Tumgik
#تخت کے کھیل
westeroswisdom · 1 month
Text
Tumblr media
The expression "bend the knee" certainly existed long before ASoIaF. But since the first book was published on 06 August 1996 its use in English has soared.
Google Books Ngram Viewer, of course, only covers books. So there was a dip after the publication of A Dance of Dragons in 2011. Though because of the HBO series the expression has entered the general lexicon and is being used by people who've neither read ASoIaF nor seen GoT. So as of 2019, the current end date of Ngram searching, it was moderately trending upwards again.
The mass worldwide web, at least Net 1.0, began around 1995. That's slightly before the time A Game of Thrones was published. So there's not much data prior to its publication to compare online use of "bend the knee" before its release and after. But use of the phrase is now extremely common – particularly in political discussions. Mainstream legit news media use it unselfconsciously.
It seems to be used particularly often in connection with a certain US political figure.
Tumblr media
However, with several criminal cases facing him this year, another GoT phrase may apply to him: Winter is Coming for Donald Trump.
23 notes · View notes
blog-brilliant · 2 years
Text
گیم آف تھرونز، تخت کے کھیل ... (راؤ کامران علی، ایم ڈی)
گیم آف تھرونز، تخت کے کھیل … (راؤ کامران علی، ایم ڈی)
تحریر: راؤ کامران علی، ایم ڈی گیم آف تھرونز مشہور ڈرامہ سیریز ہے جس کا ایک کردار رمزے بولٹن ہے۔ رمزے نے خونخوار کتوں کو ایسی ٹریننگ دی کی وہ زندہ انسانوں کا گوشت اسکے اشارے پر نوچ ڈالتے۔ رمزے ظلم اور بربریت کی زندہ مثال تھا جس نے اپنی بیوی پر بے انتہا ظلم ڈھائے اور دیگر پر سفاکی کی انتہا کردی۔ آخرکار اسکی بیوی سانسہ سٹارک نے فتح حاصل کرکے اسے انھی کتوں کے آگے ڈال دیا۔ رمزے کہتا ہے کہ یہ میرے کتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 4 years
Text
سندھ، پنجاب، بلوچستان کے نوجوان یکجا تھے
شیخ رشید دردمند مائوں، بہنوں، بزرگوں، بھائیوں کی نظروں میں ہمیشہ کے لیے گر گئے۔ سینکڑوں خاندانوں کی آہ و فغاں ہم وطنوں کی جانیں آگ کی نذر ہو گئیں۔ انہوں نے ذمہ داری قبول کر کے استعفیٰ دے کر تاریخ میں امر ہونے کا موقع گنوا دیا۔ یہ کرسی انسانوں کو اتنا سفاک اور شقی القلب کیسے بنا دیتی ہے۔ عمران خان اپنے ہی اقوال زریں فراموش کر کے بیٹھے ہیں۔ اپنے وزیر ریلوے کو برطرف کرنے کی جرأت نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عوامی المیوں میں ایک اور گہرے اندوہ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ کوئی احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلا۔ کسی نے اپنی سیاسی سرگرمی روک کر سوگوار خاندانوں کا دُکھ نہیں بانٹا۔ سوشل میڈیا کے بقراط گھر بیٹھے حادثے کے اسباب تلاش کر کے موبائل فونوں کی اسکرینیں سیاہ کر کے اس المناک واقعے کی حساسیت زائل کرتے رہے۔ آفریں ہے جنوبی پنجاب کے ان نوجوانوں پر جو یہ آگ بجھانے نکلے۔ جنہوں نے زخمیوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا۔
انسانیت کی اعلیٰ اقدار سیاسی تماشوں کی چوکھٹ پر واری جا رہی ہیں۔ حکمراں لاشوں پر تخت نشینی کے خمار میں ہیں۔ اختلافات، تعصبات سر اٹھا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کی اطلاعاتی ٹیکنالوجی میں بھی پندرہویں، سولہویں صدیاں گھس کر پانی پت کی جنگیں دوبارہ کروا رہی ہیں۔ میرے آس پاس میرے ہم عصر درخت سوکھ کر گر رہے ہیں۔ بہت سے کاٹے جا رہے ہیں۔ اکیلے پن کا احساس بڑھ رہا ہے۔ لیکن کہیں کہیں جب نوجوانوں کے چمکتے چہرے، دمکتی پیشانیاں دیکھتا ہوں۔ بچوں کو اسکول جاتے۔ جوانوں کو جامعات کی طرف لپکتے تو میری شاخیں پھر سے ہری ہو جاتی ہیں۔ آئی بی اے کے ساتھ ہی ذہن میں ڈاکٹر عبدالوہاب کا مشفق چہرہ، مہرباں آنکھیں ابھرنے لگتی ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین یاد آتے ہیں۔ جن کے دَور میں کتنے جدید بلاکوں کا اضافہ ہوا۔ 
ہال پاکستان بھر کے نوجوانوں سے معمور ہے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب کے طلبا و طالبات اپنے روایتی پہناوئوں اور زیورات سے توجہ مبذول کروا رہے ہیں۔ یہ میرا اور آپ کا مستقبل ہیں۔ شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور کی دو بہنوں نے اپنے ثقافتی رنگ برنگ لباس اور معصوم گفتگو سے سامعین اور ناظرین کے دل موہ لیے ہیں۔ آج اتوار ہے۔ میں تو برسوں سے آپ کو یاد دلا رہا ہوں کہ آج کا دن اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے ساتھ گزارنا ہے۔ ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جواب دینا ہیں۔ یہاں اس ہال میں بھی یہ بات ہو رہی تھی کہ نوجوانوں کے پاس سوالات کی ایک طویل فہرست ہے۔ والدین ٹال دیتے ہیں۔ اساتذہ سوالات کی روح سمجھتے ہیں لیکن جواب دیتے وقت نوکری، ترقی، گریڈ حائل ہو جاتے ہیں۔ 
سندھ کی ایک بیٹی بے خوفی کا مظاہرہ کر کے پوچھ رہی ہے کہ ہمیں نصاب میں ایسی فرسودہ کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں جو حقیقت سے بہت دور ہیں۔ جن میں بتائے گئے ہیروز انسانیت کی اعلیٰ اقدار پر پورے نہیں اترتے۔ ایسے مطالعے کے بعد ہم معاشرے کو آگے کیسے لے جا سکتے ہیں۔ مظہر عباس اور ڈاکٹر توصیف احمد خان سوال کو لائق تحسین قرار دے رہے ہیں۔ پنجاب کی ایک طالبہ کا سوال ہے کہ کھیل میں بھی سیاست کیوں گھس آتی ہے۔ کرکٹ اگر بھارت کا کوئی کھلاڑی اچھی کھیل رہا ہے تو اس کی تعریف غداری کیوں کہلاتی ہے۔ میڈیا کے مقتولین کا ذکر آتا ہے کہ اختلاف کی جرأت پر صحافی مار کیوں دیے جاتے ہیں۔ ان کے قاتل پکڑے کیوں نہیں جاتے۔ ہم ابلاغ کے طالب علم اب میڈیا میں آئیں کہ نہیں۔
یہ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کنونشن ہے۔ میں پہلی بار شرکت کر رہا ہوں۔ اغراض و مقاصد سے بے خبر ہوں لیکن میں خود ہی لورا لائی کے دورے کے بعد لکھ چکا ہوں کہ بلوچستان، سندھ، پنجاب، کے پی، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو آپس میں ملنے دیں۔ یہ ایک دوسرے سے مل بیٹھیں گے۔ ایک دوسرے کے درد سے آگاہ ہوں گے۔ تب ہی ہم ایک قوم بن سکیں گے۔ آج میں یہی منظر دیکھ رہا ہوں۔ اس لیے خوش ہوں کہ جس تنظیم نے بھی یہ اہتمام کیا ہے، وہ لائق تعریف ہے۔ لیکن مجھے ایک قلق ہوتا ہے کہ ایسی کوششوں کو مستحکم کرنے کے لیے بعد میں اقدامات نہیں کیے جاتے۔ آج کی اصطلاح میں فالو اپ نہیں ہوتا ہے۔ ایسے کنونشن لاہور اور اسلام آباد میں ہو چکے ہیں۔ ان کے بعد کیا شریک طلبا و طالبات آپس میں رابطہ رکھتے ہیں۔ اب تو رابطے کی ٹیکنالوجی بہت تیز رفتار اور وسعت پذیر ہو چکی ہے۔ کیا ان کے گروپس سوشل میڈیا پر ہیں۔ کیا پرنٹ میں وہ آپس میں مربوط ہیں۔
پاکستانی نیشنلزم، پاکستانیت آج کا تقاضا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اب تک پاکستان نہیں بن پائے۔ یہ نوجوان جو ابھی زیر تعلیم ہیں۔ میٹھا پانی ہیں۔ ہمارا معاشرہ کھارے پانی کا سمندر ہے۔ یہ میٹھا پانی سمندر میں مل کر ضائع ہو رہا ہے۔ اسے بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم بزرگ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ نوجوان ہم سے بہت آگے ہیں۔ مجھے تو ڈائس پر آکر اپنی تقریر پڑھنے کی عادت ہے مگر جدید طریقہ بیٹھ کر بحث کرنے کا ہے۔ ہمارے ساتھ حمنہ بیٹھی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کی گہرائیاں اور توانائیاں بہت اچھے طریقے سے بتا رہی ہیں۔ میں کچھ نئی باتیں سیکھ رہا ہوں۔ 18 ویں ترمیم نے صوبوں کو بااختیار کیا ہے۔ لیکن تربیت نہیں دی۔ اس لیے صوبائی خود مختاری کی بجائے صوبائی تعصبات سر اٹھا رہے ہیں۔ ایسے کنونشن ان تعصبات کو دور کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کو آگے آنا چاہئے۔ وہ بین الصوبائی مقابلے، ثقافتی شو کریں، طلبا و طالبات کو زیادہ تفصیل سے باتیں کرنے دیں۔
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
breakpoints · 2 years
Text
گہرا، طاقتور، ضعف: مارٹن 'پیار' ہاؤس آف ڈریگن | ایکسپریس ٹریبیون
گہرا، طاقتور، ضعف: مارٹن ‘پیار’ ہاؤس آف ڈریگن | ایکسپریس ٹریبیون
معروف مصنف جارج آر آر مارٹن اپنے مقبول ناول اے سانگ آف آئس اینڈ فائر کے آنے والے پریکوئل کی تعریف کر رہے ہیں۔ مارٹن نے شیئر کیا کہ اس نے کسی نہ کسی طرح کا کٹ دیکھا ہے۔ تخت کے کھیل اسپن آف سیریز ہاؤس آف ڈریگن اور “اس سے پیار کیا”، جیسا کہ اس نے کہا کہ “Targaryens بہت اچھے ہاتھوں میں ہیں”۔ 73 سالہ مصنف نے لکھا برف اور آگ کا گانا کتابوں کی سیریز جس پر HBO فنتاسی ڈرامہ مبنی تھا، اور اب اس نے آنے والی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
informationtv · 3 years
Text
مکّھی کو کیوں پیدا کیا گیا؟
مکّھی کو کیوں پیدا کیا گیا؟
خراسان کا بادشاہ شکار کھیل کرواپس آنے کے بعد تخت پر بیٹھا تھا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں۔ بادشاہ کے پاس ایک غلام ہاتھ باندھے مودب انداز میں کھڑا تھا۔بادشاہ کو سخت نیند آرہی تھی، مگر جب بھی اس کی آنکھیں بند ہوتیں تو ایک مکھی آ کر اس کی ناک پر بیٹھ جاتی تھی اور نیند اور بے خیالی کی وجہ سے بادشاہ غصے سے مکھی کو مارنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اس کا ہاتھ اپنے ہی چہرے پر پڑتا تھا اور وہ…
View On WordPress
0 notes
urdunewspost · 4 years
Text
'گیم آف تھرون' کے ستارے کٹ ہارنگٹن ، روز لیسلی نے حمل کا اعلان کیا
‘گیم آف تھرون’ کے ستارے کٹ ہارنگٹن ، روز لیسلی نے حمل کا اعلان کیا
Tumblr media
‘گیم آف تھرون’ کے ستارے کٹ ہارنگٹن ، روز لیسلی نے حمل کا اعلان کیا
اداکار کٹ ہارنگٹن اور روز لیسلی اپنے پہلے بچے سے حاملہ ہیں اور جلد ہی والدین بننے کے لئے تیار ہیں۔
اس خبر کا اعلان لیسلی نے تازہ ترین ایڈیشن میں کیا یوکے میگزین جس میں اس نے اپنے بڑھتے ہوئے بچے کو ٹکرانا شروع کیا۔
تخت کے کھیل اسٹارلیٹ نے خوشی کے اس چھوٹے سے بنڈل کے بارے میں زیادہ انکشاف نہیں کیا ، لیکن انہوں نے اس پر بات کی…
View On WordPress
0 notes
diyazee · 4 years
Text
ٹیلی پورٹیشن یا ٹائم ٹریول دلچسپ حقائق۔۔۔ پہلا حصہ
ٹیلی پورٹیشن یا ٹائم ٹریول دلچسپ حقائق
پہلا حصہ
Tumblr media
تحریر: کرن خان
مذکورہ بالا ٹاپک کو میرا موسٹ فیورٹ ٹاپک کہا جاے تو غلط نا ہوگا ۔ ٹیلی پورٹیشن کے حوالے سے کی جانے والی ہر تحقیق پر میری نظر ہوتی ہے۔۔سچ پوچھیں تو کئی بار خوشی بھی ہوتی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کے اس دور میں جی رہے ہیں جب خدا کی ذات کو سمجھنے میں آسانی ہورہی ہے ۔اس ذات کی عظمت دانائی اور سپر ئیر انٹیلیجنس بہترین انداز میں واضح ہو رہی ہے۔۔ ہمارا ایمان بالغیب عقیدے تک محدود نہیں رہ رہا۔ خدا کی نشانیاں کھل کھل کر یوں سامنے آرہی ہیں کہ بے اختیار اس ذات باری تعالے کے آگے تعظیماً احتراماً اور عاجزی سے سر بسجود ہوجاتے ہیں۔
۔اور اس بات پر میں ساینس کی ایک طرح سے شکر گزار بھی ہوتی ہوں جو میرے اللہ کی کاینات کو سمجھانے میں کچھ اس طرح مدد دے رہی ہے کہ میرے ایمان مزید پختہ ہورہا ہے ۔۔کیوں کہ سوچنے سمجھنے غور کرنے اور بالآخر ماننے کے بعد آپ ایمان کی جس حالت میں داخل ہوتے ہیں وہ صرف عقیدہ نہیں رہ جاتا وہاں سے اصل ایمان شروع ہوجاتا ہے ۔
۔خیر موضوع پر پلٹتے ہیں۔۔ٹایم ٹریول یا ٹیلی پورٹیشن بلاشبہ اس کا کانسیپٹ مذہبی یا الہامی کتابوں سے ہی لیا گیا۔۔ہر مذہب میں ٹایم ٹریول کے واقعات پڑھنے کو ملے۔ سب سے زیادہ واقعات ہمارے مذہب میں ملے ۔۔ہم جب بڑی عقیدت سے بتاتے کہ ٹائم ٹریول سب سے بڑا ثبوت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی صورت میں ملا تو شروع شروع میں اس بات کو جٹھلایا گیا کہ ایسا ممکن نہیں یہ بس نعوذباللہ الہامی کتابوں کی اختراع ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہماری کتاب میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جن میں ٹایم ٹریول کی طرف کھلا اشارہ تھا ۔۔۔لہذا ہم میں سے کچھ لوگ چپ ہو جاتے دل میں دعا کرتے کہ ان کو اللہ میاں لاجواب کیوں نہیں کرتا ۔؟ ہم میں سے کچھ البتہ معجزے کو معجزہ ہی سمجھ کر یقین پر کوئی آنچ نا آنے دیتے ۔
۔لیکن نا ہم جانتے تھے نا ہی یہ لوگ جانتے تھے کہ خدا ان کے منہ سے ہی اعتراف کرائے گا اور اعتراف بھی ایسا مضبوط اور بہترین ثبوتوں کے ساتھ( کیونکہ پیرالل یونیورس اور سٹرنگ تھیوری اب تک کی سب سے بہترین ویل ڈیفائن تھیوریز ہیں ) کہ رد کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔۔ان میں سے کافی لوگ ایمان لے آئے اور باقی بھی دل سے تو راضی ہونگیں بس ابو جہل والی ضد بچی ہوگی ۔
۔۔اور پھر ہم نے دیکھا کہ یہی لوگ تھے جنہوں نے ٹائم ٹریول اور ٹیلی پورٹیشن پر کام شروع کیا ۔ساتھ ہی ان کو قدرت کی طرف سے بھی اشارے ملتے گئے ان کا انٹرسٹ بھی بڑھتا گیا ۔ قدرت نے ان کا انٹرسٹ کچھ اس انداز میں بحال رکھا کہ گویا صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔یہ ایسا بہترین کام کرتے گئے کہ آج کوانٹم میکنکس کی فیلڈ میں داخل ہونے پر ان کی عقلیں دنگ رہ گئیں ہیں۔ کاینات کو دیکھنے کا زاویہ ٹوٹلی بدل گیا ہے ۔ ناصرف ٹیلی پورٹیشن کو مان رہے بلکہ ٹایم ٹریول ایک سے زیادہ کایناتیں اور سپر پوزیشن تک ماننے پر مجبور ہوگئے۔۔ اور انہوں نے ثابت کردیا کہ ہاں بھئی تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج ہم سے بہتر کون سمجھے گا اب۔
ٹیلی پورٹیشن اور ٹائم ٹریول پر ان کو جب شواہد ملنا شروع ہوے تو ظاہری بات ہے انہوں نے تجربات بھی ہر صورت کرنے تھے ۔۔ پہلا واقعہ فلاڈیلفیا ایکسپیریمنٹ کے نام سے مشہور ہے۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے اکتوبر 1943 دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر سے تنگ اتحادی مل کر کوئی حل تلاش کرنے لگے کہ کس طرح ہٹلر کی جنگی کشتیوں سے ملنے والے نقصان سے بچا جاے ۔
۔اس کام کے لیے منصوبہ مشہور ساینسدان آئن سٹائن کی ہمراہی میں تیار ہوا ۔۔اور منصوبہ یہ تھا کہ ایک بحری جہاز پر یہ تجربہ کیا جاے کہ یہ نظروں سے اوجھل ہو کر پلک جھپکنے میں دوسری جگہ منتقل ہوجاے ۔ یہ ایک ٹاپ سیکرٹ مہم تھی لہذا انتہائی رازداری سے مراحل طے کے گئے اور وہ دن آن پہنچا جب فلا ڈیلفیا کے مقام پر کافی فاصلے سے آین سٹاین اور اس کے ساتھ موجود ٹیم دوربین سے نظریں جماے اپنے اس جہاز کا معاینہ کر رہے تھے۔ جس پر میگنیٹک ویوز ڈالنی تھی تاکہ یہ ٹیلی پورٹ ہو ۔۔
ادھر اس جہاز کا بدقسمت عملہ یکسر بے خبر تھا کہ انکو کس قدر سنگین تجربے کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ۔۔ جہاز پر چاروں طرف سے طاقتور میگنیٹک شعاعیں مخصوص فریکوینسی سے ڈالی گئیں۔۔جونہی شعاعیں جہاز پر پڑیں روشنی کا ایک۔جھماکا ہوا اور یہ بحری جہاز غایب ہوگیا ۔
۔ادھر یہ سارا عملہ اپنی کامیابی پر خوشی سے اچھل ہی تو پڑا ۔۔اگلے مرحلے میں انہوں نے جس جگہ تعین کیا تھا یہ جہاز وہاں ظاہر ہوتا تو تجربہ مزید کامیاب ہوتا ۔۔لیکن دس سے بیس منٹ تک اس جہاز کے کہیں پر موجودگی کی اطلاع نا پائی تو یہ پریشان ہوگئے کہ جہاز گیا تو کہاں گیا ۔۔ابھی اسی شش وپنج میں گرفتار ہی تھے کہ جہاز دوبارہ اپنی اسی پرانی جگہ یعنی ان کے سامنے ظاہر ہو گیا۔۔یہ فورا اس طرف بڑھے کہ جا کے عملے سے پتہ کیا جاے ان کے ساتھ کیا ہوا ۔۔لیکن آگے کا منظر ان کےہوش اڑانے کو کافی تھا۔۔
جہاز پر موجود لوگوں کی حالت قابل رحم تھی۔۔کچھ جھلس کر مر چکے تھے کچھ جہاز کے اسٹیل میں زندہ دفن ہو چکے تھے اور جو چند ایک کسی طرح بچ بھی گئے تھے تو یہ نارمل نا رہے تھے گویا ان کو پاگلوں میں شمار کیا جاسکتا تھا۔۔اس پراجیکٹ کو ٹاپ سیکرٹ قرار دے کر فوری طور پر بند کردیا گیا ۔اور وہ ریکارڈ مٹا دیے گئے جن سے پتہ چلتا ہو کہ امریکی جہاز uss eldridge فلاڈیلفیا میں اس تجربے کا شکار ہوا ۔جس عملے کی اموات واقع ہوئی تھیں ان کے لواحقین کو یہ پیغام بھیج دیا گیا کہ جنگ کے دوران ان کا جہاز تباہ ہوا اور آپ کے یہ وارث مارے گئے۔
یہ راز ہمیشہ راز ہی رہتا اگر برسوں بعد Al۔ Bielek نامی ساینسدان اپنی زبان نا کھولتا جو کہ اس پراجیکٹ کا حصہ رہا۔اس تجربے کا دوسرا عینی شاہد carlos Allende تھا جو کہ اسی ڈیک پر ملازم تھا جہاں یہ سے یہ تجربہ کیا گیا۔۔اگرچہ امریکہ میں آج تک کوئی تحقیقاتی کمیشن قائم نا ہوسکا کہ uss eldridge اور اس کے عملے کو بنا بتاے ایک غیر انسانی تجربے کا شکار کیوں بنایاگیا۔لیکن اس تجربے سے جڑے ��ئی لوگ ہیں جو کہ ہوش ربا تفصیلات بتاتے ہیں۔۔جن کو یہ جٹھلانے کا دعوی کرتے ہیں ۔
۔بہرحال طاقت اور اقتدار کی چاہت میں انسانیت پر اس سے بھی بڑے بڑے ظلم ہوتے رہے ہیں ۔تو ان سے کچھ بعید نہیں کہ ایسا تجربہ نا کیا گیا ہو۔بلکہ میرا تو ماننا ہے کہ یہ ہر ممکن کوششیں جاری رکھیں گے۔۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہٹلر کے دور میں بھی ایک خفیہ جگہ ٹنل بنا کر Die glocke نامی مشین بنائی جا رہی تھی ۔ جس کا مقصد الیکٹرومیگنیٹک ویوز کے زریعے ایک ایسا انرجی کا ببل پیدا کرنا تھا جس کے زریعے ٹائم اینڈ سپیس میں بگاڑ پیدا کرکے وارم ہول بنایا جا سکے ۔جس سے نازی فوجی چند گھنٹے آگے مستقبل میں یا ماضی میں جا کہ دشمن کی فوج کی اگلی حکمت عملی دیکھ سکیں۔ان کو کتنی کامیابی ہوی اس کے بارے میں پورے وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جرمنی پر اتحادیوں کا حملہ ہوجاتا ہے ۔ ہٹلر کو شکست ہوتی ہے۔
۔یہاں دلچسپ بات یہ رہی کہ نا ان کو ہٹلر کی لاش ملی نا ہی گرفتار کر سکے ۔جہاں یہ مشین بنائی جا رہی ہوتی ہے وہاں یہ مشین تو نہیں ملتی صرف چند ٹوٹی مشینوں اور ساینسدانوں کی جلی ہوی لاشیں تھیں۔ اس واقعے کے ٹھیک بیس سال بعد امریکی ریاست پنسلوانیا میں آگ سے لپٹی ایک مشین آسمان سے ایک ویران جگہ آن گرتی ہے ۔ اس مشین کو دیکھنے والے عینی شاہدین نے جو نقشہ بتایا وہ Die glocke سے ملتا جلتا تھا ۔۔شاہدین کے مطابق اس میں ایک جلی ہوئی لاش بھی ملی۔۔ایک گھنٹے کے اندر اندر سی آئی اے نے اس جگہ کا گھیرا کرلیا اور مشین کے ٹکڑے لاش سمیت لے گئے اور یہ بھی ٹاپ سیکرٹ بن گیا ۔۔البتہ کچھ صحافیوں نے واقعات کی کڑی سے کڑی ملائی تو ان کے مطابق یہ ہٹلر کی لاش ہوسکتی ہے ۔۔ہوسکتا ہے اس نے مشین میں بیس سال بعد مستقبل میں داخل ہونے کا وقت مقرر کیا ہو اور وہ آتو گیا لیکن ورم ہول کے اندر برقی لہروں کی شدت نے اس کو جلا کر خاک کر دیا ہو ۔۔
ٹائم ٹریولنگ ہمارے لیے کوئی انوکھی بات نہیں ہونی چاہیے ۔۔ہمارے انبیا کرام ولی اللہ اور کافی برگزیدہ ہستیاں مستقبل کا علم رکھتی تھیں۔۔اور یہ ہستیاں ٹیلی پورٹیشن کا جیتا جاگتا ثبوت رہ چکی ہیں ۔۔کچھ واقعات سے نشاندہی کرنا چاہونگی۔
۔1.. ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے واقعے سے کون لاعلم ہوگا بھلا ؟؟ یہ ٹائم ٹریول ہی تھا جس سے ساتوں آسمانوں کی سیر کی ۔۔آخرت کے احوال دیکھے ۔۔تو ظاہر ہے مستقبل میں جا کر دیکھا نا ۔۔
۔۔2 . کچھ انبیاء کرام کو خوابوں کے زریعے مستقبل کی پیشن گوئی کر دی جاتی تھی جو کہ ایک طرح سے ٹایم ٹریول ہی ہوا نا؟؟ اکثر ایسے لوگوں سے آپ ملیں ہونگے جو سچے خواب دیکھتے ہیں ان کے خواب بالکل سچے ثابت ہوتے ہیں یہ کیا ہوتے ہیں؟ جب ایک کام ہفتے بعد ہونا ہے تو آپ کو پہلے کیسے نظر آگیا ؟ کیا یہ ٹائم ٹریول نہیں ۔۔البتہ یا مادہ نہیں توانائی کی شکل میں ہوا ۔۔
۔3. امام بری رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان سے ان کے مریدوں نے دریافت کیا کہ آپ ان پہاڑوں اور ویران جنگلوں میں کیوں آکر بیٹھے ہیں ۔۔تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جگہ ہمیشہ ایسی نہیں رہنی یہاں مسلمانوں کا مضبوط قلعہ ہوگا اور یہ جگہ اس قلعے کا دارلحکومت بنے گی۔۔اب تو اسلام آباد ایک نیوکلئیر اسلامی ملک کا دارلحکومت بن گیا تو ہمیں یہ ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ امام بری رحمتہ اللہ علیہ نے تو مستقبل کو دیکھا یا سفر کیا کیونکہ ہمارا ایمان ہے وحی کا سلسلہ آخری نبی کے ساتھ بند ہو چکا ۔۔ان شخصیات کو وحی نہیں آتی تھی لیکن الہام کشف یا صلاحیت جو بھی کہا جاے اللہ کی طرف سے عطا کردہ تھی اور ان کو مستقبل کا علم ہونا کوئی اچنبھے کی بات نا تھی۔
۔ٹیلی پورٹیشن بھی ان کے لیے کوئی عجوبہ نا تھی۔۔یہ ہستیاں پلک جپھکنے کی دیر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹیلی پورٹ ہو جاتی تھیں۔۔ایسے ایک چھوڑ ہزار واقعات ہیں ۔۔بہاولپور کے نزدیک خانقاہ شریف میں ایک بزرگ سیرانی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے ۔۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کہتے تھے میں عمرہ کرنے جا رہا ہوں ۔۔اور یہ کہہ کر دیوار سے گزر جاتے تھے یوں محسوس ہوتا کہ غاہب ہوچکے ہیں ۔۔ ۔اُس وقت منکرین کے لیے ماننا آسان نا تھا کیونکہ یہ چیزیں عقل سے بالاتر ہوتی ہیں۔۔آج ایسے معجزے کو سمجھنا مشکل نہیں رہ گیا ۔
۔ 4 علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ان کے بہت قریبی ملازم کہتے تھے کہ رات کو پچھلے پہر بزرگ ملنے آتے تھ۔۔یہ بتاتے نہیں تھے کہ یہ بزرگ کون ہیں ۔۔کبھی کبھی علامہ مجھے کہتے باہر سے جا کر لسی یا دودھ دکان سے لآو ۔۔میں حیرانی سے کہتا اس وقت کہاں سے لے آوں آدھی رات کو دکانیں کہاں کھلی ہوتیں ہیں ۔۔علامہ صاحب کہتے باہر جاو اور لے آو ۔۔میں حیران ہوتا ہوا باہر جاتا تو حیران رہ جاتا کیونکہ باہر ایک جدید بازار ہوتی جس میں چہل پہل عروج پر ہوتی۔۔میں پریشانی سے سوچتا کہ کہاں آگیا ہوں اتنے میں ایک دکان سے بچہ آتا میرے ہاتھ میں بوتل تھماتا اور میں غایب دماغی سے واپس آجاتا ۔
۔علامہ صاحب مسکرا کر بوتل لے لیتے میں واپس جا کر دیکھتا تو وہی علاقہ گھہپ اندھیرا اور کوئی بازار نہیں۔۔کیونکہ یہ چیزیں میری سمجھ سے باہر تھیں لہذا چپ رہتا ۔
۔ دنیا ایسے عجیب وغریب واقعات سے بھری پڑی ہے ۔۔ایک ڈھونڈیں ہزار مل جائیں ۔ بعض مرتبہ سی سی ٹی وی فوٹیجز میں ایسے منظر کیچ ہوجاتے ہیں جہاں سکینڈوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے کسی کی جان بچائی جاتی ہے ۔۔۔بچانے والا کون ہوتا ہے کوئی پتہ نہیں چلتا ۔۔آج بھی اللہ کے ایسے پرسرار بندے اور مخلوقات موجود ہیں جو ہمارے درمیان رہ کر اپنے کام سر انجام دے رہے ہیں جو ان کو سونپے گئے ۔۔
۔۔ٹیلی پورٹیشن ممکن ہے یہ میں نہیں کہہ رہی یہ ان لوگوں کی کوششیں کہہ رہی ہیں یہ ان کی محنت کہہ رہی ہے کہ ایک دن لمحوں کا کھیل ہوگا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ۔ ۔۔مرحوم ڈاکٹر مولانا اسرار احمد خان نے قرآن پاک کی تفسیر میں سورت النمل کی تشریح کرتے ہوے حضرت سلیمان کا واقعہ کوٹ کیا جہاں ایک انسان ملکہ بلقیس کا تخت پلک جھپکنے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے ۔۔تو مولانا نے فرمایا ۔۔یہ کوئی نبی نا تھا لیکن ظاہر ہے اللہ کا برگزیدہ بندہ تھا یعنی اس کے پاس اسم اعظم یا ایسی ٹیکنالوجی تھی کہ اس نے ٹیلی پورٹیشن کو ممکن بنایا۔۔مولانا نے مزید فرمایا کہ ساینس جس حساب سے ترقی کر رہی ہے تو عن قریب یہ ممکن ہے کہ مادی اشیا کو لمحوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا کوئی مشکل کام نا رہ جاے گا۔۔تو بلاشبہ اللہ اپنی نشانیاں کھول کھ��ل کر دکھا تا جا رہا ہے۔ ۔اگلے حصے میں جانیں گے کہ اس ٹیکنالوجی کے حاصل ہو جانے پر ہم کس کس سنگ میل کو عبور کریں گے اور کہاں ہماری لاسٹ لمٹ ہوگی۔۔۔(جاری ہے)
Philosophy
0 notes
humlog786-blog · 4 years
Text
انقلاب پسند - افسانہ - سعادت حسن منٹو
Tumblr media
میری اور سلیم کی دوستی کو پانچ سال کا عرصہ گُزر چکا ہے۔ اس زمانے میں ہم نے ایک ہی سکول سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا، ایک ہی کالج میں داخل ہُوئے اور ایک ہی ساتھ ایف۔ اے۔ کے امتحان میں شامل ہو کر فیل ہوئے۔ پھر پرانا کالج چھوڑ کر ایک نئے کالج میں داخل ہُوئے۔ اس سال میں تو پاس ہو گیا۔ مگر سلیم سُوئے قسمت سے پھر فیل ہو گیا۔ سلیم کی دوبارہ ناکامیابی سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ آوارہ مزاج اور نالائق ہے۔ یہ بالکل افترا ہے۔ سلیم کا بغلی دوست ہونے کی حیثیت سے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ کہ سلیم کا دماغ بہت روشن ہے۔ اگر وہ کالج کی پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ دیتا۔ تو کوئی وجہ نہ تھی۔ کہ وہ صوبہ بھر میں اول نہ رہتا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے پڑھائی کی طرف کیوں توجہ نہ دی؟ جہاں تک میرا ذہن کام دیتا ہے مجھے اُس کی تمام تر وجہ، وہ خیالات معلوم ہوتے ہیں جو ایک عرصے سے اُس کے دل و دماغ پر آہستہ آہستہ چھا رہے تھے؟ دسویں جماعت اور کالج میں داخل ہوتے وقت سلیم کا دماغ ان تمام اُلجھنوں سے آزاد تھا۔ جنھوں نے اسے ان دنوں پاگل خانے کی چاردیواری میں قید کر رکھا ہے۔ ایام کالج میں وہ دیگر طلبہ کی طرح کھیل کود میں حصہ لیا کرتا تھا۔ سب لڑکوں میں ہر دلعزیز تھا۔ مگر یکایک اس کے والد کی ناگہانی موت نے اس کے متبسّم چہرے پر غم کی نقاب اوڑھا دی۔ اب کھیل کود کی جگہ غور و فکر نے لے لی۔ وہ کیا خیالات تھے، جو سلیم کے مضطرب دماغ میں پیدا ہُوئے؟۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ سلیم کی نفسیات کا مطالعہ کرنا بہت اہم کام ہے۔ اس کے علاوہ وہ خود اپنی دلی آواز سے نا آشنا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ گفتگو کرتے وقت یا یونہی سیر کرتے ہُوئے اچانک میرا بازو پکڑ کر کہا ہے۔ ’’عباس جی چاہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ’’ہاں۔ ہاں۔ کیا جی چاہتا ہے۔ میں نے اس کی طرف تمام توجہ مبذول کرکے پوچھا ہے۔ مگر میرے اس استفسار پر اس کے چہرے کی غیر معمولی تبدیلی اور گلے میں سانس کے تصادم نے صاف طور پر ظاہر کیا کہ وہ اپنے دلی مدّعا کو خود نہ پہچانتے ہُوئے الفاظ میں صاف طور پر ظاہر نہیں کر سکتا۔ وہ شخص جو اپنے احساسات کو کسی شکل میں پیش کر کے دوسرے ذہن پر منتقل کر سکتا ہے۔ وہ دراصل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے۔ اور وہ شخص جو محسوس کرتا ہے۔ مگر اپنے احساس کو خود آپ اچھی طرح نہیں سمجھتا۔ اور پھر اس اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس شخص کے مترادف ہے۔ جو اپنے حلق میں ٹھنسی ہُوئی چیز کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ مگر وہ گلے سے نیچے اُترتی چلی جا رہی ہو۔ یہ ایک ذہنی عذاب ہے۔ جس کی تفصیل لفظوں میں نہیں آ سکتی۔ سلیم شروع ہی سے اپنی آواز سے نا آشنا رہا ہے۔ اور ہوتا بھی کیونکر جب اس کے سینے میں خیالات کا ایک ہجوم چھایا رہتا تھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ بیٹھا بیٹھا اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اور کمرے میں چکر لگا کر لمبے لمبے سانس بھرنے شروع کر دیے۔ غالباً وہ اپنے اندرونی انتشار سے تنگ آ کر ان خیالات کو جو اس کے سینے میں بھاپ کے مانند چکر لگا رہے ہوتے۔ سانسوں کے ذریعے باہر نکالنے کا کوشاں ہوا کرتا تھا۔ اضطراب کے انہی نکلیف دہ لمحات میں اس نے اکثر اوقات مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ’’عباس! یہ خاکی کشتی کسی روز تُند موجوں کی تاب نہ لا کر چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ اپنے اندیشے کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتا تھا۔ سلیم کسی متوقع حادثے کا منتظر ضرور تھا۔ مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ حادثہ کس شکل میں پردہ ظہور پر نمودار ہو گا۔ اس کی نگاہیں ایک عرصے سے دُھندلے خیالات کی صورت میں ایک موہوم سایہ دیکھ رہی تھیں۔ جو اس کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ مگر وہ یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس تاریک شکل کے پردے میں کیا نہاں ہے۔ میں نے سلیم کی نفسیات سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے۔ مگر مجھے اس کی مُنقلب عادات کے ہوتے ہوئے کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کن گہرائیوں میں غوطہ زن ہے۔ اور وہ اس دنیا میں رہ کر اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ ہر قسم کے سرمائے سے محروم کر دیا گیا تھا۔ میں ایک عرصے سے سلیم کو مُنقلب ہوتے دیکھ رہا تھا۔ اس کی عادات دن بدن بدل رہی تھیں۔ کل کا کھلنڈر الڑکا، میرا ہم جماعت ایک مُفکر میں تبدیل ہو رہا تھا۔ یہ تبدیلی میرے لیے سخت باعث حیرت تھی۔ کچھ عرصے سے سلیم کی طبیعت پر ایک غیر معمولی سکون چھا گیا تھا۔ جب دیکھو اپنے گھر میں خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ اور اپنے بھاری سر کو گھٹنوں میں تھامے کچھ سوچ رہا ہے۔ وہ کیا سوچ رہا ہوتا۔ یہ میری طرح خود اسے بھی معلوم نہ تھا۔ ان لمحات میں میں نے اسے اکثر اوقات اپنی گرم آنکھوں پر دوات کا آہنی ڈھکنا یا گلاس کا بیرونی حصّہ پھیرتے دیکھا ہے۔ شاید وہ اس عمل سے اپنی آنکھوں کی حرارت کم کرنا چاہتا تھا۔ سلیم نے کالج چھوڑتے ہی غیر ملکی مصنفّوں کی بھاری بھرکم تصانیف کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ شروع شروع میں مجھے اس کی میز پر ایک کتاب نظر آئی۔ پھر آہستہ آہستہ اس الماری میں جس میں وہ شطرنج۔ تاش اور اسی قسم کی دیگر کھیلیں رکھا کرتا تھا۔ کتابیں ہی کتابیں نظر آنے لگیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی کئی دنوں تک گھر سے کہیں باہر چلا جایا کرتا تھا۔ جہاں تک میرا خیال ہے سلیم کی طبیعت کا غیر معمولی سکون ان کتابوں کے انتھک مطالعہ کا نتیجہ تھا۔ جو اس نے بڑے قرینے سے الماری میں سجا رکھی تھیں۔ سلیم کا عزیز ترین دوست ہونے کی حیثیت میں مَیں اس کی طبیعت کے غیر معمولی سکون سے سخت پریشان تھا۔ مجھے اندیشہ تھا۔ کہ یہ سکون کسی وحشت خیز طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اس کے علاوہ مجھے سلیم کی صحت کا بھی خیال تھا۔ وہ پہلے ہی بہت کمزور جثّے کا واقع ہوا تھا۔ اس پر اس نے خوامخواہ اپنے آپ کو خدا معلوم کن کن الجھنوں میں پھنسا لیا تھا۔ سلیم کی عمر بمشکل بیس سال کی ہو گی۔ مگر اس کی آنکھوں کے نیچے شب بیداری کی وجہ سے سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ پیشانی جو اس سے قبل بالکل ہموار تھی اب اس پر کئی شکن پڑے رہتے تھے۔ جو اس کی ذہنی پریشانی کو ظاہر کرتے تھے۔ چہرہ جو کچھ عرصہ پہلے بہت شگفتہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس پر ناک اور لب کے درمیان گہری لکیریں پڑ گئی تھیں۔ جنہوں نے سلیم کو قبل ازوقت معّمر بنا دیا تھا۔ اس غیر معمولی تبدیلی کو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھاہے۔ جو مجھے ایک شعبدے سے کم معلوم نہیں ہوتی۔ یہ کیا تعجب کی بات ہے۔ کہ میری عمر کا لڑکا میری نظروں کے سامنے بوڑھا ہو جائے۔ سلیم پاگل خانے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ وہ سڑی اور دیوانہ ہے۔ اسے غالباً اس بنا پر پاگل خانے بھیجا گیا ہے کہ وہ بازاروں میں بلند بانگ تقریریں کرتا ہے۔ راہ گذروں کو پکڑ پکڑ کر انہیں زندگی کے مشکل مسائل بتا کر جواب طلب کرتا ہے۔ اور امرا کے حریر پوش بچوں کا لباس اتار کر ننگے بچوں کو پہنا دیتا ہے۔ ممکن ہے۔ یہ حرکات ڈاکٹروں کے نزدیک دیوانگی کی علامتیں ہوں۔ مگر میں یقین کے ساتھ کَہ سکتا ہوں کہ سلیم پاگل نہیں ہے۔ بلکہ وہ لوگ جنھوں نے اسے امن عامہ میں خلل ڈالنے والا تصور کرتے ہوئے آہنی سلاخوں کے پنجرے میں قید کر دیا ہے۔ کسی دیوانے حیوان سے کم نہیں ہیں! اگر وہ اپنی غیر مربوط تقریر کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہے۔ تو کیا ان کا فرض نہیں کہ وہ اس کے ہر لفظ کو غور سے سنیں؟ اگر وہ راہ گذروں کے ساتھ فلسفہ ءِ حیات پر تبادلہ ءِ خیالات کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا اس کے یہ معنی لیے جائیں گے کہ اس کا وجود مجلسی دائرہ کے لیے نقصان دہ ہے؟۔ کیا زندگی کے حقیقی معنی سے باخبر ہونا ہر انسان کا فرض نہیں ہے؟ اگر وہ متمول اشخاص کے بچوں کا لباس اُتار کر غربا کے برہنہ بچوں کا تن ڈھانپنا چاہتا ہے تو کیا یہ عمل اُن افراد کو اُن کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتا جو فلک بوس عمارتوں میں دوسرے لوگوں کے بل بوتے پر آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا ننگوں کی ستر پوشی کرنا ایسا فعل ہے کہ اسے دیوانگی پر محمول کیا جائے؟ سلیم ہر گز پاگل نہیں ہے۔ مگر مجھے یہ تسلیم ہے کہ اس کے افکار نے اسے بے خود ضروربنا رکھا ہے۔ دراصل وہ دُنیا کو کچھ پیغام دینا چاہتا ہے۔ مگر دے نہیں سکتا ایک کم سن بچے کی طرح وہ تُتلا تُتلا کر اپنے قلبی احساسات بیان کرنا چاہتا ہے۔ مگر الفاظ اسکی زبان پر آتے ہی بکھر جاتے ہیں۔ وہ اس سے قبل ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔ مگر اب اسے اور اذیت میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ پہلے ہی سے اپنے افکار کی الجھنوں میں گرفتار ہے۔ اور اب اسے زندان نما کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ میں نے آج تک سلیم کی کوئی بھی ایسی حرکت نہیں دیکھی۔ جس سے میں یہ نتیجہ نکال سکوں۔ کہ وہ دیوانہ ہے۔ ہاں البتہ کچھ عرصے سے میں اس کے ذہنی انقلابات کا مشاہدہ ضرور کرتا رہا ہوں۔ شروع شروع میں جب میں نے اس کے کمرے کے تمام فرنیچر کو اپنی اپنی جگہ سے ہٹا ہُوا پایا تو میں نے اس تبدیلی کی طرف خاص توجہ نہ دی دراصل میں نے اس وقت جو خیال کیا۔ کہ شاید سلیم نے فرنیچر کی موجودہ جگہ کو زیادہ موزوں خیال کیا ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ میری نظروں کو جو کرسیوں اور میزوں کو کئی سالوں سے ایک جگہ دیکھنے کی عادی تھیں۔ وہ غیر متوقع تبدیلی بہت بھلی معلوم ہوئی۔ اس واقعے کے چند روز بعد جب میں کالج سے فارغ ہو کر سلیم کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ فلمی ممثلوں کی دو تصاویر جو ایک عرصے سے کمرے کی دیواروں پر آویزاں تھیں اور جنھیں میں اور سلیم نے بہت مشکل کے بعد فراہم کیا تھا۔ باہر ٹوکری میں پھٹی پڑی ہیں اور ان کی جگہ انہی چوکھٹوں میں مختلف مصنفّوں کی تصویریں لٹک رہی ہیں۔ چونکہ میں خود ان تصاویر کا اتنا مشتاق نہ تھا۔ اس لیے مجھے سلیم کا یہ انخلاب بہت پسند آیا۔ چنانچہ ہم اس روز دیر تک ان تصویروں کے متعلق گفتگو بھی کرتے رہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس واقعہ کے بعد سلیم کے کمرے میں ایک ماہ تک کوئی خاص قابل ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ مگر اس عرصے کے بعد میں نے ایک روز اچانک کمرے میں بڑا سا تخت پڑا پایا۔ جس پر سلیم نے کپڑا بچھا کر کتابیں چُن رکھیں تھیں اور آپ قریب ہی زمین پر ایک تکیہ کا سہارا لیے کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ میں یہ دیکھ کر سخت متعجّب ہوا۔ اور کمرے میں داخل ہوتے ہی سلیم سے یہ سوال کیا۔ کیوں میاں! اس تخت کے کیا معنی؟ سلیم جیسا کہ اس کی عادت تھی مسکرایا اور کہنے لگا۔ ’’کرسیوں پر روزانہ بیٹھتے بیٹھتے طبیعت اُکتا گئی ہے۔ اب یہ فرش والا سلسلہ ہی رہے گا۔ بات معقول تھی۔ میں چپ رہا۔ واقعی روزانہ ایک ہی چیز کا استعمال کرتے کرتے طبیعت ضرور اچاٹ ہو جایا کرتی ہے۔ مگر جب پندرہ بیس روز کے بعد میں نے وہ تخت مع تکیے کے غائب پایا۔ تو میرے تعجّب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اور مجھے شُبہ سا ہوا کہ کہیں میرا دوست واقعی خبطی تو نہیں ہو گیا ہے۔ سلیم سخت گرم مزاج واقع ہُوا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے وزنی افکار نے اسے معمول سے زیادہ چڑ چڑا بنا رکھا تھا۔ اس لیے میں عموماً اس سے ایسے سوالات نہیں کیا کرتا۔ جو اس کے دماغی توازن کو درہم برہم کر دیں یا جن سے وہ خوامخواہ کھج جائے۔ فرنیچر کی تبدیلی، تصویروں کا انخلاب، تخت کی آمد اور پھر اس کا غائب ہو جانا واقعی کسی حد تک تعجب خیز ضرور ہیں اور واجب تھا کہ میں ان اُمور کی وجہ دریافت کرتا۔ مگر چونکہ مجھے سلیم کو آزردہ خاطر کرنا، اور اس کے کام میں دخل دینا منظور نہ تھا۔ اس لیے میں خاموش رہا۔ تھوڑے عرصے کے بعد سلیم کے کمرے میں ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی تبدیلی دیکھنا میرا معمول ہو گیا۔ اگر آج کمرے میں تخت موجود ہے۔ تو ہفتے کے بعد وہاں سے اُٹھا دیا گیا ہے۔ اس کے دو روز بعد وہ میز جو کچھ عرصہ پہلے کمرے کے دائیں طرف پڑی تھی۔ رات رات میں وہاں سے اٹھا کر دوسری طرف رکھ دی گئی ہے۔ انگیٹھی پر رکھی ہُوئی تصاویر کے زاویے بدلے جا رہے ہیں۔ کپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں ایک جگہ سے اُکھیڑ کر دوسری جگہ پر جڑ دی گئی ہیں۔ کرسیوں کے رُخ تبدیل کیے گئے ہیں۔ گویا کمرے کی ہر شے ایک قسم کی قوا��د کرائی جاتی تھی۔ ایک روز جب میں نے کمرے کے تمام فرنیچر کو مخالف رخ میں پایا تو مجھ سے نہ رہا گیا۔ اور میں نے سلیم سے دریافت کر ہی لیا۔ ’’سلیم میں ایک عرصے سے اس کمرے کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا دیکھ رہا ہوں۔ آخر بتاؤ تو سہی یہ تمہارا کوئی نیا فلسفہ ہے۔ ؟‘‘ ’’تم جانتے نہیں ہو، میں انقلاب پسند ہوں‘‘ سلیم نے جواب دیا۔ یہ سن کر میں اور بھی متعجب ہوا۔ اگر سلیم نے یہ الفاظ اپنی حسبِ معمول مسکراہٹ کے ساتھ کہے ہوتے تو میں یقینی طور پر یہ خیال کرتا کہ وہ صرف مذاق کر رہا ہے۔ مگر یہ جواب دیتے وقت اس کا چہرہ اس امر کا شاہد تھا، کہ وہ سنجیدہ ہے۔ اور میرے سوال کا جواب وہ اِنہی الفاظ میں دینا چاہتا ہے لیکن پھر بھی میں تذبذب کی حالت میں تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔ ’’مذاق کر رہے ہو یار؟‘‘ ’’تمہاری قسم بہت بڑا انقلاب پسند‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد اس نے ایسی گفتگوشروع کی تھی۔ مگر ہم دونوں کسی اور موضوع پر اظہار خیالات کرنے لگ گئے تھے۔ یہ سلیم کی عادت ہے کہ وہ بہت سی باتوں کو دلچسپ گفتگو کے پردے میں چُھپا لیا کرتا ہے۔ ان دنوں جب کبھی میں سلیم کے جواب پر غور کرتا ہُوں۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ سلیم درحقیقت انقلاب پسند واقع ہُوا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ کسی سلطنت کا تختہ اُلٹنے کے درپے ہے۔ یا وہ دیگر انقلاب پسندوں کی طرح چوراہوں میں بم پھینک کر دہشت پھیلاناچاہتا ہے۔ بلکہ جہاں تک میرا خیال ہے۔ وہ ہر چیز میں انقلاب دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظریں اپنے کمرے میں پڑی ہوئی اشیا کو ایک ہی جگہ پر نہ دیکھ سکتی تھیں۔ ممکن ہے میرا یہ قیافہ کس حد تک غلط ہو۔ مگر میں یہ وثوق سے کَہ سکتا ہوں کہ اس کی جستجو کسی ایسے انقلاب کی طرف رجوع کرتی ہے۔ جس کے آثار اس کے کمرے کی روزانہ تبدیلیوں سے ظاہر ہیں۔ بادی النظر میں کمرے کی اشیا کو روز الٹ پلٹ کرتے رہنا دیوانگی کے مترادف ہے۔ لیکن اگر سلیم کی ان بے معنی حرکات کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ امر روشن ہو جائیگا کہ ان کے پسِ پردہ ایک ایسی قوت کام کر رہی تھی۔ جس سے وہ خود ناآشنا تھا۔ اسی قوت نے جسے میں ذہنی تعصب کا نام دیتا ہوں۔ سلیم کے دماغ میں تلاطم بپا کر دیا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس طوفان کی تاب نہ لا کر ازخود رفتہ ہو گیا۔ اور پاگل خانے کی چاردیواری میں قید کر دیا گیا۔ پاگل خانے جانے سے کچھ روز پہلے سلیم مجھے اچانک شہر کے ایک ہوٹل میں چائے پیتا ہوا ملا۔ میں اور وہ دونوں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ گئے۔ اس لیے کہ میں اُس سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے بازار کے چند دکان داروں سے سنا تھا کہ اب سلیم ہوٹلوں میں پاگلوں کی طرح تقریریں کرتا ہے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ اس سے فوراً مل کر اُسے اس قسم کی حرکات کرنے سے منع کر دوں۔ اس کے علاوہ یہ اندیشہ تھا کہ شاید وہ کہیں سچ مچ نحبوط القواس ہی نہ ہو گیا ہو۔ چونکہ میں اس سے فوراً ہی بات کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے ہوٹل میں گفتگو کرنا مناسب سمجھا۔ کرسی پر بیٹھتے وقت میں غور سے سلیم کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھے اس طرح گھورتے دیکھ کر سخت متعجب ہوا۔ وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ ’’شاید میں سلیم نہیں ہوں۔ ‘‘ آواز میں کس قدر درد تھا۔ گو یہ جُملہ آپ ک�� نظروں میں بالکل سادہ معلوم ہو۔ مگر خدا گواہ ہے میری آنکھیں بے اختیار نمناک ہو گئیں۔ ” شاید میں سلیم نہیں ہُوں‘‘ گویا وہ ہر وقت اس بات کا متوقع تھا کہ کسی روز اس کا بہترین دوست بھی اسے نہ پہچان سکے گا۔ شاید اسے معلوم تھا کہ وہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ میں نے ضبط سے کام لیا۔ اور اپنے آنسوؤں کو رومال میں چھپا کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’سلیم میں نے سُنا ہے کہ تم نے میرے لاہور جانے کے بعد یہاں بازاروں میں تقریریں کرنی شروع کر دی ہیں۔ جانتے بھی ہو۔ اب تمہیں شہر کا بچہ بچہ پاگل کے نام سے پُکارتا ہے۔ ‘‘ ’’پاگل! شہر کا بچہ بچہ مجھے پاگل کے نام سے پُکارتا ہے۔ پاگل!۔ ہاں عباس، میں پاگل ہُوں۔ پاگل۔ دیوانہ۔ خرد باختہ۔ لوگ مجھے دیوانہ کہتے ہیں۔ معلوم ہے کیوں؟ یہاں تک کہ وہ میری طرف سرتاپا استفہام بن کر دیکھنے لگا۔ مگر میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔ ’’اس لیے کہ میں انہیں غریبوں کے ننگے بچے دِکھلا دِکھلا کر یہ پوچھتا ہُوں۔ کہ اس بڑھتی ہُوئی غربت کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟۔ وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اس لیے وہ مجھے پاگل تصّور کرتے ہیں۔ آہ اگر مجھے صرف یہ معلوم ہو کہ ظلمت کے اس زمانے میں روشنی کی ایک شعاع کیونکر فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہزاروں غریب بچوں کا تاریک مستقبل کیونکر منّور بنایا جا سکتا ہے۔ وہ مجھے پاگل کہتے ہیں۔ وہ جن کی نبضِ حیات دوسروں کے خون کی مرہون منّت ہے، وہ جن کا فردوس غربا کے جہنم کی مستعار اینٹوں سے استوار کیا گیا ہے، جن کے سازِ عشرت کے ہر تار کے ساتھ بیواؤں کی آہیں یتیموں کی عریانی، لاوارث بچوں کی صدائے گریہ لپٹی ہوئی ہے۔ کہیں، مگر ایک زمانہ آنے والا ہے جب یہی پروردہ ءِ غربت اپنے دلوں کے مشترکہ لہو میں اُنگلیاں ڈبو ڈبو کر ان لوگوں کی پیشانیوں پر اپنی لعنتیں لکھیں گے۔ وہ وقت نزدیک ہے جب ارضی جنّت کے دروازے ہر شخص کے لیے واہوں گے۔ میں پوچھتا ہُوں کہ اگر میں آرام میں ہوں۔ تو کیا وجہ ہے کہ تم تکلیف کی زندگی بسر کرو؟۔ کیا یہی انسانیّت ہے کہ میں کارخانے کا مالک ہوتے ہُوئے ہر شب ایک نئی رقاصہ کا ناچ دیکھتا ہُوں، ہر روز کلب میں سینکڑوں روپے قمار بازی کی نذر کر دیتا ہوں۔ اور اپنی نکمی سے نکمی خواہش پر بے دریغ روپیہ بہا کر اپنا دل خوش کرتا ہُوں، اور میرے مزدوروں کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ ان کے بچے مٹی کے ایک کھلونے کے لیے ترستے ہیں۔ پھر لُطف یہ ہے کہ میں مُہذب ہوں، میری ہر جگہ عزت کی جاتی ہے، اور وہ لوگ جن کہ پسینہ میرے لیے گوہر تیار کرتا ہے۔ مجلسی دائرے میں حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ میں خود ان سے نفرت کرتا ہوں۔ تم ہی بتاؤ، کیا یہ دونوں ظالم و مظلوم اپنے فرائض سے نا آشنا نہیں ہیں؟ میں ان دونوں کو ان کے فرائض سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ مگر کس طرح کروں؟۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ ‘‘ سلیم نے اس قدر کہہ کر ہانپتے ہوئے ٹھنڈی چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور میری طرف دیکھے بغیر پھر بولنا شروع کر دیا۔ ’’میں پاگل نہیں ہُوں۔ مجھے ایک وکیل سمجھو۔ بغیر کسی اُمید کے، جو اس چیز کی وکالت کر رہا ہے۔ جو بالکل گم ہُو چکی ہے۔ میں ایک دبی ہوئی آواز ہوں۔ انسانیّت ایک منہ ہے۔ اور میں ایک چیخ۔ میں اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہ میرے خیالات کے بوجھ تلے دبی ہُوئی ہے۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اسی لیے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کہ مجھے بہت کچھ کہنا ہے۔ میں اپنا پیغام کہاں سے شروع کروں۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں اپنی آواز کے بکھرے ہوئے ٹکڑے فراہم کرتا ہوں ذہنی اذّیت کے دُھندلے غبار میں سے چند خیالات تمہید کے طور پر پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ اپنے احساسات کی عمیق گہرائیوں سے چند احساس سطح پر لاتا ہوں۔ کہ دوسرے اذہان پر منتقل کر سکوں مگر میری آواز کے ٹکڑے پھر منتشر ہو جاتے ہیں۔ خیالات پھر تاریکی میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ احساسات پھر غوطہ لگا جاتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جب میں یہ دیکھتا ہوں۔ کہ میرے خیالات منتشر ہونے کے بعد پھر جمع ہو رہے ہیں۔ تو جہاں کہیں میری قوتِ گویائی کام دیتی ہے میں شہر کے رؤسا سے مخاطب ہو کر یہ کہنے لگ جاتا ہوں۔ مرمریں محلّات کے مکینو! تم اس وسیع کائنات میں صرف سورج کی روشنی دیکھتے ہو۔ مگر یقین جانو۔ اس کے سائے بھی ہوتے ہیں۔ تم مجھے سلیم کے نام سے جانتے ہو، یہ غلطی ہے۔ میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کے جسم پر طاری ہوتی ہے۔ جب وہ غربت سے تنگ آکر پہلی دفعہ ایوانِ گناہ کی طرف قدم بڑھانے لگے۔ آؤ ہم سب کانپیں! تم ہنستے ہو۔ مگر نہیں تمہیں مجھے ضرور سُننا ہو گا۔ میں ایک غوطہ خور ہُوں۔ قدرت نے مجھے تاریک سمندر کی گہرائیوں میں دبو دیا۔۔۔۔۔۔ کہ میں کچھ ڈھونڈھ کر لاؤں۔ میں ایک بے بہا موتی لایا ہُوں۔ وہ سچائی ہے۔ اس تلاش میں میں نے غربت دیکھی ہے، گرسنگی برداشت کی ہے۔ لوگوں کی نفرت سے دوچار ہُوا ہُوں۔ جاڑے میں غریبوں کی رگوں میں خون کو منجمد ہوتے دیکھا ہے، نوجوان لڑکیوں کو عشرت کدوں کی زینت بڑھاتے دیکھا ہے اس لیے کہ وہ مجبور تھیں۔ اب میں یہی کچھ تمہارے منہ پر قے کر دینا چاہتا ہوں کہ تمہیں تصویر زندگی کا تاریک پہلو نظر آ جائے۔ انسانیت ایک دل ہے۔ ہر شخص کے پہلو میں ایک ہی قسم کا دل موجود ہے۔ اگر تمہارے بوٹ غریب مزدوروں کے ننگے سینوں پر ٹھوکریں لگاتے ہیں۔ اگر تم اپنے شہوانی جذبات کی بھڑکتی ہُوئی آگ کسی ہمسایہ نادار لڑکی کی عصمت دری سے ٹھنڈی کرتے ہو۔ اگر تمہاری غفلت سے ہزار ہا یتیم بچے گہوارہ ءِ جہالت میں پل کر جیلوں کو آباد کرتے ہیں۔ اگر تمہارا دل کاجل کے مانند سیاہ ہے۔ تو یہ تمہارا قصور نہیں۔ ایوان معاشرت ہی کچھ ایسے ڈھب پر استوار کیا گیا ہے۔ کہ اس کی ہر چھت اپنی ہمسایہ چھت کو دابے ہُوئے ہے۔ ہر اینٹ دوسری اینٹ کو۔ جانتے ہو، موجودہ نظام کے کیا معنی ہیں؟۔ یہ کہ لوگو ں کے سینوں کو جہالت کدہ بنائے۔ انسانی تلذد کی کشتی ہو اور ہوّس کی موجوں میں بہا دے، جوان لڑکیوں کی عصمت چھین کر انہیں ایوان تجارت میں کھلے بندوں حُسن فروشی پر مجبور کر دے غریبوں کا خون چُوس کر اُنہیں جلی ہوئی راکھ کے مانند قبر کی مٹی میں یکساں کردے۔ کیا اسی کو تم تہذیب کا نام دیتے ہو۔ بھیانک قصابی!! تاریک شیطنیت!!!ْ آہ اگر تم صرف وہ دیکھ سکو۔ جس کا میں نے مشاہدہ کیا ہے!۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں۔ جو قبر نما جھونپڑوں میں زندگی کے سانس پورے کر رہے ہیں۔ تمہاری نظروں کے سامنے ایسے افراد موجود ہیں۔ جو موت کے منہ میں جی رہے ہیں۔ ایسی لڑکیاں ہیں۔ جو بارہ سال کی عمر میں عصمت فروشی شروع کرتی ہیں۔ اور بیس سال کی عمر میں قبر کی سردی سے لپٹ جاتی ہیں۔ مگر تم۔ ہاں تم، جو اپنے لباس کی تراش کے متعلق گھنٹوں غور کرتے رہتے ہو۔ یہ نہیں دیکھتے۔ بلکہ اُلٹا غریبوں سے چھین کر اُمراء کی دولتوں میں اضافہ کرتے ہو۔ مزدور سے لے کر کاہل کے حوالے کر دیتے ہو۔ ڈگری پہنے انسان کا لباس اُتار کر حریر پوش کے سُپرد کر دیتے ہو۔ تم غربا کے غیر مختتم مصائب پر ہنستے ہو۔ مگر تمہیں یہ معلوم نہیں۔ کہ اگر درخت کا نچلا حصہ لاغر مردہ ہو رہا ہے تو کسی روز وہ بالائی حصے کے بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے گر پڑے گا۔ ‘‘ یہاں تک بول کر سلیم خاموش ہو گیا اور ٹھنڈی چائے کو آہستہ آہستہ پینے لگا۔ تقریر کے دوران میں میں سحر زدہ آدمی کی طرح چُپ چُپ بیٹھا اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ جو بارش کی طرح برس رہے تھے۔ بغور سنتا رہا۔ میں سخت حیران تھا۔ کہ وہ سلیم جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بالکل خاموش ہوا کرتا تھا۔ اتنی طویل تقریر کیونکر جاری رکھ سکا ہے۔ اس کے علاوہ خیالات کس قدر حق پر مبنی تھے۔ اور آواز میں کتنا اثر تھا۔ میں ابھی اس کی تقریر کے متعلق کچھ سوچ ہی رہا تھا۔ کہ وہ پھر بولا۔ ’’خاندان کے خاندان شہر کے یہ نہنگ نگل جاتے ہیں۔ عوام کے اخلاق قوانین سے مسخ کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے زخم جُرمانوں سے کریدے جاتے ہیں۔ ٹیکسوں کے ذریعے دامنِ غربت کترا جاتا ہے۔ تباہ شدہ ��ہنیت جہالت کی تاریکی سیاہ بنا دیتی ہے۔ ہر طرف حالت نزع کے سانس کی لرزاں آوازیں، عریانی، گناہ اور فریب ہے۔ مگر دعویٰ یہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی جا رہی ہے۔ ہمارے کانوں میں پگھلا ہُوا سیسہ اُتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم مصائب کے کوڑے سے بے حس بنائے جا رہے ہیں۔ تاکہ ہم نہ دیکھ سکیں۔ نہ سُن سکیں اور نہ محسوس کر سکیں!۔ انسان جسے بلندیوں پر پرواز کرنا تھا۔ کیا اس کے بال و پر نوچ کر اسے زمین پر رینگنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا؟۔ کیا امرا کی نظر فریب عمارتیں مزدوروں کے گوشت پوست سے تیار نہیں کی جاتیں؟۔ کیا عوام کے مکتوبِ حیات پر جرائم کی مہر ثبت نہیں کی جاتی؟ کیا مجلسی بدن کی رگوں میں بدی کا خون موجزن نہیں ہے۔ کیا جمہور کی زندگی کشمکشِ پیہم، انتھک محنت اور قوتِ برداشت کا مرکب نہیں ہے؟۔ بتاؤ بتاؤ، بتاتے کیوں نہیں؟‘‘ ’’درست ہے‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ’’تو پھر اس کا علاج کرنا تمہارا فرض ہے۔ کیا تم کوئی طریقہ نہیں بتا سکتے۔ کہ اس انسانی تذلیل کو کیونکر روکا جا سکتا ہے۔ مگر آہ! تمہیں معلوم نہیں، مجھے خود معلوم نہیں‘‘ تھوڑی دیر کے بعد وہ میرا ہاتھ پکڑ کر راز دارانہ لہجے میں یوں کہنے لگا۔ ’’عباس! عوام سخت تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔ بعض اوقات جب کبھی میں کسی سوختہ حال انسان کے سینے سے آہ بلند ہوتے دیکھتا ہوں۔ تو مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں شہر نہ جل جائے!۔ اچھا اب میں جاتا ہوں، تم لاہور واپس کب جا رہے ہو؟‘‘ ’’یہ کہہ کر وہ اُٹھا۔ اور ٹوپی سنبھال کر باہر چلنے لگا۔ ’’ٹھہرو! میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ کہاں جاؤ گے اب؟‘‘ اسے یک لخت کہیں جانے کے لیے تیار دیکھ کر میں نے اسے فوراً ہی کہا۔ ’’مگر میں اکیلا جانا چاہتا ہوں۔ کسی باغ میں جاؤں گا‘‘ میں خاموش ہو گیا۔ اور وہ ہوٹل سے نکل کر بازار کے ہجوم میں گم ہو گیا اس گفتگو کے چوتھے روز مجھے لاہور میں اطلاع ملی کہ سلیم نے میرے جانے کے بعد بازاروں میں دیوانہ وار شور برپا کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس لئے اسے پاگل خانے میں داخل کر لیا گیا ہے۔ ۲۴ مارچ ۱۹۳۵ء اشاعت اولیں، علی گڑھ میگزین Read the full article
0 notes
dailyshahbaz · 4 years
Photo
Tumblr media
مبارک ہو دھرنا کامیاب ہو گیا دھرنا شروع ہونے سے پہلے دھرنے کے مقاصد اور حصول پر بحث ومباحثہ ہر جگہ نمایاں تھا، کوئی کہتا تھا کہ دھرنا والوںکے پاس ایجنڈا نہیںہے اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ دھرنے کو اسلام اباد میں داخل نہ ہونے دے جبکہ فضل رحمٰن کا دعویٰ تھاکہ دو دن کے اندر اندر عمران خان سے استعفیٰ لوں گا اور (نہ دیا تو) ہاتھ مروڑ کے لونگا جبکہ پی پی پی اور پی ایم ایل این نے تو دھرنے کو سپورٹ ہی نہیں کیا البتہ جلسے میں ضرور شرکت کی بلکہ بعض نے جگہ جگہ آزادی مارچ کا استقبال بھی کیا۔ بظاہر فضل الرحمٰن نے شکست پائی اور عمران خان جیت گئے لیکن بادی النظر میں اس دھرنے کا وہ مقصد ہی نہیں تھا جوکہ نظر آتا ہے بلکہ بقول شخصے ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں،کچھ دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکہ کھلا۔‘‘ دھرنے کی ابتدا میں فضل الرحمٰن کا ایجنڈا نواز شریف کے ایجنڈ ے کا عکس تھا یعنی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والا تھا، سلکٹیڈ کے بجائے توپوں کا رخ سلیکٹرز کی طرف تھا یعنی خلائی مخلوق تیر کمان کی زد میں زیادہ اور عمران کم تھے۔ اس لئے نواز شریف نے بھی دھرنے میں بھرپور شرکت کرنے کاکھل کر اعلان کیا تھا جبکہ شہباز شریف مفاہمت کی سیاست کے پیروکار ہیں لہٰذا وہ نواز شریف کی خط کاکسی اور طرح سے تشریح کر رہے تھے، صاف چھپے ہوئے بھی تھے اور صاف نظر بھی آرہے تھے یعنی کبھی ’’ہی‘‘ اورکبھی ’’شی‘‘ کا عکس نظر آتے تھے۔ بقول شیخ رشید کے وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے تھے۔ عمران نے فضل الرحمٰن کے ساتھ مذاکرات کے لئے جو کمیٹی بنائی تھی اس کی اہمیت اس وقت کم ہوئی بلکہ ختم ہوگئی جب فضل الرحمٰن نے آتے ہی عو امی مزاج سے ہم آہنگ ہوکر توپوں کا رخ جی ’’کسی اور‘‘ طرف موڑ دیا تھا۔ ایسے میں کمیٹی کے بجائے ایک رکن کا آنا اور ساتھ ہی شجاعت حسین کا متحرک ہونا کسی خاص سمت کی طرف واضح اشارہ ہی ہے کہ یہ بیٹری کہاں سے چارج پاکر اپنا کردار ادا کرنے لگی ہے۔ اس کے بعد فضل الرحمٰن کے بیان کی سمت کا بدل جانا بھی ایک اشارہ ہی ہے کہ دھرنے کا انداز بدل کر ’’شہبازانہ‘‘ ہوگیا ہے ۔ یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ شہبازی رویہ من وسلویٰ کی پیداوار کا باعث ہی بنتا ہے ��ہ الگ بات کہ اب تک اس کا یہ سفر اپنے لالا کے ہاتھوں نتیجہ خیز نہیں تھا لیکن فضل الرحمٰن نے حالات کا رخ موڑ کر وہ کر ڈالا جو نہ نواز شریف کرسکے اور نہ لالا کی ضد کے باعث شہباز شریف اپنی ریشمی طبیعت کے باعث بھی کرسکے۔ لالابھی باہر اور بھتیجی بھی باہر، چلو بھئی بیماری کے باعث، نواز شریف کا باہر ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن بھیتجی کس خوشی میں باہر ہوگئی۔ ڈرامے کا یہ سین بالابالا ڈائریکٹ کیا گیا تھا لہٰذا قوم کو این آر او، این آر اوکا نشہ پلانے والے کے لئے یہ منظر بہت ٹریجک ہی تھا لہٰذا انڈیمنٹی بانڈ کا شوشہ چھوڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا حالانکہ موصوف کو خود ہی معلوم ہے کہ اسلام آباد کی یہ کھلی دعوت ہے کہ میرے تخت کے لئے راستے پر آنے کے لئے کوئی پھتر ہی نہیں ہے بلکہ اسی کہکشاں پہ آؤ اگر آسکو تو آؤ۔ موصوف خود ہی اسی کہکشاں کی روشنی میں تخت اسلام آباد آئے ہیں۔ ق لیگ اور ایم کیوایم کا نواز شریف کے حق میں اپنے موقف کا اظہار کرنا ،اس طرف کھلا اظہار ہے کہ یہ فیصلہ کہکشاؤں کی دنیاسے وارد ہوا ورنہ یہ معجزہ ظہور کیسے ہوتا ؟ اللہ تیری شان، توبہ توبہ!
0 notes
westeroswisdom · 10 days
Text
« I’m tall, I get recognised all over the place so I just try and keep my head down.
I mean you just get people shouting out, ‘Hey you’re the Hound’ and I tell them to ‘f*** off’ and they seem happy and I carry on. »
— Rory McCann (AKA: Sandor "The Hound" Clegane) from a 2017 interview at the Daily Record.
We can imagine those fans almost immediately posting something like this on social media...
The Hound just told me to fuck off! 😃👍🏼
Extra cred if it happened near a fried chicken outlet. 🍗
8 notes · View notes
nighatnaeem · 5 years
Text
Tumblr media
مسزز نگہت سیما۔۔.دیر تو لگی۔۔۔۔ مگر اینتئ بڑی بےغیرت کا کھیل تم مجھ سے کھیل جاو گی۔۔۔اس کی امید نا تھی مجھ کو۔۔ تم نے آپنا آپ۔۔۔ مجھے اپنے جانے کے بعد دیکھایا۔۔۔ پتہ نہیں۔۔تم نے کیا سوچا تھا مجھے اسطرح بیچ راستے میں چھوڑ کر۔۔۔ تم نے کون سا تخت فتح کرنا تھا۔۔۔ اگر آج تخت تم کو ملا بھی۔۔۔ کیا ہے اس کی عزت اور تمھاری کیا خوداری ہے اس میں۔۔ صرف ذلیل اور روسوا ہی ہو رہی ہو۔۔ ۔۔۔۔💔😞😓💔نعیم۔
A Broken Soul.💔👰💏👤💔
.
"Scars have the Strange Power to Remind Us that Our Past is Real".
.
A Dirty Romantic Game.💔💏💔
.
👉My Thoughts😔...My Feelings😓💔...My Emotions😠...What I Want To Say😕...It's My Story😣...In My Broken Words😒👤...Its Painful😥...It's Devastating😢...& It's Hurting Me😭.
.
Mrs. Nighat Seema Khan..👇💔👇
.
In Our Love Story 3 Things Have Been Discribed...My Love♈....Your Lust♌... Our Sin♈N💏N♌.
.
میری کہانی مجھ سے تم تک۔۔۔نگہت سیما خان۔💑💔
.
درد ہوں اس لیے تو اٹھتا ہوں۔۔۔ ذخم ہوتا تو کب کا بھر گیا ہوتا۔۔♈ن💑ن♌
.
مسزز۔ نگہت سیما۔۔ تمھارے اور اپنے بارے میں۔ اپنی اس کہانی میں۔۔۔صرف تین باتوں کا ذکر ہے۔۔۔
("میری مہبت")۔💞۔("تمھاری ہوس")۔👄۔اور۔۔("اپنے گناہ")۔💏
.
The Hidden Lies..Unfolding the Forbidden Love.♈💔💑💔♌
.
A Dirty Romantic - ❤💑❤ Painful True Tale of Passion in Love, Feelings, Emotions, Lust Desires & SIN.😓💔...♈N💑N♌
.
A Married Woman Extramarital Sex & Lust Relationship. (External Marriage Sexual Affairs).
.
💏("Multiple Husbands Wife")👥.
.
The Role Player......of the Slutty Hot🔥HouseWife. A Dirty Game Player♕👰♛- Whore, Mistress-👰-("Mrs. Nighat Seema Khan").
.
مستقکل گھر کا پتہ۔۔۔
(مکان #A-198 بلاک N، گلی # 10، نارتھ ناظم آباد، کراچی)
۔
آج کل۔نگہت سیما۔۔۔۔اسلام آباد کے کسی سیکٹر میں۔۔۔ اپنے ایکس (سید اطہر حسین شاہ)۔۔ جو ایک آنکھوں کا ڈاکٹر ہے اور اپنی پریکٹس بھی کسی جگہ اسلام آباد میں کر رہا ہے اور یہ نگہت سیما۔۔ اسی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے۔۔۔پتہ نامعلوم۔۔۔
♈N💑N♌😢💔😢Courtesy: Original Images (Selfie) Image Makeover & Mockup Card Desgin By Mrs. Nighat Seema. Collage Compose by Naeem.
.
#Mohabbat #Nafrat #Peyar #Nikkah #Talaaq #SaduStory #Loveme #Lover #Sad #SadPoetry #Urdu #Karachi #Northnazimabad #Islamabad #Wedding #Marriage #Wife #Slut #iHateYou #Tears #Romance #NighatSeema #Passion #Pakistani #Divorce #Seema #Pakistan #UrduSadPoetry #UrduPoetry
0 notes
breakpoints · 2 years
Text
سوفی ٹرنر 'پیوریٹی رنگ' روسٹ کے بعد سسرال کے ساتھ مشکل میں
سوفی ٹرنر ‘پیوریٹی رنگ’ روسٹ کے بعد سسرال کے ساتھ مشکل میں
سوفی ٹرنر ‘پیوریٹی رنگ’ روسٹ کے بعد سسرال کے ساتھ مشکل میں سوفی ٹرنر اپنے شوہر جو جوناس کے والدین کے ساتھ بھائیوں کو ان کی پاکیزگی کی انگوٹھیوں پر بھوننے کے بعد گرم پانیوں میں ہے۔ ٹھیک ہے کے مطابق! دی تخت کے کھیل کے دوران ستارے کا مذاق جوناس برادرز فیملی روسٹ اندرونی کا کہنا ہے کہ “اس کے سسرال والوں کے ساتھ اچھا نہیں چل رہا تھا، اسے نرمی سے کہوں”۔ “جو سوچتا ہے کہ سوفی مزاحیہ ہے اور اسے پسند ہے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspost · 4 years
Text
ایمیلیا کلارک کا خیال ہے کہ ماضی کے دماغی زخموں نے اسے COVID-19 سے نمٹنے میں مدد فراہم کی
ایمیلیا کلارک کا خیال ہے کہ ماضی کے دماغی زخموں نے اسے COVID-19 سے نمٹنے میں مدد فراہم کی
Tumblr media
ایمیلیا کلارک کا خیال ہے کہ ماضی کے دماغی زخموں نے اسے COVID-19 سے نمٹنے میں مدد فراہم کی
ایمیلیا کلارک نے موت کے قریب دو تجربات کو چھو لیا اور انکشاف کیا کہ یہ سب کس طرح کوویڈ 19 میں پیش آنے والی ذہنی اذیت سے نمٹنے میں مدد کے لئے اکٹھے ہوئے۔
اس کے لئے رئیسہ برونر کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو کے دوران وقت 100 باتیں، تخت کے کھیلاسٹار نے دن میں دو بار تکلیف دہ اور خوفناک دماغ کی چوٹیں کھولیں اور…
View On WordPress
0 notes