Tumgik
Text
تحریر کا عنوان
*اپنی کم تنخواہ پر غم نا کریں ہوسکتا ہے آپکو رزق کے بدلے کچھ اور دے دیدیا گیا ہو*
ایک بڑے محدث فقیہ اور امام وقت فرماتے ہیں کہ
○ *ليس شرطا أن يكون الرزق مالا*
*قد يكون الرزق خلقا أو جمالا*
رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت اچھا اخلاق یا پھر حسن و جمال دے دیا گیا ہو
○ *قد يكون الرزق عقلا راجحا*
*زاده الحلم جمالا وكمالاً*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت میں عقل و دانش دے دی گئی ہو اور وہ فہم اس کو نرم مزاجی
اور تحمل و حلیمی عطا دے
○ *قد يكون الرزق زوجا صالحا*
*أو قرابات كراما وعيالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے
کہ کسی کو رزق کی صورت میں بہترین شخصیت کا حامل شوہر یا بہترین خصائل و اخلاق والی بیوی مل جاے
مہربان کریم دوست اچھے رشتہ دار یا نیک و صحت مند اولاد مل جاے
○ *قد يكون الرزق علما نافعا*
*قد يكون الرزق أعمارا طوالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت علم نافع دے دیا گیا ہو اور
یہ بھی ہو سکتا ہے
کہ اُسے رزق کی صورت لمبی عمر دے دی گئی ہو
○ *قد يكون الرزق قلبا صافيا*
*يمنح الناس ودادا ونَوالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا پاکیزہ دل دے دیا گیا ہو جس سے وہ لوگوں میں محبت اور خوشیاں بانٹتا پھر رہا ہو
○ *قد يكون الرزق بالا هادئا إنما المرزوق* *من يهدأ بالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ذہنی سکون دے دیا گیا وہ شخص بھی تو خوش نصیب ہی ہے جس کو ذہنی سکون عطا کیا گیا ہو
○ *قد يكون الرزق طبعا خيّرا*
*يبذل الخير يمينا وشمالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت نیک و سلیم طبع عطاکی گئی ہو
وہ شخص اپنی نیک طبیعت کی وجہ سے اپنے ارد گرد خیر بانٹتا
پھر ے
○ *قد يكون الرزق ثوبا من تقى*
*فهو يكسو المرء عزا وجلالا*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت تقوٰی کا لباس پہنا دیا گیا ہو اور اس شخص کو اس لباس نے عزت اور مرتبہ والی حیثیت بخش دی ہو
○ *قد يكون الرزق عِرضَاً سالماً*
*ومبيتاً آمن السِرْبِ حلالاً*
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا عزت اور شرف والا مقام مل جاے
جو اس کے لئے حلال کمائ اور امن والی جائے پناہ بن جائے
○ *ليس شرطا أن يكون الرزق مالا*
*كن قنوعاً و احمد الله تعالى*
○ پس
رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
پس
جو کچھ عطا ہوا
اس پر مطمئن رہو
اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتے رہو
الہی بہترین ایمان اور نفس مطمئنہ کی سعادت عطا فرما *❤️آمین ثم آمین یا رب العالمین*
*❤️
2 notes · View notes
Text
دعائے قنوت اور ہمارا عملی رویہ
آج جمعے کے خطبے میں ہم نے وتروں میں پڑھی جانے والی "دعائے قنوت" کی روشنی میں اپنے عملی رویوں کا جائزہ لیا ہے۔ دعائے قنوت ایک مسلمان معاشرے کا "شعار" ہے۔ مذہبِ اسلام کو کسی نمائشی ترانے کی حاجت نہیں، اسلام کا اگر کوئی مذہبی ترانہ ہوتا تو دعائے قنوت کو بنایا جاسکتا تھا۔ ایک ایسا ترانہ (Anthem) جس میں ایک آئیڈیل مسلم سوسائٹی کے نظریات اور کردار کی پہچان کروائی گئی ہے۔ یہ چند کلمات ہیں جو روزانہ ہم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوکر دہراتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قنوت میں بیان کردہ سٹیٹمنٹ ہمارے کردار سے کتنی مطابقت رکھتی ہے۔
نوٹ: ہر جملے کا ترجمہ ساتھ ہی دیا گیا ہے اور بریکٹ میں عملی رویے کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ پڑھتے ہوئے "احساسِ ندامت" رہے۔)
اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُکَ۔۔۔۔۔ اے اﷲ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں
(یہ الگ بات ہے بے یقینی اور بے دھیانی سے مانگتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب کوئی اور آسرا نظر نہ آئے، ورنہ رتی برابر بھی امید کسی اور سے جڑی ہو، تیری طرف ہماری توجہ نہیں جاتی۔)
وَنَسْتَغْفِرُکَ۔۔۔۔۔ اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں
(لیکن تیری نافرمانی چھوٹتی ہے اور نہ ہی اسے چھوڑنے کے لئے ہم ذہنی طور پر تیار ہیں۔ معاذ اللہ)
وَنُؤْمِنُ بِکَ۔۔۔۔۔ تجھ پر ایمان لاتے ہیں
(کہ تو بھی موجود ہے، رہی یہ بات کہ تیرا بتایا ہوا طرز زندگی ہمارے لئے سو فیصد کامیابی کی ضمانت رکھتا ہے، سو اس پر تہذیبی تصادم کی روشنی میں تقابلی مطالعہ جاری ہے، بین المذاہب ڈائیلاگ جاری ہے۔۔۔ اس کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ معاذ اللہ)
وَنَتَوَکَلُّ عَلَيْکَ۔۔۔۔۔ اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں
(گو حرام کی کمائی چھوڑنے کا رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور حالت یہ ہے کہ آنکھ پھڑکنے کی بھی "انشورنس" کروا رکھی ہے۔ بھلے تیری نافرمانی کے ذریعے ہی ہو۔)
وَنُثْنِيْ عَلَيْکَ الْخَيْرَ۔۔۔۔۔ اور ہم تیری اچھی تعریف کرتے ہیں
(لیکن جب تک کہ تو کسی آزمائش میں نہ ڈال دے، ورنہ شکوے ہماری زبانوں کی نوک پر پڑے ہیں۔)
وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ۔۔۔۔۔ تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے
(یہ الگ بات ہے کہ تیری دی ہوئی نعمتوں کو تیری نافرمانی میں استعمال کرتے ہیں۔)
وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ يَفْجُرُکَ۔۔۔۔۔ اور جو تیری نافرمانی کرے اُس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں
(لیکن سود خور، رشوت خور، قاتل، یتیم اور بیوہ کا حق کھانے والے، ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا، ذخیرہ اندوز سے ہمارے ذاتی تعلقات ہیں۔ یہ سب مافیاز ہمارے سیاسی اور معاشرتی معاملات میں ہمارے بڑے سپانسرز ہیں، ان سے علیحدگی کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے)
اَللّٰهُمَّ اِيَاکَ نَعْبُدُ۔۔۔۔۔ اے اﷲ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں
(لیکن نماز روزے اور صدقے کی حد تک۔۔۔ کاروبار اور معاشرتی زندگی میں ہمارے پاس اور بھی آپشنز ہیں۔ پھر ان گنے چنے کاموں میں بھی صرف تیری نیت نہیں ہوتی، ہمارے صدقے کے اور بھی مقاصد ہوتے ہیں، حج عمرے ہمارے لئے سٹیٹس سمبل ہیں ویسے اور آل تیری ہی عبادت کرتے ہیں)
وَلَکَ نُصَلِّيْ۔۔۔۔۔ اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے ہیں۔
(اگر کبھی توفیق مل جائے جیسے رمضان میں، یا عید اور جمعے کے دن)
وَنَسْجُدُ۔۔۔۔۔ تجھے ہی سجدہ کرتے ہیں
(گو سرجھکانے کی لذت سے محروم ہیں)
وَاِلَيْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ۔۔۔۔۔ تیری ہی طرف دوڑتے ہیں اور حاضری دیتے ہیں۔
(جب عزرائیل آجائے، ورنہ جب تک اس جسم میں جان ہے ہماری دوڑ پیسے اور شہرت کی بھوک مٹانے کے لئے لگی رہتی ہے جو تیری یاد سے ہر دم غافل رکھتی ہے)
وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ۔۔۔۔۔ ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں
(گو ہمارے کرتوت ہمیں اس کا مستحق نہیں بناتے)
وَنَخْشٰی عَذَابَکَ۔۔۔۔۔ اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں
(جب سر پر آجائے، ورنہ تو دور دور تک اس کا خیال ہی نہیں آتا)
اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌّ۔۔۔۔۔۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو ہی پہنچنے والا ہے
(اور کافر تو وہی ہیں جن میں پچھلے سارے اوصاف نہیں پائے جاتے، جب کہ ہمارے پاس مسلمان ہونے کا مکمل دستاویزی ثبوت موجود ہے۔)
امیرحمزہ
1 note · View note
Text
As received
🖋 سورہ البقرہ کی تلاوت پر دوام اختیار کرنے والے کے لئے شیخ احمد عیسی المعصراوی کے فرمودات:
📚 جو شخص طویل مدت کے لئے سورہ البقرہ کی تلاوت کرے وہ اپنی زندگی میں عجیب چیزوں کا مشاہدہ کرے گا۔
اس کا جسم شفایاب ہو گا، اس کے رزق میں اضافہ ہو گا، اس کو شرح صدر نصیب ہو گا اور اس کی عمر میں برکت کا ظہور ہو گا۔
📚 جو شخص کئی ماہ تک روزانہ رات کو سورہ البقرہ کی تلاوت کرے گا، اللہ تعالی اس کی بیماری کو عافیت میں بدل دے گا۔ اس کی مشکل کو دور کر دے گا، تنگی کو فراخی سے بدل دے گا اور ہر جہت سے اس پر برکات کا نزول ہو گا اور وہ اپنی زندگی میں مسرور ہو گا۔
📚 اچھی طرح جان لو کہ تمہاری خواہشات پوری ہوں گی تمہاری زندگی میں برکات کا اضافہ ہو جائے گا اور تمہیں دکھوں اور پریشانیوں سے نجات ملے گی۔تمہاری حسنات میں بڑھوتری ہو گی۔ ایک ماہ مسلسل پڑھنے سے مندرجہ بالا انعامات کا مستحق بنا جا سکتا ہے۔
📚 اپنے اندر بیٹھے وہم کے بتوں کو کچل ڈال اس کلہاڑے سے جو سورہ البقرہ کی شکل میں تمہارے پاس ہے۔ ان لوگوں سے پوچھ لو جنہوں نے سورہ البقرہ کی تلاوت سے شرح صدر حاصل کیا۔ جنہیں ان کی معاملات میں آسانی ملی وہ تمہیں ہاں میں جواب دیں گے۔
📚 الصادق الامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس سورہ کو اپنا لینا برکت کا باعث ہے۔
یعنی اس کی تلاوت، اس کی حفاظت و نگہبانی تجھے تیرے مال و اہل و اولاد، جسم اور روح میں برکات عطا کرے گی۔
📚 سورہ البقرہ کی مثال ایسے ہے جیسے کھجور، جب تک پک کر تیار نہ ہو جائے، اس کا ذائقہ بالکل اچھا نہیں ہوتا۔ اس سورہ کی تکرار اور اس کی تلاوت پر مجاہدہ نفس سے ہی زندگی میں حلاوت اور خوشی حاصل کی جا سکتی ہے۔
📚 سورہ البقرہ کی مسلسل تلاوت بندے کو ایسی بھلائیاں نصیب کرتی ہے جس کا وہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔ اور اسے ایسے اشرار سے محفوظ رکھتی ہے جو اس کے علم میں نہیں اور اندر ایسا منافع ہے کہ کوئ عقلمند اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔
📚 سورہ البقرہ کی تلاوت سے دلوں کو جلا ملتی ہے۔ دل کی سختی دور ہوتی ہے۔
آدمی کو خلوت کی عبادت لذت آشنا کرتی ہے۔ اس کی روح روحانیت کے درجات پر فائز ہوتی ہے۔
📚 نظر بد، حسد اور سحر کا درد پتھر کی طرح انسانی جسم میں موجود ہو تو سورہ البقرہ کی تکرار اس کو توڑ کر ختم کردیتی ہے۔
📚 ابتداء میں سورہ البقرہ کی تلاوت بہت مشکل کام ہے۔ اس لئے کہ شیطان جانتا ہے کہ 'علم الیقین' کا نفع عظیم ہے۔ اور وہ نہیں چاہتا کہ تو پکا ہوا پھل توڑ سکے۔ لیکن تقریبا 12 صفحات کی تلاوت کر لینے کے بعد تیری روح چستی و نشاط کو محسوس کرنے لگتی ہے۔
📚 شیخ کہتے ہیں کہ وہ مسلسل دو ماہ تک دو رکعت میں سورہ البقرہ کی تلاوت کرتے تھے اور تیسری رکعت میں سورہ الضحی پڑھتے تھے ۔ وہ فرماتے ہیں کی اللہ تعالی نے اس سورہ کی برکت سے رزق ، عافیت کے خوبصورت دروازے کھول دیے۔
📚 ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نذر بد اور حسد، محسود کے جسم میں ٹھوس چیز کی کی طرح موجود ہوتی ہے مگر سورہ البقرہ اور معوذتین کی تلاوت کی تکرار سے پگھل کر جسم سے زائل ہو جاتی ہے۔
📚 جس نے سورہ البقرہ کی تلاوت کو معمول بنایا اس کے دل کو دائمی خوشی و درحت اور اس کی زندگی میں بے شمار خیرات و بھلائیاں نصیب ہوں گی۔
📚 پس تو ایسا بن جا کی اس سے تجھے انس ہو جائے۔ اس سورہ کے عشق میں تم گم ہو جاو اور اس کا شوق تیرے دل میں ہمیشہ رہے۔
📎 اس سورہ کو پڑھنا اور دوسروں کو اس سے واقف کرانا ایسا صدقہ ہے جو قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔
0 notes
Text
Tumblr media
*کیا ہمیں نافرمانی کی سزا نہیں ملتی؟*
کسی شاگرد نے اپنے استاذ سے کہا : ہم رات دن اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں مگر اللہ تعالٰی ہمیں سزا نہیں دیتا.
استاذ محترم نے جواب دیا : ایسی بات نہيں بلکہ اللہ تعالی ہمیں کتنی سزائیں دیتا ہے مگر ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا.
دیکھو اللہ کی سزائیں کیا ہوتی ہیں 👇
1- مناجات الہی کی لذت سے محرومی: کیا رب سے مناجات کی لذت تم سے چھین نہیں لی گئی؟
2- قساوت قلبی: اس سے بڑی سزا کیا ہو سکتی ہے کہ انسان کا دل سخت ہو جائے؟
3- ایک بڑی سزا یہ بھی ہے کہ تمہیں نیکیوں کی توفیق بہت کم ملے ؟
4- تلاوت قرآن سے غفلت: کیا ایسا نہیں ہوتا کہ دن کے دن گزر جاتے ہیں مگر تلاوت قرآن کی توفیق نہیں ملتی بلکہ بسا اوقات قرآن کی یہ آیت سنتے ہیں جس ميں اللہ تعالى نے فرمایا کہ *اگر یہ قرآن پہاڑ پر نازل ہوتا تو اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتا* ہم یہ آیت سنتے ہیں مگر ہمارے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا؟
5- تہجد سے محرومی: لمبی لمبی راتیں گزر جاتی ہیں مگر کبھی تہجد کی توفیق نہیں ملتی؟
6- نیکیوں کے موسم بہار کی ناقدری: نیکیوں کے موسم بہار آتے اور گزر جاتے ہیں جیسے رمضان کے روزے، شوال کے روزے اور ذوالحجہ کے مبارک ایام وغيرہ .... مگر ان موسم میں کما حقہ عبادت کرنے کی توفیق نہیں ملتی اس سے بڑی سزا اور کیا ہو سکتی ہے؟
7- عبادت کو بوجھ محسوس کرنا: کیا تم عبادت کو بوجھ نہیں محسوس کرتے؟
8- ذکر الہی سے لاپرواہی: کیا اللہ کے ذکر سے تمہاری زبان خاموش نہیں رہتی؟
9- کیا نفسانی خواہشات کے سامنے خود کو کمزور نہیں محسوس کرتے؟
10- دنيا کی محبت: کیا تم مال و دولت اور منصب و شہرت کی بے جا حرص و لالچ ميں مبتلا نہیں ہو؟ اس سے بڑی سزا اور کیا ہو سکتی ہے؟
11- کبیرہ گناھوں کو معمولی سمجھنا: کیا ایسا نہیں کہ تم بڑے بڑے گناہوں کو معمولی اور حقیر سمجھتے ہو جیسے جهوٹ غیبت چغلی؟
12- کیا بیشتر اوقات تم فضول اور لا یعنی چیزوں ميں مشغول نہیں رہتے؟
13- آخرت سے غفلت: کیا تم نے آخرت کو بھلا کر دنیا کو اپنا سب سے بڑا مقصد نہیں بنا لیا ہے؟
یہ ساری محرومی اور بے توفیقی بھی اللہ کی طرف سے عذاب اور سزائیں ہیں مگر تمہیں اس کا احساس نہیں ہوتا.
یاد رکھو اللہ تعالی کا یہ بہت معمولی عذاب ہے جسے ہم اپنے مال و اولاد اور صحت میں محسوس کرتے ہیں اور حقیقی عذاب اور سب سے خطرناک سزا وہ ہے جو دل کو ملتی ہے.
اس لئے اللہ سے عافیت کی دعاء مانگو اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو کیونکہ گناہ کے سبب بندہ عبادت کی توفیق سے محروم کر دیا جاتا ہے.
( عربی سےترجمہ : محمد شاهد يار محمد سنابلى )
❁=❁=❁=❁=❁=❁=❁=❁=❁=❁=❁
2 notes · View notes
Text
سنت و بدعت میں فرق !
سنت میں ہے رحمت اطاعت شرافت و افتخار
بدعت میں ہے ظلمت معصیت ضلالت وانتشار
1 note · View note
Text
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا وجود مسعود رب کریم کی عطا کردہ عظیم ترین نعمت ہے۔ یہ بات ہمیں قرآن و سنت سے معلوم ہوئی ہے، اسی طرح اس نعمت کے شکر اور اس پر فرحت و شادمانی کا طریقہ بھی قرآن و سنت ہی سے سمجھنا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللّٰہ عنھم نے جس طریقے پر اس نعمت کا شکر ادا کیا، وہی صحیح اور مستند طریقہ ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انھیں اس نعمت کے تشکر کا طریقہ معلوم نہ ہو؛ پس ان کا کسی خاص دن کو تہوار نہ بنانا اس بات کی دلیل ہے کہ ولادت و بعثت رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے لیے کسی خاص تقریب کے اہتمام کی کوئی ضرورت نہیں ہے بل کہ آں حضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم پر ایمان، آپ کی تعظیم و محبت اور آپ علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل ہی اس نعمت کبری پر اظہار تشکر کا اصلی طریقہ ہے۔ باقی خودساختہ طریقوں کی شریعت میں کوئی گنجایش ہے اور نہ وہ مقبول ہی ہیں۔
2 notes · View notes
Text
جمعہ کے دن سنت و نوافل کی تعداد
==============
ایک دوست نے سوال کیا کہ جمعہ کے دن سنت اور نوافل کی تعداد سے متعلق سخت خلجان رہتا ہے کہ کتنی ہونی چاہیئے۔ دیکھئے جہاں تک خطبہ اور صلوٰۃ الجمعہ سے پہلے نوافل کی تعداد کی بات ہے تو اس کی کوئی حد معین نہیں۔ صحیح مسلم کتاب الجمعہ میں سیدنا ابو ہریرہؓ کی روایت موجود ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو جمعہ کے دن غسل کرے، پھر جمعہ کے لئے آئے اور جتنی اس کے مقدر میں ہو صلوٰۃ ادا کرے پھر خاموشی سے اس وقت تک بیٹھا رہے جب تک امام خطبہ سے فارغ نہ ہوجائے، پھر امام کے ساتھ صلوٰۃ ادا کرے تو اس کے دونوں جمعوں کے درمیانی گناہ معاف کردئیے جائیں گے بلکہ مزید تین دن کے اور بھی۔ امام ابن تیمیہ اس سلسلے میں توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ جو شخص جمعہ کے لئے مسجد میں جلدی آجائے تو وہ امام کے نکلنے تک نفل نماز یا ذکر میں مشغول رہے۔نبی ﷺ نےجمعہ سے قبل نوافل کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ثم یصلی ما کتب لہ یعنی پھر وہ حتی المقدور صلوٰۃ پڑھے۔ صحابہ کرامؓ کا بھی اسی پر عمل تھا کہ جب وہ جمعہ کے لئے تشریف لاتے تھے تو حسبِ توفیق نوافل ادا کرتے تھے۔ کوئی دس رکعات پڑھتا تو کوئی بارہ تو کوئی آٹھ تو کوئی اس سے کم پڑھتا۔یہی وجہ ہے کہ جمہور علمائے کرام کا یہ مسلک ہے کہ جمعہ کا خطبہ شروع ہونے سے قبل کوئی مقرر سنتِ مؤکدہ نہیں ، البتہ نوافل ہیں جن کی تعداد مقرر نہیں، جو جتنے پڑھ لے درست ہے،حتیٰ کہ اگر کوئی نہ بھی پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔ (مجموع الفتاویٰ ۲۴/۱۸۹)
امام شوکانی اور امام امیر صنعانی بھی اس متعلق ابن تیمیہ سے متفق ہیں کہ جمعہ سے قبل نوافل کی کوئی تعداد مقرر نہیں جو جتنے چاہے پڑھ لے اور چاہے تو نہ بھی پڑھے۔ تاہم یہ تینوں حضرات اور جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ جمعہ کے دن تحیۃ المسجد لازم پڑھنے چاہیئں کہ نبی ﷺ نے اس کی خاص تاکید کی ہے۔ اگرچہ اختلاف اس بابت ہے کہ کیا وہ شخص تحیۃ المسجد ادا کریگا جو امام کے خطبہ کے دوران مسجد میں داخل ہو۔ شوافع و حنابلہ اس کے جواز کے قائل ہیں اور ان کا استدلال سیدنا جابرؓ کی اس روایت سے ہے جس کو امام بخاری اپنی صحیح کی کتاب الجمعہ میں لائے ہیں کہ جمعہ کے روز ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ نبی ﷺ اس وقت خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ آپﷺ نے اس شخص سے پوچھا صلیت یعنی تو نے صلوٰۃ ادا کی؟ اس نے کہا کہ لا یعنی نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا قم فصل رکعتین یعنی کھڑے ہوجاؤ اور دو رکعت ادا کرو۔ اسی طرح سنن ابو داؤد کی روایت میں آتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں ادا کرے اور رکعتوں کو مختصر کرلے۔ البتہ مالکیہ اور احناف دورانِ خطبہ تحیۃ المسجد پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے اور ان روایات کو خاص حالات پر محمول کرتے ہیں۔ ان کا استدلال سورۃ الاعراف کی آیت : و اذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو اسے دھیان لگا کر خاموشی سے سنو۔
جہاں تک رہی بات کہ جمعہ کے بعد کتنے نوافل و سنتیں ہیں تو اس متعلق دو طرح کی روایتیں ملتی ہیں۔ صحیح مسلم کتاب الجمعہ میں سیدنا ابو ہریرہؓ کی روایت ہےکہ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تم سے کوئی صلوٰۃ الجمعہ ادا کرے تو اس کے بعد چار رکعات ادا کرلے۔ جامع ترمذی میں بھی اسی طور کی روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ من منکم مصلیا بعد الجمعۃ فلیصل اربعا یعنی تم میں سے جو جمعہ کے بعد صلوٰۃ پڑھے وہ چار رکعت صلوٰۃ پڑھے۔ جبکہ بخاری و مسلم میں نبی ﷺ کا اپنا عمل موجود ہے کہ ان النبی ﷺ کام یصلی بعد الجمعۃ رکعتین یعنی آپﷺ جمعہ کے بعد دو رکعت ادا فرماتے تھے۔ اسی طرح سنن نسائی کی روایت میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ان النبی ﷺ کان یصلی بعد الجمعۃ رکعتین فی بیتہ یعنی آپﷺ جمعہ کے بعد اپنے گھر جاکر دو رکعتیں ادا فرماتے تھے۔ اب اگر ان تمام روایات کو سامنے رکھا جائے تو یہی بہتر محسوس ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن اگر کوئی فرض صلوٰۃ کے بعد مسجد میں سنتیں ادا کرے تو وہ چار رکعت کا اہتمام کرے، تاہم اگر وہ گھر جاکر صلوٰۃ ادا کرے تو دو رکعتیں پڑھ لے۔ تاہم سنن ابو داؤد کی ایک روایت میں چھ رکعتوں کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ صلوٰۃ الجمعہ ادا کرنے کے بعد آگے بڑھ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے، پھر جگہ بدل کر چار رکعات ادا کرتے تھے۔ المختصر جمعہ کے فرائض کے بعد کوئی چاہے تو دو رکعت سنتیں بھی ادا کرسکتا ہے، کوئی چاہے تو چار رکعات بھی اور کوئی چاہے تو دو اور چار چھ رکعات بھی پڑھ سکتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ جمعہ سے پہلے کے نوافل نوافل ہیں جن کو پڑھا بھی جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔ جبکہ جمعہ کے بعد کے نوافل جمہور کے نزدیک سنتِ مؤکدہ میں شامل ہیں۔
تحریر: محمد فھد حارث
0 notes
Text
💞🤲😊
*"سورۃ الکوثر میں عددی معجزے نے ہی مجھے حیران کر رکھا ہے"*
سورۃ الکوثر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس سورۃ کے جملہ الفاظ 10 ہیں۔
قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے
لیکن جب
- سورۃ الکوثر کی پہلی آیت میں 10 حروف ہیں۔
- سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں 10 حروف ہیں۔
- سورۃ الکوثر کی تیسری آیت میں 10 حروف ہیں۔
- اس پوری سورت میں جو سب سے زیادہ تکرار سے حرف آیا ہے وہ‏…حرف "ا" الف ہے جو 10 دفعہ آیا ہے۔
- وہ حروف جو اس سورت میں صرف ایک ایک دفعہ آئے ہیں انکی تعداد 10 ہیں۔
- اس سورت کی تمام آیات کا اختتام حرف "ر" راء پر ہوا ہے جو کہ حروفِ ہجا میں 10 واں حرف شمار ہوتا ہے۔
- قرآن مجید کی وہ سورتیں جو حرف "ر" راء پر اختتام پذیر ہو رہی ‏…ہیں، انکی تعداد 10 ہے جن میں سورۃ الکوثر سب سے آخری سورت ہے۔
سورت میں جو 10 کا عدد ہے اسکی حقیقت یہ ہے کہ وہ ذو الحجہ کے مہینے کا 10واں دن ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا
" فصل لربک وانحر"
"پس نماز پڑھو اور قربانی کرو"
وہ دراصل قربانی کا دن ہے
اللہ کی شان کہ یہ ‏…سب کچھ قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت ، جو ایک سطر پر مشتمل ہے، میں آگیا
آپکا کیا خیال ہے بڑی سورتوں کے متعلق!!!
‏اللہ تعالی نے اسی لئیے فرمایا
"ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں شک ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ"
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو حوضِ کوثر سے ایسا مبارک پانی پلائے جسکے بعد ہمیں کبھی پیاس نہ لگے۔ آمین۔۔۔
*ناقابل یقین انفارمیشن*
قرآن حکیم کا دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی باطل بات داخل نہیں ہو سکتی اس لئے کہ قرآن حکیم کا ایک ایک حرف اتنی زبردست
کیلکو لیشن اور اتنے حساب و کتاب کے ساتھ اپنی جگہ پر فِٹ ہے کہ اسے تھوڑا سا اِدھر اُدھر کرنے سے وہ ساری کیلکو لیشن درھم برھم ہوجاتی ہے جِس کے ساتھ قرآنِ پاک کی اعجازی شان نمایا ں ہے ۔
اتنی بڑی کتاب میں اتنی باریک کیلکولیشن کا کوئی رائٹر تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔
بریکٹس میں دیے گئے یہ الفاظ بطور نمونہ ہیں ورنہ قرآن کا ��ر لفظ جتنی مرتبہ استعمال ہوا ہے وہ تعداد اور اس کا پورا بیک گراؤنڈ اپنی جگہ خود عِلم و عِرفان کا ایک وسیع جہان ہے۔
دُنیا کا لفظ اگر 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے تو اس کے مقابل آخرت کا لفظ بھی 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ وعلیٰ ھٰذِہِ القِیاس۔
(دُنیا وآخرت:115) (شیاطین وملائکہ:88) ( موت وحیات:145) (نفع وفساد:50) (اجر و فصل108) (کفروایمان :25) (شہر:12) کیونکہ شہر کا مطلب مہینہ اور سال میں 12 مہینے ہی ہوتے ہیں ( اور یوم کا لفظ 360 مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔
اتنی بڑی کتاب میں اس عددی مناسبت کا خیال رکھنا کسی بھی انسانی مصنّف کے بس کی بات نہیں، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔۔۔
جدیدترین ریسرچ کے مطابق قرآن حکیم کے حفاظتی نظام میں 19 کے عدد کا بڑا عمل دخل ہے ،
اس حیران کن دریافت کا سہرا ایک مصری ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر ہے جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔
1968ء میں انہوں نے مکمل قرآنِ پاک کمپیوٹر پر چڑھانے کے بعد قرآنِ پاک کی آیات ان کے الفاظ و حروف میں کوئی تعلق تلاش کرنا شروع کردیا رفتہ رفتہ اور لوگ بھی اس ریسرچ میں شامل ہوتے گئے حتیٰ کہ 1972ء میں یہ ایک باقاعدہ اسکول بن گیا۔
ریسرچ کا کام جونہی آگے بڑھا اُن لوگوں پر قدم قدم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ،
قرآنِ حکیم کے الفاظ و حروف میں انہیں ایک ایسی حسابی ترتیب نظر آئی جس کے مکمل اِدراک کیلئے اُس وقت تک کے بنے ہوئے کمپیوٹر ناکافی تھے۔
کلام اللہ میں 19 کا ہندسہ صرف سورہ مدثر میں آیا ہے جہاں اللہ نے فرمایا:
دوزخ پر ہم نے اُنیس محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے اس میں کیا حکمت ہے یہ تو رب ہی جانے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ 19 کے عدد کا تعلق اللہ کے کسی حفاطتی انتظام سے ہے
پھر ہر سورة کے آغاز میں قرآنِ مجید کی پہلی آیت بِسم اللہ کو رکھا گیا ہے گویا کہ اس کا تعلق بھی قرآن کی حفاظت سے ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بِسم اللہ کے کُل حروف بھی 19 ہی ہیں ،
پھر یہ دیکھ کر مزید حیرت میں اِضافہ ہوتا ہے کہ بسم اللہ میں ترتیب کے ساتھ چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں ریسرچ کی تو ثابت ہوا کہ اِسم پورے قرآن میں 19 مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔
لفظ الرَّحمٰن 57 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو3×19 کا حاصل ہے اور لفظ الرَّحِیم 114 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو 6×19 کا حاصل ہے اور لفظ اللہ پورے قرآن میں 2699 مرتبہ استعمال ہوا ہے 142×19 کا حاصل ہے ، لیکن یہاں بقیہ ایک رہتا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کی ذات پاک کسی حِساب کے تابع نہیں ہے وہ یکتا ہے۔
قرآن مجید کی سورتوں کی تعداد بھی 114 ہے جو 6×19 کا حاصل ہے ۔
سورہ توبہ کےآغاز میں بِسم اللہ نازل نہیں ہوئی لیکن سورہ نمل آیت نمبر 30 میں مکمل بِسم اللہ نازل کرکے 19 کے فارمولا کی تصدیق کردی اگر ایسا نہ ہوتا تو حسابی قاعدہ فیل ہوجاتا۔
اب آئیے حضور علیہ السَّلام پر اُترنے والی پہلی وحی کی طرف : یہ سورہ علق کی پہلی 5 آیات ہیں :اور یہیں سے 19 کے اِس حسابی فارمولے کا آغاز ہوتا ہے!
ان 5 آیات کے کل الفاظ 19 ہیں اور ان 19 الفاظ کے کل حروف 76 ہیں جو ٹھیک 4×19 کا حاصل ہیں لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی جب سورہ علق کے کل حروف کی گنتی کی گئ تو عقل تو ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کہ اسکے کُل حروف 304 ہیں جو 4×4×19 کا حاصل ہیں۔
اور قاریئن کرام !
عقل یہ دیکھ کر حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں مزید ڈوب جاتی ہے کہ قرآنِ پاک کی موجودہ ترتیب کے مُطابق سورہ علق قرآن پاک کی 96 نمبر سورة ہے اب اگر قرآن کی آخری سورة اَلنَّاس کی طرف سے گِنتی کریں تو اخیر کی طرف سے سورہ علق کا نمبر 19 بنتا ہے اور اگر قرآن کی اِبتدأ سے دیکھیں تو اس 96 نمبر سورة سے پہلے 95 سورتیں ہیں جو ٹھیک 5×19 کا حاصلِ ضرب ہیں جس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ سورتوں کے آگے پیچھے کی ترتیب بھی انسانی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حِسابی نظام کا ہی ایک حِصّہ ہے۔
قرآنِ پاک کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورة سورۂ نصر ہے
یہ سن کر آپ پر پھرایک مرتبہ خوشگوار حیرت طاری ہوگی کہ اللہ پاک نے یہاں بھی 19 کا نِظام برقرار رکھا ہے ، پہلی وحی کی طرح آخری وحی سورہ نصر ٹھیک 19 الفاظ پر مشتمل ہے یوں کلام اللہ کی پہلی اور آخری سورت ایک ہی حِسابی قاعدہ سے نازل ہوئیں۔
سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن حکیم کی پہلی سورة سورۂ بقرہ کی کُل آیات 286 ہیں اور 2 ہٹادیں تو مکّی سُورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے 6 ہٹا دیں تو مدنی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔ 86 کو 28 کے ساتھ جمع کریں تو کُل سورتوں کی تعداد 114 سامنے آتی ہے۔
��ج جب کہ عقل وخرد کو سائنسی ترقی پر بڑا ناز ہے یہی قرآن پھر اپنا چیلنج دہراتا ہے ۔۔۔۔۔
حسابدان، سائنسدان، ہر خاص وعام مومن کافر سبھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ آج بھی کِسی کِتاب میں ایسا حِسابی نظام ڈالنا انسانی بساط سے باہر ہے طاقتور کمپوٹرز کی مدد سے بھی اس جیسے حسابی نظام کے مطابق ہر طرح کی غلطیوں سے پاک کسی کتاب کی تشکیل ناممکن ہوگی ۔
لیکن چودہ سو سال پہلے تو اس کا تصوّر ہی محال ہے لہذا کوئی بھی صحیح العقل آدمی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ قرآنِ کریم کا حِسابی نظام اللہ کا ایسا شاہکار معجزہ ہے جس کا جواب قیامت تک کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔
اور قرآن میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ "پوچھ لو گِنتی کرنے والوں سے" ۔۔۔۔۔
القرآن کی روز تِلاوت کیا کرین اللہ ہم سب کو قران پاک پڑھنے سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ
اور ہمارے دِلوں میں ایمان کو سلامت رکھے اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین ۔
*طالب دعا بندہٕ خدا۔
بصد شکریہ ڈاکٹر طارق مسعود
0 notes
Text
*صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرو*
میں نے پورے قرآن کریم کے اندر تسبيح / سبحان اللہ کے بارے میں تلاش کیا تو مجھے اس کے متعلق درج ذیل عجیب و غریب معلومات حاصل ہوئیں:
👈تسبیح پڑھنے سے اللہ تعالیٰ تقدیر کو بدل دیتا ہے جیسا کہ یونس علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
{فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ . لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ} (سورة الصافات 143-144)
ترجمہ : اگر یونس علیہ سلام تسبیح پڑھنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں پڑے رہتے۔
اور یونس علیہ السلام ان الفاظ کے ذریعے اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے: "لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين " .
👈تسبیح ایسا ذكرہے ہے جس کا ورد پہاڑ اور پرندے بھی اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کے ساتھ کیا کرتے تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ ) (سورة الأنبياء 79)
ترجمہ: داؤد ( علیہ السلام ) کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے۔
👈تسبیح کائنات کی ساری مخلوقات کا ذکر ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے:
﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ (النور/41)
ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔
👈اور اللہ کے نبی زکریا علیہ السلام جب اپنے محراب سے نکلے تو انھوں نے اپنی قوم کو تسبیح پڑھنے کا حکم دیا۔ آیت کریمہ ہے:
(فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا (سورة مريم11)
ترجمہ: اب زکریا ( علیہ السلام ) اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں اشارہ کرتے ہیں کہ تم صبح وشام اللہ تعالٰی کی تسبیح بیان کرو ۔
👈اور موسی علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے بطور خاص یہ دعا کی کہ ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو ان کا وزیر بنا دے تاکہ تسبیح اور ذکر و اذکار کرنے میں ان کے معاون اور مددگار ثابت ہوں۔ وہ دعا یہ ہے:
(وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي (29) هَارُونَ أَخِي (30) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (31) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (32) كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا (33) (سورة طه)
ترجمہ: اور میرے خاندان میں سے میراایک وزیر بنا دے، میرے بھائی ہارون کو، اسے میرا پشت پناہ بنا دے ، اور اسے میرے امر(رسالت)میں شریک بنادے، تاکہ ہم ت��ری خوب تسبیح کریں، اور تجھے کثرت سے یاد کریں۔
👈اسی طرح میں نے پایا کہ تسبیح جنتیوں کا ذکر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
(دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ۚ ) (سورة يونس 10)
ترجمہ : ان کے منہ سے یہ بات نکلے گی ’’سبحان اللہ ‘‘ اور ان کا باہمی سلام یہ ہوگا ’’السلام علیکم‘‘۔
👈تسبیح یہ فرشتوں کا بھی ذکر ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے:
( وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِي الْأَرْضِ ۗ ) (سورۃ الشوریٰ 5)
ترجمہ : اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں اور زمین والوں کے لئے استغفار کر رہے ہیں۔
👈یقینا تسبیح بہت ہی عظیم الشان ذکر ہے اور اس کی تاثیر اور اس کا فائدہ اس قدر ہے کہ اللہ رب العزت اس کے ذریعے تقدیر کو بدل دیتا ہے جیسا کہ یونس علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔
اے اللہ! ہم سب کو ان لوگوں میں سے بنا دے جو کثرت سے تیری تسبیح پڑھتے ہیں اور بکثرت تجھے یاد کرتے ہیں۔
👈( سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ)
اس ذکر کے اندر دو نمایاں چیزیں ہیں "تسبیح اور نفسیاتی راحت و اطمینان" ان دونوں چیزوں کے درمیان باہم کیا ربط ہے مجھے پہلے معلوم نہیں تھا لیکن ایک مرتبہ قرآن کریم کی ایک آیت میری نظر سے گزری جس نے اس راز کو میرے لئے واضح کردیا کہ پورے دن اللہ کی تسبیح پڑھنا کس طریقے سے نفسیاتی راحت و اطمینان کا سبب بنتا ہے۔ وہ آیت کریمہ یہ ہے:
(وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ (سورة طه 130)
ترجمہ: اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ ، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے ، رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا رہ بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہو جائے ۔
👈اس آیت کریمہ میں غور کیجئے کہ کس طریقے سے دن کی تمام گھڑیوں میں تسبیح پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یعنی طلوع آفتاب سے پہلے، غروب آفتاب سے پہلے، رات کے اوقات میں، دن کے شروع میں، اور دن کے آخر میں الغرض دن کا کوئی بھی حصہ باقی نہیں بچا ہے کہ جس میں تسبیح پڑھنے کا حکم نہ دیا گیا ہو۔
اور اس آیت کریمہ میں مذکور "رضا" سے دنیا و آخرت دونوں کی رضا مقصود ہے۔
👈سورۃ الحجر کی آخری آیات میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
( وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ(97) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ(98)
ترجمہ: اور بلاشبہ یقینا ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کریں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔
👈غور کیجئے اس عظیم الشّان آیت کریمہ نے کس طریقے سے اس دوا اور تریاق کی طرف رہنمائی کی ہے جو سینے کی تنگی کے لئے علاج اور دلوں کی تمام بیماریوں کے لیے شفا ہے۔
👈اور ایک انتہائی عجیب و غریب چیز جو ہمیں قرآن کے ذریعے سے معلوم ہوئی وہ یہ کہ ہم لوگ ایسی دنیا میں جیتے اور بستے ہیں جو دنیا ہمیشہ تسبیح کی صدا سے گونجتی ہے۔ چنانچہ آسمان کی گرج اللہ کی تسبیح کرتی ہے، پہاڑ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، پرندے اللہ کی تسبیح میں مصروف رہتے ہیں الغرض آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی تسبیح میں مصروف و مگن ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم انسانوں کو ان ساری مخلوقات کی تسبیح و تعریف کا شعور و ادراک نہیں ہوتا۔
*اے ہمارے رب! یقینا تیری ذات پاک و صاف اور لائق تعریف ہے۔*
* حقیقت میں آج ہم نے جانا کہ ہماری زندگی کے کتنے قیمتی لمحات یوں ہی ضائع و برباد ہوگئے۔ ہم نے انہیں تیری تسبیح و تعریف میں نہیں استعمال کیا۔*
اللہ تعالی ہم سب کو کثرت سے تسبیح پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
*یہ میسج اپنے دوست و احباب کے ساتھ شئیر کیجئے اور اپنے اجر و ثواب میں اضافہ کیجئے۔ آپ کی رہنمائی کی وجہ سے ان کی تسبیح کا اجر و ثواب بھی آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ*
💐 *اللہ کرے کہ آپ کے تمام اوقات ذکر الہی سے تر اور معطر ہوں۔*💐
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
عربی سے ترجمہ : محمد شاهد یار محمد سنابلی
1 note · View note
Text
*علماء كا مقام اور ان سے دوری کاانجام*
تحریر: جمیل احمد ضمیر
علماء اس روئے زمین کی زینت اور تاریکی میں لوگوں کے لئے مشعل ہدایت ہیں، ان کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن کی روشنی سے لوگ بحر وبر کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتےہیں: "يجب على المسلمين بعد موالاة الله ورسوله: موالاةُ المؤمنين كما نطق به القرآن؛ خصوصًا العلماء الذين هم ورثة الأنبياء، الذين جعلهم الله بمنزلة النجوم يُهتدى بهم في ظلمات البر والبحر، وقد أجمع المسلمون على هدايتهم ودرايتهم؛ إذ كل أمة قبل مبعث محمد صلى الله عليه وسلم فعلماؤها شرارها إلا المسلمين فإن علماءهم خيارهم؛ فإنهم خلفاء الرسول في أمته، والمحيون لما مات من سنته، بهم قام الكتاب، وبه قاموا، وبهم نطق الكتاب وبه نطقوا". مجموع الفتاوى (20/ 231-232)
*مسلمانوں پر اللہ اور اس کے رسول سے محبت کے بعد اہل ایمان سے محبت ودوستی واجب ہے، جیسا کہ قرآن کا فرمان ہے، خاص طور پر علماء سے محبت وموالات جو انبیاء کے وارث ہیں؛ جنہیں اللہ تعالی نے ان ستاروں کی مانند بنایا ہے جن کی روشنی سے بحر وبر کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ نیز علماء کی ہدایت اور علم ومعرفت پر مسلمانوں کا اتفاق ہے- محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہر امت کے بدترین لوگ اس کے علماء ہوا کرتے تھے، لیکن مسلمانوں میں سب بہتر ان میں علماء کا طبقہ ہے؛ کیونکہ وہ رسول کے جانشین ہوتے ہیں اور اس کی مردہ سنتوں کو زندہ کرتے ہیں، قرآن ان سے اور وہ قرآن کی بدولت قائم ودائم ہیں، وہ قرآن کی عظمت وصداقت اور قرآن ان کی عظمت وصداقت پر شاہد عدل ہے*۔
علماء کو یہ مقام درج ذیل بنیادوں پر حاصل ہے:
1- علماء انبیاء کے جانشین اور وارث ہیں، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ [دیکھیں: سنن ابو داود (3641)، مسند احمد (21715)]۔
2- یہ امت کے اہل حل وعقد ہیں ۔
ارشادِ بارى تعالى ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ، وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ، وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ۔ [النساء:59]
اس آیت میں اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اولو الامر (با اختیار طبقے) کی اطاعت کا حکم دیاگیاہےاور اولو الامر میں علماء اور امراء وحکام دونوں داخل ہیں۔ [تفسیر ابن کثیر (2/345)]۔
3- اللہ تعالى نے جہالت ولا علمى کى حالت میں لوگوں کو اہل ذکر کى طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد بارى تعالى ہے: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔ [النحل :43]
اور اہل ذکر سے مراد اہل علم ہیں۔
شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس آیت میں اہل علم کى مدح ہے؛ کیونکہ اللہ تعالى نے نہ جاننے والوں کو ان کى طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جو ان کے ثقہ اور قابل اعتبار ہونے کى دلیل ہے اور اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالى نے انہیں اپنے نازل کردہ وحى یعنی قرآن مجید کا امین بنایا ہے۔ (تیسیر الکریم الرحمٰن، ص: 441)۔
4- اللہ تعالى نے اہل علم کو اپنى وحدانیت پر گواہ بنایا ہے۔ ارشاد ربانى ہے: شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ [آل عمران: 18]
اللہ تعالى، فرشتے اور اہل علم اس بات کى گواہى دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئى معبود (برحق ) نہیں۔
اس آیت کریمہ سے اہل علم کى فضیلت اور عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالى نے انسانوں میں سے خصوصى طور پر صرف علماء ہى کو اپنى توحيد پر گواہ بنایا ہے اور ان کى گواہى کو خود اپنی اور اپنے فرشتوں کى گواہى کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ نیز توحید جیسی عظیم شیء پر گواہ بنانے سے علماء کى عدالت وثقاہت کا پتہ چلتا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ تعالى نے توحید کى امانت جو ان کے سینوں میں ودیعت کر رکھى ہے اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینےکى جو ذمہ دارى ان کے سپرد کى ہے، وہى اس کے حقیقى اہل ہیں اور زمیں پر اللہ کے بندوں کے لئے حجت اور مرجعیت کى حیثیت رکھتے ہیں۔
5- نبى صلى اللہ علیہ وسلم کا راستہ بصیرت کے ساتھ اللہ کى طرف دعوت دینا ہے اور یہى ان کے متبعین کا بھى راستہ ہے۔ اللہ تعالى کا ارشاد ہے: قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [یوسف:18]
اور یہ بصیرت جوعلم ویقین سے عبارت ہے؛ علماء کے یہاں دیگر لوگوں کے بالمقابل بدرجہ اتم موجودہے۔
لہذا علماء ہی امت کے حقیقی رہنما ہیں اور امت کے دیگر افراد ان کے تابع ہیں۔ اس لئے لوگوں کو چاہیئے کہ وہ علما سے جڑیں اور ان کی دینی مرجعیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنےدینی، دعوتی اور علمی مسائل کے حل کے لئے علماء ہی سے رابطہ کریں۔
آج علماء کى مرجعیت اور ان کی قائدانہ حیثیت سے امت کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ جاہل اور نا اہل دین کے رہنما بن بیٹھے ہیں، دعوت وافتاء کو بازیچہ اطفال سمجھ لیا گیا ہے، بہت سارے احداث الأسنان اور سفہاء الأحلام امت کے معرکۃ الآراء مسائل میں رائے زنى کرنے کو اپنا واجبی حق تصور کرنے لگے ہیں، جس کے تباہ کن نتائج سے دینی وعلمی غیرت کا حامل ہر باشعور انسان شکوہ کناں ہے۔
علماء راسخین سے دوری اور چند مخصوص رنگ کى فکرى وثقافتى کتابوں اور سطحى لٹریچر کو مرجع بنا لینے کے نتیجے میں کچھ ایسے دعوتى افکار ونظریات ابھر کر سامنے آئے جن میں عقیدہ ومنہج سلف اور پیغمبرانہ اسلوبِ دعوت کو نظر انداز کر دیا گیا اور بظاہر چند خوشنما نعروں کى آڑ میں ان افکار ونظریات کا صور ایسى بلند آہنگى کے ساتھ پھونکا گیا کہ کم علم اور محدود مطالعہ کے حامل لوگ اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جس کے نتیجے میں علم وبصیرت سے عاری ایک ایسا ناعاقبت اندیش گروہ رونما ہوا جس نے امت میں خارجیت زدہ ذہنیت کو فروغ دینے میں بڑا کردار ادا کیا؛ جس کی فتنہ سامانیوں اور ہلاکت خیزیوں سے امت تاہنوز جونجھ رہی ہے۔
بعض گمراہ فرقوں کى تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کى گمراہى کى ایک بڑى وجہ یہ تھى کہ ان کے سرغنہ اور دعاۃ کوئى بڑے عالم نہ تھے، بلکہ علم اور تفقہ فی الدین میں بڑے کوتاہ دست تھے، جس کے نتیجے میں وہ بھیانک شبہات کے شکار ہوئے اور جادّہ حق سے منحرف ہو گئے-
بطور مثال خوارج کو دیکھ لیں کہ کس طرح وہ قرآن کی بعض آیتوں کا غلط مفہوم نکال کر گمراہی کے شکار ہوئے اور حضرت على رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنا ایک مسلح جتھا بنا لیا ۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ انہوں نے صحابہ سے قرآن سمجھنے کی کوشش نہیں کی، وہ قرآن پڑھتے تو تھے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: يقرؤون القرآن لا يجاوز حناجرهم ۔ (متفق علیہ)
اہل علم نےاس حدیث کا ایک مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کےمعانی ومطالب ان کے پلے نہیں پڑتے تھے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "المعنى أنهم لا يفهمون ما فيه ولا يعرفون مضمونه". كشف المشكل من حديث الصحيحين (3/ 47)
یہی وجہ ہے کہ جب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کتاب وسنت کے نصوص کى روشنى میں ان کے شبہات کا ازالہ کیا تو ان کی اکثریت اپنی گمراہی سے تائب ہو گئی، جیسا کہ مصنف عبد الرزاق (18678) میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
لہذا گمراہی اور فتنوں سے بچنے کے لئے کتاب وسنت کا صحیح اور ٹھوس علم رکھنے والے علماء کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے، ہرکس وناکس کو عالم کا درجہ دینا پھر اس سے ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں فتوی یا رہنمائی طلب کرنا انتہائی سنگین امر ہے۔
اپنے زمانے میں مدینہ کے مفتی ربيعة الرأي -رحمہ اللہ- کے پاس ایک شخص آیا تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، یہ منظر دیکھ کر وہ آدمی گھبرا گیا اور کہنے لگا کہ کیا آپ پر کوئی مصیبت آن پڑی ہے؟ ربیعہ نے کہا : نہیں، بات در اصل یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے فتوی پوچھا جانے لگا ہے جن کے پاس علم نہیں، یہ اسلام میں ایک سنگین معاملہ درپیش آ گیا ہے۔ (الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي (2/ 324)۔
اور یہ حقیقت ہے کہ اگر دعوت وافتاء کی باگ ڈور شرعی علوم سے نابلد ونا آشنا ہاتھوں میں ہوگی تو اس کا نتیجہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "إن الله لا يقبض العلم انتزاعًا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يُبْقِ عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلّوا"۔
اللہ تعالى علم کو بندوں کے سینوں سے نہیں اٹھائے گا، بلکہ علماء کو موت دے کر اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئى عالم باقى نہیں رہ جائے گا تو لوگ جہلاء کو اپنا سربراہ بنا لیں گے اور ان سے فتوے پوچھیں گے اور وہ بلاعلم فتوى دیں گے جس کے نتیجے میں خود بھى گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھى گمراہ کریں گے۔ (صحیح بخارى: 100)۔
لہذا ایسے نا اہل لوگوں پر قدغن لگانا اور لوگوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھنا ایک اہم دینی وملی فریضہ ہے، نیز اس سلسلے میں عوام الناس کی ذہن سازی اور صحیح سمت کی طرف ان کارخ موڑنا بھی وقت کا اہم تقاضہ ہے، لہذا اس جانب زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، واللہ الموفق۔
1 note · View note
Text
*تلاوت قرآن کے وقت آپ کی نیت کیا ہوتی ہے؟*
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:"إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى " (صحیح بخاری حدیث نمبر 1)
تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے اور بندے کو وہی ملتا ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے۔
نیتیں بڑی رکھنا یہ صحابہ کرام اور اللہ والے علمائے کرام کی نفع بخش تجارت رہی ہیں۔ وہ کوئی ایک عمل کرتے تھے اس میں ان کی متعدد نیتیں ہوتی تھیں تاکہ انہیں ہر نیت پر عظیم اجر وثواب حاصل ہو۔
ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں: [النية أبلغ من العمل] نیت عمل سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
ذیل میں بطور مثال کچھ نیتیں ذکر کی جارہی ہیں جنہیں تلاوت قرآن کے وقت یاد رکھنا بہتر ہوگا:
(1) تلاوت قرآن کے وقت ہماری دعا ہو کہ اللہ تعالی قرآن کو ہمارے لئے سفارش کا سبب بنا دے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "إقرأوا القرآن فإنه يأتي يوم القيامة شفيعا لأصحابه" (صحیح مسلم حدیث نمبر 804)
قرآن پڑھو کیونکہ قرآن اپنے پڑھنے والوں کے لیے قیامت کے دن سفارشی بن کر آئے گا۔
(2) تلاوت قرآن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کرنا مقصود ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "من قرأ حرفا من كتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر أمثالها ..."( سنن ترمذی حدیث نمبر 2910)
جس نے قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے اس کے بدلے دس نیکیاں ہیں۔
(3) تلاوت قرآن سے مقصود جہنم سے نجات ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لو جمع القرآن في إهاب ما أحرقه الله بالنار. " رواه البيهقي و صححه الألباني
اگر قرآن کو کسی چمڑے میں جمع دیا جائے تو اللہ تعالی اسے آگ سے نہیں جلائے گا۔
(4) تلاوت قرآن کا مقصد تاکہ دل کلام الہی سے معمور رہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "الرجل الذي ليس في جوفه شئ من القرآن كالبيت الخرب" ( سنن الترمذي حدیث نمبر 2913)
کہ جس شخص کے سینے میں قرآن کا کچھ بھی حصہ نہ ہو وہ دل ویران گھر کی طرح ہوتا ہے۔
(5) تلاوت قرآن کے وقت ہر آیت پر عمل کرنے کی نیت ہو تاکہ جنت میں بلند درجات حاصل ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"يقال لقارئ القرآن أقرأ وارق ورتل كما كنت ترتل في الدنيا فإن منزلتك عند أخر آية تقرأها" (سنن أبو داود 1464)
بروز قیامت قرآن کے قاری سے کہا جائے گا پڑھتے جاؤ چڑھتے جاؤ اور ٹھہر ٹھہر کر عمدگی کے ساتھ پڑھو جس طرح تم دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے۔ تمہاری منزل وہیں ہوگی جہاں تم آخری آیت پڑھو گے۔
(6) تلاوت قرآن کا مقصد ہو کہ ہمارے دلوں کے امراض اور جسمانی بیماریوں کو شفا ملے اور رحمت الہی کے نزول کا سبب بنے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: (وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة) الإسراء82
ہم قرآن نازل کرتے ہیں جس میں شفا بھی ہے اور رحمت بھی۔
(7) تلاوت قرآن کا مقصد ہو کہ ہمارے دلوں کو سکون و اطمینان حاصل ہو۔ کیونکہ ذکر الٰہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے (ألا بذكر الله تطمئن القلوب) الرعد28
(8) تلاوت قرآ�� کے وقت ہماری نیت ہو کہ اس قرآن سے ہمارے دلوں کو زندگی، ہماری آنکھوں کو روشنی ملتی ہے اور ہمارے رنج و غم کا مداوا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ قرآن مومنین کے لئے موسم بہار کی طرح ہے جس طرح زمین کے لئے بارش۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: (... أن تجعل القرآن ربيع قلبي ونور صدري ونور بصري جلاء حزني وذهاب همي) مسند أحمد 3528 صححه الألباني في السلسلة الصحيحة (199)
اے اللہ! تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور، میرے غم کو دور کرنے والا، اور میری پریشانی کو لے جانے والا بنا دے۔
(9) تلاوت کے وقت ہماری نیت ہو کہ قرآن ہدایت کا سبب ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : (ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين) البقرة 2
یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں متقیوں کے لیے لیے ہدایت ہے۔
اور حدیث قدسی ہے "ياعبادي كلكم ضال آلا من هديته فاستهدوني أهدكم" (رواه مسلم 257)
اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں۔ لہذا مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دونگا۔
(10) تلاوت اس نیت سے کریں کہ ہمارا خاتمہ قرآن پر ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو شہادت سے سرفراز کیا جب وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو جیسی زندگی گزارتا ہے اسی پر اس کی موت ہوتی ہے اور جس حالت پر موت ہوتی ہے اسے اسی حالت میں دوبارہ زندہ اٹھایا جائے گا۔ انھوں نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا (أم حسب اللذين اجترحوا السيئات أن نجعلهم كالذين آمنوا وعملوا الصالحات سواء محياهم ومماتهم ساء مايحكمون)) الجاثية21
(11) ہم قرآن پڑھیں اس لیے کہ کلام الہی سے محبت کے نتیجے میں ہمیں اللہ کا قرب حاصل ہو۔ حدیث میں آتا ہے "إنك مع من أحببت"( صحیح مسلم 2639)
کہ تم اس کے ساتھ رہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو۔
(12) ہم تلاوت کریں اس نیت سے کہ یہ ایمان میں زیادتی اور اضافے کا باعث ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : (( وإذا ماأنزلت سورة فمنهم من يقول أيكم زادته هذه إيمانا فأما اللذين آمنوا فزادتهم إيمانا وهم يستبشرون)) التوبة 124
(13) تلاوت قرآن کے وقت ہماری ایک نیت یہ بھی ہونی چاہیے کہ اس کے ذریعے ہمیں اپنے رب کے بارے میں مزید علم و معرفت حاصل ہو تاکہ ہمارے اندر اللہ کے لیے مزید عاجزی اور انکساری پیدا ہو اور ہر وقت اور ہر لمحہ اللہ کے محتاج اور اس سے مدد د کے طالب ہوں۔
(14) تلاوت قرآن کے وقت ہمیں اللہ سے اس کے فضل عظیم کا طالب ہونا چاہیے کہ اس تلاوت کے بدلے اللہ تعالی ہمیں اپنے خاص بندوں میں شامل فرما لے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "إن لله أهلين من الناس" ، قالوا: من هم يارسول الله؟ قال: "هم أهل القرآن ، أهل الله وخاصته" ( ابن ماجه 215 و صححه الألباني)
کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ اللہ والے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: وہ قرآن والے ہیں۔
(15) اور سب سےاہم اور عظیم نیت یہ ہو کہ ہم تلاوت قرآن کے ذریعے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ((ورتل القرآن ترتيلا)) المزمل4
اللہ تعالی ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کا پابند بنائے نیز اسے سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عربی سے منقول
0 notes
Text
Tumblr media
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت
(تحریر: حافظ شیر محمد الاثری حفظہ اللّٰہ)
نبی کریم ﷺ نے سیدنا حسن بن علی اور سیدنا حسین بن علی رضی اللّٰہ عنہما کے بارے میں فرمایا:
’’ھما ریحا نتاي من الدنیا‘‘
وہ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔ (صحیح البخاری: 3753)
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
((حسین مني وأنا من حسین، أحبّ اللّٰہ من أحبّ حسیناً، حسین سبط من الأسباط))
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللّٰہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے۔
(سنن الترمذی: 3775 وقال: ھذا حدیث حسن، مسند احمد 4/ 172، ماہنامہ الحدیث: 24 ص 48، یہ روایت حسن لذاتہ ہے)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت:
﴿نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ﴾
اور (مباہلے کے لئے) ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ۔ (اٰل عمران: 16)
نازل ہوئی تو رسول اللّٰہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللّٰہ عنہم اجمعین) کو بلایا اور فرمایا:
((اَللّٰھُمَّ ھٰؤ لاء أھلي))
اے اللّٰہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔
(صحیح مسلم: 32/2404 وترقیم دارالسلام: 6220)
سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ:
ایک دن صبح کو نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے جسم مبارک پر اونٹ کے کجاوں جیسی دھاریوں والی ایک اونی چادر تھی تو حسن بن علی (رضی اللّٰہ عنہما) تشریف لائے، آپ نے انھیں چادر میں داخل کر لیا۔ پھر حسین (رضی اللّٰہ عنہ) تشریف لائے، وہ چادر کے اندر داخل ہو گئے۔ پھر فاطمہ (رضی اللّٰہ عنہا) تشریف لائیں تو انھیں آپ نے چادر کے اندر داخل کر لیا، پھر علی (رضی اللّٰہ عنہ) تشریف لائے تو انھیں (بھی) آپ نے چادر کے اندر داخل کر لیا۔
پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا﴾
اے اہلِ بیت! اللّٰہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دور کر دے اور تمھیں خوب پاک صاف کر دے۔ [الاحزاب: 33]
(صحیح مسلم: 61/2422 ودارالسلام: 6261)
سیدنا زید بن ارقم رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا:
’’نساؤہ من أھل بیتہ ولکن أھل بیتہ من حرم الصدقۃ بعدہ‘‘
آپ (ﷺ) کی بیویاں آپ کے اہلِ بیت میں سے ہیں لیکن (اس حدیث میں) اہلِ بیت سے مراد وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ (لینا) حرام ہے یعنی آلِ علی، آلِ عقیل، آلِ جعفر اور آلِ عباس۔
(صحیح مسلم: 2408 وترقیم دارالسلام:6225)
سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے اپنی دائیں طرف فاطمہ کو اور بائیں طرف علی کو بٹھایا اور اپنے سامنے حسن و حسین (رضی اللّٰہ عنہما) کو بٹھایا (پھر) فرمایا:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا﴾
اے اہلِ بیت! اللّٰہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دُور کر دے اور تمھیں خوب پاک وصاف کردے۔ (الاحزاب: 33) اے اللّٰہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔
(صحیح ابن حبان، الاحسان: 6937/6976، الموارد: 2245، ومسند احمد4/107 وصححہ البیہقی2/ 152 والحاکم 3/147 ح 4706 علیٰ شرط الشیخین ووافقہ الذہبی علیٰ شرط مسلم والحدیث سندہ صحیح)
سیدہ ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کے بارے میں فرمایا:
’’اللھم ھؤلا ء أھل بیتي‘‘
اے میرے اللّٰہ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔
(المستدرک 2/ 416 ح 3558 وسندہ حسن وصححہ الحاکم علیٰ شرط البخاری)
مسند احمد (6/292 ح 26508 ب) میں صحیح سند سے اس حدیث کا شاہد (تائیدی روایت) موجود ہے۔
سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین کے اہلِ بیت میں ہونے کے بیان والی حدیث عمر بن ابی سلمہ رضی اللّٰہ عنہ (ترمذی: 3787 وسندہ حسن) سے مروی ہے۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا کی ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے ام سلمہ کو فرمایا:
’’أنت من أھلي‘‘
تو میرے اہل (بیت) سے ہے۔
(مشکل الآثار للطحاوی / تحفۃ الاخیار 8/471 ح6147 وسندہ حسن)
مختصر یہ کہ سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ، سیدنا حسن رضی اللّٰہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللّٰہ عنہ کا اہلِ بیت میں سے ہونا صحیح قطعی دلائل میں سے ہے، اس کے باوجود بعض بدنصیب حضرات ناصبیت کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’یہ اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں‘‘!!
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنۃ))
حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
(مسند احمد 3/3ح10999 عن ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ وسندہ صحیح، النسائی فی الکبریٰ: 8525 وفی خصائص علی:140)
سیدنا حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
اس فرشتے نے مجھے خوش خبری دی کہ
’’وأن الحسن والحسین سیّدا شباب أھل الجنۃ‘‘
اور بے شک حسن و حسین (رضی اللّٰہ عنہما) اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
(ترمذی: 3781 واسنادہ حسن، وقال الترمذی: ’’حسن غریب‘‘ وصححہ ابن حبان، الموارد: 2229 وابن خزیمہ: 1194 والذہبی فی تلخیص المستدرک 3/381)
سیدنا عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
((الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنۃ وأبوھما خیرمنھما))
حسن اور حسین اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے ابا (سیدناعلی رضی اللّٰہ عنہ) ان دونوں سے بہتر ہیں۔
(المستدرک للحاکم 3/167 ح 4779 وسندہ حسن، وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی)
’’سید اشباب أھل الجنۃ‘‘ والی حدیث متواتر ہے۔ (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ص 207 ح:235، قطف الازہار المتناثرہ فی الاخبار المتواترہ للسیوطی ص 286 ح: 105، لقط اللآلی المتناثرہ فی الاحادیث المتواترہ للزبیدی ص 149 ح: 45)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((ھذان ابناي وابنا ابنتي، اللھم إنّي أحبھما فأحبھما وأحبّ من یحبّھما))
یہ دونوں (حسن وحسین) میرے بیٹے اور نواسے ہیں، اے میرے اللّٰہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تُو بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو اِن سے محبت کرے تُو اس سے محبت کر۔
(الترمذی: 3769 وسندہ حسن وقال: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ فیہ موسیٰ بن یعقوب الزمعی حسن الحدیث وثقہ الجمہور)
عطاء بن یسار (تابعی) رحمہ اللّٰہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں ایک آدمی (صحابی) نے بتایا: انھوں نے دیکھا کہ نبی ﷺ حسن اور حسین (رضی اللّٰہ عنہما) کو سینے سے لگا کر فرما رہے تھے:
((اللھم إني أحبھما فأحبھما))
اے اللّٰہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو (بھی) ان دونوں سے محبت کر۔
(مسند احمد 5/ 369 ح 23133 وسندہ صحیح)
سیدنا عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
((أحبو ا اللّٰہ لما یغذوکم من نعمہ، وأحبوني بحب اللّٰہ، وأحبوا أھل بیتي لحبي))
اللّٰہ تمھیں جو نعمتیں کھلاتا ہے اُن کی وجہ سے اللّٰہ سے محبت کرو، اور اللّٰہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو، اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔
(الترمذی: 3789 وسندہ حسن، وقال الترمذی: ’’حسن غریب‘‘ و صححہ الحاکم 3/150 ح 4716 ووافقہ الذہبی وقال المزی: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ / تہذیب الکمال 10/199، عبداللّٰہ بن سلیمان النوفلی وثقہ الترمذی والحاکم والذہبی فھو حسن الحدیث)
سیدنا الامام ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا:
’’ارقبوا محمدًا ﷺ في أھل بیتہ‘‘
محمد ﷺ کے اہلِ بیت (سے محبت) میں آپ کی محبت تلاش کرو۔
(صحیح بخاری: 3751)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
((من أحبھما فقد أحبني ومن أبغضھما فقد أبغضني))
جس شخص نے ان (حسن اور حسین رضی اللّٰہ عنہما) سے محبت کی تو یقینا اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بُغض کیا تو یقینا اس نے مجھ سے بُغض کیا۔
(مسند احمد 2/440 ح 9673 وفضائل الصحابۃ لاحمد: 1376 وسندہ حسن، وصححہ الحاکم 3/166 ح 4777 ووافقہ الذہبی / عبدالرحمٰن بن مسعود الیشکری وثقہ ابن حبان 5/106 والحاکم والذہبی وقال الہیثمی فی مجمع الزوائد 5/ 240: ’’وھو ثقۃ‘‘ فحدیثہ لا ینزل عن درجۃ الحسن)
اس روایت کو دوسری جگہ حافظ ذہبی نے قوی قرار دیا ہے۔ (دیکھئے تاریخ الاسلام 5/95 وقال: ’’وفی المسند بإسناد قوي‘‘)
ایک دفعہ نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ حسن اور حسین (رضی اللّٰہ عنہما) تشریف لے آئے تو آپ منبر سے اُتر گئے اور انھیں پکڑ کر اپنے سامنے لے آئے، پھر آپ نے خطبہ شروع کر دیا۔ (الترمذی: 3774 وسندہ حسن، ابو داود: 1109، النسائی 3/108 ح 1414، وقال الترمذی: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ وصححہ الطبری فی تفسیرہ 28/ 81 وابن خزیمہ: 1456، 1801 وابن حبان، موارد الظمآن: 2230 والحاکم 1/287، 4/189 ووافقہ الذہبی، وقال الذہبی فی تاریخ الاسلام 5/97: ’’إسنادہ صحیح‘‘)
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ کعبے کے سائے تلے بیٹھے ہوئے تھے کہ حسین بن علی رضی اللّٰہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے فرمایا:
’’ھذا أحب أھل الأرض إلٰی أھل السماء الیوم‘‘
یہ شخص آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔
(تاریخ دمشق 14/ 181 وسندہ حسن، یونس بن ابی اسحاق برئ من التدلیس کما فی الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین 66/ 2ص 48)
مظلومِ کربلا کی شہادت کا المیہ:
سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ:
ایک دن میں نبی ﷺ کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔
میں نے کہا: اے اللّٰہ کے نبی! کیا کسی نے آپ کو ناراض کر دیا ہے؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟
آپ نے فرمایا: بلکہ میرے پاس سے ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں، انھوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل (شہید) کیا جائے گا۔
(مسند احمد 1/85 ح 648 وسندہ حسن، عبداللّٰہ بن نجی وابوہ صدوقان وثقہما الجمہور ولا ینزل حدیثہما عن درجۃ الحسن، انظر نیل المقصود فی تحقیق سنن ابی داود: 227)
سیدنا عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ:
میں نے ایک دن دوپہر کو نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی۔
میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟
آپ نے فرمایا: یہ حسین ( رضی اللّٰہ عنہ) اور اُن کے ساتھیوں کا خون ہے، میں اسے صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں۔
(مسند احمد 1/242 وسندہ حسن، دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 10ص 14تا 16، اورشمارہ: 20ص 18تا 23)
اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ سیدنا امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت پر سخت غمگین تھے۔
ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ:
رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس حسین بن علی (رضی اللّٰہ عنہ) موجود تھے اور آپ رو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی۔
(مشیخۃ ابراہیم بن طہمان: 3وسندہ حسن ومن طریق ابن طہمان رواہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق 14/192، ولہ طریق آخر عندالحاکم 4/398ح 8202 وصححہ علیٰ شرط الشیخین ووافقہ الذہبی)
شہر بن حوشب (صدوق حسن الحدیث، وثقہ الجمہور) سے روایت ہے کہ جب (سیدنا) حسین بن علی (رضی اللّٰہ عنہما) کی شہادت کی خبر عراق سے آئی تو ام سلمہ(رضی اللّٰہ عنہا) نے فرمایا:
عراقیوں پر لعنت ہو، عراقیوں نے آپ کو قتل کیا ہے، اللّٰہ انھیں قتل کرے۔ انھوں نے آپ سے دھوکا کیا اور آپ کو ذلیل کیا، اللّٰہ انھیں ذلیل کرے۔
(فضائل الصحابۃ، زوائد القطیعی 2/782 ح 1392 وسندہ حسن، ومسند احمد 6/298 ح 26550 وسندہ حسن)
ہلال بن اساف (ثقہ تابعی) سے روایت ہے کہ:
(سیدنا) حسین (رضی اللّٰہ عنہ) شام کی طرف یزید (بن معاویہ بن ابی سفیان) کی طرف جارہے تھے، کربلا کے مقام پر انھیں عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن اور ح��ین بن نمیر وغیر ہم کے لشکر ملے۔
(امام) حسین نے فرمایا: مجھے یزید کے پاس جانے دو تاکہ میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں (بیعت کرلوں)۔
انھوں نے کہا: نہیں، ابن زیاد کے فیصلے پر اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو۔
(کتاب جمل من انساب الاشراف للبلاذری 3/1349 وسندہ صحیح)
سیدنا حسین رضی اللّٰہ عنہ کو جب شہید کیا گیا تو آپ کا سر مبارک عبیداللّٰہ بن زیاد (ابن مرجانہ، ظالم مبغوض) کے سامنے لایا گیا تو وہ ہاتھ کی چھڑی کے ساتھ آپ کے سر کو کُریدنے لگا۔
یہ دیکھ کر سیدنا انس رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا:
حسین (رضی اللّٰہ عنہ) رسول اللّٰہ ﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔
(دیکھئے صحیح بخاری: 3748)
سیدنا عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے کسی (عراقی) نے مچھر (یا مکھی)کے (حالتِ احرام میں) خون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
اسے دیکھو، یہ (عراقی) مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے اور انھوں نے نبی ﷺ کے بیٹے (نواسے) کو قتل (شہید) کیا ہے۔
(صحیح بخاری: 5994، 3753)
سعد بن عبیدہ (ثقہ تابعی) بیان کرتے ہیں کہ:
میں نے (سیدنا) حسین (رضی اللّٰہ عنہ) کو دیکھا، آپ ایک کپڑے (برود) کا جُبہ (چوغہ) پہنے ہوتے تھے۔
عمرو بن خالد الطہوی نامی ایک شخص نے آپ کو تیر مارا جو آپ کے چوغے سے لٹک رہا تھا۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر 14/214 وسندہ صحیح)
شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ:
میں نبی ﷺ کی زوجہ اُم سلمہ ( رضی اللّٰہ عنہا) کے پاس موجود تھا۔ میں نے (سیدنا) حسین (رضی اللّٰہ عنہ) کی شہادت کی خبر سنی تو اُم سلمہ کو بتایا۔ (کہ سیدنا حسین رضی اللّٰہ عنہ شہید ہو گئے ہیں)۔
انھوں نے فرمایا: ان لوگوں نے یہ کام کر دیاہے، اللّٰہ ان کے گھروں یا قبروں کو آگ سے بھر دے۔ اور وہ (غم کی شدت سے) ��ے ہوش ہوگئیں۔
(تاریخ دمشق 14/ 229 وسندحسن)
سیدہ اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللّٰہ عنہا (توفیت سنۃ 62ھ) نے فرمایا:
میں نے جنوں کو (امام) حسین (رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت) پر روتے ہوئے سُنا ہے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی 3/121 ح 2862، 3/122 ح 2867، فضائل الصحابہ لاحمد 2/776 ح 1373 وسندہ حسن)
سیدنا حسین رضی اللّٰہ عنہ (10) محرم (عاشوراء کے دن) اکسٹھ (61) ہجری میں شہید ہوئے۔ (دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر 14/237 وھو قول اکثر اہل التاریخ)
یہ ہفتے (سبت) کا دن تھا۔ (تاریخ ابی زرعہ الدمشقی: 243 بسند صحیح عن ابی نعیم الفضل بن دکین الکوفی رحمہ اللّٰہ)
بعض کہتے ہیں کہ سوموار کا دن تھا۔ (دیکھئے تاریخ دمشق 14/ 236)
بہت سے کفار اپنے کفر کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کو بُرا کہتے رہتے ہیں مگر رب رحیم انھیں دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے مگر جسے وہ پکڑلے تو اسے چھڑانے والا کوئی نہیں۔
مشہور جلیل القدر ثقہ تابعی ابو رجاء عمران بن ملحان العطاردی رحمہ اللّٰہ نے جاہلیت کا زمانہ پایا ہے مگر صحابیت کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔ وہ ایک سو بیس (120) سال کی عمر میں، ایک سو پانچ (105ھ) میں فوت ہوئے۔
ابو رجاء العطاردی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں:
علی اور اہلِ بیت کو بُرا نہ کہو، ہمارے بلہجیم کے ایک پڑوسی نے (سیدنا) حسین رضی اللّٰہ عنہ کو بُرا کہا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے اندھا کر دیا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی 3/112 ح 2830 ملخصاً وسندہ صحیح)
سیدنا حسین رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت کے بارے میں بہت سی ضعیف ومردود اور عجیب وغریب روایات مروی ہیں جنھیں میں نے جان بوجھ کر یہاں ذکر نہیں کیا۔ دین کا دارومدار صحیح وثابت روایات پر ہے، ضعیف و مردود روایات پر نہیں۔
صد افسوس ہے ان لوگوں پر جو غیر ثابت اور مردود تاریخی روایات پر اپنے عقائد اور عمل کی بنیاد رکھتے ہیں بلکہ ببانگ دہل ان مردود روایات کو ’’مسلّم تاریخی حقائق‘‘ کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
تابعیِ صغیر ابراہیم بن یزید النخعی نے فرمایا:
اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنھوں نے حسین بن علی (رضی اللّٰہ عنہ) کو قتل (شہید) کیا تھا، پھر میری مغفرت کر دی جاتی، پھر میں جنت میں داخل ہوتا تو میں نبی ﷺ کے پاس گزرنے سے شرم کرتا کہ کہیں آپ میری طرف دیکھ نہ لیں۔
(المعجم الکبیر للطبرانی 3/112 ح 2829 وسندہ حسن)
آخر میں ان لوگوں پر لعنت ہے جنھوں نے سیدنا ومحبوبنا وامامنا الحسین بن علی رضی اللّٰہ عنہما کو شہید کیا یا شہید کرایا یا اس کے لئے کسی قسم کی معاونت کی۔
اے اللّٰہ! ہمارے دلوں کو سیدنا الامام المظلوم الشہید حسین بن علی، تمام اہلِ بیت اور تمام صحابہ رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے۔ آمین
سیدنا علی، سیدنا حسین اور اہلِ بیت سے نواصب حضرات بُغض رکھتے ہیں جبکہ شیعہ حضرات ان کے دعویِ محبت میں صحابۂ کرام سے بُغض رکھتے ہیں، اہلِ بیت کی محبت میں غلو کرتے اور ضروریاتِ دین کا انکار کرتے ہیں۔ یہ دونوں فریق افراط و تفریط والے راستوں پر گامزن ہیں۔ اہلِ سنت کا راستہ اعتدال اور انصاف والا راستہ ہے۔ والحمدللہ
اہلِ سنت کے ایک جلیل القدر امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمہ اللّٰہ نے شہادتِ حسین وغیرہ تاریخی واقعات کو ابو مخنف وغیرہ کذابین ومتروکین کی سند سے اپنی تاریخ طبری میں نقل کررکھا ہے۔ یہ واقعات وتفاصیل موضوع اور من گھڑت وغیرہ ہونے کی وجہ سے مردود ہیں لیکن امام طبری رحمہ اللّٰہ بری ہیں کیونکہ انھوں نے سندیں بیان کردی ہیں۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ حدیث کی ہر کتاب سے صرف وہی روایت پیش کرنی چاہئے جس کی سند اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کی روشنی میں صحیح لذاتہ یا حسن لذاتہ ہو ورنہ پھر خاموشی ہی بہتر ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مُسنَد متصل مرفوع تمام احادیث صحیح ہیں۔
0 notes
Text
🔖 *سنتیں جنہیں چھوڑ دیا گیا*
(بیوی کے ساتھ سلوک کے سلسلے میں)
تحریر : نامعلوم
عربی سے اردو ترجمانی : عبدالغفار سلفی ،بنارس
*💢 سنت نبوی کی روشنی میں ایک شوہر اپنی بیوی کے ساتھ کیسا سلوک کرے؟*
*🎁 بیوی کا چہرہ دیکھ کر مسکرانا*
• رسول الله ﷺ نے فرمایا : " تمہارا اپنے بھائی کے چہرے کو دیکھ کر مسکرانا صدقہ ہے "
_📔 ( صحيح الترمذي 1956 )
↩ *آپ کی بیوی آپ کی مسکراہٹ کی زیادہ حقدار ہے!*
*🎁 بیوی کو محبت کے ساتھ کھانا کھلانا*
• رسول الله ﷺ نے فرمایا "تم جو بھی خرچ کرتے ہو اس پر تمہیں اجر ملے گا یہاں تک کہ اس لقمے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منھ میں ڈالتے ہو" 📔( متّفق عليه )
*🎁 پیار میں بیوی کا بچا پانی پی لینا*
• عائشہ رضي الله عنها سے روایت ہے، کہتی ہیں : - "میں حیض کی حالت میں پانی پیتی تھی، پھر بچا ہوا پانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتی تھی اور آپ اسے وہیں منھ لگا کر پیتے تھے جہاں میں نے منھ لگایا ہوا تھا، میں حیض کی حالت میں گوشت کی بوٹی کھاتی تھی اور پھر بچی ہوئی بوٹی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی تھی، آپ اسے وہیں منھ لگا کر کھا جاتے تھے جہاں میں نے منھ لگایا ہوا تھا"
_📔 ( مسلم )
*🎁 بیوی کی گود میں سر رکھ کر لیٹنا*
• عائشہ رضي الله عنها فرماتی ہیں " اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھ کر لیٹے رہتے تھے اور قرآن پڑھتے تھے جب کہ میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی. "
_📔 ( متّفق عليه )
*🎁 ایک ہی برتن سے بیوی کے ساتھ غسل کرنا*
• حضرت عائشہ، أم سلمہ، ميمونہ اور ابن عمر رضي الله عنهم سے روایت ہے کہ " نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی ایک ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ فرماتے :میرے لیے پانی بچا رہنے دو، اس پر وہ بیوی بھی عرض کرتیں : آپ میرے لیے پانی بچا رہنے دیجیے. ".
_📔( متّفق عليه )
*🎁 بیوی کے ساتھ کھیلنا اور ہنسی مذاق کرنا*
• رسول الله ﷺ نے حضرت جابر بن عبد الله سے فرمایا : " تم نے کسی کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے وہ تمہارے ساتھ کھیلتی"
_📔 ( متفق عليه )
• عائشہ - رضي الله عنها سے روایت ہے کہ وہ ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، اس وقت وہ کمسن تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا : تم لوگ آگے نکل جاؤ. جب وہ لوگ آگے نکل گئے تو آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : آؤ ہم دونوں دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں. "
_📔 ( السلسلة الصحيحة 1/254 )
*🎁 گھر کے کاموں میں بیوی کا تعاون کرنا*
•حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ انسانوں میں سے ایک انسان تھے، آپ اپنے کپڑے صاف کر لیتے تھے، بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے اور اپنے کام خود کر لیتے تھے. "
_📔( صحيح الأدب المفرد 4996 )
*🎁 بیوی کی خاطر اپنا منھ صاف رکھنا*
• عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں داخل ہوتے تو مسواک سے آغاز کرتے تھے ".
_📔 ( صحيح مسلم )
*🎁 بیوی کے لیے خوشبو لگانا، سجنا سنورنا*
• ابن عباس رضي الله عنهما فرماتے ہیں "مجھے یہ چیز محبوب ہے کہ میں بھی اپنی بیوی کے لیے زیب وزینت کروں جس طرح وہ میرے لیے سجتی سنورتی ہے. "
_📔 ( مصنف ابن أبي شيبة )
*🎁 بیوی کے نام میں ترخیم کے ساتھ پکارنا (یعنی نام کا آخری حصہ حذف کر دینا)، اسے ان ناموں اور کنیت سے پکارنا جو اسے پسند ہوں*
• آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پکارتے ہوئے کہتے تھے : عائش! عائش! جبریل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں "
_📔 ( متفق عليه )
• آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو" اے حمیراء! " کہہ کر بھی پکارتے تھے. ".
📔 ( السلسلة الصحيحة 818/7 )
*حمیراء حمراء کی تصغیر ہے، اس سے گوری چٹی عورت مراد ہوتی ہے.*
• *عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دن عرض کیا : اے اللہ کے رسول! مجھے چھوڑ کر آپ کی تمام بیویوں کی کنیت ہے. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اماں عائشہ کی کنیت" ام عبداللہ" مقرر فرمائی.*
_📔 ( السلسلة الصحيحة 255/1 )
*🎁 بیوی کی خامیوں سے چشم پوشی کرنا*
• آپ ﷺ نے فرمایا" کوئی مومن مرد اپنی ایمان والی بیوی سے نفرت نہ رکھے، اگر اس کی کوئی صفت اسے ناپسند ہوگی تو ضرور کوئی صفت پسند بھی ہوگی "
_📔 ( مسلم )
*🎁 بیوی رو رہی ہو تو اسے دلاسا دینا اور اس کے آنسو پونچھنا*
• أنس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک سفر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں، اس دن انہیں کی باری تھی، سفر میں وہ پیچھے رہ گئیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو وہ رو رہی تھیں، کہنے لگیں : آپ نے مجھے بالکل دھیمے چلنے والے اونٹ پر سوار کر دیا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے آنسو پونچھ کر انہیں چپ کرانے لگے. "
_📔 ( صحيح النسائي )
*🎁 بیوی جواب سوال کرے تو برداشت کرنا*
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک دن میری بیوی مجھ سے کسی بات پر بحث کر رہی تھی، اس نے میری کسی بات کا جواب دے دیا.. مجھے اس کا جواب دینا بہت برا لگا. اس پر وہ بولی : میرا جواب دینا آپ کو برا کیوں لگ رہا ہے، اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کی باتوں کا جواب دے دیتی تھیں "
_📔 ( بخاري )
*🎁 بیوی کے کھانے میں عیب نہ نکالے*
• ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا، کھانا آپ کو پسند آتا تو آپ کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے. "
_📔 ( بخاری)
*🎁 اس کی خدمات کی قدر کرنا اور ممنون ہونا*
آپ ﷺ نے فرمایا " جس نے لوگوں کا شکریہ نہیں ادا کیا اس نے اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کیا"
_📔( صحيح الترغيب والترهيب 976)
*🎁 اس کے گھر والوں اور سہیلیوں کا اکرام کرنا*
• عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بکری ذبح کرتے تھے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کا پتہ کر کے انہیں تحفے میں بھیجتے تھے "
📔 ( صحيح الترمذي )
*🎁 بیوی کا ساتھ نباہنے کا اعلان کرنا*
• حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک مرتبہ ام زرع کا واقعہ بیان کرنے لگیں جس کا شوہر اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتا تھا لیکن بعد میں اسے الگ کر دیا. اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : میں تمہارے لیے ویسے ہی ہوں جیسے ابو زرع ام زرع کے لیے تھا لیکن میں تمہیں طلاق نہیں دے سکتا. "
_📔( صحيح البخاري )
*🎁 بیوی بیمار ہو تو اس کا خصوصی خیال رکھنا اور اسے دم کرنا*
•حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ افک کے ضمن میں کہتی ہیں : جب میں بیمار ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر بہت مہربان اور شفیق ہوتے تھے، لیکن اس بیماری میں آپ کا سلوک ویسا نہیں تھا، مجھے آپ کا یہ سلوک عجیب لگا. آپ میرے پاس تشریف لاتے، میرے ساتھ میری والدہ بھی ہوتیں جو بیماری میری دیکھ بھال کرتی تھیں، آپ بس اتنا کہتے "کیسی ہو؟" اس سے زیادہ کچھ نہ فرماتے. "
( بخاری)
• اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے، کہتی ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں جب کوئی بیمار ہوتا تو آپ اس پر معوذات پڑھ کر دم کرتے. "
_📔 ( مسلم )
*🎁 اللہ کی اطاعت کے کاموں میں بیوی کی مدد کرنا*
• آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ رحم فرمائے اس مرد پر جو رات میں قیام کرے اور اپنی بیوی کو بھی اٹھائے، اگر وہ انکار کرے تو اس کے چہرے پر پانی چھڑک دے"
_📔 ( صحيح أبي داود )
*🎁 اس پر بھروسہ کرنا، اسے بے وفا نہ سمجھنا*
• اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی اچانک رات میں اپنی بیوی کے پاس آئے اور اسے بے وفا سمجھے یا اس کی غلطیاں ڈھونڈے "
_📔( صحيح مسلم )
*🎁 جب کہیں جانے لگے تو بیوی کو بوسہ لینا*
•عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک اہلیہ کو بوسہ لیا پھر آپ نماز کے لیے نکل گئے، آپ نے پھر سے وضو نہیں کیا. "
_📔( أبو داود )
1 note · View note
Text
اردو ميں جسے ہم “بيوی ” بولتے هيں قرآن مجيد ميں اس کے لئے تین لفظ استعمال ہوئے ہیں
1- إمراءة
2- زوجة
3- صاحبة
إمراءة :
امراءة سے مراد ايسی بيوی جس سے جسمانی تعلق تو ہو مگر ذہنی تعلق نہ ہو
زوجة :
ايسی بيوی جس سے ذہنی اور جسمانی دونوں تعلقات ہوں يعنی ذهنی اور جسمانی دونوں طرح ہم آہنگی ہو
صاحبة :
ايسی بيوی جس سے نه جسمانی تعلق ہو نہ ذہنی تعلق ہو
اب ذرا قرآن مجيد كی آيات پر غور كيجئے :
1- امراءة
حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام كی بيوياں مسلمان نہیں ہوئی تھيں تو قرآن مجيد ميں ان كو
" امراءة نوح " اور " امراءة لوط " كہہ كر پكارا هے،
اسی طرح فرعون كی بيوی مسلمان هو گئی تھی تو قرآن نے اسكو بھی
" وامراءة فرعون" کہ كر پكارا هے
(ملاحظه كريں سورة التحريم كے آخری آيات ميں)
یہاں پر جسمانی تعلق تو تھا اس لئے کہ بيوياں تهيں ليكن ذهنی ہم آہنگی نہیں تھی اس لئے کہ مذہب مختلف تھا
2- زوجة :
جہاں جسمانی اور ذہنی پوری طرح ہم آہنگی ہو وہاں بولا گيا جيسے
( ﻭﻗﻠﻨﺎ ﻳﺎ آﺩﻡ ﺍﺳﻜﻦ ﺃﻧﺖ ﻭ ﺯﻭﺟﻚ ﺍﻟﺠﻨﺔ )
اور نبی صلی اللّٰہ عليه و سلم كے بارے فرمايا
( يأيها النبي قل لأزواجك .... )
شايد اللّٰہ تعالٰی بتانا چاہتا ہے کہ ان نبيوں كا اپنی بيويوں كے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا
ایک عجيب بات هے زكريا علیہ السلام كے بارے کہ جب أولاد نہیں تھی تو بولا
( و امراتي عاقرا .... )
اور جب أولاد مل گئی تو بولا
( ووهبنا له يحی و أصلحنا له زوجه .... )
اس نكته كو اهل عقل سمجھ سكتے هيں
اسی طرح ابولهب كو رسوا كيا يہ بول کر
( وامرءته حمالة الحطب )
كہ اس کا بيوی كے ساتھ بھی كوئی اچھا تعلق نہیں تھا
3- صاحبة :
جہاں پر كوئی کسی قسم کا جسمانی يا ذہنی تعلق نہ ہو
اللّٰہ تعالٰی نے اپنی ذات كو جب بيوی سے پاک کہا تو لفظ "صاحبة" بولا اس لئے كه یہاں كوئی جسمانی يا ذہنی كوئی تعلق نہیں ہے
(ﺃﻧﻰ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻪ ﻭﻟﺪ ﻭﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﻟﻪ ﺻﺎﺣﺒﺔ)
اسی طرح ميدان حشر ميں بيوی سے كوئی جسمانی يا ذہنی كسی طرح كا كوئی تعلق نہیں ہو گا تو فرمايا
( ﻳﻮﻡ ﻳﻔﺮ ﺍﻟﻤﺮﺀ ﻣﻦ ﺃﺧﻴﻪ ﻭﺃﻣﻪ وﺃﺑﻴﻪ ﻭﺻﺎﺣﺒﺘﻪ ﻭﺑﻨﻴﻪ )
كيونکہ وہاں صرف اپنی فكر لگی ہو گی اس لئے "صاحبته" بولا
اردو ميں:
امراءتي , زوجتي , صاحبتي سب كا ترجمة " بيوی" ہی كرنا پڑے گا
ليكن ميرے رب كے كلام پر قربان جائيں جس كے ہر لفظ كے استعمال ميں كوئی نہ كوئی حكمت پنہاں ہے
اور رب تعالى نے جب دعا سکھائی تو ان الفاظ ميں فرمايا
‎( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ
أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاما )
"وأزواجنا"
زوجہ سے استعمال فرمايا اس لئے كه آنكھوں کی ٹھنڈک تبھی ہو سکتی ہے جب جسمانی كے ساتھ ذہنی بھی ھم آہنگی ھو
تحریر پڑھنے کے بعد شیئر ضرور کیجۓ
1 note · View note
Text
جواب تلاش کریں
فقہ اور اصول فقہ
فقہ
عبادات
نماز
احکام نماز
نماز میں دعا کے مقامات
 
سوال
نماز میں کون کون سے دعا کے مقامات ہیں؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
نماز میں دعا کے مقامات دو قسم کے ہیں:
پہلی قسم:
نماز کے دوران ایسے مقامات جہاں دلائل میں خصوصی طور پر دعا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور وہاں دعا کرنا مستحب ہے، تو ایسے مقامات پر نماز پڑھنے والے کے لئے اپنی منشا کے مطابق لمبی دعا کرنا مستحب ہے، اس لیے اللہ تعالی سے اپنی من چاہی دعائیں کرے، دنیا اور آخرت کی جو چاہے خیر و بھلائی اللہ تعالی سے مانگے۔
پہلا مقام سجدہ ہے، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ہے: (بندہ اپنے پروردگار کے قریب ترین اس وقت ہوتا ہے جب سجدے کی حالت میں ہو، اس لیے سجدے میں کثرت سے دعائیں کرو) اس حدیث کو امام مسلم: (482) نے روایت کیا ہے۔
دوسرا مقام یہ ہے کہ آخری تشہد میں سلام سے پہلے کا مقام، اس کی دلیل سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں تشہد سکھایا اور پھر آخر میں فرمایا: (پھر جو بھی مانگنا چاہے مانگ لے)اس حدیث کو امام بخاری: (5876) اور مسلم : (402)نے روایت کیا ہے۔
تیسرا مقام: قنوت وتر ہے، اس کی دلیل امام ابو داود: (1425) نے روایت کی ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کلمات سکھلائے، میں ان کلمات کو قنوت وتر میں کہتا ہوں:  اَللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ  [ترجمہ: اے اللہ ! جن لوگوں کو تو نے ہدایت دی ہے مجھے بھی ان کے ساتھ ہدایت دے ۔ اور جن کو تو نے عافیت دی ہے مجھے بھی ان کے ساتھ عافیت دے ،اور جن کا تو والی بنا ہے ان کے ساتھ میرا بھی والی بن ۔ اور جو نعمتیں تو نے عنایت فرمائی ہیں ان میں مجھے برکت دے ۔ اور جو فیصلے تو نے فرمائے ہیں ان کے شر سے مجھے محفوظ رکھ ۔ بلاشبہ فیصلے تو ہی کرتا ہے ، تیرے مقابلے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا ۔ اور جس کا تو والی اور محافظ ہو وہ کہیں ذلیل نہیں ہو سکتا ۔ اور جس کا تو مخالف ہو وہ کبھی عزت نہیں پا سکتا ، بڑی برکتوں والا ہے تو اے ہمارے رب ! اور بہت بلند و بالا ہے ۔]" اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود: (1281) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوسری قسم:
ایسے مقامات جن کا ذکر نماز نبوی کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اس طرح آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں دعا کی ہے، لیکن اپنی دعا کو زیادہ لمبا نہیں کیا، نہ ہی ان مقامات کی دعا کے لئے تخصیص فرمائی، نہ ہی ان مقامات میں مطلق دعائیں مانگنے کی ترغیب دلائی ، تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جگہوں میں خود مختصر اور چند جملوں میں دعا فرمائی، اور وہ چند جملے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول اور ثابت ہیں؛ تو ان مقامات میں مطلق دعا کی بجائے مخصوص نبوی اذکار کرنا ہی دعا ہے۔
ان مقامات میں سے سب سے پہلا مقام یہ ہے:
دعائے استفتاح، جو کہ تکبیر تحریمہ کے بعد اور سورت فاتحہ کی تلاوت سے پہلے ہوتی ہے۔
دوران رکوع ، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں فرمایا کرتے تھے:  سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيْ  [ترجمہ: یا اللہ! تو پاک ہے ہمارے پروردگار اپنی تعریف کے ساتھ، یا اللہ! مجھے بخش دے۔]) اس حدیث کو امام بخاری: (761) اور مسلم : (484)نے  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
امام بخاری نے اس حدیث پر باب قائم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: "باب ہے رکوع میں دعا کے بیان میں"
تیسرا مقام : رکوع سے اٹھنے کے بعد ، اس کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم [رکوع کے بعد]فرمایا کرتے تھے:  اَللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّمَاءِ، وَمِلْءُ الْأَرْضِ، وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، اَللَّهُمَّ طَهِّرْنِي بِالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَالْمَاءِ الْبَارِدِ اَللَّهُمَّ طَهِّرْنِي مِنَ الذُّنُوبِ وَالْخَطَايَا، كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْوَسَخِ [ترجمہ: یا اللہ! تیرے لیے ہے حمد آسمان ، زمین اور ان کے علاوہ جو چیز تو چاہے ان سب کے بھراؤ کے برابر۔ اے اللہ! مجھے پاک کر دے برف کے ساتھ، اولوں کے ساتھ اور ٹھنڈے پانی کے ساتھ۔ اے اللہ! مجھے گناہوں اور خطاؤں سے اس طرح صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔]) اس حدیث کو امام مسلم : (476) نے روایت کیا ہے۔
چوتھا مقام: دو سجدوں کے درمیان ہے، اس لیے کہ: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم دو سجدوں کے درمیان فرمایا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي [اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، میرے نقصان کی تلافی فرما، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما]) اس حدیث کو امام ترمذی: (284) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ترمذی میں اسے صحیح کہا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صاحب تتمہ کہتے ہیں: یہ دعا پڑھنا لازمی نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ کوئی بھی دعا مانگی جائے تو سنت طریقے پر عمل ہو جائے گا، تاہم جو الفاظ حدیث میں ذکر کیے گیے ہیں ان کا اہتمام کرنا افضل ہے" ختم شد
المجموع: (3/437)
دوران قیام تلاوت کرتے ہوئے بھی دعا کرنا ثابت ہے، احادیث میں دوران قیام دعا کا ذکر نفل نماز میں ہے، تاہم بعض اہل علم نفل نماز میں ذکر شدہ حدیث پر قیاس کرتے ہوئے فرائض میں دعا کی اجازت بھی دیتے ہیں۔
اس کی دلیل حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم : (کسی بھی رحمت والی آیت سے گزرتے تو وہاں رک کر اللہ سے رحمت مانگتے اور جہاں کہیں عذاب والی آیت سے گزرتے تو وہاں بھی رک کر اللہ کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے) اس حدیث کو ابو داود: (871) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
قنوت نازلہ [یعنی ناگہانی حالت میں کی جانے والی دعا]میں بھی دعا کرنا منقول ہے، تاہم یہ ہے کہ قنوت نازلہ میں ناگہانی حالت کی مناسبت سے دعا کی جاسکتی ہے، دیگر امور کے لئے بھی ضمنی طور پر دعا کرنے میں بھی امید ہے کہ کوئی حرج نہیں ہو گا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دوران نماز جتنی جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دعا مانگنا ثابت ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ چھ جگہیں ہیں -پھر آخر میں دو مزید بھی ذکر کیں-:
پہلی جگہ: تکبیر تحریمہ کے بعد، اس کے متعلق صحیح بخاری اور مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ثابت ہے "اَللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ۔۔۔" الحدیث
دوسری جگہ: رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑے ہونے کے بعد"مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ" کے بعد فرماتے  اَللَّهُمَّ طَهِّرْنِي بِالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَالْمَاءِ الْبَارِدِ ۔۔۔
تیسری جگہ: رکوع کے دوران ، اس بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع اور سجدے میں کثرت سے فرمایا کرتے تھے: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيْ [ترجمہ: یا اللہ! تو پاک ہے ہمارے پروردگار اپنی تعریف کے ساتھ، یا اللہ! مجھے بخش دے۔]) اس حدیث کو امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
چوتھی جگہ: سجدے کے دوران، یہاں پر سب سے زیادہ دعا پڑھنی چاہیے؛ کیونکہ یہاں دعا کرنے کا حکم ہے۔
پانچویں جگہ: دو سجدوں کے درمیان :  اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيْ  
چھٹی جگہ: تشہد میں۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم قنوت اور قراءت کے دوران بھی دعا فرمایا کرتے تھے، دوران قراءت آپ رحمت والی آیت سے گزرتے تو رحمت مانگتے، اور جب عذاب والی آیت سے گزرتے تو عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے" ختم شد
فتح الباری: (11/132)
مذکورہ تمام جگہوں میں سے مطلق دعا کے لئے مؤکد ترین جگہ سجدے کی حالت اور آخری تشہد کے بعد ہے۔
جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز کا سجدہ یا تشہد دعا کے مقام ہیں" ختم شد
فتح الباری: (11/186) اسی طرح اسی کتاب کے: (2/318) کا بھی مطالعہ کریں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز میں دعا کا مقام سجدہ اور آخری تشہد میں سلام سے پہلے ہے" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن باز " (8/310)
1 note · View note
Text
🤎🤎🤎🤎🤎🤎
*⭐ 6 اذکار جو غم ،پریشانی ، دکھ ، تکلیف ، بیماریوں اور گناہوں کے خلاف بہترین اور کارگر ہتھیار ہیں*
شيخ عبدالرحمن بن سعدي رحمه الله تعالى کہتے ہیں :
میں کتاب و سنت کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جن اذکار کے پڑھنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور وصیت کی گئی ہے وہ چھ اذکار ہیں
↙ چھ اذکار جو میں بیان کرنے جارہا ہوں یہ غم ، پریشانی ، دکھ ، تکلیف ، بیماریوں اور گناہوں کے خلاف ایک بہترین اور کارگر ہتھیار ہیں ..!!
💢1 - پہلا ذکر : ( رسول الله صلى الله عليہ وسلم پر درود بھیجنا ).
دن میں اس کا زیادہ اہتمام کرتے رہیں حتٰی کہ دن کے اختتام پر آپ بہت زیادہ دورد پڑھنے والے ہوں .
(سنن نسائی: کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل (باب: نبیﷺ پرسلام پڑھنے کی فضیلت)
حکم : حسن
1284 .سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف لائے جب کہ آپ ﷺ کے چہرۂ انور پر سرور جھلک رہا تھا۔ ہم نے کہا: ہم آپ کے چہرۂ اقدس پر خوشی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا: ’’اے محمد! تحقیق آپ کا رب تعالیٰ فرماتا ہے: کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ جو شخص بھی آپ پر درود پڑھے گا، میں اس پر دس دفعہ رحمت کروں گا؟ اور جو بھی آپ پر سلام کہے گا، میں اس پر دس بار سلام نازل کروں گا۔‘‘)
💢2 - دوسرا ذکر : کثرت سے استغفار کرنا ..
اپنے فارغ اوقات میں اللہ کی توفیق سے (أستغفر الله) کا ورد کرتے رہیں
(سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آئے ہم بیٹھے ہوئے تھےآپﷺ نے فرمایا: میں نے جب بھی صبح کی ، اللہ تعالیٰ سے اس صبح سو مرتبہ بخشش طلب کی۔ السلسلۃ الصحیحۃ رقم : 1600المعجم الاوسط للطبرانی رقم :3879)
💢3 - تیسرا ذکر : " يا ذا الجلال والإكرام" پڑھنا .
کثرت سے یہ پڑھنا چاہیئے یہ ذکر بولی بسری سنت بنتا جا رہا ہے
حالانکہ آپ ﷺ نے اس کی وصیت اور اس کے متعلق نصیحت فرمائی ہے .
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
" ألظّوا بـيا ذا الجلال والإكرام".
الراوي : أنس من مالك
صححه الالباني من صحيح الترمذي .
رقم الحديث : 3525
جامع ترمذی: كتاب: مسنون ادعیہ واذکار کے بیان میں
(باب: قول اے زندہ قائم رکھنے والے...اور لازم پکڑو تم یا ذوالجلال والاکرام کو)
حکم : صحیح
3525 . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' يَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ'' کولازم پکڑو
(یعنی :اپنی دعاؤں میں برابر پڑھتے رہاکرو''۔)
ألظّوا : مطلب ..کثرت سے پڑھو .. اسے لازم پکڑو ..
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے جو اس ذکر کے پڑھنے کا کہا ہے اس میں ایک عظیم راز پوشیدہ ہے .
ياذا الجلال کے معنی ہیں : بہت زیادہ بڑے جلال، کامل بزرگی والی ہستی .
والإكرام کے معنی ہیں : اور اپنے اولیا کے لیے اکرام وتکریم کی مالک ہستی ..
اور اگر آپ غور و فکر فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ آپ نے اس بلند و برتر ہستی کی تعریف بھی کی ہے اور اس سے مانگ بھی رہے ہیں !!
سوچیئے اگر دن میں آپ یہ سینکڑوں دفعہ پڑھتے ہیں ..
ياذا الجلال .. ضرور اللہ تعالٰی اس سے راضی ہو گا
اور سینکڑوں دفعہ پڑھیں : والإكرام .
وہ آپ کی حاجات جانتا ہے وہ ضرور عطا فرمائے گا !
💢4 - چوتھا ذکر : " لاحول ولا قوة إلا بالله".
اس کلمہ کی نبی کریم ﷺ نے اپنے بہت سے صحابہ کو تاکید فرمائی ہے اور اسے جنت کا خزانہ قرار دیا ہے .
اگر آپ اس ذکر پر مداومت فرمائیں :
" لاحول ولا قوة إلا بالله "
آپ اللہ تعالٰی کا لطف و کرم اور اس کی عنایت و فضل محسوس کریں گے.
(قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ (سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ) نے انہیں نبی اکرم ﷺ کی خدمت کرنے کے لیے آپ کے حوالے کردیا، وہ کہتے ہیں:میں صلاۃ پڑھ کر بیٹھا ہی تھا
کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے، آپ نے اپنے پیر سے (مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے) ایک ٹھوکر لگائی پھر فرمایا:'' کیامیں تمہیں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ نہ بتادوں، میں نے کہا: کیوں نہیں ضرور بتایئے، آپ نے فرمایا:'' وہ ''لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ''ہے۔ سنن ترمذی :3581
💢5 - پانچواں ذکر :لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين
یہ اللہ کے نبی سیدنا يونس عليه السلام کی دعا ہے :
" لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين" .
یہ ذکر غم و فکر کو بھگانے اور خوشیاں اور مسرت سمیٹنے کا سبب ہے .
( سیدناسعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' ذوالنون (یونس علیہ السلام ) کی دعا جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے دوران کی تھی وہ یہ تھی : ''
لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ'' ۱؎ کیوں کہ یہ ایسی دعا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان شخص اسے پڑھ کر دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا۔ سنن ترمذی :3505 )
💢6 - چھٹا ذکر : " سبحان الله، الحمدلله، لااله الاالله ،الله اكبر".
(سنن ابن ماجہ: کتاب: اخلاق وآداب سے متعلق احکام ومسائل (باب: اللہ کی تسبیحات پڑھنے کاثواب)
حکم : صحیح
3809 . حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ اللہ کی عظمت کا جو ذکر کرتے ہو ، یعنی تسبیح[سُبۡحَانَ اللہِ]تہلیل [َلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ] اور تمہید [اَلۡحَمۡدُ لِلہ]کے الفاظ کہتے ہو ، وہ عرش کے ارد گرد چکر لگاتے ہیں ۔ ان کی ایسی بھنبھناہٹ ہوتی ہے جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ۔ وہ اپنے کہنے والے کا (اللہ کے دربار میں)ذکر کرتے ہیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ (اللہ کے دربار میں)تمہارا ذکر ہوتا رہے ۔)
⭕ ان اذکار سے سبق ، فائدہ اور ثمرات سمیٹنے کے لیے انہیں تدبر ، تکرار ، کثرت اور عاجزی کے ساتھ پڑھیئے ..
جس قدر اللہ کا ذکر کریں گے اسی حساب سے اللہ تعالٰی کی محبت کا حصول ممکن ہوگا
جس قدر دعا میں عاجزی اور انکساری ہو گی اسی لحاظ سے وہ اللہ تعالٰی کے ہاں قبولیت کا درجہ پائے گی
اور کثرت سے دعا اور معوذات اور اذکار کا ورد شیاطین کو بھگانے اور جسم سے حسد کے زہر کو ختم کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے ..
الشيخ عبدالرحمن السعدي رحمه الله تعالى .
علم العقائد والتوحيد والأخلاق والأحكام/47
.........................♥️
1 note · View note
Text
*قدرت کی ڈسٹری بیوشن*
پروفیسرصاحب، آپ کے کتنے بچے ہیں؟
میں نے کہا ’’تین‘‘۔
انہوں نے پھر پوچھا
’’انکی عمریں کیا ہیں؟
میں نے جوا ب دیا
’’نوسال، سات سال اور تین سال‘‘۔
یہ سن کر انہوں نے کہا ’’پھر تو یقینا آپ یونیورسٹی سے واپسی پر ان کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر جاتے ہوں گے؟‘‘
میرے اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے پھر استفسار کیا
’’آپ ان چیزوں کو ان میں کیسے تقسیم کرتے ہیں؟
میں نے کہا
’’میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں اور چونکہ بیٹا بڑا ہے اس لیے میں اپنی لائی ہوئی تمام چیزیں اس کے حوالے کر دیتا ہوں اور اس سے کہتا ہوں کہ انہیں آپس میں بانٹ لو‘‘۔
یہ سن کر انہوں نے فرمایا ’’پروفیسرصاحب، اگر آپ کو کسی دن یہ پتا چلے کہ آپ کا صاحبزادہ آپکی لائی ہوئی چیزیں آپکی ہدایت کے مطابق تقسیم نہیں کرتا یا انہیں بانٹنے میں انصاف سے کام نہیں لیتا تو آپ کیا کریں گے؟
میں نے ہنستے ہوئے کہا’’
اگر کبھی ایسا ہوا تو اسکا حل تو بہت آسان ہے، میں اگلی بار اس کو صرف اسی کا حصہ دوں گا اور بیٹیوں کا حصہ انہیں خود الگ سے دے دیا کروں گا‘‘۔
یہ سن کر ان کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ ابھری اور انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوے کہا
’’پروفیسر صاحب! آپکی اس بات میں وہی فلسفہ کارفرما ہے جسکی بنیاد پر اللہ پاک نے اپنی عنایات تقسیم کرنے کا فارمولا طے کر رکھا ہے
اللہ پاک آپ کوجو رزق اور نعمتیں عطا فرماتا ہے وہ صرف اور صرف آپ کے لئے نہیں ہوتیں‘ ان میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہوتا ہے اور جب تک آپ وہ حصہ ان حقداروں تک پوری ایمانداری اور انصاف سے پہنچاتے رہتے ہیں‘ آپ کو وہ حصہ اسی تناسب سے ملتا رہتا ہے اور آپ بھی دنیا کی نظر میں مالدار‘ سیٹھ‘ جاگیردار اور سرمایہ دار بنے رہتے ہیں۔
لیکن جب اس تقسیم میں کوتاہی یا بداعتدالی ہوتی ہے تو اللہ پاک آپ کو صرف آپکے حصے تک محدود کر دیتا ہے اور اس ریل پیل سے محروم کر دیتا ہے۔
پھر وہ رب کریم وہ رزق یا تو ان لوگوں تک براہ راست پہنچانا شروع کر دیتا ہے
یا اس رزق کی تقسیم کیلئے کوئی نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقرر کر دیتا ہے اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ یہ سیٹھ دیوالیہ ہو گیا
ہے۔ اسی دوران یہ باتیں بھی سننے میں آتی ہیں کہ فلاں کے بیٹے پر اللہ کا بہت کرم ہے‘ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے‘ دنوں میں کروڑ پتی ہو گیا ہے۔ یہ وہی شخص ہوتا ہے جسے رب کریم نے آپ کو ہٹا کر آپکی جگہ نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقرر کر دیا ہوتا ہے‘‘۔
دیکھا جائے تو اللہ کی تقسیم کا یہ معاملہ صرف رزق تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس میں عزت ‘ سکون‘ امن اور آسانیاں بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر عزت کا معاملہ بڑا خاص الخاص ہے اور اس کو بہت اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک عزت کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ ہم نے اللہ کی دی ہوئی عزت کو اپنی ذاتی کمائی سمجھ لیا ہے۔ہم اس گمان میں مبتلا ہیں کہ اس عزت کے ہم بلا شرکت غیر مالک ہیں۔یہ ساری کی ساری ہماری ذاتی میراث اور ہماری اہلیت اور صلاحیتوں کا ثمر ہے۔حالانکہ ایسا قطعاََ نہیں ہے۔۔
آپ اپنے گردواطراف میں نظر دوڑائیں تو آپ کو بے چین‘ بے سکون اور ہیجانی کیفیت مین مبتلا لوگوں کا ہجوم نظر آئے گا۔ بد قسمتی سے ہم من حیث القوم بھی انہی کیفیات کا شکار ہیں۔
کیا یہ ہماری بداعمالیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے یا کوئی اور معاملہ ہے؟
ہم نے رب کی دی ہوئی عزت سے لوگوں کا حصہ نکالنا چھوڑ دیا ہے اوراس طرح عزت کی ترسیل میں کمی واقع ہو گئی ہے‘ ہم نے اپنے رب کی دی گئی آسانیوں کو بانٹنا چھوڑ دیا ہے اور وہ آسانیاں بھی ہم سے چھن رہی ہیں
ہم اپنے غریب ہمسائے کے مجرم ہیں‘ اس غریب بچی کے مجرم ہیں جس کی شادی کا کل خرچ ہمارے بچے کی سالانہ پاکٹ منی کے برابر ہے۔ ان طعنوں میں برابر کے شریک جرم ہیں جووہ تمام عمر کم جہیز لانے پر سہتی ہے۔ ہم اس بیمار بچے کے مجرم ہیں جس کے علاج کا خرچ ہمارے گھر میں کھڑی بہت سی گاڑیوں میں سے کسی ایک کی قیمت میں ہو سکتا ہے۔ ہم اس عرضی خواں کے مجرم ہیں جو قرض لیکر دور دراز کے گاؤں سے ہمارے دفتر اس غلط وقت پہنچتا ہے جب ہم اپنے کسی عزیز یا دوست سے گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں اور وہ اگلے دن کیلئے ٹال دیا جاتا ہے۔ ہم اس گھریلو ملازمہ کے مجرم ہیں جس کا بیٹا ہمارے گھر کھڑی ٹوٹی سائیکل‘ پرانے کپڑوں اور جوتوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔
اس اجتماعی بے چینی‘ بے سکونی‘بے برکتی اور ہیجان سے نکلنے کا بس ایک ہی راستہ ہے۔
ہمیں اپنے روزمرہ کے رویوں کو بدلنا ہوگا‘
ہمیں یہ سمجھنا پڑے گاکہ مخلوق کی عزت دراصل اسکے خالق کی عزت اور مخلوق سے پیار دراصل اس کے خالق سے پیار ہے۔
جب ہم پیار کی جگہ نفرت‘ عزت کی جگہ حقارت اور بخشش کی بجائے محرومیوں کا بیوپار کریں گے تو پھر ہمیں یقین کر لینا چاہیئے کہ وہ خالق دو جہاں جلد یا بدیر ہمیں ہٹا کر کوئی نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقرر کر دے گا۔
شاہ نامہ
1 note · View note