Tumgik
kishmishwrites · 6 days
Text
جس شخص کو اللہ کے ہر کام میں حکمت مصلحت سمجھ آجائے وہ زندگی میں کسی بھی واقع کے رونما ہونے پر شکوہ نہیں کرتا
صرف تسلیم کرتا ہے
اور
"مصیبت کا مقابلہ صبر سے"
"نعمتوں کی حفاظت شکر سے" کرتا ہے
5 notes · View notes
kishmishwrites · 6 days
Text
https://x.com/Nida_2o
Tumblr media
0 notes
kishmishwrites · 6 days
Text
کسی پر کیے گئے احسان کی قیمت کبھی نہیں وصول کرنی چاہیے
اس سے نیکی بھی ضائع ہوتی ہے اور انسان کا وقار بھی مٹی میں مل جاتا ہے
1 note · View note
kishmishwrites · 11 months
Text
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبركاتہ
بہترین خوشبو کھانے کی خوشبو بہترین ذائقہ نمک کا ذائقہ اور بہترین محبت بچوں کی محبت ہے ماں کے بعد بچوں کی محبت ایسی محبت ہے جس میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا
دن بخیر
2 notes · View notes
kishmishwrites · 1 year
Text
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیثِ نبوی ﷺ جوشخص الله پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے
(سنن اِبْن ماجہ:3971،جلد پنجم)
صـــــبح بخـــــیر
2 notes · View notes
kishmishwrites · 2 years
Text
ایک مسافر ریلوے سٹیشن پر بیٹھا رو رہاتھا اور روتے روتے کہہ رہا تھا "میری بیوی کو میرے ساتھ کا مسافر بھگا کر لے گیا۔ میں لٹ گیا، برباد ہو گیا" اس کے ارد گرد لوگ اکھٹے ہو گئے اور کہنے لگے "اس طرح رونے پیٹنے سے تو تمہاری بیوی کا ملنا مشکل ہے۔ تم پولیس سٹیشن پر اس واقعے کی رپورٹ درج کرا دو" مسافر روتے روتے ٹھہر کر سنجیدگی سے بولا "میں یہ نہیں کر سکتا، کیونکہ میں خود کسی دوسرے کی بیوی کو بھگا کر لایا تھا"
8 notes · View notes
kishmishwrites · 2 years
Text
” سوگ بدلے نہ ہی ہمارے روگ بدلے”
تحریر:شعیب صدیقی
مرحوم شاعر محسن بھوپالی نے کہا تھا کہ !”نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے ،منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے” ۔سیاست کی یہ نیرنگی آج بھی جاری ہے اور اس کے رنگوں نے ہماری آنکھوں کو بے رنگ کردیا ہے، آج تک منزل بھی انہی کو مل رہی ہے جو شریک سفر ہوتے ہی نہیں ہیں ۔ہم نے اس سیاست کی نیرنگی اس وقت بھی دیکھی جب زیارت شہر سے واپسی پرقائد اعظم کو کراچی میں ایک خراب ایمبولینس میں سوار کرادیا گیا اور کچھ دنوں بعد ہم نے خبر سنی کہ ملت کا پاسبان ہمیں تنہا چھوڑ گیا ہے ۔
ہم ابھی اس صدمے کے زیر اثر ہی تھے کہ راولپنڈی کے کمپنی باغ میں خان لیاقت علی خان کو گولی ماردی گئی ،اب ملک غلام محمد ہمارا حاکم تھا ۔ایک ایسا شخص جس کی زبان سے الفاظ بھی واضح طور پر ادا نہیں ہوتے تھے ۔یہ بیمار شخص اس بے آسرا قوم کی حاجت روائی کیا کرتا ،اس کے اپنے چونچلے تھے اور اس کی اپنی ہی ایک دنیا تھی ،جس میں وہ مگن تھا ۔خدا خدا کرکے ہم” دور غلامیت” سے نکلے تو ”مملکت خداداد” کا تخت ایک کھلونا بن گیا۔
کوئی چھہ ماہ کھیلا تو کسی نے ایک سال زور آزمائی کی ،کوئی مہینوں میں ہمت ہار بیٹھا تو کسی کو ہفتوں نے ہی نڈھال کردیا۔خواجہ ناظم الدین ،محمد علی بوگرا ،چوہدری محمد علی ،حسین شہید سہروردی ،آئی آئی چندریگر ،فیروز خان نون اور پھر اسکندر مرزا ،ہم نے کچھ سالوں میں اتنے حاکم دیکھے کہ دماغ ہی شل ہوگیا ،ہماری حالت میں رتی برابر فرق نہیں آیا ،ہم مفلس تھے اور مفلس ہی رہے ۔
ہمیں بحیثیت مجموعی ایک ”کنفیوز” قوم بنادیا گیا ہے ۔ہم دال روٹی کے گرد طواف کرتے ہی اپنی عمر تمام کردیتے ہیں ۔نہ ہم اسلامی ہیں اور نہ ہی جمہوریت سے ہمار ا کوئی تعلق رہا ہے ۔ہم پاک سرزمین پر ناچتی وہ کٹھ پتلیاں ہیں جن کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں ۔شریک سفر نہ رہنے والے ہمارے ناخدا ہمیں نچارہے ہیں اور ہم ہیں کہ ناچنے میں مگن ہیں ۔
کوئی آیا اور ہمیں 10سال صنعتی ترقی کے نام پر نچاگیا ۔کسی نے روٹی ،کپڑا اور مکان  کے نام پر ہمارا رقص دیکھا ۔کوئی شریعت کے نام پر ہم سے دھمال ڈلواگیا ۔کسی نے جمہوریت کا راگ الاپا تو ہم نے اس کے ساتھ تان میں تان ملادی ۔کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا سر بکھیرا تو ہم  پروجد طاری ہوگیا ۔کوئی” جمہوریت بہترین انتقام ہے” کہ نام پر ہم سے داد سمیٹ گیا تو کسی نے ”تجربہ کار حکومت” کی غزل پر ہم سے تحسین پائی ۔
جالب نے کہا تھا کہ یہ جو 10کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں ۔آج ہم 22کروڑ ہیں اور ہم آج بھی جہل کا نچوڑ ہی ہیں ۔72سال پہلے بھی ہماری تگ و دو بھوک مٹانے ،اچھے علاج اور بہتر تعلیم کے لیے تھی اور آج بھی ہم انہی بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں ۔صنعتی ترقی ،روٹی کپڑا مکان ،شریعت کے نفاذ  ،سب سے پہلے پاکستان ،جمہوریت بہترین انتقام،تجربہ کار حکومت سے ہوتا ہوا ہمارا یہ سفر اب ”تبدیلی ”اور” ریاست مدینہ” تک آن پہنچا ہے ۔ہمارے لیے ہر پانچ دس سال بعد نعرہ تبدیل کردیا جاتا ہے ۔ہر دور میں باتیں ایک سی ہوتی ہیں ۔ہر نیا آنے والا جانے والے کو مورود الزام ٹھہرا کر ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیتا ہے ۔72سالوں میں ہمارے سوگ بدلے اور نہ ہی ہمارے روگ بدلے ۔
ان 72سالوں میں اگر کچھ بدلا بھی ہے تو ہمارے ”ہیروز ” بدلے ہیں ۔کبھی ہمارے ہیروز سفید اجلے لباس میں ملبوس اجلے کردار والے فضل محمود ،حنیف محمد ،ظہیر عباس ،عبدالحفیظ کاردار ،عبدالقادر اور جاوید میانداد ہوتے تھے ۔
آج ہمارے ہیروز جوئے کی تہمت دامن میں سمیٹے کرکٹرز ہیں ۔کبھی ہمارے سیاسی رہبرقائد اعظم محمد علی جناح ، خان لیاقت علی خان ،خواجہ ناظم الدین ،حسین شہید سہروردی اور تمام تر نظریاتی اختلافات کے باجود مولانا مودودی ،مولانا شاہ احمد نورنی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیات ہوتی تھیں جن سے بدعنوانی کوسوں دور تھی اور آج ہر وہ سیاسی رہنما ہمارا ہیرو ہے جس پر کرپشن کا سب سے زیادہ داغ ہے ۔
کبھی فیض ،جالب ،فراز ،منیر نیازی اور جون ایلیا جیسے شاعر ہمارے ہیرو تھے تو آج جو شاعرجتنی خراب ”تک بندی” کرتا ہے وہ ہمارا ہیروہے ۔ہر شعبے میں ہمارے ہیروز بدل گئے ہیں، اگر نہیں بدلا ہے تو ہمارا نصیب نہیں بدلا ہے ۔وہی سیاسی مداری ہیں اور وہی تماشے ہیں ۔”ریاست مدینہ ” میں بھی وہی ظم کا راج ہے اور وہی درباریوں کے قصیدے ہیں ۔وہی پتلی  پرنچانے والے ہیں اور وہی ڈوریوں پر ناچنے والے ہیں ۔
وہی بھوک کے ڈیرے ہیں اور وہی خشک لبوں کی پیاس ہے ۔وہی قانون کے رکھوالے ہیں اور وہی انصاف کے سوالی ہیں ۔وہی ”شجروں کی شجرکاری” ہے اور وہی چہرے بدلنے کی اداکاری ہے ۔وہی روٹی کی تلاش ہے اور وہی مذہب کی ساہوکاری ہے ۔وہی طاقتور کی حکمرانی ہے اور وہی کمزور کی ناداری ہے ۔
ہمیں نہ جمہوریت کچھ دے سکی اور نہ ہی آمریت ��ے ہمیں فیض پہنچایا ۔ہمارے جمہوری حکمران آمرانہ طرز عمل کے باعث تباہ ہوگئے تو  آمروں نے جمہوریت پسند بننے کی کوشش میں اپنی ناؤ خود ڈبودی ۔ہمارے مذہبی رہنماؤں نے تخت کے لیے بہروپ بدلا تو ہمارے ترقی پسندوں کو نوٹوں کی چمک نے ”تاریک پسند”بنادیا اور ہم جو 22کروڑ ”جہل کا نچوڑ ” ہیں اب بھی اپنے تاریک بخت کے ساتھ سسک رہے ہیں ۔ہمیں نہ جمہوریت سے سروکار ہے اور نہ ہی ہم اب آمریت سے برسرپیکار ہیں ۔
آج پھر وہی ”ڈیل” اور” ڈھیل” کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔اقتدار کی غلام گردشوں میں مہرے دوڑ رہے ہیں ،کھیل جاری ہے لیکن سرکار !آپ جس کے ساتھ ڈیل کریں ۔آپ جس کو چاہیں ڈھیل دیں ۔آپ جس کے ساتھ چاہیں این آر او کریں ۔آپ جس کی چاہیں جان بخش دیں ۔آپ جس کو چاہیں دودھ سے دھلا قراردے دیں ۔ہمیں ان باتوں سے اب کوئی غرض نہیں ۔ہمیں بھی بس اب ایک ”ڈیل” چاہیے اور ہمیں بھی بس اب تھوڑی ”ڈھیل” چاہیے ۔ سرکار! بھوکے پیٹ میں روٹی ،برہنہ جسم کے لیے لباس اور کھلے  آسمان تلے بیٹھنے والوں کے سروں پر چھت کے لیے ایک ”ڈیل” ہمارے ساتھ بھی ،تھوڑی سی ”ڈھیل” ہمارے لیے بھی ۔۔۔
3 notes · View notes
kishmishwrites · 2 years
Text
صحبت کا اثر
سیانے کہہ گئے ہیں کہ صحبت کا انسان پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے شرابی کے سامنے 10 منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسیوں کے سامنے 10 منٹ بیٹھیں آپ کو خیرات میں اپنا سب کچھ تحفے میں دینے کی خواہش محسوس ہوگی لیڈر کے سامنے 10 منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی تمام پڑھائی بیکار ہے لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے 10 منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ مرنا ہی بہتر ہے تاجروں کے سامنے 10 منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی کمائی بہت کم ہے سائنسدانوں کے سامنے 10 منٹ بیٹھیں آپ کو اپنی لاعلمی کا احساس ہوگا اچھے اساتذہ کے سامنے 10 منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ دوبارہ طالب علم بننا چاہتے ہیں کسان یا مزدور کے سامنے 10 منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ کافی محنت نہیں کر رہے ہیں ایک سپاہی کے سامنے 10 منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی اپنی خدمات اور قربانیاں معمولی ہیں لیکن ایک اچھے دوست کے سامنے 10 منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی زندگی جنت ہے
4 notes · View notes
kishmishwrites · 2 years
Text
علی عمران جونیئر اپنے ایک بلاگ میں لکھتے ہیں کہ دوستو .... !! کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ مرد اور خواتین کے مغربی طرز (یورپین سٹائل) کے لباس میں کچھ معمولی فرق ہی ہوتا ہے جن میں سے ایک فرق شرٹس کے بٹنوں میں ہوتا ہے آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ مردوں کی شرٹ کے بٹن دائیں طرف جبکہ خواتین کی شرٹ کے بٹن بائیں طرف لگے ہوتے ہیں یہ بحث ایک یورپی ویب سائٹ پر چلی تو ہم پر انکشاف ہوا کہ اس فرق کی ابتداصدیوں قبل ہوئی جب مرد تلواروں سے جنگیں لڑا کرتے تھے جبکہ خواتین گھر میں بچوں کی پرورش کیا کرتی تھیں مرد کو جنگ کے دوران سیدھے ہاتھ سے تلوار چلاتے ہوئے اپنے دفاع میں گاہے شرٹ اتارنی پڑ جاتی تھی لہٰذا اس کی شرٹ کے بٹن دائیں طرف رکھ�� گئے تاکہ وہ سیدھے ہاتھ سے تلوار چلاتے ہوئے بائیں ہاتھ سے آسانی سے شرٹ کے بٹن کھول سکے اسی طرح خواتین عموماً بچہ اپنے بائیں ہاتھ میں اٹھاتی ہیں اور ان کا دایاں ہاتھ فارغ ہوتا ہے لہٰذا ان کی شرٹس کے بٹن بائیں طرف لگانے شروع کیے گئے تاکہ وہ بچے کو دودھ پلانے کے لیے سیدھے ہاتھ سے آسانی سے بٹن کھول سکیں ایک صاحب نے اس فرق کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ زمانہ قدیم میں جب لوگ گھوڑوں پر سفر کرتے تھے خواتین گھوڑے پر ایک طرف ٹانگیں کرکے بیٹھا کرتی تھیں چنانچہ ان کی شرٹس کے بٹن دائیں طرف ہونے کی وجہ سے شرٹس میں ہوا بھر جاتی تھی لہٰذا ان کی شرٹس کے بٹن الٹی طرف لگانے شروع کر دیئے گئے ایک اور صاحب نے خوامخواہ دخل درمعقولات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ خواتین کی شرٹس پر بٹن الٹی طرف محض اس لیے لگانے شروع کیے گئے تاکہ مرد اور خواتین کی شرٹس میں فرق نمایاں ہو سکے چونکہ مردوخواتین کی شرٹس کی کٹنگ میں فرق ہوتا تھا جو صرف پہننے پر ہی معلوم ہوتا تھا لہٰذا اکثر خریدار غلطی سے دوسری صنف کی شرٹ لے جاتے تھے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دونوں کی شرٹس کے بٹن الگ الگ سمت میں لگانے شروع کیے گئے تھے ---------------------------------------
تبصرہ: لہذا اگر آپ جب بھی لنڈے سے شرٹس خریدو خیال کر لیا کرو
3 notes · View notes
kishmishwrites · 3 years
Text
جھوٹ
جبران کہتا ہے کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا سوائے ایک جھوٹ کے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا جون ایلیا کاکہنا ہے کہ “اگر میں اپنے جھوٹ کے ساتھ خوش ہوں تو تم مجھ پر اپنا سچ مسلط کرنے والے کون ہوتے ہو ؟ ویسے تو نظریں چرا کر بولا جانے والا سچ بھی ایک مستند جھوٹ سمجھا جاتا ہے جھوٹ کی اس پرفریب دنیا میں جہاں ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے جہاں جھوٹ دکھتا ہے اور جھوٹ ہی بکتا ہے جھوٹ بولنے کی تربیت تو ہمیں ہمارے والدین بچپن سے ہی دینا شروع کردیتے ہیں جب گھر پر پپا کو کوئی دوست آجائے اور پپا کا موڈ نہ ہو تو وہ ہم سے کہلوادیتے ہیں کہ جاؤ کہہ دو پپا گھر پر نہیں ہیں جب پڑوس سے بچی گھر میں پیاز یا کوئی اور چیز مانگنے آجاتی ہے تو مما کہتی ہیں جاؤ جا کر منع کردو کہ ہمارے گھر بھی ختم ہوگئی گھر پر مہمان آجائیں اور انواع و اقسام کی ڈشز سے دسترخوان بھرا ہوا ہو جنہیں دیکھ دیکھ کر ہماری رال ٹپک رہی ہو اور پیٹ میں چوہے چاروں قل زوروشور سے پڑھ رہے ہوں تب بھی مما ہی طرف سے ہدایت ہوتی ہے کہ کہہ دینا ابھی کھا کے بیٹھے ہیں جھوٹ کی ایسی درجنوں مثالیں ہیں جن کی ٹریننگ دے کر ہمیں ہمارے والدین ’’کمانڈوز‘‘ بنادیتے ہیں پھرسچائی کی توقع کیسی؟ بچپن سے ہماری بنیادوں میں جب جھوٹ کی آبیاری کی جاتی ہے تو پھر اس کی عادت سی پڑجاتی ہے کہتے ہیں عادتیں وقت کے ساتھ ساتھ جوان ہوتی ہیں پھر بوڑھی ہوکرانسان کے ساتھ ہی دم توڑ دیتی ہیں
5 notes · View notes
kishmishwrites · 3 years
Text
بیوی کو ڈرانے کے لیے
پولیس چوکی پر ایک شخص کی تلاشی کے دوران جیب سے کالے رنگ کی ایک ڈبیا نکلی پولیس والے نے وہ ڈبیا طلب کی تو بندے نے دینے سے انکار کر دیا پولیس والے نے ڈبیا چھیننا چاہی تو بندے نے وہ ڈبیا مٹھی میں بھینچ لی پولیس والے کا شک اب یقین میں بدل چکا تھا کہ ڈبیا میں کوئی نشہ آور دوا پاؤڈر ،چرس یا حشیش ہے پولیس انسپکٹر کو بلایا گیا اور اس شخص کو تھانے لے جایا گیا اس کے باوجود یہ شخص ڈبیا پولیس کے حوالے کرنے پر کسی طور راضی نہیں تھا انسپکٹر نے پستول کنپٹی پر رکھا اور اس بندے سے وہ ڈبیا طلب کی لیکن سارا سٹاف یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بندے نے اب بھی ڈبیا دینے سے انکار کر دیا اب یہ چھوٹی سی ڈبیا سب کے لئے ایک راز بن چکی تھی پولیس کی ساتویں حس پھڑک اٹھی تھی اب وہ سوچ رہے تھے شاید ڈبیا میں کوئی قیمتی ہیرا ہو گا بندے کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس سے وہ ڈبیا چھین لی گئی جس پر مسافر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا پولیس والے بندے کو لاک اپ میں بند کر کے ڈبیا لیکر باہر آئے اور اسے کھولا تو اندر دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ڈبیا کے اندر ایک نحیف سا لال بیگ تھا جو غالبا دم گھٹنے کی وجہ اب مر چکا تھا پولیس انسپکٹر نے سخت لہجے میں پوچھا سچ سچ بتاؤ یہ کیوں رکھا تھا جیب میں؟ وہ بندہ روتے ہوئے گڑگڑایا اور بولا "سربیوی کو ڈرانے کے لئے"
6 notes · View notes
kishmishwrites · 3 years
Text
سائینس آف ھیومر
ایک جواں سالہ بیوہ خاتون اپنے اکلوتے بچے کے حوالے سے اسکول میں شکایات کا انبار لے کر تشریف لائیں اسکول اسٹاف جب خاتون کو مطمئن نہیں کر پایا تو انہیں پرنسپل صاحب کے پاس بھیج دیا جو کہ ایک پروفیسر تھے خاتون اندر آئیں اور غصے میں شروع ہوگئیں خوب گرجی، برسیں اور اپنے بچے کوا سکول میں درپیش مسائل کا بے باکانہ اظہار کیا پروفیسر صاحب پرسکون بیٹھ کر خاتون کی گفتگو سنتے رہے اور ایک بار بھی قطع کلامی نہیں کی ج�� خاتون اپنی بات مکمل کر چکیں تو پروفیسر صاحب کچھ یوں گویا ہوئے دیکھئے خاتون! مت سمجھئے گا کہ میں آپ کے حسن کے رعب میں آ گیا ہوں یا یہ کہ آپ کے چاند جیسے چہرے نے مجھ پر جادو کر دیا ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ میں آپ کی جھیل جیسی نشیلی آنکھوں میں کھو گیا ہوں اور نا ہی آپ کی ناگن جیسی زلفوں نے میرے دل کو ڈسا ہے آپ یہ سوچئے گا بھی مت کہ آپ کے گال کے کالے تل نے میری دل کے تار بجا دئیے ہیں اور آپ کی مترنم آواز نے میری دھڑکنیں تہہ و بالا کر دی ہیں میں غالب نہیں ہوں جو آپ کے شیریں لبوں سے گالیاں کھا کر بد مزہ نہ ہوں اور نہ ہی میں میر ہوں کہ آپ کی لبوں کی نازکی کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دے دوں نہ ہی میں نے آپ کی تمام تر گفتگو اس نیت سے سنی کہ آپ کو بولتے ہوئے سنتا رہوں یا کچھ دیر آپ کو اپنے سامنے بٹھا کر تکتا رہوں میرا یہ مزاج نہیں ہے کہ میں کسی خاتون کو متاثر کرنے کی کوشش کروں میں اپنے اسٹاف سے پوچھوں گا کہ ایک حسین و جمیل خاتون کو برہم کیوں کیا گیا؟
خاتون جو اتنی دیر سے پروفیسر صاحب کو غور سے سن رہی تھی خاموشی سے اٹھی اور باہر چلی گئیں آج وہ خاتون پروفیسر صاحب کی بیوی اور اسکول کی وائس پرنسپل ہیں
7 notes · View notes
kishmishwrites · 3 years
Link
3 notes · View notes
kishmishwrites · 3 years
Text
کیا گورے واقعی ملاوٹ نہیں کرتے؟
برصغیر کے لوگ صدیوں سے انگریز راج آنے تک ملاوٹ کے مفہوم سے  نا آشنا تھے۔ گھروں میں دیسی گھی، گڑ، شکر، لسی، دودھ، مکھن، دیسی مرغیاں، دیسی انڈے، بکرے، دنبے وغیرہ کا گوشت استعمال کیا جاتا تھا۔۔ نہانے کے لیے کالا صابن ہوتا تھا۔۔ برتن دھونے کے لیے مٹی، ریت اور کالا صابن استعمال ہوتا تھا۔۔ یہ برصغیر کا حقیقی چہرہ تھا۔۔ یہی یہاں کا معیار تھا اور یہی رواج بھی۔۔ پھر بھوکے ننگے، لالچی، چور ذہن انگریز میدان میں آئے۔ تب "مصنوعات" کا رواج نکلا. "مصنوعات" کیا تھیں۔"مصنوعی" چیزیں. انسانی تخلیق۔ مقصد صرف پیسہ کمانا تھا استعماریت اور سرمایہ کاری تھا۔۔ جو آج پوری دنیا کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں ان عالمی جعل سازوں نے "ولایتی" کونسیپٹ متعارف کرایا۔۔ بالکل ایسے جیسے آج ہر دو نمبر اور گھٹیا پروڈکٹ کو "چائنہ" کہہ لیا جاتا ہے۔۔ دیسی گھی کے مقابلے میں ولائتی گھی آگیا۔۔ کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کا تحفہ انہی انگریزوں کی کرم نوازی ہے۔۔ دیسی مشروبات (ستو، لسی، دودھ) وغیرہ کے مقابلے میں ولائتی کیمیکل ملے مشروبات (کوکا کولا، سیون اپ) وغیرہ انہی انگریزوں کا تحفہ ہےجو ملاوٹ نہیں کرتے۔ برصغیر میں چائے بھی انگریز نے متعارف کروائ یہ اب ہمارے لئے ایک نشہ بن چکی ہے کہ جس کے بغیر زندگی گزارنی مشکل ہو گئ ہے۔   گڑ ،شکر کے مقابلے میں گنے کے رس میں مضر صحت کیمیکل کی ملاوٹ سے چینی بنا کر عوام کو اس طرف لگا دیا گیا۔ پوری قوم کو ذیابیطس مبارک ہو انگریز ملاوٹ نہیں کرتا۔ دودھ خالص ہوتا تھا اور دودھ سے بنی تمام اشیاء بھی۔۔ نیسلے کمپنی (ان کی ہے جو ملاوٹ نہیں کرتے) نے جعلی دودھ متعارف کرایا۔۔ الحمد للہ کیمیکل ملا دودھ ساری دنیا کو بیچنے کا سہرا اسی کمپنی کے سر ہے جو ملاوٹ نہیں کرتی۔ سچ کہوں تو بہت ساری پروڈکٹ جن کو دودھ کہا جاتا ہے ان میں دودھ نام کی سرے سے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ شکر ہے عدالت نے پابندی لگائی اور اب ٹی وائٹنر وغیرہ لکھنے لگے ہیں۔ علاج معالجہ طبیب ہی کرتے تھے جس سے انسان واقعی تندرست بھی ہو جاتا تھا۔۔ انہی عالمی جعل سازوں نے انگریزی کیمیکل ملی ادویات متعارف کرائیں جن سے انسان روز بروز نت نئی بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے۔۔ جب سے انگریزی ادویات کا دور دورہ ہوا ہے شاید ہی کوئی انسان روئے کائنات پر صحت مند بچا ہو۔۔ مقصد کیا تھا۔۔ صرف اور صرف پیسہ کمانا۔۔ آج بیماریوں کا یہ عالم ہے کہ ہر گھر میں ہزاروں کی ادویات جا رہی ہیں اور صحت مند پھر بھی کوئی نہیں ہو رہا۔۔۔  لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ انگریز ملاوٹ نہیں کرتا۔۔ ملاوٹ والی ساری اشیاء مسلمانوں کی ہیں۔۔ حضرات ذی وقار۔۔ انگریز مضر صحت کیمیکلز سے کیا کیا بنا کر بیچ رہا ہے زرا ایک نظر ادھر کیجیے۔  دودھ، مکھن، گھی، آئس کریم، خشک دودھ، کیچپ، چینی، رنگ برنگی فوڈ آئٹمز، مشروبات، ڈبے والے جوس، کاسمیٹکس، میڈیسن، پھلوں کو پکانے کیلیے رنگ برنگے کمیکل۔۔۔ اور جانے کتنی لمبی لسٹ ہے جس کا احاطہ کرنا شاید بس سے باہر ہے۔۔لیکن ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔۔ یعنی حد ہے ذہنی غلامی کی۔۔ دوسری  اہم  چیز انہوں نے سب سے بڑا کمال یہ کیا کہ مذہب میں بھی ملاوٹ کر دی۔خلافت کی جگہ جمہوریت۔بریلوی دیوبندی شیعہ ۔جیسے مسالک ایجاد کیے ۔جہاد کو ختم کرنے کیلے قادیانیت کا پودا کاشت کیا وحدت امت  مسلمہ کو  وطنیت کے  زہر سے بدل کر اسکی  جنس ہی بدل دی اصل  تعلیم کی بجائے لارڈ میکالے کا  طرق  تعلیم  نافذ کیا اور مسلمانوں کو  نا تین میں نا تیرہ میں کردیا مسلمان بے چارہ زیادہ سے زیادہ کیا ملاوٹ کرلے گا۔۔ مرچ میں برادہ پیس لے گا۔۔ دودھ میں پانی ڈال لے گا۔۔ چائے کی پتی میں باتھو پیس لے گا۔۔ اصل چور تو یہ ہیں جو سرمائے کی آڑ میں شیمپو، صرف، صابن سے لے کر روزمرہ استعمال کی ہر چیز میں مضر صحت کیمیکلز کا دھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں اور الزام جب بھی لگتا ہے بے چارے سازش کا شکار مسلمانوں پر لگتا ہے جن کی بے ایمانی بھی بڑی محدود سی ہے۔۔ براہ کرم ذہنی غلامی سے نکلیں اور خود کو درست کریں۔۔ ملاوٹ، جھوٹ، دھوکہ جیسی چیزیں ہمارا ورثہ نہیں ہیں۔۔ یہ معصوم صورت عیاروں کی چالیں ہیں جو دنیا بھر کو رنگی برنگی مصنوعات کے نام پر  مضر صحت کیمیکل بیچنے میں مصروف ہیں
5 notes · View notes
kishmishwrites · 3 years
Text
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یا محمد نورِ مجسم یا حبیبی یا مولائی
تصویر کمالِ محبت تنویرِ جمال خدائی
تیرا وصف بیاں ہو کس سے تیری کون کرے گا بڑائی
اس گردِ سفر میں گم ہے جبریل امیں کی رسائی
تیری ایک نظر کے طالب تیرے ایک سخن پہ قرباں
یہ سب تیرے دیوانے یہ سب تیرے شیدائی
یہ رنگ بہار گلشن یہ گل اور گل کا جوبن
تیرے نور قدم کا دھوون اس دھوون کی رعنائی
ما اجملک تیرے صورت مااحسنک تیری سیرت
مااکملک تیری عظمت تیرے ذات میں گم ہے خدائی
اے مظہر شان جمالی اے خواجہ و بندہ عالی
مجھے حشر میں کام آجاءے میرا ذوق سخن آرائی
تو رئیس روز شفاعت تو امیر لطف و عنایت
ہے ادیب کو تجھ سے نسبت یہ غلام ہے تو آقائی
ادیب رائے پوری
2 notes · View notes
kishmishwrites · 3 years
Text
آپ نے گھبرانا نہیں ہے
جدید ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ اصل میں موٹاپا ایک نعمت ہے ریسرچ میں ثابت کیا گیا ہے کہ موٹاپا بیماریوں کی جڑ نہیں بلکہ بیماریوں سے بچاؤ کا سبب ہے جدید تحقیق میں ثابت کیا گیا ہے کہ اگر آپ 3 سے 5 کلو اورویٹ ہیں تو آپ کے ٹی بی اور الژھمیئر سے بچنے کے چانسز 80 فیصد بڑھ جاتے ہیں اگر آپ 7 سے 15 کلو مقررہ پیمانے سے زائد وزن رکھتے ہیں تو 50 فیصد چانسز ہیں کہ آپ نمونیہ، ٹائیفائڈ اور یرقان کا شکار نہیں ہونگے اگر آپ 16 سے 25 کلو اورویٹ ہیں تو 60 فیصد چانسز ہیں کہ آپ کو کڈنی، پروسٹریٹ، کولون اور مثانے کا کینسر نہیں ہوگا اگر آپ 25 کلو سے زیادہ اورویٹ ہیں تو خوشخبری سن لیں اس سے آپ کی نگاہ تیز ہوگی، گنج پن آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا اور نزلہ زکام اور کھانسی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی اس جدید ریسرچ کے لیے تعاون کیا ہے وارث نہاری جاوید نہاری محفوظ شیرمال دہلی ربڑی ہاؤس رحمت شیریں وحید کباب ہاؤس غوثیہ نلی بریانی بنوں پلاؤ شاہین شنواری ریسٹورینٹ دعاریسٹورنیٹ کراچی پراٹھا ہاؤس چارمنگ انڈے والا برگر چاچا کڑاہی سینٹر حبیب مال پورہ ایم سلیمان مٹھائی والا(میمن مٹھائیوں کا مرکز) بلوچ فالودہ حاجی بریانی سینٹر رضوان ناشتہ ہاؤس (حلوہ پوری اور چنے) اور جید ا لسی والے نے جن کا پیغام ہے کہ
کھاؤ ،پیو،عیش اڑاؤ ۔۔ موٹاپے کی ٹینشن بھگاؤ
6 notes · View notes
kishmishwrites · 3 years
Text
صاحب جی
ونس اپان اے ٹائم کی بات ہے ایک صاحب جی مالش کرنے والے سے مالش کرا رہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کیا حال ہے صاحب جی آپ نظر نہیں آتے آج کل؟ صاحب جی نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی وہ بندہ کہنے لگا صاحب جی میں آپ کی سائیکل لے کے جا رہا ہوں وہ سائیکل مالیشئے کی تھی کافی دیر ہوگئی تو مالشی کہنے لگا صاحب جی آپ کا دوست آیا نہیں ابھی تک واپس میری سائیکل لے کر؟ صاحب جی بولے وہ میر ادوست نہیں تھا مالشی کہنے لگا مگر وہ تو آپ سے باتیں کررہا تھا صاحب جی بولے میں تو اسے جانتا تک نہیں، میں تو سمجھا تھا وہ تمہارا دوست ہے مالشی بولا صاحب جی،میں غریب آدمی ہوں،میں تو لٹ گیا صاحب جی نے اسے تسلی دی اچھا تو رو مت، میں تجھے نئی سائیکل لے دیتا ہوں، تم سائیکل والی دکان پر جاکے پسند کرلو مالشی نے ایک سائیکل پسند کی اور چکر لگا کے دیکھا واپسی پر آکر کہنے لگا کہ صاحب جی یہ سائیکل ذرا ٹیڑھی چل رہی ہے صاحب جی بولے جا یار یہ تو نئی سائیکل ہے، اچھا ٹھہر ذرا،دکھاؤ میں چیک کرکے آتا ہوں صاحب جی سائیکل پر چکر لگانے گئے اور واپس آئے ہی نہیں مالشی کو اس سائیکل کے پیسے بھی دینے پڑ گئے
نوٹ: آج ایسا ہی حال پاکستانی قوم کے ساتھ ہو رہا ہے ہر نیا آنے والا حکمران صاحب جی ہے اور عوام مالشی
9 notes · View notes