Tumgik
#فراہم
apnibaattv · 1 year
Text
دماغی صحت کی امداد فراہم کرنے کے لیے حکومت کی کوشش
حکومت نے حال ہی میں لوگوں کے لیے دماغی صحت سے متعلق مدد کی درخواست شروع کی، جو ضرورت مندوں کو مفت میں بنیادی مدد فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ معمولی طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، ایپلی کیشن صارفین کو اس بات پر تشریف لے جانے میں مدد کرتی ہے کہ وہ اس وقت کیسا محسوس کر رہے ہیں اور یہ دریافت کرنے میں مدد کرتا ہے کہ وہ کیا تجربہ کر رہے ہیں اور انہیں کس مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ صارفین اپنے موجودہ احساسات اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
اننت امبانی نے رادھیکا سروس فراہم کرنے والے کے ساتھ منگنی کی۔
اننت امبانی نے رادھیکا سروس فراہم کرنے والے کے ساتھ منگنی کی۔
اننت امبانی کی منگنی: بزنس مین مکیش امبانی کے جوان بیٹے اننت امبانی نے رادھیکا سروس فراہم کرنے والی کمپنی سے منگنی کر لی ہے۔ اننت اور رادھیکا کی منگنی کی تصویر بھی سامنے آئی ہے۔ ہر ایک کو منگنی سے پہلے بہت ساری گھریلو خصوصیات میں اجتماعی طور پر دیکھا گیا ہے۔ ایسے میں پیروکار ہر ایک کی منگنی پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں اور جوڑے کو مبارکباد دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اننت امبانی نے رادھیکا سروس فراہم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
کم آمدن والے30 ہزار افراد کو بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں گے، عبد الماجد خان
کم آمدن والے30 ہزار افراد کو بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں گے، عبد الماجد خان
عبد الماجد خان نے کہا ہے کہ کم آمدن والے30 ہزار افراد کو بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ وزیر خزانہ آزاد کشمیر عبد الماجد خان نے کہا ہے کہ آئی ٹی اور ایم این سی ایچ ملازمین کومستقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کم آمدن والے30 ہزار افراد کو ایک ارب کے بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کا 70 کروڑ، خواتین کا 30 کروڑ کا انٹر پنیور شپ پروگرام شروع کیا جائے گا، آزاد کشمیر میں اسکل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
بارش اور سیلاب متاثرین کو ان کے گھروں میں رہائش فراہم کرنا ترجیح ہے، شرجیل انعام میمن
بارش اور سیلاب متاثرین کو ان کے گھروں میں رہائش فراہم کرنا ترجیح ہے، شرجیل انعام میمن
کراچی (نمائندہ عکس) وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ حکومت سندھ سیلاب متاثرین کے گھروں کی ازسر نو تعمیر میں انکی مدد کرے گی۔ صوبائی وزیر شرجیل میمن نے سندھ میں سیلاب کی صورتحال سے متلعق بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے 5 اضلاع میں قائم 32 ریلیف کیمپوں میں اب 16104 متاثرین موجود ہیں، ان متاثرین کو پکا ہوا کھانا، پینے کا صاف پانی، ادویات اور دیگر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 9 days
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
Tumblr media
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پ��لیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
Tumblr media
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ 
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔ 
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
وہ بدلہ نہیں لیتا، وہ خاموشی سے چلا جاتا ہے، یہ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ جو کچھ وہ دوسروں کو پیش کرتا ہے وہ کوئی اور فراہم نہیں کرے گا، جیسا کہ اسے کوئی پرواہ نہیں، محبت کرتا ہے گویا اس کے پاس سو دل ہیں، اور عام چیزوں میں اضافہ کرتا ہے۔ جادو چھوتا ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہے، ان لوگوں کے ساتھ چھوڑ کر جنہوں نے اسے ناکام بنایا وہ تمام یادیں جن سے وہ آزاد ہوا ہے۔
He does not take revenge, he just leaves quietly, knowing full well that what he offers to others will not be provided by anyone else, as he cares as no one cares, loves as if he had a hundred hearts, and adds to ordinary things magic touches that no one else has, leaving with those who failed him all that Memories he is liberated from.
17 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 2 years
Text
تیری محفل میں ستارے کوئی جگنو لایا
میں وہ پاگل کہ فقط ،آنکھ میں آنسو لایا
جب بھی دنیا میں کسی قصر کی بنیاد پڑی
سنگ کچھ میں نے فراہم کیے ،کچھ تولایا
مجھے اک عمر ہوئی خاک میں تحلیل ہوئے
توکہاں سے مری آنکھیں ،مر ے بازو لایا
4 notes · View notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
یوٹیوب اورٹک ٹاک میں امریکی نوجوانوں کی دلچسپی، فیس بک متروک: سروے
یوٹیوب اورٹک ٹاک میں امریکی نوجوانوں کی دلچسپی، فیس بک متروک: سروے
یوٹیوب اورٹک ٹاک میں امریکی نوجوانوں کی دلچسپی، فیس بک متروک: سروے نیویارک، 12 اگست (آئی این ایس انڈیا)۔ مشہور امریکی تحقیقی ادارے پیور ریسرچ سینٹر کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق امریکی نوجوانوں نے گزشتہ سات سالوں میں فیس بک کا استعمال ترک کر دیا ہے اور وہ ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر وقت گزارنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پیو کی اس سروے رپورٹ کے مصنفین نے لکھا ہے کہ ٹک ٹاک امریکی…
Tumblr media
View On WordPress
2 notes · View notes
pakistantime · 2 years
Text
یہ والا انصاف بھی نہ ملا تو؟
قتل تو خیر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ البتہ شاہ رخ جتوئی چونکہ ایک امیر کبیر اور بااثر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ مقتول شاہ زیب ایک حاضر سروس ڈی ایس پی کا بیٹا تھا۔ لہذا ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے طفیل یہ مقدمہ ابتدا ہی سے ہائی پروفائل بن گیا۔ اور پھر ملزمان کو قواعد و ضوابط کے برخلاف جیل کے اندر اور باہر رہائش و علاج معالجے کی، جو خصوصی سہولتیں فراہم کی گئیں، ان کے سبب بارہ برس کے دوران قتل سے سزائے موت اور سزائے موت کے عمر قید میں بدلنے اور پھر حتمی طور پر بری ہونے تک یہ مقدمہ کبھی بھی میڈیا اور عوامی یادداشت سے محو نہیں ہو سکا۔ عدالتِ عظمی کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر یہ فیصلہ نظامِ انصاف کے جسد پر مزید سوالیہ نیل چھوڑ گیا ہے۔ اتنے سوال کہ تفصیلی فیصلے کا انتظار کیے بغیر ہی ریاست کے نمائندہ اٹارنی جنرل نے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی دائر کر دی۔ یقیناً ملزموں کی بریت کا فیصلہ عدالت کے روبرو پیش کردہ قانونی حقائق کی روشنی میں ہی ہوا ہو گا۔ مگر بقول شیسکپئیر، ”ریاستِ ڈنمارک میں کچھ تو ہے جو گل سڑ چکا ہے‘‘ (ہیملٹ)۔
کہتے ہیں انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ عملاً اس جملے کا پہلا نصف حصہ ہی اس وقت ریاستِ پاکستان پر منطبق ہے۔ مجھ جیسے لاکھوں شہریوں کا جی چاہتا ہے کہ اپنے نظامِ انصاف پر اندھا یقین کر سکیں مگر جب یہ لگنے لگے کہ انصاف اندھا نہیں بھینگا ہے تو اپنے وجود پر بھی اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔ ایسا ملک، جہاں نہ اینگلو سیکسن قانون خالص ہے، نہ ہی شرعی قوانین اپنی روح کے ساتھ نافذ ہیں اور نہ ہی غیر رسمی جرگہ نظام اکسیویں صدی کا ساتھ دے پا رہا ہے۔ وہاں لا اینڈ آرڈر دراصل لیگل انارکی کا مہذب نام محسوس ہوتا ہے۔ اب تو فن ِ قیافہ اس معراج تک پہنچ چکا ہے کہ وارادت کی خبر میں کرداروں کے نام اور سماجی حیثیت دیکھ کے ہی دل گواہی دے دیتا ہے کہ کس مجرم کو زیادہ سے زیادہ کیا سزا ملے گی اور کون سا خونی کردار تمام تر روشن ثبوتوں کے باوجود آنکھوں میں دھول جھونکے بغیر صاف صاف بچ نکلے گا۔
بھلا ایسا کتنے ملکوں میں ہوتا ہو گا کہ دو بھائیوں ( غلام سرور اور غلام قادر ) کی سزائے موت کی توثیق ہائی کورٹ کی سطح پر ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں ان کی جانب سے نظرِ ثانی کی اپیل زیرِ سماعت ہو اور سپریم کورٹ، جب ان ملزموں کو بے گناہ قرار دے دے، تب اس کے علم میں آئے کہ دونوں کو تو چند ماہ پہلے پھانسی دی بھی جا چکی ہے۔ ایسا کہاں کہاں ہوتا ہے کہ ایک چیف جسٹس نظریہِ ضرورت کے تحت اقتدار پر غاصب کا قبضہ قانونی قرار دے دے اور لگ بھگ ساٹھ برس بعد ایک اور چیف جسٹس نظریہِ ضرورت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہمیشہ کے لیے دفن کر دینے کا اعلان کر دے۔ یہ بھلا کس کس ریاست میں ہوتا ہے کہ ایک غریب مقتول کے ورثا ایک طاقت ور قاتل کو ”اللہ کی رضا‘‘ کی خاطر معاف کر دیں۔ تاہم کوئی ایسی مثال ڈھونڈھے سے بھی نہ ملے کہ کسی طاقتور مقتول کے ورثا نے کسی مفلوک الحال قاتل کو بھی کبھی ”اللہ کی رضا‘‘ کے لیے معاف کر دیا ہو۔ 
شاید یہ بھی اسی دنیا میں کہیں نہ کہیں تو ہوتا ہی ہو گا کہ ایک معزول وزیرِ اعظم ( بھٹو ) کو قانون کے مطابق مقدمہ چلا کے پھانسی دے دی جائے مگر پھانسی کے اس فیصلے کو قانونی نظائر کے ریکارڈ میں شامل نہ کیا جائے اور پھر اسی عدالت کا ایک جج وفات سے کچھ عرصہ پہلے یہ اعتراف بھی کر لے کہ ہم پر اس فیصلے کے لیے بہت زیادہ دباؤ تھا۔ اور پھر کوئی بھی آنے والی حکومت تاریخی ریکارڈ کی درستی کے لیے اس مقدمے کے ری ٹرائل کی درخواست دائر کرنے سے بھی ہچکچاتی رہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اعلیٰ عدالت کا کوئی جج آئین کی ایک شق کی تشریح کے فیصلے میں یہ لکھ دے کہ پارٹی صدر کے فیصلے کی پابندی اس پارٹی کے ہر رکنِ اسمبلی پر لازم ہے بصورتِ دیگر وہ اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور پھر وہی جج کچھ عرصے بعد بطور چیف جسٹس اپنے ہی سابقہ فیصلے کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے یہ کہے کہ دراصل پارٹی صدر کے بجائے ارکانِ اسمبلی پارلیمانی لیڈر کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں۔
اور ساتھ ہی یہ رولنگ بھی دے کہ ایک جج سے اگر پہلے فیصلے میں غلطی ہو جائے تو اسی نوعیت کے کسی اور مقدمے میں وہ اپنی سابقہ غلطی کو درست کرنے کا مجاز ہے۔ یہ روزمرہ گفتگو کتنے ملکوں کی زیریں عدالتوں کی غلام گردشوں میں ہوتی ہو گی کہ مہنگا وکیل کرنے کے بجائے ”مناسب جج‘‘ مل جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس وقت پاکستان کی تمام عدالتوں میں بیس لاکھ سے زائد مقدمات سماعت یا فیصلوں کے منتظر ہیں مگر سیاسی نوعیت کے مقدمات ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا زیادہ تر وقت اور شہرت لے اڑتے ہیں۔ اس بحران سے نپٹنے کے لیے یہ تجویز بھی بارہا پیش کی گئی کہ آئینی نوعیت کے مقدمات نمٹانے کے لیے علیحدہ اعلی آئینی عدالت قائم کر دی جائے تاکہ لاکھوں فوجداری مقدمات کی بلا رکاوٹ سماعت ہو سکے۔ مگر یہاں تو روایتی عدالتوں کے ججوں کی آسامیاں کبھی پوری طرح نہیں بھری جا سکیں چے جائیکہ ایک اور اعلی عدالت قائم ہو سکے۔ چنانچہ اب عوامی سطح پر یہ کہہ کے صبر کر لیا جاتا ہے کہ جیسا کیسا ہی انصاف سہی، مل تو رہا ہے، یہ بھی نہ ملا تو کیا کر لو گے؟
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں (اقبال)
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو  
1 note · View note
apnibaattv · 2 years
Text
عالمی بینک سیلاب زدہ علاقوں کے کسانوں کے لیے سندھ حکومت کو 323 ملین ڈالر فراہم کرے گا۔
عالمی بینک سیلاب زدہ علاقوں کے کسانوں کے لیے سندھ حکومت کو 323 ملین ڈالر فراہم کرے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تعلقہ اسپتال ڈوکری کے اچانک دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں۔ – اے پی پی/فائل کراچی: سیلاب سے ہونے والی تباہی کے بعد صوبے میں کسانوں کی حالت زار کو کم کرنے میں مدد کے لیے، حکومت سندھ نے جمعہ کو کہا کہ اسے کھادوں اور تصدیق شدہ بیجوں کے لیے سبسڈی فراہم کرنے کے لیے عالمی بینک سے 323 ملین ڈالر ملیں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ورلڈ بینک کے کنٹری…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
سونم کپور سرخ رنگ کے لباس میں گرمی کا ایک لمس فراہم کرتی ہیں۔
سونم کپور سرخ رنگ کے لباس میں گرمی کا ایک لمس فراہم کرتی ہیں۔
سونم کپور نظر آئیں: سونم کپور بالی ووڈ کی خوبصورت اداکاراؤں کی فہرست میں شامل ہیں۔ سونم کپور کو سٹائل کوئین کہا جا سکتا ہے، جو اپنے فیشن کو لے کر بحثوں میں رہتی ہیں۔ سونم کپور کی تصاویر سوشل میڈیا پر آتے ہی تیزی سے ٹرینڈ ہونے لگتی ہیں اور اب جیسے ہی ایک بار پھر ان کی چند تصاویر منظر عام پر آئی ہیں، جن کے ذریعے اداکارہ کا قاتل اوتار دیکھا جا رہا ہے۔ ان تصاویر کو دیکھ کر سونم کپور سے نظریں ہٹانا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
معاشی طور پر پسماندہ طبقے کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم
معاشی طور پر پسماندہ طبقے کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ معاشی طور پر پسماندہ طبقے کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیراعظم محمد  شہباز شریف سے تخفیف غربت و سماجی تحفظ وزیر شازیہ عطاء مری کی ملاقات ہوئی ہے۔ ملاقات کے دوران موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر گفتگو کی گئی ہے، اس موقع پر شازیہ مری نے وزیر اعظم کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے جاری منصوبوں پر پیش رفت سے آگاہ کیا ہے۔ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے ٹارگٹڈ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
پنجاب میں پرویز الہی اور ان کے صاحبزادے عمران نیازی کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں، لیگی رہنما
پنجاب میں پرویز الہی اور ان کے صاحبزادے عمران نیازی کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں، لیگی رہنما
لاہور(نمائندہ عکس) لیگی رہنماوں نے کہاہے کہ پنجاب میں پرویز الہی اور ان کے صاحبزادے عمران نیازی کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں،پنجاب میں کوئی افسر کام کرنے کو تیار نہیں،صوبے میں ریاست مخالف بیانیہ بنایا جا رہا ہے، سیلاب زدگان کو بھول کر پرویز الہی پیسہ صرف اپنے علاقے میں لگا رہا ہے،عمران خان اب جتنے پالش کر لو اب پالش نہیں چلنی۔سماعت کے بعد گفتگو کرتے ہوئے لیگی رہنما عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ جھوٹا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 4 hours
Text
پنجاب حکومت نے شہریوں کو مفت سولر سسٹم حاصل کرنے کا طریقہ کار بتا دیا
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
Tumblr media
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ 
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ 
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی  یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
"شاید جو ہم نے سوچا تھا وہ کبھی نہیں ہو گا، ایسی کامیابیاں آئیں گی جن میں ہم مایوسی کا مکمل منظر دیکھیں گے، شاید ہماری زندگی اس بہترین کی طرف لوٹ آئے گی جو ہم چاہتے تھے، اور زندگی ہمیں اس کے علاوہ دوسرے مواقع فراہم کرے گی جس نے ہمیں چھوڑ دیا، اور اس کے علاوہ دوسری امیدیں جس نے ہمیں چھوڑ دیا۔"
"Perhaps what we thought would never happen will happen, there will be breakthroughs in which we see the totality of despair, perhaps our lives will return to the best we wanted, and life will give us other opportunities than the one that left us, and other hopes than the one that left us."
9 notes · View notes