ہی کو بنانا ہے تو وہ انسانیت کے اس مقدس جذبے میں حیوانیت کو کیوں داخل کرے۔ کیا اس کے بغیر محبت کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ کیا جسم کی مشقت کا نام محبت ہے؟ وزیراس غلط فہمی میں مبتلا تھی کہ جسمانی لذتوں کا نام محبت ہے اور میرا خیال ہے جس مرد سے بھی وہ ملتی تھی، وہ محبت کی تعریف انہی الفاظ میں بیان کرتی تھی۔ میں اس سے ملا اور اس کے تمام خیالات کی ضد بن کر میں نے اس سے دوستی پیدا کی۔ اس نے اپنے شوخ رنگ خوابوں کی تعبیر میرے وجود میں تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اسے مایوسی ہوئی۔ لیکن چونکہ وہ غلط کار ہونے کے ساتھ ساتھ معصوم تھی، میری سیدھی سادھی باتوں نے اس مایوسی کو حیرت میں تبدیل کردیا۔ اور آہستہ آہستہ اس کی یہ حیرت اس خواہش کی شکل اختیار کرگئی کہ وہ اس نئی رسم و راہ کی گہرائیوں سے واقفیت حاصل کرے۔ یہ خواہش یقیناً ایک مقدس معصومیت میں تبدیل ہو جاتی اور وہ اپنی نسوانیت کا وقارِ رفتہ پھر سے حاصل کرلیتی جسے وہ غلط راستے پر چل کر کھو بیٹھی تھی، لیکن افسوس ہے مجھے اس پہاڑی گاؤں سے دفعتہً پُرنم آنکھوں کے ساتھ اپنے شہر واپس آنا پڑا۔ مجھے وہ اکثر یاد آتی ہے۔ کیوں۔ اس لیے کہ رخصت ہوتے وقت اس کی سدا متبسم آنکھوں میں دو چھلکتے آنسو بتا رہے تھے کہ وہ میرے جذبے سے کافی متاثر ہوچکی ہے اور حقیقی محبت کی ایک ننھی سی شعاع اس کے سینے کی تاریکی میں داخل ہو چکی ہے۔ کاش! میں وزیر کو محبت کی تمام عظمتوں سے روشناس کراسکتا اور کیا پتہ ہے کہ یہ پہاڑی لڑکی مجھے وہ چیز عطا کردیتی جس کی تلاش میں میری جوانی بڑھاپے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ ہے میری داستان جس میں بقول تمہارے لوگ اپنی دلچسپی کا سامان تلاش کرتے ہیں۔ تم نہیں سمجھتے، اور نہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں یہ د استانیں کیوں لکھتا ہوں۔ پھر کبھی سمجھاؤں گا۔ Read the full article
0 notes
adhorikahani24 · 5 years
Photo
Tumblr media
ناول: آہ (قسط 1) http://bit.ly/310HjjL
آہ از_ناز_خان قسط_نمبر_01
دیکھو فری میرا دماغ خراب مت کرو جلدی سے یہ کھانا کھالو۔
میں نے کہا نہ بھوک نہیں ہے مجھے لیجاۓ کھانا یہاں سے فری نے منہ پھولاتے ہوۓ کہا ۔
فری دیکھو بیٹا ضد نہیں کرتے ہم تمہارے والدین ہیں تمہارا برا تو نہیں چاہنگے تم ابھی چھوٹی ہو تمہیں نہیں پتا کہ تمہارے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا زرش نے ایک بار پر کوشش کی کہ شاید فری مان جاۓ اسنے فری کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا جو فری نے بے دردی سے دور ہٹایا۔
یہ پیار محبت کے ڈکھوسلے کم از کم میرے سامنے تو نہ کرے میں بالغ ہوں مجھے پتا ہے کہ میرے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا یہ میری زندگی ہے مجھے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے دے فری نے بتمیزی سے کہا تو زرش جو کہ بہ مشکل غصہ پر قابو پایے ہوۓ تھی ایک دم سے پھٹ گٸ۔
میری بھی ایک بات کان کھول کر سن لو تم مر ہی کیوں نہ جاٶ تب بھی ہم تمہاری شادی اس دو ٹکے کے سرکاری ملازم سے نہیں کرواینگے بلاتی ہوں تمہارے باپ کو اب وہی تم سے نمٹے غضب خدا کا کل کے لونڈے کے لیے اپنے والدین سے لڑ رہی ہے زرش بڑبڑاتے ہوۓ باہر نکل گٸ۔
پیچھے فری نے ایک منٹ ضائع کیے بنا زور سے دروازہ بند کیا۔
کھانا لگا دو آپ کے لیے ۔
فری نے کھا لیا؟
نہیں وہ کہہ رہی ہے کہ مجھے بھوک نہیں ہے زرش نے آنکھیں چراٸ۔
علقمہ جو کہ آستین فولڈ کررہا تھا زرش کی بات پر کچھ پل کے لیے اسکے ہاتھ رک گۓ۔
تم کھانا لگاٶں میں فری کو لیکر آتا ہوں۔
لیکن۔۔۔
 زرش نے اسے روکنا چاہا لیکن وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا زرش مرے مرے قدموں سے کچن میں آگٸ وہ بے دیحانی میں کھانا گرم کرنے لگی اسے ڈر تھا کہ فری آپنے باپ سے بتمیزی نہ کرلے۔
علقمہ نے دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا جو کے اندر سے بند تھا اسنے ناک کیا لیکن جواب ندارد۔
فری بیٹا دروازہ کھولو میں تمہارا بابا کیا اپنے بابا سے بھی بات نہیں کروگی۔
فری نے کوٸ جواب نہیں دیا۔
دیکھو فری جب تک تم دروازہ نہیں کھولو گی میں یہی کھڑا رہونگا اس بارعلقمہ کی دھمکی نے کام کر دکھایا فری نے دروازہ کھول دیا۔
فری کی سوجی سوجی آنکھیں بکھرے بال دیکھ کر علقمہ کے دل کو کچھ ہوا لیکن اسنے جلد ہی خود پر قابو پایا۔
یہ ہوٸ نہ بات چلو اب کھانا کھاتے ہیں میں نے بھی تمہاری وجہ سے ابھی کھانا نہیں کھایا ۔
فری کو انکا یہ محبت بھرا لہجہ سب ایک ڈکھوسلہ لگا۔
مجھے بھوک نہیں ہے بابا آپ جاکر کھالے فری نے بھراٸ ہوٸ آواز میں کہا۔
سب کو اسکے کھانے کی فکر تھی لیکن اسکی فکر نہیں تھی کہ وہ سب کس طرح اسکے دل کا خون کررہے ہیں۔
بالکل بھی نہیں جب تک تم کچھ نہیں کھاٶگی میں بھی نہیں کھاٶنگا۔
بابا مجھ سے کچھ نہیں کھایا جاٸیگا پلیز مجھے مجبور نہ کرے اسنے بھراٸ ہوٸ آواز میں کہا اور بھاگ کر دوبارہ دروازہ بند کرلیا۔
جبکے علقمہ ہق دق رہہ گیا۔
وہ غاٸب دماغی کے ساتھ ڈاٸننگ ٹیبل تک آیا۔
کیا ہوا نہیں آٸ وہ زرش کی بات پر اسنے چونک کر زرش کو دیکھا جو اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
زرش اگر اسی طرح چلتا رہا تو ہماری فری تو مرجاٸگی علقمہ نے دکھی لہجے میں کہا۔
اس عزاب میں روز روز مرنے سے اچھا ہے کہ وہ ایک دن میں ہی مرجاۓ وہ کم عقل ہے اسے اپنا اچھا برا نہیں پتا تو کیا ہم بھی اسکی بے وقوفی میں شامل ہوجاۓ زرش نے غصے سے کہا۔
کہہ تو تم صحیح رہی ہو لیکن ہم اب کرے بھی تو کیا علقمہ نے پریشانی سے ماتھا مسلتے ہوۓ کہا۔
جو دو تین پرپوزل آۓ تھے فری کے لیے اسی میں کسی کو فاٸنل کرکے فری کی انگیجمنٹ کروادیتے ہیں شادی اسی سٹڈی کمپلیٹ کرنے کے بعد ہی کروادینگے اسطرح اسکا ماٸینڈ بھی تھوڑا چینج ہوجاۓ گا۔
ہوں یہ صحیح ہے علقمہ نے اسکی بات کی تاٸید کرتے ہوۓ کہا۔
بچے کہاں ہے۔
تاشہ اپنی دوست کی بھاٸ کے شادی میں گٸ ہے جبکے فیصل اور حمزہ کی دوستوں کے ساتھ گیٹ ٹو گیدر ہیں زرش نے تفصیل سے بتایا۔
ارے آپ نے کھانا تو کھایا ہی نہیں علقمہ کو کھانے کے ٹیبل سے بنا کچھ کھایے اٹھتے دیکھ کر زرش نے کہا۔
بھوک نہیں ہے ایک کپ چاۓ بنا کر لے آٶ سر میں درد ہے۔
جی ابھی بنا کر لاتی ہوں آج بھی کھانے کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا آج کتنے دن ہوگۓ روز ہی کھانا پکتا ہے لیکن کھایا براۓ نام ہی جاتا ہے کوٸ کھایے بھی تو کیسے جب ان کی لاڈلی بیٹی بھوکی رہے۔
علقمہ ایک بہت اچھے سرکاری عہدے پر فاٸز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے باپ دادا کاروبار بھی سنبھال رکھا تھا گھر میں دولت کی ریل پیل تھی علقمہ جوانی میں بہت شوخ مزاج تھا بے پنا لڑکیوں کے ساتھ دوستی تھی لیکن شادی اسنے ماں باپ کے پسند سے ہی کی زرش ایک پڑھی لکھی باشعور لڑکی تھی اسنے علقمہ کی زندگی سنوارنے میں بہت اہم کردار ادا کیا وہ دونوں اپنی چھوٹی سے دنیا میں بہت خوش تھے اللہ نے انہیں دو بیٹے اور دو بیٹیاں دی سب سے بڑی فریحہ اسکے بعد نتاشہ اور پھر دو جڑواں بیٹے حمزہ اور فیصل تھے فریحہ میں تو علقمہ کی جان تھی وہ اسکی ہر جاٸز و ناجاٸز خواہشیں پوری کرتا تھا بچے سب ہی بہت تمیز والے تھے فریحہ تھوڑی ضدی تھی لیکن دل کی وہ بھی بری نہیں تھی بچے بڑے ہورہے تھے سب صحیح جارہا تھا فریحہ یونیورسٹی میں آگٸ تھی جب کہ باقی تینوں کالج میں۔
فریحہ یونی میں زیادہ لفٹ کسی کو نہیں کرواتی تھی وہ اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔
کچھ دن سے ایک رانگ نمبر اسے بہت تنگ کررہا تھا وہ جو کوٸ بھی تھا اسکے روزمرہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوۓ تھا آج اسنے کس کلر کے کپڑے پہنے ہے کب وہ ہنسی کس کے ساتھ بیٹھ کر بات کی وہ پریشان کیوں تھی کالج کیوں نہیں آٸ العرض اس فارغ انسان کو شاید اسے تاڑنے کے علاوہ کوٸ کام نہیں تھا پہلے پہل تو وہ اسے اگنور کرتی رہی کہی بار دل میں آیا کہ ابو کو بتادے لیکن پر کچھ سوچھ کر چھپ ہوجاتی وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا جب تک فریحہ عرف فری اس سے دوستی کرنے پر راضی نہ ہوٸ تب تک ہاتھ دھو کر اسکے پیچھے پڑا رہا وہ فری کی یونی میں لاٸبریرین تھا شکل کچھ خاص نہیں تھی نہ ہی اپنا گھر تھا لیکن کہتے ہے نہ محبت اندھی ہوتی ہے۔
فری جو پہلے یونیورسٹی سادہ سی جاتی اب ایک دم سے اپنی تیاری کا بہت خاص خیال رکھنے لگی اسکی اس تبدیلی کو زرش نے بھی محسوس کیا لیکن ہر ماں کی طرح انہیں بھی اپنی بیٹی پر اعتبار تھا کہ اسکی بیٹی انہیں دھوکہ نہیں دے سکتی
لیکن اس وقت انکی ساری خوش فہمی دور ہوگٸ جب علقمہ کے بھتیجے کا رشتہ فری کے لیے آیا رشتہ سب کو پسند تھا انہوں نے جب فری سے پوچھا تو اسنے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے اور شادی بھی اسی سے کری گی تب علقمہ اور زرش کا غرور جیسے چکنا چور ہوگیا لیکن انہوں نے کہا کچھ نہیں اور فری سے کہا کہ وہ ہاشم سے کہے کہ وہ گھر والوں کو بھیج دے وہ بچوں پر زبردستی کرنے کے قاٸل نہیں تھے فری نے خوشی خوشی ہاشم کو گھر آنے کا کہا اگلے ہی دن ہاشم اپنی ماں اور بہن کے ساتھ حاضر تھا ہاشم کو دیکھ کر علقمہ اور زرش کو بہت بڑا جھٹکا لگا انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ انکی بیٹی کی پسند ہے ہاشم تقریباً پینتالیس پچاس سال کا مرد تھا اسکا سر آگے سے گنجا تھا اوپر سے اسکی مالی حالت اتنے خراب تھے کہ وہ دو کمروں کے کرایے کہ مکان میں رہہ رہے تھے وہ ان سب باتوں کو اگنور بھی کردیتے اگر ایج کا مسٸلہ نہ ہوتا وہ کیسے اپنی نازو پلی بیٹی کو اس سے بیاہ دیتے لیکن فری کہ آنکھوں پر تو محبت کی پھٹی ہاشم نے باندھ رکھی تھی وہ کچھ بھی سمجھنا نہیں چاہتی تھی کہی دنوں سے نہ وہ کچھ کھا رہی تھی اور نہ ہی کسی سے بات کررہی تھی ۔
اگلےکچھ دنوں میں زرش نے خوب چھان بن کرکے ان چند رشتوں میں سے ایک کے لیے ہاں کردی فری کو جب پتا چلا تو خوب واویلا کیا لیکن کسی نے اسکی ایک نہیں سنی علقمہ نے تو یہاں تک کہ دیا کہ اگر اسنے کچھ الٹا سیدھا کیا تو اسکا مرا منہ دیکھی گی علقمہ کی دھمکی دینے کے بعد فری خاموش ہوگٸ اسنے دوبارہ کوٸ ایشو کھڑا نہیں کیا زرش اور علقمہ نے تو اسکو ہی غنمیت جانا اور منگنی کی تیاری کرنے لگے فری نے سب کچھ ان لوگوں پر چھوڑ دیا تھا منگنی کی ساری شاپنگ تاشہ اور زرش نے فری کے سسرال والوں کے ساتھ مل کر کی حالانکے فری کے سسرال والوں کا بہت دل تھا کہ فری خود انکے ساتھ جاکر منگنی کی شاپنگ کرلے لیکن زرش نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ فری بہت شرمیلی ہے۔
اس دن علقمہ کی طبیعت کچھ خراب تھی تو جلدی سوگیا ابھی بہ مشکل اسکی آنکھ لگی تھی جب اسنے ایک عجیب خواب دیکھا خواب میں وہ کیا دیکھتا ہے کہ اسکی ساری فیملی کسی خوبصورت جگہ گٸ ہوٸ ہوتی ہیں جو کہ بہت ہی خوبصورت جگہ ہوتی چاروں طرف ہریالی کے درمیان سفید پانی کا چشمہ بہہ رہا ہوتا ہے درختوں پر بہت بڑے بڑے پھل لگے ہوتے ہیں جو کہ اسنے کم از کم عام زندگی میں نہیں دیکھے تھے خوشی کا ماحول ہوتا ہے وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ بہت انجواۓ کررہے ہوتے ہیں کہ ایک دم سے ہی آسمان گہرے کالے بادلوں سے ڈھک جاتا ہے وہ سب ایسے خوفناک بادل دیکھ کر ڈر جاتے ہیں وہ سب وہاں سے بھاگ جانے کا سوچھ رہے ہوتے ہے کہ ایک دم سے چاروں طرف اندھیرا ہوجاتا اور پھر تیز آندھی آجاتی ہے جو ہر شے کو اڑا لے جاتی ہے وہ سب اپنی جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگتے ہیں کچھ دیر بعد آندھی رک جاتی ہے ہر چیز ایسے صاف ہوجاتی ہے جیسے آٸ ہی نہ ہو لیکن وہ ہریالی ہر چیز ایسے غاٸب ہوجاتی ہے جیسے خزاں کا موسم ہو وہ ادھر ادھر اپنے بچوں اور بیوی کو دیوانوں کی طرح ڈھونڈتا ہے لیکن وہ پتا نہیں کہاں غاٸب ہوجاتے ہیں وہ زوز زور سے چلاتا ہے تب ہی اسکی آنکھیں کھل جاتی ہے اسکی سانس ابھی تک پھولی ہوٸ تھی اسنے جلدی سے جگ سے پانی گلاس میں انڈھیلا اور ایک ہی سانس میں سارا پانی پی لیا اسکا سارا جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا اب دوبارہ اتنی جلدی نیند آنا ممکن نہیں تھا اسلۓ وہ دبے پاٶں کمرے سے باہر نکل آیا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 notes
weaajkal · 5 years
Photo
Tumblr media
رَتی، ماشہ، تولہ زینت اپنے کالج کی زینت تھی۔ بڑی زیرک ٗ بڑی ذہین اور بڑے اچھے خدو خال کی صحتمند نوجوان لڑکی۔ جس طبیعت کی وہ مالک تھی اس کے پیشِ نظر اُس کی ہم جماعت لڑکیوں کو کبھی خیال بھی نہ آیا تھا۔ کہ وہ اتنی مقدار پشد عورت بن جائے گی۔ ویسے وہ جانتی تھیں کہ چائے کی پیالی میں صرف ایک چمچ شکر ڈالنی ہے زیادہ ڈالدی جائے تو پینے سے انکار کر دیتی ہے قمیص اگر آدھا انچ بڑی یا چھوٹی سِل جائے تو کبھی نہیں پہنے گی۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ شادی کے بعد وہ اپنے خاوند سے بھی نپی تلی محبت کرے گی۔ زینت سے ایک لڑکے کو محبت ہو گئی وہ اس کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا بلکہ یوں کہیے کہ اُس کا اور زینت کا مکان آمنے سامنے تھا ایک دن اُس لڑکے نے جس کا نام جمال تھا اُسے کوٹھے پر اپنے بال خشک کرتے دیکھا تو وہ سر تاپا محبت کے شربت میں شرابور ہو گیا۔ زینت وقت کی پابند تھی صبح ٹھیک چھ بجے اُٹھتی۔ اپنی بہن کے دو بچوں کو سکول کے لیے تیار کرتی اس کے بعد خود نہاتی اور سر پر تولیہ لپیٹ کر اوپر کوٹھے پر چلی جاتی اور اپنے بال جو اُس کے ٹخنوں تک آتے تھے سُکھاتی کنگھی کرتی اور نیچے چلی جاتی جوڑا وہ اپنے کمرے میں کرتی تھی۔ اس کی ہر حرکت اور اس کے ہر عمل کے وقت معین تھے۔ جمال گر صبح ساڑھے چھ بجے اُٹھتا اور حوائج ضروری سے فارغ ہو کر اپنے کوٹھے پر پہنچتا تو اُسے نا امیدی کا سامنا کرنا پڑتا اس لیے کہ زینت اپنے بال سُکھا کر نیچے چلی گئی ہوتی تھی ایسے لمحات میں وہ اپنے بالوں میں اُنگلیوں سے کنگھی کرتا اور ادھر ادھر دیکھ کے واپس نیچے چلا جاتا اس کو سیڑھیاں اُترتے ہوئے یوں محسوس ہوتا کہ ہر زینہ کنگھی کا ایک دندانہ ہے جو اُترتے ہوئے ایک ایک کر کے ٹوٹ رہا ہے۔ ایک دن جمال نے زینت کو ایک رقعہ بھیجا وقت پر وہ کوٹھے پر پہنچ گیا تھا جبکہ زینت اپنے ٹخنوں تک لمبے بال سُکھا رہی تھی اس نے یہ تحریر جو خوشبودار کاغذ پر تھی روڑے میں لپیٹ کر سامنے کوٹھے پر پھینک دی زینت نے یہ کاغذی پیراہن میں ملبوس پتھر اُٹھایا۔ کاغذ اپنے پاس رکھ لیا اور پتھر واپس پھینک دیا۔ لیکن اُس کو جمال کی شوخئ تحریر پسند نہ آئی اور وہ سر تا پا فریاد بن گئی اُس نے لکھا تھا۔ زلف برہم سنبھال کر چلیے راستہ دیکھ بھال کر چلیے موسمِ گُل ہے اپنی بانھوں کو میری بانھوں میں ڈال کر چلیے موسمِ گل قطعاً نہیں تھا۔ اس لیے اس آخری شعر نے اُس کو بہت کوفت پہنچائی اس کے گھر میں کئی گملے تھے جن میں بوٹے لگے ہوئے تھے یہ سب کے سب مرجھائے ہوئے تھے جب اس نے یہ شعر پڑھا تو اس کا ردّعمل یہ ہوا کہ اس نے مُرجھائے بے گُل بُوٹے اکھاڑے اور اس کنستر میں ڈال دیا جس میں کوڑا کرکٹ وغیرہ جمع کیا جاتا تھا۔ ایک زُلف اس کی برہم رہتی تھی۔ لیکن راستہ دیکھ بھال کر چلنے کا سوال کیا پیدا ہوتا تھا زینت نے سوچا کہ یہ محض شاعرانہ تُک بندی ہے لیکن اس کے بال ٹخنوں تک لمبے تھے۔ اسی دن جب اس کو یہ رقعہ ملا تو نیچے سیڑھیاں اُترتے ہوئے جب ایک زینے پر اپنی ایک بھانجی کے کان سے گری ہوئی سونے کی بالی اُٹھانی پڑی تو وہ اس کی سینڈل سے اُلجھ گئے اور گرتے گرتے بچی۔ چنانچہ اُس دن سے اُس نے راستہ دیکھ بھال کر چلنا شروع کیا۔ مگر اس کی بانھوں میں بانھیں ڈال کر چلنے میں سخت اعتراض تھا۔ وہ اسے زیادتی سمجھتی تھی اس لیے کہ موسم گل نہیں تھا موسم گل بھی ہوتا تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ پھولوں سے بانہوں کا کیا تعلق ہے اس کے نزدیک بانہوں میں بانھیں ڈال کر چلنا بڑا واہیات بلکہ سوقیانہ ہے چنانچہ جب وہ دوسرے روز صبح ۶ بجے اُٹھی اور اپنی بھانجیوں کو اسکول کے لیے تیار کرنا چاہا تو اُسے معلوم ہوا کہ اتوار ہے اس کے دل و دماغ میں وہ دو شعر سوار تھے۔ اُس نے اُسی وقت تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بچیوں کو تیار کرے گی اس کے بعد نہائے گی اور اپنے کمرے میں جا کر جمال کا رقعہ پڑھ کر اُسے جی ہی میں کوسے گی مگر اتوار ہونے کے باعث اس کا یہ تہیہ درہم برہم ہو گیا۔ اُسے وقت سے پہلے غسل کرنا پڑا حالانکہ وہ اپنے روز مرہ کے اوقات کے معاملے میں بڑی پابند تھی۔ اُس نے غسل خانے میں ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا دو بالٹیوں سے پہلے نہاتی تھی دو بالٹیوں سے اب بھی نہائی۔ لیکن آہستہ آہستہ اُس نے نہاتے وقت اپنی بانھوں کو دیکھا۔ جو سڈول اور خوبصورت تھیں پھر اُسے جمال کی بانھوں کا خیال آیا لیکن اس نے ان کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ قمیص کی آستینوں کے اندر چھپی رہتی تھیں ان کے متعلق وہ کیا رائے قائم کرسکتی تھی بہر حال وہ اپنے گدرائے ہوئے بازو دیکھ کر مطمئن ہو گئی اور جمال کو بھول گئی۔ غسل میں کچھ زیادہ ہی دیر ہو گئی۔ اس لیے کہ وہ اپنے حسن و جمال کے متعلق اندازہ کرنے بیٹھ گئی تھی اس نے کافی دیر غور کرنے پر یہ نتیجہ نکالا کہ وہ زیادہ حسین تو نہیں لیکن قبول صورت اور جوان ضرور ہے۔ جوان وہ بلا شبہ تھی۔ وہ چھوٹی مختصر سی ریشمی چیز جو اُس نے اپنے بدن سے اُتار کر لکس صابن کی ہوائیوں میں دھوئی تھی اُس کے سامنے ٹنگی تھی۔ یہ گیلی ہونے کے باوجود بہت سی چغلیاں کھا رہی تھی۔ اس کے بعد روڑے میں لپٹا ہوا ایک اور خط آیا اُس میں بے شمار اشعار تھے شعروں سے اُسے نفرت تھی اس لیے کہ وہ انھیں محبت کا عامیانہ ذریعہ سمجھتی تھی خط آتے رہے زینت وصول کرتی رہی لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ محبت کے شدید جذبے کی قائل نہیں تھی اس کو جمال پسند تھا اس لیے کہ وہ خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اُس کے متعلق وہ لوگوں سے بھی سُن چکی تھی کہ وہ بڑے اچھے خاندان کا لڑکا ہے شریف ہے اس کو اور کسی لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں رہا غالباً یہی وجہ تھی ایک دن اُس نے اپنی نوکرانی کے دس سالہ بچے کے ہاتھ اس کو یہ رقعہ لکھ کر بھیج دیا۔ ’’آپ کی رقعہ نویسی پر مجھے اس کے سوا اور کوئی اعتراض نہیں کہ یہ شعروں میں نہ ہوا کرے مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مجھے چاندی اور سونے کے ہتھوڑوں سے کُوٹ رہا ہے۔ یہ خط ملنے کے بعد جمال نے اشعار لکھنے بند کر دیے لیکن اُس کی نثر اُس سے بھی کہیں زیادہ جذبات سے پُر ہوتی تھی زینت کی طبع پر یہ بھی گراں گزرتی۔ وہ سوچتی یہ کیسا آدمی ہے وہ رات کو سوتی تو اپنا کمرہ بند کر کے قمیص اتار دیتی تھی اس لیے کہ اس کی نیند پر یہ ایک بوجھ سا ہوتا تھا۔ مگر جمال تو اُس کی قمیص کے مقابلے میں کہیں زیادہ بوجھل تھا۔ وہ اُسے کبھی برداشت نہ کرسکتی لیکن اُس کو اس بات کا مل احساس تھا کہ وہ اس سے والہانہ محبت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زینت نے جمال کو کئی موقع دیے کہ وہ اس سے ہمکلام ہوسکے وہ اس سے جب پہلی بار ملا تو کانپ رہا تھا۔ کانپتے کانپتے اور ڈرتے ڈرتے اُس نے ایک ناول بغیر عنوان کے اپنی جیب سے نکالا اور زینت کو پیش کیا اسے پڑھیے میں۔ میں۔ اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا اور کانپتا لرزتا زینت کے گھر سے نکل گیا۔ زینت کو بڑا ترس آیا۔ لیکن اُس نے سوچا کہ اچھا ہوا۔ اس لیے کہ اُس کے پاس زیادہ وقت تخلیے کے لیے نہیں تھا۔ اس کے ابا ٹھیک ساڑھے سات بجے آنے والے تھے اور جمال سوا سات بجے چل دیا تھا۔ اس کے بعد جمال نے ملاقات کی درخواست کی تو زینت نے اسے کہلا بھیجا کہ وہ اس سے پلازہ میں شام کا پہلا شو شروع ہونے سے دس منٹ پہلے مل سکے گی۔ زینت وہاں پندرہ منٹ پہلے پہنچی جو سہیلی اُس کے ساتھ تھی اُس کو کسی بہانے اِدھر اُدھر کر دیا دس منٹ اس نے باہر گیٹ کے پاس جمال کا انتظار کیا جب وہ نہ آیا تو کسی تکدر کے بغیر وہاں سے ہٹی اور اپنی سہیلی کو تلاش کر کے اندر سینما میں چلی گئی۔ جمال اُس وقت پہنچا جب وہ فرسٹ کلاس میں داخل ہو رہی تھی زینت نے اُسے دیکھا اس کے ملتجی چہرے اور اس کی معافی کی خواستگار آنکھوں کو مگر اُس نے اُس کو گیٹ کیپر کی بھی حیثیت نہ دی اور اندر داخل ہو گئی شو چونکہ شروع ہو چکا تھا اس لیے اس نے اتنی نوازش کی کہ جمال کی طرف دیکھ کر گیٹ کیپر سے کہا ’’معاف کیجیے گا ہم لیٹ ہو گئے‘‘ جمال شو ختم ہونے تک باہر کھڑا رہا جب لوگوں کا ہجوم سینما کی بلڈنگ سے نکلا تو اس نے زینت کو دیکھا آگے بڑھ کے اس سے بات کرنا چاہی مگر اُس نے اُس کے ساتھ بالکل اجنبیوں سا سلوک کیا چنانچہ اُسے مایوس گھر لوٹنا پڑا۔ اُس کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ بال بنوانے اور نہا دھو کر کپڑے پہننے میں اسے دیر ہو گئی تھی۔ اُس نے رات کو بڑی سوچ بچار کے بعد ایک خط لکھا جو معذرت نامہ تھا۔ وہ زینت کو پہنچا دیا یہ خط پڑھ کر جب وہ مقررہ وقت پر کوٹھے پر آئی تو جمال نے اس کے تیوروں سے محسوس کیا کہ اسے بخش دیا گیا ہے۔ اس کے بعد خط و کتابت کا سلسلہ دیر تک جاری رہا زینت کو جمال سے شکایت رہتی کہ وہ خط بہت لمبے لکھتا ہے جو ضرورت سے زیادہ جذبات سے پُر ہوتے ہیں۔ وہ اختصار کی قائل تھی محبت اُس کو بھی جمال سے ہو چکی تھی مگر وہ اُس کے اظہار میں اپنی طبیعت کے موافق برتتی تھی آخر ایک دن ایسا آیا کہ زینت شادی پر آمادہ ہو گئی مگر ادھر دونوں کے والدین رضا مند نہیں ہوتے تھے بہر حال بڑی مشکلوں کے بعد یہ مرحلہ طے ہوا اور جمال کے گھر زینت دلہن بن کے پہنچ گئی حجلہ ءِ عروسی سجا ہوا تھا ہر طرف پھول ہی پھول تھے جمال کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا عشق و محبت کا اُس نے چنانچہ عجیب و غریب حرکتیں کیں زینت کو سر سے پاؤں تک اپنے ہونٹوں کی سجدہ گاہ بنا ڈالا۔ زینت کو جذبات کا یہ بے پناہ بہاؤ پسند نہ آیا وہ اکتا گئی ٹھیک دس بجے سو جانے کی عادی تھی اُس نے جمال کے تمام جذبات ایک طرف جھٹک دئیے اور سو گئی۔ جمال نے ساری رات جاگ کر کاٹی زینت حسبِ معمول صبح ٹھیک چھ بجے اٹھی اور غسل��انے میں چلی گئی باہر نکلی تو اپنے ٹخنوں تک لمبے بالوں کا بڑی چابک دستی سے جوڑا بنانے میں مصروف ہو گئی اس دوران میں وہ صرف ایک مرتبہ جمال سے مخاطب ہوئی۔ ’’ڈارلنگ مجھے بڑا افسوس ہے۔ ‘‘ جمال اس ننھے سے جملے سے ہی خوش ہو گیا جیسے کسی بچے کو کھلونا مل گیا ہو۔ اُس نے دل ہی دل میں اس فضا ہی کو چومنا شروع کر دیا جس میں زینت سانس لے رہی تھی وہ اُس سے والہانہ طور پر محبت کرتا۔ اس قدر شدید انداز میں کہ زینت کی مقدار پسند طبیعت برداشت نہیں کرتی تھی وہ چاہتی تھی کہ ایک طریقہ بن جائے جس کے مطابق محبت کی جائے۔ ایک دن اس نے جمال سے کہا۔ آپ مجھ سے یقیناًناراض ہو جاتے ہوں گے کہ میری طرف سے محبت کا جواب تار کے سے اختصار سے ملتا ہے لیکن میں مجبور ہوں میری طبیعت ہی کچھ ایسی ہے آپ کی محبت کی میں قدر کرتی ہوں۔ لیکن پیار مصیبت نہیں بن جانا چاہیے آپ کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ جمال نے بہت خیال رکھا۔ ناپ تول کر بیوی سے محبت کی مگر ناکام رہا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دونوں میں ناچاقی ہو گئی۔ زینت نے بہت سوچا کہ طلاق ہی بہتر صورت ہے جو بد مزگی دُور کرسکتی ہے چنانچہ جمال سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد اُس نے طلاق کے لیے جمال کو کہلوا بھیجا اس نے جواب دیا کہ مر جائے گا مگر طلاق نہیں دے گا۔ وہ اپنی محبت کا گلا ایسے بے رحم طریقے سے گھونٹنا نہیں چاہتا۔ زینت کے لیے جمال کی یہ محبت بہت بڑی مصیبت بن گئی تھی اُس نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت میں پہلے روز جب فریقین حاضر ہوئے تو عجیب تماشا ہوا جمال نے زینت کو دیکھا تو اس کی حالت غیر ہو گئی اُس کے وکیل نے مجسٹریٹ سے درخواست کی سماعت اور کسی تاریخ پر ملتوی کر دی جائے۔ زینت کو بڑی کوفت ہوئی وہ چاہتی تھی کہ جلد کوئی فیصلہ ہو۔ اگلی تاریخ پر جمال حاضر عدالت نہ ہوا۔ کہ وہ بیمار ہے۔ دوسرے مہینے کی تاریخ پر بھی وہ نہ آیا تو زینت نے ایک رقعہ لکھ کر جمال کو بھیجا کہ وہ اُسے پریشان نہ کرے اور جو تاریخ مقرر ہوئی ہے اس پر وہ ٹھیک وقت پر آئے۔ تاریخ سولہ اگست تھی رات سے موسلا دھار بارش ہو رہی تھی زینت حسبِ معمول صبح چھ بجے اٹھی نہا دھو کر کپڑے پہنے اور اپنے وکیل کے ساتھ تانگے میں عدالت پہنچ گئی اُس کو یقین تھا کہ جمال وہاں موجود ہو گا اس لیے کہ اس نے اس کو لکھ بھیجا تھا کہ وقت پر پہنچ جائے۔ مگر جب اُس نے اِدھر اُدھر دنظر دوڑائی اور اسے جمال نظر نہ آیا تو اُس کو بہت غصہ آیا۔ مقدمہ اُس دن سر فہرست تھا۔ مجسٹریٹ نے عدالت میں داخل ہوتے ہی تھوڑی دیر کے بعد جمال اور زینت کو بلایا۔ زینت اندر جانے ہی والی تھی کہ اُس کو جمال کی آواز سنائی دی اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اُس کا چہرہ خون میں لِتھڑا ہوا تھا بالوں میں کیچڑ کپڑوں میں خون کے دھبے لڑکھڑاتا ہوا وہ اس کے پاس آیا اور معذرت بھرے لہجے میں کہا۔ زینت مجھے افسوس ہے۔ میری موٹر سائیکل پھسل گئی اور میں۔ ‘‘ جمال کے ماتھے پر گہرا زخم تھا جس سے خون نکل رہا تھا۔ زینت نے اپنا دوپٹہ پھاڑا اور پٹی بنا کر اس پر باندھ دی اور جمال نے جذبات سے مغلوب ہو کر وہیں عدالت کے باہر اس کا منہ چوم لیا۔ اُس نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ بلکہ وکیل سے کہا کہ وہ طلاق لینا نہیں چاہتی مقدمہ واپس لے لیا جائے۔ ‘‘ جمال دس دن ہسپتال میں رہا۔ اس دوران میں زینت اس کی بڑی محبت سے تیمار داری کرتی رہی آخری دن جب جمال مشین پر اپنا وزن دیکھ رہا تھا تو اس نے زینت سے دبی زُبان سے پوچھا۔ میں اب تم سے کتنی محبت کرسکتا ہوں‘‘ ’’زینت مسکرائی۔ ایک من۔ ‘‘ جمال نے وزن کرنے والی مشین کی سوئی دیکھی اور زینت سے کہا۔ ’’مگر میرا وزن تو ایک من تیس سیر ہے۔ میں یہ فالتو تیس سیر کہاں غائب کروں‘‘ زینت ہنسنے لگی۔ سعادت حسن منٹو
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
مصنفین کے کمروں کا رخ جنوبی - دی ہندو ہے۔
مصنفین کے کمروں کا رخ جنوبی - دی ہندو ہے۔
Tumblr media
چونکہ جنوبی ہند میں زیادہ سے زیادہ ویب شوز سبز روشن کیے جا رہے ہیں ، ہم مضبوط ساختہ پلاٹوں اور میز پر رفتار لانے کی اجتماعی کوشش کو دیکھ کر سست ہو رہے ہیں۔
اگر آپ کا کوئی پسندیدہ امریکی ٹی وی شو ہے تو اس میں شاید مصنفین کا کمرہ ہے۔ جہاں کہانی کی لکیریں پھینک دی جاتی ہیں ، قسطیں بنائی جاتی ہیں ، اور سکرپٹ نکل جاتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں ، اس باہمی تعاون کے ماڈل کی کم اپیل تھی ، کم از کم حال ہی تک۔ جب نیٹ فلکس ، ایمیزون اور ڈزنی+ جیسی عالمی اسٹریمنگ کمپنیاں نیچے آئیں تو وہ اپنے ساتھ مغرب سے انڈسٹری کے معیارات لائے۔ آج ، نہ صرف مصنفین کے کمرے تیزی سے ہندی پروگرامنگ میں ایک اہم مقام بن رہے ہیں ، متعدد سیزن والی ویب سیریز نے ایک مصنف کی ناگزیریت کو بھی اجاگر کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رجحان اب جنوب کی طرف بڑھ رہا ہے ، خاص طور پر تامل اور تیلگو میں اور تیزی سے کناڈا میں۔ وبا ، جس نے جنوبی مواد میں نئی ​​دلچسپی پیدا کی۔
اسٹریمنگ پلیٹ فارم یہ کیسے کرتے ہیں۔
لمبی قسم کی کہانی سنانے کے ساتھ عام طور پر نہ صرف متعدد مصنفین بلکہ ہدایت کار اور سینما گرافر شامل ہوتے ہیں ، اسکرپٹ متحد ، متحرک قوت بن جاتا ہے۔ سٹریمنگ پلیٹ فارمز میں داخلی ٹیمیں ہوتی ہیں جو تعارف کے مناظر ، کلف ہینجرز ، لمبائی ، کردار کی نشوونما ، اور اس طرح کے بارے میں تفصیلی نوٹس کے ساتھ جواب دیتی ہیں۔ وہ مصنفین کے کمرے سے لاگ لائن کی ترقی سے لے کر مکمل پابند اسکرپٹ تک قریب سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایمپائن پرائم ویڈیو ، انڈیا اوریجنلز کی سربراہ اپرنا پروہت کہتی ہیں ، “ہم نے مصنفین کے کمرے کی سختی کو باضابطہ بنانے اور ان کے لیے سختی سے کام کیا ہے۔ [our] پروجیکٹس ، زبانوں اور مواد کے فارمیٹس میں۔ وہ نوٹ کرتی ہیں کہ ، ابھی تک ، ان کے تامل اور تیلگو میں مختلف پروڈکشن ہیں جن میں پروڈکشن ہاؤسز جیسے وال واچر فلمیں (مصنف ہدایت کار پشکر اور گایتری نے قائم کی ہیں) ، اسٹون بنچ (مصنف ہدایتکار کارتک سببرج کی شریک بنیاد ) ، سٹوڈیو شکتی ، اور ٹرینڈ لاؤڈ۔ مشق یہ ہے کہ تخلیق کار کو کہانی کی مخصوص ضروریات کی بنیاد پر اپنے کمروں کو مرتب کرنے کی اجازت دی جائے ، جس کے بعد ایمیزون کے ایک سینئر تخلیقی ایگزیکٹو کی رہنمائی ہوگی۔
اگرچہ یہ تصور نیا نہیں ہے۔ ڈائریکٹر براتھ نیلکانتن کا کہنا ہے کہ مصنفین کے کمرے تامل سنیما کا حصہ تھے ، اگرچہ غیر رسمی طور پر۔ وہ اسے ‘سکرپٹ ڈسکشن’ یا ‘سین’ کہتے تھے۔ sollaruthu‘، جہاں ڈائریکٹر ایک کہانی لکھے گا ، جس کے بعد ایک’ علاج ‘ہوگا جہاں ہر منظر تیار کیا گیا تھا ، “وہ بتاتا ہے۔ ہندو ویک اینڈ۔. کبھی کبھی ، یہاں تک کہ کوئی کہانی بھی نہیں ہوتی ، صرف ایک خیال کا جھونکا۔ جیسا کہ جب تامل نوئیر ڈائریکٹر میسکن اپنے مصنفین کے کمرے میں چلے گئے-گندگی اور بے ترتیبی ، عجیب و غریب سامان سے بھری ہوئی جیسے ڈی وی ڈی ٹیکسی ڈرائیور، ایک ٹوٹا ہوا شاور سر ، اور دیواروں پر سلمان رشدی کی تصویر – صرف ایک مبہم تصور کے ساتھ ، “ایک جاسوس شیطانوں کو جہنم میں لے جاتا ہے ، صرف یہ جاننے کے لیے کہ وہ اصل میں فرشتے ہیں۔” ان کے لکھاریوں کی ٹیم نے اس بیج سے ایک سکرین پلے کو پھاڑ دیا ، جو بالآخر 2011 کی ہٹ بن گئی ، یدھم سی۔.
تو ، آج کیا تبدیل ہوا ہے؟ جنوبی میں رائٹرز کے کمرے معاہدے ، این ڈی اے اور تنخواہوں کے ساتھ رسمی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ پروجیکٹ پر انحصار کرتے ہوئے ، مصنفین ₹ 2 اور ₹ 20 لاکھ کے درمیان کہیں بھی بناتے ہیں (عام طور پر بجٹ کا تقریبا 10 10٪ اسکرپٹ ڈویلپمنٹ کے لیے مخصوص ہوتا ہے)۔ درجہ بندی بھی ٹوٹ رہی ہے۔ جہاں ایک بار صرف ڈائریکٹر بطور مصنف درج ہوتا تھا ، آج اس میں شامل ہر شخص کو کریڈٹ دیا جاتا ہے۔
Tumblr media
اوپر بائیں سے گھڑی کی سمت: رکشیت شیٹی ، سیام پشکرن ، ہیمنتھ راؤ ، بیجوئے نمبیر ، ا��ر براتھ نیلکانتن
نظم و ضبط میں لانا۔
اس فارمیٹ میں – نیٹ فلکس میں استعمال ہوتا ہے۔ مقدس کھیل، جو دو سیزن تک چلتا تھا ، ایمیزون پرائم ویڈیوز۔ پاٹل لوک۔، اب دوسرے سیزن کے لیے تجدید کیا گیا ، اور کئی آنے والے تمل اور تیلگو پروجیکٹس میں – مصنفین ایک ساتھ بیٹھ کر ایک سکرپٹ بناتے ہیں ، قسطیں ، مناظر ، یا کرداروں کے آرک کو آپس میں تقسیم کرتے ہیں ، آخر کار سب کو جوڑنے سے پہلے۔
“زیادہ تر OTT پلیٹ فارم رائٹرز کے کمرے کا انتخاب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تیز ہے۔ اگر وہ مجھے سائن اپ کرتے ہیں ، مثال کے طور پر ، میں کسی پروجیکٹ کو ختم کرنے کے لیے کچھ وقت خرید سکتا ہوں۔ لیکن ایک ٹیم کے ساتھ ، وہ انہیں ایک حتمی تاریخ کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ کناڈا کے مصنف اور ہدایت کار ہیمنت راؤ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ طویل فارم کے مواد کے لیے زیادہ موثر ماڈل ہے۔ “آپ کے پاس ایک شخص ہے جو ٹھوس خیال لے کر آتا ہے ، ہم خیال لوگوں کے ساتھ سوار ہوتا ہے ، اور آدھے وقت میں 10 اقساط لکھتا ہے۔ یہ پورے عمل کو جمہوری بناتا ہے ، اور مزید ملازمتیں پیدا کرتا ہے۔
Tumblr media
رائٹر ڈائریکٹر رکشیت شیٹی (مرکز) اپنی 7 مشکلات لکھنے والی ٹیم کے ساتھ۔
متوازن نقطہ نظر۔
مختلف نقطہ نظر کے ساتھ مختلف مہارت کے سیٹ بھی آتے ہیں۔ لوگوں کو مخصوص صلاحیتوں کے لیے بھرتی کیا جا رہا ہے: کامیڈی ، تحریری مکالمے ، مقامی حوالہ جات ، گہرائی سے موضوعاتی علم۔ مصنف اور ہدایت کار بیجوئے نمبیر ، جنہوں نے گزشتہ سال ایک تجربے کے طور پر مصنفین کا کمرہ شروع کیا ، کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ “ایک کمرے کو اکٹھا کرتے وقت ، آپ کو یہ سوچنا ہوگا کہ اس موضوع کے لیے کون صحیح ہوگا ، آپ کو اس کو مکمل کرنے کے لیے کون سی طاقتیں درکار ہیں۔” وزیر ، تاش۔، اور حال ہی میں ، مختصر۔ ایدھیری۔ منی رتنم کے تیار کردہ انتھولوجی کے لیے ، نوارسا.
انتھولوجی کے لیے لکھنا۔
انتھولوجی آج کل ایک مقبول صنف بن رہی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں ہم نے کیا ہے۔ آنم پینم۔ اور چیراٹھوکل۔ ملیالم میں ، ایڈہم۔ اور پٹھا کتھالو۔ تیلگو میں ، پاوا کدھیگل۔ اور پوتھم پڈھو کالائی۔ تمل میں ، کتھا سنگاما۔ اور پینٹاگون کناڈا میں پیداواری نقطہ نظر سے ، وہ سمجھ میں آتے ہیں۔ وہ شوٹنگ میں تیزی سے ہیں ، آپ کو ستاروں کی ایک بڑی کاسٹ ملتی ہے ، اور مزید اسٹار ڈائریکٹرز پوسٹر شیئر کرتے ہیں۔ “ایک انتھولوجی ایک مائیکرو پروجیکٹ ہے۔ ایک میں ، آپ کو چار ہدایت کاروں ، چار مصنفین ، چار سنیما گرافروں اور چار مختلف قسم کی کہانیوں کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا۔ یہ علاقے کا احساس حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے ، ”راؤ کہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ساتھ ملنے والا معیار-فلم سازوں کو ، خاص طور پر وبائی امراض کے دوران ، کچھ چھوٹا لکھنے اور گولی مارنے اور اسے ایک ساتھ جوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مصنفین کے کمرے استعمال نہیں کرتے ہیں۔ نمبیر کہتے ہیں ، “ایک انتھولوجی عام طور پر ڈائریکٹر یا مصنف پر مبنی ہوتی ہے” نوارسا لیکن انتھولوجیوں کو اب تک ملنے والے بڑے پیمانے پر خفیہ جوابات کے ساتھ ، ہم حیران ہیں کہ کیا مصنفین کے کمرے کا وجود میکرز کو ایک مرکزی کہانی کے ارد گرد کام کرنے پر مجبور کر سکتا ہے ، جیسے کہ ویب سیریز – جو ابتدا میں نروسا کا مقصد تھا ، ویسے بھی.
ایک اور فائدہ تازہ نقطہ نظر ہے جو متعدد آوازوں کے ساتھ لایا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ کناڈا کے مصنف اور ہدایت کار رکشیت شیٹی نے اپنے لکھے ہوئے اسکرپٹ کو پالش کرنے کے لیے 7 مشکلات کا آغاز کیا ، جو کہ آخر کار بن گیا کرک پارٹی۔، 2016 کی کامیاب رومانٹک کامیڈی۔ میرے لیے لکھاریوں کا کمرہ بہت اہم ہے۔ ایک بار اسکرپٹ تیار ہو جانے کے بعد بھی ، اگر یہ ایک شخص نے لکھا ہو ، باقی ان پٹ کے ساتھ آ سکتے ہیں۔ یہ مرکزی مصنف کے لیے ایک نئی جہت کھولتا ہے۔ یہ ایک رائے بھی ہے ، جو اہم ہوسکتی ہے۔ تب سے ، ٹیم نے 2019 فنتاسی ایڈونچر کو مشترکہ طور پر لکھا ، ایوان سری مینارائن۔، اور اب نئے آئیڈیاز پر کام کر رہا ہے۔
تاہم ، فیچر فلموں کے لیے ان رسمی کمروں کو اپنانے میں اب بھی ہچکچاہٹ ہے۔ یہ شاید اس حقیقت سے پیدا ہوتا ہے کہ پروڈکشن ہاؤسز عام طور پر ہدایت کاروں یا فلمی ستاروں (اور ان کے سخت شیڈول) کے ارد گرد فلمیں بناتے ہیں ، جبکہ ویب سیریز – جس میں اسکرپٹ تیار کرنے میں ایک سال لگ سکتا ہے – تحریر کے گرد بنی ہوتی ہے۔ “فلموں کے ساتھ ، اکثر مجبوری ہوتی ہے کہ اسے چھ ماہ کے اندر اندر ختم کیا جائے ، ختم کرنا شروع کیا جائے۔ تو میں تھوڑا سا مزاحمت دیکھ رہا ہوں ، “ابھیناو کستورا کہتے ہیں ، جو موبائل وی او ڈی (ویڈیو آن ڈیمانڈ) سروس وو کلپ کے سابق نگران پروڈیوسر ہیں ، جو اب آزادانہ طور پر کمیشن شدہ تامل ویب شوز تیار کر رہے ہیں۔
معاملے کا دل۔
Tumblr media
پشکر گایتری۔
کیا تامل سنیما کو مصنفین کے کمرے کی ضرورت ہے؟ پشکر کے مطابق ، پشکر-گایتھری رائٹر-ڈائریکٹر ٹیم کا آدھا حصہ (تامل فلموں کے پیچھے جیسے کہ وکرم ویدھا۔ اور اورم پو۔) ، تمام تحریر دل اور پلاٹ کے مابین ہم آہنگی ہے۔ “ایک چیز جس میں تامل سنیما واقعی اچھا ہے وہ اس کا دل کا حصہ ہے – جذبات کی گہرائی ، ذائقہ ، پیدائش۔ لیکن عام طور پر ہمارے پاس بہت زیادہ مصنفین نہیں ہیں جو کہ سازش کرتے ہیں۔ وہ اس وقت دو کافی بڑی تامل ویب سیریز پر کام کر رہے ہیں ، مزید کہتے ہیں ، “ویب سیریز کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آٹھ اقساط اور ممکنہ طور پر مزید سیزن کے لیے ایک مضبوط ساختہ پلاٹ ہو۔ اسے ایک تعمیر ، ایک ہک ، ایک حیرت کی ضرورت ہے۔ ساختی ضروریات جو کہ بہت زیادہ بھاری ہیں۔ اس امتزاج کو حاصل کرنے کے لیے ، ہم سمجھتے ہیں کہ ایک مصنف کا کمرہ کام میں آتا ہے – کچھ دل پر توجہ مرکوز کرتا ہے ، اور کچھ پلاٹ پر توجہ دیتا ہے۔
ملیالم انڈسٹری ، اس دوران ، ابھی تک اس رجحان کو اپنانا باقی ہے۔ تاہم ، انڈسٹری کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ تبدیلی بہت جلد ہے۔ کیرالہ میں لکھنا ایک آزاد ، ذاتی عمل ہے ، تمل ناڈو کے مقابلے میں ایک چھوٹی صنعت ہے ،مہیشینت پرتیکارم۔، مایا ندھی۔، کمبلنگی نائٹس۔، جوجی۔). وہ اکیلے لکھنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ “جب دو یا تین لوگ مل کر کام کر رہے ہوتے ہیں تو کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ وہ ذاتی نقطہ نظر غائب ہے۔ ” لیکن پچھلے چھ سے سات مہینوں میں ، او ٹی ٹی پلیٹ فارمز نے اپنی توجہ ریاست کی طرف مبذول کرائی کیونکہ پان انڈیا کی طرح فلموں کی کامیابی پریمم۔، بنگلور ڈےز۔، اور ڈرشیم۔، وہ نوٹ کرتا ہے کہ ویب سیریز کے لیے کمیشن آرہے ہیں۔ درحقیقت ، اس نے دو ساتھیوں کی خدمات حاصل کی ہیں اور ایک کرائے کے مکان میں رائٹرز کا سٹوڈیو قائم کیا ہے ، تاکہ ایک ویب سیریز اور ایک فلم لکھیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ چھوٹی صنعت کس طرح اپنے کام کرنے کے انداز کو اچانک اسپاٹ لائٹ کے تقاضوں کے مطابق کرے گی اس پر تبصرہ کرنا اب بھی بہت نیا ہے۔
کہانی کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھاریوں کا کمرہ بنانا چاہیے۔ اگر آپ سماجی اقلیت کے بارے میں کچھ کر رہے ہیں تو آپ کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ کمرے میں نمائندگی کریں۔ یہ ہالی وڈ میں بہت عام ہے۔ [2002 drama] تارمثال کے طور پر ، ایک صحافی اور ایک پولیس اہلکار لکھتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ یہ اتنا سچ بجتا ہے۔ کا کہنا ہے کہ پشکر.
“جب آپ لمبے فارمیٹ کی کہانی سنانے میں اس طرح کے سخت جائزہ لینے کے عمل سے گزرتے ہیں ، مختلف مراحل ، مختلف تکرار کے ساتھ ، یہ قدرتی طور پر مصنفین کے کمرے کا مطالبہ کرتا ہے ،” کا کہنا ہے کہ جیندر پنچاپیکسن۔.
Tumblr media
ابھیناو کستورا کے مصنفین کا کمرہ کمیشن شدہ تامل ویب شوز تیار کرنے پر کام کر رہا ہے۔
انا کو چیک میں رکھنا۔
ایک کمرے میں بہت سی آوازوں کے ساتھ ، یہ ضروری ہے کہ بائنڈنگ ویژن ہو۔ جب قائم کردہ ڈائریکٹر اپنے مصنفین کے کمروں کو بلاتے ہیں تو وہ وہ آواز بن جاتے ہیں۔ ایک سٹوڈیو کی ترتیب میں ، تاہم ، ایک شورنر (ہدایت کاری کا تجربہ رکھنے والا کوئی شخص) یا ہیڈ رائٹر کا ظہور اس کردار کو پورا کرتا ہے۔ ہیمنت راؤ کا کہنا ہے کہ “اگر ہمارے مصنفین کے کمرے میں چھ مصنف ہوں تو یہ مؤثر نہیں ہے کہ ہر ایک شو کو مختلف سمت میں لے جانا چاہتا ہے۔”
ایک نمائش کرنے والا فلم یا شو میں ایک مخصوص شخصیت بھی لائے گا۔ مثال کے طور پر ، ڈائریکٹر سدھا کونگارا نوٹ کرتی ہیں کہ وہ کس طرح اپنے مصنفین کے کمرے کو پلاٹ پوائنٹس پر بحث کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ میں سورارائی پوٹرو۔ (2020) ، وہ اس بات پر اصرار کر رہی تھیں کہ سوریہ کا کردار اپنی بیوی سے پیسے لیتا ہے ، باوجود اس کے کہ ہر ایک نے اس پر دوبارہ غور کرنے کو کہا۔ ایک عورت کے نقطہ نظر نے ایک اہم پلاٹ پوائنٹ بنانے میں مدد کی۔
“یہ ناگزیر ہے کہ مصنفین کے کمروں میں جھڑپیں ہوتی ہیں کیونکہ بہت ساری تحریر ساپیکش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس ایک اصول ہے: ہم کبھی بھی ‘آپ کا سکرپٹ’ یا ‘آپ کا کردار’ نہیں کہتے ، “ابھینو کستورا کہتے ہیں۔ “یہ ہمیشہ کیوں ہوتا ہے کہ ‘یہ کردار یہ نہیں کہے گا’۔ یہ الفاظ ایک انا سے بھرے ، انتہائی اتار چڑھاؤ والے کمرے میں اہمیت رکھتے ہیں۔
. Source link
0 notes
diyazee · 4 years
Text
میرے ڈیڈ کی سوزوکی۔ حصہ دوم
میرے ڈیڈ کی سوزوکی دوسرا حصہ
تحریر : کرن خان گنتی کے چند دن اس گاڑی نے چل کر دکھایا اس کے بعد ناز ونخرے دکھانا شروع کردیے جو ابو جی نے بڑے چاو سے اٹھانا شروع کردیے۔۔ہمیں اس سے مزید چڑ ہونے لگی۔۔ ۔نخرے یوں کرتی کہ اچھی بھلی ٹھہراو صبح سٹارٹ ہونے سے جواب دے دیتی۔ بھائی جتنی مرضی کوشش کر لیتا انجن آن ہونے میں نا آتا۔۔ہلکی سی کھی کھی کھی کرکے بند ہوجاتی۔ یہ تلملا کر گاڑی کی شان میں القابات کہتا ابو اسی وقت کہیں سے منظر پر آن نمودار ہوتے بھائی کو گھورتے اور اس سے چابی چھین کر جیسے ہی سٹارٹ کرتے پہلے ہی سلف میں گاڑی فٹ سے سٹارٹ ہوجاتی ۔ابو طنزیہ نظروں سے بھائی کو دیکھتے ” منحوس انسان خود ہو اور کہتے میری گاڑی کو ہو ۔۔؟”
بھائی خون کے گھونٹ بھر کر گاڑی کو دیکھتا ۔ گاڑی غالباً اس کی بے عزتی کروا کر اٹھلاتی ہوئی اونچی اونچی گڑگڑاہٹ میں اپنی خوشی کا اظہار کرتی ۔۔اور بھائی منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے گاڑی لے کے چلا جاتا ۔ یہ نخرہ محترمہ کا روز کا وطیرہ بن گیا ۔کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر آرام سے بند ہوجاتی ۔۔ اور دس پندرہ منٹ کے منت ترلے کے بعد چلتی۔ہمیں اس کی یہ بے غیرتی ایک آنکھ نا بھاتی ۔لیکن دانت پیسنے کے علاوہ کچھ نا کرپاتے.
جب بھی بھائی اچھے موڈ میں ہوتے یا” ویل ڈریسڈ” تو محترمہ کا موڈ یوں بن جاتا کہ اب مجھے دھکا لگاو تو چلوں گی ورنہ میرا جواب سمجھو اور بھائی بچارے دھکا لگا لگا کر زبان باہر نکل آتی جب تھکا تھکا کر مار ڈالتی تب انگڑائی لے کر چل پڑتی ۔
رہ گئے ابو تو وہ اس کے خلاف ایک لفظ بھی سننا پسند نا کرتے تھے اور ہمیشہ اس کے بند ہونے پر سو جواز پیش کرتے جن میں بھائی کو طریقہ نہیں آتا ،خراب موسم ہے گاڑی نازک ہے ،مکینک کا قصور اس نے ٹھیک نا بنائی وغیرہ وغیرہ۔ ۔اس میڈم کو سات خون معاف تھے ابو کی طرف سے ۔ ۔ان کی بے جا حمایت کی وجہ سےگاڑی کی ایسی بد عادات پختہ ہوتی جا رہی تھیں اور ہم دن بدن عاجز ہوتے جا رہے تھے۔
ایک بار تو اس نے یوں حد کی پھاٹک کراس کرتے ہوئے عین ریلوے لائن پر بند ہوگئی ۔گارڈ نے اشارہ کیا کہ جلدی ہٹاو پھاٹک بند کرنا ہے ۔ہمارے ہاتھ پاوں پھول گئے ۔ابو بھی ساتھ نا تھے اسی لیے شاید یہ” ڈائن “ہمیں ٹرین کے نیچے دے کر مارنا چاہتی تھی ۔ اور ہم بہن بھائیوں کو کچھ نا سوجھ رہا کی اس کو سٹارٹ کریں تو کیسے کریں۔میں نے تنگ آکر کہا” گاڑی سے نکلو اور بھاگو۔۔یہ بے حیا ہمیں مارنا چاہتی ہے” اور مجھے پورا یقین تھا جب ہم نکل کر بھاگیں گے یہ اکیلی اپنا کچومر بنوانا افورڈ نہیں کرے گی اور جمپ لگا کر خود ہی پیچھے آجاے گی۔ ۔چھوٹا بھائی بھی اس حرکت پر سخت غصہ اس نے بھی تائید کی کہ ” اس سے جان چھڑانے کا اس سے نادر موقع اور نہیں ملنا ۔آج اس کو ٹرین ٹکڑے ٹکڑے کردے گی اور ہماری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے جان چھوٹ جائے گی “
اس سے پہلے کہ ہم اس کو چھوڑ کر بھاگتے گاڑی پر ہمارے سنگین عزائم اور اپنا بدترین انجام واضح ہوگئے اور فورا سے پیشتر جھرجھری لے کر سٹارٹ ہوگئی اور اسی ڈھٹائی کی امید تھی اس سے ۔ جان بچی سو ہم نے بھی شکر کا سانس لیا ۔
ہمیں اس دن پورا یقین ہوگیا کہ یہ گاڑی نا صرف ہماری باتیں سنتی ہے بلکہ ابو کی ساری اولاد سے بیر بھی باندھ چکی ہے۔ گھر جا کے ہم سب نے رو پیٹ کر اپنے ساتھ ہونے والے حادثے کو مزید ہولناک بنا کر امی کو سمری پیش کردی اور امی جی شدید غصے سے ابو کا انتظار کرنے لگیں۔ جیسے ہی ابو گھر میں داخل ہوئے امی پھٹ پڑیں اور ہم سب نے اپنے چہروں پر مظلومیت سجا لی۔
ابو ساری بات سننے کے بعد تشویش سے بولے ۔۔”میں بنواتا ہوں اسکو کل۔۔” بہن نے ہڑبڑا کر امی کے کان میں سرگوشی کی “نا بنوائیں یہ مصیبت ہمیں نئی لے دیں۔” ۔ امی نے ابو کی طرف رخ کرکے بہن کے ہی انداز میں یہی سرگوشی کی۔۔ابو نے حیرانی سے دیکھا کہ سرگوشی کیوں فورا سمجھ گئے کہ جس طرح پٹی پڑھائی گئی امی نے اسی طرح پڑھ لی آواز بھی چینج نا کی ۔بدمزگی سے بولے ” کیوں کیا خرابی ہے اس میں؟؟” امی نے تنک کر جواب دیا ” خان صاحب یہ آج ہمارے بچوں کی جان لے لیتی اور آپ ابھی بھی اس کا قصور پوچھ رہے ہیں؟؟” ” کمال کرتی ہو بیگم۔۔اللہ بچوں کو سلامت رکھے ۔کوئی کسی کی جان کیسے لے سکتا ہے خدا نا چاہے تو اور ویسے بھی اگر ٹرین نزدیک آجاتی تو یہ نکل کر بھاگ سکتے تھے بیٹھ کر مرنے کو تو کار مجبور نا کرتی نا ۔؟۔۔!”
ہم بہن بھائیوں نے ٹھنڈی آہ بھر کر ایک دوسرے کو دیکھا اور سوچا ” ارادہ تو ہمارا یہی تھا کہ اس کے پرخچے اڑواتے لیکن آپ کی گاڑی نے اپنی جان خود بچائی۔۔
ابو بہرحال اسکو بیچنے پر آمادہ نا ہوے اور ہم دل مسوس کر رہ گئے۔۔ہاں البتہ گاڑی سے مزید تعلقات خراب ہوگئے ۔گاڑی بھی کونسا ہم سے روابط بڑھانا چاہتی تھی ۔۔۔ یہ بھی آئے روز سب کو ڈانٹ پڑواتی ۔آتے جاتے راستے میں جان بوجھ کر کوئی پرزہ اپنے سے الگ کرکے نکال پھینکتی ۔گھر پہنچتے تو پتہ چلتا فلاں چیز گر گئی ۔ابو سب کو مشترکہ ڈانٹتے ۔ہم جتنی مرضی صفائیاں دیتے کہ پرزہ ٹھیک تھا لیکن ابو کے عتاب سے کسی صورت نا بچتے اور ہمارا تماشہ بنوا کر اس محترمہ کو ٹھنڈ پڑ جاتی۔۔دل چاہتا ہاکی بلے اٹھا کر اس کو پیٹ پیٹ کر اس کا دماغ ٹھکانے لگا دیں۔
ایسا ہی سردیوں کا ایک دن ۔۔ابو گھر آئے ایکسائیٹڈ لگ رہے تھے۔۔امی کو پکارا بیگم ۔۔۔بیگم کہاں ہو ۔۔ ہم بھی ابو کا جوش دیکھ کر جمع ہوگئے ۔امی بھی آگئیں استفسار کیا کہ کیا بات ہے۔۔ ۔۔” سامان کچھ پیک کرلو تمہاری ایک خواہش پوری کرنے کا وقت آگیا ہے” ابو چہچہاے ۔
۔۔امی نے حیرانی پلس خوشی سے پوچھا کونسی “‘ ؟ “ بیگم تمہیں برف باری دیکھنے کا بہت شوق ہے نا ۔۔۔؟ ہم نتھیا گلی اور ایوبیہ جا رہے ہیں ابو نے سرپرائز دے ہی دیا “ ۔۔امی بہت خوش ہوئیں اور پوچھ بیٹھی ۔”۔کب ؟کیسے ؟کون کون جائینگیں ؟” ابو نے مسکراتےہوے جواب دیا ۔۔عمران (بیٹا) تم اور میں بس ۔۔کیونکہ باقی بچے تو پڑھ رہے ہیں چھٹیوں میں ہو آے گیں۔
۔بھائی کی خوشی سے باچھیں چر گئیں۔۔لیکن جیسے ہی بات ابو نے مکمل کی صدمے سے مزید چر گئیں۔۔
گنتی کے چند دن اس گاڑی نے چل کر دکھایا اس کے بعد ناز ونخرے دکھانا شروع کردیے جو ابو جی نے بڑے چاو سے اٹھانا شروع کردیے۔۔ہمیں اس سے مزید چڑ ہونے لگی۔۔ ۔نخرے یوں کرتی کہ اچھی بھلی ٹھہراو صبح سٹارٹ ہونے سے جواب دے دیتی۔ بھائی جتنی مرضی کوشش کر لیتا انجن آن ہونے میں نا آتا۔۔ہلکی سی کھی کھی کھی کرکے بند ہوجاتی۔ یہ تلملا کر گاڑی کی شان میں القابات کہتا ابو اسی وقت کہیں سے منظر پر آن نمودار ہوتے بھائی کو گھورتے اور اس سے چابی چھین کر جیسے ہی سٹارٹ کرتے پہلے ہی سلف میں گاڑی فٹ سے سٹارٹ ہوجاتی ۔ابو طنزیہ نظروں سے بھائی کو دیکھتے ” منحوس انسان خود ہو اور کہتے میری گاڑی کو ہو ۔۔؟”
بھائی خون کے گھونٹ بھر کر گاڑی کو دیکھتا ۔ گاڑی غالباً اس کی بے عزتی کروا کر اٹھلاتی ہوئی اونچی اونچی گڑگڑاہٹ میں اپنی خوشی کا اظہار کرتی ۔۔اور بھائی منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے گاڑی لے کے چلا جاتا ۔ یہ نخرہ محترمہ کا روز کا وطیرہ بن گیا ۔کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر آرام سے بند ہوجاتی ۔۔ اور دس پندرہ منٹ کے منت ترلے کے بعد چلتی۔ہمیں اس کی یہ بے غیرتی ایک آنکھ نا بھاتی ۔لیکن دانت پیسنے کے علاوہ کچھ نا کرپاتے.
جب بھی بھائی اچھے موڈ میں ہوتے یا” ویل ڈریسڈ” تو محترمہ کا موڈ یوں بن جاتا کہ اب مجھے دھکا لگاو تو چلوں گی ورنہ میرا جواب سمجھو اور بھائی بچارے دھکا لگا لگا کر زبان باہر نکل آتی جب تھکا تھکا کر مار ڈالتی تب انگڑائی لے کر چل پڑتی ۔
رہ گئے ابو تو وہ اس کے خلاف ایک لفظ بھی سننا پسند نا کرتے تھے اور ہمیشہ اس کے بند ہونے پر سو جواز پیش کرتے جن میں بھائی کو طریقہ نہیں آتا ،خراب موسم ہے گاڑی نازک ہے ،مکینک کا قصور اس نے ٹھیک نا بنائی وغیرہ وغیرہ۔ ۔اس میڈم کو سات خون معاف تھے ابو کی طرف سے ۔ ۔ان کی بے جا حمایت کی وجہ سےگاڑی کی ایسی بد عادات پختہ ہوتی جا رہی تھیں اور ہم دن بدن عاجز ہوتے جا رہے تھے۔
ایک بار تو اس نے یوں حد کی پھاٹک کراس کرتے ہوئے عین ریلوے لائن پر بند ہوگئی ۔گارڈ نے اشارہ کیا کہ جلدی ہٹاو پھاٹک بند کرنا ہے ۔ہمارے ہاتھ پاوں پھول گئے ۔ابو بھی ساتھ نا تھے اسی لیے شاید یہ” ڈائن “ہمیں ٹرین کے نیچے دے کر مارنا چاہتی تھی ۔ اور ہم بہن بھائیوں کو کچھ نا سوجھ رہا کی اس کو سٹارٹ کریں تو کیسے کریں۔میں نے تنگ آکر کہا” گاڑی سے نکلو ��ور بھاگو۔۔یہ بے حیا ہمیں مارنا چاہتی ہے” اور مجھے پورا یقین تھا جب ہم نکل کر بھاگیں گے یہ اکیلی اپنا کچومر بنوانا افورڈ نہیں کرے گی اور جمپ لگا کر خود ہی پیچھے آجاے گی۔ ۔چھوٹا بھائی بھی اس حرکت پر سخت غصہ اس نے بھی تائید کی کہ ” اس سے جان چھڑانے کا اس سے نادر موقع اور نہیں ملنا ۔آج اس کو ٹرین ٹکڑے ٹکڑے کردے گی اور ہماری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے جان چھوٹ جائے گی “
اس سے پہلے کہ ہم اس کو چھوڑ کر بھاگتے گاڑی پر ہمارے سنگین عزائم اور اپنا بدترین انجام واضح ہوگئے اور فورا سے پیشتر جھرجھری لے کر سٹارٹ ہوگئی اور اسی ڈھٹائی کی امید تھی اس سے ۔ جان بچی سو ہم نے بھی شکر کا سانس لیا ۔
ہمیں اس دن پورا یقین ہوگیا کہ یہ گاڑی نا صرف ہماری باتیں سنتی ہے بلکہ ابو کی ساری اولاد سے بیر بھی باندھ چکی ہے۔ گھر جا کے ہم سب نے رو پیٹ کر اپنے ساتھ ہونے والے حادثے کو مزید ہولناک بنا کر امی کو سمری پیش کردی اور امی جی شدید غصے سے ابو کا انتظار کرنے لگیں۔ جیسے ہی ابو گھر میں داخل ہوئے امی پھٹ پڑیں اور ہم سب نے اپنے چہروں پر مظلومیت سجا لی۔
ابو ساری بات سننے کے بعد تشویش سے بولے ۔۔”میں بنواتا ہوں اسکو کل۔۔” بہن نے ہڑبڑا کر امی کے کان میں سرگوشی کی “نا بنوائیں یہ مصیبت ہمیں نئی لے دیں۔” ۔ امی نے ابو کی طرف رخ کرکے بہن کے ہی انداز میں یہی سرگوشی کی۔۔ابو نے حیرانی سے دیکھا کہ سرگوشی کیوں فورا سمجھ گئے کہ جس طرح پٹی پڑھائی گئی امی نے اسی طرح پڑھ لی آواز بھی چینج نا کی ۔بدمزگی سے بولے ” کیوں کیا خرابی ہے اس میں؟؟” امی نے تنک کر جواب دیا ” خان صاحب یہ آج ہمارے بچوں کی جان لے لیتی اور آپ ابھی بھی اس کا قصور پوچھ رہے ہیں؟؟” ” کمال کرتی ہو بیگم۔۔اللہ بچوں کو سلامت رکھے ۔کوئی کسی کی جان کیسے لے سکتا ہے خدا نا چاہے تو اور ویسے بھی اگر ٹرین نزدیک آجاتی تو یہ نکل کر بھاگ سکتے تھے بیٹھ کر مرنے کو تو کار مجبور نا کرتی نا ۔؟۔۔!”
ہم بہن بھائیوں نے ٹھنڈی آہ بھر کر ایک دوسرے کو دیکھا اور سوچا ” ارادہ تو ہمارا یہی تھا کہ اس کے پرخچے اڑواتے لیکن آپ کی گاڑی نے اپنی جان خود بچائی۔۔
ابو بہرحال اسکو بیچنے پر آمادہ نا ہوے اور ہم دل مسوس کر رہ گئے۔۔ہاں البتہ گاڑی سے مزید تعلقات خراب ہوگئے ۔گاڑی بھی کونسا ہم سے روابط بڑھانا چاہتی تھی ۔۔۔ یہ بھی آئے روز سب کو ڈانٹ پڑواتی ۔آتے جاتے راستے میں جان بوجھ کر کوئی پرزہ اپنے سے الگ کرکے نکال پھینکتی ۔گھر پہنچتے تو پتہ چلتا فلاں چیز گر گئی ۔ابو سب کو مشترکہ ڈانٹتے ۔ہم جتنی مرضی صفائیاں دیتے کہ پرزہ ٹھیک تھا لیکن ابو کے عتاب سے کسی صورت نا بچتے اور ہمارا تماشہ بنوا کر اس محترمہ کو ٹھنڈ پڑ جاتی۔۔دل چاہتا ہاکی بلے اٹھا کر اس کو پیٹ پیٹ کر اس کا دماغ ٹھکانے لگا دیں۔
ایسا ہی سردیوں کا ایک دن ۔۔ابو گھر آئے ایکسائیٹڈ لگ رہے تھے۔۔امی کو پکارا بیگم ۔۔۔بیگم کہاں ہو ۔۔ ہم بھی ابو کا جوش دیکھ کر جمع ہوگئے ۔امی بھی آگئیں استفسار کیا کہ کیا بات ہے۔۔ ۔۔” سامان کچھ پیک کرلو تمہاری ایک خواہش پوری کرنے کا وقت آگیا ہے” ابو چہچہاے ۔
۔۔امی نے حیرانی پلس خوشی سے پوچھا کونسی “‘ ؟ “ بیگم تمہیں برف باری دیکھنے کا بہت شوق ہے نا ۔۔۔؟ ہم نتھیا گلی اور ایوبیہ جا رہے ہیں ابو نے سرپرائز دے ہی دیا “ ۔۔امی بہت خوش ہوئیں اور پوچھ بیٹھی ۔”۔کب ؟کیسے ؟کون کون جائینگیں ؟” ابو نے مسکراتےہوے جواب دیا ۔۔عمران (بیٹا) تم اور میں بس ۔۔کیونکہ باقی بچے تو پڑھ رہے ہیں چھٹیوں میں ہو آے گیں۔
۔بھائی کی خوشی سے باچھیں چر گئیں۔۔لیکن جیسے ہی بات ابو نے مکمل کی صدمے سے مزید چر گئیں۔۔”کمال کرتی ہو کیسے جاینگے تو یوں پوچھ رہی ہو جیسے ہماری گاڑی نا ہو۔۔؟ ہم اپنی گاڑی پر جاینگیں بیگم ۔۔۔! ادھر بیگم اور ہم بیک وقت چلائے” کیا ۔۔۔۔۔!اس گاڑی پر”؟؟؟؟ (اگلہ اور آخری حصہ کل)
Philosophy
0 notes
jawadhaider · 5 years
Text
"جیک رسل"
جاوید چوہدری کا انتہائی خوفناک اور فکر انگیز کالم۔
”دنیا پاکستان کو خطرناک سمجھتی ہے‘ آپ جب تک یہ حقیقت نہیں مانیں گے آپ پھنستے چلے جائیں گے۔ فضا میں سگار کی بھینی بھینی خوشبو پھیل رہی تھی‘ وہ ناک اور منہ دونوں سے دھواں اگل رہے تھے‘ مجھے تمباکو کی بو سے الرجی ہے‘ میرا سانس گھٹنا شروع ہو جاتا ہے لیکن میں ان کی گفتگو کی وجہ سے تمباکو اور تمباکو کی بو دونوں برداشت کر رہا تھا‘
*وہ فنانشل ایکسپرٹ تھے‘ والد انڈین تھا اور والدہ امریکن‘ورجینیا میں پیدا ہوئے‘ٹیرر فنانسنگ میں پی ایچ ڈی کی اور عالمی مالیاتی اداروں کے ایڈوائزر بن گئے۔*
مذہبا ً مسلمان تھے‘ میری ان سے ایک دوست کے ذریعے ملاقات ہوئی‘ وہ ملٹی نیشنل کمپنی کی دعوت پر پاکستان آئے تھے‘ میرے دوست نے انہیں اور مجھےکھانے پر بلا لیا‘ ہم ریستوران میں ملے‘ ڈنر کیا اور وہ ٹیرس پر بیٹھ کر سگار پینے لگے اور میں ان کے تجربے سے لطف اندوز ہونے لگا‘ ان کا کہنا تھا
”دنیا پاکستان کو خطرناک سمجھتی ہے‘
*آپ لوگ لانگ رینج میزائل بھی بنا ر ہے ہیں‘*
*"آپ ایٹمی طاقت بھی ہیں*
*مگر آپ معاشی لحاظ سے کمزور ہیں چنانچہ آپ دنیا کےلئے کسی بھی وقت مسئلہ بن سکتے ہیں"*
وہ رکے‘ سگار کا لمبا کش لیا اور بولے *”آپ لوگوں کو دنیا کی اس آبزرویشن کو سیریس لینا ہو گا ورنہ آپ اپنا نقصان کر لیں گے“*
میں خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا‘ وہ بولے
*”معیشت دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے‘ آپ اگر معاشی طور پر طاقتور ہیں تو آپ ایٹم بم بھی رکھ سکتے ہیں اور میزائل بھی بنا سکتے ہیں‘* یہ دونوں چین اور روس کے پاس بھی ہیں لیکن دنیا کو ان سے کوئی خطرہ نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا سمجھتی ہے یہ دونوں ملک معاشی لحاظ سے مستحکم ہیں‘ یہ کبھی اس دنیا کےلئے خطرہ نہیں بنیں گے جو انہیں کما کر دے رہی ہے لیکن پاکستان کمزور ملک ہے‘ یہ زیادہ دیر تک ایٹمی اثاثوں کی حفاظت نہیں کر سکتا‘ یہ رقم کےلئے اپنے اثاثے فروخت بھی کر سکتا ہے اور نفسیاتی دباﺅ میں آ کر ان کو استعمال بھی چنانچہ آپ دنیا کےلئے ناقابل برداشت ہیں۔
*میں آپ کو یہ ایشو ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں‘ فرض کر لیجئے آپ ایک غریب انسان ہیں اورآپ کے پاس ایک نہایت ہی مہلک اور قیمتی رائفل ہے‘ آپ اس رائفل سے کیا کیا کر سکتے ہیں؟ آپ پیسے کمانے کےلئے یہ رائفل فروخت بھی کر سکتے ہیں اور آپ دوسرے کی کنپٹی پر رکھ کر اسے لوٹ بھی سکتے ہیں‘ دنیا کا خیال ہے آپ ایک ایسے ہی بھوکے اور غریب رائفل بردار ہیں اور آپ کسی بھی وقت دونوں میں سے کوئی ایک آپشن اڈاپٹ کر سکتے ہیں“*۔
وہ رکے‘ سگار کا ایک اور کش لیا اور بولے ”آپ کے خلاف یہ تاثر انڈیا نے پھیلایا ہے‘ *بھارتی حکومت نے 1990ءکی دہائی میں بے شمار طالب علموں کو وظائف دے کر امریکا‘ کینیڈا‘ یورپ اور مشرق بعید کے ملکوں میں بھجوایا‘ اعلیٰ اداروں سے ڈگریاں کرائیں اور پھر انہیں عالمی اداروں میں بھرتی کرا دیا‘ یہ لوگ امریکی کانگریس مین اور سینیٹرز کے سٹاف میں بھی شامل ہیں اور یہ میڈیا انڈسٹری اور تھنک ٹینکس میں بھی بیٹھے ہیں‘ یہ لوگ وہاں بیٹھ کر روزآپ کے خلاف خوف پھیلاتے ہیں اور دنیا اس خوف کو سچ مان لیتی ہے۔*
آپ کا ماضی بھی اس سچ کی دلیل بن جاتا ہے‘ دنیا جانتی ہے آپ لوگوں نے تنہا سوویت یونین جیسی طاقت کو توڑ کر پھینک دیا تھا‘ آپ نے اکیلے بھارت جیسی طاقت کو اٹھنے نہیں دیا اور آپ تمام معاشی کمزوریوں کے باوجود جو چاہتے ہیں آپ کر گزرتے ہیں‘ آپ نے جے ایف تھنڈر تک بنا لئے ہیں چنانچہ عالمی پالیسی ساز سمجھتے ہیں آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں“ وہ رکے‘ ایک اور کش لیا اور بولے ”پاکستان کے بارے میں میری سٹڈی ہے عالمی طاقتیں آپ کو جنگ کا موقع نہیں دیں گی۔
یہ سمجھتی ہیں آپ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے ‘ آپ جنگ کا آغاز ہی آخری ہتھیار سے کریں گے اور یہ پوری دنیا کےلئے خطرناک ہو گا چنانچہ یہ آپ کو اس لیول پر نہیں جانے دے گی‘ آپ دو ماہ پیچھے چلے جائیں‘ بھارت نے بالاکوٹ میں سرجیکل سٹرائیک کی‘ پاکستان نے شور کیا لیکن دنیا کا کوئی ملک پاکستان کی مدد کےلئے سامنے نہ آیا‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا اندازہ کرنا چاہتی تھی آپ کس لیول تک ری ایکٹ کر سکتے ہیں‘ آپ نے اگلے ہی دن بھارت کے دو طیارے مار گرائے‘ بھارت نے 27 فروری کی درمیانی رات سرحد پر 9 میزائل نصب کر دیئے‘ آپ نے 14 کر دیئے۔
27 فروری کی رات کولڈ وار کے بعد دنیا کی خطرناک ترین رات تھی‘ ایک چھوٹی سی شرارت پوری دنیا کو تباہ کر سکتی تھی چنانچہ دنیا فوراً متحرک ہوئی اور بڑی مشکل سے آگ ٹھنڈی کی‘ یہ ایک ٹیسٹ تھا‘ اس ٹیسٹ سے پتہ چلا آپ لوگ ہر وقت حتمی جنگ کےلئے تیار رہتے ہیں لہٰذا یہ آپ کو آئندہ کبھی اس سطح تک نہیں جانے دیں گے‘ یہ اب آپ کو میزائل باہر نکالنے کا موقع نہیں دیں گے‘ یہ سرحدوں پر بھی آپ سے چھیڑ چھاڑ نہیں کری�� گے
*‘ عالمی طاقتیں آپ کو معاشی لحاظ سے تباہ کریں گی“* میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔
وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ”آپ میری بات نوٹ کر لیں *‘آئی ایم ایف نے جان بوجھ کر آپ کا پیکج لیٹ کیا‘* یہ اب بھی آپ کو بار بار ترسائے گا‘ یہ ڈالر مزید مہنگا کرائے گا‘ یہ مہنگائی کو بارہ فیصد تک لے جائے گا‘ یہ پٹرول‘ گیس اور بجلی بھی مزید مہنگی کرائے گا ‘ یہ ترقیاتی بجٹ بھی کم کرادے گا ‘یہ بے روزگاری بھی بڑھائے گا‘ یہ ریاست کے ذریعے کالعدم تنظیموں پر بھی اتنا دباﺅ بڑھائے گا کہ یہ حکومت کے خلاف بغاوت کر دیں گی‘ یہ پاکستان کی ایکسپورٹ بھی نہیں بڑھنے دے گا۔
یہ سٹاک ایکسچینج بھی نہیں اٹھنے دے گااور یہ ٹیکسوں میں بھی اضافہ کرا دے گا تاکہ عوام اس معاشی بوجھ تلے آ کر کریش ہو جائیں اور یہ حکومت اور ریاست دونوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں“ میں خاموشی سے سنتا رہا‘
وہ بولے ” اور یہ پاکستان کے خلاف ایک گرینڈ ڈیزائن ہے‘ آپ نے کتوں کی جیک رسل نسل کے بارے میں سنا ہوگا‘ یہ چھوٹے سائز کا خوفناک کتا ہوتا ہے‘ یہ ریچھ کا پیچھا کرتا ہوا اس کے غار میں گھس جاتا ہے‘ یہ سائز میں اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ریچھ اس کو پکڑ نہیں سکتا۔
یہ ریچھ کے پیچھے چھپ کر اس کو اتنا زخمی کر دیتا ہے کہ وہ اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں ہو سکتا‘ جیک رسل مکمل تسلی کے بعد غار سے نکلتا ہے‘ مالک کو اطلاع کرتا ہے اور شکاری غار کے دہانے پر پہنچ کر ریچھ کو گولی مار دیتا ہے
*‘ عالمی مالیاتی ادارے بھی جیک رسل ہوتے ہیں‘* یہ اپنے چھوٹے چھوٹے دانتوں اور جبڑوں سے دیو ہیکل ریچھوں کو زخمی کر دیتے ہیں‘ ریچھ جب اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہتے تو پھر بڑا شکاری آتا ہے اور ریچھ کو گولی مار دیتا ہے۔
آپ نوٹ کر لو آپ کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے
*‘ پاکستان پر جیک رسل چھوڑ دیئے گئے ہیں‘* یہ آپ کو زخمی کر رہے ہیں‘ یہ آپ کو معاشی طور پر اتنا کمزور کر دیں گے کہ آپ میزائل چلانا تو دور آپ انہیں باہر نکالنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے‘ آپ کے پاس سرکاری ملازموں کی تنخواہوں کے پیسے بھی نہیں رہیں گے اور آپ ٹیکس کولیکشن فوج کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور یہ جس دن ہو گیا آپ اس دن اپنے دن گننا شروع کر دینا کیونکہ ٹیکس کولیکشن فوج کی بدنامی کا باعث بن جائے گی۔
لوگوں کے دلوں میں محبت کم ہونا شروع ہو جائے گی اور عالمی ادارے یہی چاہتے ہیں‘ یہ آپ کو معاشی طور پر بھی زخمی کرنا چاہتے ہیں اور یہ عوام کے دل سے محبت بھی کھرچنا چاہتے ہیں اور آپ جس دن اس لیول پر آ گئے یہ آپ کو اس دن بھارت کے قدموں میں بٹھا دیں گے‘ یہ آپ کو بھوٹان اور مالدیپ بنا دیں گے‘ آپ امداد لیتے جائیں گے اور ملک چلاتے جائیں گے اور بس“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں انہیں خوف سے دیکھنے لگا‘ وہ بولے *”پاکستان کا مستقبل کیا ہے‘ یہ فیصلہ چھ ماہ میں ہو جائے گا۔*
آپ کی اکانومی اگر ٹیک آف نہیں کرتی‘ اگر مارکیٹ میں استحکام نہیں آتا تو پھر آپ کو کوئی معجزہ ہی بچا سکے گا‘ آپ گرداب میں پھنس جائیں گے“ وہ سیدھے ہوئے‘ سگار بجھایا‘ ایش ٹرے میں مسلا اور اٹھ کھڑے ہوئے‘ وہ رخصت ہونا چاہتے تھے‘ ہم ریسپشن کی طرف بڑھنے لگے‘ میںنے چلتے چلتے پوچھا ”بچت کا راستہ کیا ہے“ وہ مسکرا کر بولے
*”پاکستان کی بچت کے تین راستے ہیں*
*معیشت‘ معیشت اور معیشت“*
قہقہہ لگایا اور بولے ”عمران خان کو دو مشورے دیں۔
انہیں بتائیں وہ تمام لوگ جو انہیں یہ مشورے دے رہے ہیں تم میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری سے ہاتھ ملا کر اپنا ہاتھ گندہ نہ کرنا‘ وہ وزیراعظم اور ملک دونوں کے دشمن ہیں‘ وہ جیک رسل ہیں‘ یہ ان لوگوں سے فوراً بچ جائیں‘ یہ ملک اور عمران خان دونوں کو تباہ کر دیں گے‘ یہ دشمنوں کے ایجنٹ ہیں‘ ‘وہ بولے
”وزیراعظم کسی شخص کو کوئی رعایت نہ دیں‘ کیس چلتے رہیں لیکن یہ پارلیمنٹ میں جائیں اور آگے بڑھ کر شہباز شریف اور آصف علی زرداری سے ہاتھ ملا لیں‘ پاکستان کی سٹاک ایکسچینج دس ہزار پوائنٹ اوپر چلی جائے گی ۔
ملک بچ جائے گا اور دوسرا احتساب کو اگر سال دو سال موخر بھی کرنا پڑے تو یہ کر گزریں‘ یہ احتسابی عمل کو فریج میں رکھ دیں اور
*عمران خان صرف اور صرف معیشت پر دھیان دیں‘ ملک کو چلنے دیں‘ آپ سب بچ جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں آپ کا پورا ملک انا اور حماقت کی نذر ہو جائے گا‘*
آپ مقدمے چلانے کےلئے بھی قرض لینے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ آئی ایم ایف سے رقم لے کر ججوںاور وکیلوں کو تنخواہ دیں گے اور جیلوں میں بند ملزموں کے کھانے کا بندوبست کریں گے“۔ انہوں نے بات مکمل کی‘ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور رخصت ہو گئے
*لیکن میں کھڑا ہو کر سوچتا رہا‘کیا یہ شخص واقعی سچ کہہ رہا ہے؟ مجھے جواب نہیں ملا‘
شاید آپ کو مل جائے۔
مورخہ 16پریل 2019
0 notes
thebestmealintown · 5 years
Text
میں تمہاری بیوی سے شادی کر ناچاہتاہوں
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ میں رات کومٹر گشت کا عادی ہوں،سڑک چھاپ کہہ لیں یا آوارہ ،یہ عادت کراچی سے ہے۔دفتر سے رات گئے گھر آنا پھر سنسان اور اندھیری راتوںمیں چہل قدمی کرتے کرتے پیالہ ہوٹل پہنچ جانا ،اسی طرح ریاض میں رہتے ہوئے گزشتہ ڈیڑھ سال پہلے تک یہی معمول رہا جس کے بعد میں جدہ منتقل ہوگیا۔
اپنےاسی معمول کے باعث مجھے رات کیتاریکی میں دیار غیر کی سڑکوں پر سناٹے کو اپنا دوست بناتے بہت سے اپنے ملے جو پل پل اپنوں کےلئے جیتے ہیں اور پھر ��ات کا ہر پل اپنوں کےلئے آنسو بہاکر گز��ر دیتے ہیں۔ ریاض میں رہتے ہوئے کافی عرصہ ایسا گزرا جب ہوٹل میں کھانا کھایا کرتا تھا۔ ظاہر ہے پکانا آتا نہیں ، اس
لئے ہوٹل پر ہی اکتفاکرنا پڑتاتھا مگر کھانے کی میز پر تنہا بیٹھتے ہوئے ایک نوالہ بھی حلق سے اتارنا گویا زہر کھانے کے برابر لگتاچنانچہ اپنی میز سے اٹھ کرکسی اورمیز پر تنہا بیٹھے شخص کے پاس پہنچ جاتا۔اپنے کھانے کا آرڈر دینے کیساتھ کہتا”یار ،ہم دونوں مل کر کھانا کھاتے ہیں، باتیں بھی ہوجائیں گی، وقت کٹ جائے گا اور پیٹ بھی بھر جائے گا“میرے اس جملے کا جواب عموماًاچھا ہی ملتاتھا ۔ ایک دن ایک ایسے صاحب سے واسطہ پڑا جو شاید کسی بات پر ناراض تھے۔ میں نے ان کی میز پر جاکر بیٹھتے ہوئے کہا کہ ”انکل چلیں! ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں ،باتیں بھی کریں گے اور پیٹ بھی بھریں گے“وہ صاحببولے”کیوں میاں،چلوچلو،اپنا کھانا منگاؤ اور کھاؤ
آجاتے ہیں مفت خورے کہیں کے“ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ پورا ہوٹل سمجھا کہ واقعی میں ان سے مفت کھانا کھلانے کی درخواست کر رہا ہوں ۔ میں نے وضاحت کی کہ”چاچا،کھانا میں اپنے پیسوں سے منگواؤں گا ،بس آپ کے ساتھ بیٹھوں گا تو وقت کٹ جائے گا“خیر وہ نہیں مانے اور میں اکثر کی طرح اس دن بھی کھانا کھائے بغیر میز سے اٹھ گیا۔رات کو بسکٹ کھائے اور سوگیا۔ دیارغیر میں بھوکے سونا کوئی حیرت کی بات نہیں،اکثر ہی ایسا ہوتا ہے۔ایسی ہی ایک رات کھانا کھانے نکلا تو میز پر بیٹھے ایک نوجوان سے انہی جملوں کے ساتھ تعارف ہوگیا۔ وہ بہت خوش مزاج اور دل کا بڑا نوجوان تھا۔میں یہاں اس کو نوفل کے نام سے متعارف کراؤنگا،نوفل کی عمر یہی کوئی 26, 27سال ہوگی۔ایک دوسرے کے بارے میں باتیں شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ نوفل کی شادی 4سال پہلے ہوئی تھی مگر وہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی ریاض آگیا تھا۔یہاں کے مسائل اور گھریلو ذمہ داریوںکی وجہ سے پھر جانہ سکا۔ہم ہر روزہی رات کو ملاقات کرنے لگے۔
ایک رات کافی دیر سے وہ مجھے سڑک پر ملا۔ ”ارے نوفل اس وقت تم کیسے، کیا صبح کام پر نہیں جانا؟“میں نے اس کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا۔ نہیں مصطفی بھائی ،بڑی مشکل سے چھٹی لگی ہے۔ایک دو دن میں ہی گاؤں جارہا ہوں۔5سال بعد جاؤں گا اور اب جاکر اپنی بیٹی کو دیکھوں گا۔ نوفل مجھے بتا چکاتھا کہ وہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی سعودی عرب آگیاتھاپھر اس کے گھر ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔خیر نوفل ایک دو دن میں گاؤں چلاگیا۔بڑا خوش تھا،اس کا چمکتاچہرا آج بھی یاد آتا ہے تو دل تڑپ اٹھتا ہے۔ نوفل کو گئے ہوئے ایک ماہ ہوگیاتھا ،ایک دن حسب روایت میں ہوٹل میں کھانا کھانے گیا تو نوفل ایک کونے میںمیز پر خاموش اور اداس بیٹھا تھا،شیو بڑھی ہوئی ،بال بکھرے ہوئے اورآنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ”ارے نوفل ،یہ کیا، تم کب آئے“ میں نے میز کے قریب پہنچ کر سوال کیا۔نوفل میری جانب ایسے دیکھنے لگا جیسے وہ او ر میں بالکل اجنبی ہوں ،آج ہی ملاقات ہوئی ہو، پھر چند ہی لمحوں کے بعد نوفل نے میرا ہاتھ ایسے تھاما جیسے ہمارا صدیوں کا تعلق ہو،وہ میرا سگا ہو یا میں ا�� کا سب کچھ ہوں۔میں نے نوفل کے ہاتھ پکڑتے ہوئے سوال کیا کہ
کیا ہوایار، تم تو گاؤں گئے تھے، کب آئے، کیا ہوگیا؟مگر وہ خاموش تھا۔ میں نے کھانا منگوایا ،بڑی مشکل سے اس نے چند لقمے لئے مگر کچھ نہ بولا، ہوٹل بھرا ہواتھا،۔ اس لئے بات کرنا مشکل تھا۔میں نوفل کو لے کرریاض میں حارہ کی سڑک پر نکل آیا۔ہم ایک سڑک کے کونے پر موجودچبوترے پر بیٹھ گئے۔میں نے پھر پوچھا ،اصرار کیا ،دھمکی دی کہ اگر مجھے نہیں بتایا تو میں بھی ملنا چھوڑ دوں گا۔نوفل ایسا لگ رہا تھاجسے گونگا ہوگیا ہو،آنکھیں سوال کررہی تھیں مگر زبان گنگ تھی۔میں نے دیکھا کہ وہ فضاؤں اور آسمانوں میں ہے ،زمین پر تو اسے کچھ نہیں مل رہا۔کافی دیر ایسے ہی گزر گئی اور پھر میں غصے میں اٹھ کر جانے لگا۔ٹھیک ہے جب مجھے کچھ نہیں سمجھتے تو چھوڑو، میں چلاجاتا ہوں۔ اب نوفل اٹھا اور مجھ سے لپٹ گیا،ایسے رونے لگا جسے بچہ بلک بلک کر روتا ہے، نوفل کی ہچکیاں ہی بندنہیں ہورہی تھیں ۔ مصطفی بھائی یہ میںنے کیا کردیا، میرے ساتھ کیاہوگیا،مصطفی بھائی میں نے تو سوچابھی نہ تھا۔ نوفل ہوا کیا ہے یار، بتاؤتوسہی، خیر ہے ناں؟
مصطفی بھائی میری بیوی نے مجھ سے طلاق لے لی، یہ کہہ کر نوفل پھر رونے لگا۔ مصطفی بھائی میرا قصور ہے ،میں نے اس کے ساتھ غلط کیا۔وہ پڑھی لکھی تھی،کوئی دیہاتن نہیں تھی،میں نے غلط کیا۔ آپ جانتے ہیں،میں شادی کے ایک ماہ بعد ہی سعودی عرب آگیا تھا۔میری بیوی روز کہتی کہ تم واپس آجاؤ ،روکھی سوکھی کھا لیں گے مگر ساتھ رہیں گے مگر میں اپنا گھر بنانے کی دھن میں تھا،بس یار اتنا کمالوں کہ گھر بنالوں،ماں کہتی تھیں کہ بہنوںکی شادی کےلئے جمع کرلو۔وقت گزرتا گیا، ۔میری بیٹی بھی پیدا ہوگئی۔ نوفل نے کہا کہ میرے بچپن کا دوست تھا ،ارشد۔ہم دونوں ایک ہی محلے میں پلے بڑے تھے۔میرے گھر میں کوئی بھی کام ہوتا، میں اپنے دوست ارشد کو فون کردیتا کہ تیری بھابھی یہ کہہ رہی تھی، ذرا تو یہ کام کر دے۔یوں اسے میں کسی نہ کسی کام کے لئے اکثر اپنے گھر جانے کا کہتا تھا۔ارشد روزہی گھر چلا جاتا تھا،امی اور بہنیں بھی اسے جانتی تھیں۔میں اگر یہاں سے جانے کاکبھی ارادہ کرتا تو امی مجھے بہنوں کی شادی اور گھر کے مسائل گنوادیتیں اور میں پھر رک جاتا۔ میری بیٹی اب ماشاءاللہ، 4سال کی ہوگئی ہے۔میں اس مرتبہ آزادکشمیر میں اپنے گاؤں گیامگر
وہاں تو سب کچھ ہی بدل چکا تھا۔ میری بیوی میری نہیںرہی،میری بیٹی مجھے پاپا نہیں سمجھتی،مصطفیبھائی میں تو برباد ہوگیا۔ میں نے حوصلہ دیا کہ پوری بات کرو ، پھر کیاہوا؟ اس نے کہا میں گھر گیا تو مجھے پہلے ہی دن محسوس ہوگیا کہ میری بیوی میرے آنے سے خوش نہیں۔میر ی بیٹی تو مجھے جانتی ہی نہیں تھی۔ اس سے صرف فون پر یا اسکائپ پر ہی بات ہوئی تھی۔اگلے دن ارشد آیا تو میری بیٹی پاپا، پاپا کہتے ہوئے اس سے جالپٹی۔ اسے دیکھ کر میری بیوی کے چہر ے پر بھی خوشی نمایاں ہو گئی ۔میں پریشان تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ایک ہفتہ ایسے ہی گزرگیا ۔میں سب کچھ محسوس کرتا رہاپھر میں نے اپنی بیوی سے پوچھاکہ آخر یہ گڑیا میرے پاس کیوں نہیں آتی ،وہ ارشد کی گود میں چلی جاتی ہے، مجھ سے کتراتی ہے؟ بیوی نے کہا :آپ کو میں کہتی رہی کہ آپ آجائیں مگر آپ نے پیسے کمانے کےلئے میری ایک نہ سنی۔آج گڑیا ارشد کو ہی اپنا پاپا سمجھتی ہے کیونکہ ہر موقع پر وہی تو موجودرہا۔اس نے گڑیا کی ہرفرمائش پوری کی۔ نجانے آپ یہ کیوں نہیں سمجھ پائے کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔آج آپ کا دوست ارشد مکمل طور پر ہمارے گھر میں آچکا ہے اور
اسی گھر کا ایک فرد ہوگیا ہے۔ تو کیا مطلب میری کوئی اوقات نہیں؟میں نے سوال کیا تو بیو ی نے کہا کہ ”اس میں میرا قصور نہیں ،آپ شادی کے ایک ماہ بعد ہی چلے گئے تھے۔آج 5سال بعد آئے ہیں۔اس عرصے میں ارشد ہی وہ شخص تھا جس نے ہم ماں بیٹی کا ہر طرح خیال رکھا۔آج ہم دونوں میں ذہنی ہم آہنگی ہے اور ہم ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔ میں یہ سن کر سکتے میںآگیا۔ میں نے کہا کہ تم جانتی ہو تم کیا کہہ رہی ہو؟میں نے چیختے ہوئے پوچھا۔ بیوی نے کہا !ہاںمیں جانتی ہوں مگر میں مجبور ہوں،میں اب آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔میرے دل میں اب آپ کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ارشد بھی یہی چاہتے ہیںآپ مجھےچھوڑ دیںتاکہ ہم نئی زندگی شروع کرسکیں۔میں سیدھا ارشد کے پاس گیا اور پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا، میرے ہی گھر میں ڈاکہ ڈال دیا؟ارشد نے جواب دیا کہ میںنے کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا۔ تم اپنے گھر کی رکھوالی کہاں کررہے تھے، تم تواپنا گھر میرے حوالے کر گئے تھے اورجو رکھوالی کرتا ہے ،وہی گھر کا مالک ہوتا ہے۔میں مجرم ہوں مگر
مجھ سے بڑے مجرم تم ہو۔ تمہاری بیوی ہر عید پر مہندی لگائے اور گجرا سجائے تمہارا انتظار کرتی تھی ۔ میں آتا تو تمہاری بیٹی سے کہتا تھا کہ آپ کی مما اچھی لگ رہی ہیں۔ یہ سن کر گڑیا کی ماں بھی خوش ہوجاتی تھی۔ یونہی وقت گزرتا گیا اور ہماری سوچوں اور خیالات میں یکسانیت پروان چڑھتی رہی ۔ نوفل، اب تم اپنی بیو ی کوچھوڑ دو۔اس معاملے کو اک خوبصورت موڑ دے کر خیر باد کہہ دو۔ میں تمہاری بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، تمہاری بچی بھی مجھے اپنا باپ سمجھتی ہے۔ تمہاری بیوی تمہاری رہی اور نہ تمہاری بیٹی تمہیں پہچانتی ہے۔ تم کرکٹ کے اُس 12ویں کھلاڑی کی مانند ہو جو ٹیم میں ہوتا ہے مگر کھیل کا حصہ نہیں ہوتا۔ ارشد کی باتیں ہتھوڑا بن کر میرے اوپر برس رہی تھیں۔ اس نے کہا مصطفی بھائی!نہایت تلخ رہا یہ سفر میرا۔میری زندگی کی ساتھی کسی اور کی ہم قدم ہوگئی۔زیادہ افسوس یہ ہے کہ میری ماں اور بہنیں جن کے لئے میں نے اتنے برس تنہا گزاردیئے ،جن کی وجہ سے میرا گھر برباد ہورہا تھا، انہیں کوئی افسوس نہیں تھا۔
انہوں نے میری بیوی پر ان گنت الزامات لگادیئے مگر میں جانتا تھاکہ یہ قصور اس کا نہیں ، میرا ہے۔ میرے پاس آج بہت دولت ہے مگر میں حقیقی دولت کھوبیٹھا ہوں۔میں نے ایئرپورٹ سے ہی بیوی کو طلاق نامہ ارسال کر دیا تھا تاکہ وہ ”دلہن“ جو 5سال تک ا پنے پہلے شوہرکی راہ تکتی رہی تھی ، اب اسے مزید انتظار نہ کرنا پڑے اور وہ دوسرے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکے۔یہ کہہ کر نوفل پھر خاموش ہوگیا۔حارہ کی سڑک پر رات کے 2بجے سنسناتی گاڑیاں مجھے خوف زدہ کررہی تھیں۔نوفل کے اندر سے اٹھنے والا شور تنہائی میں مزید اضافہ کررہا تھا۔میرے پاس نوفل کےلئے کوئی الفاظ نہیں تھے۔میں اسے گھر جانے کی تلقین کرتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ اس دن کے بعد نوفل نظر نہیں آیا،پھر کئی ماہ بعد ہوٹل سے ہی معلوم ہوا کہ نوفل اب دنیا میں نہیں رہا۔نجانے اس کہانی میں نوفل قصور وارتھا ، اس کی بیوی گنہگار تھی یا امی اور بہنوں نے اپنی خواہشات کےلئے ایک گھر برباد کردیاتھا۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post میں تمہاری بیوی سے شادی کر ناچاہتاہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2VWChSU via India Pakistan News
0 notes
alltimeoverthinking · 5 years
Text
میں تمہاری بیوی سے شادی کر ناچاہتاہوں
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ میں رات کومٹر گشت کا عادی ہوں،سڑک چھاپ کہہ لیں یا آوارہ ،یہ عادت کراچی سے ہے۔دفتر سے رات گئے گھر آنا پھر سنسان اور اندھیری راتوںمیں چہل قدمی کرتے کرتے پیالہ ہوٹل پہنچ جانا ،اسی طرح ریاض میں رہتے ہوئے گزشتہ ڈیڑھ سال پہلے تک یہی معمول رہا جس کے بعد میں جدہ منتقل ہوگیا۔
اپنےاسی معمول کے باعث مجھے رات کیتاریکی میں دیار غیر کی سڑکوں پر سناٹے کو اپنا دوست بناتے بہت سے اپنے ملے جو پل پل اپنوں کےلئے جیتے ہیں اور پھر رات کا ہر پل اپنوں کےلئے آنسو بہاکر گزار دیتے ہیں۔ ریاض میں رہتے ہوئے کافی عرصہ ایسا گزرا جب ہوٹل میں کھانا کھایا کرتا تھا۔ ظاہر ہے پکانا آتا نہیں ، اس
لئے ہوٹل پر ہی اکتفاکرنا پڑتاتھا مگر کھانے کی میز پر تنہا بیٹھتے ہوئے ایک نوالہ بھی حلق سے اتارنا گویا زہر کھانے کے برابر لگتاچنانچہ اپنی میز سے اٹھ کرکسی اورمیز پر تنہا بیٹھے شخص کے پاس پہنچ جاتا۔اپنے کھانے کا آرڈر دینے کیساتھ کہتا”یار ،ہم دونوں مل کر کھانا کھاتے ہیں، باتیں بھی ہوجائیں گی، وقت کٹ جائے گا اور پیٹ بھی بھر جائے گا“میرے اس جملے کا جواب عموماًاچھا ہی ملتاتھا ۔ ایک دن ایک ایسے صاحب سے واسطہ پڑا جو شاید کسی بات پر ناراض تھے۔ میں نے ان کی میز پر جاکر بیٹھتے ہوئے کہا کہ ”انکل چلیں! ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں ،باتیں بھی کریں گے اور پیٹ بھی بھریں گے“وہ صاحببولے”کیوں میاں،چلوچلو،اپنا کھانا منگاؤ اور کھاؤ
آجاتے ہیں مفت خورے کہیں کے“ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ پورا ہوٹل سمجھا کہ واقعی میں ان سے مفت کھانا کھلانے کی درخواست کر رہا ہوں ۔ میں نے وضاحت کی کہ”چاچا،کھانا میں اپنے پیسوں سے منگواؤں گا ،بس آپ کے ساتھ بیٹھوں گا تو وقت کٹ جائے گا“خیر وہ نہیں مانے اور میں اکثر کی طرح اس دن بھی کھانا کھائے بغیر میز سے اٹھ گیا۔رات کو بسکٹ کھائے اور سوگیا۔ دیارغیر میں بھوکے سونا کوئی حیرت کی بات نہیں،اکثر ہی ایسا ہوتا ہے۔ایسی ہی ایک رات کھانا کھانے نکلا تو میز پر بیٹھے ایک نوجوان سے انہی جملوں کے ساتھ تعارف ہوگیا۔ وہ بہت خوش مزاج اور دل کا بڑا نوجوان تھا۔میں یہاں اس کو نوفل کے نام سے متعارف کراؤنگا،نوفل کی عمر یہی کوئی 26, 27سال ہوگی۔ایک دوسرے کے بارے میں باتیں شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ نوفل کی شادی 4سال پہلے ہوئی تھی مگر وہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی ریاض آگیا تھا۔یہاں کے مسائل اور گھریلو ذمہ داریوںکی وجہ سے پھر جانہ سکا۔ہم ہر روزہی رات کو ملاقات کرنے لگے۔
ایک رات کافی دیر سے وہ مجھے سڑک پر ملا۔ ”ارے نوفل اس وقت تم کیسے، کیا صبح کام پر نہیں جانا؟“میں نے اس کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا۔ نہیں مصطفی بھائی ،بڑی مشکل سے چھٹی لگی ہے۔ایک دو دن میں ہی گاؤں جارہا ہوں۔5سال بعد جاؤں گا اور اب جاکر اپنی بیٹی کو دیکھوں گا۔ نوفل مجھے بتا چکاتھا کہ وہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی سعودی عرب آگیاتھاپھر اس کے گھر ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔خیر نوفل ایک دو دن میں گاؤں چلاگیا۔بڑا خوش تھا،اس کا چمکتاچہرا آج بھی یاد آتا ہے تو دل تڑپ اٹھتا ہے۔ نوفل کو گئے ہوئے ایک ماہ ہوگیاتھا ،ایک دن حسب روایت میں ہوٹل میں کھانا کھانے گیا تو نوفل ایک کونے میںمیز پر خاموش اور اداس بیٹھا تھا،شیو بڑھی ہوئی ،بال بکھرے ہوئے اورآنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ”ارے نوفل ،یہ کیا، تم کب آئے“ میں نے میز کے قریب پہنچ کر سوال کیا۔نوفل میری جانب ایسے دیکھنے لگا جیسے وہ او ر میں بالکل اجنبی ہوں ،آج ہی ملاقات ہوئی ہو، پھر چند ہی لمحوں کے بعد نوفل نے میرا ہاتھ ایسے تھاما جیسے ہمارا صدیوں کا تعلق ہو،وہ میرا سگا ہو یا میں اس کا سب کچھ ہوں۔میں نے نوفل کے ہاتھ پکڑتے ہوئے سوال کیا کہ
کیا ہوایار، تم تو گاؤں گئے تھے، کب آئے، کیا ہوگیا؟مگر وہ خاموش تھا۔ میں نے کھانا منگوایا ،بڑی مشکل سے اس نے چند لقمے لئے مگر کچھ نہ بولا، ہوٹل بھرا ہواتھا،۔ اس لئے بات کرنا مشکل تھا۔میں نوفل کو لے کرریاض میں حارہ کی سڑک پر نکل آیا۔ہم ایک سڑک کے کونے پر موجودچبوترے پر بیٹھ گئے۔میں نے پھر پوچھا ،اصرار کیا ،دھمکی دی کہ اگر مجھے نہیں بتایا تو میں بھی ملنا چھوڑ دوں گا۔نوفل ایسا لگ رہا تھاجسے گونگا ہوگیا ہو،آنکھیں سوال کررہی تھیں مگر زبان گنگ تھی۔میں نے دیکھا کہ وہ فضاؤں اور آسمانوں میں ہے ،زمین پر تو اسے کچھ نہیں مل رہا۔کافی دیر ایسے ہی گزر گئی اور پھر میں غصے میں اٹھ کر جانے لگا۔ٹھیک ہے جب مجھے کچھ نہیں سمجھتے تو چھوڑو، میں چلاجاتا ہوں۔ اب نوفل اٹھا اور مجھ سے لپٹ گیا،ایسے رونے لگا جسے بچہ بلک بلک کر روتا ہے، نوفل کی ہچکیاں ہی بندنہیں ہورہی تھیں ۔ مصطفی بھائی یہ میںنے کیا کردیا، میرے ساتھ کیاہوگیا،مصطفی بھائی میں نے تو سوچابھی نہ تھا۔ نوفل ہوا کیا ہے یار، بتاؤتوسہی، خیر ہے ناں؟
مصطفی بھائی میری بیوی نے مجھ سے طلاق لے لی، یہ کہہ کر نوفل پھر رونے لگا۔ مصطفی بھائی میرا قصور ہے ،میں نے اس کے ساتھ غلط کیا۔وہ پڑھی لکھی تھی،کوئی دیہاتن نہیں تھی،میں نے غلط کیا۔ آپ جانتے ہیں،میں شادی کے ایک ماہ بعد ہی سعودی عرب آگیا تھا۔میری بیوی روز کہتی کہ تم واپس آجاؤ ،روکھی سوکھی کھا لیں گے مگر ساتھ رہیں گے مگر میں اپنا گھر بنانے کی دھن میں تھا،بس یار اتنا کمالوں کہ گھر بنالوں،ماں کہتی تھیں کہ بہنوںکی شادی کےلئے جمع کرلو۔وقت گزرتا گیا، ۔میری بیٹی بھی پیدا ہوگئی۔ نوفل نے کہا کہ میرے بچپن کا دوست تھا ،ارشد۔ہم دونوں ایک ہی محلے میں پلے بڑے تھے۔میرے گھر میں کوئی بھی کام ہوتا، میں اپنے دوست ارشد کو فون کردیتا کہ تیری بھابھی یہ کہہ رہی تھی، ذرا تو یہ کام کر دے۔یوں اسے میں کسی نہ کسی کام کے لئے اکثر اپنے گھر جانے کا کہتا تھا۔ارشد روزہی گھر چلا جاتا تھا،امی اور بہنیں بھی اسے جانتی تھیں۔میں اگر یہاں سے جانے کاکبھی ارادہ کرتا تو امی مجھے بہنوں کی شادی اور گھر کے مسائل گنوادیتیں اور میں پھر رک جاتا۔ میری بیٹی اب ماشاءاللہ، 4سال کی ہوگئی ہے۔میں اس مرتبہ آزادکشمیر میں اپنے گاؤں گیامگر
وہاں تو سب کچھ ہی بدل چکا تھا۔ میری بیوی میری نہیںرہی،میری بیٹی مجھے پاپا نہیں سمجھتی،مصطفیبھائی میں تو برباد ہوگیا۔ میں نے حوصلہ دیا کہ پوری بات کرو ، پھر کیاہوا؟ اس نے کہا میں گھر گیا تو مجھے پہلے ہی دن محسوس ہوگیا کہ میری بیوی میرے آنے سے خوش نہیں۔میر ی بیٹی تو مجھے جانتی ہی نہیں تھی۔ اس سے صرف فون پر یا اسکائپ پر ہی بات ہوئی تھی۔اگلے دن ارشد آیا تو میری بیٹی پاپا، پاپا کہتے ہوئے اس سے جالپٹی۔ اسے دیکھ کر میری بیوی کے چہر ے پر بھی خوشی نمایاں ہو گئی ۔میں پریشان تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ایک ہفتہ ایسے ہی گزرگیا ۔میں سب کچھ محسوس کرتا رہاپھر میں نے اپنی بیوی سے پوچھاکہ آخر یہ گڑیا میرے پاس کیوں نہیں آتی ،وہ ارشد کی گود میں چلی جاتی ہے، مجھ سے کتراتی ہے؟ بیوی نے کہا :آپ کو میں کہتی رہی کہ آپ آجائیں مگر آپ نے پیسے کمانے کےلئے میری ایک نہ سنی۔آج گڑیا ارشد کو ہی اپنا پاپا سمجھتی ہے کیونکہ ہر موقع پر وہی تو موجودرہا۔اس نے گڑیا کی ہرفرمائش پوری کی۔ نجانے آپ یہ کیوں نہیں سمجھ پائے کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔آج آپ کا دوست ارشد مکمل طور پر ہمارے گھر میں آچکا ہے اور
اسی گھر کا ایک فرد ہوگیا ہے۔ تو کیا مطلب میری کوئی اوقات نہیں؟میں نے سوال کیا تو بیو ی نے کہا کہ ”اس میں میرا قصور نہیں ،آپ شادی کے ایک ماہ بعد ہی چلے گئے تھے۔آج 5سال بعد آئے ہیں۔اس عرصے میں ارشد ہی وہ شخص تھا جس نے ہم ماں بیٹی کا ہر طرح خیال رکھا۔آج ہم دونوں میں ذہنی ہم آہنگی ہے اور ہم ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔ میں یہ سن کر سکتے میںآگیا۔ میں نے کہا کہ تم جانتی ہو تم کیا کہہ رہی ہو؟میں نے چیختے ہوئے پوچھا۔ بیوی نے کہا !ہاںمیں جانتی ہوں مگر میں مجبور ہوں،میں اب آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔میرے دل میں اب آپ کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ارشد بھی یہی چاہتے ہیںآپ مجھےچھوڑ دیںتاکہ ہم نئی زندگی شروع کرسکیں۔میں سیدھا ارشد کے پاس گیا اور پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا، میرے ہی گھر میں ڈاکہ ڈال دیا؟ارشد نے جواب دیا کہ میںنے کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا۔ تم اپنے گھر کی رکھوالی کہاں کررہے تھے، تم تواپنا گھر میرے حوالے کر گئے تھے اورجو رکھوالی کرتا ہے ،وہی گھر کا مالک ہوتا ہے۔میں مجرم ہوں مگر
مجھ سے بڑے مجرم تم ہو۔ تمہاری بیوی ہر عید پر مہندی لگائے اور گجرا سجائے تمہارا انتظار کرتی تھی ۔ میں آتا تو تمہاری بیٹی سے کہتا تھا کہ آپ کی مما اچھی لگ رہی ہیں۔ یہ سن کر گڑیا کی ماں بھی خوش ہوجاتی تھی۔ یونہی وقت گزرتا گیا اور ہماری سوچوں اور خیالات میں یکسانیت پروان چڑھتی رہی ۔ نوفل، اب تم اپنی بیو ی کوچھوڑ دو۔اس معاملے کو اک خوبصورت موڑ دے کر خیر باد کہہ دو۔ میں تمہاری بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، تمہاری بچی بھی مجھے اپنا باپ سمجھتی ہے۔ تمہاری بیوی تمہاری رہی اور نہ تمہاری بیٹی تمہیں پہچانتی ہے۔ تم کرکٹ کے اُس 12ویں کھلاڑی کی مانند ہو جو ٹیم میں ہوتا ہے مگر کھیل کا حصہ نہیں ہوتا۔ ارشد کی باتیں ہتھوڑا بن کر میرے اوپر برس رہی تھیں۔ اس نے کہا مصطفی بھائی!نہایت تلخ رہا یہ سفر میرا۔میری زندگی کی ساتھی کسی اور کی ہم قدم ہوگئی۔زیادہ افسوس یہ ہے کہ میری ماں اور بہنیں جن کے لئے میں نے اتنے برس تنہا گزاردیئے ،جن کی وجہ سے میرا گھر برباد ہورہا تھا، انہیں کوئی افسوس نہیں تھا۔
انہوں نے میری بیوی پر ان گنت الزامات لگادیئے مگر میں جانتا تھاکہ یہ قصور اس کا نہیں ، میرا ہے۔ میرے پاس آج بہت دولت ہے مگر میں حقیقی دولت کھوبیٹھا ہوں۔میں نے ایئرپورٹ سے ہی بیوی کو طلاق نامہ ارسال کر دیا تھا تاکہ وہ ”دلہن“ جو 5سال تک ا پنے پہلے شوہرکی راہ تکتی رہی تھی ، اب اسے مزید انتظار نہ کرنا پڑے اور وہ دوسرے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکے۔یہ کہہ کر نوفل پھر خاموش ہوگیا۔حارہ کی سڑک پر رات کے 2بجے سنسناتی گاڑیاں مجھے خوف زدہ کررہی تھیں۔نوفل کے اندر سے اٹھنے والا شور تنہائی میں مزید اضافہ کررہا تھا۔میرے پاس نوفل کےلئے کوئی الفاظ نہیں تھے۔میں اسے گھر جانے کی تلقین کرتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ اس دن کے بعد نوفل نظر نہیں آیا،پھر کئی ماہ بعد ہوٹل سے ہی معلوم ہوا کہ نوفل اب دنیا میں نہیں رہا۔نجانے اس کہانی میں نوفل قصور وارتھا ، اس کی بیوی گنہگار تھی یا امی اور بہنوں نے اپنی خواہشات کےلئے ایک گھر برباد کردیاتھا۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post میں تمہاری بیوی سے شادی کر ناچاہتاہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2VWChSU via Daily Khabrain
0 notes
cleopatrarps · 5 years
Text
میں تمہاری بیوی سے شادی کر ناچاہتاہوں
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ میں رات کومٹر گشت کا عادی ہوں،سڑک چھاپ کہہ لیں یا آوارہ ،یہ عادت کراچی سے ہے۔دفتر سے رات گئے گھر آنا پھر سنسان اور اندھیری راتوںمیں چہل قدمی کرتے کرتے پیالہ ہوٹل پہنچ جانا ،اسی طرح ریاض میں رہتے ہوئے گزشتہ ڈیڑھ سال پہلے تک یہی معمول رہا جس کے بعد میں جدہ منتقل ہوگیا۔
اپنےاسی معمول کے باعث مجھے رات کیتاریکی میں دیار غیر کی سڑکوں پر سناٹے کو اپنا دوست بناتے بہت سے اپنے ملے جو پل پل اپنوں کےلئے جیتے ہیں اور پھر رات کا ہر پل اپنوں کےلئے آنسو بہاکر گزار دیتے ہیں۔ ریاض میں رہتے ہوئے کافی عرصہ ایسا گزرا جب ہوٹل میں کھانا کھایا کرتا تھا۔ ظاہر ہے پکانا آتا نہیں ، اس
لئے ہوٹل پر ہی اکتفاکرنا پڑتاتھا مگر کھانے کی میز پر تنہا بیٹھتے ہوئے ایک نوالہ بھی حلق سے اتارنا گویا زہر کھانے کے برابر لگتاچنانچہ اپنی میز سے اٹھ کرکسی اورمیز پر تنہا بیٹھے شخص کے پاس پہنچ جاتا۔اپنے کھانے کا آرڈر دینے کیساتھ کہتا”یار ،ہم دونوں مل کر کھانا کھاتے ہیں، باتیں بھی ہوجائیں گی، وقت کٹ جائے گا اور پیٹ بھی بھر جائے گا“میرے اس جملے کا جواب عموماًاچھا ہی ملتاتھا ۔ ایک دن ایک ایسے صاحب سے واسطہ پڑا جو شاید کسی بات پر ناراض تھے۔ میں نے ان کی میز پر جاکر بیٹھتے ہوئے کہا کہ ”انکل چلیں! ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں ،باتیں بھی کریں گے اور پیٹ بھی بھریں گے“وہ صاحببولے”کیوں میاں،چلوچلو،اپنا کھانا منگاؤ اور کھاؤ
آجاتے ہیں مفت خورے کہیں کے“ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ پورا ہوٹل سمجھا کہ واقعی میں ان سے مفت کھانا کھلانے کی درخواست کر رہا ہوں ۔ میں نے وضاحت کی کہ”چاچا،کھانا میں اپنے پیسوں سے منگواؤں گا ،بس آپ کے ساتھ بیٹھوں گا تو وقت کٹ جائے گا“خیر وہ نہیں مانے اور میں اکثر کی طرح اس دن بھی کھانا کھائے بغیر میز سے اٹھ گیا۔رات کو بسکٹ کھائے اور سوگیا۔ دیارغیر میں بھوکے سونا کوئی حیرت کی بات نہیں،اکثر ہی ایسا ہوتا ہے۔ایسی ہی ایک رات کھانا کھانے نکلا تو میز پر بیٹھے ایک نوجوان سے انہی جملوں کے ساتھ تعارف ہوگیا۔ وہ بہت خوش مزاج اور دل کا بڑا نوجوان تھا۔میں یہاں اس کو نوفل کے نام سے متعارف کراؤنگا،نوفل کی عمر یہی کوئی 26, 27سال ہوگی۔ایک دوسرے کے بارے میں باتیں شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ نوفل کی شادی 4سال پہلے ہوئی تھی مگر وہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی ریاض آگیا تھا۔یہاں کے مسائل اور گھریلو ذمہ داریوںکی وجہ سے پھر جانہ سکا۔ہم ہر روزہی رات کو ملاقات کرنے لگے۔
ایک رات کافی دیر سے وہ مجھے سڑک پر ملا۔ ”ارے نوفل اس وقت تم کیسے، کیا صبح کام پر نہیں جانا؟“میں نے اس کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا۔ نہیں مصطفی بھائی ،بڑی مشکل سے چھٹی لگی ہے۔ایک دو دن میں ہی گاؤں جارہا ہوں۔5سال بعد جاؤں گا اور اب جاکر اپنی بیٹی کو دیکھوں گا۔ نوفل مجھے بتا چکاتھا کہ وہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی سعودی عرب آگیاتھاپھر اس کے گھر ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔خیر نوفل ایک دو دن میں گاؤں چلاگیا۔بڑا خوش تھا،اس کا چمکتاچہرا آج بھی یاد آتا ہے تو دل تڑپ اٹھتا ہے۔ نوفل کو گئے ہوئے ایک ماہ ہوگیاتھا ،ایک دن حسب روایت میں ہوٹل میں کھانا کھانے گیا تو نوفل ایک کونے میںمیز پر خاموش اور اداس بیٹھا تھا،شیو بڑھی ہوئی ،بال بکھرے ہوئے اورآنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ”ارے نوفل ،یہ کیا، تم کب آئے“ میں نے میز کے قریب پہنچ کر سوال کیا۔نوفل میری جانب ایسے دیکھنے لگا جیسے وہ او ر میں بالکل اجنبی ہوں ،آج ہی ملاقات ہوئی ہو، پھر چند ہی لمحوں کے بعد نوفل نے میرا ہاتھ ایسے تھاما جیسے ہمارا صدیوں کا تعلق ہو،وہ میرا سگا ہو یا میں اس کا سب کچھ ہوں۔میں نے نوفل کے ہاتھ پکڑتے ہوئے سوال کیا کہ
کیا ہوایار، تم تو گاؤں گئے تھے، کب آئے، کیا ہوگیا؟مگر وہ خاموش تھا۔ میں نے کھانا منگوایا ،بڑی مشکل سے اس نے چند لقمے لئے مگر کچھ نہ بولا، ہوٹل بھرا ہواتھا،۔ اس لئے بات کرنا مشکل تھا۔میں نوفل کو لے کرریاض میں حارہ کی سڑک پر نکل آیا۔ہم ایک سڑک کے کونے پر موجودچبوترے پر بیٹھ گئے۔میں نے پھر پوچھا ،اصرار کیا ،دھمکی دی کہ اگر مجھے نہیں بتایا تو میں بھی ملنا چھوڑ دوں گا۔نوفل ایسا لگ رہا تھاجسے گونگا ہوگیا ہو،آنکھیں سوال کررہی تھیں مگر زبان گنگ تھی۔میں نے دیکھا کہ وہ فضاؤں اور آسمانوں میں ہے ،زمین پر تو اسے کچھ نہیں مل رہا۔کافی دیر ایسے ہی گزر گئی اور پھر میں غصے میں اٹھ کر جانے لگا۔ٹھیک ہے جب مجھے کچھ نہیں سمجھتے تو چھوڑو، میں چلاجاتا ہوں۔ اب نوفل اٹھا اور مجھ سے لپٹ گیا،ایسے رونے لگا جسے بچہ بلک بلک کر روتا ہے، نوفل کی ہچکیاں ہی بندنہیں ہورہی تھیں ۔ مصطفی بھائی یہ میںنے کیا کردیا، میرے ساتھ کیاہوگیا،مصطفی بھائی میں نے تو سوچابھی نہ تھا۔ نوفل ہوا کیا ہے یار، بتاؤتوسہی، خیر ہے ناں؟
مصطفی بھائی میری بیوی نے مجھ سے طلاق لے لی، یہ کہہ کر نوفل پھر رونے لگا۔ مصطفی بھائی میرا قصور ہے ،میں نے اس کے ساتھ غلط کیا۔وہ پڑھی لکھی تھی،کوئی دیہاتن نہیں تھی،میں نے غلط کیا۔ آپ جانتے ہیں،میں شادی کے ایک ماہ بعد ہی سعودی عرب آگیا تھا۔میری بیوی روز کہتی کہ تم واپس آجاؤ ،روکھی سوکھی کھا لیں گے مگر ساتھ رہیں گے مگر میں اپنا گھر بنانے کی دھن میں تھا،بس یار اتنا کمالوں کہ گھر بنالوں،ماں کہتی تھیں کہ بہنوںکی شادی کےلئے جمع کرلو۔وقت گزرتا گیا، ۔میری بیٹی بھی پیدا ہوگئی۔ نوفل نے کہا کہ میرے بچپن کا دوست تھا ،ارشد۔ہم دونوں ایک ہی محلے میں پلے بڑے تھے۔میرے گھر میں کوئی بھی کام ہوتا، میں اپنے دوست ارشد کو فون کردیتا کہ تیری بھابھی یہ کہہ رہی تھی، ذرا تو یہ کام کر دے۔یوں اسے میں کسی نہ کسی کام کے لئے اکثر اپنے گھر جانے کا کہتا تھا۔ارشد روزہی گھر چلا جاتا تھا،امی اور بہنیں بھی اسے جانتی تھیں۔میں اگر یہاں سے جانے کاکبھی ارادہ کرتا تو امی مجھے بہنوں کی شادی اور گھر کے مسائل گنوادیتیں اور میں پھر رک جاتا۔ میری بیٹی اب ماشاءاللہ، 4سال کی ہوگئی ہے۔میں اس مرتبہ آزادکشمیر میں اپنے گاؤں گیامگر
وہاں تو سب کچھ ہی بدل چکا تھا۔ میری بیوی میری نہیںرہی،میری بیٹی مجھے پاپا نہیں سمجھتی،مصطفیبھائی میں تو برباد ہوگیا۔ میں نے حوصلہ دیا کہ پوری بات کرو ، پھر کیاہوا؟ اس نے کہا میں گھر گیا تو مجھے پہلے ہی دن محسوس ہوگیا کہ میری بیوی میرے آنے سے خوش نہیں۔میر ی بیٹی تو مجھے جانتی ہی نہیں تھی۔ اس سے صرف فون پر یا اسکائپ پر ہی بات ہوئی تھی۔اگلے دن ارشد آیا تو میری بیٹی پاپا، پاپا کہتے ہوئے اس سے جالپٹی۔ اسے دیکھ کر میری بیوی کے چہر ے پر بھی خوشی نمایاں ہو گئی ۔میں پریشان تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ایک ہفتہ ایسے ہی گزرگیا ۔میں سب کچھ محسوس کرتا رہاپھر میں نے اپنی بیوی سے پوچھاکہ آخر یہ گڑیا میرے پاس کیوں نہیں آتی ،وہ ارشد کی گود میں چلی جاتی ہے، مجھ سے کتراتی ہے؟ بیوی نے کہا :آپ کو میں کہتی رہی کہ آپ آجائیں مگر آپ نے پیسے کمانے کےلئے میری ایک نہ سنی۔آج گڑیا ارشد کو ہی اپنا پاپا سمجھتی ہے کیونکہ ہر موقع پر وہی تو موجودرہا۔اس نے گڑیا کی ہرفرمائش پوری کی۔ نجانے آپ یہ کیوں نہیں سمجھ پائے کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔آج آپ کا دوست ارشد مکمل طور پر ہمارے گھر میں آچکا ہے اور
اسی گھر کا ایک فرد ہوگیا ہے۔ تو کیا مطلب میری کوئی اوقات نہیں؟میں نے سوال کیا تو بیو ی نے کہا کہ ”اس میں میرا قصور نہیں ،آپ شادی کے ایک ماہ بعد ہی چلے گئے تھے۔آج 5سال بعد آئے ہیں۔اس عرصے میں ارشد ہی وہ شخص تھا جس نے ہم ماں بیٹی کا ہر طرح خیال رکھا۔آج ہم دونوں میں ذہنی ہم آہنگی ہے اور ہم ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔ میں یہ سن کر سکتے میںآگیا۔ میں نے کہا کہ تم جانتی ہو تم کیا کہہ رہی ہو؟میں نے چیختے ہوئے پوچھا۔ بیوی نے کہا !ہاںمیں جانتی ہوں مگر میں مجبور ہوں،میں اب آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔میرے دل میں اب آپ کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ارشد بھی یہی چاہتے ہیںآپ مجھےچھوڑ دیںتاکہ ہم نئی زندگی شروع کرسکیں۔میں سیدھا ارشد کے پاس گیا اور پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا، میرے ہی گھر میں ڈاکہ ڈال دیا؟ارشد نے جواب دیا کہ میںنے کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا۔ تم اپنے گھر کی رکھوالی کہاں کررہے تھے، تم تواپنا گھر میرے حوالے کر گئے تھے اورجو رکھوالی کرتا ہے ،وہی گھر کا مالک ہوتا ہے۔میں مجرم ہوں مگر
مجھ سے بڑے مجرم تم ہو۔ تمہاری بیوی ہر عید پر مہندی لگائے اور گجرا سجائے تمہارا انتظار کرتی تھی ۔ میں آتا تو تمہاری بیٹی سے کہتا تھا کہ آپ کی مما اچھی لگ رہی ہیں۔ یہ سن کر گڑیا کی ماں بھی خوش ہوجاتی تھی۔ یونہی وقت گزرتا گیا اور ہماری سوچوں اور خیالات میں یکسانیت پروان چڑھتی رہی ۔ نوفل، اب تم اپنی بیو ی کوچھوڑ دو۔اس معاملے کو اک خوبصورت موڑ دے کر خیر باد کہہ دو۔ میں تمہاری بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، تمہاری بچی بھی مجھے اپنا باپ سمجھتی ہے۔ تمہاری بیوی تمہاری رہی اور نہ تمہاری بیٹی تمہیں پہچانتی ہے۔ تم کرکٹ کے اُس 12ویں کھلاڑی کی مانند ہو جو ٹیم میں ہوتا ہے مگر کھیل کا حصہ نہیں ہوتا۔ ارشد کی باتیں ہتھوڑا بن کر میرے اوپر برس رہی تھیں۔ اس نے کہا مصطفی بھائی!نہایت تلخ رہا یہ سفر میرا۔میری زندگی کی ساتھی کسی اور کی ہم قدم ہوگئی۔زیادہ افسوس یہ ہے کہ میری ماں اور بہنیں جن کے لئے میں نے اتنے برس تنہا گزاردیئے ،جن کی وجہ سے میرا گھر برباد ہورہا تھا، انہیں کوئی افسوس نہیں تھا۔
انہوں نے میری بیوی پر ان گنت الزامات لگادیئے مگر میں جانتا تھاکہ یہ قصور اس کا نہیں ، میرا ہے۔ میرے پاس آج بہت دولت ہے مگر میں حقیقی دولت کھوبیٹھا ہوں۔میں نے ایئرپورٹ سے ہی بیوی کو طلاق نامہ ارسال کر دیا تھا تاکہ وہ ”دلہن“ جو 5سال تک ا پنے پہلے شوہرکی راہ تکتی رہی تھی ، اب اسے مزید انتظار نہ کرنا پڑے اور وہ دوسرے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکے۔یہ کہہ کر نوفل پھر خاموش ہوگیا۔حارہ کی سڑک پر رات کے 2بجے سنسناتی گاڑیاں مجھے خوف زدہ کررہی تھیں۔نوفل کے اندر سے اٹھنے والا شور تنہائی میں مزید اضافہ کررہا تھا۔میرے پاس نوفل کےلئے کوئی الفاظ نہیں تھے۔میں اسے گھر جانے کی تلقین کرتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ اس دن کے بعد نوفل نظر نہیں آیا،پھر کئی ماہ بعد ہوٹل سے ہی معلوم ہوا کہ نوفل اب دنیا میں نہیں رہا۔نجانے اس کہانی میں نوفل قصور وارتھا ، اس کی بیوی گنہگار تھی یا امی اور بہنوں نے اپنی خواہشات کےلئے ایک گھر برباد کردیاتھا۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post میں تمہاری بیوی سے شادی کر ناچاہتاہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2VWChSU via Today Urdu News
0 notes