سرد - سرد ہوا - سرد رویہ - اشعار میں...........
...
پتھر کی طرح سرد ہے کیوں آنکھ کسی کی!
امجد جو بچھڑنے کا ارادہ بھی نہیں ہے
(امجد اسلام امجد)
ساقیا دے چک آب آتش رنگ
گرم و سرد زمانہ سے ہوں تنگ
(مومن)
اشک گرم و آہ سرد عاشق کے سین پرہیز کر
خوب ہے پرہیز جب ہو مختلف آب وہوا
(دیوان آبرو)
سرد مہری چھوڑ لے آکر مرے دل میں جگہ
موسم سرما میں آتشدان اچھی چیز ہے
(شوق قدوائی)
اب گرم و سرد دہر سے یکساں نہیں ہے حال
پانی ہے دل ہمارا کبھو تو کبھی ہے آگ
(میر تقی میر)
ذہن اور دل میں چھیڑ گیا کوئی سرد جنگ
اک سیلِ کشمکش کے مقابل کھڑا ہوں میں
(روحی کنجاہی)
ضعف سے گریہ مبدُل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہوجانا
(غالب)
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اب برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
انور مسعود
ہونٹوں تک آتے آتے ہوئی وہ بھی سرد آہ
اک آہ سرد تھی جو مری غم گسار دل
مصحفی غلام ہمدانی
اے سرد مہر تجھ سیں خوباں جہاں کے کانپے
خورشید تھرتھرایا اور ماہ دیکھ ہالا
آبرو شاہ مبارک
کلیجہ کانپتا ہے دیکھ کر اس سرد مہری کو
تمہارے گھر میں کیا آئے کہ ہم کشمیر میں آئے
وزیر علی صبا لکھنؤی
منہ زرد و آہ سرد و لب خشک و چشم تر
سچی جو دل لگی ہے تو کیا کیا گواہ ہے
نظیر اکبرآبادی
پیکر احساس میں خوابیدہ روح درد تھی
شعلہ ریزی نواہائے اخوت سرد تھی
آغا حشر کاشمیری
فصل گل آئی اٹھا ابر چلی سرد ہوا
سوئے مے خانہ اکڑتے ہوئے مے خوار چلے
حبیب موسوی
سردی میں دن سرد ملا
ہر موسم بے درد ملا
محمد علوی
ہائے یہ طویل و سرد راتیں
اور ایک حیات مختصر میں
یوسف ظفر
مضمون سرد مہریٔ جاناں رقم کروں
گر ہاتھ آئے کاغذ کشمیر کا ورق
نظیر اکبرآبادی
سرد آہوں سے دل کی آگ بجھا
گرم اشکوں سے جام بھرتا جا
اجیت سنگھ حسرت
سرد جذبے بجھے بجھے چہرے
جسم زندہ ہیں مر گئے چہرے
کیف احمد صدیقی
کبھی تو سرد لگا دوپہر کا سورج بھی
کبھی بدن کے لیے اک کرن زیادہ ہوئی
نسیم سحر
یہ سرد مہر اجالا یہ جیتی جاگتی رات
ترے خیال سے تصویر ماہ جلتی ہے
محبوب خزاں
دو تین دم سرد بھرے ہیں تو وہ بولے
جاؤ مری مجلس کو نہ کشمیر بناؤ
مصحفی غلام ہمدانی
تم نے جلا کے کر دیا دل مرا زندگی سے سرد
ایک نہ آنا لاکھ ظلم، ایک جدائی لاکھ درد
شوق قدوائی
غزل کا ہر شعر گرم تر ہے، کلام رشک آتش و شرر ہے
یہ صحبت مہر کا اثر ہے کہ سرد اس کا سخن نہ دیکھا
رشک
کیوں اس قدر ہے صاحب محمل کو اضطراب
شاید کوئی ہوا پس محمل تڑپ کے سرد
وحید
منجمند برف زدہ، سرد بدن ملتے ہیں
نکہت و رنگ سے محروم چمن ملتے ہیں
( ١٩٨٤ء، سمندر، ٧٦ )
یہ ہوا سرد چلی اور یہ بادل آئے
کہو ساقی سے کہ ساغر چلے بوتل آئے
نظام رامپوری
سرد ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح
زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح
منصور آفاق
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
راحت اندوری
ضمیر و ذہن میں اک سرد جنگ جاری ہے
کسے شکست دوں اور کس پہ فتح پاؤں میں
کبیر اجمل
سرد مہری سے تری گرمئ الفت نہ رہی
دل میں اٹھتا تھا جو ہر دم وہ شرارہ بھی گیا
ابو محمد واصل بہرائچی
ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
مرزا غالب
اٹھو عزمؔ اس آتش شوق کو سرد ہونے سے روکو
اگر رک نہ پائے تو کوشش یہ کرنا دھواں کھو نہ جائے
عزم بہزاد
سرد راتوں کی ہوا میں اڑتے پتوں کے مثیل
کون تیرے شب نوردوں کو سنبھالے شہر میں
علی اکبر ناطق
کیا اسی کا نام ہے رعنائیٔ بزم حیات
تنگ کمرہ سرد بستر اور تنہا آدمی
چندر بھان خیال
کھلتے ہیں دل میں پھول تری یاد کے طفیل
آتش کدہ تو دیر ہوئی سرد ہو گیا
مظفر حنفی
ایک منظر میں لپٹے بدن کے سوا
سرد راتوں میں کچھ اور دکھتا نہیں
آشفتہ چنگیزی
آؤ پرانی یاد کے شعلوں میں تاپ لیں
کتنے ہیں ہاتھ سرد ملاقات کی طرح
یوسف تقی
نہ بات دل کی سنوں میں نہ دل سنے میری
یہ سرد جنگ ہے اپنے ہی اک مشیر کے ساتھ
فہیم جوگاپوری
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا
جوشؔ ملیح آبادی
لوگ پھرتے ہیں بھرے شہر کی تنہائی میں
سرد جسموں کی صلیبوں پہ اٹھا کر چہرے
نصیر احمد ناصر
شعلوں سے بے کار ڈراتے ہو ہم کو
گزرے ہیں ہم سرد جہنم زاروں سے
عبد الاحد ساز
کبھی تم موم ہو جاتے ہو جب میں گرم ہوتا ہوں
کبھی میں سرد ہوتا ہوں تو تم بھڑکاؤ کرتے ہو
سراج اورنگ آبادی
آ گرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر
اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا
منصور آفاق
وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے
بشیر بدر
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر چلے جاتے
امید فاضلی
جس قدر سرد اس کا لہجہ تھا
ہو بہو آج _ ویسا موسم ہے
ن۔م راشد
اک ستم گر کی سرد مہری نے
سرد موسم کو اور سرد کیا
ن۔م راشد
سرد ہوتے ہوئے وجود میں بس
کچھ نہیں تھا الاؤ آنکھیں تھیں
سیما غزل
...
پیشکش : عمر جاوید خان
#سرد
1 note
·
View note
تبلیغی جماعت اور میڈیا کی بدکرداری
ریاض احمد قاسمی سمستی پوری
آوازیں کچھ دنوں سے فضا میں گونج رہی ہیں کبھی تو لہجوں میں خوشونت و نفرت کی بھر مار دکھتی ہے تو کبھی چاپلوسی اور چالاکی کی کبھی تو نفرت و رعونت کا گل کھلایا جا رہا ہے اور کبھی بھیگی بلی کاسا روپ ادا کیا جا رہا ہے سوال یہ ہے کہ ہندوستانی میڈیا کا ایسا دہرا رویہ کیون؟آج جو ملکی مسائل پر پردہ ڈال کر لاک ڈاؤن کے شروعات سے ہی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا نے نفرت پھیلانے کا جو ایشو بنا رکھا ہے اور تبلیغی جماعت والوں پر اتہام و الزام کا ایک طومار تھوپ رکھا ہے اور اب تک یہ سلسلہ قائم ہےجو سراسر بے بنیاد ہےجو صرف اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کرنے آپسی محبت و بھائی چارگی ختم کرنے انسانیت کو داغدار کرنے ہندوستانی چمن کو لالہ زار کرنے نے اور اس سے بڑھ کر ملک کے دو ٹکڑے کرنے کی ایک بڑی سازش ہے
حقیقت تو یہ ہے کہ جس وقت ملک کے وزیراعظم نے لاک ڈاؤن کے نفاذ کا اعلان کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ جو جہاں ہیں وہیں رہیں، گھروں سے باہر نہ نکلیں لہذا عام پبلک پر یہ لازم تھا کہ ملک کے وزیراعظم کے اعلان کا پالن کرتے ہوئے جو جہاں تھے وہیں رہائش اختیار کرتیں اور یقینا لوگون نےایسا ہی ہی کیا اور انہیں ایسا ہی، بلکہ جہاں ایک طرف سارے دیش واسیوں نے وزیراعظم کے اعلان کے بعد اپنے گھروں میں رہنا پسند کیا یا تو دوسری طرف مسلمانوں نے بھی اپنے احساسات و جذبات کو کو دبا کر صرف گھروں میں رہنے ہی کو پسند نہیں کیا بلکہ ایک بہت بہترین مثال پیش کی، جوابتدائے اسلام سے لے کر آج تک کی مسلمانوں کی سب سے بڑی قربانی کے نتیجے میں عمل میں آئی، آج جبکہ مسلمان مسجدوں میں نمازیں ادا کرنے سے محروم ہے ، رمضان جیسے عظیم الشان مہینہ میں ایک مرتبہ ہاتھ آنے والا موقع لا یعنی نماز تراویح اور مسجد کے نورانی و روح پرور ماحول سے جس طرح سے اپنے نفس پر پتھر رکھ کر وزیراعظم کے حکم کا پالن کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمانوں نے دور رکھ کر ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے اور حب الوطنی اور دیش بھگتی کا اعلی نمونہ پیش کیا ہے ورنہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کے لئے صرف اپنی جان تک مسئلہ ہوتا تھا تو مسلمان اپنی جان دینے میں ذرہ برابر دریغ نہ کرتے مگر مسجدوں میں تالے پڑ جائیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا یہ سب مسلمانوں نے صرف اور صرف ملک کے وزیراعظم کے حکم کا پالن کرنے کے لئے، ملک کے تحفظ و بقا اور امن و امان کے لئے باشندوں اور ویکتیوں کی حفاظت و رکچھا کے لئے کیا ان سب حقیقتوں کے باوجود ملک کی خبیث ترین لعین ترین میڈیا نے اسلام اور تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ،
لیکن آج وہی تبلیغی جماعت جو بلڈ پلازما ڈونیٹ کرتی دیکھ رہی ہے آج وہی تبلیغی جماعت جو جان لبوں کے اندر جان ڈال رہی ہے آج وہی تبلیغی جماعت جو اپنی جان ہتھیلی پر لے کر کر دوسروں کی زندگی کے لئے ایک مضبوط سہارا بنی ہوئی ہے،اس وقت بھی سب وہی ہیں وہی سورج اور چاند وہی ستارے اور کہکشائیں وہی رات اور دن وہی تبلیغی جماعت اور وہی خبیث ترین میڈیا جس نے کل تک تبلیغی جماعت کوبدنام کرنے میں کوئی دقیقہ کا نہیں چھوڑا تھا بلکہ آسمان کو اپنے سر اٹھا رکھا تھا، آج وہی خبیث ترین لعین ترین میڈیا تبلیغ والوں کے صاف ستھرے کردار ادا کرنے اور ایک بہترین آئیڈیل پیش کرنے کو منظر عام پر لانے سے سے منہ چراتا اور دم دبا ہوا دیکھ رہا ہے، حالانکہ یہ وقت تھا کہ میڈیا کشف حقائق کا رول ادا کرتا، یہ وقت تھا کہ میڈیا زمینی سطح پر بات کرتا، یہ وقت تھا کہ میڈیا تبلیغ والوں کے پلازمہ ڈونیٹ کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کرتا ، حقیقت کا انکشاف کرتا، تبلیغ والوں کے دوش بدوش ہوکر چلتا ، ان کی آواز میں آواز ملا کر کھڑا رہتا ، اور ملک میں امن و آشتی کا اخوت و محبت کا بھائی چارگی کا کا اور پریم کا سبق پھر ایک بار دہراتا ، لیکن اس وقت بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا کی زبانیں گنگ ہو گئی ہوں اسکی آنکھوں میں رتوندھا ہوگیا ہو اسے سانپ سونگھ گیا ہو
لہذا ان ساری باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے حکومت ہند سے کچھ مطالبات ہیں، پہلا تو یہ کہ میڈیا نے جو جھوٹ کا پلندا بناکر تبلیغ والوں کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کا بیج بویا ہے فورا اس پر پر لگام کسا جائے ، اگر یہ نہیں ہوا ہوا تو پھر ہم سب مل کر خبیث میڈیا کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے تیار ہیں، دوسرا مطالبہ یہ کہ تبلیغ والوں کے خلاف جو ایف آئی آر درج ہوئی تھی، اسے واپس لی جائے ورنہ اس سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہوگا ، تیسرا یہ کہ جو لوگ کورنٹائن میں ہیں انہیں کھانے کی غذائیں متعینہ وقت پر بہم پہنچائی جائے اور کھانے پینے کا مکمل بندوبست کیا جائے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی جائے ، چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے کورنٹائن کے مدت پوری ہوچکی ہے انہیں امن و سلامتی کے ساتھ گھروں کو پہچایا جائے، پانچواں مطالبہ یہ کہ جو لوگ بھوک اور پیاس کی شدت سے سچ تو یہ ہے کہ انتظامیہ کی کوتاہی سے جاں بحق ہوئے ہیں اس کا معاوضہ ان کے گھر والوں کو دیا جائے ، اور آخر میں یہ مطالبہ حکومت ہند سے کیا جاتا ہے ہے کہ وہ ملک میں ہر نفرت کا بیج بونے والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرے، ورنہ ملک ایک بار خون سے لالہ زار ہوگا اور ملک کا امن و امان ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا اور دنیا عنقریب اس کا تماشا دیکھے گی،
1 note
·
View note