Tumgik
#بحٹ
paknewsasia · 2 years
Text
بلوچستان کے آئندہ مالی سال کا بحٹ آج پیش کیا جائیگا
بلوچستان کے آئندہ مالی سال کا بحٹ آج پیش کیا جائیگا
بلوچستان کا نئے مالی سال کا بجٹ آج پیش کیا جائیگا جس کے لئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس شام چار بجے ہوگا۔ وزیر مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران شام چار بجے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پیش کریں گے۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے آئندہ مالی سال کا بجٹ 6 سو ارب روپے سے زائد کا ہوگا جبکہ جٹ خسارے کا ہوگا جس میں میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے ایک سو20 ارب روپے سے زائد مختص کئے جانے کا امکان …
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لئے حکومت کا اہم فیصلہ
اسلام آباد : حکومت نے آئی ایم ایف کو راضی کرنے کیلئے سیلز ٹیکس بڑھانے کا اصولی فیصلہ کر لیا، جو مختلف کیٹگریز میں بڑھایا جائے۔ تفصیلات کے مطابق منی بحٹ کی تیاری آخری مراحل میں پہنچ گئی اور آئی ایم ایف کو راضی کرنے کیلئے سیلز ٹیکس بڑھانے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا، جو پہلے 17 فیصد تھا اور 15 فروری 2023 سے فوری طور پر نافذ العمل تھا۔ حکومت کی جانب سے سیلز ٹیکس مختلف کیٹگریز میں بڑھایا جائے گا۔ ذرائع…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
newstimeurdu · 2 years
Text
منی بجٹ کی منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کا اجلاس کل دوبارہ ہوگا
منی بجٹ کی منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کا اجلاس کل دوبارہ ہوگا
منی بجٹ کی منظوری کے لیے آج ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کا شیڈول تبدیل کر دیا گ��ا، اجلاس 30 دسمبر کو ہوگا۔ منی بحٹ کی منظوری کے لیے آج ہونے والے وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس کا شیڈول تبدیل کر دیا گیا۔ وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس  کل ہو گا۔ وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہو گا۔ پی ٹی آئی کی  پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی جمعرات کو طلب کر لیا گیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dailyswail · 4 years
Photo
Tumblr media
ملک توڑنے والا غدار اور آئین توڑنے والا۔۔۔ راناابرارخالد اگرسرحدپرڈیوٹی دینے والا فوجی اٌسی ملک کاآئین توڑے توکیا اس کو معاف کیاجاسکتاہے؟ آجکل یہ بحث پاکستان کے ریاستی اداروں نے خود ہی چھیڑ رکھی ہے، یہ الگ بات کہ میڈیاکی سلورسکرین کے چمکتے دمکتے ستاروں اورنیوزپرنٹ کے گمنام ستارے دونوں میں یہ ذہنی صلاحیت مفقود ہوچکی ہے کہ اس صحت مندانہ بحث کوسنجیدگی سے آگے بڑھائیں، لے دے کہ رہ جاتاہے غیرملکی پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا۔۔۔۔۔یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ غیرملکی اخبارات میں جولوگ بحٹ چھیڑتے اوراس کومنطقی انجام۔تک پہنچاتے ہیں اس میں دورائے نہیں کہ وہ (عام طورپر) بڑی طاقتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے جڑے ہوتے ہیں اورانہی کے مفادات کے تناظرمیں بات کرتے ہیں، رہا سوشل میڈیا تو یہ محلے کی ایسی دیوارہے جس پر سنجیدہ سیاسی وسائنسی موضوعات سے لیکر جنسی کمزوری دورکرنے کے اشتہارات اور کسی کی بھی بہن بیٹی کو رنڈی قراردیکر اس کافون نمبرتک سب کچھ موجودہے، لیکن اس سب کے باوجود موجودہ ذہنی کمزوری کے اس دور میں اگرکوئی عوامی میڈیاہے تو وہ سوشل میڈیا ہے ورنہ ٹی وی چینل اور اخبارات دیکھ کرلگتاہے کہ طوائف کوٹھے پرناچ رہی ہے۔
0 notes
emergingpakistan · 6 years
Text
امریکہ : کون سے ممالک ہیں جن پر امداد بند کر دینے کی دھمکی کارگر ثابت نہیں ہوئی
سب سے زیادہ امریکی امداد وصول کرنے والے 12 ملکوں کی فہرست میں اسرائیل کے علاوہ ایک بھی ملک ایسا نہیں جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یروشلم کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف پیش ہونے والی قرار داد کی مخالفت میں ووٹ دیا ہو۔ امریکی دفترِ خارجہ کی طرف سے کانگریس کو سال 2018 کے بحٹ کے لیے بین الاقوامی امداد کے بارے میں جو درخواست دی گئی ہے اس کے تحت اسرائیل بدستور امریکی امداد وصول کرنے والے ملکوں کی فہرست میں اول نمبر پر ہے۔ اسرائیل کے بعد اسلامی ملکوں میں سب سے زیادہ امداد مصر کو دی جاتی ہے جو اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد کا محرک بھی تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یروشلم کے بارے میں قرارداد پیش ہونے سے قبل امریکی سفیر نکی ہیلی نے اقوام متحدہ کے 193 ملکوں میں سے ایک سو اسی ملکوں کو خطوط ارسال کیے تھے جس میں اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینے سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ نکی ہیلی کی طرف سے سفارتی آداب سے ہٹ کر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ جو ملک امریکی امداد وصول کرتے ہیں ان کی طرف سے قرارداد کے حق میں ووٹ دیے جانے کی صورت میں امداد پر نظر ثانی بھی کی جا سکتی ہے۔
امریکہ کی طرف سے دی جانے والی دھمکی کتنی کارگر ثابت ہوئی اور کون سے ایسے ممالک ہیں جن پر امریکی دھمکی کا کوئئ خاص اثر نہیں ہوا اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 35 ملک جنھوں نے مذکورہ قرارداد پر ہونے والی رائے شماری میں شرکت نہیں کی ان میں صرف یوگینڈا ایسا ملک ہے جو سب سے زیادہ امریکی امداد وصول کرنے والے ملکوں کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ کینیا اور زیمبیا بھی امداد وصول کرنے والے ملکوں میں ہیں اور یہ دونوں ملک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اہم اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔
اسرائیل کو اور دنیا کے دیگر ملکوں کو دی جانے والی امریکی امداد کی ترسیل کے طریقہ کار میں بہت واضح بنیادی نوعیت کا فرق ہے۔ کانگریس سے منظوری کے بعد اسرائیل کو دی جانے والی امداد امریکہ میں اسرائیلی حکومت کے کھاتوں میں منتقل کر دی جاتی ہے اور اسرائیل کی حکومت کو اس بارے میں بھی پورا اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اسے جہاں چاہے اور جس مد میں چاہے استعمال کرے۔ امداد کی رقم پر ملنے والے سود پر بھی اسرائیلی حکومت کو مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔ دوسری طرف دنیا کے دیگر ملکوں کو اس نوعیت کی رعایت اور سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ 
امدادی رقم امریکی حکومت کے اکاؤنٹس میں ہی رہتی ہے اور امداد وصول کرنے والی حکومتیں امریکی انتظامیہ کی مرضی اور منشا سے پہلے سے متعین کردہ مدوں میں ہی اس رقم کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کو ہر سال تین ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دی جاتی ہے جس کے بعد مصر کا نمبر آتا ہے جس کو وصول ہونے والی سالانہ امداد ایک اعشاریہ چھ ارب ڈالر کے قریب ہے۔ یہ امداد مصر کو سنہ 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے بغیر کسی تعطل کے مل رہی ہے۔
فراز ہاشمی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
0 notes
hamaraakhbar · 7 years
Photo
Tumblr media
الیکشن کا سال اور نیا وفاقی بجٹ لاہور —  سمیرا لطیف وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال 18-2017 کا 50 کھرب 3 ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کردیاہے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کا یہ پانچواں بجٹ کئی لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ اول یہ کہ یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ان کی حکومت کو مسلسل اپنا پانچواں بجٹ پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔دوسرا یہ کہ اپنی معیاد کے اعتبار سے یہ اس حکومت کا آخری سال ہے اور اگلے سال اس نے اپنے اعمال نامے کے ساتھ ووٹ لینے کے لیے عوام کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ اور تیسرا یہ کہ سن 2013 میں نے اس جماعت نے لوگوں سے جو انتخابی وعدے کیے تھے، یہ بجٹ ان وعدوں کو وفا کرنے کا آخری موقع ہے۔ آئندہ مالی سال کے اس بجٹ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ انتخابی سال ہے اور پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں اس سال اپنی انتخابی مہم شروع کرنے جا رہی ہیں۔ بجٹ کے مختلف پہلو انہیں اپنے انتخابی جلسوں کی تقریروں کے لیے مواد فراہم کریں گے۔ یہ جائزہ لینے سے پہلے کہ عام لوگ اس بجٹ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں،بہتر ہو گا کہ ایک نظر بجٹ کے کلیدی پہلوؤں پر ڈال لی جائے۔ اس بجٹ میں دفاع کے لیے9 کھرب 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کل اخراجات کا تخمینہ 50 کھرب 3 ارب روپے جب کہ کُل آمدنی سے صوبائی حکومتوں کا حصہ 23 کھرب 84 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس بجٹ میں پاکستان کی تاریخ میں ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے سب سے زیادہ فنڈز رکھے ہیں جس سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ نون لیگ کی حکومت یہ توقع کررہی ہے کہ اس سال لوڈ شیڈنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی، اور بجلی کی بلا روک ٹوک فراہمی انڈسٹری اور زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار میں اضافہ کرے گی۔ بحٹ میں تعلیم ، صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ان کا معیار بہتر بنانے کے لیے بھی ماضی سے زیادہ فنڈز تجویز کیے گئے ہیں۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ لوگ اس بجٹ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔متعدد تبصرہ نگاروں نے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ایک جانب بجٹ میں دودھ اوردہی جیسی اشیائے ضرورت پر ٹیکس میں اضافے کو عوام دشمن قرار دیا جارہا ہے تو دوسری جانب کئی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ آیندہ سال انتخابات کے انعقاد کے پیش نظر حکومت نے بجٹ میں عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے۔ رونامہ نئی بات کے ایڈیٹر عطاالرحمٰن کا خیال ہے کہ انتخابات کے قریب حکومتیں اپنے انتخابی مقاصد کو سامنے رکھ بجٹ بناتی ہیں اور موجودہ حکومت نے بھی یہی کیا ہے۔ اس بجٹ میں ایک بڑا ترقیاتی پروگرام پیش کیا گیا ہے اور کئی قسم کے ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ہے۔ مزدور کی کم از کم تنخواہ 15 ہزار کرنے سے لیکر سمارٹ فون ، ہائبرڈ گاڑیوں، مرغی کا گوشت اور کسانوں کے لیے کھاد کی بوری کی قیمت میں کمی جیسے تمام اقدمات آیندہ سال انتخاباتمیں۔مثبت نتائج پیدا کرسکتےہیں۔ جبکہ سینئر صحافی اور تجزیہ کار عدنان عادل کا خیال ہے کہ حکومت بجٹ میں عوام کو کوئی خاطر خواہ ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے۔ سرکاری ملازمین کی توقع کے برعکس تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ کیا گیا۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی چھوٹ کی حد چار لاکھ سے بڑھانے کی توقع بھی پوری نہیں ہوسکی۔ دیکھا جائے تو نئے بجٹ میں کم آمدنی والوں کے لیے کوئی سہولت نہیں رکھی گئی۔ لوڈ شیڈنگ مسلسل جاری ہے۔ اور ایک جانب کسان تو دوسری جانب کلرک اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ اگر حکومت کو آئندہ سال بجٹ پیش کرنے کا موقع نہ ملا تو یہ بجٹ وزیراعظم نواز شریف کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ لوڈ شیڈنگ ملک کا سب سے اہم مسئلہ ہے، اگر آیندہ برس الیکشن تک لوڈ شیڈنگ پر قابو پالیا گیا تویہ بات حکومت کے لیے مثبت نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ Powered by
0 notes