Tumgik
#آصف علی زرداری
urduchronicle · 4 months
Text
زرداری آج مسلم لیگ ن سے ملاقاتوں پر پارٹی قیادت کو اعتماد میں لیں گے
پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس آج شام 7 بجے  زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ہو گا، آصف زرداری اور بلاول بھٹو  پارٹی رہنماؤں کو، ن لیگ کی قیادت کےساتھ ملاقاتوں پر اعتماد میں لیں گے۔حکومت سازی کیلئے آئندہ کی حکمت عملی پر مشاورت کی جائے گی۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں عام انتخابات کے بعد کی صورتحال پر غور کیا جائے گا، عام انتخابات کے نتائج سمیت دیگر امور بھی زیر غور آئینگے،اجلاس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر آواز بلند کرے،آصف علی زرداری
عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر آواز بلند کرے،آصف علی زرداری
کراچی(نمائندہ عکسی)سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر آواز بلند کرے،انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں سابق صدر نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید انسانی حقوق کی علمبردار تھیں، ذوالفقار علی بھٹو نے 1973کے آئین میں انسانی حقوق کی ضمانت دی ہے،انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی جب بھی اقتدار میں آئی انسانی حقوق کو یقینی بنایا ہے۔
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 10 months
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
Tumblr media
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔ 
Tumblr media
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
urduintl · 3 months
Text
0 notes
rising-gwadar · 3 months
Text
صدر آصف علی زرداری کو ایوان صدر میں مسلح افواج کے دستوں کی جانب سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا_
��فصیلات کے مطابق صدر مملکت آصف زرداری کو ایوان صدر میں گارڈ آف آنر پیش کرنے کی تقریب ہوئی، آصف زرداری گارڈ آف آنر کے لئے بگھی میں تشریف لائے_
مسلح افواج کے دستوں کی جانب سے صدر مملکت کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، جس کے بعد صدرمملکت آصف زرداری نے گارڈ آف آنرکا معائنہ کیا_
گارڈ آف آنرکی تقریب میں بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاوربھٹو بھی شریک ہوئے_
1 note · View note
risingpakistan · 4 months
Text
جب آئے گا عمران، کب آئے گا عمران
Tumblr media
اسلام آباد میں طاقت کے ایوانوں کی دیواروں سے کان لگا کر ہمیں گیان بانٹنے والے بتاتے ہیں کہ دو سے تین سال لگیں گے۔ جس عجلت کے ساتھ عمران خان کو سزائیں سُنائی جا رہی ہیں تو عدالتی فیصلوں میں بہت سے قانونی سُقم ہیں جس کی وجہ سے یہ فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں معطل ہوں گے۔ تجزیہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہمارے اصلی حکمران جس کو بھی چُن کر اسلام آباد میں اقتدار دیتے ہیں اُس سے اُن کا جی بھرنے میں دو تین سال کا وقت ہی لگتا ہے۔ اُن کی سچی محبت بھی دو تین سال کے بعد بیزاری میں بدل جاتی ہے، پر یہ بیزاری دشمن داری میں تبدیل ہوتی ہے۔ فائلیں ہر وقت تیار رہتی ہیں، گواہ ڈھونڈنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، جج رات گئے تک عدالتیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور سزائیں اس طرح سُناتے ہیں جیسے آج ہی فیصلہ نہ سُنایا تو شاید رات کو نیند نہ آئے۔ عمران خان تین سال کی سزا پہلے ہی کاٹ رہے تھے، پھر ایک دن دس سال کی سزا، اُس سے اگلے دن 14 سال کی سزا۔ مبصرین ان سزاؤں کے محاسن اور نقائص بتا رہے تھے میرا دماغ کیلکولیٹر بنا ہوا تھا کہ جتنے عمران خان پر مقدمات ہیں اور جس تیزی سے فیصلے آ رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ الیکشن کے دن تک عمران خان کو کم از کم ڈیڑھ ہزار سال کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق عمران خان پر درجنوں مقدمات ہیں، ان پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تو وہ دہشت گرد بھی ہیں، کرپٹ بھی ہیں، چور بھی ہیں، ملکی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بھی ثابت ہوئے ہیں (جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے ملک سے غداری کی ہے) ایک کیس ایسا بھی چل رہا ہے جس میں اُن کے آخری نکاح کو مبینہ طور پر ’عدت کے دوران‘ ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ عمران خان نے جب اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا تو اُن پر دو الزام لگتے تھے کہ وہ ذرا طبعیت کے عیاش ہیں اور سیاسی طور پر بے وقوف ہیں۔ پاکستان میں کسی مرد سیاستدان کی چھوٹی موٹی عیاشیاں اُن کے حق میں ہی جاتی ہیں اور اس سیاسی بے وقوفی نے سب پرانے سیانوں کی دوڑیں لگوا دیں۔ جو لوگ پاکستان کی سیاست میں عمران خان کو ایک ہلکا پھلکا لطیفہ یا آئٹم نمبر سمجھتے تھے انھیں بھی اُن کے قہر کی تپش محسوس ہوئی۔ لیکن آخر میں اُن سے وہی غلطی ہوئی جو پاکستان میں منتخب ہونے والے ہر وزیر اعظم کے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھی ہوتی ہے یعنی وہ اپنے آپ کو وزیر اعظم سمجھنے لگتے ہیں۔ 
Tumblr media
اور وہ اپنی اس پہلی بھول پر اپنے لیے اڈیالہ میں یا سہالا میں یا اٹک قلعے والی جیل میں ایک سیل بُک کروا لیتے ہیں۔ ان جیلوں کے سب سے بڑے عادی رہائشی اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ جیل سیاستدانوں کی یونیورسٹی ہوتی ہے۔ انھیں اب کچھ سیکھنا چاہیے۔ ایک اور سیانے نے سمجھایا کہ ہوسکتا ہے جیل میں سوشل میڈیا سے دور رہے گا تو کچھ عقل آجائے گی۔ سوشل میڈیا کے شور پر ملک میں حکمرانی کرنے کے خواب دیکھنے والے دیوانے بہت ہیں۔ ان سے ان کی پارٹی چھین لی گئی ہے، جنھوں نے انھیں انقلاب کا ہراول دستہ بنایا تھا وہی ان کو غدارِ وطن کہتے ہیں۔ ان کے خوابوں میں اب بھی یہ آس باقی ہے کہ وہ الیکشن کے دن اپنی ایپس اور واٹس ایپس کے ذریعے، اپنا خواب زندہ رکھنے کے لیے، اپنے خان کے لیے، اتنے ووٹ ڈالیں گے کہ اڈیالہ جیل کی دیواریں ہل جائیں گی۔ قیدی نمبر 804 کو قید نہ رکھ پائیں گی۔ اور وہ پھر ہمارے درمیان میں ہو گا۔ 
پاکستان میں الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی پر بہت پابندیاں ہیں لیکن خواب دیکھنے کی پابندی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے جیل میں ڈالنے والوں اور ان کے سابقہ قیدیوں نے کچھ ایسا معاہدہ کیا ہو کہ اس دفعہ ہم آپس میں نہیں لڑیں گے اور عمران خان کو نہ صرف جیل میں رکھیں گے بلکہ نہ اس کی آواز، نہ اس کی تصویر کبھی باہر آنے دیں گے۔ جیل کے سیل سے نکال کر جیل میں لگی عدالت میں پیش کریں گے اور دس، بیس، تیس ہزار سال کی سزا دلوائیں گے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ ہزار سال کی قید پوری کر کے اڈیالہ جیل سے نکلیں، باہر پھر الیکشن ہو رہا ہو، ملک میں کرکٹ کا خاتمہ ہو چکا ہو اور وادی میں بیٹھا کوئی سیانا ہمیں یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ایوب خان کے دور میں سب اچھا تھا، ہم آپ کو وہیں لے جا رہے ہیں۔
محمد حنیف
بشکریہ  بی بی سی اردو
0 notes
shiningpakistan · 6 months
Text
ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے؟
Tumblr media
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی درخواست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔ آخر یہ ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے، یہ کیس کیوں اور کس آرٹیکل کے تحت دائر کیا گیا اور اس کیس میں پوچھے گئے 5 اہم سوالات کیا ہیں؟ یہ تمام تفصیلات درج ذیل ہے۔
آرٹیکل 186 ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس یا ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے، یہ جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ قومی آئین کا آرٹیکل 186 کیا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدرِ مملکت کسی بھی وقت اگر یہ سمجھیں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل سوال پر سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس سوال کو رائے لینے کے لیے عدالت عظمیٰ کو بھجوا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرنے کے بعد اپنی رائے صدرِ مملکت کو بھجوا دے گی۔
Tumblr media
ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس 12 برس قبل 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت بھٹو کی عدالتی حکم سے پھانسی کے فیصلے پر ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ اس کیس کی پہلی سماعت 2 جنوری 2012ء کو جبکہ آخری 12 نومبر 2012ء کو ہوئی۔ پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔ آخری سماعت کے 8 چیف جسٹس اپنی ملازمت پوری کر چکے مگر کسی نے بھی اس صدارتی ریفرنس کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا۔ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے بیان کو بنیاد بنایا گیا جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے دباؤ تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ہونے کی بجائے لاہور ہائی کورٹ میں کرنا غیر آئینی تھا۔
صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے 5 اہم سوال مذکورہ کیس میں سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے پوچھے گئے سوالات یہ ہیں۔ 1۔ ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟ 2- سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہو گا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ 3- سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟ 4- سزائے موت قرآنی احکامات کے مطابق درست ہے؟ 5- فراہم کردہ ثبوت اور شہادتیں سزا سنانے کے لیے کافی تھیں؟
واضح رہے کہ سابق صدر زرداری کے اس صدارتی ریفرنس کے سوالوں کے جوابات کی تلاش کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کا 9 رکنی لارجر بینچ ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
globalknock · 9 months
Text
ملک بحران کا شکار ہے، سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے، آصف زرداری
راچی: پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک بحران کا شکار ہے، سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے۔ سابق صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق انتخابات کا انعقاد کروائے گا ۔ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کروانے کا پابند ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران پر ہمیں پورا اعتماد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت ایس آئی ایف سی کے منصوبوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
usamaahadbinsajjad · 1 year
Photo
Tumblr media
جنوری 2009 میں آصف علی زرداری توشہ خانہ سے دو بی ایم ڈبلیو گاڑیاں لے اڑے. جبکہ توشہ خانہ رولز کے مطابق گاڑی لینا غیر قانونی ہے.#مریم_گھڑی_چور_نکلی .!!#ToshaKhana #مائنڈگیم_ماسٹر_عمران_خان #مریم_گھڑی_چور #مریم_گھڑی_چور_نکلی #مریم_سائیکو_پیتھ_عورت #مریم_سائیکو_پیتھ_عورت #چور_باپ_کی_چور_بیٹی #چوروں_سےحقوق_لینےہونگے #چوروں_کی_ملکہ_مریم (at Dammam, Saudi Arabia) https://www.instagram.com/p/Cps87fDoe7N/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
spitonews · 1 year
Text
پاگل خان ہمیں ایسی دلدل میں پھنسا گیا، بڑی مشکل سے پار لگیں گے، آصف زرداری
عمران خان واپس وہاں جانا چاہتا ہے جہاں سے اسے نکالا گیا، صدر پی پی پی وہاڑی: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاگل خان ہمیں ایسی دلدل میں پھنسا گیا، بڑی مشکل سے پار لگیں گے۔ وہاڑی میں استقبالیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ ایک بے وقوف کو وزیراعظم ��نادیا گیا جس نے ملک کی معیشت کو تباہی کے دبانے پر لا کھڑا کیا ہے، اسے کوئی سمجھ ہی نہیں تھی،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 4 months
Text
پیپلز پارٹی کے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی تجویز دے دی، کل نواز، زرداری ملاقات، MQM کا وفد بھی لاہور آگیا
مسلم لیگ ن حکومت سازی کے لئے سرگرم ہے، پارٹی کے مرکزی صدر شہباز شریف کی رہائش گاہ پراہم ملاقاتیں طے ہیں۔ ایم کیوایم کا وفد شہباز شریف سے ملاقات کیلئے لاہور روانہ ہوگیا ہے، تاہم، آصف علی زرداری سے آج لیگی قائدین کی ملاقات کا امکان نہیں۔ لاہور آنے والے ایم کیوایم کے وفد میں خالد مقبول صدیقی، مصطفیٰ کمال، فاروق ستار اور گورنر سندھ کامران ٹیسوری شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم اور ن لیگ کی ملاقات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
تیر کا نشان فتح کا نشان شاباش جیالو شاباش
تیر کا نشان فتح کا نشان شاباش جیالو شاباش
کراچی (نمائندہ عکس ) پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینز کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے ضمنی انتخابات میں کامیابی پر علی موسی گیلانی اور حکیم بلوچ کو مبارکباد د یتے ہوئے کہا ہے کہ ملتان والوں نے سیاسی خانہ بدوش سے حساب برابر کر دیا ہے، جنوبی پنجاب صوبہ بن کر رہے گا یہ میرا وعدہ اور بلاول کا منشور ہے، قومی اسمبلی میں دو جیالوں کا اضافہ باعث اطمینان ہے ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
شہباز شریف سے آصف زرداری کی ملاقات
فائل فوٹو : ایکسپریس نیوز  اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف سے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری نے وزیر اعظم ہاؤس میں اہم ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور عوامی فلاح و بہبود کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری کا وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے پر استقبال کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے آصف زرداری کی ملاقات ایک گھنٹے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mediazanewshd · 2 months
Link
0 notes
urduintl · 3 months
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے، سماعت مکمل ہونے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کر لی ہے آج نہیں مگر پھر کسی روز دوبارہ شاید اپنا فیصلہ سنانے بیٹھیں۔
بتایا جارہا ہے کہ آج کی سماعت میں صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی کے دلائل دیئے، اس دوران انہوں نے کہا کہ ’بھٹو کیس کے وقت لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، اس وقت استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیاء تھے، اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے الیکشن کے لیے معاملات طے ہو چکے تھے‘۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا؟‘ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ ’معاہدے پر دستخط ہونا باقی تھے لیکن پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبالِ جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لاء دور میں زیرِ حراست ان افراد کے بیانات لیے گئے، اس وقت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چیف جسٹس پاکستان، قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا ٹرائی اینگل تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی برییت سے تینوں کی جاب جا سکتی تھی‘۔
اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’رضا ربانی آپ کہہ سکتے ہیں کہ حسبہ بل میں عدالتی رائے بائنڈنگ تھی‘؟ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ’حسبہ بل میں کتنے جج صاحبان تھے؟‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’حسبہ بل کے صدارتی ریفرنس میں بھی 9 جج صاحبان تھے‘، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہم بھی 9 ہی جج ہیں، کوئی اختلاف بھی کر سکتا ہے‘۔ اس بات پر رضا ربانی نے کہا کہ ’اس وقت جج جج نہیں تھے، مختلف مارشل لاء ریگولیشن کے تحت کام کر رہے تھے، مارشل لاء ریگولیشن کے باعث ڈیو پراسس نہیں دیا گیا، بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو کی نظر بندی کو چیلنج کیا تھا، اسی روز مارشل لاء ریگولیشن کے تحت چیف جسٹس یعقوب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا‘۔
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔
تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔
‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟
0 notes
risingpakistan · 4 months
Text
عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں
Tumblr media
دو دن میں دو فیصلے۔ پہلے ’ریاستی راز افشا کرنے پر‘ 10 سال کی سزا اور پھر ’بدعنوانی‘ پر 14 سال کی سزا۔ پہلے ان کے قریب ترین ساتھی اور اب ان کی شریک حیات کو بھی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ ریاست اپنی دشمنی ظاہر کرنے میں کس حد تک جائے گی؟ 8 فروری کے انتخابات تک مزید ’سرپرائز‘ آسکتے ہیں۔ فی الحال ہم صرف بیٹھ کر تماشہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح حقائق، ضابطہ کار، قوانین اور ادارے ان لوگوں کی مرضی کے سامنے جھکتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک وہ نہ چاہیں کوئی بھی منتخب رہنما آزادی کا حق نہیں رکھتا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران تحفے کے طور پر ملنے والے زیورات کے سیٹ کی قیمت کم بتانے پر سزا سنائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ احتساب عدالت کے جج کے ذریعے سنایا گیا ہے جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات سے چند روز قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں 2024ء کے انتخابات کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آنے والے رہنما کو سزا سنائی تھی۔ 
Tumblr media
اس فیصلے کو گزشتہ سال نومبر میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کی سزا کا فیصلہ بھی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گا۔ اتفاق سے یا شاید جانتے بوجھتے ہوئے ان ہی جج صاحب کو اسی طرح کے ایک اور کیس کی سماعت کرنی ہے جو توشہ خانہ سے حاصل کی گئی اشیا سے متعلق ہے۔ اس مقدمے میں متعدد گاڑیاں شامل ہیں جو مبینہ طور پر نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری نے توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے پاس رکھی تھیں۔ تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران جج کی توجہ اور توانائیاں عمران خان اور ان کی شریک حیات کو ’احتساب‘ برانڈ کا انصاف فراہم کرنے کے لیے وقف کر دی گئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس زیر التوا دیگر معاملات کے لیے بہت کم وقت بچا ہے۔ وہ 11 سال نیب کی احتساب عدالتوں میں رہنے کے بعد مارچ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ احتساب عدالتوں کے زیادہ تر جج تین سال کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں۔ 
اپنی توسیعی مدت کے دوران انہوں نے 4 سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کا فیصلہ کیا ہے، یہ سبھی اس وقت ان کے سامنے لائے گئے جب ان کو دی گئی چھوٹ اپنے اختتام کو پہنچی۔ یہاں کچھ ذکر نیب کا بھی کر لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ صرف طاقتوروں کی خواہشات کی بنیاد پر سیاسی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہے۔ سیاست دان کو ملی چھوٹ ختم ہونے پر نیب اس پر پِل پڑتا ہے اور ہدف بنائے گئے سیاست دانوں کے خلاف ہر طرح کے ’بدعنوانی‘ کے مقدمات قائم کرکے انہیں قانونی چارہ جوئی میں پھنسا دیتا ہے۔ بعض اوقات، ضابطے کی پروا کیے بغیر کمزور شواہد کی بنیاد پر قانونی کارروائی کے ذریعے ایک یا دو سزائیں سنادی جاتی ہیں۔ حیرت کی بات نہیں کہ زیادہ تر مقدمات اور سزائیں چند سالوں میں ہی ختم ہو جاتی ہیں اور جن پر کبھی سنگین بددیانتی کا الزام لگایا جاتا ہے وہ آخرکار سیاسی شہید بن کر واپس آجاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس نے دھیرے دھیرے احتساب کے خیال کو کسی بھی قانونی جواز سے محروم کر دیا ہے۔ اس تازہ ترین سزا سے بھی یہ لگتا ہے کہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes