Tumgik
#تفسیر قرآن
bazmeur · 5 months
Text
تفسیر تیسیر القرآن، جلد اول، فاتحہ تا نساء ۔۔۔ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی، جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائل ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل ای پب فائل کنڈل فائل کتاب کا نمونہ پڑھیں ….. تفسیر تیسیر القرآن جلد اول، فاتحہ تا نساء مولانا عبدالرحمٰن کیلانی   جمع و ترتیب: اعجاز عبید ۱۔ سورۃ الفاتحۃ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ[۱] شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے تلاوت سے پہلے تعوذ کا حکم قرآن کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے ﴿اَعوذ باللّٰہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
asantarjumaquran · 1 year
Text
#القرآن #سورة #الشعراء | #آيت #نمبر 123 تا 140 | #آسان #ترجمہ و #تفسیر #قرآن #اردو | #مفتی #محمد #تقی #عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ #القرآن_الكريم #سورة_الشعراء #اردوترجمہ #مفتی_محمدتقی_عثمانی #مفتی_محمد_تقی_عثمانی #آسان_ترجمہ_قرآن
1 note · View note
asliahlesunnet · 1 day
Photo
Tumblr media
آیت﴿ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ﴾میں نر یا مادہ کے متعلق کوئی تصریح نہیں سوال ۱۵ : آج کل ڈاکٹروں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ لڑکا ہے یا لڑکی جب کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ (لقمان: ۳۴) ’’اور وہی (حاملہ کے) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (کہ نر ہے یا مادہ)۔‘‘ چنانچہ تفسیر ابن جریر میں امام مجاہد سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ اس کی بیوی کیا جنے گی اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔ امام قتادہ رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے؟ ان میں تطبیق کیسے ہوگی، نیز یہ فرمائیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ﴿مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ کے عموم کا مخصص کیا ہے؟ جواب :اس مسئلے کے بارے میں گفتگو سے قبل میں اس بات کو بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن کریم کی صراحت امر واقع سے متعارض ہو اور اگر کوئی امر واقع بظاہر قرآن مجید کے خلاف ہو تو امر واقع محض دعویٰ ہوگا جس کی کوئی حقیقت نہیں یا قرآن مجید کا تعارض صریح نہیں ہوگا کیونکہ قرآن مجید کی صراحت اور حقیقت واقع دو قطعی امر ہیں اور دو قطعی چیزوں میں کبھی بھی تعارض نہیں ہو سکتا۔ اس وضاحت کے بعد ہم یہ کہیں گے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ اطباء دقیق آلات کے استعمال سے حاملہ کے پیٹ کی چیزوں کو معلوم کرنے لگے ہیں کہ وہ نر ہے یا مادہ۔ اگر یہ بات باطل ہے تو پھر اس کے بارے میں گفتگو کی ضرورت ہی نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر بھی آیت قرآنی کے خلاف نہیں ہے کیونکہ آیت قرآنی ایک غیبی امر پر دلالت کرتی ہے، جو آیت میں مذکور پانچ باتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم سے متعلق ہے اور جنین سے متعلق غیبی امور کہ ماں کے پیٹ میں اس کی مدت کی مقدار کتنی ہوگی، اس کی زندگی، اس کے عمل اور رزق کی مقدار کتنی ہوگی، شقاوت اور سعادت کے اعتبار سے اس کی کیا کیفیت ہوگی اور یہ نر ہوگا یا مادہ۔ یہ تمام امور تخلیق سے قبل غیبی ہیں، جب کہ تخلیق کے بعد تو یہ علم حاضر ہوگیا، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس وقت جنین تین اندھیروں میں مستور ہوتا ہے اگر ان اندھیروں کو زائل کر دیا جائے تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا ہے اور یہ بات کوئی بعید نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی قوی شعاعیں پیدا کر رکھی ہیں جو ان اندھیروں کو پھاڑ دیتی ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ جنین نر ہے یا مادہ اور آیت کریمہ میں نر یا مادہ کے علم کے بارے میں کوئی تصریح نہیں، اسی طرح سنت میں بھی ایسی کوئی تصریح موجود نہیں ہے کہ اس علم سے مراد نر یا مادہ کا علم ہے۔ سائل نے ابن جریر کے حوالے سے امام مجاہد رحمہ اللہ کی جو یہ روایت ذکر کی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ اس کی بیوی کیا جنے گی؟ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے، یہ روایت منقطع ہے کیونکہ امام مجاہد رحمہ اللہ تابعین میں سے ہیں۔ امام قتادہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر بیان کی ہے تو ممکن ہے کہ اسے اس بات پر محمول کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے اختصاص کا تعلق تخلیق سے پہلے کا ہے اور تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں دوسروں کو بھی معلوم کرا دیتا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورۂ لقمان کی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ آئندہ ان ارحام سے کیا کچھ پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن جب جنین کے بارے میں وہ حکم دے دیتا ہے کہ یہ نر ہے یا مادہ، بدبخت ہے یا خوش بخت تو وہ یہ باتیں اس جنین کے ساتھ موکل فرشتوں کو اور اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے معلوم کروا دیتا ہے۔‘‘ آپ نے جو یہ پوچھا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ میں عموم کا مخصص کیا ہے، تو ہم عرض کریں گے کہ اگر آیت تخلیق کے بعد نر یا مادہ کو بیان کرتی ہے، تو مخصص انسانی حس اور امر واقع ہیں۔ علمائے اصول نے بیان کیا ہے کہ کتاب وسنت کے عموم کے مخصصات نص یا اجماع یا قیاس یا عقل ہیں، علمائے اصول کا کلام اس بارے میں معروف ہے۔ اگر آیت کا تعلق تخلیق سے قبل کی حالت سے ہے، تو پھر یہ اس بات کے معارض نہیں ہے جو جنین کے نر یا مادہ کے معلوم ہو جانے کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔ بحمدللہ امر واقع کے اعتبار سے نہ کوئی ایسی چیز موجود ہے اور نہ کبھی موجود ہوگی جو قرآن کریم کی صراحت کے خلاف ہو۔ دشمنانِ اسلام نے قرآن کریم پر طعن وتشنیع کرتے ہوئے، ایسے امور کی نشان دہی کی ہے جو قران کریم کے ساتھ ظاہراً متعارض ہیں، تو اس کی وجہ یا تو کتاب اللہ کے بارے میں ان کے فہم کا قصور ہے یا ان کی نیت میں خرابی ہے۔ جہاں تک اہل دین و علم کا تعلق ہے تو وہ بحث و تحقیق کے بعد اس حقیقت تک پہنچ گئے ہیں، جس کے سامنے ان لوگوں کے تمام شکوک وشبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ وللّٰه الحمد والمنۃ۔ اس مسئلے میں کچھ لوگ افراط اور تفریط میں مبتلا ہیں اور کچھ معتدل ہیں۔ کچھ لوگوں نے قرآن مجید کے ظاہر کو لے لیا ہے، جو صریح نہیں ہے اور پھر انہوں نے اس کے خلاف ہر واقعی اور یقینی امر کی مخالفت کی ہے اور اس طرح انہوں نے اپنے قصور فہم اور کوتاہی کی وجہ سے اپنے آپ کو مورد الزام قرار دے لیا ہے یا پھر قرآن کریم پر اعتراض کا باعث بنے ہیں جو ان کی نظر میں یقینی اور امر واقع کے خلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے اس چیز سے اعراض کیا ہے جس پر قرآن کریم کی دلالت ہے اور انہوں نے محض مادی امور کو اختیار کر لیا ہے اور اس طرح یہ ملحد بن گئے ہیں۔ معتدل وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی دلالت کو لیا ہے اور امر واقع کے ساتھ اس کی تصدیق کی ہے اور جان لیا ہے کہ قرآن کریم کی تصریح اور امر واقع دونوں ہی برحق ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ تصریح قرآن کریم اس امر معلوم کے مخالف ہو جسے آنکھوں سے مشاہدہ کیا جا رہا ہو، گویا انہوں نے منقول اور معقول دونوں پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح انہوں نے اپنے دین اور عقل کو بچا لیا اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی اس حق کی طرف راہنمائی فرما دی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا بلاشبہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہدایت کرنے والے، ہدایت یافتہ اور اصلاح وتجدید کی دعوت دینے والا مصلح ونیک قائد بناکر سرخروئی عطاء فرمائے۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰہِ، عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۹، ۵۰، ۵۱ ) #FAI00015 ID: FAI00015 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
iSeek حضرت صالح علیہ السّلام
دین اسلام #تفسیر قرآن #تعلیم #اصل علم
0 notes
rashidahmedgabaro · 2 months
Text
Tumblr media
#قرآنی_دعاء #اصحاب_کهف #القرآن_الكريم
#تفسیرآیت_سورہ_کہف10
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی ، اور ( اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے ) کہا تھا کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہم پر خاص اپنے پاس سے رحمت نازل فرمائے ، اور ہماری اس صورت حال میں ہمارے لئے بھلائی کا راستہ مہیا فرما دیجئے ۔(تخریج از تفسیر تقی عثمانی دامت برکاتہ العالیہ و حفظہ اللہ تعالٰی)
| رشد | کا مفہوم : | رشد | کے معنی ہیں اس نے ہدایت اور استقامت پائی۔ رَشِدَ امرہ کے معنی ہوں گے کہ اس نے اپنے معاملے میں ہدایت پائی ۔مفہوم ہوگا کہ اے ہمارے رب ہمارے لئے اس راہ میں جو ہم نے اختیار کی ہے تو رہنمائی اور استقامت مہیا فرما۔
نوجوانوں کی دعا :
یہ وہ دعا ہے جو ان نوجوانوں نے اس وقت کی ہے جب انہوں نے غار میں پناہ لینے کا ارادہ کیا ۔ آیات کے الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ یہ نوجوان لوگ تھے۔ نوجوانوں میں جب ایک مرتبہ حق کی حمیت جاگ پڑتی ہے تو پھر نہ وہ مصالح کی پروا کرتی ہے اور نہ خطرات کی۔ لیکن ان لوگوں کے اندر صرف جوانی کا جوش ہی نہیں تھا بلکہ اللہ کی بخشی ہوئی حکمت کا نور بھی تھا۔ اس وجہ سے اس نازک مرحلہ میں انہوں نے اللہ سے رہنمائی اور استقامت کی دعا کی اور یہی بات اہل ایمان کے شایان شان ہے۔
سرگزشت کا خلاصہ بطور تمہید :
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ آیت اور اس کے بعد کی دو آیات اصل سرگزشت کے خلاصہ کے طور پر ہیں جن میں پہلے اجمال کے ساتھ سرگزشت قاری کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ اس کے بعد پوری سرگزشت تفصیل کے ساتھ سامنے آئے گی۔ تفصیل سے پہلے اجمال کا یہ طریقہ اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اصل مدعا نگاہ کے سامنے رہتا ہے۔ دوسری ضمنی باتیں اس کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں سرگزشتوں کے بیان میں یہ طریقہ قرآن نے جگہ جگہ اختیار کیا ہے۔(تخریج از۔ تدبر القرآن مولانا امین احسن اصلاحی رح)
1 note · View note
thespellir · 3 months
Text
 دانلود کتاب مفاتیح الحاجات ادعیه ها مجرب برای هر مشکلی
Tumblr media
کتاب مفاتیح الحاجات یکی از جزو محدود کتاب هایی میباشد که در مورد هر مشکلی یک دعا نوشته و ادعیه کاملا مجرب از آیه های قرآن یا از پیامبران و امامان ما روایت شده اند، همچنین این کتاب روایت هایی از پیامبران و امامان نوشته شده است در این کتاب میتوانید ادعیه مانند ، ادعیه برای ابطال سحر و جادو ، ادعیه برای درمان هر بیماری ، ادعیه برای رفع انواع مشکلات و بلا ها نوشته شده اند این کتاب توسط استاد بزرگ سید محمدرضا غیاثى کرمانى تالیف شده است.
لیست موضوعات کتاب مفاتیح الحاجات :
کتاب کلیات مفاتیح الحاجات
ادعیه معلقه به وجود مقدس و مبارک مولایمان حضرت صاحب الزمان حجۀ بن الحسن العسگری (عج) در این بخش از کتاب، ادعیه‌ای که به مقدسیت و مبارکی وجود مولایمان حضرت صاحب الزمان (عج) مرتبط است، آورده شده‌اند.
فضیلت خواندن سوره و آیه الکرسی و تفسیر آن در این بخش، فضیلت و اهمیت خواندن سوره و آیه الکرسی و تفسیر و شرح کلمات آن بیان شده‌اند.
تفسیر آیه الکرسی تفسیر مفصل و شرح آیه الکرسی به همراه تفسیر کلمات مهم آن در این قسمت آمده است.
خواص سوره های ماتده، سوره انعام، سوره انفال و برائت، سوره یونس، سوره هود، سوره رعد، سوره نحل و … فواید و خواص سوره‌های مختلف اعم از ماتده، انعام، انفال و برائت، یونس، هود، رعد، نحل و سایر سوره‌ها در این بخش بررسی شده‌اند.
ثواب و فضیلت اذکار ماثوره در این بخش، اذکار معروف و متداول به همراه ثواب و فضیلت آنها بررسی شده‌اند.
فضیلت ذکر حقتعالی جلّ ثنائه و عزّ ذکره در این بخش، فضیلت و اهمیت ذکر و ستایش خداوند و عزّ ذکره بیان شده‌اند.
ثواب و خواص بعضی از اذکار ماثوره صلوات بر پیامبر و آل آن حضرت علیه السلام فواید و خواص اذکار معین به همراه صلوات بر پیامبر اسلام و آل او (علیهم‌السلام) در این بخش آمده‌اند.
تحمید، استخفار، استغفار، تسبیح، تهلیل، حولقه مفاهیم و فواید اذکار مختلف اعم از تحمید، استخفار، استغفار، تسبیح، تهلیل و حولقه در این بخش بیان شده‌اند.
اذکار مکرّره هر روز ادعیه و اذکاری که به صورت روزانه تکرار می‌شوند و اهمیت آنها در زندگی روزمره بررسی شده‌اند.
اختیارات ایام ماه قمری در این بخش، اختیارات و امور مهمی که در ایام مختلف ماه‌های قمری انجام می‌شوند، بیان شده‌اند.
نوادر ادعیه و اذکار و فوائد متنوعه ادعیه، اذکار و فوائد متفرقه در این قسمت جمع‌آوری شده‌اند.
عهد اسلام برای روز قیامت مواردی درباره عهد و پیمان اسلام با افراد بر روز قیامت در این بخش آورده شده‌اند.
رفع فشار قبر و آسا��ی سوال قبر ادعیه و اذکار مرتبط با رفع فشار قبر و آسانی سوالات در قبر در این قسمت بیان شده‌اند.
تنها نبودن در قبر مواردی درباره تنها نبودن در قبر و شرایط متفاوت آن بررسی شده‌اند.
توبه شخصی که بسیار گناه کرده دعاها و اذکاری جهت توبه شخصی که گناهان زیادی انجام داده است، در این بخش آورده شده‌اند.
آسانی سوال و جواب قبر مواردی در مورد سوال و جواب در قبر و ارتباط با آنها در این قسمت بیان شده‌اند.
دعای متعلق به حضرت بقیه االله الاعظم بعداز نماز ظهر دعاها و اذکاری که به حضرت بقیه‌الله الاعظم اختصاص دارد و بعد از نماز ظهر می‌خوانند، در این بخش آمده‌اند.
دعا برای حضرت صاحب الزمان (عج) بعداز نماز عصر در این بخش، دعاها و اذکار مخصوص به حضرت صاحب الزمان (عج) پس از نماز عصر آورده شده‌اند.
دعا برای حضرت صاحب الزمان (عج) بعد از دو رکعت نماز شب دعاها و اذکاری که پس از انجام دو رکعت نماز شب برای حضرت صاحب الزمان (عج) خوانده می‌شود.
قنوت حضرت امام محمد بن علی الجواد (ع) مشتمل بر دعا جهت منتظرین و دوستان امام زمان (عج) قنوت امام جواد (ع) که شامل دعاها و اذکاری است که برای منتظران و دوستان امام زمان (عج) خصوصاً در قنوت نمازها خوانده می‌شود.
قنوت امام زمان (عج) قنوت خاص امام زمان (عج) که در نمازها به خصوص نمازهای واجب خوانده می‌شود.
آسان گذشتن از پل صراط دعاها و اذکاری که برای آسان گذشتن از پل صراط بیان شده و اهمیت آنها تأکید شده است.
دعایی که زیاد خواندن آن تاکید شده دعاها و اذکاری که خواندن مکرر آنها به عنوان عمل پیشهادی و موثر بر آوردن حاجات تأکید شده است.
خواص آب زمزم و استحباب نوشیدن آن درباره خواص آب زمزم و دستورات مربوط به نوشیدن آن با تأکید بر استحباب آن.
دستورات طبی و بهداشتی از امام رضا (ع) آموزه‌ها و دستورات بهداشتی و طبی که از سوی امام رضا (ع) بیان شده‌اند.
دعا جهت شفای امراض چشم دعاها و اذکاری که برای شفای امراض چشم مورد تأکید قرار گرفته‌اند.
احکام امر به معروف و نهی از منکر آموزه‌ها و احکام مربوط به امر به معروف و نهی از منکر در این بخش بیان شده‌اند.
احکام جهاد با نفس موارد و آموزه‌های مرتبط با جهاد با نفس در این قسمت بیان شده‌اند.
دو دعای شریف در زمان غیبت دعاهای خاص و شریف که در زمان غیبت امام زمان (عج) خوانده می‌شوند.
محفوظ ماندن از فتنه دجّال آموزه‌ها و دعاهایی که برای محافظت از خود در برابر فتنه دجّال مورد استفاده قرار می‌گیرد.
عافیت از شرور و فتن عصر قبل از ظهور دعاها و اذکاری که برای حفظ از شرور و فتنه‌های عصر قبل از ظهور امام زمان (عج) خوانده می‌شوند.
کیفیت دعا برای تعجیل فرج مولایمان حضرت امام زمان (عج) درباره کیفیت و اهمیت دعا برای تعجیل در فرج مولا امام زمان (عج).
فوائد دعا برای تعجیل فرج امام زمان (عج) بنابر استنباط صاحب مکیال از روایات در این بخش، فوائد و آثار دعا برای تعجیل در ظهور امام زمان (عج) بر اساس استنباطات از روایات آمده‌اند.
ادعیه و مناجات منتخبه مولایمان حضرت امام سجاد علیه السلام از صحیفه سجادیه دعاها و مناجات‌های انتخابی از صحیفه سجادیه که به خصوص از سوی امام سجاد (ع) خوانده می‌شوند.
ادعیه و دعا جهت نیکو شدن خرید و فروش دعاها و اذکاری که هنگام خرید و فروش مورد استفاده قرار می‌گیرد تا تأثیر بهتری در این امور داشته باشد.
دعایی که هنگام خرید حیوانات خوانده می‌شود دعاها و اذکاری که در زمان خرید حیوانات مورد استفاده قرار می‌گیرد.
زیاد نمودن شیر حیوانات آموزه‌ها و دعاهایی که برای افزایش میزان شیر حیوانات خوانده می‌شوند.
معالجه امراض حیوانات درباره راهکارها و دعاها برای درمان و معالجه امراض حیوانات.
حفاظت مخزون و ذخیره شده آموزه‌ها و دعاهایی که برای حفاظت از مخزون و انبارها مورد استفاده قرار می‌گیرد.
مبارک شدن منزل و حفظ از دزد و دشمن دعاها و مناجات‌هایی که به منظور برکت در منزل و حفاظت از دزدان و دشمنان خوانده می‌شوند.
بیماری شناسی و درمان در روایات معصومین علیه السلام آموزه‌ها و دعاها برای شناخت بیماری‌ها و روش‌های درمانی که در روایات معصومین (ع) آمده‌اند.
دعای شفای جمیع امراض و بیماری ها دعاها و اذکاری که برای شفا از تمامی امراض و بیماری‌ها مورد استفاده قرار می‌گیرد.
دعای مولایمان حضرت امام سجاد علیه السلام هنگامیکه مریض می‌شدند یا اندوه و گرفتاری به آن حضرت روی می‌آورد دعاها و مناجات‌های مولایمان حضرت امام سجاد علیه السلام در زمان مرض یا اندوه و سختی‌ها
ذکر چند نکته مربوط به ثواب قرائت سوره‌های قرآن مشخصات مهم درباره ثواب و فواید قرائت سوره‌های مختلف قرآن
بعضی از ادعیه و مناجات مولایمان حضرت امام سجاد علیه السلام دعاها و آرامش‌بخشی‌های انتخابی از حضرت امام سجاد در مواقع مختلف
دعای حضرت امام سجاد علیه السلام در طلب عفو و رحمت دعای خاص برای طلب مغفرت و رحمت از حق تعالی
دعای مولایمان حضرت امام سجاد علیه السلام دعای خاص از امام سجاد در مواقع گوناگون
دعای هنگام ورود به شهر یا روستایی دعای خاص برای روزهای ورود به شهر یا روستا
دعای سوار شدن بر وسیله نقلیه دعایی که هنگام سوار شدن بر وسایل نقلیه انجام می‌شود
دعای گم کردن راه دعا برای یافتن راه گم‌شده
رفع ترس بیابان دعایی جهت از بین بردن ترس در بیابان
دعای هنگام سوار شدن کشتی دعایی که در لحظات سوار شدن بر کشتی انجام می‌شود
جهت خسته نشدن از راه رفتن دعایی برای حفظ انرژی و خستگی‌نیافتن از راه رفتن
اختیارات ایام سفر درباره اختیارات و دعاهایی که در سفرهای مختلف می‌توان انجام داد. دانلود از لینک زیر
0 notes
bornlady · 4 months
Text
روش زدن سامبره : برای تکان دادن سر، با تأمل مقداری مایع را روی سرش بریزید ریش کرد و راهی را که از آنجا آمده بود برو. سلطانی که در آن زمان عصای مصر را به نوسان درآورد. رنگ مو : بر تعداد بی‌نظیر فرزندانش. از شاهزادگان او چنین بود بسیاری، که اگر قرار بود هر یک از آنها تاج بر سر بگذارد، ممکن بود با آنها تمام پادشاهی های جهان شناخته شده آن زمان را ذخیره کرده اند. اما هفده سال پیش، این بهار فراوان، یک تابستان گرم داشت. روش زدن سامبره روش زدن سامبره : شجاع بود ملک العزیز عثمان، پسر صلاح الدین نامدار. شهرت سلطان ملک کمتر بر ویژگی های خود در زمینه یا کابینه تکیه می کند. لینک مفید : سامبره مو بالاخره خشک شد پرنسس ملچسالا سریال طولانی سریال را خاتمه داد فرزندان سلطانی؛ و به اتفاق آراء دیوان، او بود جواهر کل او تا حد زیادی از این امتیاز بهره برد از کوچکترین فرزندان، ترجیح به بقیه. و این تمایز با شرایط همه دختران سلطان تقویت شد. روش زدن سامبره : او به تنهایی در زندگی باقی مانده بود. در حالی که طبیعت او را به آن آراسته بود جذابیت های بسیاری که آنها حتی چشم پدری را مسحور می کردند. برای این باید در عمومی به شاهزادگان شرقی اعطا شود، که در علم انتقاد از زیبایی زنانه آنها بی نهایت از ما پیشرفته تر هستند غربی ها که هستند. لینک مفید : سامبره مو چطوریه به ناقص خود خیانت می کنند فرهنگ در این نقطه ملچسالا افتخار سلطان بود خانواده؛ خود برادرانش بی وقفه به او توجه داشتند، و در تلاش برای پیشی گرفتن از یکدیگر از لحاظ محبت آمیز. قبر دیوان بارها در بررسی چه شاهزاده ای به وسیله آن به کار می رفت او، ممکن است. روش زدن سامبره : در پیوندهای عشق، با علاقه ی او مرتبط باشد دولت مصر این پدر سلطنتی او کوچکترین مراقبت خود را انجام داد. او بود تنها و بی وقفه نگران این است که به این عزیز دلش اعطا کند هر آرزو، برای حفظ روح خود را همیشه در خلق و خوی شاد، که هیچ ابری ممکن است. لینک مفید : سامبره وامبره افق آرام پیشانی او را پوشانده باشد. [18]ژورنال مد، ژوئن 1786. اولین سالهای کودکی را زیر نظر سپری کرده بود پرستاری که مسیحی بود و اهل ایتالیا بود. این غلام داشت در اوایل جوانی توسط الف از ساحل شهر زادگاهش ربوده شد دزد دریایی بربری; فروخته شده در اسکندریه؛ و در جریان تجارت، از یک دست به دست دیگر منتقل می شود. روش زدن سامبره : تا اینکه بالاخره وارد شد کاخ سلطان، جایی که قانون اساسی او به او توصیه می کرد این دفتر که او آن را با بیشترین شهرت پر کرد. هر چند کمتر خوش آهنگ از پرستار دادگاه فرانسوی، که علامت می داد همخوانی عمومی در سراسر ورسای، هر زمان که او بلند شد. لینک مفید : آمبره سامبره بالیاژ با گلوی خوش آهنگ، او مارلبورو با این حال طبیعت داشت به اندازه کافی او را با لغزش زبانی که در آن بود غرامت داد بی رقیب. او به اندازه شهرزاده منصفانه قصه و داستان می دانست در هزار و یک شب؛ نوعی سرگرمی که برای آن نژاد سلاطین در خلوت سراب هایشان ظاهر می شود. روش زدن سامبره : علاقه قابل توجهی دارند شاهزاده خانم حداقل از آن لذت می برد، نه برای هزار شب، بلکه برای هزار هفته. و زمانی که یک بار a دختر به سن هزار هفتگی رسیده است، دیگر نمی تواند باشد از تاریخ دیگران راضی است، زیرا او مطالبی را در آن می بیند خودش برای خودش تاریخ بسازد. لینک مفید : سامبره و آمبره در روند زمان، استعداد زن منتظر داستان های مهد کودک خود را با تئوری اروپایی تغییر داد آداب و رسوم؛ و خودش یک میهن پرست گرم و به یاد می آورد کشور مادری خود را با لذت، برتری های ایتالیا را به تصویر کشید به قدری واضح، که خیال شیردهی مهربان او پر شد موضوع، و تاثیر خوشایند پس از آن هرگز از او محو شد. روش زدن سامبره : حافظه هر چه این شاهزاده خانم عادل قد و قامت بیشتر می کرد، قوی تر می شد در او عشق به دکوراسیون خارجی; و کل رفتارش شکل گرفت بر اساس آداب و رسوم اروپا و نه مصر. [ص 120] او از جوانی به بالا عاشق گل ها بود: بخشی از او اشغال عبارت بود. لینک مفید : سامبره مو از شکل گیری، طبق روش اعراب، توالی ثابتی از دماغه‌بازها و گلدسته‌ها. با که با بیانی ظریف، احساسات خود را آشکار می کرد قلب او. نه، او در نهایت آنقدر مبتکر شد که با ترکیب کردن او می توانست گل هایی با خواص مختلف بسازد و اغلب بسیار خوشبختانه جملات و متون کامل قرآن. اینها او پس از آن برای تفسیر به همبازی هایش تسلیم شود. روش زدن سامبره : که به ندرت موفق نشدند اصابت. به این ترتیب، برای مثال، او یک روز با تشکیل داد شکل یک قلب؛ اطراف آن را با گل های رز سفید و نیلوفرها احاطه کرده است. متصل اند در زیر آن دو کینگسوید نصب شده که یک شقایق به زیبایی مشخص شده را محصور کرده است بین آنها؛ و زنانش چون تاج گل را به آنها نشان داد.
لینک مفید : رنگ مو سامبره و امبره به اتفاق آرا بخوانید: معصومیت قلب بالاتر از تولد و زیبایی است. او بارها به بردگان خود دماغه های تازه ای هدیه می داد: و اینها اهدای گل معمولاً شامل ستایش یا سرزنش گیرندگان آنها بود. روش زدن سامبره : گلدسته ای از گل صد تومانی رز اهانت آمیز. تورم خشخاش، تیرگی و غرور؛ دسته ای از سنبل های خوشبو، با زنگ های آویزان، یک بود برای فروتنی; زنبق طلایی که برگهایش را هنگام غروب می بندد برای احتیاط؛ دریایی خدمات چشمی را سرزنش کرد. و شکوفه های خار-سیب، با دیزی که ریشه هایش سمی است. لینک مفید : سامبره رنگ حکایت از تهمت و حسادت خصوصی داشت. پدر عثمان از این بازی درخشان خود لذت پنهانی برد دختر تخیلی است، هر چند خودش استعدادی در رمزگشایی اینها نداشت هیروگلیف شوخ، و اغلب مجبور به نگاه با قبل از اینکه بتواند معنای آنها را سوراخ کند، عینک تمام دیوان او را به تصویر کشید. روش زدن سامبره : این طعم عجیب و غریب شاهزاده خانم از او پنهان نبود. و اگرچه، به عنوان یک مسلمان ساده، او نمی توانست در آن با او همدردی کند، او تلاش کرد. لینک مفید : تفاوت آمبره و سامبره چیست به عنوان والدینی مهربان و سهل‌گیر، به جای سرکوب کردن این گرایش مورد علاقه دخترش او بر پروژه افتاد ترکیب اشتیاق او به گل و ترجیح او برای قطعات خارجی، و برای او باغی به سلیقه فرانک ها درست کرد. روش زدن سامبره : این ایده آنقدر خوشحال به نظرش آمد که لحظه ای را در دادن آن به او از دست نداد شیک کیامل محبوب اوست و او را با سخت ترین فشار می آورد دستوراتی برای تحقق آن در سریع ترین زمان ممکن. شیک، خب با علم به اینکه آرزوی اربابش برای او دستوراتی است.
0 notes
minhajbooks · 8 months
Text
Tumblr media
🔰 کتاب التوحید
1500 سے زائد صفحات اور دو ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ کتاب توحید اور شرک کے باب میں بنیادی عقائد کو اتنی واضحیت اور جامعیت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ عقیدۂ توحید اور شرک کے حوالے سے پھیلائے گئے شکوک و شبہات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتے ہیں۔ کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دلیل اور تحمل سے حقائق کو سمجھایا گیا ہے۔ اعتقادی موضوعات کو قرآن و سنت کے مضبوط دلائل، اکابر ائمہ کی تصریحات اور معتدل طرزِ فکر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
جلد اوّل میں تین بڑے عنوانات کو شامل کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے مبادیات عقیدہ توحید کا بیان ہے جس میں توحید اور شرک کے مفہوم کو اکابر ائمہ کی تصریحات کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے، اس حصے کا دوسرا جزو چند بنیادی نکات پر مشتمل ہے۔ یہ نکات دراصل پوری کتاب کا خلاصہ ہیں جنہیں ذہن نشین کیے بغیر کتاب سے کماحقہ استفادہ ممکن نہیں۔ جلد اول کا دوسرا باب توحید کے ارکانِ سبعہ ہیں جو سورۃ اخلاص کی اعتقادی تفسیر ہے اور دنیائے علم و معرفت میں شاید پہلی مرتبہ اس شکل میں سامنے آ رہی ہے۔ یہ وہ کامیاب الہامی کاوش ہے جس نے توحید اور رسالت کے باہمی ربط و تعلق کو نہایت خوبصورتی سے اہل دانش و بینش کے سامنے رکھا ہے۔ کتاب کا دوسرا اور بڑا حصہ توحید کی متقابل اقسام پر مشتمل ہے، یہی حصہ دراصل کتاب کا دل ہے۔ تیسرے حصے میں ایسے موضوعات شامل کئے گئے ہیں جن سے روز مرہ زندگی میں واسطہ پڑتا ہے۔ اس حصہ کتاب میں اہل اسلام کو اعتقادی مسائل کے حل میں انتہاء پسندی کی بجائے احتیاط، تدبر، میانہ روی اور تحمل کی راہ دکھائی گئی ہے۔
کتاب التوحید کی جلد دوم میں استعانت، استغاثہ، توسل، توسط اور زیارت جیسے اہم اور متنازعہ فیہ موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔
کتاب ميں بیان کردہ چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
🔹 عقیدۂ توحید کا حقیقی اور جامع تصور بیان کیا گیا ہے۔ 🔹 اَقسامِ توحید اور شرک کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس کے مطالعہ سے باہمی اعتقادی مخاصمت کی شدت میں کمی آئے گی اور توحید کا صحیح تصور سمجھنے میں مدد ملے گی۔ 🔹 پہلی مرتبہ سورۂ اخلاص کی تفسیر توحید کے ارکانِ سبعہ کی شکل میں بیان کی گئی ہے اور توحید اور رسالت کے باہمی ربط و تعلق کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ اہلِ دانش و بینش کے سامنے رکھا ہے۔ 🔹 ابلیس کا خود ساختہ تصور توحید کیا تھا؟ 🔹 عبادت اور تعظیم دو مختلف چیزیں ہیں۔ 🔹 لفظ ’’شرک‘‘ کے استعمال میں احتیاطیں۔ 🔹 اسلوبِ بیان کی نُدرت، دلائل کی صحت اور موضوعات کی تقسیم میں ابلاغ اور تسہیل کو مد نظر رکھا گیا ہے۔
🌐 پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/urdu/book/49/Book-on-Oneness-of-Allah-vol-I/
0 notes
dai-ilallah · 10 months
Text
0 notes
nima-shahsavarri · 10 months
Text
youtube
"داعش"
شعر و کلام نیما شهسواری
سر زِ انسان می‌برند و اینچنین آذین به جم
می‌کشند و می‌خورند و این‌چنین تب‌دار تن
هر نفر بر ضد آنان گفتگو دارد غزل
می‌کشند و می‌درند از روز اول از ازل
هر نفر را دست بسته او برید از دست تن
پای و چشم و در به در در باور این زندار من
انتحاری گشت و خود صدها نفر را او کشاند
می‌کشد هم خویشتن هم آن هزاران تن وطن
جمع انسان از برایش مؤمن و کافر بود
هر نفر کافر بگو قتل و به کشتار از عدن
باغ و بازار و فروش آن کنیزان در وطن
این‌چنین آزار بر جنس و به جان و بر بدن
صدهزاران زشتی و این دد به دیو آن وطن
این‌چنین کشتار خلق و قتل‌عام هر بدن
وای از این دیوانگی‌ها و جنون از آدمان
فکر و گفتار خدا می‌سازد آن دیوانه من
جز همین نیست آن کلام و جز به جز آن فغان
وای بر قرآن و این دیوانگی‌ها در عیان
از دلش صد طالبان و داعشِ خونخوار زاد
این کلام ناحق از بطنش هزار آزار زاد
بهترین تفسیر آن صد زشتی و جلاد داد
این سخن هر گونه خوانی از دلش آزار زاد
بشکن این بت پاره بادا آتش و بر خرمنش
هر چه در وهم و به تلطیف، نفی خوبی در برش
هر چه از داعش هزاران داعش دیگر بود
بهر خواندن ناب اسلام و به قرآن می‌رسد
#کتاب #طغیان
#شعر #داعش
#شاعر #نیماشهسواری
برای دریافت آثار نیما شهسواری اعم از کتاب و شعر به وب‌سایت جهان آرمانی مراجعه کنید
https://idealistic-world.com
صفحات رسمی نیما شهسواری در شبکه‌های اجتماعی
https://zil.ink/nima_shahsavari
پادکست جهان آرمانی در فضای مجازی
https://zil.ink/Nimashahsavari
پرتال دسترسی به آثار
https://zil.ink/nima.shahsavari
صفحه رسمی اینستاگرام نیما شهسواری
@nima_shahsavarri
#هنر
#هنرمند
#شعر_آزاد
#شعر_کوتاه
#شعر_فارسی
#آزادی
#برابری
#شعر_ایران
#شعر_سیاسی
#شعر_ایرانی
#شعر_فارسی
#خدا
#دین
#اسلام
#محمد
#الله
0 notes
drchishti · 10 months
Text
فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
واقعہ اعرابی اور وسیلہ کا شرعی مفہوم و جواز قرآن و حدیث کی روسشنی میں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں فریاد ،کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء)
معلوم ہوا استغاثہ اور وسیلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جائز ہے ۔
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ ( تفسیر بحر المحیط جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعرابی کا قبر انور پر فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہوگئی ۔ (۔تفسیر قرطبی سورۃُ النساء صفحہ 265 )
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔ (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے آستانہ پر آجائیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔
اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کا وسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اور نام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہو جائے وہ وسیلہ ۔
اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ، اجماعِ امت اور دلائل عقلیہ سے ہے ۔ اوپر دی گئی آیہ کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر مجرم کےلیے ہر وقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اور اجازت عام ہے یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (سورة المائدہ ، 35)
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو ۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو ۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کا وسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں آگئے اور اس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔ معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے ۔
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۔ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ : اے محبوب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔
معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات اعمال صالحہ طہارت کا کافی وسیلہ نہیں ۔ بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے ۔
وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ۔ (سورة البقرہ، 89)
مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہلِ کتاب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیا بلکہ تائید کی اور فرمایا کہ '' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگا کرتے تھے اب ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے ۔ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے ۔
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۔ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔
بہت سے مفسرین کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرنا تھا ۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انبیائے کرام علیہم السلام کابھی وسیلہ ہیں ۔
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۔ (سورة البقرہ، 144) ۔
ترجمہ : ہم آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں اچھاہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں ۔
معلوم ہواکہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لیے ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔ جب کعبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ کا محتاج ہے تو دوسروں کا کیا پوچھنا ہے ۔
مسندامام احمدبن حنبل میں حضرت شریح ابن عبید سے بروایت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چالیس (40) ابدال کے متعلق فرمایا۔ ان چالیس (40) ابدال کے وسیلہ سے بارش ہوگی دشمنوں پر فتح حاصل کی جائے گی اور شام والوں سے عذاب دور ہو گا ۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے وسیلہ سے بارش فتح و نصرت ملتی ہے اور بلا دفع ہوتی ہے ۔ (مشکوٰة باب ذکرِ یمن و شام)
دارمی شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ شریف میں بارش بند ہوگئی اور قحط پڑ گیا لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیاآپ نے فرمایا کہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چھت کھول دو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے تولوگوں نے ایسا ہی کیا تو فوراً بارش ہوئی یہاں تک کہ چارہ اُگا اونٹ موٹے ہو گئے گویا چربی سے بھر گئے ۔ (مشکوٰة ،باب الکرامات)
مشکوٰ شریف باب المعراج میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پرگذرے تو آپ نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم ملا ؟ فرمایا ہر دن پچاس (50) نمازوں کافرمایا ۔ حضور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں اتنی طاقت نہیں میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں ۔ اپنی امت کےلیے رب سے رعایت مانگیے غرضیکہ کئی بار عرض کرنے پر پانچ رہیں معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے یہ رعایت اور رحمت ملی کہ پچاس (50) نمازوں کی صرف پانچ باقی رہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کاوسیلہ ان کی وفات کے بعد بھی فائدہ مند ہے ۔
مسلم و بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا '' انما اناقاسم واللہ معطی'' (مشکوٰة ،کتاب العلم) ۔ ترجمہ : ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔
معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعتمیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تقسیم فرمانے والے ہیں اور تقسیم فرمانے والا وسیلہ ہوتا ہے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خالق کی ہر نعمت کاوسیلہ ہیں ۔
شرح السنہ میں ہےکہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے ایک اونٹ نے جو کھیت میں کام کر رہا تھا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا اور منھ اپنا زانوئے مبارک پر رکھ کر فریادی ہوا کُل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے مالک کو بلا کر فرمایا یہ اونٹ شکایت کرتا ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم دیتے ہو ۔ اس کے ساتھ بھلائی کرو ۔ معلوم ہواکہ بے عقل جانور بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رفع حاجات کےلیے وسیلہ جانتے ہیں ۔ جو انسان ہو کر ان کے وسیلہ کا منکر ہو وہ اونٹ سے زیادہ بے عقل ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔ کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کودودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف ،کتاب الرضاع)
معلوم ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ ایسی نعمت ہے جس کا فائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان تو ان کابندۂ بے دام ہے ۔
اشیاء کا وسیلہ
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاجُبہّ شریف تھا ۔ یہ جُبّہ شریف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات کے بعد میں نے اسے لے لیا اس جُبّہ شریف کونبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہنتے تھے اور اب ہم یہ کرتے ہیں کہ مدینہ میں جو بیمار ہو جاتا ہے اسے دھو کر پلاتے ہیں اس سے شفا ہو جاتی ہے ۔ (مشکوٰة، کتاب اللباس)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن شریف سے مس کیے ہوئے کو شفا کا وسیلہ سمجھ کر اسے دھو کر پیتے تھے ۔
بخاری شریف کتاب المساجد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کوحج کو جاتے ہوئے ہراس جگہ نماز پڑھتے تھے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے حج کے موقع پر نمازپڑھی تھی ۔ یہ مقامات بخاری نے بتائے بھی ہیں معلوم ہوا کہ جس جگہ بزرگ عبادت کریں وہ جگہ قبولیت کاوسیلہ بن جاتی ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما کو دے کر کہا تھا کی یہ چادر میرے بعد اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لے دعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا ۔
یہ اولیاء اللہ سے وسیلہ کا ثبوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔
بزرگانِ دین علیہم الرّحمہ کے اقوال
صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک کے تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مخلوق کیلئے وسیلہ ٔ عظمیٰ ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ سے اولیاء اللہ اور علماء بھی وسیلہ ہیں ۔
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ قصیدہ نعمان میں فرماتے ہیں : ⬇
اناطامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک
ترجمہ : یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عطا کا امیدوار ہوں اور مخلوق میں ابوحنیفہ کےلیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا کوئی نہیں ۔ معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا وسیلہ مانتے ہیں ۔
غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ اپنے قصیدہ ٔ غوثیہ میں اپنے خداد اد اختیارات بیان فرما کر ارشاد فرماتے ہیں : ⬇
وکل ولی لہُ قدم وانی
علیٰ قدم النبی بدرالکمال
ترجمہ : میں جو دنیا پر راج کر رہا ہوں اور میرے قبضہ میں زمین و زمان ، مکین و مکان ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ولی کسی نہ کسی نبی کے نقش قدم پر ہوتا ہے میں نبیوں کے چاند اور رسولوں کے سورج حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدموں پر ہوں ۔
معلوم ہوا کہ حضرت غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسی اہم خلقت ہیں کہ انہیں سارے مراتب عالیہ اسی سرکار سے میسر ہوئے ۔
امام بوصیری رضی اللہ عنہ قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں اور یہ مقبول بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہو چکا ہے : ⬇
ومن تکن برسول اللہ نصرتہ
ان تلقہ الاسدفی احامھابجم
ترجمہ : جس کی مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمادیں وہ شیروں سے بھی بچ جاتا ہے ۔
معلوم ہوا کہ ہربزرگ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوہرمصیبت کے دفع کا وسیلہ مانتے ہیں ۔
مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ اپنی مثنوی شریف میں فرماتے ہیں : ⬇
اے بسادرگوخفتہ خاک دار
بہ ز صداحیاء بنفع وابتشار
سایہ اوبورخاکش سایہ مند
صدہزاراں زندہ درسایہ دے اند
ترجمہ : بہت سے قبروں میں سونے والے بندے ہزاروں زندوں سے زیادہ نفع پہونچاتے ہیں ان کی قبر کی خاک بھی لوگوں پر سایہ فگن ہے لاکھوں زندے ان قبروالوں کے سایہ میں ہیں ۔ معلوم ہواکہ مولانا علیہ الرحمہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کو بعد وفات زندوں کا وسیلہ مانتے ہیں ۔
عقلی دلائل اور وسیلہ
عقل کابھی تقاضہ یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے حسب ذیل دلائل سے ۔
رب تعالیٰ غنی اور ہم سب فقیر ہیں '' جیسا کہ ارشاد تبارک و تعالیٰ ہے ''اللہ غنی وّ انتم الفقراء ُ '' اور وہ غنی ہمیں بغیر وسیلہ کے کوئی نعمت نہیں دیتا ۔ ماں باپ کے وسیلہ سے جسم دیتا ہے ۔ استاد کے ذریعہ علم ، پیر کے ذریعہ شکل ، ملک الموت کے ذریعہ موت ، غرضیکہ کوئی نعمت بغیر وسیلہ نہیں دیتا تو ہم فقیر و محتاج ہو کر بغیر وسیلہ اس سے کیسے لے سکتے ہیں ۔ اگر اس کو سب کچھ خود کرنا ہوتا تو وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیوں بھیجتا ۔ بلکہ خود ہی سب کو ہدایت دے دیتا ۔
دنیا ادنیٰ اور تھوڑی ہے آخرت اعلیٰ اورزیادہ ہے ''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''قل متاع الدنیا قلیل ''اورفرماتاہے ''والاٰ خرة خیروّ ابقیٰ '' جب دنیا جیسی حقیر بغیر وسیلہ نہیں ملتی تو آخرت جو دنیا سے اعلیٰ ہے بغیر وسیلہ کیوں کر مل سکتی ہے ۔ اس لیے قرآن و ایمان دینے کےلیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۔ ہمارے اعمال کی مقبولیت مشکوک ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و اولیاء اللہ علیہم الرحمہ کی مقبولیت یقینی ہے ۔ جب مشکوک اعمال وسیلہ بن سکتے ہیں تو یقینی مقبول بندے بدرجۂ اولیٰ وسیلہ ہیں ۔
اعمال صالحہ وسیلہ ہیں رب سے ملنے کا اور اعمال کا وسیلہ انبیاء ، اولیاء ، علما ء تو یہ حضرات وسیلہ کے وسیلہ ہوئے اور وسیلہ کا بھی وسیلہ ہے لہٰذا یہ حضرات بھی وسیلہ ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے تین سوسال تک خانۂ کعبہ میں بت رکھےگے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دستِ اقدس سے کعبہ پاک صاف کیا گیا تاکہ معلوم ہو کہ کعبہ معظمہ جو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے وہ بھی بغیر وسیلہ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پاک نہ ہوسکا تو تمہارے دل بغیر اس ذاتِ کریم کے وسیلہ سے ہرگز پاک نہیں ہو سکتے ۔ اللہ عزوجل فرماتاہے : ''وکونوامع الصادقین'' سچوں کے ساتھ رہو ۔ اور سارے سچے اولیاء علماء وسیلہ کے قائل رہے ۔ لہٰذا وسیلہ کا ماننا ہی سچا راستہ ہے ۔ شیطان نے ہزاروں برس بغیر وسیلہ والی عبادت کیں مگروہ وسیلہ والا ایک سجدہ نہ کیا تو مردود ہو گیا ملائکہ نے وسیلہ والا سجدہ کر کے محبوبیت پائی ۔ معلوم ہوا کہ وسیلہ والی عبادت تھوڑی بھی ہو تو مقبول بارگاہِ الٰہی ہے ۔
قبرمیں مردہ سے تین سوال ہوتے ہیں پہلا سوال توحید کا اور دوسرا دین کا ۔ مگر ان دونوں سوالوں کے جواب درست دینے پربھی بندہ کامیاب نہیں ہوتا اور جنت کی کھڑکی نہیں کھلتی ۔ سوال تیسرا یہ ہوتا ہے'' ماکنت تقول فی حق ہذاالرجل '' تو اس محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیا کہتا تھا ۔ دیکھ یہ تیرے سامنے جلوہ گرہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرماں بردار بندہ جواب دیتا ہے یہ میرے رسول میرے نبی ہیں اور میں ان کا امتی ہوں ۔
مسجد نبوی شریف میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار ہے ۔ کیوں ؟ کیا دوسری مسجدیں اللہ کا گھر نہیں ہیں ؟ صرف اسی لیے یہ ثواب بڑھا کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آرام فرمارہے ہیں اسی طرح بیت المقدس میں کئی ہزار پیغمبر علیہم السلام جلوہ گرہیں ۔ کعبہ وہاں بھی ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ اس لئے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام پیدائش ہے اور وہاں بیت اللہ چاہ ِ زم زم اورمقام ِ ابراہیم ہے ۔ ان کے وسیلہ سے ثواب زیادہ ہوگا ۔ وسیلہ والی عبادت کادرجہ زیادہ ہے۔ معلوم ہواکہ وسیلۂ انبیاء واولیاء اعلیٰ چیزہے ۔
منکرین وسیلہ کی سوچ کا جواب : وسیلہ کے معانی جو کہ لغت میں بیان کیے گۓ ہیں وہ یہ ہیں ۔ " ذریعہ ، واسطہ ، شفاعت ، دستگیری ، حمایت"
یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کی قران میں وسیلہ علیہدہ سے کیوں بیان کیا گیا ہے۔ حالنکہ پورے قران میں نیک اعمال کیا ہیں تفسیل سے بیان کیے گۓ ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ نیک اعمال ہی وسیلہ ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر تلاش کیا کرنا ہے۔ اسی ایت میں جہاد بھی کرنے کو کہا گیا ہے ۔ اگر صرف وسیلہ کو نیک عمل ہی سمجھا جاۓ تو جہاد بھی تو نیک عمل ہے تو ایک ہی ایت میں یہ علیہدہ سے کیوں بیان کیا گیا ۔ علیحدہ آیت میں بھی تو جہاد کا ذکر ہو سکتا تھا ۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وسیلہ نیک عمل کرنے میں جو چیز مدد فراہم کرے وہ وسیلہ ہے اور جب نیک عمل ہو جاۓ گا تو اللہ کا قرب ملے گا ۔
یہ ایسا ہی ہے کہ آپ لاہور سے ملتان میلاد شریف کی محفل کےلیے جا رہے ہوں تو اس میں سواری وسیلہ ہے اور آب کا ارادہ اور سفر نیک عمل ۔ اس میں سواری اور پیٹرول نیک عمل نہیں ہیں بلکہ ذریعہ یا وسیلہ ہیں ۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام اور صالحین علیہم الرحمہ جو کہ نیک عمل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ۔ یہ سب وسیلہ ہیں - نیچے دی گی مثال میں نسبت بھی ایک بہت بڑا وسیلہ ہے کا ثبوت بخاری شریف سے پیش ہے : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔ کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف ،کتاب الرضاع)
معلوم ہوا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان تو ان کابندۂ بے دام ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی کو دے کر کہا تھا کی یہ چادرمیرے بعد اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا ۔
یہ اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔
اب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک کے زمانہ کو سوچ پڑھیں :
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں فرماتے ہیں : ⬇ ( 80ھ تا 150ھ تابعین)
اناطامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک
ترجمہ : یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضور کی عطا کا امیدوار ہوں اور مخلوق میں ابوحنیفہ کےلیے آپ کے سوا کوئی نہیں ۔ معلوم ہواکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپناوسیلہ مانتے ہیں ۔
پہلی مثال سے یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے اور مثال نمبر دو سے نیک لوگوں کو وسیلہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے ۔
استغاثہ مافوق الاسباب کے فریب کا جواب
اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔ اس کاثبوت قرآنی آیات ‘ احادیث نبویہ’ اقوال بزرگاں ، اجماع امت اور دلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہرمجرم کےلیے ہر وقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔
اِستغاثہ کی بحث کے دوران اَسباب کے ضمن میں عام طور پر اُمور کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں : ⬇
(1) اُمورِ عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما تحت الاسباب ۔
(2) اُمورِ غیر عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما فوق الاسباب ۔
اِس تقسیم کے تحت ما تحت الاسباب ہونے کے ناطے اُمورِ عادیہ میں اِستغاثہ کو جائز سمجھا جاتا ہے ، جبکہ اُمورِ غیر عادیہ جو ما فوق الاسباب ہوتے ہیں، میں اِستغاثہ کو شِرک قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کام جو بالعموم اَسباب کے ذریعے سراِنجام پاتے ہیں ان عادی اَسباب کو ترک کر کے مدد چاہنا اِستغاثہ مافوق الاسباب کہلاتا ہے اور اَسبابِ عادیہ کو اِختیار کرتے ہوئے مدد چاہنا ماتحت الاسباب ہے، یعنی اس میں کسی سے مدد چاہتے ہوئے ان اسباب کو اختیار کرلیا جاتا ہے جو بالعموم اس امر سے متعلق ہوتے ہیں۔ اِس تقسیم کے بعد یہ امر پیشِنظر رہنا چاہیئے کہ اُن کے نزدیک دُنیوی حوائج میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہمی اُمور میں تعاون کرنا اِستغاثہ ماتحت الاسباب ہے اور یہ جائز ہے، جیسے اِرشادِ ربانی ہے :وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰي.ترجمہ : اور نیکی اور تقویٰ (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو ۔ (سورہ المائده، 5 : 2)
ما تحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ کو رَوا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نزدیک وہ اِستغاثہ جو ما فوق الاسباب اُمور میں سے ہو وہ حرام و ناجائز ہے ۔
اس اِعتراض کا علمی محاکمہ : پہلا نکتہ : اِستغاثہ ماتحت الاسباب اور اِستغاثہ مافوق الاسباب (اُمورِ عادیہ و غیرعادیہ) میں سے مؤخرالذکر کو شِرک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اِس تقسیم اور اس کے تحت پائی جانے والی ایک قسم کے جواز اور دُوسری کے عدم جواز کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے اور اِستنباط و اِستخراج کا نتیجہ ہے ۔ کسی قسم کی کوئی نصِ قرآنی اِستغاثہ کے ضمن میں اَسباب کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم پرشاہد نہیں ۔
یہاں ہمیں یہ بات بھی ذِہن نشین رکھنی چاہیے کہ اُمورِ مافوق الاسباب میں بھی کسی نہ کسی سطح کے اَسباب ضرور کارفرما ہوتے ہیں۔ ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ کوئی اَمر مافوق الاسباب نہیں۔ مگر چونکہ بعض اُمور کے اَسباب ہمیں ظاہری طور پر نظر نہیں آتے اِس لئے ہم اُنہیں عام طور پر اُمورِ مافوق الاسباب کا نام دیتے ہیں ۔
دُوسرا نکتہ : سورۂ فاتحہ کی جس آیتِ کریمہ کو مسئلہ کی بنیادی کڑی اور اصل سمجھا جاتا ہے خود اُس میں اَسباب کے تحت کی جانے والی کسی تقسیم کا قطعاً کوئی ذِکر نہیں کیا گیا اور ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کہہ کر مدد طلب کرنے کو مطلق رکھا گیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ ألْمُطْلَقُ يَجْرِيْ عَلَي إِطْلَاقِه (مطلق اپنے اِطلاق پر جاری رہتا ہے) اِس لئے ہم کسی خود ساختہ تقسیم کے تحت یہ معنی متعین نہیں کر سکتے کہ اَے باری تعالی! ہم تُجھ سے صرف مافوق الاسباب اُمور میں مدد چاہتے ہیں کیونکہ وہ ��یرے ��لاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا، رہی بات ماتحت الاسباب اُمور کی تو اُن میں چونکہ تیرے علاوہ حصولِ مدد کے اور بھی کثیر ذرائع موجود ہیں اِس لئے اُن معاملات میں تُجھ سے مدد مانگنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ اِس طرح کی تقسیم کم علمی اور نادانی کے سِوا کچھ نہیں اور یہی صحیح معنوں میں شِرک میں مبتلا کرنے والی ہے ۔
تیسرا نکتہ : تفہیمِ مسائل، رفعِ اِلتباس اور بعض اشیاء کو بعض سے ممیز کرنے کےلیے تقسیمات کی جاتی ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں مذکورہ تقسیم کی عدم ضرورت کے باوجود تقسیم کرنے اور پھر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز سمجھنے کا کیا جواز ہے ؟ جبکہ مافوق الاسباب میں شِرک کے فتاویٰ جائز اور درُست قرار دیئے جا رہے ہیں۔ اگر ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں اِستغاثہ حقیقی اور اِستغاثہ مجازی کی تقسیم کی جائے تو پھر اُس کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ؟ فی الواقع ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں تقسیم تو ہے مگر ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی بجائے حقیقت اور مجاز کی ہے ۔
صحیح اِسلامی عقیدہ
’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کے کلمات میں بندہ باری تعالیٰ سے عرض کناں ہوتا ہے کہ اے اللہ! ہم اپنی ضروریات کی کفالت کے لئے ظاہراً کسی سے بھی مدد کے طلبگار ہوں اُس کو مُستغاثِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ مُستغاثِ حقیقی فقط تجھی کو سمجھتے ہیں کیونکہ تیری عدم رضا کی صورت میں کوئی ہمارا مددگار اور پُرسانِ حال نہیں ہو سکتا۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ خواہ ہم ڈاکٹر کے علاج معالجہ سے شفایاب ہو رہے ہوں یا کسی بزرگ کے دُعا سے، کسی کو بھی مستعانِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ حقیقی مددگار تو اللہ ربّ العزّت ہے ۔ ہم دوا اور دُعا دونوں کو سبب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اصل مُستغاث اور کارساز تو ہی ہے ۔
چوتھا نکتہ : اب غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں تقسیموں، ’’مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب‘‘ اور ’’حقیقت و مجاز‘‘ میں تطبیق کیونکر ممکن ہے؟ بلا شبہ بعض اُمورِ حیات میں ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی تقسیم رَوا ہے۔ یہ امرِِ واقعہ ہے اور فہم و شعور میں سمانے والی چیز ہے جس کا ثبوت لانے کی بھی ضرورت نہیں۔ کچھ اُمور ماتحت الاسباب حل ہوجاتے ہیں اور کچھ اُمور کا حل مافوق الاسباب تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اَسباب دراصل دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اَسباب بدیہی ہوتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب اُمور میں اَسباب عام آدمی کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں ۔ ماتحت الاسباب کو ظاہری اور مافوق الاسباب کو رُوحانی اور باطنی اَسباب کہنا زیادہ موزوں ہو گا ۔ مافوق الاسباب اُمور میں اگرچہ اسبابِ عادیہ کا ترک ہوتا ہے مگر اسبابِ غیر عادیہ کا وُجود تو بہرطور یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ گویا حقیقی معنوں میں کوئی بھی اُمور مطلقاً مافوق الاسباب نہیں ہوتے ۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں اسباب ظاہری ہوتے ہیں جو عام بندے کو دِکھائی دے جاتے ہیں ۔ جبکہ مافوق الاسباب میں اسباب غیر عادیہ ہونے کی وجہ سے فردِ بشر کی عام نظر سے دکھائی نہیں دے پاتے ۔
جب انبیاء، علیہم السّلام اولیاء، صلحاء علیہم الرّحمہ یا کسی بھی فردِ بشر کو عالمِ اسباب کے اندر رہتے ہوئے اسی سے متعلق مدد طلب کی جائے تو وہ الفاظ جو حصولِ مدد کے لئے استعمال ہوں اُنہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، مگر مستغاثِ حقیقی اس صورت میں بھی اللہ تبارک و تعالی کی ذاتِ برحق ہوگی ۔ اوراُمورِ عادیہ کے ماوراء اَسباب کی دُنیا میں جب مدد طلب کی جائے گی تو اِستغاثہ کے لئے اِستعمال ہونے والے اَلفاظ مجازاً اِستعمال ہوں گے جبکہ اِعتقاد اس صورت میں بھی اللہ ربّ العزّت ہی کے مُستغاثِ حقیقی ہونے کا ہوگا۔ یعنی معنی حقیقی دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں لفظ کا اِستعمال حقیقت پر مبنی تھا اور مافوق الاسباب میں حقیقی معنی مراد لینا متعذر تھا، اِس لئے لفظ کو بھی حقیقت پر محمول نہ کیا گیا۔ الغرض معنا اور عقیدۃ اِستغاثہ حقیقی اللہ ربّ العزّت ہی کےلیے خاص ہے ۔
حقیقت و مجاز کی تقسیم لابدّی ہے
نفسِ اِستغاثہ کا اِنکار کرنے والے ایک طبقے کا مؤقف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ جائز ہے، جبکہ اِس سلسلے میں حقیقت و مجاز کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔ اب اس مؤقف کے قائل لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز اور درست مانا جائے اور اِستغاثہ حقیقی و مجازی کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر ماتحت الاسباب اُمور میں مُستغاثِ حقیقی کون ہوگا ؟۔۔۔ اگر مریض کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جائے تو مُستعانِ حقیقی کون ہوا؟۔۔۔ کیا مُستعانِ حقیقی وہ ڈاکٹر جو مریض کے معالجے کی تدبیر کر رہا ہے یا کہ اللہ تعالی؟۔۔۔ اگر اِس کا جواب یہ ہو کہ دُنیوی اُمور میں بھی مُستعانِ حقیقی اللہ ہی ہے تو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں باہم فرق کیا رہا ؟ ۔۔۔ مافوق میں اسی اِستغاثہ کا نام شِرک اور ماتحت الاسباب میں اجازت! یہ کہاں کا اصول ہے کہ حقیقت و مجاز کا فرق ملحوظ رکھے بغیر مُستعانِ مطلق بھی اللہ کو قرار دیا جائے اور اُس کے غیر سے مدد بھی طلب کرتے پھریں ؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَo ۔ ترجمہ : اور ہمارا ربّ بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہو ۔ (سورہ الانبياء، 21 : 112)
دُوسری صورت میں اگر اِس کا جواب یہ دِیا جائے کہ اُمورِ ماتحت الاسباب میں مستغاثِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ نہیں اِنسان ہی ہے تو اس سے تعدّد لازِم آئے گا ۔۔۔ جو یقیناً شِرک ہے ۔۔۔ کہ دُنیوی کاموں میں مستعان بندہ ہو اور مافوق الاسباب کاموں میں اللہ تعالی ۔ اِس دُوئی کی بنا پر جب بندے کو مستغاث و مستعان تسلیم کیا جائے تو یہ بالکل اُسی طرح کا شِرک قرار پائے گا جو کفار و مشرکینِ مکہ کا تھا کہ وہ دُنیوی اُمور میں بندوں کو مددگار تسلیم کرتے اور دیگر اُمور میں اللہ تعالی کو مددگار مانتے تھے ۔ اور اگر یہ بات کی جائے کہ دنیاوی اُمور میں بھی مستعان اللہ ہی ہے تو پھر اس کے غیر سے مدد مانگنا کیونکر درست ہوگیا ؟
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ جب معترضین کے نزدیک اُمورِ ماتحت الاسباب میں مُستغاثِ حقیقی اللہ تعالی ہے اور ��خلوق سے اِستعانت فقط ظاہری اور مجازی معنی میں ہے، حقیقی معنی میں نہیں ، ۔۔۔ تو اِس صورت میں ایک سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں غیر سے مدد چاہنا اِستغاثہ مجازی ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو مافوق الاسباب میں مجاز ہونے کے باوجود کیسے حرام ہوگیا ؟ جبکہ وہاں بھی اِستغاثہ حقیقی کی بجائے اِستغاثہ مجازی ہی تھا ۔
مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا جواز
مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میںاِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے ، جن میں سے اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مجاز کا اِستعمال جس کثرت کے ساتھ ہوا ہے اُس میں سے چند مقامات کا ہم یہاں ذِکر کریں گے تاکہ قارئین کے اذہان و قلوب میں یہ تصوّر اچھی طرح سے راسخ ہو جائے کہ حقیقت و مجاز کی تقسیم سے اِنکار کی صورت میں کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔
جبرئیل علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟
حضرت جبرئیل علیہ السلام جب ﷲ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس اِنسانی رُوپ میں آئے تو اُن سے کہا : اِنَّمَا أنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّاo
ترجمہ : (جبرئیل نے) کہا میں تو فقط تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔ (سورہ مريم، 19 : 19)
مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل امین علیہ السلام کا قول اُمورِ مافوق الاسباب میں سے ہے کیونکہ شادی اور اِزدواجی زندگی کے بغیر بیٹے کا ہونا اور اس پر یہ کہنا کہ : ’’میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں‘‘ مافوق الاسباب اُمور میں مدد کی بہت بڑی قرآنی مثال ہے اور اسبابِ عادیہ کے بغیر اِس دنیا میں اِس کا تصوّر بھی محال ہے ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض توسل کی نیت سے ﷲ ربّ العزّت کے کسی برگزیدہ بندے کے وسیلے سے اولاد طلب کرے تو کچھ نادان دوست فی الفور شِرک کا فتویٰ لگا دینے سے نہیں چوکتے جبکہ کوئی غیرخدا ۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام۔۔۔ کہے کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اور ﷲ تعالیٰ خود اُس کا ذِکر قرآنِ مجید میں کرے تو کیا یہ اُسی طرح شِرک نہیں ہوگا؟ مانگنے کی صورت میں تو مانگنے والا پھر بھی اِنسان ہی رہتا ہے مگر یہ کہنا کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اِس جملے کو اگر مجازی معنی پر محمول نہ کیا جائے تو حقیقی معنوں میں تو یہ سراسر خدا بننے کے مترادف ہے۔ اولاد سے نوازنا فعلِ اِلٰہی ہے اور بندے کا کام اُس سے اُس کی عطا کی بھیک مانگنا ہے ۔ بندے کا غیرﷲ سے مانگنا اگر شِرک ہے تو پھر کسی دینے والے غیرِخدا کا قول یہ کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ تو بدرجۂ اولیٰ شِرک قرار دیا جانا چاہئیے۔ اِس مقام پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام تو ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ کہہ کر بھی (معاذ ﷲ) مشرک نہ ہوئے بلکہ اُن کا قول، قولِ حق رہا تو اُن کے اس قول کی آخر کیا توجیہہ ہوگی ؟
جواب : یہ قول تو اگرچہ روح الامین کا ہے کہ میں بیٹا دیتا ہوں مگر اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ بیٹا جو اللہ تبارک و تعالی عطا فرمانے والا ہے ’’میں‘‘ اُس کا سبب، وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہوں ۔ پس مذکورہ آیتِ کریمہ میں ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ میں مدد دینے کا عمل پایا گیا مگر اس سے مُراد محض توسل ہے اور ان کا بیٹا دینے کا قول مجازِ قرآنی کی ایک عمدہ مثال ہے ۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی اُمت کے سامنے اِعلائے کلمۂ حق کیا اور اُنہیں شِرک سے باز آنے اور ﷲ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی طرف بلانا چاہا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو مختلف معجزات دِکھائے ۔ قرآنِ مجید میں آپ کی اس دعوت کا ذکر یوں آیا ہے : أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔
ترجمہ : بے شک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بے شک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 49)
اس آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ اقدس سے کل پانچ معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے : ⬇
1۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اُسے زِندہ کرنا
2۔ مادر زاد اَندھے کا علاج
3۔ سفید داغ (برص) کا علاج
4۔ اِحیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا)
5۔ غیب کی خبریں سرِعام بتانا
یہ پانچ معجزات اللہ ربّ العزّت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے اور آپ علیہ السلام علی الاعلان ان کا اِظہار بھی فرمایا کرتے تھے ، جس کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے ۔ یہاں فقط اِتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اِس آیتِ کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ’’أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم‘‘ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی مورت بناتا ہوں ’’أَجْعَلُ‘‘ کی بجائے ’’أَخْلُقُ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں ساری بحث ہی حقیقت و مجاز کی ہے ۔
حقیقی کارساز اللہ ربّ العزت ہی ہے
مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ میں بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مستعانِ حقیقی نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے ۔ البتہ ان الفاظ کا اِستعمال فقط مجازا ہوا ہے اور ساری بحث الفاظ پر ہے، لہٰذا اُصول اور ضابطہ یہ ہوا کہ ایسے الفاظ کا اِستعمال مجازا جائز ہے ۔ مذکورہ آیت میں تمام صیغے کلام کرنے والے کے ہیں مگر اِس کام کا حقیقت میں کارساز اللہ ہے گویا حقیقت باذن اللہ ہے ۔ کلمات میں حقیقت و مجاز کی قرآنِ کریم کے حوالے سے یہ بہترین مثال ہے ۔
کیا یہ معجزہ نہیں ؟
اِس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا ماجرا تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اِستغاثہ کی بحث میں معجزے کا کیا کام کیونکہ اُس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’معجزہ تو مریضوں کا شفایاب ہوجانا ہے نہ کہ اُن کا اپنی طرف شفا دینے کی نسبت کرنا‘‘۔ اصل بات یہی ہے کہ اُن کا اپنی طرف ان مافوق الفطرت اَعمال کی نسبت کرنا مجاز ہے اور شِفا اور بیماری درحقیقت ﷲ ربّ العزّت کی طرف سے ہے۔ جب یہ بات اٹل ہے کہ مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو شفاء دینے والا اللہ تبارک و تعالی ہی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ ’’میں شفا دیتا ہوں‘‘؟ چاہیئے تو یوں تھا کہ اِرشاد فرماتے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پھیرنے سے مادرزاد اَندھے کو بینائی دیتا ہے اور کوڑھی کو شفا عطا فرماتا ہے، معجزے کی شانِ اعجازی میں تب بھی کوئی فرق نہ آتا مگر اُنہوں نے مجازاً اِن اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کی۔
چوتھا قول اُنہوں نے فرمایا : وَ أُحْیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ ﷲِ ’’ اور میں مُردوں کو ﷲ کے اِذن سے زندہ کرتا ہوں‘‘۔ یہاں تو اِنتہاء ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں فرمایا کہ تم مُردہ لے آؤ، میں اللہ سے اِلتجاء کروں گا ، اللہ میری دُعا سے زندہ کردے گا، بلکہ یوں اِرشاد فرمایا : ’’میں مُردوں کو اللہ کے اِذن سے زِندہ کرتا ہوں‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ان صیغوں اور کلمات کا اِستعمال اور اُن کی کسی فردِ بشر کی طرف نسبت مجازی طور پر جائز ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف اِن اَعمال و اَفعال کی نسبت کرنا نسبتِ مجازی ہونے کی بناء پر درست ہے اور اِسی آیت کے دُوسرے حصے میں آپ نے بِإِذْنِ ﷲ کے اَلفاظ کے ذریعے حقیقی کارساز اللہ ربّ العزّت ہی کو قرار دیا ۔
پانچویں بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمائی : وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ’’اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو‘‘۔ اس میں کوئی ذِکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے سے ایسا کرتا ہوں، بلکہ فرمایا : أُنَبِّئُكُم میں تمہیں خبر دیتا ہوں ۔ اِن الفاظ میں صراحت کے ساتھ علمِ غیب کا پہلو پایا گیا کیونکہ اِس بات کا علم کہ کسی نے کون سی چیز کھائی ہے علمِ غیب ہے جو باری تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یوں نہیں فرمایا کہ خداوندِ قدّوس مجھے آگاہ فرماتا ہے۔ اگرچہ واقعتا حقیقت یہی ہے کہ ﷲ ہی آگاہ کرتا ہے مگر اُنہوں نے اِس بات کا اپنے اَلفاظ میں اِظہار نہیں فرمایا اور مجازی طور پر اِس غیب کی نسبت اپنی طرف کی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ غیرﷲ کی طرف علمِ غیب کی نسبت مجازی طور پر جائز ہے ورنہ رسولِ خدا سے یہ فعل ہرگز سرزد نہ ہوتا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوی نبوت کے سلسلے میں جو اِعلانات فرمائے آج کے نام نہاد مؤحّدین کے مؤقف کی روشنی میں وہ سب کے سب شِرک کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ اِس طرح کے طرزِ فکر سے تو اَنبیائے کرام علیہم السّلام جو خالصتاً توحید ہی کا پیغامِ سرمدی لے کر انسانیت کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں، اُن کی قبائے عصمتِ نبوّت بھی تار تار ہوئے بغیر نہیں رہتی اور وہ بھی شِرک کے فتویٰ سے نہیں بچ سکتے ۔
ﷲ تعالیٰ پر شِرک کا فتویٰ ؟
سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ مذکور ہیں کہ میں اللہ کے اِذن سے مُردے زِندہ کرتا ہوں، مٹی سے پرندوں کی مُورتیں بنا کر اُن میں جان ڈالتا ہوں وغیرہ، مگر مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں تو خود اللہ تعالیٰ بھی اُن کے اِس فعل کی تصدیق فرما رہا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَإِذْ تَخْلُق�� مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي ۔
ترجمہ : اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے ۔ (سورہ المائده، 5 : 110)
اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے عیسیٰ علیک السلام میں نے تیرے لئے مٹی کے پرندے بنائے اور زِندہ کر دیئے، تیرے لئے مادر زاد اَندھوں کو بینائی دی اور برص زدہ لوگوں کو شفا دی۔ با وجود یہ کہ اللہ تعالی توحیدِ خالص کے حامل سادہ لوح مؤحّدین کی حسبِ خواہش حقیقت پر مبنی اِس اُسلوب کو اپنا بھی سکتا تھا، مگر اِس کے باوجود اُس خالق و مالک نے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۔
ترجمہ : پھر تم اس میں سے پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی ۔ (المائده، 5 : 110) ۔
رُوح پھونکنا دَرحقیقت فعلِ اِلٰہی ہے : یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی میں رُوح پھونکنا اور جان ڈالنا خالقِ کائنات ہی کا کام ہے۔ مگر اُس نے خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ’’پھر تو اُس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتی‘‘ وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ’’اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے‘‘ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي ’’اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو ( زِندہ کرکے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے‘‘۔ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے کلمات کا غیرﷲ پر اِطلاق مجازاً جائز ہے۔ اِن کلمات کو خود اللہ ربّ العزّت نے اِستعمال فرمایا اور انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی اِستعمال کیا حالانکہ ایسے کلمات کی ادائیگی فرمانا اُن کی مجبوری نہ تھی ۔ ﷲ ربّ العزّت کا اپنے کلامِ مجید میں اِن اَلفاظ کو مجازی معنی میں اِستعمال کرنا نہ صرف مجازی معنی کے جواز کا سب سے بڑا ثبوت ہے بلکہ اس کے سنتِ اِلٰہیہ ہونے پر بھی دالّ ہے ۔ اِس ساری بحث سے ظاہری اور باطنی اَسباب کےلیے ایک خاص ضابطہ بھی میسر آتا ہے کہ تمام مافوق الاسباب اُمور میں اَلفاظ اگرچہ براہِ راست بندے اور مخلوق کی طرف منسوب ہوں تب بھی فاعلِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو گردانا جاۓ گا کیونکہ کارسازِ حقیقی وُہی ہے ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
1 note · View note
bazmeur · 8 months
Text
تفسیر الکتاب ۔۔۔ ڈاکٹر محمد عثمان، جمع و ترتیب: اعجاز عبید
تفسیر الکتاب ڈاکٹر محمد عثمان جمع و ترتیب: اعجاز عبید حصہ اول ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائلورڈ فائلٹیکسٹ فائلای پب فائلکنڈل فائل کتاب کا اقتباس پڑھیں ….. تفسیر الکتاب حصہ اوّل ڈاکٹر محمد عثمان جمع و ترتیب: اعجاز عبید سورۃ ۱: فاتحہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قرآن مجید کا یہ فقرہ بطور ایک آیت کے ہر سورت کی ابتدا میں دہرایا گیا ہے اور سورة النمل کے اندر عبارت میں بھی بطور آیت قرآنی آیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
prozhepro · 11 months
Text
خرید کتاب تفسیر موضوعی قرآن کریم علی نصیری
0 notes
Text
Urwatul-Wusqaa - 3 : 47
دین اسلام #تفسیر قرآن #تعلیم #اصل برحق علم
0 notes
jidariaat · 11 months
Text
کیا قرآن کریم کی تفسیر و تشریح پر علماء کی اجارہ داری ہے؟
کیا قرآن کریم کی تفسیر و تشریح پر علماء کی اجارہ داری ہے؟ مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ العالی بعض لوگ یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ قرآن کریم تمام انسانوں کے لئے ہدایت کی کتاب ہے، لہذا ہر شخص کو اس سے اپنی سمجھ کے موافق فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے اور اس کی تشریح و تفسیر پر صرف علماء کی اجارہ داری قائم نہیں کی جاسکتی۔ یہ انتہائی سطحی اعتراض ہے جسے حقیقت پسندی اور معاملہ فہمی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس…
View On WordPress
1 note · View note
nooriblogger · 11 months
Text
تربیتی وظیفے کی افادیت
Time to read: 11 minutes 28 شوال المکرم، 1444 ہجری(مطابق 18 مئی، 2023 عیسوی، بروز جمعرات) مختصر تعارف عملی زندگی میں افادیت دیے جانے والے تربیتی وظائف کا اثر رات کو باوضو سونا سوتے وقت چادر اوڑھ کر سونا ہاتھوں اور منہ سے برکت قرآن حاصل کرنا سلام کے پورے الفاظ کہنا بزرگوں کے ساتھ وقت گزارنابڑوں کے سامنے موبائل سے پرہیز کرنا سویرا کی تین پوسٹیں کرنا/ تفسیر یعقوب چرخی پڑھناکم از کم پندرہ منٹ…
View On WordPress
0 notes