Tumgik
#تاریخ امت مسلمہ
discoverislam · 5 months
Text
دور ابتلاء میں صبر و یقین کی اہمیت
Tumblr media
قرآن کریم نے اہل ایمان کی ہدایت کے لیے تاریخ انسانی سے کچھ واقعات منتخب کر کے پیش کیے ہیں، یہ واقعات زیادہ تر گذرے ہوئے انبیائے کرامؑ اور ان کی قوموں کے ہیں۔ واقعات کا یہ انتخاب چوں کہ اس رب کا ہے جو سب بڑا باخبر اور ہر چیز پر قادر ہے اس لیے ان واقعات میں جہاں عبرت و نصیحت کا ایک جہاں آباد ہے، وہیں زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات اور چیلنجز کے لیے بہترین راہ نمائی اور ہدایات بھی موجود ہیں۔ اس تحریر میں ہم زیادہ واقعات سے تعرض نہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی تاریخ کا صرف ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جو امت مسلمہ کے موجودہ حالات سے بہت ملتا جلتا ہے۔ ساتھ ہی بنی اسرائیل کے ہادی و راہبر ﷲ کے عظیم پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کا ایک مختصر سا خطاب بھی نقل کریں گے، جو آپؑ نے اس موقع سے ارشاد فرمایا تھا، جس میں ہمارے لیے بھی موجودہ حالات میں بہترین راہ نمائی موجود ہے۔ بنی اسرائیل کے جدامجد حضرت یعقوبؑ کا اصلی وطن کنعان نام کی ایک بستی تھی، جو فلسطین کے شہر بیت المقدس سے چند میل کے فاصلے پر واقع تھی، بھائیوں کی بدخواہی اور شرارت نے حضرت یعقوبؑ کے چہیتے فرزند حضرت یوسفؑ کو ان سے جدا کر کے مصر میں پہنچا دیا۔
ﷲ کا کرنا ایسا کہ حضرت یوسفؑ مصر میں کسی عام شخص کے گھر پہنچنے کے بہ جائے عزیز مصر (مصر کے وزیر خزانہ) کے گھر پہنچ گئے، وہاں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر حضرت یوسفؑ کی عفت و پاکیزگی، امانت و دیانت ، علم و آگہی اور فہم فراست کی دھاگ بیٹھ گئی۔ اسی دور میں مصر میں ایک لمبی قحط سالی اور سخت قسم کے غذائی بحران کے آثار ظاہر ہوئے، تو حضرت یوسفؑ نے خوراک اور زرعی انتظام و انصرام کی باگ ڈور شاہ مصر سے درخواست کر کے اپنے ہاتھوں میں لے لی، اور اپنی بہترین منصوبہ بندی اور اچھے نظم و نسق کی ذریعے اس بحران پر قابو پانے میں کام یاب ہو گئے۔ حضرت یوسفؑ کے اعلی اخلاق کی دھاگ دلوں پر تو پہلے ہی بیٹھ چکی تھی، اب اس بہترین حکمت عملی کے ذریعہ جو عظیم احسان انہوں نے اہل مصر پر کیا اس کے آگے ان کی گردن بھی جھک گئی اور انہوں نے ملک کی زمام اقتدار حضرت یوسفؑ کے حوالے کر دی۔
Tumblr media
اس موقع سے حضرت یوسفؑ نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوبؑ اور ان کے پورے خاندان کو کنعان سے بلا کر مصر میں بسا دیا، حضرت یوسفؑ کی عزت و حرمت کی وجہ سے مصر میں بنی اسرائیل کو بھی احترام و اکرام ملا اور عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے، مگر حضرت کے بعد رفتہ رفتہ بنی اسرائیل کی عزت میں فرق آتا گیا، اور چند نسلوں کے بعد وہ اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری بنا دیے گئے اور خدمت و جفاکشی اور بے گاری کے کام جو سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں سے لیے جاتے ہیں وہی بنی اسرائیل سے بھی لیے جانے لگے۔ اِدھر فرعون مصر کو بعض کاہنوں نے یہ پیشین گوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تمہاری یہ عظیم سلطنت برباد ہو جائے گی۔ یہ سننا تھا کہ فرعون نے حکم جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل میں پید اہونے والے ہر لڑکے کو قتل کر دیا جائے، چناں چہ اس پر عمل شروع ہو گیا اور بنی اسرائیل پر ایک ناگہانی قیامت ٹوٹ پڑی، انہی حالات میں ﷲ تعالی نے حضرت موسیؑ کو پیدا فرمایا اور اسباب ایسے پیدا کر دیے کہ حضرت موسیؑ کی پرورش بہ جائے بنی اسرائیل کے خود فرعون کے محل میں ہوئی اور وہ فرعون کے جلادوں سے ہر طرح محفوظ رہے۔
ایک عرصہ کے بعد یہی حضرت موسیؑ، فرعون، اس کی قوم اور بنی اسرائیل طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، ﷲ کے حکم سے حضرت موسیؑ نے فرعون کو معجزات دکھائے اور اس کے سامنے دو مطالبات رکھے، ایک یہ کہ ﷲ پر ایمان لائے اور اپنے رب ہونے کا دعوی ترک کر کے، اور دوسرے بنی اسرائیل کو آزاد کر دے تاکہ حضرت موسیؑ ان کو مصر سے نکال کر ان کے اصلی وطن کنعان میں لے کر جا کر بسائیں۔ فرعون آسانی سے ان مطالبات کو تسلیم کرنے والا کب تھا۔ اس نے موسیؑ کو مات دینے کے لیے جادوگروں کو بلا کر حضرت موسیؑ سے مقابلہ کرایا، جادوگروں نے فاتحانہ انداز میں اپنے جادو کے جوہر دکھائے اور سمجھے کہ ان کا جادو سر چڑھ کر بولے گا، مگر ﷲ کے حکم سے موسیؑ کے عصا نے اژدھا بن کر جب ان کے جادو کو نگلنا شروع کیا تو سارا جادو ملیا میٹ ہو گیا، جادوگروں کو سمجھ میں آگیا کہ موسیؑ کے پاس جادو سے مارواء کوئی طاقت ہے، اور وہ فوراً موسیؑ کے رب پر ایمان لاکر بے اختیار اس کے حضور میں سجدہ ریز ہو گئے۔
اس مقابلے میں حق نے تاریخی فتح پائی اور فرعون کو سخت خفت اٹھانی پڑی، اس نے محسوس کیا کہ اگر موسیؑ کی مقبولیت اسی طرح بڑھتی رہی، تو آگے چل کر اس کی حکومت کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ موسیؑ سے کچھ کہنے کی جرأت تو تھی نہیں، اس لیے بنی اسرائیل کو بچوں کے قتل کی دھمکی دے ڈالی اور ان پر عبادت گاہوں میں نماز کی ادائیگی پر پابندی بھی عاید کر دی گئی۔ جو کچھ اوپر لکھا گیا وہ درحقیقت تمہید تھی، مقصد بنی اسرائیل کے وہ حالات پیش کرنے ہیں جو اس دھمکی کے بعد پیش آئے، واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل اس دھمکی سے سخت گھبرائے اور پریشان ہوئے، اس سراسیمگی میں بعض لوگوں نے تو حضرت موسیؑ سے یہ بھی کہہ دیا، مفہوم: ’’موسی ساری پریشانیاں تمہاری وجہ سے ہیں۔ تمہاری پیدائش کے موقع پر بھی ہم اس ناقابل برداشت عذاب سے گذرے اور آج پھر اسی مصیبت کا پھر سامنا ہے۔‘‘ (اعراف) بنی اسرائیل مصر میں ایک چھوٹی سے اقلیت کی شکل میں زندگی گذار رہے تھے، حکومت و اقتدار سے دور تھے۔
فرعون کے لوگوں نے انہیں ہر طرح سے بے بس اور کم زور بنا رکھا تھا، ان پر جو بھی ستم کرنا چاہتے تھے، طاقت کے بل بوتے پر آسانی سے کرسکتے تھے اور کر رہے تھے، بنی اسرائیل فرعون کے قلمرو میں ناعزت و سکون سے رہ سکتے تھے نا کہیں بھاگ سکتے تھے، اور فرعون کی مستحکم اور مضبوط حکومت کو دیکھتے ہوئے یہ بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ حکومت جلد یا بہ دیر ختم ہونے والی ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل کی پریشانی بالکل بجا تھی، ان مایوس کن اور سخت پریشانی کے حالات میں ﷲ کے پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کیا اور فرمایا حضرت موسیؑ نے اپنی قوم سے کہا، مفہوم: ’’ﷲ سے مدد مانگو اور صبر سے کام لو، یقین رکھو! زمین ﷲ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور آخری انجام پرہیز گاروں ہی کے حق میں ہوتا ہے۔‘‘ ان مشکلات و آزمائش اور خوف و ہراس کے ماحول میں جو فرعون کے قتل اولاد کے اعلان کے بعد پیدا ہُوا تھا حضرت موسیؑ نے اپنے اس مختصر مگر جامع خطاب میں بنی اسرائیل کی تسلی کے لیے چار باتیں ارشاد فرمائیں، جو قدرے وضاحت کے ساتھ پیش خدمت ہیں:
٭ پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ ﷲ سے مدد مانگو، حالات کہیں بھی پیدا ہوں اور کسی کے ذریعہ بھی پیدا ہوں ان کے پس پردہ ﷲ کی مشیت اور ارادہ کام کر رہا ہوتا ہے، اس کے ارادے اور مشیت کے بغیر کوئی پتہ بھی شاخ سے ٹوٹ کر زمین پر نہیں گرتا، لہٰذا جب سارے فیصلے اسی قادر مطلق کے حکم سے ہوتے ہیں، تو عقل و دانائی کی بات یہی ہے کہ اسی کے در کو کھٹکھٹایا جائے، اسی کی چوکھٹ پر پیشانی رگڑی جائے۔ اسی سے اپنی ناتوانی، بے بسی اور عاجزی کا اظہار کیا جائے، اور بار بار رجوع کر کے اس کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر مشکل حالات میں ﷲ سے مدد مانگنے اور اس سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے، اور ﷲ کے مقرب و نیک بندوں کے کئی واقعات نقل کر کے بتایا ہے کہ جب انہوں نے مشکل حالات میں ﷲ کو پکارا تو ﷲ نے کس طرح ان کی پکار سنی، اور کیسے اس کی رحمت نے ان کی فریاد رسی کی۔ ٭ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ صبر و ہمت سے کام لو، صبر اور ہمت ایک بڑی مضبوط ڈھال ہے، اس کے ذریعہ مشکل حالات میں اپنے وجود اور اپنے فکر و عقیدے پر باقی رہنا آسان ہوتا ہے�� صبر یہ ہے کہ آدمی آزمائشوں کے دیکھ کر نہ گھبرائے نہ حواس باختہ ہو، بلکہ اپنے اعصاب پر قابو رکھے۔
مشکلات کو جھیلنے کے لیے اپنے ذہن کو تیار کرے، اور ناگواریوں کو ﷲ کے لیے گوارا کرتا رہے، اور صبر میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی فکر و عقیدے اور اپنے دین پر ثابت قدم رہے، خوف یا لالچ کی وجہ سے اس سے دست بردار نہ ہو جائے۔ جو بھی اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ اس کے مولی کی مشیت اور ارادے سے ہوتا ہے، اور جو بھی اس سچائی کو تسلیم کرتا ہے دین کی خاطر اور ﷲ کی رضا کے لیے جو بھی قربانی دی جائے، جو بھی نقصان اٹھانا پڑے، جو بھی قیمت چکانی پڑے، جو بھی غم جھیلنے پڑیں، اس پر ﷲ کی طرف سے اجر ملتا ہے، درجے بلند ہوتے ہیں اور گناہوں کی معافی ہوتی ہے، اس کے لیے ہر حال کو ﷲ کا ایک فیصلہ سمجھ کر گوارا کر لینا، اور ہر کٹھن گھڑی سے دین و ایمان کی سلامتی کے ساتھ اپنے کو نکال لینا آسان ہو جاتا ہے۔ ٭ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ یہ زمین ﷲ کی ہے، وہی جسے چاہتا ہے اس کا مالک اور حاکم بناتا ہے اور جسے چاہتا ہے حکومت اقتدار سے بے دخل کرتا ہے، وہ اگر کسی کو بے دخل کرنا چاہے تو مضبوط حکومتیں تار عنکبوت کی طرح بکھر جاتی ہیں، اور کل کے سرکش فرماں رواؤں کا شاہانہ جلال و طمطراق دیکھتے ہی دیکھتے سامان عبرت اور داستان پارینہ بن کر رہ جاتا ہے، یہ ایک ایسی سچائی ہے جو انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے۔
اس دل کو امید و عزم سے لبریز کرتی ہے، اور ظالموں کے سامنے سینہ سپر ہونے، اور ظالم کی مرضی کے خلاف اپنے موقف پر اڑ جانے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے، اس حقیقت کے اظہار کے ذریعہ حضرت موسیؑ نے بنی اسرائیل کو یہ پیغام دیا کہ فرعون جس کی بادشاہت کے کھونٹے بڑی مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں، تم یہ بات دل سے نکال دو کہ وہ سدا اسی طرح باقی رہے گی، اور ہمیشہ تمہارے اوپر اس کا اختیار چلتا ہی رہے گا، زمین ﷲ کی ہے جب تک ﷲ کو فرعون کا رہنا منظور ہے وہ رہے گا، اور جس دن ﷲ کو کچھ اور منظور ہو گا تو یہ مضبوط بادشاہت اسی دن تہس نہس ہو جائے گی۔ غزوہ خندق کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے پیشین گوئی کی تھی کہ روم و ایران کی سلطنتیں میری امت کے قبضے میں آجائیں گی، تو منافقین اور کفار نے بڑا مذاق بنایا تھا کہ کھانے کو ہے نہیں، بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں، اور خوف کا عالم یہ ہے کہ رات دن ایک کر کے دشمنوں سے بچاؤ کے لیے خندق کھود رہے ہیں، حالات تو یہ ہیں اور خواب دیکھ رہے ہیں کہ قیصر و کسری کی سلطنتوں کے مالک بنیں گے۔
اس موقع پر ﷲ تعالی نے آیت کریمہ نازل فرمائی، جس میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ ﷲ تعالی کی قدرت میں سب کچھ ہے، وہ جس طرح کائنات عالم میں دن کے اجالے کو تاریکی شب کی چادر سے ڈھانپ دیتا ہے، اور رات کی سیاہی کی جڑ سے صبح کی پو پھوڑ دیتا ہے، اسی طرح وہ انسانی دنیا میں حکومت و اقتدار میں بھی تبدیلیاں لا سکتا ہے، جب وہ کسی کو اقتدار دینا چاہے گا تو کوئی روک نہیں سکے گا، اور جب اقتدار کی کرسی اتارنا چاہے گا تو آدمی کی ہر تدبیر الٹی ہی پڑتی چلی جائے گی۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور چند ہی سالوں کے بعد ﷲ تعالیٰ نے بے کس و بے سہارا مسلمانوں کو قیصر و کسری کی سلطنت کا مالک بنا دیا، ﷲ تعالی نے فرمایا، مفہوم: ’’کہو اے ﷲ! اے اقتدار کے مالک! تُو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اورجس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کر دیتا ہے۔ تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے، تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ اور تو ہی بے جان چیز میں جان دار کو برآمد کر لیتا ہے اور جان دار میں سے بے جان چیز نکال لاتا ہے، اورجس کو چاہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔،،
ایک مومن اگر ظالم کی قوت و اقتدار پر نظر کرنے کے بہ جائے ﷲ کی قدرت اور اس کی کے ذریعہ لوگوں میں اچھے برے اور عروج و زوال کے دن ادلتے بدلتے رہنے کی سنت پر غور کرے اور اس پر یقین رکھے تو اس کے دل میں ظالم اور اس کے زوال کے بارے میں نہ تو کبھی مایوسی ہو گی اور نہ ہی وہ اس کے آگے خود سپردگی اور اپنے فکر و عقیدے سے برأت کے اظہار پر آمادہ ہو گا، بلکہ اس کے برعکس اس کے دل میں اپنے ایمان و عقیدے کے طاقتور دفاع کی روح پیدا ہو گی۔ ٭ چوتھی بات جس کی طرف حضرت موسیؑ نے بنی اسرائیل کو متوجہ کیا، وہ تقوی اور پرہیزگاری ہے، جو لوگ اپنی خوشی و غمی، امن و خوف، پسند و ناپسند ہر حال میں ﷲ سے ڈر تے ہیں، خوش گواری و ناگواری، اور نفع و نقصان ہر حال میں ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو بجا لاتے ہیں نیک انجام ہمیشہ انہی کا مقدر بنتا ہے۔ اس اچھے انجام کو آدمی کبھی دنیا میں بھی دیکھ لیتا ہے کہ ﷲ تعالیٰ اسے ظالموں کے ظلم سے نجات عطا فرما کر امن و اطمینان کی زندگی عطا کرتا ہے، جیسے فرعون کو ہلاک کر کے بنی اسرائیل کو اور کفار مکہ کے زور کو توڑ کر اہل ایمان کو ﷲ تعالیٰ نے امن و اطمینان سے نوازا تھا، اور اگر ﷲ کی کسی مصلحت کی وجہ سے دنیا میں یہ نیک انجام سامنے نہ بھی آئے تو آخرت میں تو یقینی ہے، اور ایک مومن کے لیے آخرت کی ک��م یابی سے بڑھ کر اور کوئی کام یابی نہیں ہے۔
غور کیا جائے تو معلوم ہو گا آج مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی زندگی بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا مظلومیت اور بے بسی سے بہت ملتی جلتی ہے، حالات جس رخ پر تیزی سے دوڑ رہے ہیں وہ ظاہر بینوں کو مایوسی کی طرف دھکیلتا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم حضرت موسیؑ کے اس موثر وعظ سے تسلی حاصل کریں، اور حضرت نے اپنی قوم کو جن چار باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ہم بھی اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہوں، چناں چہ ہم صبر و ہمت سے کام لیں، ﷲ سے مدد مانگیں، اس پر بھروسا رکھیں اور اس سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں۔ جو ﷲ دن کو رات اور رات کودن میں بدلنے قادر ہے وہی خدا شر کے موجودہ حالات و واقعات سے خیر بھی پیدا کر سکتا ہے، اور سنگ دل ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر امن و امان، صلح و آشتی اخوت و بھائی چارہ اور باہمی محبت کا ماحول کو قائم کر سکتا ہے، جس میں آدمی عافیت کی زندگی جی سکے اور آزادی کے ساتھ اپنے رب کے احکام پر عمل پیرا ہوسکے۔ یہ چار باتیں ایسی ہیں جوہر شخص انفرادی طور پر بھی بہ آسانی انجام دے سکتا ہے، اس کو زندگی میں لانے کے لیے کسی لمبے چوڑے پروگرام اور وسائل کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔ ﷲ تعالیٰ امت کو امن ایمان اور سلامتی اور اسلام کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین
مفتی محمد اجمل قاسمی  
0 notes
minhajbooks · 7 months
Text
Tumblr media
🔰 میلاد النبی ﷺ (تاجدار کائنات ﷺ کی ولادت باسعادت کے بیان پر مشتمل اپنی نوعیت کی منفرد کتاب)
حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کائنات پر اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ ہر سال 12 ربیع الاول کو حضور نبی اکرم ﷺ کا یوم میلاد مذہبی عقیدت و احترام اور جوش و خروش سے منا کر اپنے ایمان کی تازگی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ ایسے میں اسلام کی روحانیت سے عاری مادیت زدہ تعبیر کرنے والے بعض فتنہ پرداز میلاد مصطفی ﷺ منانے کو ناجائز قرار دیتے ہیں، حالانکہ ربط رسالت کے لئے حضور ﷺ کی آمد کے موقع پر اہل اسلام جس قدر جذبے کا اظہار کریں کم ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آغاز دعوت میں ہی میلاد النبی ﷺ کے موضوع کو خصوصی اہمیت دی۔
اس کتاب میں بات بات پر دوسروں کو مشرک اور بدعتی قرار دینے والے لوگوں کے پراپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب دیا گیا ہے اور میلاد مصطفی ﷺ کی شرعی حیثیت کو دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں خلقت محمدی ﷺ، حضور ﷺ کا اسم گرامی محمد ﷺ رکھنے کی وجوہات، ولادت محمدی ﷺ پر اظہار مسرت کی حقیقت، میلاد النبی ﷺ اور تصور بدعت، جشن میلاد النبی کے تقاضے اور دیگر اہم موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور اس سے پیدا کیے جانے والے تمام تر شبہات اور اشکالات کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
🔹 جشن میلاد النبی ﷺ اور شعائر اسلام (تاریخی تناظر میں) 🔹 واقعات مسرت و غم کی یاد 🔹 قرآن۔ ۔ ۔ تذکرۂ میلاد انبیاء 🔹 جشن میلاد النبی ﷺ کا قرآن حکیم سے استدلال 🔹 جشن میلاد النبی ﷺ کا احادیث سے استدلال 🔹 جشن میلادالنبی ﷺ ائمہ و محدثین کی نظر میں 🔹 بلاد اسلامیہ میں جشن میلادالنبی ﷺ کی تاریخ 🔹 میلاد النبی ﷺ پر لکھی جانے والی گراں قدر تصانیف 🔹 قرون اُولیٰ کے مسلمانوں نے جشن میلاد کیوں نہیں منایا؟ 🔹 جشن میلادالنبی ﷺ کے اجزائے تشکیلی 🔹 بیانِ سیرت و فضائل رسول ﷺ 🔹 مدحت و نعت رسول ﷺ 🔹 صلوٰۃ و سلام 🔹 قیام 🔹 اہتمام چراغاں 🔹 اطعام الطعام (کھانا کھلانا) 🔹 جلوس میلاد 🔹 جشن میلاد النبی ﷺ کے نمایاں پہلوؤں پر اجمالی نظر 🔹 کیا میلادالنبی ﷺ منانا بدعت ہے؟ 🔹 جشن میلادالنبی ﷺ کی اعتقادی حیثیت
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 832 قیمت : 1500 روپے
📗 پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/urdu/book/79/The-Birth-of-the-Holy-Prophet-PBUH
💬 رابطہ خریداری https://wa.me/p/6916217205118025/923097417163
1 note · View note
risingpakistan · 1 year
Text
توشہ خانے کا کڑوا سچ
Tumblr media
آج کل ہر طرف توشہ خانہ کا شور ہے۔ ایک عام پاکستانی شاید توشہ خانہ کے متعلق کچھ جانتا بھی نہ ہو لیکن ہمارے حکمرانوں اور ہماری اشرافیہ نے ہم سب کو توشہ خانہ ازبر کرا دیا ہے۔ توشہ خانے سے سرکار کا مال ’’مال مفت دل بے رحم ‘‘ کے مصداق وصول کرنے والوں میں صرف عمران خان ہی نہیں توشہ خانہ کے حمام میں سب ننگے دکھائی دے رہے ہیں۔ توشہ خانہ دراصل کیا ہے عوام کی آسانی کے لیے یہ ایک اردو اصطلاح ہے۔ اسلامی تناظر میں یہ وہ جگہ ہوتی تھی جہاں قیمتی اشیائ، جیسے سونا، چاندی، زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء کا ذخیرہ محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں جب اسلامی ریاست تیزی سے پھیل رہی تھی، مسلمانوں نے مال غنیمت اور مفتوحہ زرخیز زمینوں سے خراج کے طور پر بے پناہ دولت اور خزانے حاصل کیے تو اس وقت ان قیمتی اشیاء کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک مرکزی ذخیرہ خانہ قائم کیا گیا جسے توشہ خانہ کہا جاتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں توشہ خانہ کا انتظام خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا اور اس امر کا بہت خیال رکھا کہ امت مسلمہ کے مال کی تقسیم منصفانہ ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد توشہ خانہ کا انتظام خلفائے راشدین اور ان کے مقرر کردہ دیگر عہدیداروں نے کیا۔ توشہ خانہ اسلامی دنیا کی پوری تاریخ میں اسلامی طرز حکمرانی میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ مسلمانوں کی دولت کو ذخیرہ کرنے کے علاوہ توشہ خانہ کو خیراتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ توشہ خانہ میں سے ذخیرہ شدہ فنڈز اور وسائل غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد، عوامی کاموں اور بنیادی ڈھانچے کی مالی اعانت اور مختلف مذہبی اور تعلیمی اداروں کی مدد کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ توشہ خانہ کو فوجی مہمات میں جنگی ساز وسامان کی تیاری کے ساتھ ساتھ فوجیوں اور اہلکاروں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ مجموعی طور پر توشہ خانہ اسلامی تاریخ اور حکمرانی کے ایک اہم پہلو کی نمایندگی کرتا ہے اور وسائل کے ذمے دارانہ انتظام کی اہمیت اور مجموعی طور پر معاشرے کی بہتری کے لیے دولت اور وسائل کے استعمال کی ضرورت کی یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔ ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارا واسطہ توشہ خانے کے ان محافظوں سے پڑا ہے جو اس پر حق ملکیت جتا کر اس کی حفاظت کے بجائے اس کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔
Tumblr media
توشہ خانے کی جو تفصیلات عدالتی حکم پر حکومت نے عوام کے سامنے رکھی ہیں اس کے مطابق عوام کے مال پر بے رحم اشرافیہ نے توشہ خانے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور اشرافی طبقے میں پاک دامنی کا دعویدار کوئی بھی شخص ریاست کو موصول شدہ تحائف کے حصول سے اپنا دامن نہیں بچا سکا کجا کہ یہ ریاستی تحائف جو مختلف ممالک کی جانب سے ریاست پاکستان کے عہدیداروں کو غیر ممالک کے دوروں کے موقعے پر بطور تحفہ دیے جاتے ہیں اور ان میں سے بعض کا شمار تو نوادرات کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ ان تاریخی تحائف کو ان کی اصل قیمت سے کہیں کم لاگت کا حساب کتاب لگا کر اونے پونے داموں بغل میں چھپا لیا جاتا ہے اور اس معمولی قیمت کی ادائیگی کر کے اپنے دل کو تسلی دے دی جاتی ہے کہ فرض ادا ہو گیا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ ریاستی تحائف اصل لاگت سے بھی زیادہ قیمت میں بولی لگا کر فروخت کرنے چاہئیں اور ان کی فروخت سے حاصل شدہ رقم کو قومی خزانے میں جمع کر کے اسلامی طرز معاشرت کی پیروی کرتے ہوئے اس کے وسائل کوغریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد اور مالی اعانت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
بصد احترام عرض ہے کہ اشرافی طبقے کے جن سیکڑوں امراء کے نام توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف کی قطار میں نظر آرہے ہیں، کیا وہ اس کے مستحق تھے کہ ایک غریب ریاست کو حاصل شدہ تحائف کو اونے پونے داموں وصول کر کے اپنے استعمال میں لے آئیں۔ بالکل بھی نہیں کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جس کے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہیں اور وہ اس طرح کے کئی تحائف کسی بھاؤ تاؤ کے بغیر خریداری کی سکت رکھتا ہے لیکن کیا کیا جائے اس لالچ اور حرص کا جس نے مملکت خداداد کے وسائل کو اس طبقے پر حلال قرار دے رکھا ہے اور ان کے اپنے ہی بنائے ہر قانون اور ضابطے کے تحت وہ ان تحائف کی اونے پونے داموں خریداری کے حقدار بھی بن جاتے ہیں۔ عوام تو ان تحائف کی تصویریں دیکھ کر ہی آہیں بھرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ پاکستان کو مزید تحائف ملتے رہیں تا کہ ہمارا یہ بے رحم اشرافی طبقہ ان تحائف کو وصول کر کے اپنی من کی مراد پوری اور اپنے لالچ اور حرص کی پیاس بجھاتا رہے۔ 
توشہ خانے کا یہ قصہ جو اسلامی معاشرے میں غریبوں کی مالی اعانت ��ے شروع ہوا تھا وہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک اسلامی ملک میں اشرافی طبقے کی مالی اعانت میں تبدیل ہو کر ان کے لیے اعلیٰ نسل کی گھڑیوں اور مشہور زمانہ مرسیڈیز گاڑیوں کے حصول کے بعد تسکین کا ذریعہ بن چکا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے یہ نام نہاد بڑے لوگ توشہ خانے میں موجود چھوٹی چھوٹی اشیاء جن کی قیمت کا تعین نہیں ہو سکا، ان کو بھی بلا قیمت اپنے دامن میں سمیٹنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، آج کا کڑوا سچ یہی ہے۔
اطہر قادر حسن 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
azharniaz · 1 year
Text
”اکبرالہ آبادیؒ“ تحریر ڈاکٹر ساجد خاکوانی
”اکبرالہ آبادیؒ“ تحریر ڈاکٹر ساجد خاکوانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم ”اکبرالہ آبادیؒ“ (16نومبر،تاریخ پیدائش کے موقع پر خصوصی تحریر) ڈاکٹر ساجد خاکوانی (قلم کاروان،اسلام آباد) [email protected] تاریخ انسانی میں کم و بیش بتیس اقوام یاتہذیبوں کاذکرملتاہے جو غلامی کی اندھیری غارمیں دھکیلی گئیں اور پھرہمیشہ کے لیے کرہ ارض کے سینے سے انتقال کرکے تاریخ کے صحیفوں میں دفن ہو گئیں۔امت مسلمہ پر بھی تقریباََتین سوسالوں تک غلامی کے مہیب سائے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
edukandotpk · 3 years
Text
تاریخ امت مسلمہ
الحمدللہ!
جلد چہارم منظر عام پر آچکی ہے!!!
مصنف :مولانا اسماعیل ریحان صاحب
جلد چہارم: تاریخ صقلیہ، صلیبی جنگیں، یورشِ تاتار، دولت ایوبیہ، دولت ممالیک، تاتاریوں میں اشاعتِ اسلام، تاریخ برصغیر، سلطنت عثمانیہ، دور تاسیس و استحکام، دولت اسلامیہ اندلس، دورِ تاسیس تا دور مرابطین و مؤوحدین، امت مسلمہ کی فکری و نظریاتی رہنمائی کرنے والے ائمہ مجددین، فقہاء اور صوفیاء کی جدوجہد کا تذکرہ۔
رعایتی قیمت صرف Rs.899
آرڈر کے لئے اپنا نام مکمل پتہ اور موبائل نمبر بھیجیں۔دو سے تین دن کے اندر آپ کو ٹی سی ایس سے کتاب موصول ہو جائے گی۔
03000874700
https://edukan.pk/product/tareekh-ummat-e-muslima-by-maulana-ismail-rehan/
Tumblr media
0 notes
pakistan-news · 2 years
Text
او آئی سی کی تاریخ کیا ہے؟
اکیس اگست 1969 کو ایک آسٹریلوی عیسائی ڈینس مائیکل نے یروشلم میں مسجد اقصی میں موجود 800 سالہ قدیم منبر کو آگ لگا دی جس کی لپیٹ میں مسجد اقصیٰ کی چھت بھی آ گئی۔ اِس واقعہ کے بعد پورے عالمِ اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اُس وقت کے مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی نے سخت احتجاج کیا اور پورے عالمِ اسلام کو اِس واقعہ پر مضبوط موقف اختیار کرنے کی دعوت دی۔ مفتی اعظم فلسطین کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا، جن کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم دنیا کے سربراہ اکٹھے ہوئے۔
او آئی سی کی بنیاد کب رکھی گئی؟ 25 ستمبر 1969 کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس کے چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزراء خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدہ کیا۔ 1972 میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال منعقد ہو گا جبکہ سربراہی اجلاس ہر تین سال بعد منعقد ہوا کرے گا۔
او آئی سی کا مقصد  او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا کہ، اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کے فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہی اجلاسوں کی تاریخ  اسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہی اجلاسوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس ابھی تک واحد کانفرنس ہے جس میں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کو کامیاب کرنے میں بھی سعودی سربراہ شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہی وہ کانفرنس تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی اور یاسر عرفات عالمی لیڈر بن کر اُبھرے۔ پاکستان میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں پہلی دفعہ فلسطین کو علیحدہ مملکت کا اسٹیٹس دیا گیا، بعد میں اسی بنیاد پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ 1974 میں لاہور میں منعقد ہونے والی سربراہ کانفرنس میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، فلسطین سے ہی یاسر عرفات، شاہ فیصل، یوگنڈا سے عیدی امین، تیونس سے بومدین، لیبیا سے کرنل قذافی، مصر سے انور سادات، شام سے حافظ الاسد، بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمان، ترکی سے فخری کورو سمیت تمام بڑے رہنما شریک تھے۔
اس تنظیم کے عروج کا یہ عالم تھا کہ 1980 میں پاکستان کے صدر محمد ضیاء الحق نے امت مسلمہ کے متفقہ لیڈر کے طور پر اقوامِ متحدہ سے خطاب کیا اور ان کے خطاب سے قبل ریکارڈڈ تلاوت قرآن بھی چلائی گئی اور پھر زوال کا یہ عالم ہوا کہ ایران عراق جنگ کو بند کرانے میں ناکامی ہوئی، یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ فورم غیر موثر ہوتا چلا گیا۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل جوں کے توں رہے۔ کویت پر صدام حسین کے حملے کا آبرو مندانہ حل نہ نکل سکا۔ او آئی سی کے ساتھ ایک دردناک حقیقت یہ بھی وابستہ ہے کہ اس کے عروج سے جڑے تمام کردار آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مر گئے لیکن تاریخ میں آج بھی ان کا نام محفوظ ہے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس  سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال اور غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کی تشویشناک صورتحال اور سنگین انسانی بحران کے خدشے کے باعث پاکستان کی کوششوں سے سعودی عرب کی دعوت پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر 2021 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا تھا اور اب تین ماہ کے قلیل عرصے میں یہ اجلاس دوبارہ پاکستان میں منعقد ہوا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
حرمین شریفین کے تحفظ کیلیے تیار ہیں، صدر ڈاکٹر علوی - اردو نیوز پیڈیا
حرمین شریفین کے تحفظ کیلیے تیار ہیں، صدر ڈاکٹر علوی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ پوری پاکستانی قوم حرمین شریفین کے تحفظ کیلیے تیار ہے۔  صدر ڈاکٹر عارف علوی نے پاک۔سعودی تعلقات اور ماضی، حال اور مستقبل کے موضوع پر سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی تاریخ طویل ہے، دونوں ملکوں نے ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا،امت مسلمہ ہرمعاملے میں قیادت کیلیے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
آہ!جموں و کشمیر کے قائداعظم بھی چل بسے
آہ!جموں و کشمیر کے قائداعظم بھی چل بسے
تحریک آزادی کشمیر کی توانا آواز سمجھے جانے والے حریت رہنما سید علی گیلانی 92 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ وہ یکم ستمبر کی شام اپنے گھر میں رحلت پاگئے ہیں۔ قابض بھارتی فوج نے سید علی گیلانی کو گزشتہ 12 برس سے سرینگر میں گھر میں مسلسل نظر بند کر رکھا تھا، جس کی وجہ سے ان کی صحت انتہائی گر چکی تھی۔ کشمیر ی عوام کی آزادی کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی ۔ سید علی گیلانی وہ نام تھا جس سے بھارتی حکومت ہی نہیں بلکہ بھارتی افواج بھی ڈرتی تھی۔
سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے  ۔ سید علی گیلانی نے اورینٹل کالج لاہور سے ادیب عالم اور کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1949 میں ان کا بحیثیت استاد تقرر ہوا اور مستعفی ہونے سے پہلے 12 سال تک وہ کشمیر کے مختلف سکولوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔1950میں سید علی گیلانی کے والدین نے پڑوسی ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور ہجرت کی۔1953 میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ وہ پہلی بار 28 اگست 1962 کو گرفتار ہوئے اور 13 مہینے کے بعد جیل سے رہا کیے گئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کا 14 سال سے زیادہ کا عرصہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا جبکہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے وہ اپنے گھر میں نظربند تھے۔
گیلانی کشمیر میں 15 سال تک اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ اسمبلی کے لیے تین بار 1972، 1977 اور 1987 میں سوپور کے حلقے سے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ 
انہوں نے 30 اگست 1989 کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔سید علی گیلانی نے جماعت اسلامی میں مختلف مناصب بشمول امیر ضلع، ایڈیٹر اذان، قائم جماعت اور قائم مقام امیر جماعت کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ بعد میں سید علی گیلانی نے تحریکِ حریت کے نام سے اپنی جماعت بنائی۔انہوں نے جموں و کشمیر میں مزاحمتی حامی جماعتوں کی ایک جماعت ’کل جماعتی حریت کانفرنس‘ کے ایک دھڑے کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، تاہم گزشتہ برس جون میں انہوں نے اس فورم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔
92 سالہ سید علی گیلانی کچھ عرصے سے بیمار اور مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا تھے۔ ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا۔ ان کا پِتہ اور ایک گردہ نکالا جاچکا تھا جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا تھا۔اتنی بیماریوںکے باوجود کشمیر ی عوام کی محبت کی خاطر انہوں نے ہندوستان کی حکومت سے جنگ جاری رکھی۔ انہوں نے اپنی صحت کا پس پشت ڈال کر کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ سید علی گیلانی سیاست دان ہی نہیں بلکہ وہ مصنف بھی تھے۔انہوں نے 30 سے زائد کتابیں لکھیں۔
جموں کشمیر کی آزادی کے لیے جہاں بہت سارے لوگوں نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں انہیں میں آج ان کا نام بھی شامل ہوگیا ۔ سید علی گیلانی کشمیر کے قائداعظم تھے۔ وہ ہمیشہ پاکستان کے حامی تھے۔ ان کانام تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔
ہندوستان کی حکومت جو کشمیری عوام کے ساتھ شروع دن سے آج تک دشمنی نبھاتی آرہی ہے انہوں نے سید علی گیلانی کی وفات پر بھی وہ دشمنی جاری رکھی۔ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار کہنے والے آج علی گیلانی کی وصیت پر بھی عمل نہیں کراسکے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ علی گیلانی نے اپنی وصیت میں کیا کہا تھا مگر نہیں جانتے تو ایک ہندوستانی حکمران اور دوسرے انسانی حقوق کے علمبردار۔
سنیئر حریت رہنما سید علی گیلانی مرحوم کی آخری وصیت اس وقت پوری امت مسلمہ میں گردش کر رہی ہے، بھارتی فوج نے مرحوم کی آخری وصیت پر عمل نہ کرتے ہوئے انہیں منہ اندھیرے، چپ چاپ اپنی مرضی کی جگہ پر دفنا دیا جس سے ان کی وصیت کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اسے انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ حریت رہنما سید علی گیلانی وصیت تھی کہ انہیں شہدا کے قبرستان میں دفن کیا جائے مگر بھارتی فوج نے ایسا نہیں ہونا دیا اور ان کی وفات کے ساتھ ہی رات گئے حیدر پورہ کے قبرستان میں ان کی قبر کھود لی۔
 سیدعلی گیلانی کی موت ہندوستان حکومت کی قید میں واقع ہوئی ہے جس سے ہندوستان حکمرانوں کی پوزیشن واضح ہوتی ہے کہ وہ علی گیلانی سے کتنے خوفزدہ تھے۔ ان کی موت کوطبعی ہوئی یا کہیں ہندو سامراجوں کی کوئی چال؟ یہ تو اب اللہ ہی فیصلہ کرے گایا میڈیکل؟
سید علی گیلانی کی موت کشمیری عوام کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے مگر اس سے انکار نہیں وہ اپنے بعد بہت سے علی گیلانی چھوڑگئے ہونگے جو ان کی کمی کو پورا تو نہیں کرسکتے مگر پورا کرنے کے کوشش ضرور کریں گے اور ایک دن ضرور آئے گا جب کشمیر آزاد ہوگا اور لوگ سید علی گیلانی کو کشمیری عوام کا قائداعظم کہہ رہے ہونگے۔ان شاء اللہ
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
fastnewshd · 3 years
Text
نواسہ رسول ﷺ نے اہل بیت اور جانثار ساتھیوں کے ہمراہ ظلم و استبداد کی قوتوں کو للکارا ،اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور دین اسلام کو حیات نو بخشی- صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی
نواسہ رسول ﷺ نے اہل بیت اور جانثار ساتھیوں کے ہمراہ ظلم و استبداد کی قوتوں کو للکارا ،اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور دین اسلام کو حیات نو بخشی- صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی
اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے یوم عاشور 10 محرم الحرام  1443ھ/2021ءکے موقع پر کہا ہے کہ یوم عاشور نہایت عظمت اور احترام کا حامل دن ہے، اسلامی اور انسانی تاریخ کے متعدد عظیم واقعات اس سے منسلک ہیں لیکن امت مسلمہ کے نزدیک یوم عاشور کا مقام جس تاریخی واقع کی نسبت سے بلند ترین ہے وہ عالی مقام امام حسین ؓ کی شہادت ہے۔ ایوان صدر کے پریس ونگ کی جانب سے جاری یوم عاشور کے موقع پر جاری خصوصی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 3 years
Text
شہادت حسین ؓ امت مسلمہ کیلئے ایک سبق
شہادت حسین ؓ امت مسلمہ کیلئے ایک سبق
شہادت حسین ؓ امت مسلمہ کیلئے ایک سبق اسلامی سال کا پہلا مہینہ جسے محرم الحرام کہا جاتا ہے اپنی گوناگوں پیچ و خم، عشق و وفا، ایثار و قربانی اور بے شمار فضیلت ومرتبت کی دولت بے بہا سے معمور و سربلند ہے، محرم الحرام کے مہینے میں ایک دن ایسا بھی ہے جس کے مراتب و فضائل قرآن مقدس و احادیث نبویہ اور سیرت و تاریخ کی کتابوں میں بھرے ہوئے ہیںوہ دن ’’ یومِ عاشورہ‘‘ کہلاتا ہے ارشادربانی ہے’’بے شک مہینوں کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
islam365org · 3 years
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/hadith-and-naat-collection/scientific-calculation-fitna-ghamdiyat-prof-muhammad-rafiq-chaudhry/
Scientific calculation of fitna ghamdiyat by Prof. Muhammad Rafiq Chaudhry
#742
مصنف : پروفیسر محمد رفیق چودھری
مشاہدات : 24385
فتنہ غامدیت کا علمی محاسبہ
ڈاؤن لوڈ 1 
اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں جنم لینے والے بعض فتنوں مثلاً خوارج،معتزلہ،باطنیہ،قادیانیت اور انکار حدیث کی طرح دور حاضر میں ایک بڑا فتنہ تجدد پسند الحادی فکر ہے جس کا مقصد امت مسلمہ کو اس کے ماضی سے کاٹ دینا اور اسے دین اسلام کی چودہ سو سالہ متفقہ اور متوارث تعبیر سےمحروم کر دینا ہے۔جناب جاوید احمد غامدی اسی تجدید پسند الحادی فکر کے علمبر دار ہیں اور تحریر و تقریر اور میڈیا کے ذریعے اس فکر کو پھیلانے میں سر گر م  عمل ہیں۔موصوف اسلامی جہاد کے مخالف ہیں،قرآن مجید کی معنوی تحریف کرتے ہیں،حدیث و سنت کی حجیت کو نہیں مانتے اور حدیث کو دین کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔اجماع امت کے منکر ہیں،شرعی اصطلاحات کے معنی بدلتے ہیں اور مغربی تہذیب کو مسلم معاشرے میں رائج کرنے کے لیے  ہمہ وقت کوشاں ہیں۔زیر نظر کتاب میں غامدی صاحب کے افکار و تطریات کا علمی و تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے،جس سے قارئین کو غامدی تصورات کی حقیقت جاننے کا موقع ملے گا۔اس کتاب سے بحیثیت مجموعی اتفاق کے باوجود انداز تحریر اور بعض مندرجات سے اختلاف ممکن ہے۔(ط۔ا)
0 notes
minhajbooks · 2 years
Text
Tumblr media
🔰 میلاد النبی ﷺ (تاجدار کائنات ﷺ کی ولادت باسعادت کے بیان پر مشتمل اپنی نوعیت کی منفرد کتاب)
حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کائنات پر اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ ہر سال 12 ربیع الاول کو حضور نبی اکرم ﷺ کا یوم میلاد مذہبی عقیدت و احترام اور جوش و خروش سے منا کر اپنے ایمان کی تازگی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ ایسے میں اسلام کی روحانیت سے عاری مادیت زدہ تعبیر کرنے والے بعض فتنہ پرداز میلاد مصطفی ﷺ منانے کو ناجائز قرار دیتے ہیں، حالانکہ ربط رسالت کے لئے حضور ﷺ کی آمد کے موقع پر اہل اسلام جس قدر جذبے کا اظہار کریں کم ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آغاز دعوت میں ہی میلاد النبی ﷺ کے موضوع کو خصوصی اہمیت دی۔
اس کتاب میں بات بات پر دوسروں کو مشرک اور بدعتی قرار دینے والے لوگوں کے پراپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب دیا گیا ہے اور میلاد مصطفی ﷺ کی شرعی حیثیت کو دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں خلقت محمدی ﷺ، حضور ﷺ کا اسم گرامی محمد ﷺ رکھنے کی وجوہات، ولادت محمدی ﷺ پر اظہار مسرت کی حقیقت، میلاد النبی ﷺ اور تصور بدعت، جشن میلاد النبی کے تقاضے اور دیگر اہم موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور اس سے پیدا کیے جانے والے تمام تر شبہات اور اشکالات کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
🔹 جشن میلاد النبی ﷺ اور شعائر اسلام (تاریخی تناظر میں) 🔹 واقعات مسرت و غم کی یاد 🔹 قرآن۔ ۔ ۔ تذکرۂ میلاد انبیاء 🔹 جشن میلاد النبی ﷺ کا قرآن حکیم سے استدلال 🔹 جشن میلاد النبی ﷺ کا احادیث سے استدلال 🔹 جشن میلادالنبی ﷺ ائمہ و محدثین کی نظر میں 🔹 بلاد اسلامیہ میں جشن میلادالنبی ﷺ کی تاریخ 🔹 میلاد النبی ﷺ پر لکھی جانے والی گراں قدر تصانیف 🔹 قرون اُولیٰ کے مسلمانوں نے جشن میلاد کیوں نہیں منایا؟ 🔹 جشن میلادالنبی ﷺ کے اجزائے تشکیلی 🔹 بیانِ سیرت و فضائل رسول ﷺ 🔹 مدحت و نعت رسول ﷺ 🔹 صلوٰۃ و سلام 🔹 قیام 🔹 اہتمام چراغاں 🔹 اطعام الطعام (کھانا کھلانا) 🔹 جلوس میلاد 🔹 جشن میلاد النبی ﷺ کے نمایاں پہلوؤں پر اجمالی نظر 🔹 کیا میلادالنبی ﷺ منانا بدعت ہے؟ 🔹 جشن میلادالنبی ﷺ کی اعتقادی حیثیت
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 832 قیمت : 850 روپے
پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/urdu/book/79/The-Birth-of-the-Holy-Prophet-PBUH
📲 موبائل ایپ ڈاؤنلوڈ کریں https://get.minhajbooks.com
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/p/5481225695227484/923097417163
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
علم : اندھیروں سے روشنی کا سفر
علم کی ہر دور میں اہمیت اور ضرورت رہی، جن لوگوں نے کامیاب زندگی گزاری، ان کو علم سے روشنی اور راہِ عمل ملی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ علم حاصل کرنے والے کی زندگی ناکام اور نامراد ہو۔ صدیوں سے علم کو کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے، کتابوں کا دور شروع ہونے سے قبل ��لم کا سلسلہ زبانی اور سینہ بہ سینہ تھا۔ انسان کا حافظہ بہت تیز تھا اور ایک دوسرے سے زبانی طور پر علم حاصل کرتے تھے۔ کاغذ کا دور شروع ہونے سے بھی صدیوں قبل کتابیں لکھی جانے لگی تھیں، چمڑے پر، درختوں، پتھروں اور دیگر اشیاء پر۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سا علم حاصل کیا جائے؟ کیوںکہ علم تو سمندر ہے اور کوئی اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکا۔ بنیادی طور پر ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہمیں کس نے پیدا کیا؟ کیوں پیدا کیا؟ کس لیے پیدا کیا؟
ہماری دنیا میں آمد کا مقصد کیا ہے، دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کیا ہے، ہمارے شہر، ہمارے ملک، امت مسلمہ اور دنیا کی تاریخ کیا ہے، ایسا کیا کریں کہ ہماری زندگی کامیاب گزرے، علم اور ادب، شعر وسخن، وغیرہ وغیرہ کیا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب کتابوں ہی سے مل سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا صرف معلومات دے سکتی ہے، علم نہیں۔ ہوش سنبھالنے یعنی لڑکپن سے جوانی کی حدود میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی ہمیں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے چاہئیں۔ انسان کے مقصد ِ حیات اور زندگی گزارنے کے بنیادی اصولوں کے درست اور جامع جواب ہمیں کوئی انسان دے ہی نہیں سکتا، ان کے جوابات تو ہمارا خالق اور ہمارا ربّ ہی دے سکتا ہے اور اس نے ابتدائے آفرینش سے اس کا اہتمام کیا۔ یعنی آسمانی کتابیں اور انبیاء کی بعثت کا سلسلہ۔ تمام آسمانی کتابوں میں تحریف ہوتی رہی اور سرکش اور مفسد لوگ اور شیطان کے پیروکار انبیاء کو جھٹلاتے رہے۔
صرف آخری آسمانی کتاب یعنی قرآن کریم میں نہ تو کوئی تحریف ہو سکی اور نہ ہی ممکن ہے، کیوںکہ ہمارے ربّ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور عملی قرآن یعنی سرکار دو عالم سیدنا محمد مصطفیٰ ؐ کی ذات بابرکات۔ قرآن اور سنت کی روشنی میں انسان خاص طور پر مسلمانوں کو ان تمام سوالوں کے جواب مل سکتے ہیں، جن کی تلاش میں اگر زمین اور آسمان ایک کر دیے جائیں تو نہ مل سکیں۔ یہ دونوں انسان کی عملی ہدایت کے لازوال سرچشمے ہیں۔ ہر انسان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ کامیاب زندگی گزارے، اس کے پاس دولت ہو، گاڑی ہو، خوبصورت شریک حیات اور بچے ہوں اور کوئی غم اس کے قریب نہ آئے۔ مگر محض آرزو کرنے اور دوسروں کی نقالی کرنے سے یہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ 
قرآن وسنت وہ راستہ دکھاتے ہیں، جن سے دنیا کی زندگی بھی چین اور سکون سے گزرتی ہے اور آخرت م��ں بھی کامیابی مقدر بن جاتی ہے۔ جس وقت بھی یہ احساس ہو جائے کہ علم حاصل کرنا ہے اور اندھیروں سے روشنی میں آنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے چوبیس گھنٹوں کا شیڈول تیار کرنا اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔ پہلے دس دن تو اس امر کا جائزہ لیا جانا چاہیے کہ ہمارے دن اور رات کن کاموں میں صرف ہوتے ہیں۔ اس مشق سے معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا وقت کن کاموں میں گزرتا ہے۔ طالب علم اپنی تدریسی سرگرمیوں، جوان اپنے حصول روزگار، خواتین اپنے گھریلو کاموں اور بوڑھے دیگر کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن دس دن اپنی مصروفیات کو تحریری صورت دینے سے معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا وقت کن کن کاموں میں صرف ہو رہا ہے۔ اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم روزانہ اوسطاً پانچ چھ گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں۔ 
ضرورت سے زیادہ سونے، کھانے پینے، نہانے دھونے، سفر کرنے اور دیگر کام سست رفتاری سے کرنے میں۔ خاص طور پر موجودہ دور میں موبائل فون وقت ضائع کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے اور دوسرا نمبر ٹیلی ویژن اور دوستوں کا ہے۔ اگر کامیاب زندگی گزارنی ہے تو چوبیس گھنٹے کا ٹائم ٹیبل بنا کر فالتو کاموں سے جان چھڑانا ہو گی۔ دیگر اچھے کاموں کے ساتھ ساتھ ہر فرد آسانی کے ساتھ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ مطالعہ کے لیے وقف کر سکتا ہے۔ میں تو ہر ایک کو یہی مشورہ دوں گا کہ صبح سویرے بیدار ہو کر فرائض و واجبات سے فارغ ہو کر قرآن کریم کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر، احادیث اور سیرت النبیؐ اور حیات صحابہ کرام ؓ اور اولیائے کرام ؒ کا تھوڑا تھوڑا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ان کے علاوہ ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، جن میں آپ کو دلچسپی ہو اور دل لگے اور ان کے مطالعہ کے دوران آپ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جائیں، جو آپ کے دل ودماغ کو تازگی بخشیں اور انہیں روشن کر دیں۔ اگر آپ نوجوان ہیں تو مطالعہ سے پہلے اپنے بڑوں اور اساتذہ سے مشورہ کر لیں۔
تعلیمی اداروں میں زیادہ تر وہ علم حاصل کیا جاتا ہے، جو اچھے روزگار کی ضمانت دے سکے، لیکن یہاں اس علم پر زور دیا جارہا ہے، جو آدمی کو انسان بنا سکے اور انسانیت سکھا سکے۔ اس حوالے سے مندرجہ بالا موضوعات کے علاوہ ادب، شاعری، سیاحت، جغرافیہ اور کہانیوں کے علاوہ تاریخ کا مطالعہ بھی بہت کارآمد ہے۔ خاص طور پر اپنے وطن پاکستان کی تاریخ، اسلام کی تاریخ، اور تاریخ عالم۔ جس کی بدولت ہمیں گزری ہوئی اقوام اور عہد حاضر کے بارے میں آگاہی حاصل ہو سکے گی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ علم سمندر ہے، ہمیں یہ غور کرنا ہے کہ ہم اس سمندر سے کتنا استفادہ کریں، جو ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کر دے۔
مطالعہ کے لیے اپنے چوبیس گھنٹوں میں سے اوقات مقرر کرنے چاہئیں۔ جیسے صبح کا وقت اور رات کو سونے سے پیش تر۔ اس کے علاوہ کم از کم ایک کتاب ساتھ رہنا چاہیے، جسے سفر میں اور مختلف مقامات پر انتظار کے دوران پڑھا جا سکے۔ مطالعہ کے ساتھ اسے جذب کرنا بھی ضروری ہے، یعنی وہ آپ کے ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہو جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ پڑھا ہو، اس کے نوٹس لیے جائیں اور اس کے بارے میں اپنے اہل خانہ اور قریبی دوستوں سے گفتگو کی جائے تاکہ نہ صرف یہ کہ دوسرے اس سے مستفید ہوں، بلکہ وہ آپ کے اندر جذب ہو جائے۔ کوشش کریں کہ فضول کتابوں کے مطالعہ میں وقت ضائع نہ کریں، بلکہ ایسا علم حاصل کریں جو نافع ہو، نافع سے مراد یہ نہیں کہ اس کی بدولت آپ کو بہت سے پیسے مل جائیں بلکہ اس کی بدولت آپ اچھے انسان بن جائیں، اپنے ربّ کے بندے، دوسروں سے محبت کرنے والے اور دوسروں کے کام آنے والے۔ اسی کو علم نافع کہا گیا ہے۔ نبی اکرم ؐ نے فرمایا کہ اللہ سے علم نافع کا سوال کرو اور غیر نافع علم سے پناہ مانگو!۔
شبیر ابن عادل
بشکریہ روزنامہ جسارت
1 note · View note
asraghauri · 3 years
Text
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو- زرافشاں فرحین
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو- زرافشاں فرحین
امت مسلمہ اپنا ایک خاص وقار و امتیاز رکھتی ہے ساری دنیا آگاہ ہے یہ وہ امت واحدہ ہے جو اپنے شعار و کردار میں یکتا ہی نہیں فقیدالمثال ہے اس خیر امت کی غازیان اسلام اپنی سطوت و فراست میں بھی ایک ایسی شان کی حامل رہیں جو تاریخ کے سنہری اوراق کا ماہتاب بن کر کبھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ، کبھی سیدہ فاطمتہ الزہراء، کبھی سیدہ زینب رضی اللہ تو کبھی ام عمارہ رضی اللہ عنھم کی شاہانہ اعلی و ارفع کردار کی صورت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 4 years
Text
فلسطینیوں کے لئے کچھ بھی نہیں
’’انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز‘‘ لندن میں مشرق وسطیٰ کی سکیورٹی اور دیگر معاملات کے ماہر ایمل ہوکاٹیم نے ’’یو اے ای‘‘ اور اسرائیل کے مابین ہونے والے حالیہ امن معاہدے پر اپنے تبصرہ میں کہا ہے کہ اس معاہدہ میں فلسطینیوں کے لئے کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ مذکورہ معاہدے میں جو بڑا خطرہ ہے وہ یہ کہ متحدہ عرب امارات، دنیا کے مسلمان ممالک خصوصاً خطے کے عرب ممالک میں بڑی حد تک غیر مقبول ، غیر اہم اور تنقید کی زد میں ہو گا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلہ کے سب سے بڑے فریق فلسطین کی قیادت کو اس معاملے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ لیکن ایسا ضرور ہو گا کہ امریکہ، سعودی عرب اور دیگر امریکی اتحادی ممالک ’’یو اے ای‘‘ کی انتہائی ستائش کریں گے۔ ایمل ہوکاٹیم نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اس معاہدے کےمحرکات کیا ہیں اور ’’یو اے ای‘‘ جو خود 1971ء میں قائم ہوا اس کا اس میں کیا فائدہ ہے۔ 
ادھر ایران اور ترکی نے اس معاہدے پر شدید ترین اور واضح تنقید کی ہے اور ترکی نے تو اس کو ’’یو اے ای‘‘ کا منافقانہ طرز عمل قرار دیا ہے کیونکہ ترکی سمجھتا ہے کہ ’’متحدہ عرب امارات‘‘ نے یہ معاہدہ خطے میں امن کے قیام یا فلسطینیوں کے مفاد کے لئے نہیں بلکہ صرف اپنے مفاد کے لئے کیا ہے۔ مذکورہ معاہدے پر پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان ’’اقوام متحدہ‘‘ اور ’’او آئی سی‘‘ کی قراردادوں کے مطابق دونوں ریاستوں (اسرائیل، فلسطین) کے مابین امن معاہدے کا حامی ہے۔ بظاہر یہ معاہدہ اسرائیل اور ’’یو اے ای‘‘ کے درمیان ہوا ہے لیکن اصل میں یہ معاہدہ امریکہ اور اسرائیل کی منصوبہ بندی اور خواہش کی تکمیل کے طور کیا گیا ہے۔ تاریخی حوالے کچھ بھی ہوں اور سیاسی موشگافیاں خواہ کوئی بھی تصویر دکھا رہی ہوں لیکن آنکھوں دیکھے حقائق بہر حال معتبر ترین ہوتے ہیں کیونکہ 2019ء میں ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ (اے ایم ڈبلیو ٹی) کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد کے ہمراہ میں خود فلسطین اور اسرائیل کا تفصیلی دورہ کر چکا ہوں اور اس دورے کا لب لباب یہ ہے کہ بیت المقدس مسجد اقصیٰ، انبیاء کرام کے مزارات سمیت سب کچھ اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں ہے حتیٰ کہ وہ فلسطینی علاقے بھی جہاں فلسطینیوں کی اکثریت ہے وہاں بھی اسرائیل کا ’سکہ‘ ہی چلتا ہے۔ 
فلسطینیوں کے پاس نہ تو ان کا ریاستی پاسپورٹ ہے اور نہ ہی اپنی کرنسی، زیادہ تر فلسطینیوں کے پاس اردن یا مصر کا پاسپورٹ ہوتا ہے۔ فلسطینی نبیوں کے مزارات اور مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کے لئے بھی خاصی شرائط کے ساتھ آ جا سکتے ہیں اور وہ بھی روزانہ نہیں۔ فلسطینیوں کے لئےان کا اپنا وطن ہی ایک کھلی جیل کے متراد�� ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے ہی اسرائیل نے دو طرفہ ریاستی حدود کا ایک نیا نقشہ جاری کیا تھا جس میں اپنے اور فلسطینیوں کے علاقے دکھائے گئے تھے اس نقشے میں وہ علاقے بھی اسرائیل میں شامل کئے گئے جو پچھلے سال ہمارے دورے کے دوران فلسطینی علاقے تھے۔ اسرائیل نے ازخود یہ علاقے اپنے ظاہر کر کے یہ نیا نقشہ بنایا اور اب ایک ایسے ملک کے ساتھ ایک نام نہاد قسم کا ’امن معاہدہ‘ کر لیا جو نہ تو اس جھگڑے کا فریق ہے اور نہ ہی اس تنازع کے کلیدی فریق فلسطین نے ’’یو اے ای‘‘ سے فریق بننے یا معاہدہ کرنے کی کوئی درخواست کی ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سینکڑوں سال پہلے بھی اور آج بھی اسلامی یا مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ جب بھی سیاسی دھوکہ بازی ہوئی اور دوسری قوموں نے اسلامی سلطنتوں کو تاراج کیا تو اس میں غیر نہیں اپنے ہی ہم مذہب ملوث تھے، آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے چنانچہ اس حقیقت میں کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ فلسطینی زمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر اور قبضے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ امریکی محققین پروفیسر اسٹیفن والٹ اور پروفیسر جان میئر شمیر نے اپنی کتاب ’’دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘‘ میں ایک خط نقل کیا ہے جس کے مطابق اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے عالمی یہودی کانگریس کے صدر ناہم گولڈ مین کو لکھے گئے اپنے تاریخی اہمیت کے حامل خط میں برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر میں کوئی عرب لیڈر ہوتا تو اسرائیل سے کبھی سمجھوتہ نہ کرتا، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے فلسطینیوں سے ان کا ملک چھینا ہے‘‘۔ 
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ہمارا تعلق اسرائیل سے ہے لیکن یہ دو ہزار سال پہلے کی بات ہے!! لیکن افسوس کہ وہ بات جو ایک یہودی جو وزارت عظمیٰ جیسے کلیدی عہدے پر رہ چکا ہو جب یہ بات کر رہا ہے تو پھر دوسرے کسی حوالے کی تو ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ یہ اصل بات اب مسلمان دنیا خصوصاً عرب ملکوں کے درمیان نفاق، کشیدگی، ہٹ دھرمی اور اختلافات کے ملبے تلے دب چکی ہے اور برائے نام امت مسلمہ کے لئے ایک کہانی بن کر رہ گئی ہے۔ 2002ء کے عرب امن معاہدے میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ 1967 کی جنگ کے بعد فلسطینیوں کے قبضے کئے گئے علاقوں سے دستبردار ہو جائے تو قیام امن کے اس اقدام کے بدلے وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر بحال کر سکتے ہیں لیکن ایسا آج تک ممکن نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے برعکس اسرائیل بےوجہ فلسطینیوں پر بمباری بھی کر رہا ہے اور اپنی مرضی سے نئے نقشے بھی بنا رہا ہے اور ستم بالائے ستم کہ ایسی صورتحال کے باوجود عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنی پالیسیاں تبدیل کیں اور چند ہی برسوں میں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے میں ہی بہتری سمجھی اور نتیجتاً ’’متحدہ عرب امارات‘‘ اور اسرائیل نے فلسطینیوں کی مرضی و منشا کے خلاف ایک کھوکھلا معاہدہ کر کے اپنے مفادات کی ترویج کو مقدم رکھا ہے۔
وجاہت علی خان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
یوم عاشور امت مسلمہ سمیت اہل پاکستان کو حسینیت کے پیغام اور اس کے تاریخ ساز کردار کی یاد دلاتا ہے
یوم عاشور امت مسلمہ سمیت اہل پاکستان کو حسینیت کے پیغام اور اس کے تاریخ ساز کردار کی یاد دلاتا ہے
یوم عاشور امت مسلمہ سمیت اہل پاکستان کو حسینیت کے پیغام اور اس کے تاریخ ساز کردار کی یاد دلاتا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات
Aug 19, 2021 | 14:51 2:51 PM, August 19, 2021
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 473034752898479, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes